یہ ان دنوں کا زکر ہے جب تخت لاہور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ سریر آرائے سلطنت ہوا کرتا تھا -اسی کے دور حکومت میں باباگامے شاہ نے 1828ء میں سب سے پہلے ایک تعزیہ تیارکیا اور روز عاشور اپنے شانوں پر اٹھاکر اسے لاہور کی گلیوں اور سڑکوں پر اما م حسین علیہ السلام کی مرثیہ گوئ اور ساتھ ہی گریہ و زار ی کرتے ہوئے گشت کیا ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کو یہ خبرملی تواس نے بابا گامے شاہ کو اپنے دربار میں بلوا کر اسے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے بے عزت کیا اور حکم جاری کیا کہ آئندہ وہ کبھی تعزیہ نہیں نکالے گا۔ اس پر گامے شاہ نے دلیری سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ہر سال محرم کے مہینے میں تعزیہ بھی بنائے گا اور اس کے ساتھ سڑکوں پر گشت بھی کرے گا اور زندگی بھر ایسا کرتا رہے گا۔ رنجیت سنگھ نے یہ دوٹوک جواب سنا توحکم جاری کیا کہ گامے شاہ کو شاہی قلعہ لاہور میں قید کردیا جائے۔
Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
بدھ، 23 اکتوبر، 2024
کربلا گامے شاہ کے خالق کو ن تھے
اسی رات سے رنجیت سنگھ کو رات میں سوتے ہوئے ڈراؤنے خواب آنے لگے۔ وہ یہ خواب دیکھ کر راتوں کو جاگتا رہا اور پھر پریشانی کے عالم میں اپنے وزیرفقیر سید عزیزالدین کو ساتھ لے کر اس جیل میں گیا جہاں بابا گامے شاہ کو قید کیا گیا تھا۔ پھر اس نے فقیر سید عزیزالدین کی موجودگی میں گامے شاہ سے معافی مانگی اور اسے قید سے رہا کردیا ۔گامے شاہ جب تک زندہ رہے تعزیہ نکالتے رہے ۔ لاہور کی تاریخ میں محرم کو عوامی طور پر منانے کی روایت اٹھارویں صدی کے اوائل میں جاری ہوئی جو آج تک جاری ہے اور تاقیامت رہے گی … اندرون لاہور اور اسلام پورہ (سابق کرشن نگر) میں تعزیئے‘ ماتمی جلوس اور ذوالجناح دیکھنے والے ہوتے ہیں
اس طرح لاہور سے تعزیہ نکالنے کی ابتدا درویش شخص غلام علی شاہ نے کی تھی جو بعد میں بابا گامے شاہ کے نام سے مشہور ہوئے اور آج تک اسی نام سے مشہور ہیں۔ گامے شاہ کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ وہ عام لاہوریوں کی نظر میں تو دیوانے شمار ہوتے تھے‘ لیکن درحقیقت و عارف کامل اور شہیدانِ کربلا کے ایسے عاشق تھے کہ جس کی مثال اس وقت کے لاہور میں کہیں نہیں ملتی تھی۔ بابا گامے شاہ ہمیشہ سیاہ لباس پہنتے تھے اور دربار داتاصاحب کے قریب ایک قدیم برف خانہ تھا وہاں زمین پر بیٹھے رہتے تھے۔ ایک اور بڑھیا تھی جسے آغیاں مائی کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ وہ بھی عاشورہ کے روز موچی دروازہ سے نوحہ خوانی کرتے اور اپنا سر پیٹتے ہوئے گامے شاہ کے ڈیرہ پر آجاتی تھی۔
قید سے رہائی کے بعد بابا گامے شاہ ہرسال محرم کے دنوں میں اپنا بنایا ہوا تعزیہ اپنے سر پراٹھا کر لاہور شہرکے گلی کوچوں میں جاتے اور گریہ زاری کرتے ہوئے گزرتے تھے اور لاہوریوں کا ایک ہجوم ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا تھا جب بابا گامے شاہ کا انتقال ہوا توانہیں نہایت احترام کے ساتھ مزارحضرت داتا صاحب کے قریب جہاں وہ زندگی بھر بیٹھتے رہے تھے‘ اسی حجرے میں انہیں دفن کیا گیا۔ مزار کے ساتھ ہی ایک بڑے برتن میں کربلا کے میدان سے لائی گئی مٹی میں رکھی گئی ہے جو بابا گامے شاہ کی تعزیہ سازی اور محرم میں کربلا میں دی جانے والی بے مثال قربانیوں کی تشہیرکے حوالے سے ایک نذرانۂ عقیدت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس جگہ کو پھرکربلا گامے شاہ کا نام دے دیا گیا ۔ گامے شاہ کے مزار کے اوپری حصہ پر وہ قدیم تعزیہ میں جلوہ نما ہے جسے وہ اپنے سر پر اٹھاکر لاہور شہرکے گلی کوچوں میں گھوما کرتے تھے اور باآواز بلند گریہ وماتم بھی کیا کرتے تھے۔ یہ ماتمی سفر آج بھی لاہور شہر کے گلی کوچوں میں محرم کے دوران نمایا ں دکھائی دیتا ہے بلکہ لاہورکے محرم کا لازمی حصہ بن چکا ہے
گامے شاہ کی وفات کے بعد تعزیہ سازی کی روایت کو برقرار رکھنے کیلئے نواب علی رضا قزلباش اور سر نوازش علی قزلباش نے کچھ اور لوگوں سے مل کر یہ جگہ خریدلی اور پھریہاں گامے شاہ کا مقبرہ بھی تعمیر کروایا اور مقبرے کے ساتھ ہی ایک ’’کربلا‘‘ بھی بنوائی۔ پھر اس جگہ کا نام کربلا گامے شاہ رکھا گیا۔ پھراس کربلا کو وہ شہرت ملی کہ لاہور میں بنائے جانے والے سارے تعزئیے دس محرم کو یہیں لائے جاتے ہیں۔ لاہور کی عزاداری کی تاریخ میں کربلا گامے شاہ بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ 1868ء میں پورے شہر لاہور میں تعزیہ سازی پر لاکھوں روپیہ خرچ ہونے لگا اور بے شمار ڈیزاءنو ں تعزئیے بنائے جانے لگےیہ تعزیے سونے، چاندی ، لکڑی، بانس، کپڑے، کاغذ اور سٹیل سے تیار کیے جاتے ہیں ۔ پھریوں ہوا کہ تعزیوں کو شہر لاہور میں بغرض زیارت گشت کے بعد شہر سے باہر لے جاکر مٹی میں دفن کیا جانے لگا۔ عموماً یہ تعزئیے دریائے راوی کے کنارے میں دبائے جاتے تھے۔ جن تعزیوں پر قیمتی چیزیں لگائی گئی ہوتی تھیں‘ انہیں اگلے روز ریت سے نکال کر آئندہ محرم کیلئے محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ بابا گامے شاہ کا جاری کردہ تعزیہ سازی اور ماتم گساری کا یہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
پشاور کی مشہور اور قدیم ترین مسجد ’مہابت خان مسجد
مسجد مہابت خان، مغلیہ عہد حکومت کی ایک قیمتی یاد گار ہے اس سنہرے دور میں جہاں مضبوط قلعے اور فلک بوس عمارتیں تیار ہوئیں وہاں بے شمار عالیش...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
خوبصورت اور لہلہاتے قدرتی نظاروں سے مالامال جزیرہ ماریشس (موریطانیہ )کے ائر پورٹ 'پورٹ لوئس کے سرشِو ساگر رام غلام انٹرنیشنل ائیرپ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
اللہ پاک گامے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کو نور سے معمور کر دے آمین
جواب دیںحذف کریں