اس کے والد، ایک ماہر فلکیات تھے جن کو فیڈیاس کے نام سے جانا جاتا تھا، اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا خاندان اعلیٰ طبقے میں شمار کیا جاتا تھا، یا ممکنہ طور پر اشرافیہ میں، کیونکہ وہ اسے تعلیم کے لیے اسکندریہ بھیجنے کے متحمل تھے۔ ارشمدیسی کا پہلا موجودہ حوالہ پولی بیئس کے مسودات سے اخذ کیا گیا ہے، ایک یونانی ماہر تعمیرات، فقید المثال معمار اور موجد تھا جسے زمانہ قدیم کا سب سے عظیم ریاضی دان مانا جاتا ہے اور جنہیں اب تک کی انسانی تاریخ کے سب سے بلند رتبہ ماہران ریاضی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے سر کئی ایجادات کا سہرا رکھا گیا ہے جو آج بھی مستعمل ہیں (جیسے ارشدمیدیس پچی: سکریِو) اور اسے ریاضی اور ریاضی کی طبیعیات کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔انہوں نے یونانی زیر تسلط سسلی کے شہر سیراکیوز (سرقوسہ) میں آنکھ کھولی، اور انہوں نے اپنی ساری زندگی وہیں گزاری بجز کچھ عرصے کے جو انہوں نے تعلیم کی پیاس بجھانے کی خاطر اسکندریہ، مصر میں گزارا۔ سکندریہ میں گزارا گیا وقت ا رشمیدیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہون نے ایسے فلکیاتی آلات ایجاد کیے جو سورج، چاند اور سیاروں کیے مقامات اور حرکات کی شناخت کر سکتے تھے۔ارشمیدیس کی زندگی کے بارے میں تقریباً کچھ معلوم نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ سائراکیز، سسلی میں پیدا ہوئے تھے، جو اس وقت اس خطے کا حصہ تھا جسے میگنا گریشیا ("گریٹر یونان یا یونان عظیم") کہا جاتا تھا، جو کہ جنوبی اٹلی میں یونانی نوآبادیات کے ذریعے آباد کیے گئے علاقوں کے لیے رومی اصطلاح ہے
پولی بیئس نے غالباً ارشمیدیس کی زندگی کے بارے میں معلومات کو حذف کر دیا یا انہیں تحریر کرنا اس قدراہم نہ سمجھا کیونکہ ایک ارشمیدیس کی زندگی پر ایک سوانح عمری پہلے ہی شائع ہو چکی تھی جو اب تاریخ کے دھارے میں کہیں گم ہو گئی ہے۔اس کے والد نے اسے اسکندریہ بھیجا جو اس وقت بطلیما خاندان (۳۲۳ تا ۳۰ قبل مسیح) کے زیر سایہ ایتھنز کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک دانشورانہ مرکز کے طور پر ترقی کر رہا تھا۔ اسکندریہ میں، اس کی دوستی سائرین کے ایراتوسٹینیز اور ساموس کے کونون سے ہوئی، جو شہر کے معروف ترین دانشوران تھے۔ کونن ایک معزز ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھا، اور ایراسٹوتھینز اسکندریہ کی لائبریری کا سربراہ اور ایک جامع علوم پر دسترس رکھنے والا معلم تھا جس نے سب سے پہلے زمین کے احاطے کا تخمینہ لگایا۔ ،ہ (جسے اینٹیکیتھرا ڈیوائس بھی کہا جاتا ہے) کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا پہلا اینالاگ کمپیوٹر ہے۔ یہ آلہ، ۱۹۰۱ میں یونانی جزیرے اینٹیکیتھراسے دریافت ہوا، جو دوسری صدی کے اواخر/پہلی صدی قبل مسیح کا ہے اور اسے سورج، چاند اور سیاروں کی پوزیشن کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ آلہ بابل اور مصری فلکیاتی اصولوں پر انحصار کرتا تھا لیکن اس میں یونانی حروف تہجی کے حروف استعمال کیے گئے تھے اور اسے یونان میں تیار کیا گیا تھا۔ کرینک کو موڑ کر، کسی نے ایک پوائنٹر کو منتقل کیا، جو چاند کے مرحلے، سیاروں کے مقام کو دکھانے کے لیے جگہ پر کلک کرتا ہے، اور چاند گرہن کا حساب بھی لگا سکتا ہے۔ارشمیدس اس آلے کے موجد کے طور پر صرف ایک امیدوار ہے کیونکہ اس کا انتساب نیسیا کے رہائشی ابرخش (دور حیات ۱۹۰ تا ۱۲۰ قبل مسیح) اور دیگر افراد سے بھی کیا گیا ہے۔ تاہم، ارشمیدس کی اسی طرح کی ایجادات کے بارے میں سیسرو کے ذکر کی تصدیق اسکندریہ کے ریاضی دان پاپس (دور حیات ۲۹۰ تا ۲۵۰ عیسوی) نے بھی کی ہے، جس نے دعویٰ کیا کہ ارشمیدس نے ایسے آلات کی تعمیر اور تیاری کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی۔
ارشمیدیس نے اپنے پیشرو کو اس قدر تعظیم کی نگاہ سے دیکھا کہ انہوں نے اپنے کام دی میتھڈ (ضوابط اصول ریاضیات کو ان سے منسوب کر دیا۔ارشمیدس کا سکرو (پیچ) ایک سلنڈر (اُسطوانہ) تھا جس میں ایک مڑا ہوا بلیڈ تھا جو اوپر کی طرف گھومتا تھا جب ایک کرینک (چکر دھنی)سے گھمایا جاتا تھا اور یہ طریقہ کار آج بھی مستعمل ہےیہ امر یہاں اس قدر قابل ذکر اور قابل توجہ نہیں ہے کہ آیا کہ وہ واقعی ہی اینٹیکیتھرا ڈیوائس کا خالق تھا یا نہیں، لیکن اس کی حیثیت ارشمیدس اسکرو کے موجد کے طور پر ہمیشہ قائم رہے گی، جو پانی کو نچلی سطح سے اوپر تک کھینچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حجم،ارشمیدس کی زندگی سے متعلق بہت سی کہانیوں اور روایات منسوب ہیں، اسی طرح ارشمیدس سکرو کی ایجاد کا محرک بننے والے حالات و واقعات سے بھی ایسی ہی روایات منسوب کی جاتی ہیں، لیکن ایک بات تو مسلم ہے، اور وہ یہ کہ ان سب مفروضہ جات میں جہاز کے نچلے حصے سے پانی کے اخراج کا مسئلہ موجود تھا۔
ان روایات سے سب سے مشہور روایت یونانی مصنف ناکراٹس کے اتھیناؤس کا بیان کردہ ہے، جو بتاتا ہے کہ کس طرح ہئیرو دوم نے ارشمیدس سے اس کے لیے ایک بہت بڑا جہاز ڈیزائن کرنے کی درخواست کی، ایک ایسا جہاز جو کسی جاگتی آنکھ نے نہ دیکھا ہو اور جو کسی فعال کان نے نہ سنا ہو، شاید ایسا جو کہ چشم تخیل میں بھی نہ آسکے۔ جو کہ بطور سوار جہاز، ایک شاہانہ نمونہ کے فرائض انجام دے سکے، اور بیک وقت ضرورت پڑنے پر جنگ میں ایک مضطوط اور توانا عنصر کے طور پر بھی۔ ارشمیدس نے اس وقت تک کی انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاز تیار کیا، اور اس کا نام سیراکوزیا رکھا گیا، اس جہاز میں افروڈائٹ دیوی کے لیے ایک وسیع مندر، باغات، ایک جم، ریاستی کمرے، اور دیگر سہولیات موجود تھیں، ۱۹۰۰ سے زیادہ مسافروں، عملے، اور فوجیوں کے لیے کافی جگہ موجود تھی، اور جنگی میناروں کے ساتھ ساتھ ایک تختے پر بہت عظیم الجثہ منجنیق بھی نسب تھی۔ یہ جہاز ارشمیدس کے منصوبے کے مطابق تیار گیا تھا لیکن پھر اچانک ہی دیکھا گیا کہ جہاز کی اس قدر جسمات اور وزن کی وجہ سے جہاز کی بیرونی سطح سے کثیر مقدار میں پانی کا اخراج ہو رہا تھا۔
ارشمیدس کا سکرو (پیچ) ایک سلنڈر (اُسطوانہ) تھا جس میں ایک مڑا ہوا بلیڈ تھا جو اوپر کی طرف گھومتا تھا جب ایک کرینک (چکر دھنی)سے گھمایا جاتا تھا اور یہ طریقہ کار آج بھی مستعمل ہے ۔ سلنڈر کے ایک سرے کو پانی میں رکھ کر اور کرینک کو موڑ کر پانی کو کھینچ کر جہاز سے خارج کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ کار آج بھی دنیا بھر میں متعدد حوالوں سے استعمال ہوتا ہے۔ سیراکوزیا نے صرف ایک بار سمندری میدان پر قدم رکھا، اور یہ سفر سیراکیوز سے اسکندریہ تک کا تھا، جہاں اسے بطلیموس سوم یورگیٹیس کو تحفے کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن اس کے بعد اس عظیم الشان اور قوی المرتبت جہاز کا نصیب کیا بنا،یہاں تاریخ ہمیں خاموش دکھائ دیتی ہے کہا جاتا ہے کہ ارشمیدس نے فلکیات کے موضوع پر مختلف النوع تحریرات مسودات تیار کئے، جن کا حوالہ بعد میں آنے والے مصنفین اور محققین نے دیا، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسودہ وقت کے گرداب سے بچ نہ سکا سوائے سینڈ ریکنر (حاسب ریت) کے، جس کی مدد سے ارشدمیس نے کائنات کے حجم کا حساب لگایا