منگل، 22 اپریل، 2025

ایم این اے کا عہدہ ' پاکستان کا سب سے بڑا منافع بخش منصب

 یر ابھی حال ہی میں  چند ہفتے ہوئے   قومی اسمبلی  کے ممبران نے   اپنی تنخواہ پونے دو لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے تک کر لی ہے مگر پانچ لاکھ روپے تنخواہ کے بعد بھی وہ ہا ؤ س میں نہیں آتے۔ اب   پاکستانی عوام  کی سمجھ  میں ضرور آ یا ہوگا  کہ لوگ سیاستدان بننے کے لیے کیوں اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ تو صرف قانونی پیسے ہیں۔ ابھی   ترقیاتی کاموں کے نام پر ملنے والے اربوں روپے کی بات  کا زکر نہیں آیا ہے ۔میر ے قارئین  نے ہمارے وطن کے سابق وزیر خزانہ  جناب  مفتاح اسماعیل کا یہ بیان  بھی  ضرور سنا ہو گا کہ جس میں انہوں نے کہا کہ اس سال ممبرانِ اسمبلی کے لیے ساڑھے پانچ سو ارب روپے ترقیاتی فنڈ رکھا گیا ہے۔ نامہ  نگار  کہتے ہیں اپریل  2025 کے مہینے میں  جمعرات کے روز ایک دفعہ پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں جانے کا دل کیا مگر پھر خبر ملی کہ اجلاس ملتوی ہو گیا ہے۔ پتا چلا کہ اجلاس کی کارروائی چلانے کے لیے ایوان کے اندر جتنے ارکان کے موجود ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی تعداد میں ممبران موجود نہیں تھے۔ آپ کا سوال ہو گا کہ کتنے ارکان ضروری ہوتے ہیں جس کے بعد ہا ؤس کا اجلاس ہو سکے۔ اس کام کیلئے غالباً84 ممبران کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اگلا سوال ہو گا کہ اسمبلی کے کُل ارکان کی تعداد کتنی ہے۔ میرا جواب سن کر شاید آپ کی آنکھیں حیرت سے پھیل جائیں کہ تین سو چالیس ممبران میں سے چوراسی ممبران بھی ہاؤس میں نہیں آتے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر یہ اسمبلی کیا کر رہی ہے‘ اس پر اربوں کا بجٹ کیوں خرچ ہو رہا ہے؟


 اگر اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرنی تو پھر اس ایوان میں جانے کے لیے یہ سب ایم این ایز اپنا تن من دھن کیوں لگا دیتے ہیں؟ اپنی زندگیاں کیوں خراب کر لیتے ہیں؟ پولیس‘ تھانے‘ کچہریاں‘ جیلیں‘ یہ سب کچھ کیوں بھگتتے ہیں اگر انہوں نے اسمبلی کے اندر اجلاس میں بیٹھنا ہی نہیں؟ تین سو چالیس میں سے صرف چالیس‘ پچاس ممبران ہی اجلاس میں آئے اور باقی تقریباً تین سو ایم این ایز نے اجلاس میں جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ یا تو وہ اپنے علاقوں سے ہی نہیں چلے کہ چھوڑو! مقصد اسمبلی میں پہنچنا تھا‘ پہنچ گئے ہیں‘ تنخواہ وقت پر مل رہی ہے‘ الائونس مل رہا ہے‘ فری پی آئی اے کی ٹکٹیں مل رہی ہیں‘ دوائی علاج سب کچھ مفت ہے‘ عالمی دورے مفت ہیں‘ پارلیمنٹ لاجز میں کمرے ملے ہوئے ہیں۔ اگر چیئرمین کمیٹی ہیں تو پھر ایک سرکاری گاڑی مع پٹرول اور ڈرائیور بھی ملی ہوئی ہے۔ انہیں اور ان کے خاندان کو سفارتی پاسپورٹس بھی ملے ہوئے ہیں‘ جن پر وہ دنیا کے ساٹھ ستر سے زائد ممالک کے ایئرپورٹ پر اتر کر محض انٹری ویزہ لے کر جا سکتے ہیں۔


 اب اگر اجلاس میں شریک نہیں بھی ہوئے تو پریشانی کی کیا بات ہے‘ کیونکہ اجلاس میں حاضری بائیو میڑک سسٹم سے نہیں ہوتی بلکہ اب بھی وہاں ہاتھ سے حاضری لگتی ہے اور ایک رجسٹر رکھا ہوتا ہے جس پر اسمبلی کا ایک اہلکار حاضری لگاتا ہے۔ ماضی میں تو کچھ ایم این ایز نے اس اہلکار کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی کہ میں اجلاس میں آؤں یا نہ آؤں‘ میری حاضری لگا دینا۔ چند ممبران اسمبلی خود بھی ایک دوسرے کی جعلی حاضری لگا دیتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ انہیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے کہ وہ جعلی حاضری لگاتے ہیں۔ اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے۔ اب ہر ایم این اے کو اجلاس میں شریک ہونے پر فی اجلاس دس ہزار روپے ملتے ہیں۔ پہلے پانچ ہزار روپے تھے‘ جو اب دو گنا ہو چکے ہیں۔ ممبرانِ اسمبلی اجلاس میں بھی نہیں آنا چاہتے اور دس ہزار روپے بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ آپ پوچھیں گے کہ کیا ان کو تنخواہ نہیں ملتی کہ دس ہزار روپے الائونس بھی دیا جاتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ انہیں پہلے پونے دو لاکھ روپے کے قریب تنخواہ ملتی تھی‘ جو ان کے نزدیک کم تھی۔ حالانکہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کا الگ سے الائونس ملتا ہے‘ جس سے لگ بھگ تنخواہ کے برابر الائونس بھی ہر ماہ مل جاتا تھا۔


ہمارے محبوب معاشی ماہر ڈاکٹر محبوب الحق نے 1985ء کی اسمبلی میں سیاستدانوں کو   ترقیاتی کاموں کے نام  اربوں روپئے  دینے کے نا م پر  یہ قانون بنایا  تھا کہ تم لوگوں کا کام قانون سازی اور ملک چلانا نہیں ہے‘ بلکہ  ملک میں ترقیاتی کا م کرنے ہیں  ‘ تم اپنی  مرضی کا ٹھیکیدار  لاؤ  اور اس کو ٹھیکہ دلوا کر اس سے اپنا کمیشن کھرا کر و۔ پھر ڈاکٹر محبوب الحق کی بدولت ٹھیکیدار دوست جمہوریت کا دور شروع ہوا اور جیبیں بھرنا شروع ہوئیں۔ اب ہر کوئی سیاست میں داخل ہونے کے لیے بے چین ہونے لگا اور اخلاقیات وغیرہ سب کھوہ کھاتے چلے گئے اور پھر چل سو چل۔ اب پیسہ ہی سب کا پیر بن گیا۔  اس پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز پر ممبران تیس فیصد کمیشن لیتے ہیں۔ (یقینا سب ممبران نہیں لیتے لیکن اکثریت کے بارے میں یہی تاثر ہے اور یہ بات ایک سابق وزیراعظم کہہ رہا ہےاب آپ بتائیں کہ اس سے زیادہ منافع بخش کاروبار کون سا ہو سکتا ہے کہ اتنے مالی مفادات ہوں‘ پھر ٹی وی چینلز پر بحث مباحثہ‘ مفت مشہوری‘سوشل میڈیا پر فالوونگ‘ ضلع بھر میں رعب ودبدبہ‘ پوری ضلعی بیورو کریسی آپ کے ماتحت‘ تھانہ کچہری سب کچھ آپ کے کنٹرول میں۔ علاقے کے جو لوگ ووٹ نہ دیں ان کا جینا تک حرام کر دیں۔ اتنا سب کچھ لینے کے باوجود بھی اگر یہ تین سو سے زائد ایم این ایز اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہوں تو پھر آپ کیا کہیں گے؟


آپ کچھ کہیں یا نہ کہیں‘ انہیں پتا ہے کہ ان کا وزیراعظم بھی اسمبلی نہیں آتا‘ ان کا کسی نے کچھ بگاڑ لیا ہے؟ نواز شریف صاحب آٹھ آٹھ ماہ تک اسمبلی نہیں جاتے تھے۔جبکہ ان کے گھر خواتین  کو بھی پابندی سے ہر مہینہ  یہ    فنڈز گھر بیٹھے ملتے تھے عمران خان صاحب چھ چھ ماہ اسمبلی سے غیر حاضر رہے۔ شہباز شریف صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو نوے فیصد حاضری تھی اور جب سے وزیراعظم بنے ہیں‘ حاضری بیس فیصد بھی نہیں ہے۔ ممبران اپنے ہاؤ س کے کپتان کو دیکھتے ہیں کہ وہ بھی ہاؤس نہیں آتے اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا لہٰذا انہیں کسی نے کیا کہنا ہے؟کل ہی میں ایم این اے نفیسہ شاہ صاحبہ کو حامد میر کے شو میں  ممبران اسمبلی کو ملنے والے کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کے فوائد گنوا رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتیں سن کر شاہد خاقان عباسی یاد آ رہے تھے کہ کتنی بڑی رقم کمیشن کی نذر ہو جاتی ہے اور ان فنڈز کا مقصد حلقے کے لوگوں کی ترقی اور فلاح سے زیادہ اسمبلی ارکان کی فلاح ہوتا ہے۔ چلیں آپ ترقیاتی فنڈز میں سے اپنا حصہ بھی لیں‘ تنخواہیں بھی لیں‘ مفت پی آئی کی ٹکٹیں بھی لیں‘ مفت علاج‘ پروٹوکول‘ گاڑیاں لیں‘ بیرونی دورے بھی کریں لیکن اس کے باوجود اگر اجلاس میں 84 ایم این ایز شریک نہ ہوں تو آپ نے اس سب کا کیا کرنا ہے؟اسمبلی کی کارروائی دیکھنے اور رپورٹ کرنے کا بھی الگ سے سیاسی چسکا ہے۔ جسے ایک دفعہ لگ جائے پھر مشکل ہی چھوٹتا ہے۔ کیونکہ بہتی گنگا میں اشنان کسے برا لگ سکتا ہے  لیکن سوچیں کہ آپ اپنا چسکا پورا کرنے جائیں تو پتا چلے کہ آج تین سو ممبران کا موڈ نہیں تھا لہٰذا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب کل ان صاحبان کا موڈ بنا تو پھر دیکھیں گے  اور  وزیر با تدبیر حاضر ہوں گے؟یا نہیں اور اجلاس پھر ملتوی ہو جائے گا ۔

 -یہ مضمون میں نے انٹر نیٹ سے  تلخیص   کر کے دیا ہے

پیر، 21 اپریل، 2025

ایسٹر کے تہوار کی تاریخی اہمیت

   یہ روائت ون گارٹن  شہر میں  چلی  آ رہی ہے کہ   موسم سرما کے اختتام پر  جب  پورے ماحول میں  بہاروں کی آ مد کا  پتا دیتیں  نرم ہوائیں فضاؤں میں       خوشبو اور رنگ بکھیرتی ہیں، تو دنیا بھر کی مسیحی برادری ایک ایسے روحانی اور خوشی سے بھرپور تہوار کا جشن  ایسٹر  مناتی ہے-ایسٹر کا تہوار  جو نہ صرف ان کے مذہبی عقیدے کی بنیاد ہے بلکہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا بھی پیغام دیتا ہے،  ۔ایسٹر صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ یہ عیسائی عقیدے کی سب سے بڑی علامت ہے۔ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زندگی پانے کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو مسیحی ایمان کے مطابق جمعہ کے روز صلیب پر چڑھائے گئے اور پھر اتوار کو زندہ ہو کر واپس آئے۔بائبل کی مقدس روایات کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جمعے کے دن مصلوب کیے جانے کے بعد ان کا جسد مبارک صلیب سے اتار کر ایک چٹانی غار میں دفن کیا گیا۔ اس غار کے دہانے کو ایک بڑے پتھر سے بند کر دیا گیا تھا۔تاہم، روایات بیان کرتی ہیں کہ جب کچھ افراد اتوار کے روز اس غار پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ پتھر ہٹا ہوا ہے اور غار خالی ہے۔


اس منظر نے لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ اسی واقعے کی یاد میں اتوار کا دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ایسٹر کی تاریخ کیسے طے ہوتی ہے؟ایسٹر کی تاریخ ہر سال مختلف ہوتی ہے، کیونکہ یہ قمری کیلنڈر کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر، یہ تہوار موسمِ بہار کے پہلے مکمل چاند کے بعد آنے والے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ مارچ کے آخر یا اپریل کے وسط تک کبھی بھی آ سکتا ہے۔ اس گنتی میں مسیحی روایتی چاند کیلنڈر کی جھلک نظر آتی ہے، جو قدرتی نظم و ضبط سے جڑا ہوا ہے۔ایسٹر کے موقع پر جو علامتیں سب سے نمایاں ہوتی ہیں وہ ہیں رنگین انڈے اور خرگوش انڈا نئی زندگی، تخلیق اور اُمید کی علامت سمجھا جاتا ہے، جو حضرت عیسیٰ کی واپسی کی یاد بھی دلاتا ہے۔جبکہ خرگوش ایک قدیم علامت ہے، جو افزائش اور بہار کی آمد کا پیغام لیے ہوتا ہے۔ان رنگ برنگے انڈوں کو تلاش کرنے کا کھیل، جسے ’ایسٹر ایگ ہنٹ‘ کہا جاتا ہے، خاص طور پر بچوں میں بے حد مقبول ہے۔ چاکلیٹ، رنگین پیپرز میں لپٹے تحائف، اور خرگوش کی شکل کے میٹھے لوازمات اس تہوار کو نہایت دلکش بنا دیتے ہیں۔


ایسٹر سے پہلے کا عرصہ، جسے ”لینٹ“ کہا جاتا ہے، چالیس دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس دوران مسیحی برادری روزہ، عبادت اور سادگی کی زندگی کو اپناتی ہے۔ کچھ مخصوص کھانوں سے پرہیز کیا جاتا ہے تاکہ جسمانی خواہشات سے بالاتر ہو کر روحانیت کی طرف بڑھا جا سکے۔ ایسٹر اس چالیس روزہ ریاضت کا اختتام بھی ہوتا ہے، جس کے بعد خوشی اور جشن کا آغاز ہوتا ہے۔ شہرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خون کے حوالے سے ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے جہاں دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں  عیسائی روایات کے مطابق گالگوتھا'حضرت عیسیٰؑ کے پہلو میں پیوست کردیاتا کہ حضرت عیسیٰؑ کی زندگی کے خاتمے کا یقین ہو جائے ۔نیزہ مارنے کے سبب حضرت عیسی ٰ ؑ کے خون کے چھینٹے اس رومن سپاہی کے چہرے پر پڑے جیسے ہی مسیح کا خون اس سپاہی کے منہ پرپڑا تو اسے اس کے معجزاتی کرشموں کا احساس ہونا شروع ہوگیا لہذا اس نے گالگوتھا کی مٹی کے ساتھ آمیزہ بنا کر ان خون کے قطروں کو ایک صندوق میں محفوظ کرلیا۔بپتسمہ (baptized) لینے کے بعد اس سپاہی نے یروشلم کو خیر باد کہہ دیااور عیسائیت کا مبلغ بن گیااور اسی پاداش میں اسے قتل کردیا گیا اس سپاہی نے حضرت عیسی ٰ کے خون اور مٹی والا صندوق مرنے سے پہلے چھپا دیا جو صدیوں چھپا رہا ۔


پھر ایک نابینا شخص کو وہ صندوق ملا جس کی اطلاع ملتے ہی عیسائی شہنشاہ ہنری سوئم ، پوپ اور مقامی ڈیوک بھی پہنچ گئے ۔ نابینا کو صندوق کی برکت سے بینائی مل گئی لیکن ساتھ ہی صندوق کی ملکیت کا تنازعہ کھڑا ہو گیا جو خون خرابے تک جا پہنچا بالآخر عیسائی شہنشاہ ہنری سوئم ، پوپ اور مقامی ڈیوک نے حضرت عیسی کو صلیب پر چڑھائے جانے والے مقام کی مٹی اور خون کا آمیزہ برابر تقسیم کرلیا۔ قصہ مختصر یہ کہ مقدس خون اور خاک کے آمیزے کا ایک چھوٹا سا حصہ کئی معجزات بکھیرنے اور مزیدکئی حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد وین گارٹن (Weingarten) میں پہنچ گیا جہاں گیارھویں صدی عیسوی میں جس تاریخ کو یہ مقدس خون اور خاک کا تبرک اس قصبے میں پہنچا وہ ایسنشن ڈے (Ascension day) کے بعد آنے والا جمعہ تھا ۔اسی دن کی یاد میں گذشتہ کئی صدیوں سے حضرت عیسی ٰ ؑ کے خون کا جلوس ایسنشن ڈے(جو ایسٹر کے چالیس روز بعد منایا جاتا ہے) کے بعد آنے والے جمعہ کو وین گارٹن (Weingarten) کی گلیوں اور سڑکوں میں اپنے مقرر کردہ روٹ پر نکالا جاتا ہے اس جلوس کوبلٹ رٹ (Blutritt) کہا جاتاہے جس میں ایک بلڈ رائڈر (خونی گھڑ سوار )ایک جواہرات جڑی صلیب جس میں یہ خون اور خاک کڑھائی کی طرح پرو دیا گیا ہے کو اٹھائے نکلتا ہے جس کے ساتھ دو سے تین ہزارگھڑ سوار(بلڈ رائیڈرز blood riders) ٹیل کوٹ اور مخصوص ہیٹ پہنے شریک ہوتے ہیں اور پوری دنیاسے ہزاروں لاکھوں افراد یہ خون کا تاریخی جلوس دیکھنے جمع ہوتے ہیں ۔


اس جلوس کے دوران والدین اپنے نوجوان بچوں کوتھپڑ مارنے کی رسم بھی ادا کرتے ہیں ۔حضرت عیسی ٰ کے خون میں لتھڑی خاک (تعزیہ )کے ساتھ نکالا جانے والا یہ جلوس 950سال سے وین گارٹن (Weingarten) میں جاری ہے اسی طرح کے جلوس (Blutritt) یورپ اور جرمنی کے مختلف علاقوں میں بھی نکالے جاتے ہیں ۔ لیکن Weingarten کا جلوس یورپ میں سب سے بڑا مانا جاتا ہے۔

اتوار، 20 اپریل، 2025

انٹارکٹیکا میں برف کی دبیز تہہ میں دبے گمشدہ شہراٹلانٹس کا انکشاف

   میں لکھنے  سے پہلے حسب معمول انٹر نیٹ پر سرچ کر رہی تھی کہ  اچانک میری نظروں کے سامنے ایک   آرٹیکل  آ گیا جو انٹارٹیکا  سے متعلق تھا بس میں نے اپنی پوری توجہ ادھر لگا دی -کیونک میں اکثر یہ ضرور سوچتی تھی کہ کینیڈا کی سرزمین پر  تین ہزار سے زائد اقسام کی چھوٹی سے چھوٹی اور قوی الجثہ ڈائناسور کس طرح زندہ رہی ہو ں گی  چنا نچہ اس مضمون سے   مجھے انٹارکٹیکا کی تہہ میں ناسا کی دریافت ایک اٹلانٹس شہر کی ہسٹری ہاتھ لگی-اٹلانٹس کے تذکرے سے پہلے یہ بھی اپنے قارئین کو بتانا چاہوں گی پتھر کے زمانے  کا مکمل شہر بھی بحر اوقیانوس  کی میلوں نیچے  تہہ میں دریافت ہو چکا ہے  اب  بات کرتے ہیں  کہ اٹلانٹس شہر  کیسا تھا -مبصرین نے افریقی ساحل سے 600 میل دور سمندر کی تہہ میں ایک بڑے شہر کی لائنوں کی نشاندہی کی تھی۔ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اس ممکنہ شہر کا احاطہ ہو سکتا ہے جس کا ذکر یونانی فلسفی افلاطون نے کیا تھا تاہم گوگل کا کہنا ہے کہ یہ لائنیں سونار سے حاصل کی گئی معلومات ہیں۔-


ایسا نہیں تھا کہ اٹلانٹس کوئ چھوٹا موٹا سا شہر تھا بلکہ یہ زندگی سے بھرپور ایک ایسا شہر تھا جس میں زندگی سانس لیتی تھی اس کے اچانک غائب ہونے سے دنیا حیران ہو گئ لیکن پھر بھول بھی گئ کہ یہی زندگی چلن ہے-لیکن یہ شہر محققین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا  رہا ہے۔گوگل کے بیان کے مطابق اس معاملے میں جو چیز لوگوں کو دکھائی دے درہی ہے وہ سمندری تہہ سے متعلق اعدادوشمار جمع کرنے کے عمل کا طریقہ ہے۔ یہ لکیریں اعدادوشمار جمع کرنے والے کشتیوں کے راستے کی نشاندہی کرتی ہیں۔خیال رہے کہ گوگل ارتھ کی مدد سے کئی دلچسپ دریافتیں کی گئی ہیں جن میں موزنبیق میں پریسٹائن کے جنگلات بھی شامل ہیں جو ماضی کی نامعلوم انواع کا گھر ہوا کرتے تھے اور وہیں قدیمی رومن وِلا کے بقایاجات ملے تھے۔دو ہزار سال قبل افلاطون نے پہلی مرتبہ تصوراتی شہر اٹلانٹس کا تذکرہ کیا تھا جو قدیم زمانے میں ہی تباہ ہو گیا تھا افلاطون نے ایک ایسے شہر کے بارے میں لکھا ہے جو بہت ترقی یافتہ تھااوردولت اور انتہائی خوبصورت قدرتی مناظر سے مالا مال تھا۔اس شہر کے بارے میں یہ بحث عام ہے کہ اگر یہ شہر تھا تو کس جگہ تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شہر کیوبا کے نزدیک تھا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ تصوراتی شہر بحرِ اوقیانوس کے درمیان واقع تھا۔


تہہ میں دبے گمشدہ شہر کے بارے میں نئے انکشافات نے دنیا بھرکے  سائنسدانوں اور ماہرین آثار قدیمہ کو چکرا کر رکھ دیا ہے، ناسا کی جانب سے اس گمشدہ شہر کے حوالے سے جو نئی تصاویر پیش کی ہیں ان کے مطابق یہ شہر اپنے دور کے بہترین فن تعمیر کا نمونہ تھا بلکہ اس شہر میں ہزاروں سال قبل ہونے والی تعمیرات موجودہ دور کے جدید فن تعمیر سے کسی طرح کم نہیں تھیں، ریسرچرز نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ گوگل ارتھ نے اس شہر میں ایک عظیم الجثہ سیڑھی کاپتہ چلایا ہے جو گوگل کی تحقیق کے مطابق ایک پہاڑ کے قریب سے ملی ہے ۔ محققین کاخیال ہے کہ اس دور میں لوگ پہاڑ پر چڑھنے کیلئے یہ سیڑھی استعمال کرتے ہوں گے۔ محققین کے مطابق یہ سیڑھی یو ایف او پر اترنے کیلئے استعمال کی جاتی ہوگی یا یو ایف او کے لائٹ ہائوس تک پہنچنے کیلئے استعمال کی جاتی ہوگی جو یو ایف او کی جانب آنے والوں کو راہ دکھانے کیلئے لگائے گئے ہوں گے۔


ناسا کی نئی دریافت کے بعد اس پراسرا علاقے کی پراسراریت میں اضافہ ہوگیاہے ،لیکن اب وقفے وقفے سے ہمیں اس علاقے کے بارے میں نئی معلومات ملنے کے ساتھ ہی نئی نئی تصاویر بھی مل رہی ہیںجس سے ہمیں اس خطے میں جاری تبدیلیوں کا پتہ چلنے کے ساتھ ہی ایسے حیرت انگیز شواہد بھی مل رہے ہیں جن سے اس برفانی براعظم میں ماضی میں موجود زندگی اور اس علاقے میں رہنے والوں کے مہذب ،تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہونے کی بھی نشاندہی ہورہی ہے اوریہ ظاہر ہورہاہے کہ اس حیرت انگیز براعظم میں برف تلے قدیم اسٹرکچر موجود ہیں،جن کے منظر عام پر آجانے سے اس علاقے میں موجود تہذیب کاپتہ چلانا آسان ہوجائے گا۔حال ہی میں ناسا نے سیٹلائٹ کے ذریعے جس پراسرار سیڑھی کی تصویر جاری کی ہے اسے بہت سے حلقے قدیم اہرام یا اٹلانٹس میں موجود قدیم دور کے عبادت خانے سے تعبیر کررہے ہیں۔


حقیقت کیا ہے اور نئے تصویر کسی سیڑھی کی ہے ،کسی اہرام کی ہے یا کسی عبادتگاہ کی ہے ،اس حوالے سے بحث غالباً اس علاقے میں زمین کے نیچے دبے ہوئے کسی اور آثار کی تصاویر سامنے آنے تک جاری رہے گی تاہم ناسا کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی تازہ ترین تصاویر سے اس خیال کی تصدیق ہوگئی ہے کہ انٹارکٹیکا میں قدیم تہذیب دفن ہے ۔خیال کیا جاتاہے کہ برف سے ڈھکے ہوئے اس براعظم کے نیچے اٹلانٹس کا 12ہزار سال قدیم شہر دبا ہواہے ،اور 12ہزار سال قبل تک انٹارکٹیکا میں برف کانام ونشان تک نہیں تھا اور اٹلانٹس نامی یہ پر رونق شہر آباد تھا لیکن پھر اس شہر کو برف نے ڈھانپنا شروع کیا اور اس پورے شہر کو برف نگل گیا۔ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی انٹارکٹیکا کی تصاویر سے یہ واضح ہوتاہے کہ اس کے نیچے ایک شہر کے آثار موجود ہیں اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ آثار 12ہزار سال قبل موجود اٹلانٹس کے ہیں جس کا کوئی سراغ نہیں مل رہاتھا۔ گوگل کی اس سے قبل جاری کی گئی تصاویر سے یہ بھی ظاہر ہوتاتھا کہ ایک اہرام جیسی عمارت کا اوپری حصہ اب برف سے سراٹھارہاہے۔اس طرح نئی تصاویر کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بھی کسی حد تک ثابت ہوتاہے کہ ہزاروں سال قبل آباد اٹلانٹس نامی شہر کے لوگ بھی مصر کے قدیم لوگوں کی طرح فن تعمیر کے ماہرتھے ۔اس خیال کو ماہرین کے اس خیال سے بھی تقویت ملتی ہے کہ برف سے سر اٹھاتا نظر آنے والا اہرام نما عمارت کا یہ سرا اس بات کاثبوت ہے کہ اس جگہ قدیم شہر اٹلانٹس آباد تھا جہاں خوبصورت عمارتیں اور اہرام موجود تھا لیکن یہ شہر برف میں دب کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیاتھا۔


 

جمعہ، 18 اپریل، 2025

بنو قابل -الخدمت کی ماہرانہ پیشکش طالبعلموں کے لئے

 

    پاکستان  میں علمی  تباہی کا کیا زکر کیا جائے   جس میں ہماری   وہ نسل پس گئی  جسے آگے چل کر پاکستان کو اپنے شانوں پر اٹھا  نا تھا لیکن الخدمت نے  ایک بیڑا اٹھا یا  ہے جس کے تحت    جدید تعلیم کے شعبے میں مدد دی جا رہی ہے  -ٍٍٍٍٍفا روق احمد کملانی  نے دنیا نیوز کو جو اپنے پروگرام بتائے وہ میں آپ سے شئر کر  رہی ہوں فاروق احمد کملانی  کا کہنا ہے کہ   بنو قابل پروگرام میں ایمازون ،فری لانس ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور دیگر کورسز کرارہے ہیں۔ان میں ہم  بچوں کو فیس بک سے کاروبار کرنے کے طریقے بتا   رہے ہیں ،فیس بک اکاؤنٹ بنوارہے ہیں اس سے بچوں نے کاروبار بھی شروع کردیا ہے۔ایمازون کے کورس میں بچہ شروع سے کاروبار میں لگ جاتاہے، مخیر حضرات توقع سے زیادہ تعاون کررہے ہیں۔50فیصد سے زیادہ نئے ڈونرز سامنے آئے۔ بنو قابل سے مستفید ہونے والوں میں متوسط طبقے کے افراد کے بچے زیادہ ہیں۔


مارکیٹ میں کورسز ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے ہوتے ہیں جو الخدمت مفت میں کرارہی ہے۔ موبائل ایپلی کیشن کورس میں بچے زیادہ فائدہ اٹھارہے ہیں یہ کورس دو سے ڈھائی لاکھ میں ہوتاہے ،ہرکوئی نہیں کرارہا۔سارے کورسز پروفیشنل ہیں بچے دلچسپی سے کام کررہے ہیں۔یہ کام Remote Job کہلاتے ہیں بچہ گھر میں رہتے ہوئے بھی کام کرسکتاہے۔پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد کئی گناہ ہے اور انہیں درست سمت کی تلاش ہے ،فلاحی ادارے جدید تعلیم کے فروغ سے بچوں کا اور ملک کا مستقبل محفوظ بنارہے ہیں۔دنیا: آپ کا ادارہ شعبہ تعلیم میں کیا کام کررہا ہے؟ڈاکٹر ٹیپو سلطان: کوہی گوٹھ اسپتال کے ساتھ ہی ملیر یونیورسٹی بھی ہے ۔ کوہی گوٹھ اسپتال فلاحی ہے جو تعلیم کے میدان میں بھی کوششیں کررہاہے تاکہ قوم کامعیار بلند کریں ۔کسی بھی قوم میں تعلیم نہ ہوتومعاشرہ تباہ اور لو گ جاہل رہ جاتے ہیں۔


 تعلیم  حا صل کرنا  ہر بچے کا بنیاد ی حق ہے ہم تعلیم کو اول ترجیح دیتے ہیں اس کے ساتھ ریسرچ پر بھی کام ہورہاہے،میٹرک اور انٹر پاس کو تعلیم کی سہولت فراہم کررہے ہیں ۔نوجوانوں کے پاس تعلیم حاصل کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔اسی صورت حال کے پیش نظر تعلیم کو مفت کرنے کا فیصلہ کیا۔ملیر یونیورسٹی میں قرضہ حسنہ کے طور پر تعلیم دے رہے ہیں۔تعلیم حاصل کرواور چلے جاؤ جب نوکری لگ جائے تو فیس دینا شروع کردو اس پیسے سے دوبار ہ کسی بچے کو تعلیم دیں گے۔ملیر یونیورسٹی میں 200طلباء کی گنجائش ہے ،چار فیکلٹی ہیں ، 94بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، 250بچیاں اسکول میں پڑھ رہی ہیں، 80 بچے مختلف ٹیکنیشن کورسز کررہے ہیں،ان کی فیس نہیں ہیں ۔جس قوم میں تعلیم نہیں ہوتی و ہ سب سے پیچھے رہ جاتی ہے۔


کوہی گوٹھ میں اسکول ہے لیکن پڑھانے کیلئے اساتذہ نہیں ہیں اسکول خالی رہتاہے،وہاں رضاکارانہ طورپر اساتذہ کو بھجتے ہیں کہ جاؤ اور پڑھا کر آجاؤ۔گزشتہ انتخابات میں ہم نے تما م سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا تھا اور ان سے بات کی ان کی ترجیحات میں تعلیم کہیں نہیں،منشور تک میں تعلیم کا نمبرانیس بیس پر آتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہم پر مسلط ہیں یہ لوگ تعلیم کو کچھ نہیں سمجھتے ،غریب او ر متوسط طبقہ اس مہنگائی میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواسکتا ان مسائل کودیکھتے ہوئے تعلیمی سرگرمیوں شروع کیں جو بالکل مفت ہیں۔ دنیا: تعلیم کے کن شعبوں میں کام کررہے ہیں کیا طریقہ کارہے؟فیاض الرحمٰن : احسان ٹرسٹ 2010 سے قائم ہے۔ ضرورت مند طلباء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے سود سے پاک قرضے فراہم کررہے ہیں تاکہ ذہین بچے محض پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محرو م نہ رہیں۔اسلام میں سود حرام ہے اس لیئے بچوں کو سود سے پاک رقم دے رہے ہیں ۔


یہ کسی فرد کا قرضہ نہیں بلکہ تعلیمی قرضہ ہوتاہے،اپنی تعلیم مکمل کریں پیسہ واپس کریں تاکہ یہی پیسہ کسی اور بچے کو دیں،بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن فیسیں اتنی زیادہ ہیں برداشت نہیں کرسکتے اور داخلہ لینا خواہش ہی رہ جاتی ہے ،ایسے بچوں کوداخلے کیلئے سود سے پاک قرضہ فراہم کرتے ہیں ،شروع میں طالب علم سے 500 سے ہزار وپے لیتے ہیں ، باقی رقم پاس آؤٹ ہونے کے بعد 5 سال میں اداکرنے ہوتے ہیں تاکہ یہی رقم کسی دوسرے طالب علم کے کام آئے۔لمس جیسی بڑی یونیورسٹی سے ابتدا کی اب پاکستان کی 160 یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں مہنگی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے بچوں کو قرض حسنہ دے رہے ہیں ۔طااعلیٰ تعلیم کیلئے بچوں کو قرض حسنہ دے رہے ہیں ۔طالب علم کو رقم دینے کیلئے ادارے کے ساتھ ایم او یوسائن کرتے ہیں ۔ طالب علم براہ راست بھی رابطہ کرتاہے تواس کو بھی تعلیمی ادارے کے شعبہ مالیات سے رابطہ کرکے داخلے کی کارروائی شروع کرلیتے ہیں۔یہ سہولت ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے


جمعرات، 17 اپریل، 2025

انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں

   ما رچ    2025 کا مہینہ  انڈونیشیا  کی ٹرانسجنڈر  کمیونٹی کے لئے  ایک بڑے نقصان کا مہینہ رہا  جب ان کی مذہبی  راہنما  اور مدد گار شنتا راتری  ہسپتال میں داخل ہونے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے 60 سال کی عمر میں فوت ہوگئیں ۔ان کی موت کے نقصان کو الفتح اسلامی سینٹر کے ارکان  اب اپنے آپ کو بے یارو مددگار محسوس کر رہے ہیں ۔اور خواتین ٹرانسجینڈر کے واحد اسلامی کمیونٹی سینٹر کا مستقبل خطرے میں ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ٹرانسجینڈرز کے الفتح کمیونٹی سنٹر میں 63 خاتون ٹرانسجینڈرز باقاعدگی سے آتی ہیں اور یہاں وہ عبادت کرتی ہیں، قرآن سیکھتی ہیں، دیگر ہنر سیکھتی ہیں اور یہ جگہ انھیں ان کی شناخت پر وضاحت دیے بنا سماجی طور پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔رینی کالینگ ان خواتین ٹرانسجینڈرز میں سے ایک ہیں۔نور آیو کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمارے لیے ایک روشنی کی مانند رہنما تھیں، اور بطور خاندان سب سے قریب تھیں۔


انڈونیشیا کے مسلمان ٹرانسجینڈرز جو اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں -ہر صبح جاگنے کے بعد، وہ ہینڈ بیگ پکڑ کر تاریخی شہر یوگیکارتا کی سڑکوں پر گھومنے سے پہلے میک اپ اور اپنی پسندیدہ کالی وگ پہنتی ہیں۔وہ روزانہ میلوں پیدل چلتی ہیں، اپنے بلیو ٹوتھ سپیکر سے موسیقی بجاتی ہیں اور روزی کمانے کے لیے گاتی ہیں۔ لیکن اتوار کو وہ دوپہر کو قرآن کا مطالعہ کرنے کے لیے الفتح سینٹر آتی ہیں۔سنہ 2014 سے یہاں آنے والی رینی کہتی ہیں کہ ’یہ وہ محفوظ جگہ ہے جہاں ہم اپنی عبادت کر سکتے ہیں۔‘رینی بچپن میں ہمیشہ لڑکوں کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے میں زیادہ آرام محسوس کرتی تھیں۔ وہ لڑکیوں جیسا لباس زیب تن کرتی، باورچی خانے کے کھلونوں سے کھیلتیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں دلہن بننے کا روپ دھارتی تھیں۔


ٹرانس ویمن کی شناخت اختیار کرنے کے بعد ان کے والدین اور نو بڑے بہن بھائیوں نے ان کی شناخت کو قبول کیا۔ اب سڑکوں پر لوگ انھیں پہنچانتے ہیں جو اسے گاتے اور ناچتے دیکھتے ہیں۔وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں یہاں کی سلیبرٹی ہوں۔رینی نے پہلی مرتبہ ٹرانس خواتین کے لیے الفتح اسلامی سینٹر کا ذکر اپنی ایک دوست سے سنا تھا جو خود بھی مذہبی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس وقت رینی کو یہ علم ہوا کہ ان کی برادری کی تمام خواتین میں ہی ایسا جذبہ موجود ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب کبھی وہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتی تھیں تو اکثر انھیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا، ’لازمی نہیں کہ وہ ہمیں قبول کریں لہٰذا میں نے شنتا راتری کے گھر جانا شروع کر دیا۔‘اس مرکز کی نگران نور آیو کہتی ہیں کہ ’بہت سے اسلامی سینٹرز ٹرانسجینڈرز کو آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن یہاں ہمیں آزادی حاصل ہے، ہم یہاں مرد و عورت یا جس میں بھی پرسکون محسوس کریں اس شناخت کے ساتھ آ سکتے ہیں۔‘شنتا راتری الفتح کمیونٹی سینٹر کے بانیوں میں سے ایک تھیں۔


سنہ 2014 سے ایک مشہور کارکن اور مرکز کی رہنما شنتا راتری نے انڈونیشیا میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کو مزید آگے بڑھانے کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا۔  ان کے بغیر سینٹر ’ویران اور خالی محسوس ہوتا ہے۔‘شنتا راتری کی موت نے کمیونٹی سینٹر کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ عمارت مرحوم رہنما کے خاندان کی ملکیت ہے اور انھوں نے الفتح مرکز کو یہاں سے ختم کرنے کا کہا ہے۔ نور کہتی ہیں کہ ’ہمیں شنتا کے بغیر رہنے کے قابل اور خود مختار ہونا ہو گا۔اسلامک سنٹر کے سیکریٹری، وائی ایس البوچری بتاتی ہیں کہ انھیں مقامی اور عالمی سطح پر کمیونٹی کے دوستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے کچھ تعاون حاصل ہوا ہے۔لیکن انڈونیشیا کے مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں ٹرانس کمیونٹی کی قبولیت بہت مشکل اور محدود ہے۔چار برس قبل پارلیمان سے منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر دوبارہ شور کیوں؟اگر آفس کارڈ نہ ہوا تو مجھے دوبارہ سیکس ورکر سمجھا جائے گا‘ملک میں ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ریاست کبھی ان کی مخالف نہیں رہی اور اس نے انھیں اپنے وجود کی اجازت دی ہے، لیکن وہ براہ راست کوئی مدد فراہم نہیں کرتی ہے۔


انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور میں اسلامی مراکز کے ڈائریکٹر واریونو عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وہ اس مرکز کی حالت زار سے آگاہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لیکن حکام اس سینٹر کی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ریاستی ضوابط کے تحت ایک جائز اسلامی مرکز کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔انھوں نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا سے فون کال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وسیع نقطہ نظر میں ریاست ’تمام مثبت سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہے۔ لوگ عبادت کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کیوں منع کیا جائے؟‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی ٹرانسجینڈرز کی سماجی اور مذہبی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا ہے‘۔ وزارت مذہبی امور کبھی بھی الفتح کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں رہی اور نہ ہی اس کی کسی بھی سرگرمی میں سہولت فراہم کی ہے۔اس سینٹر کی ایک اور رہنما رولی مالے کا کہنا ہے کہ الفتح سینٹر کو جو بھی قانونی حیثیت دی گئی ہے اس کے لیے ہم شکر گزار ہیں۔‘وہ پرامید ہیں کہ ایک دن، ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو انڈونیشیا جیسے متنوع ملک میں زیادہ قبولیت ملے گی اور یہ امید انھیں اور ان کے دوستوں کو مرکز کو چلانے کی ترغیب دیتی  ہے

  آر ٹیکل  انٹرنیٹ سے لیا گیا ہے


منگل، 15 اپریل، 2025

مہاجر نامہ (منور رانا)

 

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں 
نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں 
عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں 
کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں 
پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں 
یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں 
ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں 
گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں 
ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں 
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں 
شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں 
ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں 
بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں 
یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں 
ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں 
مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بڑبڑاتی تھیں
سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں 
وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں 
یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں 
ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں 
وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں 
اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا
جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں 
اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں 
محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں 
محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر
تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں 
ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں 
ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی
وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں 
تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے 
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں 
یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں_
مہاجر نامہ (منور رانا)

اتوار، 13 اپریل، 2025

چرنوبل جوہری پلانٹ کی تباہی-part 3

 

  آج بھی   تباہ شدہ ریکٹر کو مضبوط پتھروں سے چھپا دیا گیاہے ، 30 کلو میٹر پر محیط علاقے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چرنوبل کے قریبی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس حادثے سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ اُس وقت جو لوگ کم عمر تھے ان کی قوت مدافعت کم ہوئی ہے اور وہ اپنی پچھلی دو نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں۔یہ حادثہ اتنا اچانک، بڑا اورہولناک تھا کہ اِس کو دیکھ کر اُس وقت کے سویت یونین کے حکام بوکھلا اٹھے ۔ اُن سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا کہ وہ کیسے اور کب لوگوں اور دنیا کو اِس حادثے کے بارے میں بتائیں۔بعض حکام یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں لوگوں کو اِس خبر سے آگاہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟میڈیا کو یہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جوہری پلانٹ میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ کسی حادثے کی وجہ سے ریڈیو ایکٹو شعائیں خارج ہونا شروع ہوگئی ہیں


۔26 اپریل 1986 کو جوہری ریکٹر میں حادثے کی وجہ سے آسمان پر ریڈیوایکٹو دھویں کے گہرے بادلوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن 29 اپریل کو اس حادثے کے سلسلے میں پہلا سرکاری بیان جاری کیا گیا۔ اِس میں کہا گیا کہ ماحول میں کچھ آلودگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق سویت یونین کے حکام نے قریب کے علاقوں میں تابکاری اثرات محسوس کئے جانے کے بعد ان تنصیبات میں صرف ایک جوہری حادثے کے امکان کا اعلان کیا ۔ایک اخبار کے مطابق حکام کی مجرمانہ بزدلی کی وجہ سے تابکاری علاقے کے ہزاروں لوگ اس حادثے کا نشانہ بنے اور سپاہیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیے بغیر اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے تباہ شدہ جوہری پلانٹ کی طرف روانہ کیا گیا۔


اِس حادثے کے سلسلے میں متعدد تحقیقات کے باوجود ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے کیونکہ اب تک تحقیقاتی ٹیموں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی کے زیر اثر ہونے یا دباﺅ کی وجہ سے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کی وجہ وہاں کے عملے کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بنی ہےلیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں پتا چلا کہ جن قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے انہیں اس حادثے کے بعد قلمبند کر کے قوانین کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جبکہ درحقیقت جوہری ریکٹر کا اصل منصوبہ ہی ناقص تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی مختلف قسم کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔ا


قوام متحدہ نے اُس وقت 9 ہزار افراد کی ہلاکت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کی تصدیق کی تھی۔جبکہ ماحولیاتی ادارے Green Peace نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میںکہا ہے کہ چرنوبل کے جوہری تنصیبات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا یعنی 93 ہزار تک ہو سکتی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ریڈی ایکٹو اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ سب سے زیادہ تابکاری اثرات کی زد میں تھے انہیں سب سے کم اس حادثے کی اطلاع دی گئی۔چرنوبل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقعے Pripyat شہر کے لوگ اس واقعے کے بعد بھی معمول کی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ 36 گھنٹوں بعد اُن کو شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور قریب کے دیہاتوں سے بھی انخلا کا عمل کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ یوکرائن کے دارالحکومت Kiev 


 5  دن  تک تو شہر کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ تابکاری اثرات کی زد میں آ چکے  ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج 20برس گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگ Chest اور Blood کینسر کے علاوہ مختلف قسم کے سرطانوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور پیدائش کے وقت بچوں کی اموات کے کیس سامنے آرہے ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ان تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا کیونکہ ملکی حکام اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان بڑھتی ہوئی خوفناک بیماریوں کی وجہ چرنوبل کے جوہری پلانٹ میں 20 برس قبل ہونے والا دھماکہ ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر