پیر، 31 مارچ، 2025

گزشتہ 2 برس میں 2 لاکھ مزدور طبقہ بیروزگار ہوا ہے

 


پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چوہدری سلامت علی کے مطابق اب تک ٹیکسٹائل انڈسٹری میں مختلف یونٹس کے بند ہونے سے ڈیڑھ سے 2 لاکھ مزدور بے روزگار ہوئے ہیں-پھر ایک اور انڈسٹریل یونٹ بند ہونے سے 900 محنت کش بے روزگار ہو گئے۔  گزشتہ 2 برس کے دوران   لاتعداد  انڈسٹریز بند ہو چکی ہیں  ۔اس حوالے سے پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق طیب کہتے ہیں کہ 40 فیصد پیداوار میں کمی کا یہ مطلب نہیں کہ آدھی انڈسٹری بند ہوچکی ہے بلکہ مختلف انڈسٹریوں کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں جس میں مختلف عوامل شامل ہیں۔خبر کیا ہے؟ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے میڈیا پر خبریں اس وقت سامنے آئیں جب اس شعبے کے ایک بڑے ادارے نے اپنے دوسرے انڈسٹریل یونٹ کو بند کردیا    100 سےزائد ٹیکسٹائل ملز بند ہونے کی خبریں، حقیقت کیا ہے؟


پچھلے کچھ دنوں سے میڈیا پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بندش کا بہت چرچا ہورہا ہے اور لوگ اس حوالے سے تشویش کا شکار دکھائی دیتے ہیں کہ 100 سے زیادہ ٹیکسٹائل ملز بند ہونے سے ہزاروں، لاکھوں بے روزگار ہوجائیں گے۔اس حوالے سے ہم نے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگوں سے رابطہ کیا جنہوں نے اس شعبے کی مشکلات  کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مختلف انڈسٹریل گروپس کے کچھ یونٹس بند ہوئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ سارا ٹیکسٹائل سیکٹر بند ہوگیا ہے-انہوں نے بتایا کہ اگر کسی انڈسٹری کا ایک یونٹ بند ہو تو اس سے یہ قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ تمام کی تمام انڈسٹری بند ہوچکی ہے۔۔اگر گزشتہ مالی کے اعداد و شمار کودیکھا جائے تو اس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات 0.93 فیصد اضافہ ہوا جو 16.55 ارب ڈالررہیں جبکہ اس سے پچھلے برس یعنی مالی سال 23-2022 میں یہی برآمدات 16.50 ارب ڈالر تھیں۔

 تاہم گزشتہ 2 برسوں سے قبل یہی برآمدات کورونا کے بعد 22-2021 میں زبردست اضافے کے سبب 19.3 ارب ڈالر تک بھی گئیں تھیں۔ یعنی مالی سال 22-2021 کے مقابلے میں گزشتہ 2 سالوں کی برآمدات میں کمی تو آئی ہے لیکن گزشتہ برس اس میں دوبارہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔کیا ستارہ ٹیکسٹائل بند ہوگئی ہے؟ستارہ ٹیکسٹائل مل کا شمار پاکستان کے چند بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ یہ گرو1956 میں ٹیکسٹائل پروسیسنگ کے ساتھ شروع ہوا اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے ایک معروف صنعت بن گیا اور اب ایک گروپ آف انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ستارہ ٹیکسٹائلز مقامی مارکیٹ کو سپلائی کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مارکیٹوں کو کی جانے والی برآمدات میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ستارہ گروپ آف انڈسٹری بند نہیں ہوئی،بلکہ  ان کے 2 یونٹس بند ہوئے ہیں۔

ستارہ ٹیسکٹائل کے 2 یونٹ بند ہونے کے بعد میڈیا میں کچھ خبروں سے یہ تاثر ملا کہ جیسے ستارہ ٹیکسٹائل مل مکمل طور پر بند ہوچکی لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ستارہ گروپ میں شامل دیگر تمام یونٹس کام کررہے۔روزگار کی فراہمی میں ٹیکسٹائل کا حصہ ٹیکسٹائل پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ پاکستان میں مینوفیکچرنگ سیکٹر تقریباً 1 کروڑ 18 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے جس میں سے ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 40 فیصد تک ہے۔ یعنی 40 لاکھ سے زائد افراد اس شعبے میں کام کرتے ہیں۔پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی ترقی کرنا شروع کردی تھی اور یہ آج بھی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شعبہ ایک طویل عرصے سے پاکستانی معیشت کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ڈالتا چلا آرہا ہے۔


قیامِ پاکستان کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بنیادی ڈھانچہ بہت محدود تھا۔ اس وقت پاکستان میں کپڑا بنانے کے چند ہی کارخانے تھے، جو زیادہ تر چھوٹے پیمانے پر کام کررہے تھے۔ تاہم جلد ہی اس صنعت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی ترقی کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں اور اولین 2 دہائیوں میں اس انڈسٹری نے بہت تیزی سے ترقی کی۔1950 اور 1960 کی دہائی میں کئی بڑی ٹیکسٹائل ملز کا قیام عمل میں آیا اور یہ سلسلہ اگلی کئی دہائیوں تک بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی اور مختلف مراعات فراہم کیں، جس سے اس شعبے نے مضبوطی اختیار کی۔ تاہم موجودہ دور میں پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں توانائی کے بحران، سیاسی عدم استحکام، شرح سود میں اضافہ اور عالمی منڈی میں سخت مقابلہ شامل ہیں۔پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری پربحران کے کچھ ادوار1990 کی دہائی میں بجلی اور گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی کمی کی وجہ سے پیداوار میں کمی آئی اور برآمدات پر منفی اثرات مرتب  ہوئے

اتوار، 30 مارچ، 2025

30 سال میں بنایا گیا مندر اسکول بن گیا

 

اس مندر کی تعمیرکا سنگ بنیاد راولپنڈی ہی کے ایک رہائشی لالہ کلیان داس نے 1850 کی دہائی میں رکھا تھا اور اس کی تعمیر پر 30 برس لگ گئے تھے۔تقسیم ہند کے بعد یہ مندر کئی برس  تک  بے کار رہا پھر اسے سنہ 1956 میں اسے محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا گیا اور سنہ 1958 میں یہاں بیگم فاروقی نامی ایک خاتون نے بصارت کے محروم بچوں کی تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔  اب کئی دہائیوں سے یہاں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم دی جا رہی ہے -اسکول  کے پرنسپل نور حسین اعوان خود بھی پیدائشی طور بصارت سے محروم ہیں  تاہم وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر صحیح رہنمائی، والدین اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی میسر ہو تو نابینا افراد بھی معاشرےمیں عام افراد کی طرح تخلیقی و تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں۔اب اسکول کا نام  گورنمنٹ قندیل سکینڈری سکول ہےخیال رہے کہ 15 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سفید چھڑی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔نور حسین اعوان نے بتایا کہ عوام میں بصارت سے محروم بچوں کی تعلیم کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے 


 لوگوں کو اس بارے میں علم ہی نہیں ہے کہ بصارت سے محروم بچے بھی اعلیٰ تعلیم کا حاصل کر سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ 20، 22 سال کی عمر کے افراد کے والدین ہمارے پاس آئے ہیں کہ انھیں لکھنا پڑھنا سکھا دیا جائے۔‘نور حسین اعوان بتاتے ہیں کہ انھوں نے بھی ابتدائی تعلیمی دور میں سخت مشکلات کا سامنا کیا لیکن والدین نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگوے کے ناول ’اولڈ مین اینڈ دی سی‘ کے اس جملے سے بے حد متاثر ہیں کہ 'انسان کو تباہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔' اور ان کے بقول اسی جملے نے انھیں زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کیا۔ لیکن  ان کی والدہ  نے ہمت  نہیں ہاری  وہ انھیں روزانہ تقریباً 20 کلومیٹر کا سفر کر کے سکول لے کر جاتیں اور چھٹی کے وقت تک سکول کے دروازے کے باہر بیٹھی ان کا انتظار کرتی رہتی تھیں۔نور حسین اعوان کہتے ہیں کہ ’میری والدہ نے تقریبا ایک سال ایسا ہی کیا،

اگروہ یہ ایک سال تک یہ مشقت نہ کرتیں تو آج میں جس مقام پر ہوں یہاں تک کبھی نہ پہنچ پاتا۔‘وہ کہتے ہیں کہ نابینا بچوں کو اکثر والدین بوجھ سمجھتے ہیں اور ان میں اس بچوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کے حوالے سے کمیونٹی سپورٹ خاص طور پر اہم ہے۔خصوصی ضروریات والے بچوں کے والدین اکثر قابل ذکر لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں، صحت کی دیکھ بھال کے پیچیدہ نظام کی نگرانی کرتے ہیں، اپنے بچوں کے حقوق کی وکالت کرتے ہیں، اور دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کا انتظام کرتے ہیں ان  کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین اپنے چیلنجنگ تجربات کے ذریعے ذاتی ترقی اور غیر مشروط محبت اور قبولیت کی گہری سمجھ کی اطلاع دیتے ہیں۔حکومت پاکستان نے سندھ معذوری ایکٹ جیسے قانون سازی اور پالیسی اقدامات کے ذریعے معذور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ تاہم، عمل درآمد متضاد ہے، اور بہت سے خاندان اپنے حقوق سے ناواقف ہیں۔سندھ میں کئی این جی اوز اہم خدمات فراہم کرتی ہیں جن میں ابتدائی پروگرام، پیشہ ورانہ تربیت، اور وکالت شامل ہیں۔


 پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لرننگ اینڈ لیونگ (PILL) اور کراچی ڈاؤن سنڈروم پروگرام (KDSP) جیسی تنظیمیں خاندانوں کے لیے خصوصی مدد اور وسائل پیش کرتی ہیں۔بین الاقوامی تنظیمیں اور عطیہ دہندگان صلاحیت کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال کی پیشہ ورانہ تربیت، اور جامع تعلیمی پروگراموں کے ذریعے سندھ میں خصوصی ضروریات کے بچوں کی مدد میں تعاون کرتے ہیں، جس کا مقصد طلب اور خدمات کی دستیابی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔اندرون سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک ماں عائشہ، محدود وسائل کے باوجود دماغی فالج کے شکار اپنے دس سالہ بیٹے کی زبردست وکیل ہے۔ اس نے دوسرے والدین کے ساتھ ایک مقامی سپورٹ گروپ بنایا ہے اور خصوصی طبی دیکھ بھال کے لیے باقاعدگی سے کراچی کا سفر کرتی ہے-


عائشہ کی کہانی رسمی خدمات کی عدم موجودگی میں والدین کی وکالت اور کمیونٹی سپورٹ کے اہم کردار کو اجاگر کرتی ہے۔اس کے برعکس  کراچی میں ایک باپ بلال کو آٹزم میں مبتلا اپنی بیٹی کے لیے مزید جامع وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ وہ مختلف این جی اوز کی خدمات سے استفادہ کرتا ہے اور اپنی بیٹی کو خصوصی تعلیمی پروگرام کے ساتھ ایک نجی اسکول میں داخل کرایا ہے۔ بلال کا تجربہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان خدمات تک رسائی میں تفاوت کو واضح کرتا ہے۔میڈیا مہموں، کمیونٹی ورکشاپس، اور اسکول کے پروگراموں کے ذریعے اسپیشل بچوں کے بارے میں عوامی بیداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد اور معلمین کے لیے جاری تربیت معذور بچوں کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تشخیص اور مداخلت کے لیے معیاری پروٹوکول کا نفاذ اسپیشل بچوں کی بروقت اور مناسب دیکھ بھال کو یقینی بنا سکتا ہے۔


ہفتہ، 29 مارچ، 2025

میانمار کا تباہ کن زلزلہ مارچ 2025

 میانمار میں جمعے کو آنے والے شدید زلزلے کے سبب اب تک 1600 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے-تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں خوفناک زلزلے سے متعدد عمارتیں تباہ ہوگئیں ، میانمار میں پل اور ڈیم بھی تباہ ہوگیا ، شدت 7.7ریکارڈ،  بنگلا دیش، بھارت، لاؤس اور چین میں بھی زلزلہ ۔ میانمار میں حکام کے مطابق زلزلے سے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے ، زلزلے سےمیٹرواور ریل سروس معطل کردی گئی، تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں زیر تعمیر کثیر المنزلہ عمارت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں وہاں 7افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ، بینکاک میں مجموعی طور پر8ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں ۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق میانمار میں جمعے کے روز7.7اور6.4کی شدت کے یکے بعد دیگرے2زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔


 امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی شدت7.7محسوس کی گئی، جس کا مرکز میانمار میں 10کلومیٹر زیرِ زمین تھا۔میانمار میں آنے والا زلزلہ اتنا شدید تھا کہ اس نے تقریباً 900کلومیٹر دور بنکاک میں بھی بلند و بالا عمارت کو ڈھیر کر دیا۔ زلزلے کے جھٹکوں سے متاثرہ عمارتوں کے منہدم ہونے کے مناظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیے جو سوشل میڈیا پر وائرل پر وائرل ہو رہے ہیں۔امریکی ماہرین ارضیات کے مطابق یہ ایک صدی سے زائد عرصے میں میانمار میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ تھا ا زلزلے کے نتیجے میں 1000 سے زائد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں، ایسے میں ایلون مسک نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایسی صورتحال میں اسپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک کی جانب سے بھی مدد کی پیشکش کی گئی ہے۔ایلون مسک نے اسٹارلنک کٹ فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں رابطے بحال کرنے میں مدد مل سکے۔


مسک کا اپنی سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہنا تھا کہ ”میانمار اور تھائی لینڈ میں زلزلے سے ہونے والے نقصان پر دکھی ہوں، اسپیس ایکس کی ٹیم اسٹارلنک کٹس فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ مواصلاتی ضروریات اور امدادی کارروائیوں میں تعاون کیا جا سکے۔واضح رہے کہ اسٹارلنک ایک سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس ہے جو دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے، جہاں انٹرنیٹ کی رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میانمار میں آنے والے 7.7 شدت کے زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی جس کے اثرا بنکاک تک دیکھے گئے۔


عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق زلزلے کا مرکز میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈلے کے قریب تھا اور جس کی گہرائی زمین میں 10 کلومیٹر تک تھی۔زلزلے میں متعدد رہائشی عمارتیں گر گئیں اور سیکڑوں افراد ملبے تلے دب گئے جب کہ  متاثرہ شہروں  کا انفرا اسٹریکچر بری طرح تباہ ہوگیا۔میانمار کی فوجی حکومت نے چھ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے عالمی برادری اور تنظیموں سے مدد کی درخواست کی ہے-زلزلے میں ایک مسجد کا کچھ حصہ بھی منہدم ہوگیا جس کے نتیجے میں 3 نمازی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ امدادی کاموں کے دوران لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ تعداد ایک ہزار سے دس ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے۔بنکاک میں بھی فلک بوس عمارتیں لرز اُٹھیں۔ لگژری ہوٹلز کی چھت پر بنے سوئمنگ پول کا پانی آبشار کی طرح زمین پر گرنے لگا۔


میانمار کے شمالی اور جنوبی علاقوں کے بیچ میں 1200 کلومیٹر سے بھی زیادہ کی ایک دراڑ موجود ہے جسے 'ساگائنگ فالٹ' کہا جاتا ہے۔بنکاک میں زلزلے کے باعث صرف ایک عمارت کیوں زمین بوس ہوئی؟زلزلے کے بعد بنکاک سے جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا تھا کہ زمین کی حرکت کے سبب سوئمنگ پولز میں سے پانی باہر چھلک رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں صرف ایک ہی عمارت منہدم ہوئی جو کہ آڈیٹر جنرل کا زیرِ تعمیر دفتر تھا۔امپیریل کالج لندن سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر کرسچن ملاگا کہتے ہیں کہ سنہ 2009 سے پہلے بنکاک میں عمارتیں تعمیر کرتے وقت زلزلوں کے خلاف حفاظتی اقدامات کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا-خیال رہے زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں پر عام عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے، لیکن میانمار کے مقابلے میں تھائی لینڈ میں زلزلے کم ہی آتے ہیں۔


بدھ، 26 مارچ، 2025

زندگی کی نئ امید - عمیر ثناء فاؤنڈیشن

 

 ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن -ڈاکٹر ثاقب انصاری کی سرپرستی میں قائم عمیر ثناء فاؤنڈیشن نہ صرف مختلف فلاحی کاموں میں سرگرم ہے بلکہ اس کا سب سے اہم مشن تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کی زندگیوں میں امید کی روشنی بکھیرنا ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں منعقد ہونے والی خون عطیہ کرنے کی خصوصی تقریب… جو کئی برسوں سے جاری ہے… اس مشن کا ایک خوب صورت لمحہ ہے، جس میں نہ صرف خون کا عطیہ بچوں کے لیے، لیا جاتا ہے بلکہ تھیلے سیمیا کے شکار بچے اور ان کے والدین بھی اس تقریب میں موجود ہوتے ہیں جنہیں خوبصورت تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ چند صحافیوں کے خلوص سے شروع ہونے والا یہ کارِ خیر آج ایک اہم روایت بن چکا ہے۔ تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کے چہروں پر جو خوشی اور مسرت اس تقریب کے ذریعے آتی ہے، وہ کسی بھی لفظی بیان سے بالاتر ہے۔ امسال بھی یہ تقریب عمرثناء فاونڈیشن سے متصل مقامی ہال میں منعقد ہوئی جس میں صحافیوں سمیت مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔انسانی زندگی میں خون کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسے نہ کسی فیکٹری میں تیار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی فصل کاشت کی جاسکتی ہے۔


 یہ ایک ایسا عطیہ ہے جو اگر کوئی دیتا ہے تو کسی نہ کسی انسان کی زندگی بچا رہا ہوتا ہے۔ یہ جسم کے ہر حصے میں آکسیجن اور غذائی اجزاء پہنچانے کے ساتھ ساتھ فاسد مواد کو خارج کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر سال ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ انسانی جان بچانے والے اس اہم ترین عطیے کو دینے کا پاکستان میں رجحان بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس میں ہر سال چھے ہزار بچوں کا اضافہ ہورہا ہے۔تھیلے سیمیا ایک موروثی بیماری ہے جس میں خون کے سرخ خلیے صحیح طریقے سے نہیں بنتے، جس کی وجہ سے مریض کو زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ بیماری بنیادی طور پر والدین سے بچوں میں جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں۔ اس کے مریض میں کوئی خاص علامات نہیں ہوتیں، اور یہ صرف خون کے معمولی معائنے میں ظاہر ہوتی ہے۔تھیلے سیمیا میجر سے متاثرہ بچے میں پیدائش کے چھے ماہ بعد اس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ ان بچوں کے جسم میں خون کے سرخ خلیے یا ہیموگلوبن بنانے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔ اگر مسلسل خون کی منتقلی نہ ہو اور ادویہ نہ ملیں تو ان کی ہڈیوں کی ساخت تبدیل ہونے لگتی ہ


ے، اور وہ دیگر بچوں کے مقابلے میں جسمانی نشوونما میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔یہ بچے زندگی کے ابتدائی دس سالوں میں ہی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے ہر ماہ ہیموگلوبن چیک کروانا ضروری ہوتا ہے، تاکہ وقت پر خون کی منتقلی کی جاسکے۔ یہ عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور مریض کو مسلسل جسمانی اور ذہنی دباؤ میں رکھتا ہے۔چونکہ تھیلے سیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے، اس لیے ڈاکٹر ثاقب انصاری کے مطابق اس سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اقدام شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروانا ہے۔ اگر میاں بیوی تھیلے سیمیا مائنر ہوں تو ان کے بچوں میں تھیلے سیمیا میجر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔حالیہ میڈیکل ریسرچ کے مطابق تھیلے سیمیا کے مستقل علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک مؤثر طریقہ ہے، لیکن یہ ایک مہنگا اور پیچیدہ علاج ہے، جو ہر مریض کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا خون کی مسلسل منتقلی ہی اس بیماری کا عام علاج ہے۔ہر سال ہزاروں بچے بیٹا تھیلے سیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور انہیں زندگی بھر خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔


 نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، 15 سے 49 سال کی عمر کی 57 فیصد خواتین اور چھے ماہ سے پانچ سال کی عمر کے 67 فیصد سے زائد بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق، اگر بچوں کا ہیموگلوبن لیول 7 گرام فی ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے تو اسے خون کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمیر ثناء فاؤنڈیشن کی اس کاوش اور تحریک کو آگے بڑھایا جائے اور خون کا عطیہ کرنے کے جذبے کو اپنے دیگر منصوبوں اور ترجیحات کی طرح اہمیت دی جائے۔ خون کا عطیہ جہاں ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، وہیں دینے والے کی صحت کے لیے بھی بہت مفید عمل ہے۔ ماہرین کے مطابق صحت مند افراد ہر تین سے چار ماہ بعد خون عطیہ کرسکتے ہیں، اور اس کا صحت پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خون عطیہ کرنے سے جسم کمزور ہوجاتا ہے، حالانکہ یہ تصور غلط ہے۔ اس سے صحت پر منفی کے بجائے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ دیے جانے والے خون کی کمی تین دن کے اندر پوری ہوجاتی ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ہر انسان کے اندر تقریباً ایک لیٹر یا 2 سے 3بوتلیں اضافی خون ہوتا ہے اور 56 دن کے اندر خون کے 100فیصد خلیے دوبارہ تیار ہوجاتے ہیں۔ اور بات صرف اتنی سی نہیں ہے بلکہ خون کے یہ خلیے پرانے خلیوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہوت


ے ہیں۔ نیا خون بننے کے عمل سے قوتِ مدافعت بڑھتی ہے، مٹاپے میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، اور کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خون عطیہ کرنے والے افراد میں دل کی بیماریوں اور ہائی بلڈ پریشر کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔جو لوگ اچھی صحت کے حامل ہوں، جن کی کم سے کم عمر 17 اور زیادہ سے زیادہ 50سال ہو (خواتین کی عمر کم سے کم 18 سال ہو)، وزن کم سے کم 110 پائونڈ ہو، پچھلے 56 دن سے خون نہ دیا ہو، انہیں فوراً خون دینا چاہیے۔ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ ہمیں دینا چاہیے۔دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کو دلی سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے، جو ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ہے-اسی پس منظر میں، چند سال قبل ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ طبِ نفسیات کے سابق سربراہ نے ایک نہایت بصیرت افروز بات کہی تھی، جو آج بھی دل و دماغ پر دستک دیتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:زندگی میں دینا سیکھیں۔ کسی کو پیسہ دیں، کسی کو وقت، کسی کو مشورہ، کسی کو راستہ، کسی کو علم…بس دینے کا عمل شروع کریں۔ دینے کی صفت دراصل اللہ کی صفت ہے، اور جب آپ دینا شروع کردیتے ہیں تو آپ کی نسبت الرحمٰن سے جُڑ جاتی ہے۔ پھر نہ آپ مایوسی کا شکار ہوتے ہیں، نہ ہی ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ آپ دوسروں کو نوازیں گے، اتنا ہی آپ کی زندگی میں خوشیاں بڑھتی جائیں گی۔ بس ایک عہد کرلیں کہ ہر مہینے کسی نہ کسی کو کچھ ضرور دینا ہے۔“آیئے، ہم بھی ایک ایسا عہد باندھیں جو کسی کی زندگی کا چراغ جلا سکے۔ اگر سال میں دو مرتبہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک بار خون کا عطیہ ضرور دیں۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں، جب تھیلے سیمیا کے مریض معصوم بچوں کو خون کی شدید قلت کا سامنا ہوتا ہے، ہم ان کے لیے زندگی کی ایک نئی امید بن سکتے ہیں۔ کیونکہ دینے والے ہاتھ ہمیشہ بھرتے ہیں، کبھی خالی نہیں رہتے۔

منگل، 25 مارچ، 2025

شیخ صدوق چوتھی صدی ہجری کے مایہ ناز محدث

  

 محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی (305۔381 ھ)، شیخ صدوق کے نام سے معروف چوتھی صدی ہجری کے شیعہ علماء میں سے تھے۔ آپ کا شمار شہر مقدس قم کے مایہ ناز محدثوں میں ہوتا ہے اور تقریبا 300 سے زائد علمی آثار کی آپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن میں سے اکثر آج ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ کتاب من لایحضرہ الفقیہ شیعوں کی معتبر ترین کتب اربعہ میں سے ایک ہے جو آپ کے دست مبارک سے لکھی گئی ہے۔ ان کے دیگر علمی آثار میں معانی الاخبار، عیون الاخبار، الخصال، علل الشرائع و صفات الشیعہ کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے۔ان کے مشہور ترین شاگردوں میں سید مرتضی، شیخ مفید اور تلعکبری شامل ہیں۔ شیخ صدوق ایران کے ایک تاریخی شہر، شہر ری جو تہران کا جڑواں شہر ہے، میں مدفون ہیں۔


۔ ولادت -شیخ صدوق کی دقیق تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن جو چیز آپ کی کتاب کمال الدین و تمام النعمہ اور شیخ طوسی کی کتاب غیبت اور نجاشی کی الفہرست سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عَمْری کی رحلت اور امام کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے نیابت کے ابتدائی سالوں میں متولد ہوئے ہیں۔خود شیخ صدوق ابوجعفر محمد بن علی بن اسود سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد گرامی علی بن حسین بن موسی بن بابویہ (جنہیں صدوق اول بھی کہا جاتا ہے) محمد بن عثمان عَمْری (دوسرا نائب خاص امام زمانہ) کی رحلت کے بعد ابوجعفر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حسین بن روح نوبختی (تیسرا نائب خاص امام زمانہ) سے کہہ دیں کہ امام زمانہ(عج) سے دعا کی درخواست کریں کہ خدا مجھے کوئی بیٹا عطا کرے۔ ابوجعفر کہتا ہے کہ میں نے ان کی درخواست حسین بن روح تک پہنچائی۔


 تین دن کے بعد حسین بن روح نے مجھ سے کہا کہ امام زمانہ(عج) نے علی بن حسن (شیخ صدوق کے والد گرامی) کیلئے دعا کیا ہے اور انشاء اللہ خدا ان کو ایک بیٹا عنایت کرے گا۔ او خدا اس بیٹے کے ذریعے ان کو دنیا اور آخرت میں نفع حاصل ہو گا  -شیخ صدوق نے قم میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ 20 سال زندگی کی اور اپنے والد اور دیگر علماء سے اس عرصے میں کسب فیض کیا اس کے بعد شہر ری کے مکینوں کی درخواست پر وہاں چلے گئے۔ شہر ری میں باوجود اس کے کہ وہ جوانی کی عمر میں تھے لیکن ان کی چرچے چاروں طرف پھیلنے لگے۔ وہاں پر کچھ مدت رہنے کے بعد وہاں کے والی کی اجازت سے امام رضا(ع) کی زیارت کی غرض سے مشہد مقدس کی طرف سفر پر نکل پڑے اور وہاں سے واپسی پر نیشاپور میں ساکن ہوئے اور وہاں کے بزرگوں نے ان سے کسب فیض کرنا شروع کیا۔ یوں انہوں نے قم سے جانے کے بعد شہر ری، استرآباد، جرجان، نیشابور، مشہد، مروروذ، سرخس، ایلاق، سمرقند، فرغانہ، بلخ، ماوراء النہر، ہمدان، بغداد، کوفہ، فید، مکہ اور مدینہ کی طرف مسافرت کی۔



حسب و نسب-شیخ صدوق کے والد گرامی علی بن حسین اپنے زمانے کے مشایخ، ثقہ (مورد اعتماد)، فقیہ اور شہر مقدس قم کے مراجع میں سے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ کے زمانے میں مایہ ناز علماء اور محدثین کی کثیر تعداد شہر قم میں موجود تھے لیکن آپ کو ان سب میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اتنے علمی مقام اور جہان تشیع کے مرجع تقلید ہونے کی باوجود آپ قم میں ایک چھوٹے سے دکان پر نہایت سادگی، پاکدامنی اور قناعت کی زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے علم کے مختلف شعبوں میں کتابیں اور مقالہ جات تحریر فرمایا ہے جنہیں شیخ طوسی اور نجاشی نے ذکر کیا ہے۔ ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں کہتا ہے: "کسی کتاب کی جلد پر میں نے دیکھا کہ ان کے بیٹے اپنے قلم سے لکھا تھا کہ میرے والد گرامی کی کتابیں جو 200 عدد ہیں اور میری اپنی کتابیں جو 18 عدد ہیں "


  وفات

شیخ صدوق سنہ 381 ہجری قمری کو 70 سال کی عمر میں شهر ری میں وفات پائی اور وہیں پر دفن ہوئے۔ ان کی قبر آج شہر ری میں موجود قبرستان ابن بابویہ نامی قبرستان میں موجود ہے جہاں زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ سنہ 1238 ہجری شمسی کو سیلاب کی وجہ سے ان کی قبر میں شگاف پڑگیا تھا اور کئی صدیاں گذرنے کے بعد بھی انکی لاش صحیح و سالم دیکھ کر لوگوں کی حیرت کا باعث بن گئی اس کے بعد فتح علی شاہ قاجار کے زمانے میں ان کے قبر کی تعمیر و توسیع ہوئی۔ علمی کارنامے-علم رجال کے ماہرین کی ان کے بارے میں سفارش-شیخ طوسی فرماتے ہیں: "محمد بن علی بن حسین، حافظ احادیث، فقہ اور رجال سے آگاہ اور حدیث شناس تھے۔ حفظ اور کثرت علم میں قمی علماء میں ان کی مثال نہیں ملتی ہے"ہمارے شیخ اور فقیہ جب بغداد میں آئے تو باوجود اس کے کہ وہ کم سن تھے لیکن اس وقت کے علماء اور فقہاء ان سے حدیث سنتے تھے۔  آپ کے اساتیدشیخ صدوق نے مختلف شہروں کے مختلف حفاظ اور بزرگان سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ ان کی تعداد 260 تک پہنچتی ہیں۔ 


پیر، 24 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ'ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیورسٹی-part'6

 

لیکن اگر آ پ انہیں زور اور جبر سے روکیں گے تو اس سے بغاوت پیدا ہوگی۔ جامعات کا تو کام ہی طلبا کو بحث و مباحثے کا کُھلا ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے علم کی تلوار سے خراب آئیڈیاز کو کاٹ کر ختم کرسکیں ۔ طلبا یونین آئیڈیاز پر بحث و مباحثے اور اچھے آئیڈیاز کے فروغ کے لیے ایک مثبت پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں طلبا یونین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے اس کا اصل مقصد فوت ہوگیا- سیاست کرنا گندا کام نہیں ہے، لیکن سیاست کے نام پر تشدد کرنا، غلط کام ہے، بدمعاشی کرنا گندا کام ہے، یونیورسٹی کے سسٹم پر کنٹرول حاصل کرنا گندا کام ہے۔ایکسپریس: پوائنٹس جامعہ کراچی کا دیرینہ مسئلہ ہے، جامعہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل پر آپ کا کیا کہنا ہےڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں 41ہزار طلبا زیرتعلیم ہیں،


 ان سب کو گھر سے لانا اور لے جانا انتظامی طور پر ممکن نہیں ہے۔ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جو ایک ارب اسی کروڑ کی گرانٹ دی گئی ہے اس میں پوائنٹس کے لیے دس بسیں بھی شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو انحطاط پوری جامعہ کراچی پر آیا اس کے اثرات ٹرانسپورٹ پر بھی مرتب ہوئے۔ پوائنٹس چلانے میں ماہانہ خرچہ ساڑھے تین کروڑ اور ریکوری پچاس لاکھ روپے سے بھی کم ہے۔ اس میں ہونے والی کرپشن کو روکنا ہماری ترجیح تو ہے لیکن ابھی اولین ترجیح اس سے بڑے معاملات میں کرپشن کو روکنا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ آپ کو گھر سے لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ دی جائے گی، نوکری دی جائے گی۔آپ نے پڑھنے کے لیے داخلہ لیا ہے تو یونیورسٹی پہنچنا آپ کی ذمے داری ہے، ہاں یونیورسٹی کے اندر شٹل سروس کی فراہمی یونیورسٹی کی ذمے داری ہے ۔


 میری ان باتوں کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم پوائنٹ کی سہولت ختم کر رہے ہیں، لیکن ہم ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ نہیں اور اکتالیس ہزار لوگوں کو لانے لے جانے کے لیے چار سے پانچ ہزار بسیں چاہییں۔ اسے مینیج کرنا، اس میں کرپشن کو روکنا کراچی یونیورسٹی کا کام نہیں ہے۔ایکسپریس: گذشتہ چند سالوں سے جامعہ کراچی کے طلبہ میں انتہاپسندی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ طلبا کو صحت مند سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر جامعہ میں انتہاپسندی کا تدارک کیا جاسکتا ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: آپ کا سوال ہمارے ساتھ کچھ زیادتی ہے، یہ سیدھا سیدھا ہم پر الزام ہے۔ کراچی میں جتنی انتہاپسندی ہے جامعہ کراچی میں اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں ان الزامات پر جو لوگ پکڑے گئے وہ جامعہ کراچی کے مستقل نہیں بلکہ پاس آؤٹ کرجانے والے طلبا تھے۔ 


جامعہ کراچی چار سال پہلے پاس آؤٹ کر جانے والے طلبا کی سرگرمیوں کی ذمے دار نہیں ہے۔ ہم نے طلبا کو مختلف مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا شروع کردیا ہے، ہماری اسٹوڈنٹ باڈی، ڈبیٹ کروا رہی ہے، فنکشن کروارہی ہے، ادبی سرگرمیاں کروا رہی ہے، ہم کھیلوں کے ایونٹ منعقد کروا رہے ہیں، پہلے یہ کام سیاسی تنظیموں کے طلبہ ونگ کرتے تھے لیکن ہم نے آہستہ آہستہ ان سے درخواست کی کہ آپ کو جو بھی کام کرنا ہے وہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے کریں اور اس میں ہمیں خاطر خواہ کام یابی ملی ہے۔ جب ہم جامعات کی سطح پر طلبا کو مثبت سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں گے تو پھر اگر جامعات میں انتہاپسندی ہے بھی تو وہ ختم ہوجائے گی۔ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے؟


ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے ایم ایس سی کیا تو اس زمانے میں اسٹاف کلب کا بڑا اچھا ماحول ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادیب وہاں آتے تھے۔ اس ماحول میں ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ پھر جب ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر جتنے بھی بڑے ادیب تھے، میکسم گورکی، دوستو فسکی، سمر سیٹ موم، ٹالسٹائی، الیگزینڈرا پشکن، جارج ایلیٹ، اور دیگر کئی ادیبوں کو پڑھ ڈالا۔ ہمارا ادب پڑھنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ بس بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا تو پھر پوری کلیکشن پڑھ کر آگے بڑھتے تھے۔ 1975 سے1980تک پانچ سال بہت ادب پڑھا، لیکن جب پی ایچ ڈی کرنے گئے تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔ایکسپریس: آپ کا پسندیدہ شاعر اور ادیب کون ہے؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پسندیدہ ادیبوں کے حوالے ذہن میں سب سے پہلا نام دوستوفسکی کا آتا ہے، اس کے علاوہ سمر سیٹ موم، الیگزینڈر

یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش عوام پر ظلم کا ایک اور باب کھلا

 

جناب زولفقار علی بھٹو نےنے 50 سال قبل یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن قائم کی تھی۔بلاول بھٹو نے یوٹیلٹی استورز کی بندش کے معاملے پر اپنے شدید تحفظا ت کا اظہار کرتے ہوئے کہا  کہ ملک کے لوگوں کو سستی اشیا خوردونوش فراہم کرنے کے لیے ریلیف کا کوئی اور ادارہ نہیں ہے اور موجودہ مہنگائی میں یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کرنے کا فیصلہ غیر مناسب اور ظالمانہ ہے

 پاکستان پیپلز پارٹی نے یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کی بندش کا فیصلہ سراسر افسوسناک اور ظالمانہ ہے۔میڈیا سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ حکومت کا یوٹیلیٹی سٹورز بند کرنے کا فیصلہ  انتہائی افسوسناک ہے، ایسے فیصلے کرنے سے پہلے غور و فکر، بحث اور عوامی مشکلات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ اگر حکومت واقعی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے تو اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لے-امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹورز کے 1700 شاخیں بند کرنے کے اعلان پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کا ادارہ 1971میں قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا،مگر حکمرانوں نے اداروں سے کرپشن کا خاتمہ اوران کو منافع بخش بنانے کے بجائے ان اداروں کو بند کرنا یا بیچنا شروع کر دیا ہے۔




 یہ دور جس میں عام آدمی کی کمر مہنگائ کے بوجھ سے پہلے ہی دہری ہوچکی ہے ایسے میں ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کر دینا کتنا سخت ہے اس کو حکومت کو سمجھنا چاہئے  --  صورتحال اس وقت گھمبیر ہے ، حکومت نے 1700شاخیں بند کردیں ہیں۔جن میں 13000سے زیادہ ملازمین ہیں جبکہ     ان کا کہنا تھا کہ معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت بے روز گاری کو کم کرے نہ کہ اس میں اضافہ کرکے عوام کی زندگی اجیرن بنا دے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آڈٹ کا دائ رہ کار وسیع کرتے ہوئے ماضی میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے اور نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ادارے بند کرنا مسئلے کا حل نہیں۔انہوں نے کہا کہ رمضان شریف میں مہنگائی تین سو فیصد تک بڑھ چکی ہے مگر حکومت عوام کو ریلیف دینے مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔دو وقت کی روٹی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے لیکن حکمت کی طرف سے پہلے پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں میں ہوشربا اضافے اور اب وزراکی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام میں کوئی دلچسپی نہیں اور سونے پر سہاگہ وفاقی کابینہ میں مزید توسیع عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ 



ن کا کہنا تھا کہ آج ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ سود اور قرضوں کی بنیاد پر قائم معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی، سوشلزم اور کمیونزم کی ناکامی کے بعد سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کو بھی آزما لیا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں معاشی، سیاسی سمیت تمام بحرانوں کا حل اسلامی نظامِ معیشت، معاشرت و حکومت میں ہے۔ پاکستان کی گزشتہ 77 سالہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حکمرانوں نے ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور پاکستان کو معاشی بحران کے ایسے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف حکومت اپنے کرپشن کیسز ختم کرانے کیلیے کوشاں ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم، وزیر خارجہ بھاری بھرکم وفود لے کر سرکاری خرچ پر پوری دنیا کے سیر سپاٹے کر رہے ہیں۔جب تک حکومت، مراعات یافتہ طبقہ اپنے لائف سٹائل اور طرزِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے، عوام کا اعتماد بحال ہو گا اور نہ ہی ملک کے اندر معیشت ٹھیک ہو گی۔ 




یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کا قیام کئی دہائی پہلے عوام کو کھلے بازار کے مقابلے میں روزمرہ ضرورت کی غذائی اشیاء کم قیمت پر فراہم کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔تاہم پاکستانی قوم جن معاشی مشکلات سے دوچار ہے ان کیلئے متعدد دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ سرکاری اخراجات میں ہر ممکن کمی بھی ناگزیر ہے اور اس کیلئے حکومت کی رائٹ سائزنگ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اٹھائیس وفاقی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن بھی ان اداروں میں نہ صرف یہ کہ شامل ہے بلکہ حکومت نے حیرت انگیز طور پر رائٹ سائزنگ کا آغاز اسی ادارے کے خاتمے سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ڈیڑھ ماہ پہلے وسط جولائی میں ان اسٹورز پر دستیاب غذائی اشیاء پر سبسڈی میں بڑا اضافہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسٹورز میں دستیاب اشیاء پر سبسڈی ختم کرکے انتظامیہ کو لین دین کے معاملات نمٹانے کیلئے دوہفتے کاوقت دیدیا گیا ہے۔ اخراجات میں کمی کے منصوبے میں جو دیگر اقدامات طے کیے گئے ہیں ان کے تحت وزارت تجارت اور سرمایہ کاری بورڈ کو وزارت صنعت و پیداوار میں ضم کیاجائے گا۔




 یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کے علاوہ نیشنل فرٹیلائزیشن کارپوریشن‘ قومی فرٹیلائزرمارکیٹنگ اور نیشنل آئی ٹی بورڈکو بھی ختم کیاجائے گا۔ بلاشبہ سرکاری اخراجات میں کمی لازمی ہے ۔ متعدد سرکاری ادارے غیر ضروری ہیں جن کی ملک اور عوام کیلئے کوئی افادیت باقی نہیں رہی یا جن کا نجی شعبے کے سپرد کیا جانا ان کو زیادہ مفید بناسکتا ہے کیونکہ نجی شعبے میں سرکاری اداروں کی طرح کرپشن کا راج ممکن نہیں اور معاملات میرٹ پر آگے بڑھتے ہیں۔ پاکستان میں پچاس سال پہلے نجی بینکوں سمیت تمام صنعتوں اور کاروبار ی اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کا جو تجربہ کیا گیا وہ بری طرح ناکام رہا اور خطے کی سب سے ابھرتی ہوئی معیشت سخت زوال کا شکار ہوگئی۔یوں بھی اب دنیا بھر میں نیشنلائزیشن کا دور ختم ہوگیا ہے اور تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ حکومتوں کو اپنا دائرہ کار معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بنانے، امن وامان قائم رکھنے ، قومی دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کا بندوبست کرنے اور کرنسی و خارجہ امور وغیرہ تک محددو رکھنا چاہیے

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

   اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر