بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ الواقعۃ آیت نمبر 74،75،76
لہذا (اے پیغمبر ﷺ) تم اپنے عظیم پروردگار کا نام لے کر اس کی تسبیح کرو۔
اب میں ان جگہوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں جہاں ستارے گرتے ہیں۔ (1)
اور اگر تم سمجھو تو یہ بڑی زبردست قسم ہے۔ (2)
تفسیر: یہاں قرآن کریم کی حقانیت اور اس کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کا بیان فرمانا مقصود ہے، مکہ مکرمہ کے کافر لوگ بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذاللہ) دراصل کاہن ہیں، اور یہ قرآن کاہنوں کا کلام ہے، کاہنوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیشین گوئیوں میں جنات اور شیطانوں سے مدد لیتے تھے، اور قرآن کریم نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ شیطانوں کو آسمان کے قریب جاکر وہاں کی باتیں سننے سے روک دیا گیا ہے، اور اگر کوئی شیطان سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو شہاب ثاقب سے مار بھگایا جاتا ہے (دیکھئے سورة حجر ١٥: ١٨ اور سورة صافات ٣٧: ١٠) قرآن کریم نے ستاروں کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو شیاطین سے حفاظت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے (دیکھئے سورة صافات ٣٧: ٧ اور سورة ملک ٦٧: ٥) لہذا جب جنات اور شیاطین کی آسمان تک رسائی نہیں ہے تو وہ کبھی ایسا مستحکم اور سچا کلام پیش نہیں کرسکتے جیسا قرآن کریم ہے،اس مناسبت سے یہاں ستاروں کے گرنے کے مقامات کی قسم کھائی گئی ہے کہ اگر ان کی حقیقت پر غور کرو تو صاف پتہ چل جائے گا کہ قرآن کریم ایسا باوقار کلام ہے جو کوئی کاہن بناکر نہیں لاسکتا ؛ کیونکہ یہ ستارے اسے عالم بالا تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔2: بیچ میں یہ جملہ معترضہ ہے جس میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھانے کی اہمیت کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے۔ ایک تو اس قسم سے یہ جتایا جا رہا ہے کہ ستارے گرنے کے یہ مقامات خود بتا رہے ہیں کہ کوئی کاہن یہ کلام بنا کر نہیں لایا، دوسرے جس طرح ان ستاروں کا نظام انتہائی مستحکم نظام ہے جس میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتا،
دراصل ستاروں کا بکثرت گرنا، جنات کا ان سے ہلاک ہونا، آسمان کی حفاظت کا بڑھ جانا، ان کا آسمان کی خبروں سے محروم ہو جانا ہی اس امر کا باعث بنا کر یہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے چاروں طرف تلاش کر دی کہ کیا وجہ ہوئی کہ ہمارا آسمانوں پر جانا موقوف ہوانانچہ ان میں سے ایک جماعت کا گزر عرب میں ہوا اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے سنا اور سمجھ گئے کہ اس نبی کی بعثت اور اس کلام کا نزول ہی ہماری بندش کا سبب ہے، پس خوش نصیب سمجھدار جن تو مسلمان ہو گئے، باقی جنات کو ایمان نصیب نہ ہوا۔سورۃ الأحقاف کی آیت «وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ» [46-الأحقاف:29] میں اس کا پورا بیان گزر چکا ہے۔ستاروں کا ٹوٹنا آسمان کا محفوظ ہو جانا جنات ہی کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی ایک خوفناک علامت تھی، وہ گھبرا رہے تھے اور منتظر تھے کہ دیکھئیے نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اور عموماً انبیاء علیہم السلام کی تشریف آوری اور دین اللہ کے اظہار کے وقت ایسا ہوتا بھی تھا۔سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیاطین اس سے پہلے آسمان میں بیٹھے فرشتوں کی آپس کی باتیں سن کر آتے تھے اور کاہنوں کو بتاتے تھے ۔
1908ء میں سائبیریا میں شہاب ثاقب کے گرنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس سے تقریباًً دوہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ تباہ ہو گیا تھا۔ بیسیویں صدی کے دوران زمین پر دو بڑے شہاب گرے تھے۔ ان میں سے ایک کا وزن 60 ٹن تھا۔ 27 ستمبر 1969 ء کو مرچی سن، آسٹریلیا میں ایک شہاب گرا تھا۔ اس کے وزن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچوں کی پٹی سے وجود میں آیاتھا2013ءدوسرے مہینے میں وسطی روس میں یورل کے پہاڑوں پر شہاب ثاقب کے ٹکڑوں کی بارش کے باعث تقریباًً سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔شہاب ثاقب دراصل سیارچوں یا دم دار ستاروں سے خارج ہونے والے ٹھوس پتھر ہوتے ہیں جو کر ہ ارض کا احاطہ کرنے والی فضا سے گزر کر سطحِ زمین تک پہنچتے ہیں۔
عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی سے 2020 تک کل 17 شہابِ ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں گرے ہیں۔9 جنوری 2020 کی شام کو بلوچستان کے علاقے ڑوب میں زوردار دھماکوں کے ساتھ تقریباً 18.9 کلوگرام جسامت کا ایک بڑا شہابِ ثاقب اور ساتھ بہت سے چھوٹے پتھر گرے جنھیں مقامی افراد نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ہمارے نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان چکر لگانے والے خلائی پتھر جنہیں ’’ سیارچے ‘‘ (Asteroids) کہا جاتا ہےبعض اوقات زمین کی طرٖف آجاتے ہیں اور زمین کی فضا سے رگڑ کھانے سے ان میں اتنی حرارت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں
قرآن میں شہاب ثاقب کا ذکر ان سے آسمانوں کی حفاظت کا کام لینے کے طور پر آیا ہے ۔ سورۃ الجن میں جنوں کا بیان ہے:”اور یہ کہ : ہم پہلے سن گن لینے کے لیے آسمان کی کچھ جگہوں پر جا بیٹھا کرتے تھے۔ لیکن اب جو کوئی سننا چاہتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ ایک شعلہ اس کی گھات میں لگا ہوا ہے۔ (الجن ، آیت 9)ص مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت آپ کی آسمانی وحی کی حفاظت کے لئے اس سلسلہ کو اس طرح بند کردیا گیا کہ جب کوئی شیطان یہ خبریں سننے کے لئے اوپر آتا تو اس کی طرف شہاب ثاقب کا انگارہ پھینک کر اس کو دفع کردیا جاتا ۔،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں