بدھ، 23 اکتوبر، 2024

کربلا گامے شاہ کے خالق کو ن تھے

 یہ ان دنوں کا زکر ہے جب تخت لاہور پر  مہاراجہ رنجیت سنگھ  سریر آرائے سلطنت ہوا کرتا تھا -اسی کے دور حکومت میں باباگامے شاہ نے 1828ء میں سب سے پہلے ایک تعزیہ تیارکیا اور روز عاشور اپنے شانوں پر اٹھاکر اسے لاہور کی گلیوں اور سڑکوں پر   اما م حسین علیہ السلام کی مرثیہ گوئ اور ساتھ ہی گریہ و زار ی  کرتے ہوئے گشت کیا ۔مہاراجہ  رنجیت سنگھ کو یہ خبرملی تواس نے بابا گامے شاہ کو اپنے دربار میں بلوا کر اسے سخت الفاظ استعمال  کرتے ہوئے بے عزت کیا اور حکم جاری کیا کہ آئندہ وہ کبھی تعزیہ نہیں نکالے گا۔ اس پر گامے شاہ نے دلیری سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ہر  سال محرم کے مہینے میں  تعزیہ  بھی بنائے گا اور اس کے ساتھ سڑکوں پر گشت بھی  کرے گا اور زندگی بھر  ایسا کرتا رہے گا۔ رنجیت سنگھ نے یہ دوٹوک جواب سنا توحکم جاری کیا کہ گامے شاہ کو شاہی قلعہ لاہور میں قید کردیا جائے۔


 اسی رات سے رنجیت سنگھ کو رات میں سوتے ہوئے ڈراؤنے خواب آنے لگے۔ وہ یہ خواب دیکھ کر راتوں کو جاگتا رہا اور پھر پریشانی کے عالم میں اپنے وزیرفقیر سید عزیزالدین کو ساتھ لے کر اس جیل میں گیا جہاں بابا گامے شاہ کو قید کیا گیا تھا۔ پھر اس نے فقیر سید عزیزالدین کی موجودگی میں گامے شاہ سے معافی مانگی اور اسے قید سے رہا کردیا ۔گامے شاہ جب تک زندہ رہے تعزیہ نکالتے رہے ۔ لاہور کی تاریخ میں محرم کو عوامی طور پر منانے کی روایت اٹھارویں  صدی کے اوائل میں جاری ہوئی جو آج تک جاری ہے اور تاقیامت رہے گی … اندرون لاہور اور اسلام پورہ (سابق کرشن نگر) میں تعزیئے‘ ماتمی جلوس اور ذوالجناح دیکھنے والے ہوتے ہیں


اس طرح لاہور سے تعزیہ نکالنے کی ابتدا  درویش شخص غلام علی شاہ نے کی تھی جو بعد میں بابا گامے شاہ کے نام سے مشہور ہوئے اور آج تک اسی نام سے مشہور ہیں۔ گامے شاہ کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ وہ عام لاہوریوں کی نظر میں تو دیوانے شمار ہوتے تھے‘ لیکن درحقیقت و عارف کامل اور شہیدانِ کربلا کے ایسے عاشق تھے کہ جس کی مثال اس وقت کے لاہور میں کہیں نہیں ملتی تھی۔ بابا گامے شاہ ہمیشہ سیاہ لباس پہنتے تھے اور دربار داتاصاحب کے قریب ایک قدیم برف خانہ تھا وہاں زمین پر بیٹھے رہتے تھے۔ ایک اور بڑھیا تھی جسے آغیاں مائی کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ وہ بھی عاشورہ کے روز موچی دروازہ سے نوحہ خوانی کرتے اور اپنا سر پیٹتے ہوئے گامے شاہ کے ڈیرہ پر آجاتی تھی۔
 
 قید سے رہائی کے بعد بابا گامے شاہ ہرسال محرم کے دنوں میں اپنا بنایا ہوا تعزیہ اپنے سر پراٹھا کر لاہور شہرکے گلی کوچوں میں جاتے اور گریہ زاری کرتے ہوئے گزرتے تھے اور لاہوریوں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا تھا جب بابا گامے شاہ کا انتقال ہوا توانہیں نہایت احترام کے ساتھ مزارحضرت داتا صاحب کے قریب جہاں وہ زندگی بھر بیٹھتے رہے تھے‘ اسی حجرے میں انہیں دفن کیا گیا۔ مزار کے ساتھ ہی ایک بڑے برتن میں کربلا کے میدان سے لائی گئی مٹی میں رکھی گئی ہے جو بابا گامے شاہ کی تعزیہ سازی اور محرم میں کربلا میں دی جانے والی بے مثال قربانیوں کی تشہیرکے حوالے سے ایک نذرانۂ عقیدت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس جگہ کو پھرکربلا گامے شاہ کا نام دے دیا گیا ۔ گامے شاہ کے مزار کے اوپری حصہ پر وہ قدیم تعزیہ میں جلوہ نما ہے جسے وہ اپنے سر پر اٹھاکر لاہور شہرکے گلی کوچوں میں گھوما کرتے تھے اور باآواز بلند گریہ وماتم بھی کیا کرتے تھے۔ یہ ماتمی سفر آج بھی لاہور شہر کے گلی کوچوں میں محرم کے دوران نمایا  ں دکھائی دیتا ہے بلکہ لاہورکے محرم کا  لازمی حصہ بن چکا  ہے

گامے شاہ کی وفات کے بعد تعزیہ سازی کی روایت کو برقرار رکھنے کیلئے نواب علی رضا قزلباش اور سر نوازش علی قزلباش نے کچھ اور لوگوں سے مل کر یہ جگہ خریدلی اور پھریہاں گامے شاہ کا مقبرہ بھی تعمیر کروایا اور مقبرے کے ساتھ ہی ایک ’’کربلا‘‘ بھی بنوائی۔ پھر اس جگہ کا نام کربلا گامے شاہ رکھا گیا۔ پھراس کربلا کو وہ شہرت ملی کہ لاہور میں بنائے جانے والے سارے تعزئیے دس محرم کو یہیں لائے جاتے ہیں۔ لاہور کی عزاداری کی تاریخ میں کربلا گامے شاہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ 1868ء میں پورے شہر لاہور میں تعزیہ سازی پر لاکھوں روپیہ خرچ ہونے لگا اور بے شمار ڈیزاءنو ں  تعزئیے بنائے جانے لگےیہ تعزیے سونے، چاندی ، لکڑی، بانس، کپڑے، کاغذ اور سٹیل سے تیار کیے جاتے ہیں ۔ پھریوں ہوا کہ تعزیوں کو شہر لاہور میں  بغرض زیارت گشت  کے بعد شہر سے باہر لے جاکر مٹی میں دفن کیا جانے لگا۔ عموماً یہ تعزئیے دریائے راوی کے کنارے میں دبائے جاتے تھے۔ جن تعزیوں پر قیمتی چیزیں لگائی گئی ہوتی تھیں‘ انہیں اگلے روز ریت سے نکال کر آئندہ محرم کیلئے محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ بابا گامے شاہ کا جاری کردہ تعزیہ سازی اور ماتم گساری کا یہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے۔ 

منگل، 22 اکتوبر، 2024

منکی پاکس -احتیاط لازم ہے

 پ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ  د  نیا میں چیچک  کا مرض   کم از کم 3000 سال تک موجود رہا- اور بالآخر 1980 میں عالمی ادارہ صحت نے چیچک کے دنیا سے باضابطہ طور پر ختم ہونے کا اعلان کیا۔لیکن کافی عرصے کے بعد چیچک سے ملتی جلتی بیماری نے سر  اُٹھا یا ہے -جس کا نام منکی پاکس ہے  یہ بیماری ایک وائرل انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس کی علامات چیچک سے ملتی جلتی ہیں، مگر یہ چیچک سے کم خطرناک ہوتی ہے۔ منکی پاکس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔2022 میں عالمی منکی پاکس (mpox) وبا کے آغاز سے لے کر جولائی 2024 کے آخر تک، 116 ممالک سے منکی پاکس کے 99,176 مصدقہ کیسز اور 208 اموات رپورٹ کی جا چکی ہیں۔ منکی پاکس عام طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے، اور اس کی علامات جلد پر دانے، بخار، اور جسمانی درد شامل ہیں۔ یہ بیماری پہلی بار 1958 میں دریافت ہوئی جب بندروں میں اس کی وبا پھوٹی، اور اسی وجہ سے اس کا نام ’منکی پاکس‘ رکھا گیا۔ تاہم، منکی پاکس جیسی وائرل بیماریوں نے سائنسدانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کچھ دیگر وائرس بھی چیچک کے وائرل خاندان سے جڑے ہو سکتے ہیں۔ منکی پاکس پہلی بار 1958 میں دریافت ہوئی جب ڈنمارک کی ایک تجربہ گاہ میں تحقیق کے دوران بندروں میں اس بیماری کی شناخت ہوئی۔ اس کے بعد، 1970 میں یہ بیماری پہلی بار انسانوں میں کانگو (وسطی افریقہ) میں پائی گئی۔ اس کے بعد مختلف افریقی ممالک میں منکی پاکس کے کیسز سامنے آئے۔


منکی پاکس کیا ہے؟منکی پاکس ایک وائرل انفیکشن ہے  -یہ وائرس بنیادی طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، خاص طور پر جنگلی جانور جیسے بندر، چوہے اور گلہریاں اس بیماری کے اہم کیرئیرز سمجھے جاتے ہیں۔ منکی پاکس وائرس کی دو بڑی قسمیں ہیں:(1)  وسطی افریقی (کنغوی) قسم: یہ قسم زیادہ خطرناک ہے اور انسانوں میں زیادہ آسانی سے منتقل ہوتی ہے۔ (2)  مغربی افریقی قسم: یہ قسم کم خطرناک ہے اور انسانوں کے درمیان منتقلی کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔منکی پاکس کے پھیلاؤ کا طریقہ: منکی پاکس کی منتقلی زیادہ تر جانوروں سے انسانوں میں ہوتی ہے۔ جانوروں کے کاٹنے، خراشوں، یا ان کے جسمانی مواد سے براہِ راست رابطے کے ذریعے وائرس انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کسی متاثرہ جانور کے گوشت کا استعمال بھی بیماری پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔ انسانوں میں منتقلی کے دوران، یہ وائرس زیادہ تر متاثرہ شخص کے جسمانی مواد، جلد پر بننے والے دانوں، یا متاثرہ شخص کے لباس اور بستر وغیرہ کے ذریعے پھیلتا ہے۔انسانوں میں منکی پاکس کی منتقلی کے ذرائع میں یہ عوامل شامل ہیں: متاثرہ جانور سے براہِ راست رابطہ، متاثرہ جانوروں کے گوشت کا استعمال، متاثرہ شخص سے قریبی جسمانی رابطہ، متاثرہ شخص کے کپڑے، بستر یا دیگر استعمال شدہ اشیاء کے ذریعے۔


منکی پاکس کی علامات-منکی پاکس کی علامات ابتدائی طور پر فلو جیسی ہوتی ہیں اور اس کے بعد جلد پر خاص قسم کے دانے نمودار ہوتے ہیں۔ علامات کی تفصیل درج ذیل ہے:بخار: منکی پاکس کی سب سے پہلی اور عام علامت بخار ہے، جو وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے 5 سے 21 دن بعد شروع ہوتا ہے۔ سر درد اور تھکن: بخار کے ساتھ ہی شدید سر درد، تھکن، اور جسم میں درد کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔گلے کی سوجن: متاثرہ شخص کے لیمف نوڈس (glands) سوج جاتے ہیں، جو چیچک سے اس بیماری کو مختلف بناتے ہیں۔جلد پر دانے: بخار کے چند دن بعد جلد پر دانے نمودار ہوتے ہیں، جو چیچک کی علامات سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ دانے اکثر چہرے سے شروع ہوتے ہیں اور پھر پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔پپڑیاں بننا: دانے پھٹنے کے بعد ان پر پپڑیاں بن جاتی ہیں جو بعد میں سوکھ کر گر جاتی ہیں۔


مرض کی شدت: منکی پاکس کی شدت مختلف افراد میں مختلف ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر کیسز میں بیماری کی شدت درمیانی ہوتی ہے، اور مریض دو سے چار ہفتوں کے اندر صحت یاب ہو جاتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات یہ بیماری شدید بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پر بچوں، حاملہ خواتین، اور ایسے افراد میں جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔منکی پاکس کی تشخیص زیادہ تر طبی علامات اور مریض کی تاریخ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ تاہم، چونکہ اس بیماری کی علامات چیچک اور دیگر جلدی امراض سے ملتی جلتی ہیں، اس لیے لیبارٹری ٹیسٹ ضروری ہوتے ہیں۔ منکی پاکس کی تشخیص کے لیے درج ذیل ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں:پی سی آر (Polymerase Chain Reaction) ٹیسٹ: یہ ٹیسٹ منکی پاکس وائرس کی موجودگی کی تصدیق کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ وائرس کلچر: وائرس کو لیبارٹری میں کلچر کر کے اس کی شناخت کی جاتی ہے۔ 


 منکی پاکس کا علاج

چونکہ یہ ایک وائرل بیماری ہے، اس لیے اس کا علاج زیادہ تر علامات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بخار، درد، اور جلد کی علامات کو دور کرنے کے لیے عام ادویات دی جاتی ہیں۔ بیماری کی شدت کو کم کرنے کے لیے مریض کو مکمل آرام، مناسب غذا، اور جسم میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے پانی اور دیگر سیال فراہم کیے جاتے ہیں۔چیچک کی ویکسین اور منکی پاکس: چیچک کی ویکسین منکی پاکس کے خلاف بھی 85 فیصد تک مؤثر سمجھی جاتی ہے۔ ان افراد کو جنہیں منکی پاکس کا خطرہ ہو یا جنہوں نے متاثرہ علاقوں کا سفر کیا ہو، چیچک کی ویکسین دی جا سکتی ہے تاکہ بیماری سے بچاؤ ممکن ہو سکے

پیر، 21 اکتوبر، 2024

عالمی ادارہ صحت نے خناق کی ادویات سندھ حکومت کو عطیہ کردیں

 


عالمی ادارہ صحت نے خناق ڈپتھیریا کی ادویات سندھ حکومت کو عطیہ کردیں

ہیلتھ ڈیسک شائع October 16, 2024

Dawn News WhatsApp Channel واٹس ایپ چینل

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خناق کے علاج کی اینٹی ٹاکسن ادویات سندھ حکومت کو عطیہ کردیں۔سندھ بھر کے سرکاری ہسپتالوں سمیت نجی ہسپتالوں میں خناق کے علاج کے دوران کام کرنے والی اینٹی ٹاکسن ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی، جس وجہ سے صوبے بھر میں خناق کے مرض میں مبتلا بچوں کی اموات بھی ہوئی ہیں۔محکمہ صحت نے بتایا تھا کہ خناق کے سب سے زیادہ کیسز صوبائی دارالحکومت کراچی میں رپورٹ ہوئے، تاہم اموات سب سے زیادہ حیدرآباد ڈویژن کے ضلع دادو میں ہوئیں۔اس سے قبل خبریں پھیلی تھیں کہ سندھ بھر میں خناق سے 100 بچوں کی اموات ہوئی ہیں، جس پر سندھ حکومت نے واضح کیا تھا کہ بیماری سے صرف 28 بچوں کی اموات ہوئی ہیںمحکمہ صحت سندھ نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ صوبے بھر میں رواں برس 5 اکتوبر تک خناق سے 28 بچوں کی اموات ہوئیں اور 166 کیسز رپورٹ ہوئے۔سندھ بھر میں خناق کے علاج میں کام آنے والی اینٹی ٹاکسن ادویات کی قلت کے بعد عالمی ادارہ صحت نے سندھ حکومت کو ویکسینز فراہم کیں


انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے حکام نے اینٹی ٹاکسن ویکسینز کی 500 خوراکیں سندھ حکومت کے حوالے کیں، جنہیں سندھ انفیکشس ڈیزیز سمیت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ) میں استعمال کیا جائے گا۔دوسری جانب وفاقی محکمہ صحت کے ادارے ”ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان“ ’ڈریپ‘ نے بھی اینٹی ٹاکسن ادویات کی بیرون ملک فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں ہیں کہ پہلے ملک میں ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ خناق میں مبتلا بعض بچوں کے علاج کے لیے اینٹی ٹاکسن کی ادویات پر ڈھائی لاکھ روپے تک خرچ آتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خناق ناقابل علاج نہیں، اگر والدین پابندی سے بچوں کو خناق سے بچائو کی ویکسینز لگوائیں تو اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔یہ بیماری خصوصی طور پر نوزائیدہ یا 10 سال سے کم عمر بچوں کو  ہوتی ہے، خناق وائرس سے ہونے والا سنگین انفیکشن ہے جس کے سبب سانس کی نالیوں میں سوزش ہوجاتی ہے اور بچے کے سانس لینے پر آواز آتی ہیں۔خناق کی عام علامات میں سخت اور بڑے آواز کی کھانسی، اونچی آواز میں سانس لینا، خرخراہٹ، سانس لینےمیں مشکل ہونا، گلے میں خارش، آواز کا بھاری یا تبدیل ہونا ناک بہنا یا بند ہونا اور بخار شامل ہیں، تاہم اس میں سے بعض علامات دوسرے مسائل کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں۔بچوں میں مذکورہ علامات کے بعد فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہیے 


خناق ایک شدید بیکٹیریل انفیکشن ہے جو گلے اور ناک کی(چپچپا ) جھلیوں کو متاثر کرتا ہے۔ اگرچہ جدید دور میں یہ نسبتاً نایاب ہے، بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی وجہ سے، وباء اب بھی ہو سکتی ہے، خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال کے ناقص انفراسٹرکچر والے علاقوں میں۔ جب کوئی وباء پھیلتی ہے، تو یہ تیزی سے پھیل سکتا ہے اور اگر فوری طور پر علاج اور اس پر قابو نہ پایا جائے تو شدید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔   خناق کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے۔ بیکٹیریم کی کھانسی یا چھینک سے سانس کی بوندوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ آلودہ اشیاء یا سطحوں کے ساتھ رابطے سے بھی پھیل سکتا ہے۔خناق کی علامات میں گلے اور ٹانسلز پر ایک موٹی، سرمئی کوٹنگ شامل ہے، گلے کی سوزش، سوجن غدود، سانس لینے میں دشواری، اور بخار۔ علاج کے بغیر، خناق شدید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے، جیسے قلب کی ناکامی یا فالج -خناق سے بچاؤ کے اقداما ت -بچوں میں خناق کی روک شاٹس کی ایک سیریز ملنی چاہیے۔ 


یہ شاٹس عام طور پر دو ماہ، چار ماہ، چھ ماہ، 15-18 ماہ، اور 4-6 سال کی عمر میں دیے جاتے ہیں۔بالغوں میں خناق کی روک تھام استثنیٰ کو برقرار رکھنے کے لیے بالغوں کو ہر دس سال بعد Tdap   حاملہ خواتین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ہر حمل کے دوران Tdap ویکسین لگائیں تاکہ وہ خود کو او اپنے نوزائیدہ بچوں کو خناق سے بچائیں۔ہائی ویکسینیشن کوریج کو برقرار رکھنا-کسی کمیونٹی میں ویکسینیشن کی اعلی شرح کو برقرار رکھنا وباء کو روکنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس تصور کو، جسے ہرڈ امیونٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، کا مطلب ہے کہ جب کافی لوگوں کو ویکسین لگائی جاتی ہے، تو بیماری کے پھیلنے کا امکان کم ہوتا ہے،۔صفائی اور حفظان صحت کو فروغ دیناحفظان صحت کے اچھے طریقوں سے خناق کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ 


 اگر خناق کی وباء کا سامنا کرنے والے کسی علاقے کا سفر کرتے ہوئے، اضافی احتیاطی تدابیر ضروری ہوسکتی ہیں، جیسے کہ بیمار افراد کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کرنا اور حفظان صحت کے بہتر اقدامات پر عمل کرنا۔ ان میں صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی، ویکسین سے ہچکچاہٹ، ۔ خناق کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ان رکاوٹوں پر قابو پانا ضروری ہے ۔ صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور سستی یا مفت ویکسینیشن خدمات فراہم کرنے کی کوششیں خناق سے بچاؤ کے لیے ں۔عوامی بیدار ی  ترغیب دے سکتی ہ۔  اقدامات کے فوائد سے آگاہ کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔خناق کا علاج اور روک تھاماگرچہ روک تھام کلیدی حیثیت رکھتی ہے، لیکن خناق کے علاج کے اختیارات پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی انفیکشن ہوتا ہے تو، ڈپتھیریا اینٹی ٹاکسن، جو اینٹی بائیوٹکس کے ساتھ دیا جاتا ہے، بیکٹیریا کے ذریعہ پیدا ہونے والے زہر کو بے اثر کر دیتا ہے

اتوار، 20 اکتوبر، 2024

ہالو وین-دو ہزار سال پرانا تہوار

      دراصل   اس تہوار کے منائے جانے میں  اس  کا تعلق بد روحوں،چڑیلوں، مُردوں، شیطان، اور ہر  طرح کی غیر روحانی مخلوقات سے جوڑا جاتا ہے-بتایا جاتا ہے  کہ امریکہ میں اس کی ابتدا1921ء میں شمالی ریاست مینسوٹا سے ہوئی، پھر اسی سال پہلی بار شہر کی سطح پر یہ تہوار منایا گیا، پھر آہستہ آہستہ دو ہزار سال پرانا یہ تہوار امریکہ کے دوسرے شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا،  اس  تہوار  میں ا کتوبر کی آخری شام کو امریکہ اور کینیڈا   میں    گھروں  کے باہر عوامی مقامات کو بھوت پریت، چڑیلیوں کے ڈراؤنے ڈھانچوں سے سجایا جاتا ہے-  اس رات  کو    ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور   ٹرک اند ٹریٹ  صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور اور حسب مقدور  کھانے کی  میٹھی اشیاء دے کر رخصت کردیتے ہیں۔


 

   اس دن  لوگ اپنے گھروں کے باہر ہڈیاںِ، ڈھانچے، کتبے اس لئے لگاتے ہیں کہ بد روحیں یہ سمجھیں کہ یہ پہلے سے ہی بد روحوں کا مسکن ہے ، یہاں انسان نہیں رہتے اور دھوکا کھا کر واپس چلی جائیں ہا لووین کا   تہوار  قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے کیونکہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں۔ہالووین کی موجودہ رسوم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے- ہالووین کے  موقعہ پر ہر سال لاکھوں ، کروڑوں ڈالر کے چاکلیٹس کے علاوہ کاسٹیومز، کھوپڑیاں، ڈھانچے اور لا محدود قسم کے لوازمات بکتے ہیں۔



 ان قبائل کا عقیدہ تھا کہ 31 اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے قبائلی 31 اکتوبر کی رات آگ کے الاؤ روشن کرتے، اناج بانٹتے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ہالو وین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ موسم گرما کے اختتام کے ساتھ یعنی31اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور امریکہ میں تو25اکتوبر سے شروع ہوجاتا ہے یورپ و امریکہ میں اس دن کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔ کہیں کہیں کدو یعنی پمپکن  کے پیٹ سے بیج نکال کر اس میں دیئے رکھ کر روشنی کی جاتی ہے کدو  کو مختلف اشکال میں ڈھالا جاتا ہے۔ لوگ بھیس بھی اسی لئے بدلا کرتے ہیں  کہ شیطان اورارواح خبیثہ انہیں پہچان نہ پائیں۔ بچوں میں کھانے کی چیزیں بانٹنے کے پیچھے بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ شیطان اور چڑیلیں بچوں کو خوش کرنے کی وجہ سے اہل خانہ سے دور رہیں۔


 انیسویں صدی کے آخر تک امریکہ میں ہالو وین پارٹیاں عام ہونے لگیں جن میں بچے اور بڑے شریک ہوتے۔ ان پارٹیوں میں کھانے کے علاوہ چہرے پر خوفناک ماسک چڑھائے جاتے، اب بھی یہ تہوار زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹس، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈرائونے چہروں اور خوفناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر کدو پیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہیبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈرائونے ڈھانچے کھڑے کیے ہوتے ہیں۔ جب ان کے قریب سے گزریں تو خوفناک دل دہلانے والا قہقہہ لگاتے ہیں۔ یہ کہا جائے کہ اس تہوار کو خوف و ہراس سے منسوب کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، بھلے اس کاروباری قسم کے تہوار سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں،۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی ہیبت ناک قسم کی سچویشن سوٹ نہیں کرتی، اسے عام طریقے سے منایا جائے تو بہتر ہے۔

ہفتہ، 19 اکتوبر، 2024

شہاب ثاقب کیا ہوتے ہیں !


بسم اللہ الرحمن الرحیم

سورہ الواقعۃ آیت نمبر 74،75،76

لہذا (اے پیغمبر ﷺ) تم اپنے عظیم پروردگار کا نام لے کر اس کی تسبیح کرو۔

اب میں ان جگہوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں جہاں ستارے گرتے ہیں۔ (1)

اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی زبردست قسم ہے۔ (2)

تفسیر: یہاں قرآن کریم کی حقانیت اور اس کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کا بیان فرمانا مقصود ہے، مکہ مکرمہ کے کافر لوگ بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذاللہ) دراصل کاہن ہیں، اور یہ قرآن کاہنوں کا کلام ہے، کاہنوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیشین گوئیوں میں جنات اور شیطانوں سے مدد لیتے تھے، اور قرآن کریم نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ شیطانوں کو آسمان کے قریب جاکر وہاں کی باتیں سننے سے روک دیا گیا ہے، اور اگر کوئی شیطان سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو شہاب ثاقب سے مار بھگایا جاتا ہے (دیکھئے سورة حجر ١٥: ١٨ اور سورة صافات ٣٧: ١٠)  قرآن کریم نے ستاروں کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو شیاطین سے حفاظت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے (دیکھئے سورة صافات ٣٧: ٧ اور سورة ملک ٦٧: ٥) لہذا جب جنات اور شیاطین کی آسمان تک رسائی نہیں ہے تو وہ کبھی ایسا مستحکم اور سچا کلام پیش نہیں کرسکتے جیسا قرآن کریم ہے،اس مناسبت سے یہاں ستاروں کے گرنے کے مقامات کی قسم کھائی گئی ہے کہ اگر ان کی حقیقت پر غور کرو تو صاف پتہ چل جائے گا کہ قرآن کریم ایسا باوقار کلام ہے جو کوئی کاہن بناکر نہیں لاسکتا ؛ کیونکہ یہ ستارے اسے عالم بالا تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔2: بیچ میں یہ جملہ معترضہ ہے جس میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھانے کی اہمیت کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے۔ ایک تو اس قسم سے یہ جتایا جا رہا ہے کہ ستارے گرنے کے یہ مقامات خود بتا رہے ہیں کہ کوئی کاہن یہ کلام بنا کر نہیں لایا، دوسرے جس طرح ان ستاروں کا نظام انتہائی مستحکم نظام ہے جس میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتا، 


دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا، جنات کا ان سے ہلاک ہونا، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوانانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گزر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہو گئے، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا۔سورۃ الأحقاف کی آیت «‏وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ» ‏ [46-الأحقاف:29] ‏ میں اس کا پورا بیان گزر چکا ہے۔ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی ایک خوفناک علامت تھی، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئیے نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اور عموماً انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا۔سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمان میں بیٹھے  فرشتوں کی آپس کی باتیں  سن  کر آتے تھے  اور کاہنوں کو بتاتے تھے ۔


1908ء میں سائبیریا میں شہاب ثاقب کے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس سے تقریباًً دوہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ تباہ ہو گیا تھا۔ بیسیویں صدی کے دوران زمین پر دو بڑے شہاب گرے تھے۔ ان میں سے ایک کا وزن 60 ٹن تھا۔ 27 ستمبر 1969 ء کو مرچی سن، آسٹریلیا میں ایک شہاب گرا تھا۔ اس کے وزن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچوں کی پٹی سے وجود میں آیاتھا2013ءدوسرے مہینے میں وسطی روس میں یورل کے پہاڑوں پر شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی بارش کے باعث تقریباًً سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔شہاب ثاقب دراصل سیارچوں  یا دم دار ستاروں سے خارج ہونے والے ٹھوس پتھر ہوتے ہیں جو کر ہ ارض کا احاطہ کرنے والی فضا سے گزر کر سطحِ زمین تک پہنچتے ہیں۔


عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی سے 2020 تک کل 17 شہابِ ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں گرے ہیں۔9 جنوری 2020 کی شام کو بلوچستان کے علاقے ڑوب میں زوردار دھماکوں کے ساتھ تقریباً 18.9 کلوگرام جسامت کا ایک بڑا شہابِ ثاقب اور ساتھ بہت سے چھوٹے پتھر گرے جنھیں مقامی افراد نے اپنی  تحویل میں لے لیا۔ہمارے نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان چکر لگانے والے خلائی پتھر جنہیں ’’ سیارچے ‘‘ (Asteroids) کہا جاتا ہےبعض اوقات زمین کی طرٖف آجاتے ہیں اور زمین کی فضا سے رگڑ کھانے سے ان میں اتنی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں


قرآن میں شہاب ثاقب کا ذکر ان سے آسمانوں کی حفاظت کا کام لینے کے طور پر آیا ہے ۔ سورۃ الجن میں جنوں کا بیان ہے:”اور یہ کہ : ہم پہلے سن گن لینے کے لیے آسمان کی کچھ جگہوں پر جا بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن اب جو کوئی سننا چاہتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ ایک شعلہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ (الجن ، آیت 9)ص مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت آپ کی آسمانی وحی کی حفاظت کے لئے اس سلسلہ کو اس طرح بند کردیا گیا کہ جب کوئی شیطان یہ خبریں سننے کے لئے اوپر آتا تو اس کی طرف شہاب ثاقب کا انگارہ پھینک کر اس کو دفع کردیا جاتا ۔،  

جمعرات، 17 اکتوبر، 2024

دیواربرلن : آخر بنائ کیوں گئ ؟

 


  ایک سو پچپن کلومیٹر کی یہ دیوار  بتدریج مکمل ہو سکی ۔ پہلے 1961ء میں خاردار تار لگائے گئے   ۔ پھر ان خاردار تاروں کو مضبوط اور محفوظ بنایا گیا ۔پھر  باقاعدہ طور پر ایک پختہ دیوار کا آغاز کیا گیا جو 1975ء تک جاری رہا۔ چوتھا اور آخری مرحلہ 1975ء سے شروع ہو کر 1989ء تک جاری رہا۔ اس آخری مرحلے کے دوران کنکریٹ سے بنی ساڑھے تین میٹر اونچی یہ دیوار باقاعدہ طور پر بارڈر وال میں بدل دی گئی۔ اس دیوار کے ذریعے غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کیلئے مشرقی جرمنی کی طرف سے بارہ ہزار کے لگ بھگ محافظ تعینات تھے جنہیں یہ ہدایات جاری کر رکھی تھیں کہ غیر قانونی  دیوار پھلانگنے والے کو فی الفور گولی مار دی جائے۔-اور لاتعداد  نوجوانوں کا لہو  اس دیوار کے محافظوں کے ہاتھوں  اس دیوار کی بنیادوں میں جذب ہوتا رہا  کیونکہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ما بین لاتعداد خاندان منقسم ہو چکے تھے  -اس طرح اس کا نام دیوار نفرت  کہنا زیادہ بہتر ہوگا 


دیوارِ برلن کے انہدام کے 30 برس مکمل ہونے پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر اینگلا مرک لدیوار برلن کی تعمیر:دراصل ہوا یوں کہ   1950ء سے 1960ء کی دہائی میں جرمنی دو حصوں میں تقسیم تھا تو اگست کی ایک صبح شہریوں پر یہ خبر بجلی بن کر گری جب انہوں نے دیکھا کہ سوویت کے زیر کنٹرول مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کے درمیان خاردار باڑ لگا کر عملاً انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا ہے۔ 13اگست 1961ء کو مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت نے اگرچہ یہ کہہ کر اس دیوار کی تعمیر کا آغاز کیا کہ ان کا مقصد مغربی فاشسٹوں کو مشرقی جرمنی میں داخل ہونے اور سوشلسٹ ریاست کو کمزور کرنے سے روکنا تھا جبکہ درحقیقت اس دیوار کی تعمیر کا مقصد مشرقی جرمنی سے اس کثیر نقل مکانی کو روکنا تھا جو کمیونسٹ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آ کر مغربی جرمنی کا رخ کر رہی تھی۔ نے کہا ہے کہ 'ہر وہ دیوار جو لوگوں کو تقسیم کرے اور ان کی آزادیوں پر پابندی لگائے وہ اتنی بلند نہیں ہو سکتی کہ اسے توڑا نہ جا سکے۔'سرد جنگ کے دور میں دیوارِ برلن سوویت یونین کے زیر انتظام مشرقی برلن کو مغربی برلن سے جدا کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کی تعمیر سنہ 1961 میں شروع ہوئی۔سنہ 1989 میں اس کے انہدام کو لبرل جمہوریت کی فتح کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے انہدام کے ایک برس بعد منقسم جرمنی کا اتحاد بحال ہوا تھا۔


’دیوار برلن کا انہدام ایک خواب کی تعبیر تھا‘سنیچر کے روز اینگلا مرکل نے متبنہ کیا کہ آزادی، جمہوریت، مساوات، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق جیسی قدریں جن پر یورپ کی بنیاد رکھی گئی وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں تاہم ان قدروں کا تواتر کے ساتھ دفاع اور انھیں تقویت پہنچانا بہت ضروری ہے۔دیوارِ برلن کے میموریل ہر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمیں آزادی اور جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کسی بھی طرح کے حیلے بہانوں سے دور رہنا چاہیے۔'بہت سے یورپی ممالک میں حال ہی میں دائیں بازو کی سیاست میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ چند یورپی ممالک جیسا کہ پولینڈ اور ہنگری پر قانون کی بالادستی کو کمزور کرنے کے الزامات بھی لگے ہیں۔سنہ 1989 میں وسطی اور مشرقی یورپ میں برپا ہونے والے انقلاب کے دوران دیوار برلن کو گرا دیا گیا تھا۔ اس انقلاب کے دوران عوامی احتجاج اور سیاسی تحریکوں کے باعث بہت سی سوویت نواز کمیونسٹ حکومتوں کا تختہ پلٹا گیا۔


جرمنی کے صدر فرینک والٹر نے جرمنی کے ہمسایہ ممالک کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'پولینڈ، ہنگری، چیک ریپبلک اور سلواکیہ کی آزادی کی خواہش کے بغیر مشرقی یورپ میں انقلاب اور جرمنی کا اتحاد ناممکن تھا۔'جرمنی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یورپ میں طاقت کا محور بدل رہا ہے اور آمرانہ طرز حکومت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگرچہ امریکی وزیر خارجہ اس تقریب میں موجود نہیں تھے تاہم رواں ہفتے کہ آغاز پر انھوں نے برلن کا دورہ کیا تھا۔جمعہ کو اپنی ایک تقریر میں انھوں نے بھی متنبہ کیا کہ 'آزادی کی ضمانت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔' چین اور روس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'آج آمرانہ طرز حکومت ایک مرتبہ پھر اپنا سر اٹھا رہی ہے۔'دیوارِ برلن کا انہدام کیسے ممکن ہوا؟دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اس وقت کے سوویت یونین اور اس کے مغربی اتحادیوں کے مابین تقسیم ہو گیا تھامشرق یورپ کو مغربی یورپ سے دور رکھنے کے لیے سوویت یونین نے 'آہنی پردے' لگانے کا کام شروع کیااس عمل سے جرمنی منقسم ہو گیا، مشرقی جرمنی پر سوویت یونین کا قبضہ ہوا جبکہ مغربی جرمنی امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے قبضے میں آیادیوار برلن کی تعمیر سنہ 1961 میں شروع ہوئی اور اس کا مقصد مشرقی جرمنی سے بھاگ کر مغربی جرمنی جانے والے افراد کو روکنا تھا


سنہ 1989 میں برپا ہونے والے انقلابوں سے مشرقی یورپ میں کئی سوویت نواز حکومتوں کا خاتمہ ہوا اور عوام نے آزادی کا مطالبہ کیااس سلسلے میں مشرقی جرمنی میں سلسلہ وار عوامی مظاہرے ہوئے جن کے تحت ہزاروں افراد دیوار برلن کی سرحد پر پہنچے اسے ہتھوڑوں کی مدد سے توڑا اور عبور کیا-دیوار برلن کی لمبائی 155 کلو میٹر تھی-دیوارِ برلن چار مراحل میں مکمل ہوئی۔ سنہ 1961 میں خاردار تار لگائی گئی اور سنہ 1962 سے سنہ 1965 تک خاردار تار کو مزید مستحکم کیا گیا، تیسرے مرحلے میں دیوار کھڑی کی گئی جبکہ سنہ 1975 سنہ 1989 تک چوتھے اور آحری مرحلے میں بارڈر وال مکمل کی گئیوار برلن‘‘  یہ سرد جنگ کے طویل دور کی نشانی کے طور پر 28سال قائم رہی، دوسری طرف یہ راتوں رات مشرقی اور مغربی جرمنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا باعث بھی بنی۔ دیوار برلن کی یادگار کے طور پر اس کا صرف تین کلومیٹر لمبا حصہ محفوظ رکھا گیا ہہے

بدھ، 16 اکتوبر، 2024

چائے کی پیالی میں تخت بلقیس کا سفر

 


نام  تو اس کا  لینارڈ تھا  لیکن  اسلام  قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی  ہو گیا-یہ سچی کہانی  ایک ایسے انگریز بچّے     لینارڈ کی ہے جو   انگلینڈ  کے  ایک  شاہی خاندان  میں پیدا ہوا  لیکن وہ  بچپن ہی سے وہ  اطراف و جوانب میں بسنے والے مسلمانوں  سے اپنے دل میں خاص انسیت رکھتا  تھا  -یہاں تک کہ وہ نوجوانی کی حدود میں داخل ہو گیا اور اس نے مسلمانوں کی تبلیغی  جماعت   سے وابستگی اختیار کر لی   اور ساتھ ہی دین اسلام میں داخل ہو گیا -اس کے بعد اس نے قران پاک کی تفسر پر قرانی  تعلیمات  کا بغور مطالعہ شروع کیا   اور اپنے مطالعاتی سفر میں جب وہ حضرت سلیمان  علیہ السّلام  اور  ملکہ بلقیس کے قصّہ  تک پہنچا تو سخت استعجاب میں پڑ گیا   کہ    حضرت سلیمان  علیہ السلام  کے  وزیر   آصف برخیا نے ملکہ بلقیس کا اسی گز لمبا اسی گز چوڑا    اور    اسی گز اونچا تخت جو  سات کمروں میں مھفوظ کیا  گیا تھا  کس طرح پلک جھپکنے سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر دربار میں پیش کر دیا تھا  


اس  واقعہ  نے اسے  وادی حیرت  میں مبتلا کر دیا اور  اس نے  پاکستان  میں  تبلیغی جماعت کے علمی افراد سے ٹیلیفون رابطے میں سوال کیا کہ    یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے..... وہ    کون سی ایسی طاقت یا زریعہ   ہے جس سے یہ  معاملہ  رونما ہواایک وسیع عریض تخت کیونکر پلک جھپکنے  اور کھلنے کی مدّت  کے درمیان  حضرت سلیمان علیہ السّلام کے  دربار تک آن پہنچا -اس  واقعہ  نے اسے  وادئ حیرت  میں غوطہ زن کر دیا  تھا  اور وہ سوال کا جواب چاہتا تھا  اس نے اپنے اطراف و جوانب کے مسلمانوں سے رابطہ کر کے  بس ایک ہی سوال دہرایا کہ تخت بلقیس کیونکر اتنی زرا سی دیر میں  کوسوں دور سے آن پہنچا  وہ لوگ  جب اس نو آموز مسلم کو  مطمئین  نہیں کر سکے تو کچھ نے کہا کہ  تم پاکستان  چلے جاؤ تمھیں  اپنے سوال کا  شافی جواب مل  جائگا  اور وہ پاکستان  کے دل  شہر لاہور آ گیا  پاکستا  ن میں اس  کے میزبان  کے گھر اس کی خوب مدارات ہو ئ اور  جگہ جگہ تایخی مقامات دکھائے گئے   پھر  ایک دن جب اس کے میزبان کی گاڑی داتا  دربار کے سامنے سے گزری اور اس نے وہاں عام لوگوں کا جمّ غفیر دیکھا    تو  اس نے  وہاں کے  ہجوم کے بارے میں اپنے میزبان سے سوال کیا  کہ اتنی بڑی تعداد میں یہاں لوگ کیوں جمع ہیں –


میزبان نے بتایا کہ یہ ایک اللہ والے کا مزار ہے اس نے   میزبان  سے کہ کر گاڑی رکوائ اورگاڑی سے اتر کر  مزار کے احاطہ میں داخل ہو گیا  احاطے سے ہو کر وہ اور آگے بڑھااب اس کے سامنے ایک بزرگ کھڑے تھے جن کے  ایک ہاتھ میں  چائے کی  پیالی اور دوسرے  ہاتھ میں گرم چائے کی کیتلی  تھی –بزرگ نے اس کو دیکھتے ہی سوال کیا چائے پیو گے لینارڈ نے کہا ضرور اور بزرگ نے لینارڈ کوکیتلی سے چائے نکال کر دی  اور چائے کی پیالی  ہاتھ میں لینے  کے ساتھ ہی لینارڈ بے ہوش ہو کر گر گیا  جب اس کے میزبان اسے ہوش میں لانے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے لینارڈ سے  بے ہوشی کا سبب پوچھا  تولینارڈ نے بتایا کہ   مجھے قرآن پاک  کی سچائی پر پورا یقین حاصل ہو چکا تھا  لیکن میں      ایسی تصدیق چاہتا تھا جو مجھے  روحانی طور   مطمئن کر سکے میں  اب پوری طرح جان گیا ہوں کہ تخت بلقیس کیونکر پلک جھپکنے اور کھلنے کی مدّت کے درمیان آیا ہو گا یعنی وہ عین الیقین کی منزل سے گزرنے کے ساتھ ہی معرفت الٰہی کی منزل پر پہنچ گیا -پھر اس نے چائے والے بزرگ کا پتا نشان دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا  کہ  وہ کب کے جا چکے کہاں سے آئے تھے  اور کہاں چلے گئے  کسی کو نہیں معلوم تھا -


پھر لینارڈ نے لوگوں کو اپنی بے ہوشی کا سبب بتاتے ہوئے  انکشاف کیا کہ اس کے انگلینڈ کے گھر کے اندر کمرے کے اندر  رکھے ہوئے چائے  کے  کپ  میں   مجھے بزرگ نے  چائےپیش کی  جسے دیکھتے ہی میں بے ہوش ہو گیا یعنی  چائے والے بزرگ نے لینارڈ کو معرفت کی منزل پر لاکھڑا کیا  اس کے بعد  اس انگریز  نے  واپس انگلستان جانے سے  انکار  کر دیا اور باقی ساری زندگی داتا گنج بخش کے مزار پر گزاری  اس کا انتقال  1945ء میں ہوا اور تدفین داتا گنج بخش کے مزار  کے احاطہ میں  موجود تہ خانے میں ہوئی جس کی لوح مزار  پرلینارڈ  افاروق احمد انگلستانی - آج      بھی اولیاء اللہ کی خدائی وابستگی کی شہادت دے رہی ہے لینارڈ کی قبول اسلام کی گھڑ ی سے لے کر اس کی وفات کی کہانی اگر دیکھئے تو معرفت الٰہی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے-اس کی دل کی خاموش پکار کو ازکار کرنے والی سماعت سنتی ہے۔ پھرساری کائنات زبانِ حال سے پکار اٹھتی ہے —  بے شک لینارڈ     وہ قابل رشک  انسان  تھاجس نے خدا کو پا لیا  

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر