منگل، 17 دسمبر، 2024

کاربن مونو آکسائڈ کی تباہ کاریا ں پارٹ 2

 

 پورے 21 سال کے بعد پاکستان آیا تھا...... وہ گویا ہوا.
 . اپنے دیس.اپنے وطن ... اپنے بچوں کو پاکستان دکھانے..... اپنے حمزہ اسد اور گل کو لے کر....... خالی ہاتھ واپس جارہا  ہوں....... ہرا بھرا آیا تھا.... اجڑ کر جارہا ہوں.... مسلسل اپنے ہاتھ آگے کئے دیکھ رہا تھا... آپ بیٹھ جائیں پلیز..... عملے کے ایک فرد نے اسے کہا.... نہیں....... مجھے کچھ ہونے لگتا ہے...... 20 سال کے کا حمزہ تھا اور 9 سال کا اسد....... بیٹی میری 17 سال کے کی ہے... تین  بچے... کل کائنات....... یہاں لاہور میں بھائ کے بیٹے کی شادی تھی.... میرے بچوں نے پاکستان دیکھنا تھا.... دادا دادی سے ملنا تھا... اور خود مجھے اپنے پیاروں سے ملنا تھا.... سو سب کو لیے چلا آیا..... مہندی کی رات تھی...... محفل جمی ہوئ تھی... رات کا ایک پہر گزر گیا تو میرے بچے جو جلد سونے کے عادی ہیں... دونوں بیٹے سیڑھیوں سے اوپر والے کمرے میں چلے گیے.... لائیٹ گیی ہوئ تھی سیڑھیاں جہاں شروع ہوتی ہیں وہاں جنریٹر نصب تھا جو چل رہا تھا......بیٹی بیگم اور میں نیچے رت جگے کی محفل میں تھے..... لائیٹ آئ اور گئی....... لڑکیاں بالیاں ٹپے گاتی رہیں.... سب وہیں نیچے جس کو جہاں جگہ ملی سو گئے.... صبح سب اٹھے... مگر میرے بچے..... وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا.... میرے بچے نہیں جاگے... جنریٹر کی گیس لیک ہوتی رہی..... اوپر کمرہ بھر گیا

 ایک بچے کی لاش برآمد کمرے میں اور دوسرے کی سیڑھیوں پر ملی......... ساتھ ہی سٹوری بک بھی....... کاربن مونو آکسائیڈ میرے بچوں کو کھا گئی.... انہیں پتہ بھی نہ چلا.... ایسی میٹھی نیند سلادیا....... میں خالی ہاتھ کہاں جارہا ہوں...... اپنے بچوں کی... اپنے حمزہ اور اسد کی لاشیں لے کر جارہا ہوں... وہ بار بار بار اپنے ہاتھ آگے کر رہا تھا اور کہتا جارہا تھا.... آنسو ہم سب کے رخسار بھگو چکے تھے.... ایسا کوئ حرفِ تسلی نہیں سوجھ رہا تھا جو اس تڑپتے ہوئے باپ کے زخموں پر رکھا جائے......... آپ نے تدفین یہیں کیوں نہ کی... کسی نے بےارادہ سوال کرلیا..... اسے دیکھ رہے ہیں آپ.... اس نے سرخ آنکھوں سے اپنی بیوی کی طرف سے اشارہ کیا.... ایسی نہیں تھی وہ.... پاگل بھی نہیں ہے... ڈاکٹر ہے ڈاکٹر.


.......... لیکن ماں ہے... کیسے لخت جگر یہاں چھوڑدوں.... وہیں دفن کریں گے.... قبر پہ جاکر باتیں تو کرلیا کریں گے.. وہ ہچکیوں سے رورہا تھا....... ساتھ ہی بیٹی بھی سامنے روتی نظر آرہی تھی لیکن ماں.... وہی گھمبیر چپ..... ایک آنسو نہیں ٹپکا... اسکا.... کچھ نہیں کھایا......... بس بمشکل پانی کے چند قطرے............ وہ باتیں کرتا رہا... سب دلجوئ کرتے رہے... جہاز منزل کے قریب پہنچنے کو تھا........ میں مستقل اس ماں کو ہی دیکھتی اور پوچھتی رہی تھی.......... لڑکی ماں کا ہاتھ تھام کر اٹھی اور اسے ریسٹ روم لے گئی.... باہر نکلی تو وہ آکر کھڑی ہوگئی...... ہم آمنے سامنے تھے میں اسے دیکھ رہی تھی اور وہ مجھے.......... میرے حمزہ اور اسد اچانک اس نے چیخ ماری اور مجھ سے لپٹ کر بلند آواز میں رونا شروع کردیا.. اسکے بین دل چیر رہے تھے.... چپ ٹوٹ گئی تھی..... وہ بے ہوش ہونے کو تھی... جہاز میں ڈاکٹر کی اناؤنسمنٹ شروع ہوگئی........ اسے سیٹ پرلٹا دیاگیا اور طبی امداد دے دی گی...مسافروں میں کئی ڈاکٹر مل گئے.


..... شوگر لیول ڈاؤن تھا سو ٹریٹمنٹ دے دیا گیا...... جہاز کچھ ہی دیر میں منزل مقصود پر اتر گیا اور سب سے پہلے وہیل چیئر منگا کر اس خانوادے کو جہاز سے د لاسوںآنسوؤں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا گیا....... مانچسٹر میں وہ تین دن بہت بھاری گزرے... اور پھر کافی عرصے تک یہ واقعہ ایک فلم کی طرح زہن میں چلتارہتا....اور میں سب سے کے بچوں اور اپنے بچوں کے لیے دعائے خیر کرتی کہ خدا ہر ناگہانی سے بچائے وقت کی گرد نے اس واقعہ کو دھندلا دیا تھا لیکن نوبیاہتا جوڑے کی وادئ ہنزہ میں ہوٹل میں قیام کے دوران ہیٹر کی گیس لیک ہونے سے ہونے والے ناگہانی حادثے اور ان کی جواں مرگی نے اس واقعے کو پھر سے تازہ کردیا... دل بھاری ہے اور آنکھیں اشکبار.


.....کبھی وہ مسافرفیملی یاد آتی ہے تو کبھی ان نوجوان بچوں کے والدین کا خیال آتا ہے جنہیں میں نے نہیں دیکھا لیکن ایک ماں ہونے کے ناطے جان سکتی ہوں کے بچے کیسے ارمانوں سے پال کر جواں کئے جاتے ہیں.... اور موت کا ظالم پنجہ جب کسی بھی بہانے سے ان کو چھین کے تو قرار آنا کتنا ناممکن ہے وہ تو خوش نصیب ہیں ہم کہ ہمیں غم حسین ع جیسی دولت نصیب ہے کہ جب کوئ غم کا اظہار پہاڑ ٹوٹتا ہے تو ہم مصائب حسین ع اور مصائب ِ محمد ص و آل محمد ص کو یاد کرتے روتے اور اپنا غم غلط کرتے ہیں.......... پروردگار سے دعا ہے کہ کہ مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور جوار معصومین ع میں جگہ عطا فرمائے شفاعت امام حسین علیہ السلام نصیب ہو اور ان کے اعزہ و اقربا...... ان کے لواحقین بالخصوص والدین کو صبر و سکون اور اس صدمے کو جھیلنے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے.......ہر ماں کا کلیجہ ٹھنڈا رہے اور ہم سب کے بچوں کو.. اولادوں کو نوجوانوں کو پروردگار ہر طرح کی ناگہانی آفات سے بچائے... نگاہ بدو حسد سےمحفوظ اور اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین بحق معصومین 

کاربن مونو آکسائڈ کی تباہ کاریاں

  ابھی  حال ہی میں کچھ  سچی اور دلدوز  کہانیا ں منظر عام پر آئیں ہیں اس لئے شعور ی بیداری کی نیت سے  کچھ  باتیں اپنے ریڈرز سے شئر بھی کی ہیں  نئ کہانی تو کراچی کی ہے جس میں ایک لڑکی اپنے بہنوئ کے ساتھ ریلیشن شپ میں تھی اور وہ دونوں  بند گیراج میں   کار کے اندر  گیس کی  لیکیج سے مر گئ  جبکہ بہنوئ کو بے ہوشی کی حالت میں نکا ل لیا گیا -اسغفراللہ -دوسری خبر ہے گوجرانوالہ کے ایک گھر کے بند  گیراج میں  موجود ایک  کار سے ایک نوجوا ن  لڑکی اور  نوجوان کی لاشیں برامد ہوئیں جو کہ کار میں  گیس   بھر جانے کے سبب دم گھٹنے سے ہلاک ہو چکے تھے    اب جو تحریر میں پیش کرنے جا رہی ہوں  یہ میں نے کچھ  مہینے پہلے انٹر نیٹ سے اپنے ڈرافٹس میں محفوظ کی تھی کیونکہ اتنی دلخراش تحریر کو پرنٹ کرنے کے لئے بھی ہمت چاہئے تھی لیکن  پے در پے گیس لیکیج حادثات نے مجھے مجبور کیا کہ شعوری بیداری کے لئے  بوجھل تحریر  کو  قارئین کے لئے پیش کرنا بہتر رہے گا - یہ تحریر ایک فضائ میزبان کی جانب سے لکھی گئ ہے جس کا نام مجھے نہیں معلوم اس  لئے مصنفہ  میری معذرت  قبول کر لیں


فلائیٹ لاہور سے مانچسٹر جارہی تھی جب میں نے اس فیملی کو جہاز کے دروازے پر دیکھا... دراز قامت اور صحت مند پختہ عمر کا مرد اور درمیانے قد کی قدرے سانولی مگر پرکشش خاتون انتہائ سوجی ہوئ سرخ آنکھوں کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی کا ہاتھ تھامے ہولے ہولے چلتی ہوئ.... جب میں نے ان کے ہاتھوں سے بورڈنگ پاس لیا تو اس کا خاتون کی آنکھوں کی وحشت اور چپ نے مجھے سہما دیا...... وہ اپنی نشست کا پوچھ کر آگے بڑھے اوراکانومی کلاس میں بالکل جہاز کے دروازے کے ساتھ والی نشست 21A'21B'21C پر بالترتیب کچھ اس طرح بیٹھ گئے کہ مرد کھڑکی کے ساتھ اور خاتون درمیان میں جبکہ لڑکی خاتون کے ساتھ بیٹھی تھی.... اور خاتون کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا.... اور وہی گہری چپ.... مرد نے نشست کو پیچھے کر کے آنکھیں موند لیں تھیں.... میں چاہتے ہوئے بھی ان پر سے نظریں نہیں ہٹا پارہی تھی.... گوکہ ایک معمول کی طرح اپنے فرائض کی انجام دہی میں میکانکی انداز میں مصروف تھی.

.. جہاز کے دروازے بند ہوئےمقررہ وقت پر جہاز نے اڑان بھری اور اپنی منزل کی طرف سے رواں دواں ہوگیا... پرواز شروع ہونے کے اور جہاز کے فضا میں سیدھا ہوتے ہی حفاظتی بند کے نشانات بجھنے کے بعدجہاز کا عملہ مستعدی سے مسافروں کی سہولیات کے سامان بہم پہنچانے میں مصروف ہوجاتا ہے اور اسکے ساتھ ہی طویل دورانیے کی پرواز پروقت کو جلد ہی مدِ نظر رکھتے ہوئے طعام فراہم کیا جاتا ہے تاکہ مسافر کھانے سے فارغ ہوکر آرام کریں...... جہاز میں گہماگہمی شروع ہوچکی تھی لیکن وہ تینوں ساکت بیٹھے تھے.... کھانا پیش کرتی ہوئ فضائ میزبان نے مہربان مسکراہٹ کے ساتھ ان سے ان کی سامنے والی کھانے کی میز کھولنے کی درخواست کی..نیم دراز مرد نے آنکھیں کھولی اور سیدھا ہوئے سپاٹ آواز میں کہا.... ہمیں کچھ نہیں چاہیے....علاوہ بلیک کافی اور وہ بھی صرف مجھے..... اور انہیں... فضائ میزبان نے اس کی بیوی اور بیٹی کی طرف سے استفہامیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا....عورت جوکہ ایک گھمبیر چپ کے ساتھ کسی بے جان مجسمے کی طرح بیٹھی تھی اور بیٹی کا ہاتھ مستقل اس کے ہاتھ میں تھا.... یہ کچھ نہیں لیں گی...... مرد نے ان کی طرف سے جواب دیا اور پھر آنکھیں موند کر نیم دراز ہوگیا.


... فضائ میزبان آگے بڑھ گئی.... یا وحشت...... کیا مسئلہ ہے ان کے ساتھ..... میں نے پھر مرد کے انتہا سے زیادہ تھکے ہوئے چہرے پر نظر کی اور پھر عورت کی سنسان بے جان اور وحشی سرخ آنکھوں اور سپاٹ چہرے پر سے میری نظر لڑکی پر گئی تو وہاں موسم بدل چکا تھا.... لڑکی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو ماں کے ہاتھ پر گر رہے تھے اور وہ آہستہ آہستہ ماں کو کچھ سمجھانے کی کوشش کررہی تھی..... سرخ ناک اور لرزتے ہوئے ہونٹ..... ہاتھوں میں کپکپاہٹ.... لیکن عورت پر کوئ اثر نہیں تھا..... اس کا ہاتھ لڑکی کے ہاتھ میں مستقل تھا اور وہ ہولے ہولے سہلا رہی تھی..... مگر دوسری طرف وہی ظالم چپ..... ہونٹ سختی سے ایک دوسرے میں پیوست.... آنکھیں ویران..... لڑکی نے ماں کی جیکٹ اتاری... اسکی نشست کو آرام دہ کیا... اور ایک کمبل مانگ کر اسے اوڑھا دیا..... اور پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں بیٹھ گئی.... وہ شاید ماں کو سلانے کی کوششوں میں تھی...تمام مسافر طعام سے فارغ ہو چکے تھے اور جہاز کی لائیٹیں مدھم کردی گئی تھیں..... کیسے پوچھوں کہ کیا مسئلہ ہے.

... مجھے سب کچھ عجیب لگ رہا تھا اسی اثنا میں بزنس کلاس سے سینئر پرسر نے آکر مجھ سے کہا... 21 ABCکے مسافروں کا کیا حال ہے...... آپ لوگ ان کا خیال رکھیے گا....وہ اپنے بچوں کی ڈیڈباڈی لاہور سے مانچسٹر لے کر جارہے ہیں.میں سن ہوگئی..... میری سمجھ میں ان کے روئیے آگئے..... عمومی طور پر ایسے کیسسز کے بارے میں میں پہلے بتا دیا جاتا ہے لیکن ان کو خود کو بھی بہت بعد میں معلوم ہوا تھا.... عملہ مزید مستعد ہوگیا کہ ان کا خیال رکھا جائے لیکن مرد آنکھیں موندے بے حس و حرکت نیم دراز تھا جب کہ خاتون مستقل خاموش خلاؤں میں گھور رہی تھیں.... لڑکی مستقل چپکے چپکے رورہی تھی...... ان کا درد سمجھ میں آیا تو سب کے دل بھاری ہوگئے...... پانی لے جاکر دیا..... اور کھانا کھلانے کی کوشش کی گئی مگر سب بے سود...... مرد نے منع کردیا کہ دونوں خواتین کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا جائے اور خود اٹھ کر جہاز کے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا....... مجھے گھٹن محسوس ہورہی ہے... میں کچھ دیر یہاں کھڑا ہوجاؤں.... اس نے عملے سے اجازت چاہی... جی ضرور..... سب رنج بھی بٹانا چاہتے تھے...... اسے سننا چاہتے تھے.....  

پیر، 16 دسمبر، 2024

فیو میگیشن سانحہ - ڈیفینس خیابان سحر کراچی

 

  چند روز ہوئے کہ کراچی  کے علاقے ڈیفینس خیابان سحر میں رہائشی ایک خاندان بڑے المیہ سے دو چار ہوا -اس دن گھر کے مالک  ڈاکٹر ضیاء الدین  نے اپنے گھر  کو  فیومیگیٹ  کروایا  اور  پھر رات کو یوں ہوا کہ سب سے پہلے ان کا   سب چھوٹا بیٹا چل بسا  اس کے بعد اس سے بڑی شائد سات سال یا اسی کے آس پاس عمر کی بیٹی چل بسی جبکہ سب سے بڑا بیٹا  ونٹیلیٹر پر چلا گیا  پولیس ذرائع کے مطابق گھر سے ملنے والے بے ہوش افراد میں ڈاکٹرضیاء الدین شیخ، انکی اہلیہ اور 4 بچے شامل ہیں۔ ڈاکٹر ضیاء الدین شیخ سرسید اسپتال قیوم آباد کے مالک ہیں۔ مردہ حالت میں ہسپتال لائے جانے والے  5 سالہ بچے کی شناخت معین الدین کے نام سے ہوئی۔اس خاندان کو المیہ سو چار کرنے والی وہ ٹہری جو  گھر میں استعمال کی گئ تھی تو دوسری جانب   دوا کا اثر زائل ہوئے بغیر  گھر میں  رہنا  بھی خطر ناک ثابت ہوا -ہر زی شعور کو معلوم ہونا چاہئے کہ کیڑے مار  دوائیں ہر طرح سے مہلک ہوتی ہیں  -اور یہ  دوائیں  نظام تنفس  کے زریعہ سب سے پہلے پھیپھڑوں کو  گلا دیتی ہیں  اور انسان کی موت زراسی دیر میں وقع ہوجاتی ہے-


زہریلے مضر اثرات ہونے کی علامات:کسی بھی ذریعہ سے اگر کوئی کیڑے مار دوا جسم میں داخل ہو جائے، تو اس کے مضر اثرات فوری طور پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ مضر اثرات کی بڑی بڑی علامات درج ذیل ہیں۔کپکپاہٹ ٭: سر درد  ٭بلڈ پریشر میں کمی : متلی، قے ٭: کمزوری٭پیٹ میں درد اور  اینٹھن :  ٭: بہت پسینہ آنا ٭: ٭: سانس کا مشکل سے آنا ٭:   :اگر کسی شخص میں کیڑے مار دوا کے مضر اثرات کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوں تو فوری طور پر درج ذیل ہدایات پر عمل کریں۔-1متاثرہ شخص کو فوراً دوا سے اور جس جگہ اس کا چھڑکائو کیا گیا ہو، وہاں سے دور لے جائیں۔ -2اس کے جسم سے دوائی آلود کپڑے اتروا دیں تاکہ جسم پر دوا کے اثرات ختم یا کم ہوجائیں۔ -3اس کے جسم کو پانی سے اچھی طرح دھولیں۔ -4اگر اس کا سانس بند ہو گیا ہو تو مصنوعی طریقے سے منہ در منہ اس کا سانس جاری کرنے کی کوشش کریں۔ -5مریض کو قریبی ہسپتال پہنچانے کا بندوبست کریں۔ خصوصی احتیاطی تدابیر:-1فیومیگیشن کے بعد کم سے کم تین دن گھر میں رہائش اختیار نہیں کی جائے۔   -4ابتدائی طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کا بندوبست لازمی ہے تاکہ اس کے فوراً بعد کسی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچایا جا سکے۔


-5 ان کیمیائی دوائوں کا چھڑکائو کرنے کے بعد کم سے کم تین دن وہاں رہنے سے گریز کرنا چاہئے  …اب یہ خبر ملاحظہ کیجئے ٭جامعہ    کراچی مرکز برائے کیمیا اور حیاتیاتی علوم نے رپورٹ کمشنر کراچی کو پیش کردی-روزنامہ    ایکسپریس کے مطابق جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیا اور حیاتیاتی علوم کے سربراہ اقبال چوہدری نے ہلاکتوں پر ابتدائی رپورٹ کمشنر کراچی کو پیش کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ 90 فیصد شواہد اور تجزیے سے ثابت ہوا کہ تمام ہلاکتیں زہریلی کٹھمل مار دوا ایلومینیم فاسفائیڈ سے ہوئیں، متاثرہ کمرے سے اس دوا کی کافی مقدار ملی۔یعنی  کھانے سے کوئ زہر ان کے جسموں میں نہیں گیا  لیکن ہلاکتوں کے پیش نظر  وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ سندھ فوڈ اتھارٹی نے کھانوں کے سیمپل اور ہوٹل میں موجود زائد المعیاد کولڈڈرنک کی بوتلیں اور جوس کے ڈبے قبضے میں لے لئے جبکہ پولیس نے ہوٹل کو سیل کردیا۔


 متاثرہ خاندان کا تعلق کوئٹہ پشین سے ہے جو جمعرات کی شب ہی کراچی پہنچا تھا اور ہوٹل میٹروپول کے قریب واقع گیسٹ ہاﺅس قصر ناز میں ٹھہرا تھا جہاں انہوں نے صدر میں واقع ریسٹورنٹ نوبہار سے پارسل میں بریانی منگوا کر کھائی رات گئے اچانک بچوں ان کی ماں اور پھوپھی کی حالت خراب ہوگئی اور پانچ بچوں ڈیڑھ سالہ عبدالعلی‘ 4 سالہ عزیز‘ 6 سالہ عالیہ‘ 7 سالہ توحید اور 9 سالہ صلویٰ نے دم توڑدیا اس دوران بچوں ان کی ماں بینااور پھوپھی کو آغا خان اسپتال پہنچایا گیا جہاں بینانے بھی دم توڑ دیا اندوہناک واقعے کے بعد اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچی اور مرنے والوں کی نعشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے جناح پہنچایا دوسری طرف سندھ فوڈ اتھارٹی نے بھی صدر میں واقع ریسٹورنٹ میں کارروائی کی سندھ فوڈ اتھارٹی کے چیئرمین امجد لغاری کے مطابق ریسٹورنٹ میں موجود دیگوں سے باسی بریانی برآمد ہوئی جبکہ زائد المعیاد جوس کے ڈبے‘ کولڈ ڈرنک کی تین درجن سے زائد بوتلیں ناقص تیل اور دیگر کھانوں کے سیمپل بھی قبضے میں لے لئے گئے 


فوڈ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاندان کوئٹہ سے کراچی پہنچا اور صدر کے ایک گیسٹ ہاؤس   میں قیام کیا جبکہ متاثرہ خاندان نے کوئٹہ سے کراچی سفر کے دوران خضدار اور حب میں کھانا بھی کھایا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ خاندان نے کراچی پہنچنے پر پارسل بریانی لی اور گیسٹ ہا ؤس کے کمرے میں کھائی اور بریانی کھانے کے بعد خاتون نے الٹیاں کرنا شروع کیں اور ان کے شوہر انہیں ہسپتال لے گئے دوسری جانب وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ وہ بچوں کے والدین سے خود جاکر ملیں اور اگر وہ واپس کوئٹہ جانا چاہتے ہیں تو ان کیلئے بندوبست کیا جائے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ واقعے پر دلی صدمہ ہوا بچوں کے والدین کی تکلیف محسوس کر رہا ہے ان کے ساتھ انصاف ہوگا۔ وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے سندھ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے کہا ہے کہ یہ بات سامنے آئی ہے قصر ناز میں کیڑے مار پا ؤ ڈر ڈالا گیا تھا فیملی نے زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا تھا ہو سکتا ہے اس  پاؤڈر کی وجہ سے یہ واقعہ ہوا ہو ممکن ہے کھانے کی وجہ سے ہی کچھ ہوا ہو۔ ایکسپریس کے مطابق جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیا اور حیاتیاتی علوم کے سربراہ اقبال چوہدری نے ہلاکتوں پر ابتدائی رپورٹ کمشنر کراچی کو پیش کردی جس میں بتایا گیا ہے کہ 90 فیصد شواہد اور تجزیے سے ثابت ہوا کہ تمام ہلاکتیں زہریلی کٹھمل مار دوا ایلومینیم فاسفائیڈ سے ہوئیں، متاثرہ کمرے سے اس دوا کی کافی مقدار ملی۔ 

ہفتہ، 14 دسمبر، 2024

باکما ل لوگ ' لاجواب سروس -عہد ماضی کا پی آئ اے

 

 کبھی  کبھی میرے دل میں  خیال آتا ہے   جب میرے وطن کی  دھرتی پر کرپشن کی آکاس بیل  نے سر نہیں   اُٹھایا تھا  تب میرے وطن کا گوشہ گوشہ  اُن چہروں سے منور تھا جو اس دھرتی کے  حقیقی خدمت گار تھے  وہ  اس دھرتی کی وہ خدمت کرتے تھے جو اپنی جنم دی ماں کی'کی جاتی ہے  ان خدمت گاروں میں بے شمار نام ہیں لیکن میں اس وقت بات کروں گی ایک ہونہار سپوت کی جس نے پی آئ اے کو دنیا کی صف اول کی ائر لائینز میں بہت کم عرصے میں لا کھڑا کیا تھا اور وہ نام ہے ایئر کموڈور ملک نور خان   ؎؎ملک نور خا  ن نے   1959 میں پی آئی اے کی قیادت سنبھالی۔ پی آئی اے کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ارشاد غنی کا کہنا ہےکہ  ملک نور خان1959 ء کا  دور شروع ہوا جسے اکثر پی آئی اے کا گولڈن ایرا (یعنی سنہری دور) کہا جاتا ہے۔ پی آئ اے دن    بدن   ترقی  کی شاہراہ پر آگے بڑھتا  چلا گیا -یاد رہے کہ   انہوں نے     1978 سے 2013 تک فلائٹ آپریشنز، آئی ٹی، کارپوریٹ پلاننگ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں اہم ذمہ داریو ں پر فائض رہے-جناب  ارشاد غنی نے بتایا کہ نور خان  کی  پی آئ اے کی سربراہی   کے عرصے میں پی آئی اے نے بے پناہ ترقی کی۔’

سنہ 1960 میں ڈھاکہ، کراچی اور لندن کے درمیان پہلی بار بوئنگ 707 سے فلائٹ شروع کی گئی۔پاکستان فضائیہ کے ائیر مارشل نور خان 1941ء سے 1971ء تک فوج میں خدمت انجام دی اور فضائیہ کے سربراہ رہے۔ 1965ء کی جنگ میں دادِ شجاعت دی۔ بعد میں کئی انتظامی عہدوں پر فائز رہ کر ان شعبوں میں اپنا لوہا منوایا۔’نور خان  کی دیانت داری کا یہ حال تھا  کہ  وہ مسافروں کے تبصرے خود پڑھتے اور ہر ایک کا دستخط شدہ جواب بھیجتے۔‘سمیر طارق ’ایکسپریس ٹریبیون‘ اخبار میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد ٹریول اور ایئر لائن انڈسٹری کا حصہ تھے اور ان کے مطابق نور خان اکثر رات یا صبح کے وقت سرپرائز چیک کرتے اور صرف ہوائی جہاز کے حالات ہی نہیں بلکہ عملے کے یونیفارم کی صفائی اور چیک اِن کاؤنٹرز کی حالت بھی ذاتی طور پر چیک کرتے تھے۔نور خان کے انقلابی اقدامات کی بدولت پی آئی اے ایک بین الاقوامی معیار کی ایئرلائن بن گئی، جو پاکستان کے لیے فخر کا باعث تھی۔ اس دور میں  نور خان نے دلیرانہ فیصلے کیے اور پی آئی اے کو ایشیا کی صفِ اول کی ایئر لائن اور دنیا کی پانچ بہترین ایئر لائنز میں شامل کر دیا

نور خان نے  پی آئی اے   فضائیہ کو  اپنی   خدمات سے قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی  بہترین  مقام دیا ۔جہاں پاکستان کے سفارتی مشنز موجود تھے، وہاں پی آئی اے ان کی معاونت کرتی تھی اور جہاں سفارتی مشنز موجود نہیں تھے، وہاں پی آئی اے کی موجودگی نے پاکستان کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کیں۔ یوں یہ ادارہ کئی ممالک میں پاکستان کے غیر رسمی سفیر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیتا رہا۔‘ان دنوں پی آئی اے کے اشتہاری الفاظ تھے کہ ’ہر ساتویں منٹ میں پی آئی اے کی ایک پرواز دنیا کے کسی نہ کسی مقام پر اُترتی یا روانہ ہوتی ہے۔‘پاکستان  ائر فورس کے مایہء ناز سربراہ  ائیر مارشل نور خان  نے کافی عرصے  فوج میں خدمت انجام دیں ۔ 1965ء کی جنگ میں دادِ شجاعت دی۔ملک نور خان کا تعلق ضلع تلہ گنگ کے گاؤں ٹمن سے تھا جنہوں نے فضائیہ  کا عہدہ چھوڑنے کے  بعد میں کئی  انتظامی  عہدوں پر فائز رہ کر ان شعبوں کو چار چاند لگا دئیے 


 پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے جیٹ ایئرکرافٹ آپریٹ کیا۔ مشرقی پاکستان میں ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے چھوٹے شہروں کو ڈھاکہ کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ مغربی پاکستان میں بھی سات، آٹھ چھوٹے سٹیشنز کو بڑے شہروں کے ساتھ منسلک کیا گیا  ساتھ اسی دور میں پی آئی اے کے دو پائلٹس، کیپٹن عبداللہ بیگ اور کیپٹن غیور بیگ نے لندن سے کراچی کی پرواز میں چھ گھنٹے 43 منٹ اور 55 سیکنڈ میں عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک قائم ہے۔سنہ 1965 کی انڈیا، پاکستان جنگ سے کچھ عرصہ قبل، نور خان کو ایئر فورس اور ایئر مارشل اصغر خان کو پی آئی اے کا سربراہ بنا دیا گیا۔اصغر خان ہی کے دور میں پی آئی اے کے کیبن کریو یعنی عملے کا یونیفارم عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی ڈیزائنر پیئر کارڈین نے تیار کیا۔ یہ ڈیزائن پاکستان میں فیشن پر خوب اثرانداز ہوا۔سنہ ء 1962 میں مارچ کی اُس رات، لندن کی سرد ہواؤں کی سلامی لیتی، امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے کراچی سے پرواز بھرنے والے جہاز کی سیڑھیاں اُتریں تو وہ پرواز سے اس قدر خوش تھیں کہ گرم جوشی سے پائلٹ کو گلے لگایا اور پُکار اٹھیں ’گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد۔‘پاکستان کی قومی ایئرلائن کو انگریزی میں یہ سلوگن کرکٹ مبصر اور مصنف عمر قریشی نے دیا تھا۔یہی نعرہ صحافی اور شاعر فیض احمد فیض نے اُردو میں یوں لکھا: ’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘۔جیکولین کینیڈی نے نہ صرف پی آئی اے کے اس دعوے پر مہر ثبت کر دی بلکہ انڈیا کے نو اور پاکستان کے پانچ دنوں کے خیر سگالی دورے کے بعد امریکا واپسی سے پہلے برطانیہ میں اُترتے ہوئے اپنے آٹوگراف کے ساتھ جہازکے کپتان ایم ایم صالح جی کو ’نیک خواہشات کے ساتھ‘ اپنی تصویر بھی دی۔یہ ایک ایسی ریاستی ایئر لائن کا سنہرا دور تھا جس نے مختصر عرصے ہی میں دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کر لیا تھا۔

 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ پی آئی اے بھی آدھی رہ جائے گی ’لیکن حکومتِ پاکستان نے کاروباری شخصیت رفیق سہگل کو پی آئی اے کا انتظام سنبھالنے کی دعوت دی۔ انھوں نے مینیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اعلان کیا کہ کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا اور ادارہ مزید ترقی کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔‘’سہگل کے دور میں اور بعد کے ادوار میں پی آئی اے کا بیڑا اور نیٹ ورک بڑھتا رہا۔ 1960 کی دہائی میں بوئنگ 707 آئے، 1970 کی دہائی میں ڈی سی 10، اور بعد میں بوئنگ 747 اور ایئربس اے 300 جیسے جدید طیارے شامل کیے گئے۔ پی آئی اے ایشیا میں بوئنگ 737-300 متعارف کرانے والی پہلی ایئرلائن تھی۔‘دو سال بعد نور خان کو پھر سے پی آئی اے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے نے 1992 تک کے ’سنہری دور‘ میں خطے میں ہوا بازی کے میدان میں سبقت حاصل کی۔ ’ادارے نے اپنی سہولیات خود تیار کیں، جیسے فلائٹ کچن، ٹریننگ سینٹر اور فلائٹ سیمولیٹر، مرمت اور دیکھ بھال کی تمام سہولیات بھی خود فراہم کیں، جس سے پی آئی اے خود کفیل بن گئی۔‘

جمعہ، 13 دسمبر، 2024

درہ بولان کی تاریخی اہمیت اور سیاحت -پارٹ -1

 

صدیوں سے سفر اور تجارت کے لیے استعمال ہونے والا درۂ بولان اور اس سے ملحقہ ریلوے لائنز تاریخی اہمیت کی حامل رہی ہیں  -یعنی آ پ بزریعہ ریل گاڑی  کر اچی سے سفر کر کے کوئٹہ  اور کوئٹہ سے سفر کر کے افغانستان کے قلب قندھار تک پہنچ سکتے تھے ۔درہ بولان کی سرنگیں تعمیرات  کا شاہکار ہیں -بلوچستان صدیوں سے ایران اور افغانستان سے آنے والے تجارتی قافلوں کی گزر گاہ رہا ہے۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق پندرہویں صدی میں آریا اقوام افغانستان سے چمن اور پھر درۂ بولان کے راستے سندھ میں داخل ہوئیں اور متعدد مرتبہ سندھ پر حملوں کے لیے یہی راستہ اختیار کیا گیا۔ صدیوں تک گھوڑوں کی ٹاپوں اور اونٹوں کے پیروں میں گھنگھرو بجنے کی آوازوں  کے قافلوں کے آوازیں سننے والے بلوچستان کے باسیوں نے جب اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پہلی دفعہ ریل کے انجن کی آواز سنی اور انجن کا دیکھا  تو وہ ششدر و حیرا ن ہو گئے تھے ۔

درۂ بولان کے اطراف ریلوے لائن کا آغاز کب ہوا؟

  یہ انگریزوں کا بڑا احسان ہے کہ وہ   اپنے غاصبانہ قبضے کے ایام میں یہاں کی اقوام کو  بڑی بڑی سہولتیں دے گئے  ورنہ تو  آسمان گواہ ہے ہمارے حاکموں نے گزشتہ پچاس برس میں ہم کو پتھر کے دور میں پہنچا کر ہی دم لیا ہے لیکن انہوں نے  یورپی ملکوں میں اپنے لئے  جزیرے خرید کر وہاں  عالیشان محلات کھڑے کر لئے ہیں ۔ ارے دیکھئے میرا قلم بہک گیا -میں پھر آتی ہو ں  درے بولان کی  جانب -اس تاریخی  درے میں ریلوے لائن  بچھانےکی تجویز سب سے پہلے 1857ء میں اس وقت کے ریلوے چیئر مین مسٹر ولیم پیٹرک اینڈریو نے دی۔ جو وفد اس بارے میں لارڈ پامرسٹسن سے ملنے گیا تھا، اینڈریو اس کے ترجمان تھے۔ 1878ء تک فوجی لحاظ سے پشین اور قندہار کو ریل کے ذریعے ملانے کی اہمیت بہت زیادہ تھی اور براستہ ہرنائی اور براستہ بولان پاس دونوں تجاویز زیرغور آئیں ۔1879ء میں اس علاقے میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی اور سن 1880 میں اسے وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چونکہ درہ بولان اونچے نیچے پر خم پہاڑی راستوں سے گزرتا ہے لہذا اطراف کے علاقے صرف ہلکے ٹریفک کے لیے ہی مناسب سمجھے گئے۔ مگر بعد ازاں اس علاقے میں شدید طوفانی بارشوں اور پہاڑی تودے گرنے کے باعث پرانی ریلوےلائن تقریبا معدوم ہو گئی اور نئے سرے سے براستہ ہرنائی نئی ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ راستہ بھاری ٹریفک کے لیے بھی موزوں تھا۔ تقریبا 4 سال کے عرصے میں یہ نئی ریلوے لائن مکمل ہوئی اور 1887ء میں پہلی ٹرین بولان کے اس راستے سے گزری جسے آج تک سفر اور تجارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔


یہاں راستے بنانے کے لیے بلند اور سنگلاخ چٹانوں کو چیرا گیا، تقریبا نو مقامات پر یہ ریلوے لائن درۂ بولان کو عبور کرتی ہے۔ اس دوران کثرت سے آنے والی طویل سرنگیں ٹرین کے سفر کا لطف دوبالا کر دیتی ہیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں ہر سرنگ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما، سائمن مورو نے نانگا پربت کی چوٹی سَر کرنے کے بعد پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’’میں دنیا کا چپّہ چپّہ گھوم چکا ہوں، لیکن مَیں یہ بات پورے وثوق اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے خوب صورت علاقے پاکستان میں ہیں، کم از کم اس دنیا کے اور کسی ملک میں نہیں۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں اتنی بڑی تعداد میں پہاڑی سلسلے ہیں، جن پر آج تک کسی انسان کے قدم ہی نہیں پڑے۔ یہاں کے لوگ بہت اچھے، ملن سار اور کھلے دل کے مالک ہیں   اور آپ مقامی آبادی کے ساتھ بہت  سکون سے سیاحت کر سکتے ہیں  -لیکن  ٹہرئے یہاں حکومت کی چشم پوشی کے سبب آپ کو کہیں کوئ سیاحتی سہولت نہیں ملے گی  -آپ کو اپنے لئے ہر شے ساتھ لانا ہو گی 


پیر غائب شاہ کا فضائی منظر

دّرہ بولان، کولپور سے شروع ہوکر بولان وہیر تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ باہر سے جتنا خشک سنگلاخ اور پرخطر نظر آتا ہے، اندر سے اتنا ہی حسین و جمیل اور دل کش ہے۔ اونچے اونچے سربہ فلک پہاڑوں کے درمیان سانپ کی طرح بل کھاتی ندی، صاف شفّاف نیلگوں پانی میں تیرتی ہمہ اقسام کی رنگین مچھلیاں اور تہہ سے جھانکتے چمک دار نوکیلے پتھر بولان کے قدرتی حسن کو چار چاند لگاتے ہیں۔ یوں تو پورا بولان ہی قدرتی حسن سے مزیّن ہے۔ تاہم، ان میں کچھ مقامات بین الاقومی طور پر بھی شہرت کے حامل ہیں، جن میں پیر پنجہ، دوزان چشمہ، کوہ باش، پرانا مچھ قابوی، گرم آپ، پیر غائب آب شار‘ کھجوری، بارڑی، گوکرت، پنجرہ پل، سراج آباد اور بولان وہیر شامل ہیں۔ یہاں پورا سال ہی سیّاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہ سب ہی علاقے قدرتی حسن و دل کشی سے مالا مال ہونے کے باعث اپنا ثانی نہیں رکھتے، لیکن درّے میں واقع سب سے سرسبز وشاداب اور دل فریب علاقہ ’’پیرغائب‘‘ ہے، جو صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے کا نام ایک بزرگ ہستی کے نام پر رکھا گیا، جو برسوں پہلے اپنی بہن ’’بی بی نانی‘‘ کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے یہاں آئے تھے۔ 


یہاں کے لوگ بت پرست تھے۔ اس لیے ان دونوں کے دشمن ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہیں جان سے مارنے کے درپے تھے، تب بی بی نانی اپنے بچاؤ کے لیے بولان کی گھاٹیوں میں چھپ گئیں۔ جہاں کچھ عرصے بعد ان کی موت واقع ہوگئی، تو وہیں ان کا مزار بنا دیا گیا۔ بی بی نانی کا مزار بولان سے 15 کلو میٹر کے فاصلے پر پُل کے نیچے پہاڑ کے دامن میں موجود ہے، جب کہ پیر غائب چٹانوں کے درمیان چلے گئے، جس کے بعد سے ان کا کچھ پتا نہ چلا کہ کہاں گئے۔ مگر ان ہی کی وجہ سے یہ علاقہ ’’پیر غائب‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس جنّت نظیر وادی میں پہاڑوں کے عین درمیان سے ایک حسین آب شار جب دو مختلف حصّوں میں تقسیم ہوکر گرتی ہے، تو بڑا پرُلطف نظارہ پیش کرتی ہے۔ آب شار کے دونوں حصّوں کا پانی نشیب کی طرف بہتا ہوا ایک وسیع تالاب سے جاملتا ہے۔ قدرت کا کیا خوب کرشمہ ہے کہ انتہائی خشک، سنگلاخ پہاڑ سے ٹھنڈے، میٹھے پانی کا چشمہ صدیوں سے مسلسل پھوٹ رہا ہے۔ اگرچہ سردیوں میں بھی یہاں کا موسم معتدل


درہ بولان کے حسین و دل نشیں تفریحی مقامات -آبشار سے بھرنے والا تالاب-بلاشبہ، وطنِ عزیز فطرت کے تمام ہی حسین رنگوں سے مزّین ہے۔ ۔ صوبہ بلوچستان کے تاریخی درّے، درّئہ بولان کا شمار بھی ایسے ہی مقامات میں ہوتا ہے، جو دل کشی و خوب صورتی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں  جس کو میں اگلی  قسط میں آپ کی نذر کروں گی انشاللہ 


جمعرات، 12 دسمبر، 2024

آوارہ کتے کیوں مار ڈالے'چلو جیل بھگتو



 جی  جناب   آپ نے اور لاکھوں یو ٹیوب دیکھنے والوں نے  جامشورو سندھ ہاسپٹل  کے آرام دہ بستروں پر بڑے ہی آرام اور اطمینان کے ساتھ بے شمار کتوں کو محو آرام دیکھا ہو گا  -یہ بستر مریضوں کے لئے بنائے گئے ہوں گے  مگر ہمارے سیاسی صاحب عقل و دانش نے سوچا ہو گا کہ کہ ان آرام دہ بستروں کے مستحق تو کتے ہیں 'رہے پاکستانی عوام تو ان کی اوقات کہاں کہ وہ یہ بستر استعمال کر سکیں -اب آئیے  زرالاڑکانہ میڈیکل کمپلیکس  چلتے ہیں جہاں اس حسین عمارت میں ایک دو نہیں   آوارہ کتوں کا پورا لاؤ لشکرآنے والوں کے استقبال کے لئے مستعد عمارت کے شرقاً غرباً دوڑتا بھاگتا نظر آتا ہے  ا ب آئیے  گلیوں اور سڑکوں پر عوام کو بنھبھوڑنے والے کتے ہیں  جن کو میلی آنکھ سے دیکھنا منع ہے  لیکن  کچھ یوں ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو کبھی خواب و خیال میں بھی نہ تھا حکم آیا کہ تم نے پاگل، آوارہ، خارش زدہ، شہریوں کی جان کو خطرہ بنے، پاگل بن کر انسانوں میں افزائش کرنے والے کتے کیسے مار ڈالے، میرپور خاص کی یہ چونکا دینے والی خبر ہے اس شہر   میں آوارہ، زخمی اور پاگل کتوں سے شہریوں کو نجات دلانے کے جرم میں جماعت اسلامی کے سیٹلائٹ ٹائون میرپور خاص سے منتخب کونسلر سید لیاقت شاہ اور کارکن جماعت اسلامی آصف صدیق آرائیں پر کتے ہلاک کرنے کا مقدمہ اور ان کی گرفتاری عمل میں آگئی۔ اُن کا جرم یہ قرار پایا کہ انہوں نے ان کتوں کو جو آئے روز شہریوں بالخصوص بچوں کو اچانک حملہ آور ہو کر بھنبھوڑ رہے تھے ان کو ہلاک کرکے شہریوں کے تحفظ کا سامان کیوں کیا؟ اس کارروائی نے یہ ثابت کردیا کہ پاگل اور آوارہ انسانوں کو کاٹ کھانے والے کتے ’’اشرف مخلوقات‘‘ انسان سے بڑھ کر حقوق کے حامل ہیں 


اور حکومت و انتظامیہ   کی دنیا تو بس  پوش علاقوں تک محدود ہوتی ہے جبکہ کتا مار مہم تو ترجیحی طور پر غریب اور متوسط آبادیوں میں چلائی جانی چاہیے جہاں نہ صرف یہ کہ آوارہ کتوں کی بھرمار ہے بلکہ لوگوں کی بڑی تعداد پیدل اور موٹرسائیکلوں پر آتی جاتی ہے جن میں بچے، بوڑھے، عورتیں، مرد سبھی شامل ہوتے ہیں جبکہ بچوں کا اکثر تنہا بھی باہر نکلنا ہوتا ہے اور یہ لوگ آوارہ کتوں کا نشانہ بنتے ہیں جب کہ پوش علاقوں میں صورت حال مختلف اور لوگ مقابلتاً محفوظ ہوتے ہیں، پھر امرا کے علاقوں میں آوارہ کتے بھی اتنی بڑی تعداد میں نظر نہیں آتے۔ بہرحال ٹیپو شریف کے کتوں کے لیے جذبہ ہمدردی پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہوئے ہم بس اتنا ہی عرض کریں گے کہ وہ چند کتوں کی موت پر دل چھوٹا نہ کریں۔ شہر کی کسی بھی غریب، متوسط بستی کی طرف نکل جائیں اور جس قدر درکار ہوں کتے لے آئیں۔ ہمیں یقین ہے، آپ کا دل کتوں کی خدمت اور دیکھ بھال سے اُوب جائے گا، کتے ختم نہیں ہوں گے۔

 

کراچی سمیت اندرون سندھ بلکہ سارے ملک میں ہی کتوں کا راج ہے۔ گلی محلوں میں دن رات آوارہ کتے، جن میں پاگل کتے بھی شامل ہوتے ہیں، دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ کتے لوگوں کو کاٹتے، بھنبھوڑتے رہتے ہیں، بچے ان کا خصوصی نشانہ ہوتے ہیں۔ان کی خون آشامی کا شکار زخمی اسپتال جاتے ہیں تو وہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تواتر سے رپورٹیں آتی رہتی ہیں مگر حکم رانوں اور شہری انتظامیہ کی بے حسی اور غفلت ہے کہ ختم ہوکے ہی نہیں دیتی۔ کچھ عرصہ ہوا غالباً کسی سنگین واقعے پر زیادہ ہی شور شرابا ہوا تو حکومت سندھ یا شہری انتظامیہ کی جانب سے آوارہ کتوں کے خلاف آپریشن کا بس اشارہ ہی دیا گیا تھا کہ صوبہ  سندھ  پر قابض   خاندان کی ایک بیٹی کی رگِ ہمدردی پھڑک اٹھی اور انھوں نے کتے مارنے کی مخالفت میں بیان  دیا۔تب  سے   آوارہ کتوں کو   مکمل چھوٹ مل گئ ہے ۔ انسان زخمی ہو رہے ہیں، ہوش وحواس کھو رہے ہیں، جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ دس بیس، سو پچاس کے باؤلے ہوجانے، دنیا سے اٹھ جانے سے ایسا کون سا فرق پڑ جائے گا، کتوں سے ہمدردی تو ترقی پسندی اور روشن خیالی کا ایک سمبل ہے اسے بہرحال قائم و برقرار رہنا چاہیے۔


اب حال ہی میں آوارہ کتوں کے ایک اور ہمدرد اور بہی خواہ سامنے آئے ہیں اور وہ ہیں ٹی وی اداکار و گلوکار ٹیپو شریف۔ موصوف کراچی کے فیشن ایبل علاقے کلفٹن میں رہائش رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ایک موقر ہفت روزہ میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹیپو شریف نے گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو چلائی جس میں انھیں شہر کی انتظامیہ کی جانب سے مارے گئے کتوں کی موت پر روتے اور غصے کے عالم میں شہری انتظامیہ کو گالیاں دیتے بھی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتظامیہ کے آپریشن کے دوران جو کتے مارے گئے تھے ان میں وہ چند کتے بھی تھے جنھیں دیکھ بھال کے لیے ٹیپو شریف نے اپنے گھر رکھا ہوا تھا، وہ کتے گھر سے نکل گئے اور انتظامیہ کی جانب سے گلی میں ڈالا گیا زہر کھا کر مر گئے۔ رپورٹ کے مطابق ٹیپو شریف نے بعد میں ایک اور ویڈیو بھی شیئر کی جس میں وہ مردہ کتوں کو گاڑی میں ڈال کر لے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں انھوں نے کہا:''بہیمانہ انداز میں کتوں کو مارنے والے مسلمانوں کے لیے خدا نے الگ سے خصوصی جہنم بنائی ہوگی جس میں انھیں ڈالا جائے گا۔''


سندھ کی  تاجدار پیدائشی شہزادی ہوں یا کلفٹن کے پرتعیش محلوں میں رہنے والے اداکار و گلوکار اور ان جیسے دیگر لوگ، ان کی ایسی باتوں کو ''بھرے پیٹ کی باتیں'' ہی کہا جاسکتا ہے ورنہ عام صورت حال یہ ہے کہ کراچی ہو یا اندرون سندھ اور پنجاب آوارہ اور پاگل کتوں نے بستیوں اور آبادیوں میں  عوام الناس کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ آج   ایک خبر نظر سے گزری ہے کہ لودھراں میں آوارہ کتوں کی ایک ٹولی نے حملہ کرکے پانچ بچوں کو بری طرح بھنبھوڑ ڈالا ہے جنھیں شدید زخمی اور تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ اندرون سندھ اور کراچی سے بھی تواتر کے ساتھ ایسی ہی ہول ناک خبریں آتی رہتی ہیں۔ مگر  حکومت والوں کے بچوں کی خیر ہو 


اس مضمون کی تیاری میں روزنامہ جسارت  اور روزنا مہ ایکسپریس کی تحریر بھی شامل ہے

 

اتوار، 8 دسمبر، 2024

زار شاہی کے دور حکومت میں انقلاب روس

 

23 فروری1917ء (موجودہ کیلنڈر کے مطابق 7مارچ) کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔جب خواتین لائنوں میں لگ کر  کئی  گھنٹے انتظار کر چکیں تب ان سے کہا گیا کہ گودام خوراک سے خالی ہو چکے ہیں  مزید انتظار فضول ہو گا اس لئے گھروں کو لوٹ جائے،  ۔ اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری انقلاب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ ء،سفید پوش  ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے   ۔27فروری کے بعد دار الحکومت کا بیشتر حصہ محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل، گولہ بارود، ریلوے اسٹیشن، ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل تھے۔


 1905ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔مارچ تک طاقت سے محروم زار نکولاس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف شاہی خاندان قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔   اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بلا لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے تنگ آ چکی تھی۔ انھیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔


 پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔   آمرانہ طرز حکومت، اقتصادی کمزوری، بد عنوانی اور قدیم طرز پر بنی افواج پر عوامی غیظ و غضب بالآخر ایک انقلاب کی صورت میں ڈھل گیاجس کا مرکز مغربی شہر پیٹروگراڈ (جو پہلی جنگ عظیم سے قبل سینٹ پیٹرز برگ کہلاتا تھا) تھا۔ زار کی جگہ روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے شہزادہ جورجی لفوف کی زیر قیادت اقتدار سنبھالا۔ جولائی کے فسادات کے بعد لفوف کی جگہ الیگزیندر کیرنسکی نے لے لی۔ عبوری حکومت آزاد خیال اور اشتراکیوں کے درمیان ایک اتحاد تھا، جو سیاسی اصلاحات کے بعد ایک جمہوری طور پر منتخب کی گئی آئینی مجلس (اسمبلی) سامنے لانا چاہتی تھی۔یہ انقلاب بغیر کسی واضح قیادت یا منصوبہ بندی کے وجود میں آیا۔  جب کہ بادشاہ کی بالا دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں اب بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین، زمیندار اور امرا بھرے پڑے تھے جنھوں نے ملک میں “عبوری حکومت” کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے میں بہت سی مشکلات کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی  نہیں چاہتی  تھی۔روس کی پارلیمنٹ  میں   امراء اورجاگیردار اپنا   غلبہ  اور بالادستی سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھے اپریل میں لینن کی فن لینڈ سے واپسی ہوئی، ریلوے اسٹیشن پر روسی انقلاب کی سوشلسٹ خصوصیات پر لینن نے جو تقریر کی وہ پارٹی کے بہت سے لیڈروں کے لیے ایک دھماکا تھی۔ 


اپریلکی 4 تاریخ تھی 1917ءکو مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں (پنچائتوں) کی کل روس کانفرنس کے دو اجلاسوں میں لینن نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے اپنا نکتہ نظر واضح کیا، اس میں لینن نے عبوری حکومت کی کوئی حمایت نہ کرتے ہوئے  اسے سرمایہ داروں کی حکومت قرار دیا۔  -25 اکتوبر کو ہماری افواج نے سرما محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شہری ساری رات امن سے سوئے رہے‘ انھیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ ریلوے اسٹیشن‘ ڈاک خانہ‘ تارگھر‘ پیٹروگراڈ‘ ٹیلی فون ایجنسی اور اسٹیٹ بینک‘ سب پر ہمارا قبضہ ہو چکا تھا۔ اسی شام جب ہم سوویتوں کی کانگریس کے افتتاح کا انتظار کر رہے تھے تو لینن اور میں ہال سے ملحقہ ایک کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ کمرہ بالکل خالی تھا‘ ماسوائے کرسیوں کے۔ کسی نے ہمارے لیے فرش پر کمبل بچھا دیا۔ شاید وہ لینن کی بہن تھی جو ہمارے لیے سرہانے لائی تھی۔ ہم ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے تھے۔ جسم اور روح تنے ہوئے تاروں کی طرح تھے۔ ہم نے یہ آرام بڑی محنت کے بعد کمایا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ لہٰذا ہم مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔ شورش ختم کرنے کے خیال سے لینن اب مصالحت کرچکا تھا۔ وہ سرخ محافظوں‘ سپاہیوں اور جہاز رانوں کے ان ملے جلے ناکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا‘ جو شہر میں ہر جگہ لگے ہوئے تھے ”  لینن کا کہنا تھا ”یہ کیسا حیرت ناک نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ آگ تاپ رہے ہیں“ وہ اپنے گہرے احساس کو دہرائے جارہا تھا۔


لینن اس وقت دُنیا بھر میں چلنے والی سوشلسٹ تحریکوں سے بہت متاثر تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں ’بین الاقوامی سوشل انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ لینن دراصل کارل مارکس کے پیروکار تھے اور وہ سوشل ازم کو روس سے باہر بھی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے۔اس خواب کو پورا کرنے کے لیے سنہ 1919 میں لینن اور کارل مارکس سے انسیت رکھنے والی دیگر شخصیات نے ’کمیونسٹ انٹرنیشل‘ کی بنیاد رکھیاس کے بعد سے اس کے اراکین کمیونسٹس کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن کمیون ازم کو پوری دنیا تک پھیلانے کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔روفیسر جولین کیسانوا کہتی ہیں کہ ’کمیون ازم کی ترویج کا عمل سنہ 1918، 1919 اور 1920 میں جاری رہا۔ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری میں بغاوت ہوئی۔ لیکن بالشویک کہیں اور زیادہ دنوں تک اقتدار میں نہیں رہ سکے۔‘بلا کون ہنگری کے ایک کمیونسٹ سیاستدان تھے جو 1919 میں کچھ عرصے کے لیے اقتدار میں آئے۔روفیسر جولین کہتی ہیں کہ ’لیکن یہ تمام انقلاب خون خرابے کی نذر ہو گئے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان تمام ممالک میں ایسے بہت سارے مسلح گروہ تھے جو کہ لینن کے گروہ اور نظریات کے مخالف تھے۔ن تمام وجوہات کے سبب لینن کا دنیا بھر میں سوشل ازم پھیلانے کاخواب پورا نہیں ہو سکا لیکن وہ سوویت یونین کی بُنیاد رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے، جو ایک ایسی سُپرپاور بنا جس نے اگلے 70 برسوں میں دُنیا کی بڑی طاقتوں  کا ناک میں دم کئے رکھا  


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر