پیر، 23 جنوری، 2023

کراچی کی تاریخی عمارتیں

<> 

کراچی کی تاریخی عمارتیں

بانی پاکستان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں واقع ہے،  وزیر مینشن وہ تاریخی عمارت ہے, جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے 25 دسمبر 1876 کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے۔وزیر مینش 

بانی پاکستان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں واقع ہے، عظیم رہنما کے یوم پیدائش کے موقع پر وزیر مینشن کو برقی قمقموں سے سجا دیا جاتا ہے۔ پیلے پتھروں اور لال جالیوں والی سادہ، پر وقار وزیر مینشن وہ تاریخی عمارت ہے, جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے والے عظیم رہنما بابائے قوم محمد علی جناح نے 25 دسمبر 1876 کو آنکھ کھولی اور زندگی کے ابتدائی ایام یہاں گزارے۔

تقریباً ڈیڑھ صدی پرانی تاریخ کی حامل اس عمارت کو مزید دلکش اس میں رکھی بابائے قوم کی استعمال شدہ اشیاء بنا دیتی ہیں۔ پورے پاکستان میں قائد کے زیر مطالعہ رہنے والی قانون کی کتابیں صرف وزیر مینشن میں ہی موجود ہیں۔ بابائے قوم کا بستر، کچھوے کی ہڈی سے بنا چشمہ، قیمتی کپڑے، جوتے، قلم اور دیگر اشیاء کے ساتھ قائد اعظم کی زوجہ رتی جناح کا فرنیچر بھی یہاں نفاست اور احتیاط سے رکھا گیا ہے۔

یم اے جناح روڈ پر واقع ڈینسو ہال انگریز حکومت کی لائبریری تھی، جسے 1886ء میں تعمیر کیا گیا۔یہ لائبریری کراچی بندرگاہ میں تعینات افسران کے لیے بنائی گئی تھی۔میری ویدر ٹاو

قیام پاکستان کی ابتداء میں کیماڑی کے پرانے پُل سے واپسی کے سفر میں  جب آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے جو عمارت نظر آتی وہ میری ویدر ٹاور تھا۔یہ ٹاور سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو کہ 1868سے 1877تک سندھ کے کمشنر رہے تھے۔یہ 1886میں سر ولیم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا، اس کی بلندی 102فٹ ہے، جب کہ رقبہ 44مربعہ فٹ پر مشتمل ہے، اس کے چاروں جانب گھڑیاں نصب ہیں، جب کہ ا س پر بنا ستارہ ڈیوڈ اسٹا ریا ستارہ داؤدی یہودی مذہب کی علامت ہے۔ کمشنر ولیم میری ویدر کا نام بھی کنندہ ہے  ۔ اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود

قیام پاکستان کی ابتداء میں سمندری سفر سے واپسی پر جب آپ کراچی کی حدود میں داخل ہوتے تھے تو سب سے پہلے جو عمارت نظر آتی وہ میری ویدر ٹاور تھا۔یہ ٹاور سر ولیم لوکیر میری ویدر کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو کہ 1868سے 1877تک سندھ کے کمشنر رہے تھے۔یہ 1886میں سر ولیم کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیر کیا گیا، اس کی بلندی 102فٹ ہے، جب کہ رقبہ 44مربعہ فٹ پر مشتمل ہے، اس کے چاروں جانب گھڑیاں نصب ہیں، جب کہ ا س پر بنا ستارہ ڈیوڈ اسٹا ریا ستارہ داؤدی یہودی مذہب کی علامت ہے۔ کمشنر ولیم میری ویدر کا نام بھی کنندہ ہے۔ اس ٹاور کی بناوٹ میں جودھپوری لال پتھر کا استعمال کیا گیا ہےکراچی میں ٹاور سے مراد کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور آئی آئی چند ریگر روڈ سے متصل شاہراہ پر قائم میری ویدر ٹاور قیام پاکستان سے قبل تعمیر کیا گیا یہ ٹاور آج تک اپنی اسی حالت میں اہم یادگار کے طور پر موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹاور کے علاقے کو تجارتی لحاظ سے بھی مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے اطراف میں آئی آئی چندریگر روڈ پر کئی تجارتی طرز کی اہم عمارتیں قائم ہیں، جن میںدفاتر اور بینک شامل ہیں۔ ٹاور کے قریب شہر کے مشہور کاروباری مراکز کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت بھی قائم ہے ٹاور کا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ کہلاتا ہے۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں افراد کا یہاں سے گزر ہوتا ہے، مگر اس یادگار ٹاور کی اہمیت سے بہت ہی کم لوگ مانوس ہیں۔ اس کا اصل نام کہیں چھپ کر رہ گیا ہے۔ پری اور پیکر کی طرح ”میری اور ویدر“ کہیں غائب ہے عوام کے ذہنوں میں اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف ایک ہی نام یعنی ٹاور۔ اپنی تاریخی حیثیت کے باوجود یہ عمارت دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستگی کا شکار ہو رہی ہے

موہٹا پیلس" ایک ایسا محل ہے جو کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں واقع ہے یہ محل پاکستان کے قیام سے قبل "شیورام موہٹا" نامی ایک ہندو تاجر نے اپنے اور اپنے اہلخانہ کی رہائش کے لیے ساحل کے قریب 1927 میں سے تعمیر کروایا تھا۔"تقسیم ہند کے بعد موہٹا پیلس پاکستان کے حصے میں آگئیں بعد ازاں شہر کی مشہور عمارت ہونے کے باعث موہٹا پیلس کی عمارت کو بانی پاکستان قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو رہائش کے لیے دیدیا گیا تھا، جسے بعد میں " قصر فاطمہ" کا نام بھی دیاگیا۔ فاطمہ جناح اپنے انتقال تک یہیں مقیم رہیں۔ ان کی رحلت کے کئی سالوں بعد اس عمارت کو حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔


ہفتہ، 21 جنوری، 2023

ہجرت کی شب مسہری

حضرت علی علیہ السلام کی عمر مبارک اس وقت زیادہ سے زیادہ بائیس تئیس برس کی تھی، اس عنفوانِ شباب میں اپنی زندگی کو قربانی کے لیے پیش کرنا فدویت وجاں نثاری کا عدیم المثال کارنامہ حضرت نبی کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو تبلیغ اسلام اور الہی پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے سے روکنے کے لیے جب قریش کے تمام حربے ناکام ہو گئے تو انہوں نے رسول خدا کو ان کے بستر پر ہی قتل کردینے کا فیصلہ کیا اور قتل کی سازش اس طرح سے تیار کی کہ قتل کا ناپاک ارادہ رکھنے والے قریش کے تمام قبائل میں سے ایک ایک فرد لیا جائے اور وہ تمام افراد مل کر رسول خداحضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر حملہ کر کے انہیں قتل کردیں اس طرح سے رسول خدا کے قتل میں تمام قبائل شامل ہوجائیں گے اور رسول خدا حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا قبیلہ یعنی بنی ہاشم تمام قبائل سے اس قتل کا بدلہ نہیں لے پائے گا اور نہ ہی اس کے پاس تمام قبائل کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہے۔

 جبرائیل کا رسول خدا کو قریش کی سازش سے آگاہ کرنا: اللہ تعالی نے حضرت جبرائیل کے ذریعے رسول خدا(ص) کو قریش کی سازش سے آگاہ کیا اور انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :" وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ۔" (سورہ انفال آیت 30) ترجمہ :کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر ) خدا چال چل رہا تھا اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ رسول خدا کا حضرت علی کو اپنے بستر پر سلانا: جب رسول خدا حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو وحی کے ذریعے اس بات کا علم ہوا کہ قریش کے قبائل قتل کی سازش پر معاہدہ کر چکے ہیں تو اس وقت رسول خداحضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے اپنے سب سے زیادہ قابل اعتماد، سب سے قریبی، راہ خدا میں سب سے زیادہ امتحانوں سے گزرنے والے اور خدا کی اطاعت پر فورا سر تسلیم خم کرنے والے نوجوان علی بن ابی طالب(علیہ السّلام) کو بلاکر فرمایا: يا علي،

 إنّ الروح هبط عليّ بهذه الآية آنفا، يخبرني أنّ قريشا اجتمعوا على المكر بي وقتلي، وأنّه أوحى إليّ ربّي عزّ وجل أن أهجر دار قومي، وأن أنطلق إلى غار ثور تحت ليلتي، وأنّه أمرني أن آمرك بالمبيت على مضجعي، ليُخفى بمبيتك عليه أثري، فما أنت قائل وصانع)؟ فقال علي: (أو تَسلمَنَّ بمبيتي هناك يا نبي الله)؟ قال: (نعم)، فتبسم علي ضاحكاً، وأهوى إلى الأرض ساجداً، شكراً بما أنبأه رسول الله من سلامته ...) (الأمالي الصدوق : ص 465) اے علی ابھی جبرائیل میرے پاس یہ آیت لے کر آئے ہیں، وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ، اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ قریش نے میرے ساتھ دغہ بازی اور میرے قتل کا فیصلہ کیا ہے اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے مسکن کو چھوڑ دوں اور آج ہی رات غار ثور میں چلا جاؤں اور اسی طرح خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے بستر پر رات کو سونےکے لئے کہوں تا کہ تمہارے اس بستر پر سونے سے میں پوشیدہ رہوں ،اب تم بتاؤ کہ تمہارا اس بارے میں کیا ارادہ ہے ؟ تو حضرت علی (علیہ السّلام ) نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کے بستر پر میرے سونے سے آپ کی جان محفوظ ہوجائے گی تو رسول خدانے فرمایا: ہاں اس طرح سے میری جان بچ جائے گی ۔

 جب مولاعلی نے رسول خداکی یہ بات سنی تو مسکرائے اور اس خوشی میں کہ رسول خدا  کی جان بچ جائے گی شکر کے طور پر زمین پہ سجدہ ریز ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت علی(ع) کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ." ( سورہ بقرہ آیت 207 ) ترجمہ: اور لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں بہت مہربان ہے۔اورپھر حضرت محمد حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ کے ہمرا ہ مدینہ کا جانب عازم سفر ہوئے

چنانچہ اس رات مولائے کائنات حضرت رسول خدا کی چادر اوڑھ کر
 ٹھنڈی میٹھی نیند سو گئے اور کفّار مکّہ کا محاصرہ رات بھر جاری رہا -صبح سویرے جب کفّار گھر کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت علی علیہ السّلام کو بستر رسول پر دیکھا اور پھر پوچھا محمد کہاں ہیں مولا علی نے جواب دیا کیا تم ان کو میرے سپرد کر کے گئے تھے اس جواب پر وہ بوکھل گئے اور مولا علی نے ان سے کہا میں مدینے جا رہا ہو ں اب جس کو شوق ہو کہ اس کی بوٹیا ں کتّے بلّی کھائیں وہ ضرور میرے پیچھے آ جائے کفّار مولا علی کی شجاعت اور بہادری سے واقف تھے اس لئے اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے ،

بلبل صحرا ریشماں اور منقبت علی مولا (ع)

cript async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4942806249941506" crossorigin="anonymous">







  
 فوک موسیقی کے حوالے سے پاکستان کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔ اسی لئے یہاں سے شہرت حاصل کرنے والوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہمارے فوک سنگرز میں طفیل نیازی ،عالم لوہار، شوکت علی، عاشق جٹ، منصور ملنگی اور دیگر بے شمار ایسے فنکار موجود ہیں جنہوں نے فوک میوزک میں نام پیدا کیا۔
 ایسا ہی ایک خوبصورت نام گلو کارہ ریشماں کا بھی ہے۔ ریشماں جنہیں بلبل صحرا کا اعزاز ملا۔ ا ن کی دلنواز گائیکی نے پاک و ہند کی دھرتی پر طویل عرصہ اپنی صحرائ گائیکی کے رنگ بکھیرے وہ جب کسی مقام پر گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ سننے والے ریشماں کی صحرائی آواز میں کھو جاتے۔ ان کی آواز ہجر کا ایسا استعارہ ہے جس میں ڈار سے بچھڑنے والی ہرنی اور کونج کی درد بھری پکار کو بخوبی محسوس کیاجا سکتا ہے۔
مئی 1947ء کو راجھستان کے شہر بیکا نیر میں ایک خانہ بدوش خاندان میں پیدا ہونے والی بچی کے والدین انتہائی غربت کے عالم میں تقسیم ہند کے فوری بعد پاکستان آ گئے اور یہاں نگری نگر ی گا کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے۔ ریشماں بچپن سے اپنی آواز گڑوی کے ساتھ ملانے لگی۔ وہ گڑوی کی آواز کی لے ملاتے ہوئے مدھر سُروں میں کھو جاتی تھی۔ اس کی آواز میں صحرائی اور دیہی ماحول کی عکاسی نمایاں نظر آتی تھی۔ وہ سادہ لباس اور سادہ زندگی گزارتی ۔ صوفیا ئے کرام اور بزرگان دین سے عقیدت اس کی آواز اور خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔ 
بیکا نیر کے ایک بنجارہ خاندان میں انتہائ پسماندہ خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والی میں آنکھ کھولنے والی ریشماں کو معلوم نہیں تھا کہ ایک روز ہاتھ میں پکڑی ہوئ گڑوی کے ساتھ وہ کس طرح اوج ثرّیا پر جا پہنچیں گی
-ہوا یوں کہ ریشماں کے بھائ کی شادی میں یکے بعد دیگرے رکاوٹوں کا سامنا تھا ایک اچھّی بہن ہونے کے ناطے ریشماں نے منّت مانی کہ اس کے بھائ کی اچھّی سی شادی ہوجائے تو لعل شہباز قلندر کے مزار پر مولا علی کی منقبت گائے گی-دعا کی قبولیت کی گھڑی تھی بھائ کی شادی ہوگئ تب ریشماں نے پنجاب سے سندھ کا سفر منّت بڑھانے کے لئے کیا اورمزار مبا رک پہنچ کر بے منقبت گائ۔منقبت کی گائیکی میں نا جانے کیا ا ثر تھا مجمع بھی بے خودی کے عالم خاموش ہو کر محو سماعت ہو گیا ۔اس روز شائد آسمان پر پروردگار عالم نے 
 ر یشماں کی منقبت کو اس کا صلہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔چنانچہ اسی دن اس دور کے نامور ریڈیو پروڈیوسر سلیم گیلانی  بھی درگاہ پر آئے ہوئے تھے انہوں نے  ریشماں کو 
گاتے ہوئے سنا 
  اور منقبت کے ختم پر وہ ریشماں کے پاس آئے اور اپنا وزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم جب کبھی کراچی آئو تو میرے پاس چلی آنا۔ چنانچہ ریشماں کا خاندان جب شہر آیا تو وہ پوچھتے پچھاتے ریڈیو پاکستان کراچی پہنچ گئے ۔گیٹ پر جب ریشماں نے گیلانی صاحب کا کارڈ دکھایا تو اسے فوری طور پر خاندان سمیت اندر بلا لیا گیا۔ ریشماں کا کہنا تھا کہ صحرائوں کی خاک چھاننے والی ایک سادہ سی غریب لڑکی کو جب ریڈیو کے اسٹوڈیو میں لایا گیا اور اسے کہا گیا کہ بس تم گانا شروع کرو۔ اِدھر اُدھر مت دیکھنا۔ بس پھر میں گاتی چلی گئی۔
سلیم گیلانی نے اسے صوفیانہ کلام ریکارڈ کرانے کے حوالے سے جب کچھ کہا تو بقول ریشماں مجھے ان کی بات سمجھ آئی کچھ نہ آئی۔ بہر حال وہ مائیک کے سامنے گاتی چلی گئی۔ ریشماں نے اپنے ریڈیو آڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ریڈیو پاکستان کراچی سے اس کی گائی دھمال کیا نشر ہوئی کہ اس نے میری زندگی ہی بدل دی۔ صحرا کی یہ بلبل اپنی پہلی ہی دھمال سے ہٹ ہو گئی۔ ایک اخبار نے سرورق پر جب ریشماں کا ٹائٹل چھاپا تو بقول ریشماں میں اپنی تصویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ پھر یہ خوف بھی ہوا کہ کہیں میری بنجارہ فیملی میری تصویر دیکھ کر مجھے مار ہی نہ دے۔ اس دور میں ہمارے خاندان میں تصویر بنوانا اور پھر اس کا چھپنا بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ریشماں نے سٹال سے سارے میگزین خرید کر چھپا دیے۔
سٹال والے نے ریشماں کو پہچان لیا ۔مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ بی بی تمہاری تصویر پورے ملک نے دیکھ لی ہے۔ اب میگزین چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ریشماں میگرین چادر میں چھپا کر گھر لے گئی اور اکیلے میں گھنٹوں بیٹھی اپنی تصویر دیکھتی رہی۔ وہ پڑھی لکھی نہ تھی اس لئے وہ صرف تصویریں دیکھتی رہی ۔پھر بعد میں اس نے ایک پڑھے لکھے شخص سے جب اپنا انٹرویو سنا تو وہ بہت پریشان ہو گئی۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس کے بارے میں اتنی تعریفیں اور باتیں لکھ دی گئی ہیں۔
ریشماں کے حوالے سے یہاں ایک اور بات بیان کرتے چلیں کہ انہیں تمام عمر اپنے تعلیم یافتہ نہ ہونے کا بہت غم رہا۔ ریشماں نے خود اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ پوری دنیا میں گائیکی کے حوالے سے بہت مشہور ہوئیں تو امریکہ کے صدر جانسن نے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ پھر جب وہ امریکی ایئرپورٹ پر اپنے خاندان کے ہمراہ جہاز سے باہر آئیں تو امریکی صدر نے ہاؤآر یو۔پہلا جملہ یہ کہا کہ تو مجھے سمجھ نہ آیا اور میں بہت ہی شرمندہ ہوئی کہ اتنے بڑے ملک کے صدر کی عزت افزائی پر میں جواب میں ایک جملہ ادا نہ کر سکی۔ بہرحال میرے ہمراہ ایک ترجمان نے بتایا کہ صدر امریکہ آپ کا حال پوچھ رہے ہیں۔ ریشماں کا کہنا تھا اس واقعہ کے بعد میں نے پاکستان واپس آتے ہی اپنے بڑے بیٹے سانول کو فوری طور پر سکول میں داخل کرا دیا اور سوچا کہ میں اسے اتنا تعلیم یافتہ ضرور بنائوں گی کہ اسے کبھی ایسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کی طبیعت میں رکھ رکھائو اوربولنے کے آداب بھی آ گئے مگر اس کی طبیعت کی روایتی سادگی ہمیشہ قائم رہی۔ وہ کسی تصنع کے بغیر گفتگو کرتی اور ہر ایک پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیشہ سچ بولتی۔ گزرتے وقت کیساتھ ریڈیو سے گائے ہوئے اس کے نغمات جب سرحد پار فضائوں میں گونجے تو اسے وہاں بھی سرکاری سطح پر جانے کا موقع ملا۔ ریشماں کو دورہ ہندوستان کے موقع پر اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی قیمتی گھڑی کا تحفہ دیتے ہوئے اسے بھارت میں رہنے اور تمام تر آسائشیں دینے کا وعدہ کیامگر ریشماں نے شکریے کے ساتھ ان کی آفرکو مسترد کر دیا البتہ جہاں وہ پیدا ہوئی اور پلی تھی اس نے اپنے گاؤںط کیلئے سڑکیں بنوانے اور صحت کے حوالے سے ضروری آسائشیں مہیا کرنے کا وعدہ اندرا گاندھی سے لیا جو فوری مان لیا گیا۔اور پھر حسب معمول قدرت خدا کےچھیاسٹھ برس کی عمر میں خدائے واحد کی  بارگاہ میں چلی گئ۔

منگل، 17 جنوری، 2023

احمد فراز شاعری کے آسمان کا روشن ستارہ

 



مکمل نام: سید احمد شاہ علی

تخلص: مقبول، احمد فراز

تاریخِ پیدائش: 12 جنوری 1931

مقامِ پیدائش: کوہاٹ، برٹش انڈیا، موجودہ پاکستان

تاریخِ وفات: 22 اگست 2008

مقامِ وفات: اسلام آباد، پاکستان

آخری آرامگاہ: ایچ-ایٹ قبرستان، اسلام آباد، پاکستان

والد کا نام: آغا سید محمد شاہ

تعلیمی سفر: ایم اے اردو اور فارسی، پشاور یونیورسٹی، پشاور، پاکستان

شعری وابستگی: 1950 سے 2008

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931 کو پاکستان کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد شاہ بھی شاعر تھے۔ ایڈورڈ کالج پشاور میں طالب علمی کے دور میں ہی احمد فراز شعر و ادب  کی دنیا سے مانوس ہو چکے تھے-۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اور وہیں ان دونوں زبانوں کو کچھ عرصہ پڑھاتے رہے تاہم انھوں نے سکرپٹ رائٹر کے طور پر ریڈیو پاکستان میں بعد ازاں ملازمت اختیار کر لی۔

ازاں بعد شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد  وہ اردو شاعری کی تاریخ کے بڑے شعراء میں شامل تھے - عوام اور خواص دونوں میں مقبول، وہ برصغیر کے ان چند شاعروں میں سے ایک تھے جن کی شاعری کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ گایا بھی گیا۔  احمد فراز نے اردو شاعری اور ادب میں تقریباً ایک الگ سوچ اور فرقے کی سی حیثیت اختیار کی۔ انھیں کثرت سے عالمی مشاعروں میں دوسرے ممالک میں بلایا جاتا تھا۔ پہلے انہوں نے عشق مجاز کی دنیا میں قدم رکھّااور محبت، عشق، ہجر و وصال کی شاعری کہی لیکن رفتہ رفتہ ان کی شاعری میں ملکی حالات کی نسبت سے بغاوت اور انقلاب کی جھلک دکھائ دینے لگی اس طرح وہ انقلاب اور بغاوت کے شاعر بھی بن گئے -۔

 ان کا خود کہنا تھا ہے کہ اردو زبان میں شاعری سے پہلے انہوں نے کچھ اورزبانواں میں شاعری کی لیکن اس شاعری وہ مانوس نہیں ہو سکے اور بالآخر جب اردو زبان کی شاعری شروع کی تب ان کے دل سے آواز یہی وہ میدان جہاں ان کو شاعر کرنی ہے اور پھر زمانے نے دیکھا کہ احمد فراز نے زردو شاعری کے میدان میں  شہرت کی بلندی کے سنگھاسن پر بٹھا  دیا جس پر وہ تا دم وفات بیٹھے ہوئے تھے- ان کی شاعری کی اس جہت نے ان کو کچھ لوگوں کی نظروں معتوب کیا لیکن مگر آخر کار ان کی شہرت اور مقبولیت غالب رہی۔ ان کو پاکستان اور بیرونِ ممالک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 2004 میں ان کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سول اعزاز ہلالِ امتیاز دیا گیا جو انھوں نے 2006 میں جنرل پرویز مشرف کی مارشل لاء حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے واپس کر دیا

احمد فراز ماضی کے ایک پورے عہد میں نوجوانوں میں بے حد مقبول رہے۔ ان کے نظریات کی بناء پر انھیں اقتدار کے ایوانوں سے بھی ٹکراؤ کا سامنا رہا اور وہ جلا وطن بھی رہے۔ 1980 میں ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں انھوں نے جلا وطنی اختیار کی اور کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ دورِ جلا وطنی میں لکھی گئی ان کی نظمیں “دیکھتے ہیں” اور “محاصرہ” کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔احمد فراز نے شاعری میں 13 کتابیں اپنے ادبی ورثہ میں  چھوڑیں ہیں جو سب کی سب اردو دنیا میں مقبول عام  ہیں۔ ان کی پہلی کتاب “تنہا تنہا” 1950 میں منظرِ عام پر آئی جس نے بھرپور قبولیت حاصل کی اور فراز کو شہرت ملنے لگی۔ ان کی دیگر کتابوں میں جاناں جاناں، درد آشوب، خوابِ گل پریشاں ہے، نایافت، شب خون، بے آواز گلی کوچوں میں، بودلک، غزل بہانہ کروں اور میرے خواب ریزہ ریزہ شامل ہیں۔ ان کا تمام کلام “کلیاتِ احمد فراز” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے

احمد فراز مختلف حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ وہ 1976 میں قائم ہونے والے ادارہ اکادمی ادبیات کے بانی ڈائریکٹر جنرل تھے اور بعد ازاں اس کے چیئرمین بھی رہے۔ آخری زمانے میں وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین رہے۔ ان کے کلام کو بے شمار چھوٹے بڑے گلوکاروں نے گایا جن میں نور جہاں، غلام علی، مہدی حسن، رونا لیلیٰ اور جگجیت سنگھ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ احمد فراز کے گیت اور غزلیں فلموں کی زینت بھی بنے۔احمد فراز کا انتقال 22 اگست 2008 کو اسلام آباد میں ہوا۔ اور اسلام آباد کی زمین میں خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے

 

اتوار، 15 جنوری، 2023

عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم

<\head>pbr />

عصر حاضر و قدیم میں ہندو قوم کا محّرم 

عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں 

سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔

ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں  امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''۔

لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے  تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے  عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔لکھنو کے مشہور عزاخانے-

لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی ۔محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکرہ کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے:

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن زات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے خود اٹھاتے  


عصر حاضر کے نامور صحافی جمناداس اختر عزاداری کے بیان میں حسینی برہمنوں میں عزاداری کی تاریخی روایات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق زیادہ تر صوبہ پنجاب سے ہے۔ حسینی برہمنوں کے بزرگ راہیب نے نصرت امام میں اپنے بیٹوں کو قربان کر دیا تھا۔ راہیب کو سلطان کا خطاب بخشا گیا تھا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ امام حسین علیہ السلام کے تقدس و احترام کے بڑے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا تعلق موہیالیوں کی دت ذات سے ہے اور ہمیں حسینی برہمن کہا جاتا ہے۔ عاشورہ کے روز ہم لوگ سوگ مناتے ہیں۔ کم از کم میرے خاندان میں اس دن کھانا نا پکایا جاتا ہے اور نا ہی کھایا جاتا ہے۔ ہم مغرب سے پہلے معمولی کھانے سے فاقہ شکنی کرتے ہیں 

سری نگرکی امام بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا موئے مبارک موجود ہے جو کابل سے لایا گیا تھا-منشی جوالہ پرشاد اخترکے حوالہ سے ''انوارسادات''میں ہندوحضرات کی عزاداری وتعزیہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:صوبہ اودھ میں امام حسین علیہ السّلام کی فوج کے سپہ سالاراورعلمبردارحضرت عباس علیہ السّلام کے نام کا پہلا علم اودھ کی سرزمین سے اٹھاجس کے اٹھانے کا سہرامغلیہ فوج کے ایک راجپوت سرداردھرم سنگھـ کے سرہے''۔

ہندو تعذیہ داری سے عقیدت اور محبّت رکھتے ہیں اور وہ لوگ تعزیہ کودیکھـ کرمودبانہ جھک جاتے ہیں۔ مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔اور مجمع کی شکل میں جمع ہو کر ماتم کرتے ہیں  امام باڑوں میں کوئی بھی شخص داخل ہونے سے قبل اپنے جوتے اتاردیتا ہے''

لکھنئوکا مشہور روضہ ''کاظمین'' ایک ایسے ہی ہندوعقیدت مند جگن ناتھـ اگروال نے اودھ سلطنت میں تعمیرکرایا تھا۔ اسی طرح راجہ جھائولال کا عزاخانہ جوآج بھی لکھنئوکے ٹھاکرگنج محلہ میں واقع ہے جسے نواب آصف الدولہ کے دور میں راجہ جھائولال نے تعمیرکرایا تھا۔سالارحریت وآزادی امام حسین سے ہندوئوں کی عقیدت کا اندازہ ان کے  تعمیرکئے گئے تعزیہ خانوں اورعزاخانوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہندوحضرات نے شہدائے کربلا کی یاد میں بڑے بڑے  عزاخانے بھی تعمیرکرائے۔

لکھنؤ کی عزاداری ایک رسم ہے جس میں شہید کربلا حسین بن علی کی شہادت اور سنہ 680ء میں پیش آنے والے واقعہ کربلا کی یاد میں ماتم کیا جاتا ہے اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔[1] رسم عزاداری خاص طور محرم کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے۔ برصغیر میں شہدائے کربلا کی عزاداری ایک قدیم رسم ہے۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی[2]۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران میں عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ (آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ) بھی وہیں قائم ہوا - مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا، لکھتا ہے:۔

"سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے، تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریباً 50 شیعہ اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے"[3]۔

کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔

"محرم کے دوران میں شیعہ فرقے کے لوگ ماتم کرتے ہیں- ان دنوں میں مرد اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں اور دن میں فاقے کرتے ہیں۔ عورتیں مرثیے پڑھتی ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتی ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے"

امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے اٹھایا کرتے تھے[6]۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں[7]۔ شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انہوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا [8]۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں[5]۔ الہ آباد میں، سنّی 220 میں سے 122 تعزیے  

اتوار، 8 جنوری، 2023

خدارا پاکستان کے جنگل بچاو



جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔یہ آ پ جانتے ہی ہوں گے اس برس آم کے موسم سے قبل ہی شہر ملتان میں کئ لاکھ آ م کے بہترین فصل دینے والے درخت کاٹ کر وہاں ہاوسنگ سو سائٹیز کو تعمیرات کی اجازت دی گئ -کیا کسی نے سوچا ہم اتنے درخت کاٹ کر اپنے نسلوں کو کنکریٹ کے دہکتے جنگل بے دردی سے صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ ہمارا سرمایہ بڑھے پاکستان میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے 

۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث منگلا ڈیم اپنی مقررہ عمر سے پہلے ہی بھر جائے گا ۔ جس کے بڑے بھیانک نتائیج برآمد ہونگے ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں کبھی بے شمار جنگلی حیات موجود تھے لیکن چودہ سالہ انڈین گولہ باری کے باعث نیلم ویلی کے جنگلات کا مجموعی طور پر پندرہ ہزار ایکڑ رقبہ نذر آتش ہوا ۔آتش ذدگی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی تیزی سے جنگلات کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس طرح خوبصورت جنگلی حیات کا عر صہ حیات تنگ ہو رہا ہے ۔

 ان جنگلات میں بڑے پیمانے پر قیمتی جانور ناپید ہو رہے ہیں ۔ خوبصورت پرندوں میں دان گیر مرغ ذرین پہلے سے نایاب ہو چکے ہیں ، چکور بھی کم تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ نیلم ویلی کے جنگلات میں بے شمار شفا بخش جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جن کی بیرون ملک اور پاکستان میں بڑی مانگ ہے ان میں کٹھ ، پتریس ، مشک بالا ، رتن جوگ اور بٹ پھیوا وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ نیلم ویلی کے جنگلوں کی بلیک مشروم ( گچھی ) سیاہ زیرا کو بہت پسند کیا جاتا ہے ۔

ہمارے جنگل کنکریٹ میں دفن کیوں ہو ئے جا رہے ہیں ۔کبھی سوچا آپ نے ؟ نہیں کس کو فرصت ہےقرت کی اس معصوم مخلوق کی بقا کا سامان کریں نہ کہ فنا کا۔در حقیقت جنگلات کی کٹائی ایک خلاف فطرت عمل ہے اور دور حاضر میں جب پوری دنیا کو بدترین فضائی آلودگی اور موسمی حدت کا مسئلہ درپیش ہے،  ایسے میں درختوں کی کٹائی گویا پوری انسانیت کو تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے ۔ ہماری زمین بہت تیزی کے ساتھ جنگلات سے محروم ہو رہی ہے پاکستان میں اگرچہ ماحولیات کے تحفظ پر کافی بات ہورہی ہے  اور اقدامات بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود جنگلات کی کٹائی  کئ صورتوں میں جاری ہے۔

 محققین کے مطابق گلگت بلتستان، کوہستان بشمول داریل تانگیر  اور وادی نلتر میں مختلف اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ اور دیامر کے علاقے بالخصوص گوہرآباد چلغوزے کے قیمتی جنگلات سے مالامال ہے اسی طرح ان علاقوں میں دیگر اقسام کے پیڑوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ تاہم گذشتہ دس پندرہ سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ کر مقامی افراد اور ٹمبر  مافیہ نے ان خوبصورت جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کے متعلقہ ادارے اگرچہ اس بربادی کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔ لیکن بھلا ہو پرائم منسٹر عمران خان نیازی کا جنہوں نے دس ارب درختوں کے نام سے ایک منصوبہ متعارف کروایا اس منصوبے میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا بلکہ ملک کے متعدد علاقوں میں تقریبا ایک ارب سے زائد درخت لگا کر ماحول دوستی کا ثبوت دیا ۔ میری جنگلات کے متعلقہ  اداروں سے یہ گزارش ہے کہ اس منصوبے کو بھرپور انداز میں  استعمال کریں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ہمارے جنگلات کو بچائے

 یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں اور قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے تاہم یہ  بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ دنیا میں جنگلی حیات کم ہوتی جارہی ہیں ۔سائنس دانوں کاکہناہے کہ دنیا میں بڑے جنگلی جانوروں کی آبادی کم ہو رہی ہے  یوں تو پوری دنیا میں  بیشمار تنظیمیں جنگلی حیات کے بچاؤ اور تحفظ کیلئے کام کررہی ہیں لیکن اس کے باوجود نایاب پرندوں اور جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔جنگلی حیات کو بچانے اور افرائش نسل کیلئے حکومتوں اور اداروں کی طرف سے اقدامات کے باوجود نایاب پرندوں کا شکار کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔

جنگلی حیات صرف جنگل تک محدود نہیں بلکہ ہمارے آس پاس ہمارے معاشرے میں ہمارے قریب موجود ہے، مختلف جانور اور پرندے ہمیں وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، زمین، آسمان اور سمندر میں موجود آبی حیات انسان کی توجہ کی متقاضی ہیں۔انسان کی طرح جانور اور چرند پرند اور تمام جنگلی حیات کو زندہ رہنے کیلئے گھر اور کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ماحول کو انسان دوست بنانے میں جنگلی حیات کا بھی بڑا کردار ہے لیکن موجودہ دور میں انسان تیزی کے ساتھ جنگلی حیات پر اثر انداز ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کئی نایاب جانوروں کی نسلیں معدوم ہوچکی ہیں۔

جانور نہ صرف ماحولیات کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ قدرتی خوبصورتی کو بھی نمایاں کرتے ہیں، آج دنیا بھر میں نایاب پرندوں اور جانوروں کو بچانے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔جنگلی جانوروں  کے بچاؤ اور افزائش نسل کیلئے شکار پر پابندی لگائی جاتی ہے اس کے باوجود غیر قانونی شکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ اور آگاہی نا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جنگلی حیات کو بہت سے خطرات درپیش ہیں اورمختلف اقسام کے جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کو ہیں۔

جنگلی حیات کا تحفظ صرف حکومت یا متعلقہ اداروں کی نہیں بلکہ ہر انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے،عوام کی شمولیت اورمدد کے بغیر جنگلی حیات کے تحفظ کا کام نہیں کیاجاسکتا۔ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔ہمیں اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں آگاہی کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔اور عوام کو جنگلی حیات پر جاری ظلم کو روکنے میں متعلقہ اداروں کا ساتھ دیناہوگاتاکہ قدرت کی اس تخلیق کا تحفظ یقینی بناکر ماحول کو بچایا جاسکے
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے اللہ دتّہ کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ ایک درخت کاٹنے سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ انھیں اگر فکر ہے تو اپنے پیٹ کی کیونکہ پہاڑوں میں رہتے ہوئے ان کے پاس نہ تو کوئی روزگار ہے اور نہ ایندھن کا کوئی دوسرا ذریعہ جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔لہٰذا ان کا یہ معمول ہے کہ ہر ہفتہ یا دس دنوں میں وہ اپنے گزر بسر کے لیے گاؤں کے پہاڑوں میں جاکر ایک درخت کاٹ کر گھر لاتا ہے جسے وہ ایندھن کے طورپر استعمال کرتا ہے یا پھر اسی درخت کو فروخت کردیتا ہے۔

جنگلات کسی بھی ملک کے قدرتی ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں ۔ پاکستان اور آذاد کشمیر میں ضرورت سے کم رقبہ پر جنگلات پائے جاتے ہیں اور اضافے کے بجائے دن بدن یہ کمی بڑتی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موسموں کے عدم توازن کا شکار ہیں ۔ آذاد کشمیر میں جنگلات مالی وسائیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ جس کا ذیادہ تر انحصار نیلم ویلی کے جنگلات پر ہے ۔ نیلم ویلی میں دنیا کا سب سے قیمتی دیودار پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں برمی ، کائیل اور فر کے علاوہ چھور کے قیمتی درخت پاے جاتے ہیں لیکن یہ درخت بڑی تیزی سے کاٹے جا رہے ہیں اور ختم ہو رہے ہیں ۔ جس کے باعث علاقہ کی بے شمار ارضیات لینڈ سلائینڈنگ کا شکار ہو رہی ہیں اگر اس کا تدارک نہ ہوا تو لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ہم بڑی آبادیوں والی زمین سے محروم ہو جائیں گے

ائےابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے


کتنی حیرت کی بات ہے کہ کافر اپنی زبان سے کہ رہے ہیں کہ ابو طالب بارش کے لئے  اپنے خدا سے گزارش کریں کہ پانی برسا دے اور بے دین مسلمان کہ رہے ہیں کہ ابو طالب کافر تھے۔روایت ہے کہ شہر مکہ میں اتنا سخت قحط پڑ گیا کہ لوگوں نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے بچے تک فروخت کر دئے۔ایسے میں کفار مکہ اپنے بنائے ہوئے بتوں کے آ گے گڑ گڑانے لگے کہ وہ بارش برسا دیں ۔لیکن پتھر کے بت ساکن ہی رہے اور بارش نہیں برسی
تب وہ سب اجتماعی طور پر حضرت ابو طالب کے پاس آ ئے اور ان کہا کہ وہ اپنے خدا سے کہیں کہ وہ بارش برسا دے

تمام علمائے شیعہ اور اھل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“شارح نہج البلاغہ نے اور”قسطلانی“ نے اعتراف کیا ہے کہ شجرہٴ خبیثہٴ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداهوئی ھے۔ کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ھی نھیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی هو ،بلکہ ھم دیکھتے ھیں کہ ھر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ھے ایسے 

 حملوں سے نھیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نھیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔

‌تاریخ  اسلام  میں دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواھی دیتے ھیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتے ھیں ..۱۔ حضرت ابوطالب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے پھلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ھے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس سفر میں انهوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔

‌ان میں ایک واقعہ یہ ھے کہ جو نھیں قافلہ ”بحیرا“نامی راھب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا ،تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، توراھب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جم کررہ گئیں، جن کی عمراس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔

‌بحیرانے تھوڑی دیر کے لئے حیران وششدر رہنے اور گھری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کھا:یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ھے؟لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انهوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ھے۔

‌” بحیرا“ نے کھا : اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ھے، یہ وھی پیغمبر ھے کہ جس کی نبوت ورسالت کی آسمانی کتابوں نے خبردی ھے اور میں نے اسکی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ھیں ۔

‌ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پھلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے ۔سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اھل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کوگھیر لیاتو کفار مکہ ابوطالب کے گھر پر آئے اور ان سے کہا ائے ابو طالب اپنے خدا سے کہو وہ بارش برسا دے

ابھی حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم بہت چھوٹے سے تھے حضرت ابو طالب نے حضور پاک کو گود میں اٹھایا اور خانہ کعبہ کی دیوار سے متصل کر کے کھڑا کیا اور  حضور پاک کی شان میں  چالیس بند کا قصیدہ پڑھا ااور اس کے ساتھ ہی شہر مکہ میں اتنی موسلادھار دھار بارش ہوئئ کہ  کعبہ کی دیوار واں تک پانی آ گیا۔ تب حضرت ابو طالب ننھے بھتیجے کو اپنے شانو ں پر بٹھا کر گھر لے آئے ۔

‌اس کے بعد شھرستانی لکھتا ھے کہ یھی واقعہ جوابوطالب کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت ورسالت سے آگاہ هونے پر دلالت کرتا ھے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ھے اور ابوطالب نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کھے تھے : و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمة الارامل ” وہ ایسا روشن چھرے والا ھے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ھیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ھیں “

‌یلوذ بہ الھلاک من آل ھاشم

فھم عندہ فی نعمة و فواضل

” بنی ھاشم میں سے جوچل بسے ھیں وہ اسی سے پناہ لیتے ھیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بھرہ مند هوتے ھیں ،،

‌ومیزان عدلہ یخیس شعیرة

‌ووزان صدق وزنہ غیر ھائل

” وہ ایک ایسی میزان عدالت ھے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھر نھیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ھے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نھیں ھے “ قحط سالی کے وقت قریش کا ابوطالب کی طرف متوجہ هونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شھرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ھے ۔“[20]

‌اشعار ابوطالب زندہ گواہ

‌۲۔اس کے علاوہ مشهور اسلامی کتابوں میں ابوطالب کے بہت سے اشعار ایسے ھیں جو ھماری دسترس میں ھیں ان میں سے کچھ اشعار ھم ذیل میں پیش کررھے ھیں :

‌والله ان یصلوالیک بجمعھم

‌حتی اوسدفی التراب دفینا

‌”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میںنہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ھرگز ھرگز تجھ تک نھیں پہنچ سکیں گے“

‌فاصدع بامرک ماعلیک غضاضتہ

‌وابشربذاک وقرمنک عیونا

‌”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈراور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاع کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر“۔ ودعوتنی وعلمت انک ناصحی ولقد دعوت وکنت ثم امینا ”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ھے کہ تیرا ہدف ومقصد صرف پندو نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ھے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ھے“

‌ولقد علمت ان دین محمد(ص)

‌من خیر ادیان البریة دیناً ” میں یہ بھی جانتا هوں کہ محمد کا دین ومکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتردین ھے“۔ اور یہ اشعار بھی انهوں نے ھی ارشاد فرمائے ھیں : الم تعلمواانا وجدنا محمد اً

‌رسولا کموسیٰ خط فی اول الکتب ” اے قریش ! کیا تمھیں معلوم نھیں ھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ھیں جن کے آنے کی پیشین گوئی پھلی آسمانی کتابوں میں لکھی هوئی ھے اور ھم نے اسے پالیاھے“۔

‌وان علیہ فی العباد محبة

‌ولاحیف فی من خصہ اللہ فی الحب

‌” خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ھیں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا هو اس شخص سے یہ لگاؤبے موقع نھیں ھے۔“

‌ابن ابی الحدید نے جناب ابوطالب کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شھر آشوب نے ” متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کھا ھے) کہتا ھے : ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ھمارے لئے کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے“۔ ۳۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل هوئی ھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ان کے فدا کار چچا ابوطالب کے ایمان پر گواھی دیتی ھیں منجملہ ان کے کتاب ” ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ھے کہ جب ابوطالب کی وفات هوگئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کررھے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:

‌”ھائے میرے بابا! ھائے ابوطالب ! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین هوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں ، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے هونے پر میری دعوت پر لبیک کھی ، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہٴ چشم میں اور روح بدن میں“۔

‌نیز آپ ھمیشہ یہ کیا کرتے تھے :” مانالت منی قریش شیئًااکرھہ حتی مات ابوطالب “

‌”اھل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ هوگئی“۔

‌۴۔ ایک طرف سے یہ بات مسلم ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابوطالب کی وفات سے کئی سال پھلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں ،اس کے باوجود ابوطالب کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مھرو محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انھیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن هوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود ابوطالب سے عشق کی حدتک مھرومحبت رکھیں۔

‌۵۔ان احادیث میں بھی کہ جو اھل بیت پیغمبر کے ذریعہ سے ھم تک پہنچی ھیں حضرت ابوطالب کے ایمان واخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ھیں، جن کا یھاں نقل کرنا طول کا باعث هوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ھیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام علیہ السلام سے نقل هوئی ھے اس میں امام علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:

‌”ان ھنا قوماً یزعمون انہ کافر“ ، اس کے بعد فرمایاکہ: ” تعجب کی بات ھے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ھیں کہ ابوطالب کا فرتھے۔ کیا وہ نھیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اور ابوطالب پر طعن کرتے ھیں کیا ایسا نھیں ھے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ھے (اور یہ حکم دیا گیا ھے کہ ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نھیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ھے کہ فاطمہ بنت اسدرضی اللہ عنھا سابق ایمان لانے والوں میں سے ھیں اور وہ ابوطالب کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رھیں۔“ ]ابوطالب تین سال تک شعب میں[

‌۶۔ان تمام باتوں کو چھوڑتے هوئے اگرانسان ھر چیز میں ھی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نھیں کرسکتا کہ ابوطالب اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درجہٴ اول کے حامی ومددگار تھے ، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی هوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نھیں کیا جاسکتا ۔

‌اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ھے۔ تمام مورخین نے لکھا ھے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کرلیا اور اپنے ھر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واحد حامی اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام کاموں سے ھاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ھاتھ کھینچے رکھا اور بنی ھاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب“ کے نام سے مشهور تھا اور وھاں پر سکونت اختیار کر لی۔

‌ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیرکرنے کے علاوہ ھر رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مھیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند علی کو ان کی جگہ پر سلادیتے اور جب حضرت علی کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل هوجاؤں گا “ تو ابوطالب جواب میں کہتے :میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ھاتھ سے نہ چھوڑو، ھر زندہ موت کی طرف رواںدواں ھے، میں نے تجھے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ھے 

‌یہ بات اور بھی طالب توجہ ھے کہ جو حضرت علی علیہ السلام باپ کے جواب میں کہتے ھیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بناپر نھیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل هونے سے ڈرتاهوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم هوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ کی نصرت ومدد کے لئے آمادہ و تیار هوں۔ قارئین کرام ! ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ ابوطالب کے بارے میں تاریخ کی سنھری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ھمصدا هوکر کھے گا :

‌ولولا ابوطالب وابنہ لما مثل الدین شخصا وقاما

‌فذاک بمکة آوی وحامی وھذا بیثرب جس الحماما

” اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ هوتے تو ھرگزمکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرتا ،ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“

‌ابوطالب کا سال وفات ”عام الحزن“

‌۷۔”ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے ۔ ھم یھاں تک دیکھتے ھیں کہ حضرت ابوطالب کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ھیں کہ حضرت ابوطالب کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رھبر اور پیشوا کا تحفظ کررھا هو۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر