شمالی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں کی طرف کا ایک غیرمعمولی بڑا جنگلاتی علاقہ ہے جو دریائے ایمیزون کو بھی عبور کرتا ہے اسی کو ایمیزون کا جنگل کہتے ہیں۔ ایمیزون جنگل دنیا کے9 ممالک کی حدود میں واقع ہے۔ ان ممالک میں برازیل، فرانسیسی گیانا، ایکواڈور، گیانا، کولمبیا، ونزویلا، بولیویا، پیرو اور سرینام کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ایمزون جنگل کا بہت بڑا حصہ برازیل میں واقع ہے جو پچاس فیصد سے زائد ہے۔ وسطیٰ ایمیزون میں درجہ حرارت 30ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ ایمیزون کے مغربی حصہ میں درجہ حرارت 25ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ایمیزون جنگل کا رقبہ2,510,000 مربع میل ہے جو کہ آسٹریلیا کے رقبہ کے تقریبا ًبرابر ہے۔ دنیا کی زندہ حیات کا نصف اسی جنگل میں پایا جاتا ہے ۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں انتہائی حیرت انگیز حقائق مختلف تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں سامنے آئے ہیں ۔ ان کے مطابق ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ’’لڑاکوجھگڑالو عورت‘‘ ہے۔ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ زمین کی20 فیصد آکسیجن اسی جنگل کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا کے چالیس فیصد جانور، پرند، چرند، حشرات العرض ایمزون میں پائے جاتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی25 لاکھ سے زائد اقسام، پرندوں کی1500 اور دریا، ندیوں میں مچھلیوں کی دو ہزار سے زائد اقسام یہاں پائی جاتی ہیں۔ ایسے زہریلے حشرات العرض یہاں پائے جاتے ہیں کہ کاٹ لینے کی صورت میں چند منٹوں میں انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایمیزون جنگل کی سب سے خوفناک بات وہاں کی جانورخور مکڑیاں ہیں جو اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں کو موقع ملتے ہی دبوچ کر ہلاک کردیتی ہیں۔ جانوروں کو سورج کی دھوپ لینے کے لئے اونچے اونچے درختوں پر چڑھنا پڑھتا ہے۔ بندر خاص طور پر ایسا کرتے ہیں۔ وہاں 9 میٹر سے زائد لمبے سانپ تو عام پائے جاتے ہیں جو اپنی ہیبت اور شکل سے ہی جان لیوا دکھائی دیتے ہیں۔ 1922ء میں وکٹر ہائنٹس نامی پادری جب دریا ایمیزون کی طرف گیا تو اس نے دریا میں تیرتے ایسے سانپ کو دیکھا جس کی آنکھیں اتنی بڑی تھیں کہ بوٹ کی روشینیوں کی مانند لگتی تھیں۔
ایمزون کے جنگل کو اگر قدرتی عجوبہ قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا ۔ کیڑے مکوڑوں، پرندوں، چرندوں، جانوروں کی ایسی ہزاروں مخلوق موجود ہیں جن کو ابھی تک کوئی نام نہیں دیا جاسکا۔ ایمیزون کے جنگل میں آج بھی وحشی اور انسان خور قبائل موجود ہیں جو انسانوں کو کھاتے ہیں ۔ جنگل میں موجود ان قبائل کی تعداد400 بتائی جاتی ہے جن کی کل آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے۔ جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو تو تب بھی ایمیزون کے جنگل کا بڑا حصہ اس قدر تاریکی میں ڈوبا ہوتا ہے کہ ٹارچ کے ساتھ آپ کو زمین دیکھنی پڑتی ہے۔ جنگل کے کچھ حصے اس قدر گھنے ہوتے ہیں کہ اگر ایک انسان جنگل کے ایک حصہ میں کھڑا ہو اور بارش شروع ہوجائے تو اس تک بارش کے قطرے دس سے پندرہ منٹ تک پہنچیں گے، ایمیزون کے جنگل بارے بہت کچھ جاننے کی کوششیں جاری ہیں اور بہت کچھ جانا بھی جاچکا ہے لیکن کل جنگل کے دس فیصد حصہ تک ہی رسائی ممکن ہوسکی ہے۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں سائنس اور دیگر ذرائع کی تحقیق کے بعد جو اعدادو شمار اور حقائق منظر عام پر آئے ہیں اس سے اس جنگل کے خوفناک ہونے پر کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ اس علاقے کو ایمزونیا بھی کہا جاتا ہے۔
ایمیزون کے جنگلات میں درجنوں مہم جو گئے لیکن واپس نہیں لوٹے اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ آیا وہ درندوں کے ہاتھ لگے یا انسان خور وحشی قبائلیوں کی خوراک بن گئے۔ 2009ء میں سی این این کی ایک خبر نے سنسنی پھیلا دی جس کے مطابق برازیل کے ایک قبیلہ ’’کولینا‘‘ نے ایک انیس سالہ نوجوان کو اغوا کیا اور اس کے ٹکڑے کرکے اس کا کھا لیاگیا۔ وہ قبیلہ پیرو کی سرحد کے قریب رہتاتھا ۔ مقامی پولیس لڑکے کے اہل خانہ کے ساتھ اندر ان تک پہنچی تو وہاں اس کی کھوپڑی کو لٹکا دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے اور الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو ایسے قبائل تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح برازیل کا قانون بھی پولیس کو ایسے قبائلیوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو ایسے قبائل تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح برازیل کا قانون بھی پولیس کو ایسے قبائلیوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں اور ماضی کی طرح اپنے آباؤ اجداد کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ جنگل سے باہر کے لوگوں سے رابطہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ایسے قبائل کی بڑی تعداد ایمیزون جنگل کے وسط میں رہتی ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ایسے الگ تھلگ رہنے والے قبائل کی تعداد 50 ہے۔ ایمیزون جنگل میں 180 کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جون اور اگست کے مہینوں میں ایمیزون جنگل کے کچھ قبائل کوارپ نامی جشن مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہر قبیلہ اپنے رواج کے مطابق رقص، کھانا اور رسومات پیش کرتا ہے۔ اجنبی صرف قبائل کے راہنماؤں کی اجازت سے ہی ان کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ان قبائل کے آس پاس بڑی تعداد میں ایسے قبائل بھی آباد ہیں جن کا جدید دنیا سے رابطے ہیںایمیزون جنگل پاکستان کے رقبے سے 16 گنا بڑا ہے۔ایمیزو
یہاں 40,000 سے زیادہ پودوں کی اقسام، 1,300 پرندوں کی اقسام، 3,000 مچھلیوں کی اقسام، اور 430 سے زیادہ میملز کی اقسام موجود ہیں۔ ایمیزون میں دنیا کے سب سے خطرناک جانور بھی پائے جاتے ہیں جیسے ایناکونڈا، پائرانا مچھلی، اور جنگلی تیندوا۔ایمیزون جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کی کل آکسیجن کا تقریباً 20% پیدا کرتے ہیں۔ایمیزون جنگلات میں روزانہ تقریباً 200 سے 300 ملی میٹر بارش ہوتی ہے، جو ان جنگلات کو ہمیشہ سرسبز اور شاداب رکھتی ہے۔ ایمیزون جنگلات میں گولیتھ مینڈک پائے جاتے ہے جو دنیا کی سب سے بڑی مینڈک ہے۔ اس کا وزن 3.3 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔ ایمیزون جنگلات میں دنیا کے سب سے بڑے ہوائی جاندار بھی پائے جاتے ہیں، جیسے ہارپی ایگل، جو اپنے بڑے پروں اور طاقتور پنجوں کے لئے مشہور ہے۔ ایمیزون جنگلات میں دنیا کا سب سے لمبا سانپ، گرین ایناکونڈا، پایا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی 30 فٹ تک ہوسکتی ہے۔ ایمیزون جنگلات میں پایا جانے والا کیپوکھ درخت بہت بلند ہوتا ہے اور اس کی اونچائی 200 فٹ تک ہوسکتی ہے۔ جنگلات میں تقریباً 2.5 ملین کیڑوں کی اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے بہت سی ابھی بھی نامعلوم ہی۔یہ جنگل دنیا کے تقریباً 20% کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے، جو زمین کے موسمیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔