ہفتہ، 14 جون، 2025

عید غدیر 'یوم تکمیل دین

 


10 ہجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجة الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کے اعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر رابغ نامی سرزمین پر پہونچا تو غدیر خم کے  مقام  پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیااے رسول! اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئ ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟


لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ (ع) نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے۔غدیر خم میں پیغمبر کا خطبہ :حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ۔ہم اسی پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور برے کاموں سے بچنے کے لئے اس ا للہ کی پناہ چاہتے ہیں ، جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے۔ اور جس نے بھی گمراہی کی طرف راہنمائ کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے، جب میں دعوت حق پر لبیک کہتا ہوا تمھارے درمیان سے چلا جاؤں گا !تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔


 اس کے بعد آپنے فرمایا کہ میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تمھارے بارے میں اپنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت زحمتیں اٹھائیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پوراکیا ؛اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بند اور رسول ہے؟اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد، میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟


 اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ہے اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔ ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا اور ان دونوں کے حکم کی تعمیل میں بھی کوتاہی ناکرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوںکی بغلوں کی سفیدی، سب کو نظر آنے لگی پھر علی (ع) سے سب لوگوں سے متعرف کرایا ۔ اس کے بعد فرمایا: ” کون ہے جومومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق تصرف ر کھتا ہے ؟ “ سب نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔پپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :”اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔


 اے لوگو!” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ”اے اللہ تو اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی مڑیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب حضرت عمر بن خطاب (رض )نے حضرت علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور مبارکبادی کایہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا . حضرت عمر( رض )وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے امام کو ان الفاظ کے ساتھ مبارکباد دی  -  اے علی بن ابی طالب آپ کو مبارک ہو کہ صبح وشام میرے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہوگئے

 

جمعہ، 13 جون، 2025

ایک معصوم ٹک ٹاکر لڑ کی کی موت

 

ٹک ٹاک کلچر اور معاشرتی انحطاط:پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’ٹک ٹاک کلچر‘‘ ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ٹک ٹاک پر آئے دن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حادثاتی موت کے واقعات کی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی رہتی ہیں جس میں ویڈیو بناتے وقت پہاڑوں سے پاؤں پھسلنا، رائفل یا پستول کی اچانک گولی چل جانا،ویڈیو بنانے کے شوق میں کوئی اپنی ہی رائفل کا شکار ہوا،سمندر یا دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانا،ریل کی پٹری پر ویڈیو بنانا اوریوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور خودساختہ انفلوئنسرز کی نئی نسل ابھر رہی ہے جو نہ صرف مسلم معاشرت بلکہ عمومی انسانی اقدار   کی  پامالی کا سبب بھی بن رہی          ہے۔ معاشرہ ان مشینی ایجادات کے درمیان اپنی بنیادی انسانی حسیات کھو چکا ہے۔ چند برس میں ٹک          ٹاک ایسا ’ورچوئل اسٹیج‘ بن چکا ہے جہاں شہرت کا حصول آسان ترین ہوگیا ہے۔ اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں   اسی جھوٹی دنیا کےاسیر  بن چکے ہیں  جہاں اخلاقیات، روایات، اور معاشرتی اقدار ہوتی ہی نہیں۔ جو والدین بچوں کی سرگرمیوں سے بے خبر ہیں اُن کے بچے ’فالورز‘ پانے کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کوئی رقص کے ذریعے، کوئی بر ہنگی کے زریعے ،۔ کوئی ادائیں بیچ رہا ہے، توکوئی محض جنسی جذبات بھڑکاکر وائرل ہونے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ پاکستان میں عبرت انگیز کیسز کی بھرمار ہے، مگر یہ سب مثالیں سگریٹ نوشی کی عبرت کی مانند بنتی جا رہی ہیں، جس کا نقصان سب اجتماعی طور پر اٹھائیں گے۔


ٹک ٹاک کو دور حاضر کا خطرناک دجالی    فتنہ کہا جا سکتا ہے ۔یہ بات ایک کڑوی سچائی ہے کہ موجودہ دور میں کچھ لڑکیاں شہرت کی چمک دمک کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنی عزت، وقار اور دینی حدود کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا خصوصاً ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر نام کمانے کی خواہش انہیں ایسے راستوں پر لے جاتی ہے جہاں عزت، حیا اور حفاظت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ کوئین دارو جیسی   شادی شدہ لڑکی کی بھی نمایاں مثال ہے  جو نا گھر کی رہی  نا گھاٹ کی ۔  یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورت کوعزت، حیا اور تحفظ کی چادر میں لپٹا ہوا ایک عظیم مقام،عطا فرمایا ہے- جب کوئی لڑکی ان حدود کو توڑ کر بے راہ روی اختیار کرتی ہے ، تو وہ نہ صرف اپنے لیے خطرات کو دعوت دیتی ہے بلکہ معاشرے میں فساد اور بے حیائی کے دروازے بھی کھولتی ہے ۔ پھر انجام اکثر افسوسناک اور عبرتناک ہوتا ہے ، چاہے وہ قتل ہو، بدنامی ہو  ایسے لاکھوں نوجوانوں میں ثنا یوسف بھی ایک تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ثنا کی ویڈیوز بے لباسی، عریانی و فحاشی پر مشتمل نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ بے حیائی صرف ننگ پن یا جسمانی نمائش نہیں ہوتی۔ ثنا کی وڈیوز میں جو کچھ تھا وہ  نوجوانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے کافی تھا ، ۔ 


اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے مرنے کے بعد 50 لاکھ لوگوں نے اس کا اکائونٹ دیکھا۔ انسان کو مرنے کے بعد جن چیزوں کا اجر اور گناہ ملتا ہے ان میں اگر آپ نے نیکی کی طرف دعوت دی اور کسی نے قبول کی تو وہ آپ کے لیے باعثِ ایصالِ ثواب ہے، لیکن اگر برائی عام کی تو وہ قبر میں آپ کے لیے باعثِ عذاب اور دکھ ہے۔ اس کے طرزِ زندگی، لباس،گفتگو، حرکتوں اور ماحول کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی طور پشتون روایت کی حامل نہیں تھی۔ نومبر 2023ء سے اُس نے ٹک ٹاک پر وڈیوز ڈالیں اور تادم تحریر یعنی محض 18 ماہ میں وہ 13 لاکھ فالوورز کرچکی تھی۔ثنا یوسف کو اُنہی 13لاکھ فالوورز میں سے ایک ’عاشق‘ نے قتل کردیا۔ سترہ برس کی وہ دوشیزہ جس کے حسن نے ہزاروں دل جیتے، مگر کسی ایک دل کو قبول نہ کیا۔ وہ سوشل میڈیا کی شہزادی تھی۔ہر دن اپنی تصویر، اپنی مسکراہٹ، اور اپنے نخرے بکھیرتی تھی اور کہتی تھی: ’’شادی کرنی ہو تو پٹھانی سے کرو، ورنہ چترالی سے‘‘… کیونکہ وہ خود چترالی پٹھان تھی۔


 ثنا کو اپنے ٹک ٹاک کے لاکھوں فالوورز پر بڑا ناز تھا، کروڑوں ویوز پر بڑا غرور تھا۔ وہ اب معروف ٹک ٹاکر بن چکی تھی۔ اس کو لوگ اپنے پاس بلاتے، تحائف دیتے، مفت سہولیات دیتے، اور بدلے میں وہ دو جملے بول دیتی اور خوب شہرت و مال کماتی۔ یہ سب کچھ اُس کے فالوورز کی وجہ سے تھا۔ عمر بھی لاکھوں فالوورز کے ہجوم میں سے ایک تھا۔ وہ بھی ثنا کے نشر کردہ مواد کا شکار ہوگیا تھا۔ بقول آئی جی اسلام آباد: وہ لڑکی کی قربت، دوستی وغیرہ کے لیے دیوانہ ہوگیا۔ اُس نے بارہا کوشش کی، پیغام دیا، مگر لڑکی نے کبھی نظرِ کرم نہ ڈالی۔ اس کو اپنی ایسی آزادی پر فخر تھا۔ وہ ایک وڈیو میں کہتی ہے کہ ’’میں ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی‘‘۔ عمر کا معاملہ تاحال ہم آئی جی کے بیان کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کے مطابق وہ دوبارہ اُس سے ملنے، التجا لے کر گیا تھا، اس دوران ثنا کے گھر ہی نہیں اس کے کمرے میں اس کی کیا بات ہوئی، یہ سب نامعلوم ہے۔ بہرحال عمر نے دو گولیاں لڑکی کو مار دیں۔ اس کی مبینہ محبت… لہو میں نہا گئی۔ قاتل کا بیان میڈیا سے مستقل غائب ہے؟



  بظاہر دیکھیں تو وہ صرف ایک ’ناکام عاشق‘ ہے،جس کا دل ٹوٹا اور جذبات میں وہ انتہائی قدم اٹھا بیٹھا۔قاتل گرفتار ہوگیا مگر اس کیس نے دوبارہ کئی سوالات اٹھا دیے۔ایک 17 سالہ لڑکی کو اُس کے والدین نے اتنا آزاد کیسے چھوڑا ہوا تھا؟جب زندہ تھی توکئی شہر پھلانگ کر عاشق پہنچ جاتے، مگر مرنے کے بعد 13 لاکھ فالوورز رکھنے والی کے جنازے میں 13سو لوگ بھی کیوں نہ تھے؟آئی جی اسلام آباد نے صرف یہی بات دہرائی کہ لڑکا بار بار کے انکار پر مشتعل ہوا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں بتارہے کہ ایسا شخص جس سے لڑکی بالکل ملنا نہیں چاہتی تھی، وہ اُس کے گھر میں داخل کیسے ہوگیا؟ثنا نہ اس سے ملنا چاہتی تھی، نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتی تھی۔ پھر وہ لڑکا گھر کے اندر ہی نہیں بلکہ سیدھا اس کے کمرے میں کیسے پہنچ گیا؟لڑکا اس حد تک قریب پہنچا ہوا تھا کہ لڑکی کا فون بھی لے کر بھاگ گیا۔ جب لڑکی ملنا نہیں چاہتی تھی تو اس کے فون میں ایسا کیا تھا؟گھر میں ماں، بھائی سب موجود تھے، کسی نے اس اجنبی کو کیوں نہ روکا؟سوشل میڈیا پر اس واقعے کو عبرت انگیز قرار دیا گیا۔ ملزم کے گھر والے تالا لگا کر غائب ہوچکے ہیں 


بدھ، 11 جون، 2025

خوبصورت نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )پارت 1




 خوبصورت  اور لہلہاتے  قدرتی نظاروں  سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اگر آپ سورج غروب ہونے کے بعد اتریں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ایک برقی روشنی میں نہائے ہوئے شہر میں اتر رہے ہیں - بحرِہند پر واقع قدرتی خوبصورتی سے مالامال جزیرہ ماریشس ہند وستان  کے باشندوں  کا بسایا  ہوا ایک   بے مثال ملک  ہے -اس ملک میں  مشرقی اور مغربی معاشرے کا عمومی عکس پایا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی غالب آبادی انڈیا سے تعلق رکھتی ہے، ماریشس (موریطانیہ) بحر ہند کے انتہائی جنوب میں سیر و سیاحت کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے۔اس کی ملکیت  مختلف جزیرے ہیں جو  نباتات اور سبزہ  سے مالامال ہیں ۔ پورے ملک میں گنے کی فصل کے علاوہ آم اور پپیتے کے درخت کثرت سے ہیں ۔ماہرینِ زراعت کے مطابق ماریشس کی زمین بہت زرخیز ہے۔ماریشس کے جزائر قیمتی پودوں اور جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ میں سامنے آیا کہ یہاں کئی پودے ایسے ہیں جو کینسر کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ طبی ماہرین پر مشتمل ٹیموں نے یہاں پائی جانے والی نباتات پر تحقیق شروع کردی ہے۔


 لیچی اور ناریل کے پھل یہاں بہت مرغوب ہیں۔ناری کے درخت بہتات میں ہیں اس لئے ناریل کا پانی بہت پیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں گنے کی بھر پور فصل نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ آپ کواکثر گھروں میں ناریل، لیچی، آم اور پپیتا کا درخت نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر آم کے پیڑ اور پپیتے کے درخت بہتات میں نظر آئیں گے۔ پھلوں کا بادشاہ کہلانے والا پھل آم ماریشس میں بے قدری کا شکار ہے۔ یہ یہاں زیادہ نہیں کھایا جاتا بلکہ سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائروں تلے بے دردی سے کچلا جاتا ہے۔ اور تقریباً یہی حال پپیتے کا ہے۔ یہ بھی مرغوب پھل نہیں۔ماریشس کی زمین اس قدر زرخیز ہے کہ آپ یہاں فصل کاشت کر سکتے ہیں سوائے دھان کے ۔ عجیب بات ہے کہ چاول جو یہاں کے باشندوں کی بنیادی غذا ہے تمام باہر کے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں نے اب سبزی ترکاری بھی اگانی شروع کر دی ہے۔ پیاز، آلو، ٹماٹر، چقندر، گوبھی، کریلا، بھنڈی، کدو، کھیرے، پالک، بینگن، اروی اور بہت سی ایسی سبزیاں مقامی طور پر اگائی جا رہی ہیں۔ لیکن بہت سی زمین قابل کاشت پڑی ہے۔ پہاڑوں میں آپ کو بندراور ہرن بھی نظر آئیں گے۔ ماریشس کے بڑے شہر قابل دید شہر ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے طول عرض میں پھیلے ہوئے چھوٹے چھوٹے گاؤں ، قصبے اوربیچز قابل دید نظارے پیش کرتی ہیں، جہاں سفر کرتے ہوئے آپ خود کو بہت ہی ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور قدرت کی اس صناعی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہ سب نظارے ایسے ہیں کہ بار بار دیکھنے پر بھی آپ کا جی نہیں بھرتا۔سائنس دانوں نے حیرت انگیز انکشاف یہ کیا ہے کہ ان جزائر پر بعض ایسے پودے پائے جاتے ہیں جو کسی اور خطہ زمین پر موجود نہیں۔


ان میں تین نباتات کو ایسالائفا انٹیگریفولیا، یوجینیا ٹینی فولیا، اور لیبروڈونیسیا گلوکا کہا جاتا ہے جو صرف اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ طبی تحقیق  کے مطابق  یہاں کی کچھ مخصوص  نباتات میں سرطان کی رسولیا ں  ختم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ماریشس کے نباتاتی خزانے کے ایک تہائی پودے برسوں سے مختلف  امراض کے علاج میں استعمال ہورہے ہیں، لیکن ان پر باقاعدہ سائنسی تحقیق نہیں کی گئی تھی۔ جمہوریہ ماریشس کا قومی پرچم چار رنگوں پر مشتمل ہے جو وہاں کے معاشرے کی کثیرالجہتی رواداری اورسماجی ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے، ماریشس کہنے کو تو ایک افریقی ملک ہے لیکن اسے آباد ایشیائی باشندوں بالخصوص برطانوی ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں نے کیا ہے اور آبادی کے تناسب سے ہندودھرم کے ماننے والے اکثریت میں ہیں جو پچاس فیصد سے اوپر ہیں  جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں مسلمان، عیسائی، بودھ اور دیگر شامل ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی کسی قسم کی مذہبی کشیدگی کی خبر ماریشس سے آئی ہو، اسکی بنیادی وجہ افریقہ کے خوشحال ترین ملک سمجھے جانے والے ماریشس کے معاشرے میں صبر و تحمل، برداشت جیسے وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جو کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کیلئے ضروری ہوا کرتے ہیں،


 فی الوقت ماریشس کی صدر کا عہدہ بی بی امینہ فردوس کے پاس ہے جبکہ وزیراعظم پروند جوگناتھ ہیں، اپوزیشن لیڈر پال ریمنڈ برنگر وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جو عیسائی اقلیت ہوتے ہوئے بھی ماضی میں وزیراعظم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے۔ بی بی امینہ ایک نامور سائنسدان ہیں ، جہاں وہ ایک طرف ماریشس کی پہلی خاتون صدر ہیں وہیں انہوں نے سائنس کے میدان میںعالمی اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔مجھے بی بی امینہ سے تبادلہ خیال کا موقع ملا تو میں نے انہیں عجز و انکساری اور خدمتِ خلق کے جذبے سے بھرپور پایا، خاتون صدر پاکستان سے حکومتی اور عوامی سطح پر دوطرفہ تعلقات کے فروغ میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں۔جمہوریہ ماریشس آئینی طور پر تمام شہریوں کو یکساں مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے اور مذہبی تفریق کی سختی سے ممانعت ہے، دیوالی، عید، کرسمس اوردیگر مذہبی تہواروں کے موقع پرسرکاری تعطیلات ہوتی ہیں اور تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی خوشیوں میں بھرپور انداز میں شریک ہوتے ہیں۔ جزیرے بھر میں قائم مندر، مسجد، گرجا گھروںاور دیگر مذہبی عبادتگاہوں کی موجودگی ریاست کی مذہبی ہم آہنگی پر مبنی امن دوست پالیسی کی نشاندہی کرتی ہے، ماریشس کی پہلی مسجد مسجدالاقصیٰ انیسویں صدی کے اوائل میں تعمیر کی گئی،


 برصغیر کے ایک صوفی جمال شاہ کے سنگِ مرمر سے تعمیر شدہ مقبرے سے ملحقہ جمعہ مسجد کو خوبصورت ترین مذہبی مقام کا اعزاز حاصل ہے۔ ماریشس کے خوبصورت پہاڑوں میں واقع گنگا تلاؤ جھیل ہندوؤں کا مقدس ترین مقام ہے جہاں روزانہ ہزاروں یاتری حاضری دیتے ہیں، دریائے گنگا سے منسوب مقدس جھیل کے کنارے ساگر شِو مندر، ہنومان مندر، گنیش مندر اور گنگا دیوی مندر بھی قائم ہیں، مہاشِویاتری کے موقع پر ہندو زائرین اپنے گھروں سے گنگا تلاؤ تک کا سفر ننگے پاؤں طے کرتے ہیں۔ مختلف اقوا م کے ماریشس پر اثرات کا تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو اس خوبصورت ترین افریقی جزیرے کو 9ویں صدی عیسوی میں جب عرب تاجروں نے دریافت کیا تو یہاں ہر طرف گھنے جنگلات اور جنگلی حیات کے علاوہ کوئی انسانی آبادی نہ تھی، سولہویں صدی میں پرتگالی جہاز رانوں نے بھی یہاں قدم رکھے لیکن سب سے پہلے یہاں آباد ہونے والے ڈچ تھے جنہوں نے سولہویں صدی کے اختتام پر قبضہ کرکے جنوب مشرقی حصے میں ایک بستی بسائی، جہاں یہ کالونی آباد ہوئی اسے گرینڈ پورٹ کا نام دیا جاتا ہے،تقریباََ دس سال گزارنے کے بعد ڈچ باشندے اپنے غلاموں کو جزیرے پر چھوڑکرواپس چلے گئے جس کے بعد فرانس نے قبضہ کرکے جزیرے کا نام آئی لینڈ ایلی ڈی فرانس رکھ دیا ،

منگل، 10 جون، 2025

عشق کے مراتب 'مزار مقدس کا مکین ایک البانوی مسلمان

 

یا رسول اللّٰہ ﷺ

آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے 😢😢

ایک تُرک مُسلمان مسجد نبوی شریف کے احاطے میں کھڑے ہوکر اپنا آنکھوں دیکھا واقعه بیان کرتا:

میں وہاں کھڑا دیکھ رہا تھا که چار پولیس والے کِسی کا انتظار کر رہے ہیں،

پِھر ایک شخص نمودار ہُوا تو پولیس والوں نے بھاگ کر اُسے قابو کر لیا،

اور اُسکے ہاتھ جکڑ لئے۔

نوجوان نے کہا:

مُجھے دعا اور توسل کی اجازت دے دو ۔۔۔ میری بات سن لو ۔۔ میں کوئی بِھکاری نہیں ہُوں، نه چور ہُوں،

پِھر وہ جوان چیخنے لگا،

میں نے اُسے دیکھا تو ایسے لگا جیسے میں اُسے جانتا ہُوں،

میں بتاتا ہُوں که میں نے اُسے کیسے پہچانا:

دَراصل میں نے اُسے کتنی ہی دفعه بارگاہ رسالت میں روتے ہوئے دیکھا تھا 

یه ایک البانوی نوجوان تھا،

جِس کی عُمر 35 یا 36 سال کے درمیان تھی ۔۔ اس کے سنہری بال اور ہلکی سی داڑھی تھی۔

میں نے پولیس والوں سے کہا:

جب اِسکا کوئی جُرم نہیں ہے تو تم اِس کے سَاتھ ایسا کیوں کر رہے ہو،

آخر کیا الزام ہے اِس پر؟

اُنہوں نے مُجھے کہا:

ارے او تُرک،

تُو پِیچھے ہٹ اِس معاملے میں بولنے کا تُجھے کوئی حق نہیں ۔

لیکن میں نے پِھر سے کہا:

آخر اس کا تُمہارے ساتھ کیا مسئله ہے؟ کیا اِس نے کوئی چوری کی ہے؟

اُنہوں نے کہا:

نہیں، یه بندہ 6 سال سے اِدھر مدینے شریف میں رہ رہا ہے، لیکن اس کا یه قیام غیر قانونی ہے؛ ہم اِسے پکڑ کر واپس اِس کے ملک بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن یه ہر دفعه ہمیں چکمه دے کر بھاگ جاتا ہے،

اور جا کر روضهٔ رسولﷺ میں پناہ لے لیتا ہے، اور ہم اِسے اندر جا کر گرفتار نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

میں نے پُوچھا:

تو اب اِس کیساتھ کیا کرو گے؟

کہنے لگے: ہم اسے پکڑ کر جہاز پر بٹھائیں گے اور واپس البانیا بھیج دیں گے.

نوجوان مُسلسل روئے جا رہا تھا،

اور کہه رہا تھا:

کیا ہو جائے گا اگر تم مُجھے چھوڑ دو گے تو؟

دیکھو، میں کوئی چور نہیں ہوں ۔۔۔۔۔

میں کِسی سے بِھیک نہیں مانگتا ۔۔۔۔۔

میں تو اِدھر بس مُحبتِ رسول میں رہ رہا ہوں،

پولیس والوں نے کہا:

نہیں، ایسا جائز نہیں ہے،

نوجوان نے کہا:

اچھا مُجھے ذرا آرام سے رسول اللّٰہ ﷺ سے ایک عرض کر لینے دو،

پِھر نوجوان نے اپنا منه گُنبدِخضراء کی طرف کر لیا،

پولیس والوں نے کہا:

چل کہه، جو کہنا ہے،

تو نوجوان نے گُنبد خضراء کیطرف دیکھا اور جو کُچھ عربی میں کہا، میں نے سمجھ لیا،

وہ نوجوان كہه رہا تھا:

یا رسول اللّٰہﷺ،

کیا ہمارے دَرمیان اِتفاق نہیں ہوا تھا؟

کیا میں نے اپنے ماں باپ کو نہیں چھوڑا؟

کیا اپنی دُکان بند کر کے اپنا گھر بار نہیں چھوڑا؟

اور یه عہد کر کے یہاں نہیں آیا تھا که آپ کے جوارِ رحمت میں رہا کروں گا ؟

حضورﷺ! اب دیکھ لیجیئے،

یه مُجھے ایسا کرنے سے منع کر رہے ہیں.

یا رسول اللّٰہﷺ، یا رسول اللّٰہﷺ،

آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے؟

یارسول اللّٰہ ﷺ، آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے۔؟،

اِتنے میں نوجوان بے حال ہونے لگا،

تو پولیس والوں نے ذرا ڈِھیل دی اور نوجوان نیچے گِر گیا،

ایک پولیس والے نے اسے ٹُھڈا مارتے ہوئے کہا:

او دھوکے باز اُٹھ،

لیکن نوجوان نے کوئی رَدِ عَمل ظاہر نا کیا۔

میں نے پولیس والوں سے کہا:

یه نہیں بھاگے گا، تم حمامات سے پانی لاؤ،

اور اس کے چہرے پر ڈالو،

لیکن نوجوان کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا،

ایک پولیس والے نے کہا:

اِسے دیکھو تو سہی،

کہیں یه سچ مچ مر ہی نا گیا ہو ۔

دوسرا پولیس والا‌کہنے لگا:

اِسے ہم نے کون سی ایسی ضرب لگائی ہے، جِس سے یه مر جائے،

پِھر اُنہوں نے ایمبولینس والوں کو فون کیا،

وہ اُدھر سامنے والے سات نمبر گیٹ سے ایک ایمبولینس لے آئے.

اُنہوں نے نوجوان کی شَه رگ پر ہاتھ رکھ کر حرکت نوٹ کی اور نَبض چیک کی تو کہنے لگے:

اِسے تو مَرے ہوئے 15 منٹ گزر چکے ہیں،

اب پولیس والے جیسے مُجرم ہوں،

نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے،

وہ منظر بھی دیکھنے والا تھا،

اُن میں سے ایک تو اپنے دونوں زانوؤں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتا تھا:

ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے ۔۔۔۔۔۔۔

کاش ہمیں معلوم ہوتا که

اِسے رسول اللّٰہ ﷺ سے اتنی شدید مُحبت ہے،

ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے۔

اِسکے بعد ایمبولینس والوں نے اُسے وہاں سے اُٹھا لیا، اور جنت البقیع کی طرف تجہیز و تکفین والے حِصے میں لے گئے،

غُسل کے وقت میں بھی وہیں موجود تھا،

میں اُنہیں کہتا تھا، مُجھے بھی ہاتھ لگانے دو، مُجھے بھی اِسکی چارپائی کو اُٹھانے دو،

جب جنازہ تیار ہو کر نماز کے لئے جانے لگا تو پولیس والوں نے مُجھے کہا:

ہم نے جِتنا گناہ اٹھایا ہے،

بس اِتنا کافی ہے،

اِسے ہمارے سِوا اور کوئی نہیں اُٹھائے گا،

شاید اِسی طرح ہمیں آخرت میں کُچھ رعایت مل جائے،

میرے سامنے ہی وہ نوجوان بار بار کہه رہا تھا که

یا رسول اللّٰہ ﷺ، آپ مداخلت کیوں نہیں فرما رہے؟

دیکھا،

رسول اللّٰہ ﷺ نے مداخلت فرما دی،

اور ملک الموت نے اپنا فریضه ادا کر کے اُسے آپﷺ تک ہمیشه کيلئے پُہنچا دیا.

اللہ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی ویسی ہی مُحبت عطا فرمائے،

جیسی اُس البانوی نوجوان کو عطا فرمائی تھی.

🌿اَللهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِد

🌿اَلَّلهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد

پیر، 9 جون، 2025

بریگیڈئر امتیاز- فاعتبرو یا اولی الابصار۔۔ پارٹ-1

 

 یہ سچی کہانی  حرام کھانے اور کھلانے والو کے لئے ایک عبرتناک مثال۔وڈیو دیکھ کر  میں سوچ رہی ہوں  کہ اس بے رحم اور قاتل  شخص  کی بے شمار زمینیں اور جائدادیں کہاں گئیں جو اس نے کراچی کے مہاجر نوجوانوں کو  پکڑ' پکڑ کر  ان کے خاندانوں سے پیسہ بٹور کر بنائ تھیں ۔اس کا یک بنگلہ  بڑا بیٹا کاغذات سمیت  بیرون ملک بھاگ چکا ہے اور دوسرا بنگلہ اس نے چھوٹے بیٹے کے نام کیا تھا اس بنگلے کو بیٹا پولیس کے زریعے باپ سے  خالی کروا رہا ہے-ابھی حال کی ہی بات ہے  انٹر نیٹ پر ایک ویڈیو دیکھی  جس  میں ایک کم زور‘ نحیف بزرگ شخص  دو پولیس اہلکاروں کے سامنے کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس والوں سے الجھ رہا تھا‘ اس کے ساتھ درمیانی عمر کی ایک خاتون تھی جب کہ سامنے پچاس اکاون سال کا ایک شخص کھڑا تھا اور وہ بار بار پولیس اہلکاروں کو کہہ رہا تھا آپ اسے گرفتار کیوں نہیں کرتے‘ آپ اس کا سامان کیوں نہیں نکالتے؟



 بزرگ پولیس والوں سے تکرار کر رہا ہے اور خاتون کہہ رہی تھی آپ مجھے آرڈر دکھائیں‘اے ایس آئی انہیں یقین دلا رہا تھا میرے پاس کورٹ آرڈر ہے‘ آپ اب گھر کے اس پورشن میں نہیں رہ سکتے‘ بزرگ پولیس کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا‘ پولیس اہلکار انہیں سمجھارہے تھے بریگیڈیئر صاحب آپ ہمارے بزرگ ہیں‘ ہمارے محترم ہیں‘ آپ ہمارے ساتھ کوآپریٹ کریں‘ ہمارے پاس آرڈر ہے اور ہم نے ہر صورت اسے پورا کرنا ہے‘ یہ تکرار بڑھ جاتی ہے اور آخر میں اے ایس آئی کانسٹیبل کو کہتا ہے گاڑی منگوا ؤ اور ان تینوں کو اٹھا کر تھانے لے جا ؤ اور ویڈیو ختم ہو جاتی ہے‘ دوسری ویڈیو میں پچاس اکاون برس کا شخص پولیس والوں کو کہتا ہے آپ ان لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ پولیس اہلکار جواب دیتا ہے‘ یہ بزرگ بھی ہیں اور بیمار بھی‘ ہم انہیں کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ آپ اپنا سامان لے آئیں اور وہ شخص سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا جاتا ہے۔یہ بوڑھا اور کینسر زدہ  بیمار شخص بریگیڈیئر امتیاز احمد عرف بریگیڈیئر بلا تھا‘ 


ایک زمانہ تھا پورے ملک میں بریگیڈیئر امتیاز کا طوطی بولتا تھا‘ حکومتیں بھی تبدیل کرنا  ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اور جس کو دل چاہتا تھا اسے اٹھا کر برہنہ کر کے سزا  دیا کرتے  تھے     -انہوں نے ہی   کمیونسٹ لیڈر نذیر عباسی تک کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا ‘   پاک فوج کی انجینئرنگ کور سے  ان کو عروج ملنا شروع ہوا   قدرت نے اسے مکار نیلی آنکھیں دی تھیں لہٰذا ساتھی اسے بلا اور باگڑ بلا کہتے تھے‘ یہ انجینئرنگ کور سے انٹیلی جنس میں آیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ 1980ء کی دہائی میں یہ انٹرنل سیکورٹی کا سربراہ بن گیااور میاں نواز شریف کے ساتھ جڑ گیا اور پھر ان کی آنکھوں کا تارا بن گیا‘ 1989ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی‘ بریگیڈیئر امتیاز نے حکومت گرانے کا منصوبہ بنایا‘یہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے اور میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کر رہا تھا‘ ا نہوں نے راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے ایم این ایز توڑنے کی کوششیں شروع کر دیں‘ مسعود خان اس وقت آئی بی کے ڈی جی تھے‘ انہیں بھنک پڑ گئی اور انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کی پی پی کے دو ایم این ایز کے ساتھ آڈیوز اور ویڈیوز ریکارڈ کر لیں



‘ وزیراعظم کے ہاتھ میں ثبوت آ گیا لہٰذا اس نے آرمی چیف اسلم بیگ کو بلا کر پوچھ لیا‘ اسلم بیگ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شمس الرحمن کلو (المعروف جنرل کلو)مکر گئے اور ملبہ جنرل امتیاز پر آ گرا‘ اس نے میجر عامر کو بھی ساتھ لپیٹ لیا جب کہ میجر عامر اس سازش میں شامل نہیں تھے‘یہ اس وقت اسلام آباد کے سیکٹر کمانڈر تھے مگر ڈی جی نے انہیں اس معاملے سے الگ کر رکھا تھا‘ یہ سارا آپریشن بریگیڈیئر امتیاز ایڈیشنل ڈی جی انٹرنل ونگ کی حیثیت سے ان کے ہی زمہ تھا ‘ یہ آپریشن تاریخ میں مڈنائیٹ جیکال کے نام سے مشہور ہوا‘ بہرحال قصہ مختصر جنرل اسلم بیگ نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کا کورٹ ماشل کر کے انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا‘ میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے‘ انہوں نے بریگیڈیئر امتیاز کو برخاستگی کے باوجود پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری لگا دیا‘ یہ 1990ء میں الیکشن جیت کر پہلی بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے بریگیڈیئر بلا کو ڈی جی آئی بی بھی لگا دیا اور یہاں سے بریگیڈیئر بلا کو ایک بار پھر عروج ملا‘ یہ 1993ء تک ڈی جی آئی بی رہے-زمانے  نے اپنی آنکھوں سے ا ن کا  جاہ و جلال دیکھا ‘ بڑے بڑے نامی گرامی وزراء ا نکے دفتر کے باہر بیٹھے رہتے تھے‘اقتدار اور طکی گنگا ان کی میز کے نیچے بہتی تھی اور یہ  اپنے قریبی ساتھیوں سمیت خود بھی اس میں غسل کرتے  اور اپنے دوست احباب کو بھی اس میں گنگا اشنان کرواتے ‘


 بہرحال قصہ مزید مختصر 1994ء میں بے نظیر بھٹو دوبارہ آ گئیں اور بریگیڈیئر  امتیاز  اب قانون کے شکنجے میں آ گئے‘ 2001ء میں جنرل مشرف نے نیب بنایا‘‘ اس زمانے میں اسلام آباد میں اس کی 24 پراپرٹیز  نیب نے دریافت کیں‘ زمینیں‘ زیورات‘ بینک اکائونٹس اور بے نامی جائیدادیں ان کے علاوہ تھیں‘ نیب نے عدالت میں کرپشن ثابت کر دی اور یوں اسے 8 سال قید ہو گئی‘ یہ 2008ء میں اڈیالہ جیل سے رہا ہوااور 2010ء میں اسے ایک بار پھر چیئرمین او جی ڈی سی عدنان خواجہ کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا مگر یہ اس وقت تک کینسر کا مریض بن چکا تھا‘ اس کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی لہٰذا عدالت نے اسے رہا کر دیا اور یہ اس کے بعد گوشہ گم نامی میں چلا گیا‘  زمانہ  بھی اسے بھول گیا لیکن پھر اچانک  اس کی ویڈیو سامنے آئی اور میں قسمت کے رنگ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔بریگیڈیئر امتیاز کی تازہ ترین کہانی یہ ہے‘ یہ اپنی جس اولاد کے لیے لوٹ کھسوٹ کرتا رہا‘ اس نے جن بچوں کے لیے کراچی کے مہاجر نوجوانوں کو بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا  یا پھر ان کے خاندانوں نے ان کی رہائ کے لئے لاکھوں روپے تاوان وصول کیا  آج وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں پولیس  کے نرغے میں گھرا کھڑا ہے


اتوار، 8 جون، 2025

جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو

 جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو، اونٹاریو، کینیڈا کی ایک  مشہور اسٹریٹ  ہے۔ یہ دو الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے، جسے تاریخی طور پر لوئر جیرارڈ اور اپر جیرارڈ کہا جاتا ہے۔جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹوجیرارڈ اسٹریٹ ویسٹ کا واک اسکور 100 میں سے 99 ہے۔ یہ مقام واکرز پیراڈائز ہے اس لیے روزانہ کے کاموں کے لیے کار کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ٹورنٹو میں کوریڈور پڑوس۔ قریبی پارکوں میں الیگزینڈر اسٹریٹ پارکیٹ، لیری سیفٹن پارک اور ہائی پارک شامل ہیں۔پرانے ٹورنٹو میں یونیورسٹی ایوینیو اور کاکس ویل ایونیو کے درمیان 6 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ مؤخر الذکر حصہ لوئر جیرارڈ کے مشرقی ٹرمینس سے 300 میٹر شمال میں شروع ہوتا ہے اور کاکس ویل ایونیو اور کلونمور ڈرائیو کے درمیان، وکٹوریہ پارک ایونیو اور وارڈن ایونیو کے درمیان، اسکاربورو میں مزید 4 کلومیٹر تک چلتا ہے۔


جیرارڈ اسٹریٹ ٹورنٹو کے چند اہم اضلاع اور محلوں سے گزرتی ہے، خاص طور پر ڈسکوری ڈسٹرکٹ، ایسٹ چائنا ٹاؤن، اور جیرارڈ انڈیا بازار، ٹورنٹو کا سب سے بڑا جنوبی ایشیائی نسلی انکلیو۔جیرارڈ کا نام سیموئیل جیرارڈ (1767-1857) کے لیے رکھا گیا ہے، جو زیریں کینیڈا میں ایک اینگلو-آئرش تاجر اور عزت مآب جان میک گل کے ذاتی دوست ہیں، جو اپر کینیڈا کی قانون ساز کونسل کے رکن ہیں۔اپر جیرارڈ اصل میں "لیک ویو ایونیو" کے نام سے ایک الگ گلی تھی جو مشرقی ٹورنٹو کے قصبے میں تھی۔ 1908 میں ٹورنٹو کے ذریعہ ایسٹ ٹورنٹو کے الحاق کے بعد نام تبدیل کر دیا گیا۔جیرارڈ گاؤں-بے سٹریٹ سے لاپلانٹے ایونیو تک جیرارڈ سٹریٹ ویسٹ کے ایک مختصر حصے کو جیرارڈ ولیج کہا جاتا ہے، ایک بوہیمین-گرین وچ گاؤں جیسا علاقہ 19ویں صدی کے آخر سے 1920 کی دہائی میں ابھرا اور 1960 کی دہائی کے آخر میں غائب ہو گیا۔ سابق محلے کی چند عمارتیں اب بھی موجود ہیں، لیکن رہائشی اور باقی کاروبار اب ماضی سے تعلق نہیں رکھتے۔جو لوگ رہتے تھے یا اس سے وابستہ ہیں ان میں مشہور ادیب، فنکار شامل تھے: 


پیئر برٹن - کینیڈا کے مورخ اور مصنفارنسٹ ہیمنگوے - امریکی ناول نگار اور رپورٹر 1919-1920 کے آس پاس ٹورنٹو میں اپنے وقت کے دوران یہاں رہتے تھے۔لارین ہیرس - کینیڈین پینٹر اور گروپ آف سیون کے رکنالبرٹ فرانک - ڈچ نژاد کینیڈین پینٹرراستے کی تفصیل-جیسا کہ ٹورنٹو میں عام ہے، Yonge Street پر گلی کو مشرقی اور مغربی پتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عام طور پر، گلی کا مغربی حصہ بہت چھوٹا ہوتا ہے — صرف چار بلاکس لمبے ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی ایونیو میں اس کا مغربی ٹرمینس ڈاون ٹاؤن ٹورنٹو کے "ہسپتال قطار" کے مرکز میں واقع ہے، جو ٹورنٹو جنرل ہسپتال، ماؤنٹ سینائی ہسپتال، شہزادی مارگریٹ کینسر سینٹر، ٹورنٹو ری ہیب، اور بیمار بچوں کے لیے ہسپتال پر مشتمل ہے۔ جیرارڈ اسٹریٹ کا بڑا حصہ دراصل جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹورنٹو میٹروپولیٹن یونیورسٹی جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ پر یونگ اسٹریٹ کے بالکل مشرق میں واقع ہے۔



مزید مشرق میں، پارلیمنٹ اسٹریٹ پر، جیرارڈ اسٹریٹ کیبی ٹاؤن کو ریجنٹ پارک سے الگ کرتی ہے۔دریائے ڈان کو عبور کرنے کے بعد، جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ ٹورنٹو کے ایسٹ چائنا ٹاؤن سے گزرتا ہے جو براڈ ویو ایونیو اور کارلو ایونیو کے درمیان جیرارڈ پر مرکوز ہے۔ مشرق کو جاری رکھتے ہوئے، گرین ووڈ ایونیو اور کوکس ویل ایونیو کے درمیان جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ شمالی امریکہ میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے بازاروں میں سے ایک کا گھر ہے۔ جیرارڈ اور براڈ ویو ایونیو کے چوراہے پر دو دو لسانی سڑک کے نشان ہیں جن پر الفاظ ہیں " ۔اپر جیرارڈ بڑے پیمانے پر رہائشی اور چھوٹے پڑوس کے کاروبار کا مرکب ہے۔ وکٹوریہ پارک ایونیو میں، کلونمور ڈرائیو میں ضم ہونے سے پہلے آخری چار بلاکس کے لیے گلی کا نام "جیرارڈ اسٹریٹ ایسٹ" کے بجائے صرف "جیرارڈ اسٹریٹ" میں واپس آجاتا ہے۔ اس نام کی عجیب و غریبیت وکٹوریہ پارک کے مشرق کا علاقہ اسکاربورو میں ہونے کی وجہ سے ہے، جس نے ٹورنٹو سے داخل ہونے والی سڑکوں کو "مشرق" کے نام سے لیبل نہیں کیا،


یہاں تک کہ میٹروپولیٹن ٹورنٹو کی تخلیق کے بعد، جس نے سڑکوں کے لیے متحد مرکزی سمتوں کا استعمال کیا، بشمول اسکاربورو میں خود ہی شمال مشرقی یارک سے سڑکوں کے لیے۔ (جیرارڈ اور کوئین وہ واحد سڑکیں تھیں جن پر "مشرق" کے نام کا لیبل لگا ہوا تھا جو ٹورنٹو سے براہ راست اسکاربورو میں داخل ہوئیں؛ دونوں ختم ہونے سے پہلے اسکاربورو میں صرف چند بلاکس تک جاریرہیں۔)ٹرانزٹ-ٹورنٹو ٹرانزٹ کمیشن (TTC) پارلیمنٹ اسٹریٹ اور کاکس ویل ایونیو کے درمیان ٹورنٹو اسٹریٹ کار روٹ 506 کارلٹن کے ساتھ لوئر جیرارڈ کی خدمت کرتا ہے۔ راستہ پھر کاکس ویل ایونیو کے ساتھ سفر کرتا ہے اور اپر جیرارڈ کے ساتھ مین اسٹریٹ تک جاری رہتا ہے، جہاں یہ مڑ کر مین اسٹریٹ اسٹیشن پر ختم ہوتا ہے۔ مین اسٹریٹ کے مشرق میں جیرارڈ اسٹریٹ کا بقیہ حصہ ٹی ٹی سی بس روٹ 135 جیرارڈ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے، جو مین اسٹریٹ اسٹیشن اور وارڈن اسٹیشن کے درمیان سفر کرتی ہے۔  

حجِ بیت اللہ 'ایک عاشقانہ عبادت

 حجِ بیت اللہ 'ایک عاشقانہ عبادت                 حج تو درحقیقت خدا کی اس مقدس سرزمین پر حاضری کا نام ہے، جہاں نبیوں، رسولوں اور برگزیدہ بندوں نے اپنی حاضری کے ذریعہ اطاعت وبندگی کا فریضہ انجام دیا ہے، اور اپنی اطاعت وبندگی کا عہدوپیمان کیا ہے۔  مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ انہوں نے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ آپؑ نے اس موقع پر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو آپ کو حضرت اسماعیل ؑ نظر آئے تو آپ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیا۔ اس سے کہا۔ میر ے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے قربان کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا، والد محترم جو حکم ہوا ہے، اسے بجا لائیے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔


 غرض جب دونوں مطیع ہو گئے ۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم ؑیقیناً تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والے کو اسی طرح جزادیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔‘‘(سورہ الصافات آیات نمبر 101-تا106)قربانی محض جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کا نام نہیں ہےیہ ایثار وجاں نثاری، تقویٰ اور طہارت کا نام ہے  - عید الاضحی کے دن حضرت ابراہیم ؑکی اس عظیم ترین اطاعت خدا وندی کی مثال کی یاد گار کے طور پر ادا کیا جاتا ہے جس کے تحت خلیل اللہ (اللہ کے دوست) لقب پانے والے اس حق و صداقت کے علمبر دار پیغمبر ؑ نے اپنی ہزاروں دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہونے والے پیارے بیٹے کو حکم خداوندی سے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا ارداہ کر لیا تھا۔قربانی کا مطلب ہے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا جبکہ شرعی اصطلاح میں اس کا مطلب عبادت کی نیت سے ایک خاص وقت میں حلال جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا یا ذبح کرنا ہے۔


یہ خاص وقت10ذی الحج کی صبح یعنی اشراق سے شروع ہوتا ہے اور 12ذی الحجہ کی عصر تک رہتا ہے۔ نماز عید سے قبل قربانی نہیں ہوتی۔عید الاضحی کی قربانی اصل میں اس واقعہ عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے واقع ہوا یعنی خواب میں فرزند عزیز حضرت اسما عیل ؑ کو ذبح کرتے دیکھا تو سچ مچ انہیں قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مختلف مکاتب میں حضرت ابراہیم ؑ کے اس خواب کا ذکرآیا ہے جو کہ قربانی سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے یہ خواب مسلسل تین رات تک دیکھا تھا۔ پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے شرعی اصطلاح میں ’’یوم الترویہ‘‘کہا جاتا ہے۔ لغت میں ترویہ کے معنی ’’سیراب کرنا‘‘پانی فراہم کرنا، منی اور عرفات میں چونکہ پانی نہیں ہے اس لئے ایام صبح میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ’’ترویہ‘‘ کے معنی و مفہوم میں ’’پانی پلانا‘‘لکھے ہیں لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو پانی پلاتے تھے۔


 بعض اہل زبان نے ’’ترویہ‘‘کورویت سے لیا ہے اس لئے ’’دیکھنے کے ‘‘ معنی میں لیا ہے۔حضرت ابراہیم ؑنے بھی چونکہ خواب دیکھا تھا اس لئے دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز ظہر کے بعد احرام باندھ کر منی کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں۔  حضرات ابراہیم ؑنے خواب دیکھا جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو۔ صبح اٹھ کر آپؑ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہو جائے۔ آپؑ نے سوسرخ اونٹ قربان کر دیئے۔ دوسری رات پھر وہی خواب آیا۔ چنانچہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا۔ واضح ہوکہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہا ہے جسے صرف چند مخصوص افراد استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ عام آدمی کی قیمت خرید سے باہر ہوتا ہے۔ اس دوسرے دن آپؑ نے جو قربانی پیش کی وہ ’’یوم عرفہ‘‘ تھا جس کے معنی ’’پہچاننے‘‘کے ہیں۔عر فہ نوذی الحج کا دن ہوتا ہے۔ اسی دن تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کارکن اعظم ہے،


 یہاں کی حاضری خواہ چند ساعتوں کیلئے ہی سہی ، ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔ اس دن عازمین حج اپنے آپ کو مجرموں کی طرح رب کائنات کے حضور پیش کر کے اپنے گناہوں کا اعتراف بر ملا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے چونکہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔ اسی دن فجر کی نماز سے تیر ھویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین و حضرات پر چاہے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہےمفسرین کرام    بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے جب خواب دیکھا   اس وقت حضرت اسمعیل ؑ کی عمر 13برس تھی۔ پیغمبران کرام کے خواب بھی وحی الہٰی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے بیٹے کی قربانی کے حکم کو وحی الٰہی جانتے ہوئے تسلیم کیا اور بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امرالٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے؟۔ انہی تمام صورتوں کا مجموعہ اللہ تعالیٰ نے حج کی شکل میں عطا فرمایا۔ شعائراللہ کی صورت میں انبیاءو مرسلین  کی مختلف یادگاروں کو مناسک حج میں قائم فرما دیا۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر