جمعہ، 28 اپریل، 2023

نامور بنک- بينک الحبيب لمیٹڈ

 

پاکستانی بینکاری کے نام میں ایک بہت ہی نامور بنک جو ہے وہ بینک الحبیب لمیٹڈ ہے یہ ایک پاکستانی تجارتی بینک ہے جوایک نیک نام  داؤد حبیب خاندان کی زیر ملکیت ہے۔ اس کا صدر دفتر کراچی پاکستان میں ہے۔ اس کا نیٹ ورک 750 برانچوں پر مشتمل ہے۔ بینک الحبیب کی بحرین ، سیچلس اور ملیشیا میں ہول سیل برانچیں ہیں اور متحدہ عرب امارات ، استنبول ، بیجنگ اور کینیا میں دفاتر ہیں۔ ستمبر 2018 کے اختتام تک ، بینک کے اثاثوں میں 750 ارب تک کا اضافہ ہوا۔بینکنگ خدمات میں حبیب گروپ کی شمولیت 1930 کی دہائی سے ہے۔ 

انہوں نے ایچ بی ایل پاکستان کا آغاز کیا ، جو 1971 میں قومیا لیا گیا تھااور اب بھی پاکستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک ہے۔ 2002 کے بعد سے یہ حکومت اور آغا خان فنڈ برائے اقتصادی ترقی کی مشترکہ ملکیت ہے۔

1991 میں پاکستانی حکومت کے ذریعہ نجکاری اسکیم کے اعلان کے بعد ، حبیب گروپ کو سب سے پہلے نجی بینک ، بینک الحبیب لمیٹڈ کے آغاز کی اجازت دی گئی۔

اصل حبیب بینک کا آغاز بمبئی میں سن 1941 میں ہوا جب اس نے 25،000 روپے کے مقررہ سرمایے کے ساتھ کام شروع کیا۔ اپنی ابتدائی کارکردگی سے متاثر ہوکر ، قائداعظم محمد علی جناح نے حبیب بینک سے کہا کہ وہ پاکستان کی آزادی کے بعد اپنی کارروائیوں کو کراچی منتقل کریں۔ اسے 1974 میں قومی بینک بنا دیا گیا تھا۔

حکومت پاکستان کی نجکاری کی پالیسی کے تحت ، داؤد حبیب گروپ کو کمرشل بینک کے قیام کی اجازت مل گئی۔ بینک الحبیب کو اکتوبر 1991 میں پبلک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر شامل کیا گیا تھا اور اس نے 1992 میں بینکنگ کے کاموں کا آغاز کیا تھا۔ (مرحوم) بانی حبیب گروپ کے پوتے حامد ڈی حبیب ، بینک الحبیب لمیٹڈ کے پہلے چیئرمین تھے۔ وہ 1954 سے حبیب بینک لمیٹڈ میں ڈائریکٹر اور 1971 سے قومیانے تک اس کے چیئرمین رہے۔ مئی 2000 میں حامد ڈی حبیب کی موت کے بعد ، علی رضا ڈی حبیب ، جو بورڈ میں ڈائریکٹر تھے ، کو بینک کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔

2005 میں ، بینک الحبیب نے اکاؤنٹ اور ریکارڈ آن لائن کے ساتھ دستیاب ، انٹرنیٹ بینکاری کی پیش کش کی۔ 2006 میں ، بینک الحبیب ماسٹر کارڈ کے ساتھ شراکت دار بن گیا ، جس نے انہیں پہلی بار کریڈٹ کارڈ جاری کرنے کی اجازت دی۔خدمات-بینک امریکن ایکسپریس بینک ، یو ایس اے کے ساتھ نمائندے تعلقات رکھتا ہے۔ بانکو دی روما ، اٹلی؛ کامز بینک اور ڈریسڈنر بینک ، جرمنی۔ رائل بینک آف کینیڈا ، کینیڈا؛ اور ہانگ کانگ اور شنگھائی بینکنگ کارپوریشن ، ہانگ کانگ۔

بینک کی انٹرنیٹ بینکنگ کوڈ نیٹ بینکنگ کے بعد ہوئی اور ویری سائن سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ یہ ٹی پی ایس پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ ایم نیٹ اور لنک 1 کے مابین معاہدے پر دستخط کے نتیجے میں بینک ایم نیٹ سوئچ کی حمایت کرتا ہے۔ 

انہوں نے ایچ بی ایل پاکستان کا آغاز کیا ، جو 1971 میں قومیا لیا گیا تھااور اب بھی پاکستان کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک ہے۔ 2002 کے بعد سے یہ حکومت اور آغا خان فنڈ برائے اقتصادی ترقی کی مشترکہ ملکیت ہے

1991 میں پاکستانی حکومت کے ذریعہ نجکاری اسکیم کے اعلان کے بعد ، حبیب گروپ کو سب سے پہلے نجی بینک ، بینک الحبیب لمیٹڈ کے آغاز کی اجازت دی گئی۔

بینک الحبیب  -لنک سسٹم کے گیارہ شراکت داروں میں سے ایک ہے ، ایک انٹر بینک اے ٹی ایم شیئرنگ سسٹم جو صارفین کو کسی بھی شراکت دار بینک کے اے ٹی ایم پر لین دین کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بینک الحبیب پاکستان میں تیسرا سب سے بڑا اے ٹی ایم سروس فراہم کرنے والا ہے ، کراچی شہر میں سب سے زیادہ اور مجموعی طور پر 196 اے ٹی ایم رکھنے والا بینک ہے۔

عرب فنانشل سروسز کے ساتھ وابستگی میں ، بینک دو طرح کے ماسٹر کارڈ پیش کرتا ہے۔بینک اے ایل حبیب کیپٹل مارکیٹس (پرائیوٹ) لمیٹڈ میں ایک بڑی ملکیت کا حصص ہے ، جو بینک اے ایل حبیب کے لوگو کے تحت کام کرنے والا ایک بروکریج ہے۔

ایگزیکٹو قیادت

عباس ڈی حبیب ، چیئرمین

منصور علی خان ، سی ای او

کومیل آر حبیب، ایگزیکٹو ڈائریکٹر 2018

سابق چیئر مین اور بینک الحبیب لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹوز میں درج ذیل افراد شامل ہیں: حامد ڈی حبیب ، چیئرمین (2000 تک) ، راشد ڈی حبیب ، سی ای او اینڈ منیجنگ ڈائریکٹر (1994 تک) اور علی رضا ڈی حبیب ، چیئرمین (2016 تک)۔

شاخیں

 کراچی مین برانچ -اس بینک کے پاس 737 شاخوں (بشمول اسلامی ، روایتی اور ذیلی شاخوں) اور بحرین ، ترکی اور ای پی زیڈ میں تین آف شور بینکنگ یونٹ ہیں۔

پاکستان

فیصل آباد : اسلامی بینکاری برانچ سمیت 4 شاخیںگھارو ( ٹھٹھہ ؟): 1 شاخ

حیدرآباد : تقریبا 4 شاخیں اسلام آباد : تقریبا 4 شاخیں-کراچی : ایک بین الاقوامی برانچ اور اسلامی بینکاری برانچ سمیت 220 کے قریب شاخیں

کنری : ایک شاخ* ڈنگہ . تھانہ بازار 1 شاخ میرپورخاص : تقریبا 2 شاخیں

نوکوٹ : 1 شاخ-جھڈو : 1 شاخ-ڈیگری : 1 شاخ-مٹھی : 1 شاخ-ملتان : ایک اسلامی بینکاری برانچ سمیت 10 کے قریب شاخیں-کوئٹہ : ایم اے جناح روڈ پر 1 برانچ-سکھر : اسلامی بینکاری برانچ سمیت 4 کے قریب شاخیں

سرگودھا : 3 شاخیں ہیں-ٹائمرگارا : لگ بھگ 2 شاخیں-اسکردو بلتستان : تقریبا 2 2 شاخیں

جمعرات، 27 اپریل، 2023

وہ بادشاہ دقیانوس کےملازمین کے بچّے تھے

 

وہ بادشاہ دقیانوس کے محل کے ملازمین کے بچّے تھے -جب انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ نے بتوں کی پوجا کاحکم لازم قرار دے دیا ہے اور جو اس کے حکم سے سرتابی کرے گا اس کی گردن مار دی جائے گی بتوں کی لازمی پوجا کے لئے بادشاہ نے شہر فصیل میں دو تنگ دروازے بنائے تھے جن سے سر کو جھکا کر ہی گزرا جا سکتا تھا اور دروازوں کے اندر اور باہر دونوں مقامات پر بت رکھّے ہو ئے تھے

اب یہ سارے دوست سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے طے کیا ہم ظاہراً تو بادشاہ کے تابعدار بنے رہیں گے لیکن ہر گز ہرگز بتوں کی پوجا نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا رب تو وہی یکتا ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں- کچھ عرصہ تو ان کا یہ تقیّہ چلتا رہا لیکن بادشاہ کے پھیلائے ہوئے مخروں میں سے کسی نے بادشاہ کو خبر پہچا دی کی یہ نوجوان بتوں کی پوجا سے منحرف ہیں اور ان کو معلوم ہو گیا کہ ان کی شکائت بادشاہ تک پہنچ گئ ہے -

اب یہ دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھے اور صلاح و مشورہ کرنے لگےایک نے کہا دیکھو بے وقت مرنے کا دل نہیں چاہتا ہے دوسرے نے کہا کہ بتوں کی پوجا کا بھی دل نہیں چاہتا ہے تیسرے نے کہا- چلو شہر سے بھاگ چلتے ہیں اور پھر ایک صبح سویرے وہ شہر فصیل کے اوپر سے فرار ہو گئے-کیونکہ دروازے پر تو دربان موجود ہوتا تھا جو بادشاہ سے شکائت کر سکتا تھا -اس کے لئے انہوں نے صبح سویرے کے وقت کا انتخاب کیا جب کہ کوئ سو کر بھی نا اٹھا ہو

-وہ صبح سویرے بلکل منہ اندھیرے شہر چھوڑ کر انجانی منزل کی جانب چل پڑے راستے میں ایک چراگاہ دیکھی جس میں ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا انہوں نے چرواہے کو دعوت توحید کی جانب مائل کیا جس کے جواب میں چرواہا خفا ہوگیا اور وہ چرواہے کو چھوڑ کرپھر چل پڑے لیکن چرواہے کا کتّا ان نوجوانوں کے ہمراہ ہو لیا

-اب یہ تمام ایک ایک ایسے میدان میں پہنچ گئے جس کے چاروں جانب پہاڑ تھے وہاں پر یہ لوگ دیر کو ٹہر کر آپس میں کہنے لگے دیکھ شہر تو چھوڑ دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ جائیں گے کہاں ابھی یہ بات کہی تھی کہ ان میں سے ایک نے کہا ارے دیکھو بادشاہ ہماری تلاش میں یہاں آ گیا ہے-کیونکہ کسی مخبر نے ان کو صبح سویرے شہر فصیل کو پھلانگتے دیکھ کر بادشاہ سے شکائت لگا دی تھی  -ان میں سے ایک نے اپنے قریب غار کا دہانہ دیکھا اور بولا چلو اس میں چھپ جاتے ہیں  وہ سب غار کے اندر چلے گئے اور انہوں نے دعاء کی پروردگار ہم کو اس مصیبت سے نجات عطا کر اور پھر اللہ نے ان پر 309 برس کی نیند طاری کرد ی

دوبارہ جینے کی حجت ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کردیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہوجائے۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی،  دوبارہ جینے کی حجت ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کردیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہوجائے۔

 کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی، جسم کا اعادہ نہ ہوگا پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کردی ہے اور عینی دلیل بھی دے دی۔

  بیدار ہونے کے بعد ان کو بھوک نے ستایا توان میں سے ایک نوجوان تملیخا کو رقم د ے کرکھانا خریدنے کوبھیجا  تب تملیخا نے دیکھا کہ شہر کا نقشہ بدلا ہوا ہے اس شہر کا نام افسوس تھا زمانے گزر چکے تھے، بستیاں بدل چکی تھیں، صدیاں بیت گئی تھیں اور یہ تو اپنے نزدیک یہی سمجھے ہوئے تھے کہ ہمیں یہاں پہنچے ایک آدھ دن ہی گزرا ہے  

منگل، 25 اپریل، 2023

شاہراہ ریشم

شاہراہ ریشم-گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا سنگم ہے۔ یہیں شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام   شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی

 ۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا۔شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو    نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔

عہدِ قدیم (Ancient Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk route) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گذر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک پھیلی یہ تجارتی گذر گاہیں سطح مرتفع تبت کے دونوں جانب شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہیں۔ شمالی راستہ بلغار قپپچاق علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی صوبے گانسو سے گذرنے کے بعد مزید تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ تین شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی سے گذرتا ہے۔ پاکستان کی شمالی سرحد تک کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔

تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع ہوا۔ اسلام آباد سے 62 کلو میٹر کے فاصلے پر حویلیاں کے مقام پر اس شاہراہ کا آغاز ہوا جو 1978 میں پائیہ تکمیل کو پہنچا۔اس شاہراہ کی تعمیر میں پاک فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے شب وروز شانہ بشانہ کام کیا۔قراقرم کے سخت اور پتھریلے پہاڑوں کو چیرنے کے لئے 8ہزار ٹن ڈائنا مائیٹ استعمال کیا گیا۔18 جون 1978ء کو اس کا با قاعدہ افتتاح ہوا۔ تکمیل کے دوران 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔سلک روٹ یا شاہرائے ریشم ایک وسیع نیٹ ورک کا نام تھا، جس کا پھیلاؤ ٔچین سے شروع ہوتا ہوا ہندوستان، وسط ایشیاء، مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ کواپنی لپیٹ میں لیتا ہوا افریقہ کے مشرقی ساحلوں تک پہنچتا تھا۔ ان راستوں کا اولین مقصد تجارت تھا۔ چین سے یورپ تک اس تجارتی راستہ کی لمبائی تقریباً 6500 کلو میٹر تھی۔ چین میں اس کا آغازایک Changanنامی شہر سے ہوتا تھا۔ پھر یہ شاہراہ وسط ایشیا، ایران، ترکی سے گزرتی ہوئی یورپ تک پہنچتی تھی۔

شاہراہ ریشم پر 33 مشہور شہر آتے تھے۔ جن میں Dunhuang (چین) ، میرو (ترکمانستان) ، بخارا، سمرقند (ازبکستان) ، بلخ (افغانستان) ، ٹیکسلہ (پاکستان) ، رئے، نیشاپور، ہمدان (ایران) ، دمشق (شام) ، بغداد، موصل (عراق) ، قسطنطنیہ، ازمیر (ترکی) اسکندریہ (مصر) وغیرہ شامل ہیں۔ قرون اولی ٰ اس شاہراہ پر ایرانی زبان بکثرت استعمال ہوتی تھی۔ دور اسلام میں اِس کی جگہ فارسی زبان نے لے لی۔ دیوار چین کی تعمیر کا اہم مقصدبھی اس تجارتی راستہ کی حفاظت کرنا تھا۔کہا جاتا ہے کہ شاہراہ قراقرم قدیم شاہراہ ریشم کے راستے پر بنائی گئی ہے یعنی وہی دشوار گزار پہاڑی راستہ جہاں سے پرانے وقتوں میں وسطی ایشیا اور چین آنے جانے والے قافلے گزرتے تھے۔شمال میں خنجراب پاس سے جنوب میں صوبہ پنجاب کے شہر حسن ابدال تک آنے والی یہ سڑک تقریباً 1300 

شمالی علاقہ جات میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے بھی یہی شاہراہ خطے میں چین کے ساتھ سیاسی، سماجی، کاروباری اور دیگر رابطوں کا بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔شاہراہِ قراقرم پاکستان کے خوبصورت اور دلفریب مناظرشاہراہِ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے اور دُنیا کی بلند ترین پکی سڑک سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں یہ سرکاری طور پر نیشنل ہائی وے 35 (N-35) اور چین میں یہ چین نیشنل ہائی وے 314 (G314) کے نام سے جانی جاتی ہے، چونکہ یہ قراقرم سلسلہ سے گزرتی ہے اس لیے یہ عام طور پر شاہراہِ قراقرم کے نام سے جانی جاتی ہے۔شاہراہِ قراقرم کی کُل لمبائی تقریباً 1300 کلو میٹر ہے، جس میں سے 887 کلو میٹر پاکستان میں اور 413 کلو میٹر چین میں موجود ہے۔ یہ 85 پُلوں پر مشتمل ہے اور خنجراب پاس پر 4,693 میٹر کی حدِ اونچائی تک جا پہنچتی ہے۔ حسن ابدال شہر سے شروع ہوتے ہوئے، شاہراہ ِ قراقرم پامیر، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ تقریباً 200 کلو میٹر تک سفر کرتی ہے اور یہ دونوں مل کے اُس مقام سے گزرتے ہیں جو ہمالیہ پہاڑوں کو قراقرم سلسلے سے الگ کرتا ہے

اتوار، 23 اپریل، 2023

شہید ثالث۔حضرت نور اللہ شستری

p> 

فقیہ اہلبیت قاضی سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری المعروف بہ شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 956 ہجری کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر شوشتر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید شریف الدین رضوان اللہ علیہ معقولات و منقولات کے برجستہ اور ماہر عالم تھے۔

آپ نے شوشتر میں اپنے والد ماجد سے فقہ، اصول، کلام اور ریاضی جیسے علوم کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر سنہ 979 ہجری میں تجربہ کار اساتذہ سے مزید کسب فیض کے لئے مشہد مقدس تشریف لے گئے۔

سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری نے مشہد میں علامہ عبدالوحید شوشتری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے درس میں شرکت کی اور ان سے فقہ، اصول، کلام، حدیث اور تفسیر کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے مولانا محمد ادیب قاری تستری کے درس میں بھی شرکت کی اور عربی ادب اور تجوید قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح دیگر ذی استعداد اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا جنمیں مولا عبدالرشید شوشتری و مولا عبدالوحید تستری کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔

سید ضیاء الدین نوراللہ شوشتری نے 993ھج میں ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان کے شہر آگرہ میں سکونت اختیار کی۔ چونکہ آپ تقیہ میں تھے اس لئے پانچ مذاہب شیعہ، حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی کے مطابق فقہ کی تعلیم دیتے تھے اور تمام فقہی مسائل میں شیعہ امامیہ فقہ کے نظریہ کو ترجیح دیتے تھے۔

تالیفات

شہید ثالث بہت سی کتابیں مذہب اہلبیت علیہم السلام کے لئے تالیف فرمائیں۔ بعض حضرات نے آپ کی ایک سو چالیس کتابوں کے نام بھی ذکر کئے ہیں۔ ذیل میں کچھ کتابوں کا تذکرہ پیش ہے۔

احقاق الحق: مذہب حقہ تشیع کے اثبات میں شہید سعید قاضی نوراللہ شوشتری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے فضل بن روزبھان کی کتاب ابطال الباطل کا مدلل اور منطقی جواب دیا ہے اور اہل سنت کی کتابوں سے اس کے نظریات کو باطل قرار دیا ہے۔

مجالس المومنین علماء، حکماء، ادباء، عرفاء، شعراء، علم رجال کے ماہرین اور راویوں کا تذکرہ کیا ہے جو سب کے سب آپ کے مطابق شیعہ تھے۔

اسی طرح آپ کی دیگر گرانقدر کتابیں ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ جیسے الصوارم المهرقه در جواب الصواعق المحرقه، اجوبه مسایل السید حسن الغزنوی، الزام النواصب فی الرد علی میرزا مخدوم الشریفی، القام الحجر در رد ابن حجر، بحر الغزیر فی تقدیر ماءالکثیر، بحر الغدیر فی اثبات تواتر حدیث الغدیر، تفسیر القران، آیه رویا کی تفسیر، تحفه العقول، حل العقول، حاشیه بر شرح الکافیه جامی، حاشیه بر حاشیه چلپی، حاشیه بر مطول تفتازانی، حاشیه بر رجال کشی، حاشیه بر تهذیب الاحکام شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ، حاشیه بر کنز العرفان فاضل مقداد، حاشیه بر تهذیب المنطق دوانی، حاشیه بر شرح قواعد العقاید، حاشیه بر شرح مواقف در علم کلام، دیوان القصاید، دیوان الشعر، دافعه الشقاق، الذکر الابقی، رساله لطیفه، انما المشرکون نجس کی تفسیر پر کتاب، العصمه کے سلسلہ میں کتاب، تجدید وضو کے سلسلہ میں کتاب، شراب کی نجاست پر کتاب وغیرہ۔

منصب قضاوت

قاضی نور اللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف ایک عام شیعہ تھے بلکہ مذہب حقہ کے عظیم مبلغ اور پاسبان بھی تھے اور امام علی رضا علیہ السلام کی معروف حدیث “لاَ دِينَ لِمَنْ لاَ وَرَعَ لَهُ وَ لاَ إِيمَانَ لِمَنْ لاَ تَقِيَّةَ لَهُ” یعنی جو پرہیزگار نہیں وہ دیندار نہیں اور جو تقیہ نہ کرے وہ باایمان نہیں ہے، پر عمل پیرا تھے۔ لہذا اسی تقیہ کے سبب آپ کو مغل بادشاہ اکبر نے قاضی منتخب کیا۔

قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس عہدے کو قبول کرنے سے منع کیا لیکن جب اکبر بادشاہ نے اصرار کیا تو آپ نے اس شرط پر قبول کیا کہ وہ اپنے اجتہاد کے مطابق فیصلہ کریں گے اور ان کا فیصلہ اہل سنت کی چار فقہوں میں سے کسی ایک کے موافق ہو گا۔

باہل سنت کے معروف عالم عبدالقادر بدوانی نے بیان کیا کہ “قاضی نور اللہ اگرچہ شیعہ ہیں، لیکن ان میں عدل، نیکی، حیا، تقویٰ و پرہیزگاری، عفت و عصمت اور اشراف کے صفات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور وہ اپنے علم، صبر، فہم، نفاست اور پاکیزگی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ قابل قدر کتابیں تصنیف فرمائیں، حکیم ابوالفتح کے ذریعہ بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور جب منصور کا قافلہ لاہور پہنچا اور منصور نے لاہور کے قاضی شیخ معین کو بڑھاپے اور قضائی امور میں کمزور پایا تو سید نوراللہ شوشتری کو قاضی معین کیا۔

شہادت

مغل بادشاہ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر بادشاہ ہوا جو کہ انتہائی درجہ متعصب اور سفاک تھا۔ اگرچہ زمانے کی ستم ظریفی آج تک یہی رہی کہ اس ظالم و جابر، سفاک و خونریز کو عدل و انصاف کا علمبردار بتایا گیا لیکن قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کا بے جرم و خطا قتل اس کی حقیقت کو دنیا کے سامنے واضح کرتا رہے گا۔

جہانگیر پلید کی پست صفات کے سبب قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کے مخالفین اور دشمنوں کو موقع مل گیا کہ وہ آپ کے حقیقی دین کو واضح کریں لہذا جاسوس معین کیا جو شاگرد بن کر شہید عالی قدر کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اتنا قریب ہوا کہ آپ کو اس پر اس قدر اعتبار ہو گیا کہ آپ نے اسے اپنی کتاب “احقاق الحق” کا ایک نسخہ لکھنے کو دے دیا۔ کتاب کا ملنا تھا کہ آپ کے سارے دشمن جہانگیر ملعون کے پاس گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ آپ کو سزا دی جائے۔ جہانگیر ملعون نے حکم دیا کہ آپ کو برہنہ کر کے بدن پر خاردار کوڑے لگائے جائیں، جلاد نے اتنے کوڑے مارے کہ آپ کے جسم کا گوشت کٹ کٹ کر آپ کے بدن سے جدا ہو گیا اور آپ شہید ہو گئے۔ مورخین کے مطابق شہید ثالث رحمۃ اللہ علیہ 18 جمادی الثانی 1019 ہجری کو آگرہ میں شہید ہوئے۔ شہادت کے بعد بے غسل و کفن آپ کے جنازہ کو مزبلہ پر پھینک دیا گیا جسے بعد میں دفن کیا گیا۔ دشمن نے اپنے خیال خام میں سمجھا کہ قتل سے آپ کا خاتمہ ہو گیا، بے شک قتل خاتمہ ہے لیکن شہادت خاتمہ نہیں بلکہ علامت بقا ہے۔ آگرہ میں موجود آپ کا روضہ اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے جہاں سالانہ ہزاروں زائرین زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں 

ہفتہ، 22 اپریل، 2023

معجزہ شقّ القمر

  

لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم ا لمرسلین شفیع المذنبین ،

حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ لہ وسّلم  

شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا-پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔

 اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ  وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ 

ترجمہ:

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔ 

قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا  رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے عظیم معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سے ایک منفرد معجزہ طلب کرتے ہوا کہا کہ ہر نبی کسی نا کسی معجزے کا حامل تھا آپ اگر نبوّت کے دعویدار ہیں سارے نبیوں سے مختلف کوئ آسمانی معجزہ دکھائیے تاکہ ہم آپ کے خدا اور پر اور آپ کی نبوّت پر ایمان لے آئین کی طلب کی کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوجائیں تاکہ اس فعل کی اساس پر اسلام لے آئیں  گے

معجزہ شقّ القمر

رسول اللہؐ کے پاس مشرکوں کا ایک گروہ آیا جس میں ولید بن مغیرہ، ابوجہل، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد المطلب اور نضر بن حارث بھی تھے، انہوں نے آنحضرتؐ سے کہا کہ اگر آپ واقعی سچے ہیں تو اپنی سچائی کے ثبوت میں چاند دو ٹکڑے کر کے دکھائیں،۔ نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو کیا تم لوگ ایمان لے آؤ گے؟ کہنے لگے ہاں! وہ رات چودھویں تھی اور چاند آسمان پر پورے آب تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا

۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ! ان مشرکوں کا سوال پورا فرما دے۔اسی وقت حضرت جبرئیل امیں نازل ہوئے اور آپ صلیّ اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم سے فرمایا کہ اللہ تعلیٰ فر رہا ہے کہ اس وقت میں نے کائنات آپ کی دسترس میں دے دی ہے-آپ جو چاہیں وہ کر انجام دے سکتے ہیں -کفّار نے کہا کہ یہ آسمان پر جو چاند ہے اس کو دوٹکڑے کردیں  -آپؐ نے انگلی سے اشارہ کیا تو چاند اسی  وقت  دو ٹکڑے ہوگیا-اب ان کو الگ الگ پہاڑ پر بھیج دیجئے اس طرح کہ اس کا ایک ٹکڑا قبیس کی پہاڑی پر اور دوسرا ٹکڑا قعیقعان پر ہوجس طرح کافروں نے کہا تھا۔ آنحضرتؐ نے ویسے ہی کیا پھر کفّار بولے اب چاند کو ملا دیجئے تب چاند آپ کی انگشت مبارکے اشارے سے مل گیا اور اپنی جگہ واپس جا کر جگمگانے لگا - تب حضور پاک نے فرمایا اے ابوسلمہ اور ارقم اس پر گواہ رہنا۔ 

لیکن کفآر کے دل ٹیڑھے تھے وہ پھر بھی ایمان نہیں لائے لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا  اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا لقمر کی تصدیق بھی کر دی  اور یہ معجزہ  14 ذی الحجہ  ہجرت سے 5 سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر پیش آیا ۔مشرکین مکہ جمع ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سے فرمایا کہ اگر آپ سچے ہیں تو  ہمارے لئے چاند کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دکھائیں 

(قرآن مجید میں سورة قمر کی ابتدائی آیات میں اس جانب اشارہ ہے)

جنوبی ہندوستان کے علاقہ (مالابار) کیرالہ اسٹیٹ پر اس وقت ایک ہندو راجہ حکمران تھا۔ مہاراجہ رات کے وقت میں اپنے محل کی چھت پر اپنے خاند ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے چاند کو دو ٹکڑوں میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ اس نے اپنے خاند ان کے افراد سے اس کی تصدیق چاہی ، جو محل کی چھت پر اس وقت موجو د تھے۔ سب نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔ تب اس نے دوسرے دن دربار طلب کیا جس میں اہل علم ، دانشور ، پنڈت ، نجومی، جوتشی شریک تھے۔ ان سب سے اس واقعہ کی تحقیق و تصدیق کے لئے کہا سب نے تحقیق کے بعد اس واقعہ کی تصدیق کی اور ان سب نے گواہی دی کہ یہ صرف نبی ﷺ کا کارنامہ ہے ہماری کتابوں کے مطابق سرزمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اس کے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے ہمارے خیال میں سر زمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گیا ہے۔ شَقّ القمر کا معجزہ ان ہی کے اشارہ پر ہوا ہے۔

مہاراجہ بہت متاثرہوا۔ چنانچہ اس نے اس کی مزید تصدیق کے لئے اپنے بیٹے کو عر ب بھیجنے کا ارادہ کر لیا۔ اس طرح مہاراجہ نے اپنے جواں سال (بیٹے) شہزادے کو زاد راہ کے خور دو نوش کے اہتمام کے ساتھ ڈاکوؤں و لٹیروں کے تحفظ کے لئے یک سو مسلح افراد کے ہمراہ عرب (مکہ و مدینہ )کی طرف روانہ کیا اور ساتھ میں بہت سے قیمتی تحائف دے کر ہدایت کہ کہ اگر شَقّ القمر کی تصدیق ہو جائے تو میری طرف سے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا اور میر اسلام کہہ دینا ۔ہندو نوجوان شہزادے کو اہل عرب نے شَقّ القمر کی تصدیق کی ۔ 

اب شہزادے کو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشتیاق ہوا۔ جب شہزادہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور ﷺْ اس سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اور آنے کا مقصد پوچھا شہزادے نے اپنی آمد کی پوری تفصیل سنا دی ۔ شہزادے نے مہاراجہ کے بھیجے ہوئے تحائف آپ ﷺ کو پیش کئے اور مہاراجہ کا سلام پہنچا دیا۔ حضور ﷺ نے شکریہ ادا کیا اور مہاراجہ کے لئے دعائے خیر کے کلمات ادا کئے روایت یہ ہے کہ اسی دن مہاراجہ دل ہی دل میں حضور ﷺ پر ایمان لے آیا تھا اور بت پرستی ترک کر دی تھی۔

"آپولو 10 نے چاند کی قریب سے فوٹو لی جس میں چاند پر ایک بڑا نشان نظر آیا یہ تصویر 1969ء میں لی گئی پھر آپولو 11 کی مدد سے چاند کی سطح پر اتر کر اس نشان کا مشاہدہ کیا گیا ،یہ نشان 300 کلومیڑ تک لمبا ہے


جمعہ، 21 اپریل، 2023

دن اور رات کی تخلیق- قران کے فرمان کے مطابق

 وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ اس میں تم اپنا کام کرو)۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں۔-دن اور رات کی تخلیق سائنس کی رو سے-دیکھتے ہیں قران اور سائنس دونوں کی رائے

زمین کی کروی (گول نہا Spherical) ساخت

ابتدائی زمانوں کے لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ زمین چپٹی (یعنی بالکل ایک پلیٹ کی طرح ہموار) ہے یہی وجہ ہے کہ صدیوں تک انسان صرف اسی وجہ سے دور دراز کا سفر کرنے سے خوفزدہ رہا کہ کہیں وہ زمین کے کناروں سے گرنہ پڑے ! سر فرانسس ڈریک (Sir Frances Drek) وہ پہلا آدمی تھا جس نے 1597ء میں زمین کے گرد (سمند ر کے راستے) کشتی کے ذریعے چکر لگایا اور عملاً یہ ثابت کیا کہ زمین گول (کروی) ہے۔

یہ نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا ذرج ذیل قرآنی آیت پر غور فرمایے جو دن اور رات کے آنے اور جانے سے متعلق ہے:

اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْ لِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَا رِ وَ یُوْ لِجُ النَّھَا رَ فِی الَّیْل

ترجمہ:کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعا لیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔

یہاں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات کے بتدریج دن میں ڈھلنے اور دن کے بتدریج رات میں ڈھلنے کا تذکرہ فرمایا ہے۔ یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب زمین کی ساخت کسی گولے جیسی یعنی کر وی ہو۔ اگر زمین چیٹی ہوتی تو دن کی رات میں یا رات کی دن میں تبدیلی اچانک ہوتی۔ ذیل میں ایک اور آیت مبارک ملا حظہ ہو۔ اس میں بھی زمین کی کروی (spherical ) ساخت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خَلَقَ السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضَ بِا لْحَقَّ یُکَوِّ رُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَا رِ وَ یُکَوِّ رُ النَّھَا رَ عَلَی الَّیْلِ

ترجمہ:۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی دن پررات کواور رات پردن کولپیٹتاہے۔

یہاں استعمال کیے گئے عربی لفظ کور کا مطلب ہے کسی ایک چیز کو دوسری پر منطبق کرنا یا (ایک چیز کو دوسری چیز پر) چکر دے کر (کوائل کی طرح) باندھنا۔ دن اور رات کو ایک دوسرے پر منطبق کرنا یا ایک دوسرے پر چکر دینا صرف اسی وقت ممکن ہے جب زمین کی ساخت کر وی ہو۔

زمین کسی گیند کی طرح بالکل ہی گول نہیں بلکہ ارضی کر وی (Geo spherical) ہے، یعنی قطبین(Poles ) پر سے تھوڑی سے چپٹی (Flate) ہوتی ہے۔ درج ذیل آیت مبارک میں زمین کی ساخت کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔

وَلْاَرْضَ بَعْدَ ذٰٰٰٰلِکَ دَحٰھَا 

ترجمہ:۔پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے کی طرح بنایا۔

یہاں عربی عبارت دَ حٰھَا استعمال ہوئی ہے۔ جس کا مطلب ہے شتر مرغ کا انڈہ۔ شتر مرغ کے انڈے کی شکل زمین کی ارضی کروی ساخت ہی سے مشابہت رکھتی ہے۔ پس یہ ثابت ہو ا کہ قرآن پاک میں زمین کی ساخت بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کی گئی ہے، حالانکہ نزول قرآن پاک کے وقت عام تصور یہی تھا کہ زمین چپٹی یعنی پلیٹ کی طر ح ہموار ہے۔

. کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ اور (وہی ہے جس نے) سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، ہر ایک ایک مقررہ مدت تک گردش کر رہا ہے اور یہ کہ اللہ تمہارے کاموں سے باخبر ہے۔

   یقیناً تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کائنات کے بالائی اور زیریں طبقے) کو چھ دنوں میں (یعنی زمانہ یا مرحلہ، مرحلہ وار) پیدا کیا۔ اس کے بعد اس نے عرش پر اپنی حاکمیت قائم کی (اپنی عظمت کو اس کے اعلیٰ اختیارات کے ساتھ مناسب بناتے ہوئے، یعنی کائنات کی تخلیق کے بعد اس نے تمام جہانوں اور آسمانی اجسام میں اپنے قانون اور نظام کو نافذ کرکے اپنا حکم اور کنٹرول قائم کیا)۔

  وہ وہی ہے جو تمام کارروائیوں کے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے (یعنی ہر چیز کو نظام کے تحت کام کرتا ہے)۔ اس کی اجازت کے بغیر (اس کے پاس) سفارش کرنے والا کوئی نہیں۔ اللہ وہ ہے جو تمہارا رب ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو. تو کیا تم (اس کی ہدایت اور ہدایت کو قبول کرنے کے بارے میں) نہیں سوچتے؟

وَ الۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ ﴿۳۹﴾

  اور ہم نے چاند کی (حرکت اور گردش کے) مراحل بھی مقرر کر دیے ہیں یہاں تک کہ کھجور کے درخت کی ایک پرانی سوکھی شاخ کی شکل میں (اہلِ زمین کے لیے اس کی ظاہری شکل ختم ہو جاتی ہے)۔

وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ اس میں تم اپنا کام کرو)۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (غور سے) سنتے ہیں۔

اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے اوڑھنا اور نیند کو آرام کا اور دن  اٹھنے کا وقت بنایا۔

  اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا (جیسا کہ تم دیکھتے ہو)۔ پھر اس نے عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا (اس کی شان کے مطابق پوری کائنات کا احاطہ کیا) اور سورج اور چاند کو ایک نظام کے ساتھ باندھ دیا، ہر ایک اپنی مقررہ مدت کے دوران (اپنی گردش مکمل کرنے کے لیے اپنے اپنے مدار میں) حرکت کرتا ہے۔ وہ اکیلا ہی (پوری کائنات کے) کل نظام کے لیے حکمت عملی وضع کرتا ہے اور (تمام) نشانیوں (یا قوانینِ فطرت) کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے تاکہ آپ کو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا پختہ یقین پیدا ہو۔

(الرَّعْد، 13:2)

  اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ (اپنے مدار میں) گردش کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہل نہ جائے۔ اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ شاہراہیں بنائیں تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے) راستے تلاش کریں۔

(الْأَنْبِيَآء، 21 : 31)

   اور (اے انسان) تو پہاڑوں کو دیکھے گا اور سمجھے گا کہ وہ مضبوط ہیں، حالانکہ وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ (یہ) اللہ کا کام ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت اور تدبیر کے ساتھ) مضبوط اور مستحکم بنایا ہے۔ بے شک وہ تمہارے سب کاموں سے باخبر ہے۔

جمعرات، 20 اپریل، 2023

اردو ادب کا بلند نام جوش ملیح آبادی

 اردو ادب جوش ملیح آبادی کے نام کے بغیر نامکمّل ہے-قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں گراں قدر کردار ادا کیا جسے بالآخر 1973 کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ 
برصغیر کے ادبا بلکہ ترقی پسند تحریک کے نمائندے اور نقیب صدائے انقلاب کا اگر تذکرہ کیا جائے، تو جوش ملیح آبادی کا شمار صف اول میں ہو گا۔ انہوں نے آزادی ہند کی خاطر زبان و قلم سے وہ انقلاب برپا کر دیا تھا کہ غاصب انگریز کی نیندیں حرام ہو گئیں اور ان کے پرجوش و انقلابی کلام نے وطن کے متوالوں میں اس طرح روح احرار جگادی کہ موالیان ہند نے غاضب حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ 

جوشؔ کا اصل نام شبیر حسن خاں تھا اور ابتدائی تخلص شبیر جو بعد میں جوشؔ ہوگیا، ان کے والد بشیر احمد خان نے ان کا نام شبیر احمد خان رکھا تھا لیکن انہوں نے 1907ء میں اپنا نام تبدیل کرکے شبیر حسن خان رکھ لیا۔ (ضیائے اردو، ضیاء المصطفی مصباحی، باب جوشؔ ملیح آبادی)۔ جوشؔ کی پیدائش 5 دسمبر 1896ء میں ملیح آباد کے محلہ مرزا گنج کے ایک متمول و ادبی گھرانہ میں صبح چار بجے ہوئی۔ ان کے دادا محمد احمد خاں احمدؔ، صاحب دیوان شاعر تھے، ان کے دیوان کا نام’مخزن آلام‘ہے، ان کے پر دادا  فقیر محمد خاں گویاؔ بھی اپنے دور کے عظیم ادبا میں شمار ہوتے تھے اور '’دیوان گویا‘ ان کا مجموعہ کلام ہے۔

جوشؔؔ ملیح آبادی کو اردو ادب، میراث میں ملاتھا، اس لئے ان کا شاعری سے شغف پیدا ہوجانا بالکل فطری سی بات تھی، چونکہ گھرانہ شاعرانہ فضا سے معمور تھا اسی سبب انہوں نے نو برس کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کردیا،ماضی میں مولوی عبدالحق اور جوش نے واقعی تعلیمی اداروں میں سائنسی مضامین پڑھانے کے لیے انگریزی اصطلاحات اردو زبان میں استعمال کرنے کا کام کیا لیکن ملک میں یکساں نظام تعلیم کے قیام کی اس کوشش کو آگے بڑھانے کے بجائے خصوصی مفادات رکھنے والے اشرافیہ نے ملک کو تقسیم کر دیا۔ نظام تعلیم کو تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح ریاستی اداروں میں اردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا گیا۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں عوام کو معلومات فراہم کرنے والے زیادہ تر ادارے جن میں پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز شامل ہیں ان کی مقبولیت اردو زبان میں زیادہ ہے جب کہ انگریزی اخبارات کی اشاعت اردو اخبارات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پاکستان میں ایک انگریزی ٹی وی چینل شروع کیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد اسے بھی اردو چینل میں تبدیل کر دیا گیا۔ مندرجہ بالا تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کی ترقی کے لیے جوش ملیح آبادی جو اپنے طور پر ایک ادارہ تھے، کی خدمات کو ریاستی سطح پر بہتر طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا
 شبیر حسن خان (1898-1982)، جو جوش ملیح آبادی کے نام سے مشہور ہیں، لکھنؤ کے قریب ملیح آباد میں جاگیرداروں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ گھر پر روایتی مضامین میں ابتدائی ہدایات حاصل کرنے کے بعد، اس نے سیتا پور، لکھنؤ، آگرہ، اور علی گڑھ جیسے کئی مقامات پر چھینا جھپٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اپنے والد کی وفات اور اس کے بعد اٹینڈنٹ کے مسائل کے بعد، اسے اپنی تعلیم بند کرنی پڑی۔ 1924 میں وہ دارالتجومہ میں شامل ہونے کے لیے حیدرآباد چلے گئے۔

صاحببیر حسن خان (1898-1982)، جو جوش ملیح آبادی کے نام سے مشہور ہیں، لکھنؤ کے قریب ملیح آباد میں جاگیرداروں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ گھر پر روایتی مضامین میں ابتدائی ہدایات حاصل کرنے کے بعد، اس نے سیتا پور، لکھنؤ، آگرہ، اور علی گڑھ جیسے کئی مقامات پر چھینا جھپٹی میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اپنے والد کی وفات اور اس کے بعد اٹینڈنٹ کے مسائل کے بعد، اسے اپنی تعلیم بند کرنی پڑی۔ 1924 میں، وہ دارالترجمہ، عثمانیہ یونیورسٹی کے بیورو آف ترجمہ میں شامل ہونے کے لیے حیدرآباد روانہ ہوئے۔ ایک تنازعہ کے بعد انہیں یہ ادارہ چھوڑ کر اپنے آبائی علاقے واپس جانا پڑا۔ 1936 میں انہوں نے دہلی سے کلیم نامی جریدہ شائع کرنا شروع کیا جو تین سال تک چلتا رہا۔ 

1941 میں، انہوں نے پونا میں شالیمار پکچرز میں شمولیت اختیار کی اور فلموں کے لیے گیت لکھے۔ 1948 میں، انہیں آجکل کے ایڈیٹر مقرر کیا گیا، جو ایک ادبی جریدہ ہے جسے وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند نے شائع کیا اور آٹھ سال تک وہاں کام کیا۔ 1956 میں وہ پاکستان ہجرت کر گئے جہاں وہ اردو بورڈ کے ادبی مشیر کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے 1967 میں ہندوستان کا سفر کیا اور بمبئی میں ایک انٹرویو دیا جس کی وجہ سے پاکستان میں ان کی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 
جوش نے اپنے پردادا، دادا اور والد سے وراثت میں ملنے والی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے چھوٹی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی۔ ان کی موضوعاتی فکروں اور ان کی عظمت کی وجہ سے انہیں انقلاب کا شاعر کہا جاتا تھا۔ وہ اردو شاعروں میں ایک طرف اپنے شدید سماجی و سیاسی خدشات اور دوسری طرف رومانوی مصروفیات کے لیے قابل ذکر ہیں۔ اپنے آپ کو یقین کے ساتھ ظاہر کرنے کے لیے، اس نے ایک خصوصی قسم کی چارجڈ ڈکشن اور ایک نئے استعاروں کا مجموعہ تیار کیا۔ ان خصوصیات نے ان کی شاعری میں انفرادیت کا عنصر پیدا کیا۔

 جوش نے اپنی شاعری کے کئی مجموعے شائع کیے جن میں روحِ ادب، شعر کی راتیں، نقش و نگار، شولہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، حرف و حکمت، آیات شامل ہیں۔ -او-نغمات، عرش-او-فرش، رامش-او-رنگ، سنبل-او-سلسل، سیف-او-سبو، سورود و کہروش، سموم-او-سبع، تولو فکر، قطر-او قلزم، اور نوادرات جوش۔ اس نے نثر میں بھی لکھا۔ ان کی نثری تصانیف میں نجوم و جواہر، موضع فکر، اوراق سحر، الہام و مقالات زریں اور اشعار شامل ہیں۔ جوش کی سوانح عمری، یادوں کی بارات، نے اپنے قارئین میں کافی دلچسپی پیدا کی، اور یہ انہیں اب بھی متجسس رکھتا ہے۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر