مسجد گوہرشاد حرم علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام کے جنوب میں واقع ہے جس کو شاہ رخ کی اہلیہ گوہرشاد بیگم کے حکم سے تعمیر کی گیا تھا۔ ٹائل کے کام کی خوبصورتی اور اس مسجد کے طرز تعمیر کی وجہ سے ، گوہر شاد مسجد تیموری دور میں ایرانی فن تعمیر کے شاہکاروں میں سے ایک ہے ۔ اور علی بن موسیٰ الرضا علیہ سلام کی قبر مطہر سے نزدیک ترین ہونے کی وجہ سے ، اسے ایران کی سب سے اہم اور معروف ترین مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اس لیے کچھ لوگ اسے ایران کی سب سے زیادہ سیاحتی مسجد سمجھتے ہیں۔مسجد گوہر شاد مرکزی معمار غالباً قوام الدین شیرازی تھے جو تیموری دور کے مشہور ترین معماروں میں سے ایک تھے ۔ اسے ایران کی سب سے اہم اور معروف ترین مساجد میں سے ایک سمجھا جاتا ہےبنیاد اور مقام یہ مسجد، رضوی مقبرے کے جنوب میں واقع ہے اور دارالسیاد اور دارالحفاظ کے حال سے متصل ہے۔ اس کا ایک صحن جس کا رقبہ 2800 مربع میٹر ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ 9400 مربع میٹر ہے۔ مسجد کی عمارت میں 4 بڑے ایوان اور 7 شبستان شامل ہیں۔ ایوان مقصورہ کے پیچھے کا گنبد مسجد کے مختلف حصوں کو ایک منزلہ شبستان کے ذریعہ سے جوڑتا ہے۔ جنوبی ایوان کو ایوان مقصورہ کہا گیا ہے اور شمالی، دارالسیاد کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مشرقی ایوان کو اعتکاف اور مغربی کا نام شیخ بہاؤ الدین ہے۔ جنوبی ایوان کے رسم الخط متن کے مطابق یہ مسجد 821قمری/ 1418 عیسوی میں گوہر شاد بیگم کے حکم سے تعمیر کی گئی اور گذشتہ سالوں میں اس مسجد کو بہت سے نقصانات پہنچے ہیں ۔ گوہرشاد مسجد کی تعمیر تقریباً 12 سال تک جاری رہی گوہر شاد مسجد کا اندرونی حصہ ایرانی کاریگروں کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے-گوہر شاد مسجد ایران کے صوبہ خراسان کے شہر مشہد کی ایک معروف مسلم عبادت گاہ ہے۔ یہ مسجد تیموری سلطنت کے دوسرے فرمانروا شاہ رخ تیموری کی اہلیہ گوہر شاد کے حکم پر 1418ء میں تعمیر کی گئی اور اسے اس وقت کے معروف ماہر تعمیر غوام الدین شیرازی نے تعمیر کیا جو تیموری عہد کی کئی عظیم الشان تعمیرات کے معمار بھی ہیں۔ صفوی اور قاچار دور میں اس مسجد میں تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا۔ مسجد میں 4 ایوان اور 50 ضرب 55 میٹر کا ایک وسیع صحن اور متعدد شبستان بھی ہیں۔ یہ مسجد 15 ویں صدی کی ایرانی تعمیرات کا اولین اور اب تک محفوظ شاہکار ہے۔ اس کے داخلی راستے میں سمرقندی انداز کی محراب در محراب ہیں جبکہ بلند مینار بھی اس کی شان و شوکت کو مزید بڑھاتے ہیں۔ ٹائل کے کام کی خوبصورتی اور اس مسجد کے طرز تعمیر کی وجہ سے ، گوہر شاد مسجد تیموری دور میں ایرانی فن تعمیر کے شاہکاروں میں سے ایک ہے ۔ اور علی بن موسیٰ الرضا علیہ سلام کی قبر مطہر سے نزدیک ترین ہونے کی وجہ سے ،، اس لیے کچھ لوگ اسے ایران کی سب سے زیادہ سیاحتی مسجد سمجھتے ہیں۔مسجدگوہرشاد کا نیلا فیروزی گنبد علی بن موسیٰ الرضا کے مزار کے گنبد سے متصل ہے۔
مقصورہ ایوان کا گنبد 1339 میں تعمیر نو کا کام ایرانی معماروں کے ذریعہ سے ، انجینئر عباس آفرندہ کی سرپرستی میں شروع کیا گیا اور یہ 1341 میں مکمل ہوا۔ اور اسی زمانے میں ایوان کے اندر موجود چبوترے کے پتھروں کو تبدیل کر دیا گیا اور ایوان کے فرش کو سنگ مرمر کے پتھروں سے ڈھانپ دیا گیا اور 1345 شمسی میں گنبد کے ارد گرد کے حصوں کو خوبصورت ٹائلوں سے مزین کیا گیا۔ گوہرشاد کا نام خوبصورت ٹائلوں سے دو جگہوں پر لکھا گیا ہے : ایک چاندی کے دروازے کے اوپر جو دارالسیاد کی طرف جاتا ہے اور دوسرا ایوان مقصورہ پر، جو شہزادہ بائیسنقر کی خوبصورت تحریر کے ذریعہ لکھا ہوا ہے ۔ درمیانی حصے میں محمد رضا امامی کے نام کے نوشتہ جات ہیں ۔ اس مسجد کی تعمیر کا طریقہ چھار ایوان کی طرز کا ہے اور گذشتہ سالوں میں گنبد کی چار مرتبہ مرمت کی گئی ہے۔ اس عمارت کا طرز تعمیر تیموری طرز کا ہے اور اس کے معمار پروفیسر قوام الدین شیرازی کا نام ذکر کیا گیا ہے۔خصوصیات اور سجاوٹ-گوہرشاد مسجد ایک کلاسک مسجد ہے جو چار ایوان والی مساجد کی طرز پر بنائی گئی ہے۔ مسجد کا صحن تقریباً مربع شکل کا ہے اور چار بڑے تاریخی ایوان سے گھرا ہوا ہے اور ایوان کے درمیان فاصلے پر سات بڑے شبستان اور چھ داخلی اور خارجی دروازے ہیں۔مسجد کے صحن کی لمبائی تقریباً 56.13 میٹر اور چوڑائی 51.18 میٹر ہے اور کل رقبہ تقریباً 2873 مربع میٹر ہے۔ مسجد کے اطراف میں عالیشان اور اونچے ایوان ایک دوسرے کے متوازی بنائے گئے ہیں۔حرم امام رضا علیہ السلام کی مسجد گوہرشاد کے دینی مدرسہ کے طلباء،اساتذہ اورسربراہان کی آیت اللہ احمد مروی سے مسجد جامع گوہر شاد میں ملاقات ہوئی ،اس دوران آیت اللہ احمد مروی نے خراسان کی پوری تاریخ میں حرم امام رضا(ع) کی مسجد گوہرشاد کو طلباء کے بحث و مباحثے اور تعلقات عامہ کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسجد گوہر شاد ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ مسجد خراسان کی پوری تاریخ میں بہت ساری علمی اور سماجی تبدیلیوں کا مرکز رہی ہے ، اپنے قیام سے لے کر تا دم تحریر پوری تاریخ میں یہ مسجد علمائے کرام اور دانشوروں کے سماجی روابط کے لئے بھی ایک اہم مرکز تھی۔انہوں نے عصری سماجی اور سیاسی تبدیلیوں میں مسجد جامع گوہر شاد کے اہم کردارکو بیان کرتے ہوئے مسجد گوہر شاد کی علمی اور سماجی سرگرمیوں کے احیاء کے سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تاکیدات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی سے پہلے بہت سارے علمائے کرام دینی دروس کی کلاسز کا انعقاد مسجد گوہر شاد میں کرتے تھے اور حتی مشہد مقدس کی اہم تقریبات بھی اسی مسجد میں منعقد ہوتی تھیں،ماضی میں مسجد گوہر شاد علمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
حرم امام رضا علیہ السلام کی مسجد گوہرشاد کے دینی مدرسہ کے طلباء،اساتذہ اورسربراہان کی آیت اللہ احمد مروی سے مسجد جامع گوہر شاد میں ملاقات ہوئی ،اس دوران آیت اللہ احمد مروی نے خراسان کی پوری تاریخ میں حرم امام رضا(ع) کی مسجد گوہرشاد کو طلباء کے بحث و مباحثے اور تعلقات عامہ کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسجد گوہر شاد ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے خاص اہمیت کی حامل ہے ،یہ مسجد خراسان کی پوری تاریخ میں بہت ساری علمی اور سماجی تبدیلیوں کا مرکز رہی ہے ، اپنے قیام سے لے کر تا دم تحریر پوری تاریخ میں یہ مسجد علمائے کرام اور دانشوروں کے سماجی روابط کے لئے بھی ایک اہم مرکز تھی۔انہوں نے عصری سماجی اور سیاسی تبدیلیوں میں مسجد جامع گوہر شاد کے اہم کردارکو بیان کرتے ہوئے مسجد گوہر شاد کی علمی اور سماجی سرگرمیوں کے احیاء کے سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تاکیدات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی سے پہلے بہت سارے علمائے کرام دینی دروس کی کلاسز کا انعقاد مسجد گوہر شاد میں کرتے تھے اور حتی مشہد مقدس کی اہم تقریبات بھی اسی مسجد میں منعقد ہوتی تھیں،ماضی میں مسجد گوہر شاد علمائے کرام اور طلباء کے لئے عصری، سیاسی،مذہبی اور علمی مباحث کا مرکز تھی،اس مسجد میں علمی و مذہبی تقریبات و پروگراموں کے علاوہ کئی بار سیاسی و سماجی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ مسجد گوہر شاد کی ان سرگرمیوں کو دوبارہ احیاء کیا جائے ،مسجد گوہر شاد کو ایک علمی مدرسہ بنایا جائے اورلوگ اس مسجد میں طالب علموں کودیکھیں۔حوزہ علمیہ مشہد مقدس کی سپریم کونسل کے رکن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حجت خدا اور ولی خدا اور عالم آل محمد(ص) کے جوار میں علمی گفتگو اور بحث و مباحثہ ہونا چاہئے ،
حرم امام رضا علیہ السلام میں ایک دینی مدرسے کا وجود اور علمی بحث و مباحثہ کا ہونا ضروری ہے ہم اس موضوع پرتاکید کرتے ہیں تاکہ اس پر خصوصی توجہ دی جائےانہوں نے مسجد گوہر شاد کو مرقد مطہر امام رضا(ع) کے جوار میں ہونے کی وجہ سے منفرد خصوصیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حرم امام رضا علیہ السلام ایک بابرکت جگہ ہے جہاں امام رضا(ع) کی روح حکم فرما ہے،جہاں انبیائے کرام،اولیاء اللہ اور صدیقین کی روحوں کی آمد و رفت رہتی ہے ،زائرین اس مقدس مقام پر حاضر ہو کر بہت ساری برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں اوراپنے ایمان اور بندگی کو مضبوط بناتے ہیں ، اس ملکوتی بارگاہ کی روحانی فضا کی قداست انسان کوبالاترین کمالات تک پہنچاتی ہے اس لئے طلباء اس مسجد میں علمی بحث و مباحثہ کے ذریعہ اس کی برکات سے مسفید ہو سکتے ہیں ،اس ملکوتی فضا کی نورانیت؛ مطالب کو بہتر سمجھنے میں بہت زیادہ مؤثر ہے ۔
آیت اللہ مروی نے حرم امام رضا علیہ السلام کی مقدس اور بابرکت فضا کو طلاب اور لوگوں کے لئے تحصیل علم کا مرکز قرار دینے پر تاکید کی اور دینی مدارس کا شہروں کے مرکز میں تعمیر کرنے کا فلسفہ اور تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پوری تاریخ میں دینی مدارس کوبازاروں،چوراہوں اور شہر کے مرکزی راستوں پر تعمیر کیا جاتا تھا اور اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ دینی طلباء اپنی تعلیم کے آغاز سے ہی مختلف طبقے کے افراد کے ساتھ رابطے میں رہتے اور ان سے مختلف مہارتیں سیکھتے،حرم امام رضا علیہ السلام بھی طلاب اورمختلف طبقے کے افراد کے ساتھ رابطہ کا بہترین ذریعہ ہے جہاں پر طلباء بہت ساری مہارتیں سیکھ سکتے ہیں۔آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ علمی نشستوں کا انعقاد اور شرعی سوالات کے جوابات ایسے بہترین مواقع ہیں جن میں طلباء کا عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ رہتا ہے طلباء لوگوں کے سوالات اور مشکلات سے آگاہ رہتے ہیں اور وہ اعتراضات کے جوابات بہترین انداز میں دے سکتے ہیں۔اس اجلاس کے آغاز میں گوہر شاد مدرسے کے متعدد اساتذہ اور طلباء نے مدرسہ کی علمی سطح کو مضبوط بنانے اور اس کی دیگر سرگرمیوں کے حوالے سےاپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور تجاویز پیش کیں۔،اس مسجد میں علمی و مذہبی تقریبات و پروگراموں کے علاوہ کئی بار سیاسی و سماجی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا ان کا کہنا تھا کہ مسجد گوہر شاد کی ان سرگرمیوں کو دوبارہ احیاء کیا جائے ،مسجد گوہر شاد کو ایک علمی مدرسہ بنایا جائے اورلوگ اس مسجد میں طالب علموں کودیکھیں۔حوزہ علمیہ مشہد مقدس کی سپریم کونسل کے رکن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حجت خدا اور ولی خدا اور عالم آل محمد(ص) کے جوار میں علمی گفتگو اور بحث و مباحثہ ہونا چاہئے
میں نے یہ مضمون دو ایرانی ویب سائٹس کی مدد سے تیا کیا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں