جمعرات، 22 ستمبر، 2022

زینب زوی الکرام ولادت با سعادت



روائت ہے کہ جس وقت نور عین فاطمہ و علی علیہ السّلام کے پُر نورآنگن میں بی بی زینب کی ولادت ہوئ اس وقت نبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم  شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔چنانچہ تین دن کے بعد آپ  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کے حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں  لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی 


ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم  صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،


اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ  رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘  لے کر آئےہیں یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے  جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔


اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ  درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے


ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا  رکھ دیا۔

 ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو  اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے 

بدھ، 21 ستمبر، 2022

کینیڈا میں موسم کے رنگ

اللہ پاک
کریم و کارساز نے ہم انسانوں کی بہتری کے لئے سال کے چار موسم بنائے ہر موسم کے اپنے پھل رکھے سبزیا ں رکھیں یعنی بنی نوع انسانی کی بھلائ ہی بھلائ کے منصوبے دئے -لیکن کینیڈا جیسے سرد ملک میں سردیاں بہت مشکل سے گزرتی ہ
۔ ستمبر  کا مہینہ کینیڈا میں موسم خزاں کے آغاز کو مہینہ ہے، موسم گرما کی گرمی سے راحت مل جاتی ہے کیونکہ بار بار ہلکی بارش کے ساتھ آب و ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ کینیڈا کے وسیع جنگلات میں موسم خزاں کا بہترین وقت ہے ، ملک میں دنیا کے کچھ بہترین مناظر ہیں اور اس میں فطرت کے اس پہلو کو دیکھنے کے ایک نہیں بلکہ کئی طریقے ہیں خوشی کا موسم!

ای ٹی اے کینیڈا ویزا ایک الیکٹرانک ٹریول اتھارٹی یا ٹریول پرمٹ ہے جو 6 ماہ سے بھی کم عرصے کے لیے کینیڈا جانے اور کینیڈا میں موسم خزاں کے ان مہاکاوی تجربات کو دیکھنے کے لیے ہے۔ بین الاقوامی زائرین کے پاس کینیڈا کا دورہ کرنے کے قابل ہونے کے لیے کینیڈین ای ٹی اے ہونا ضروری ہے۔ غیر ملکی شہری درخواست دے سکتے ہیں۔ ای ٹی اے کینیڈا ویزا آن لائن منٹ کے معاملے میں. ای ٹی اے کینیڈا ویزا عمل خودکار ، آسان اور مکمل طور پر آن لائن ہے
موسم خزاں میں کینیڈا 
الگنون صوبائی پارک Algonquin صوبائی پارک خزاں کے رنگوں میں ملبوس۔
ایک ایسا ملک جس میں متعدد قومی پارکس ہیں جو ہزاروں جھیلوں کے گرد گھنے جنگلات سے گھرا ہوا ہے ، کینیڈا وہ ملک ہے جو اپنے شہروں سے آگے دیکھنے کے لیے زیادہ نظارے رکھتا ہے۔ ۔ ملک کا مشرقی حصہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ موسم خزاں کے رنگوں کا مشاہدہ کرنے کا بہترین پطریقہ اس کی تمام شدت کے ساتھ پتے سرخ سے نارنجی جا رہے ہیں اور آخر میں سردیوں کی ہوا میں پیلے رنگ کی ساخت کے ساتھ غائب ہو رہے ہیں۔ئ
کینیڈا جیسے بڑے ملک میں موسم خزاں کے پودوں کے وقت کی پیش گوئی کرنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن زیادہ تر ستمبر کے مہینوں میں اکثر صوبوں میں موسم خزاں کا آغاز ہوتا ہے اونٹاریو, کیوبک اور سمندری صوبے ملک بھر میں روشن موسم خزاں کے رنگ دیکھنے کے لیے بہترین جگہ ہیں۔
ملک کی بیشتر جھیلوں کو قومی پارکوں سے گھیرے جانے کی وجہ سے ، سرخ اور پیلے رنگ کے میپل کے درختوں کے درمیان واقع پرامن جھیلوں کو دیکھنا زندگی بھر کی تصویر بن جاتا ہے ، جو سرخ جنگلات کو اپنے پرسکون پانیوں میں جھلکتے ہیں۔

کینیڈا کے سب سے قدیم صوبائی پارکوں میں سے ایک ، الگنکوئن نیشنل پارک جنوب مشرقی اونٹاریو میں واقع ہے اس کی حدود میں چھپی ہوئی ہزاروں جھیلیں ہیں ، جنگل کی چھپی ہوئی پگڈنڈیاں جو خزاں کے موسم میں شاندار نظارے پیش کرتی ہیں۔ پارکوں کی شہر سے قربت کی وجہ سے۔ ٹورنٹو، الگونکوئن ملک کے سب سے مشہور پارکوں میں سے ایک ہے جو مختلف قسم کے جنگلی حیات اور کیمپ سائٹس کا گھر ہے۔
کینیڈا کے مختلف شہروں اور خطوں کے موسم کا انحصار اس موسمی حالات اور درجہ حرارت پر ہے جس پر وہ مقامات سال بھر تجربہ کرتے ہیں۔ ہر جگہ سردی اور برفباری سے دور ، کینیڈا کی آب و ہوا کا انحصار ملک میں پائے جانے والے مختلف متنوع مناظر پر ہے۔

وینکوور اور وکٹوریہ کا تجربہ جیسے شہر سمندری آب و ہوا جیسا کہ وہ بحیرہ روم کی سرحد سے ملتے ہیں اور اس طرح ملتے ہیں خشک گرمیاں. اوٹاوا ، مونٹریال اور ٹورنٹو کے پاس بھی ہے گرم گرمیاں اور وینکوور کی سردیوں کینیڈا کے دوسرے بڑے شہروں کے مقابلہ میں کافی ہلکی ہے۔
پہاڑی علاقوں جیسے برٹش کولمبیا مختلف پہاڑی شہروں میں درجہ حرارت اور آب و ہوا کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ مختلف اور مختلف بلندی والے علاقوں پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر ، وینکوور اور کملوپس کے گرم علاقوں کے ٹھیک آنے کے بعد ، جنوبی برٹش کولمبیا کے پہاڑی گزرگاہوں نے لوگوں کو حیرت سے حیرت میں ڈال دیا سبارکٹک یا سبپلائن آب و ہوا. تاہم، ساحلی برٹش کولمبیا موسلا دھار بارش لیکن درمیانی گرمیاں اور سردیوں کا موسم ہوتا ہے۔
اندرون علاقوں جیسے جنوبی اونٹاریو اور کیوبیک براعظم آب و ہوا کا تجربہ کرتے ہیں۔ گرمیاں گرم اور مرطوب ہیں اور سردی اور برف باری ہوتی ہے۔
وسطی کینیڈا اور شمالی کینیڈا، یقینا ، تجربہ اس میں ارکٹک اور سبارکٹک آب و ہوا ٹنڈرا خطوں کی طرح یہاں موسم کی صورتحال اکثر سخت رہتی ہے ، صرف ایک چھوٹا سا موسم گرما ، اسی وجہ سے یہ کینیڈا کے سب سے زیادہ گنجان آباد خطے نہیں ہیں۔
مختلف موسموں میں کینیڈا کا موسم
کینیڈا کے مختلف علاقوں میں کس طرح کے موسم کا سامنا ہے اس کا انحصار اس موسم پر بھی ہوتا ہے جو اس وقت ملک میں چل رہا ہے۔ کینیڈا میں موسم بہار ، موسم گرما ، خزاں اور موسم سرما کے چار بہتر تعی wellن مند موسم ہیں۔

کینیڈا میں موسم سرما
کینیڈا میں سردیاں ملک بھر میں سرد ہیں اگرچہ عرض البلد اور خطوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ وینکوور جیسے ساحلی شہروں میں ہلکی سردی ہے جبکہ درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک کہیں بھی حرارت صفر سے نیچے گرتا ہے. مونٹریال ، ٹورنٹو ، اور اوٹاوا جیسے فلیٹ لینڈز میں درجہ حرارت -20 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ گر جاتا ہے۔ یہ ہے تاہم ، کینیڈا کے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ چھلکنے والا اور سخت سردی ہے. کینیڈا میں سردیوں کا موسم دسمبر کے مہینوں سے لے کر فروری کے مہینے تک ہوتا ہے ، کبھی کبھی مارچ تک۔ اگر آپ کو سردی کے موسم پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور آپ سردیوں کے کھیلوں اور کینیڈا کے کئی موسم سرما کے تہواروں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو ، آپ نومبر کے آخر یا دسمبر کے آخر میں اس ملک کا دورہ کریں۔
کینیڈا میں بہار
کینیڈا میں موسم بہار مارچ سے مئی تک جاری رہتی ہے ، حالانکہ یہ فروری کے مہینے میں مغربی ساحلی علاقوں میں آتی ہے اور بہت سے دوسرے خطوں میں صرف اپریل کے بعد ہی یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ آخر کار ان مہینوں میں درجہ حرارت صفر سے بڑھ جانا شروع ہوتا ہے، جہاں تک  ۳۵ڈگری سینٹی گریڈ تک جا تا ہے۔ 
 - جو سیاح گرم موسم کے حامل علاقوں سے 
  آتے ہیں وہی لوگ خاص طور پر اسے محسوسا۔اللہ پاک و کریم نے

پیر، 19 ستمبر، 2022

مکھانے قدرت کا انمول تحفہ


/script>

 

 

قدرت نے انسان کے فائدے کے لئے ایسی ایسی چیزیں پیدا کی ہیں کہ انسان ان کے فوائد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا لیکن افسوس کہ انسان ان چیزوں کے فوائد سے ناواقف ہے۔ان میں سے ایک مکھانے بھی ہیں جنہیں پھول مکھانے بھی کہا جاتا ہے۔اسے انگریزی میں فوکس نٹ کہتے ہیں۔

مکھانے ایک پودے کے بیج ہیں۔اس کاپودا تالابوں میں پیداہوتاہے۔اس کے پھول اور پتے نیلوفر کے پھول اور پتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔اس کی جڑ چھوٹے چقندر کے برابر ہوتی ہے۔اس کا بیرونی چھال سیاہ اور کھردری ہوتی ہے۔اس کے جوف میں خانے ہوتے ہیں اور ہرایک خانے کے اندر سے سیاہ رنگ کے گول بیج نکلتے ہیں جن کا مغز سفید اور قدرے شیریں لیس دارہوتاہے۔خام ہونے کی حالت میں ان کا مغز نکال کر کھاتے ہیں اور خشک شدہ کو مرکبات میں شامل کرتے ہیں۔

مزاج سردتر ہے تازہ مکھانا مقوی بدن،مقوی باہ اورمولدمنی خیال کیاجاتاہے۔جبکہ خشک بھونے ہوئے مکھانے قابض اورغذائیت سے بھرپو رہوتے ہیں۔ مکھانے زیادہ تر مستورات کو بچے کی پیدائش کے بعدکمزوری کو دور کرنے کے لئے حلووں یا سفوف میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔

 مکھانے میں شامل کیمیائی اجزا:

پھول مکھانے میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کی وافر مقدارپائی جاتی ہے۔ان کے علاوہ اس میں دیگر فائدہ مند مرکبات ہوتے ہیں


ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ

جن لوگوں کو ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ ہے انہیں مکھانہ کا استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیئے۔ یہ نہ صرف انکے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ہڈیوں کو مضبوط بنائے

بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ اس میں کیلشیم کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔

جسمانی طاقت بحال کرے

مکھانا ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ کسی بھی وقت کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے ہم کو بہت سارے فوائد ملتے ہیں۔ اگر آپ روزانہ مکھانا کھائیں گے تو یہ بہت فائد ہ مند ہے۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔

جریان، ضعف باہ کا علاج

مکھانوں جریان،ضعف باہ اور رقت منی کے لئے سفوفات میں شامل کرتے ہیں۔ان کو کھانے کیلئے فرائینگ پین ہلکی آنچ پر رکھ کر چھوڑ دیجئے اور جب پین گرم ہوجائے تو پھول مکھانے اس پر ڈال کر ان کو پانچ منٹ تک پکاتے رہیں۔تیل وغیرہ کچھ بھی نہیں ڈالنا۔صرف پھول مکھانے کو روسٹ کرنا ہے اس دورا ن آپ نے چمچ کے ساتھ ان کو ہلاتے رہنا ہے تا کہ یہ ہر طرف سے پک جائیں۔ان کو روسٹ کرنے کے بعد آپ نے انہیں اتار لینا ہے۔ ایک برتن میں آپ نے ایک گلاس گرم دودھ لینا ہے اور اس میں پھول مکھانے شامل کر لینے ہیں۔ اور ان کو تقریبا دس منٹ تک رکھ کے چھوڑ دینا ہے تا کہ مکھانوں میں دودھ اچھی طرح سے جذب ہوجائے۔یہ لیجئے آپ کا یہ نسخہ تیارہوگیا۔اس کو آپ کھا لیں اور اگر ذائقے کے لئے آپ نے شہد شامل کرنا ہے تو آپ حسب ذائقہ شامل کرسکتے ہیں۔

یہ نسخہ ایسا قیمتی ہے کہ اس سے آپ کی ہر طرح کی کمزوری دورہوجائے گی۔آپ اپنے آپ کو تندرست اور توانا محسوس کریں گے۔ بدن میں موجود ہر طرح کے دردوغیرہ دور ہوجائییں گے۔ نہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی سستی۔

خواتین کیلئے تحفہ:

پھول مکھانے خواتین کے بعض دوسرے مسائل کا حل بھی ہے۔اس نسخے کو تیار کرنے کے لئے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا۔ لیکن آپ کے بہت سے مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔جن خواتین کو پرانی لیکوریا ہو کمر ٹانگوں اور پنڈلیوں میں ایسا درد ہو کہ درد کی گولیاں کھا کر عاجز آگئی ہوں۔ دوسری طرف بلڈ پریشر ہو۔گرم چیزیں نہ کھاسکتی ہوں اور تیسری طرف موٹاپا بہت زیادہ ہو۔ ایسی خواتین اس نسخے کا استعمال کریں۔حیران کن فائدہ ہوگا۔

اسی طرح وہ خواتین جو کمزور ہیں۔ جن میں خون کی کمی ہے۔ پٹھے اعصاب اور جسم دکھتا ہے۔ ہر وقت سانس پھولتا ہے۔طبیعت اکتاہٹ اور بیچینی کا شکار رہتی ہے۔ وہ بھی یہ نسخہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مہوروں کا مسئلہ،ڈسک پرابلم،اعصابی کھنچاؤ،اس نسخے کے سامنے ایسے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکل جائے۔

اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔

ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔ چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔

نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: پہلے اجزاء نوٹ فرمائیے،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔

باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔

واضح رہے کہ آخر میں تمام اجزاء کو جب بھونیں تو بالکل ہلکی آنچ ہو۔اور زیادہ دیر تک اس کو بھونیں جلے بھی ناں۔ اور اجزاء بھی خوب محفوظ رہیں۔یہ آپ کا نسخہ تیار ہے۔ اس کو صبح دوپہر شام یا پھر صبح شام دو دو چمچ استعمال کریں اور فوائد حاصل ہوگا


طب صادق- از حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام

head>


چھٹے امام  جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ انسان کی روح انسان  کے ظاہری حواس خمسہ کے طابع ہوتی ہے اور جب

 ہمارا جسم کسی بھی سبب سے بیمار ہوتا ہے تب انسان کو روحانی بیماریاں بھی لاحق ہو تی ہیں

اِس لئے کہ آدمی دو چیزوں ’روح اور جسم‘ سے مرکب ہے اور ہر ایک کی سلامتی اور بیماری ایک دوسرے پر اثر انداز

 ہوتی ہے لہذا اِنسان صحیح و سالم وہ ہے جو دونوں حیثیت سے سلامت ہو - مولا علیہ السّلام  فرماتے ہیں

 ا گر کوئی حقیقی معنوں میں طبیب حازق بننا چاہتا ہے تواُس کو جسم وروح دونوں کا طبیب ہونا چاہئے۔ یعنی رنج و غَم و اَندوہ

 روحانی کا بھی معالج ہو جس طرح عوارضات جسمانی کا جو طبیب روحانی علاج سے ناواقف ہے اگر وہ روحانی امراض ک

ا مُسہل سے علاج کرے گا تو ظاہر ہے کہ مریض کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یا مثلًا فِکر و خیال وناراحتی روح کی وجہ سے اگر کسی کو

 نیند نہیں آتی اور پریشان ہے تو اس کو خواب آور گولیاں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتیں بجز قدرے سُلا دینے کے۔اِسی

 طرح اگر بیخوابی اَمراض جسمانی کی وجہ سے ہے۔ تو روحانی علاج اور پند و نصائح مفید، اسکو کچھ بھی فائدہ نہ دیں گے۔

لہٰذا طبیب کامل اور حاذِق وہی ہو سکتا ہے۔ جو جسمانی اور روحانی تمام امراض اور انکے علاج سے واقف ہو اور ایسا طبیب

 سوائے برگزیدگانِ خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اِسلام میں روح وبدن اگرچہ دوجداگانہ چیزیں ہیں لیکن ایسے لازم و

 ملزوم ہیں کہ ایک کی سلامتی دوسرے کی سلامتی پر موقوف ہے۔ اسلام کے رہبروپیشواوٴں نے آپ کو طبیبِ روحانی کی

 صورت میں اگرچہ پیش کیا مگر وہ طبیبِ جسمانی بھی تھے۔ ان کے طبیبِ جسمانی ہونے کا ایک یہ نمونہ ہی ثبوت کے لئے

 کافی ہے کہ انھوں نے پاکیزگی و طہارتِ بدن کے لئے وضو۔غسل اور تیمّم مختلف نجاستوں س پاک ہونے کو لازمی قرار

 دیا۔ تاکہ اَعضاءِ ظاہری گرد و غبار سے آلودہ ہو کر مُضر صحت نہ بنیں۔

انبیاء جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے رہبر بن کر آئے۔ اُنکا اصلی مقصد صرف یہ تھا کہ انسان کو آموزگار اَخلاق و دِین بَن کر

 روحانیت کی اِرتقائی منازل طے کرائیں۔ کیونکہ انسان اگرچہ جسم و روح کا مرکب ہے لیکن درحقیقت اِنسانیت روح کا

 نام ہے اور جسم ایک آلہ رُوح ہے۔ انبیاء نے سلامتیِ بدن کی طرف توجہ صرف اس حد تک دی ہے کہ صحتِ جسم، صحتِ

 روح کا باعث بن کر روحانی منازل طے کر سکے۔ درحقیقت اَنبیاء اَطباء اَرواح و عقول ہیں کیونکہ عقل و دِل بھی جسم کی

 طرح ہوتے ہیں۔

پیغمبرِ اِسلام کا ارشادہے ۔ انّ ھٰذا القلوب تمل کم تمل الا بدان۔ یعنی یہ دِل بھی بدن کی طرح بیمار ہوتے ہیں۔علی ابن ابی

 طالب علیہ اسلام کا اِرشاد ہے۔ لہذا جس قدر جسم صحیح اور سالم تر ہو گا ’حواس خمسہ‘ بھی کامل تر ہوں گے اور اُن کے معلومات بھی زیادہ ہوں گے۔ ٍ جو پیغمبر علمِ طِب سے ناواقف ہے وہ تربیتِ روح کے فرائض بھی انجام نہیں دے سکتا اور جو کتاب صحتِ جسمانی کی ضامن نہیں وہ روح کی تربیت میں بھی قاصر رہے گی۔ خدا نے ہرگز ایسا پیغمبر اور ایسی کتاب

 نازل نہیں فرمائی ہے۔اِرشاد حضرت امام رضا علیہ السلام ہر درد کی شفا قرآن میں ہے ۔ قرآن سے شفا چاہو۔ جسکو قرآن

 سے شفا حاصل نہ ہو اُس کو کوئی چیز شفا نہیں دے سکتی۔ یہ بے شک خدا کی کتاب ’ہُدیٰ‘ ہے۔ یہ نسخہ نیا ہر مرض کی دوا

 ہے اِنسان اگر سوچے اور غور کرے تو اس میں روحانی نسخوں کے ساتھ ساتھ صحتِ جسمانی کی ضروریات وابسطہ نظر آتی

 ہیں جہاں نماز پڑھو، زکوة ادا کرو، کے شربتِ رُوحِ افراز کا ذِکر ہے وہاں نماز کی فضیلت میں یہ بھی حکم ہے کہ مساجد میں

 ادا کرو تاکہ ہر قدم پر روحانی اِرتقاء کے ساتھ جسمانی چہل قدمی بھی ہو کر معاون صحتِ جسمانی ہوتی رہے۔ مسجد میں

 حضورِ معبود نماز کی ادائیگی کے ساتھ جہاں روحانی قُربت حاصل ہو، وہاں قیام و رُکوع و سجود کے حکم سے ورزشِ جسمانی کی

 رعایت بھی نسخہ میں رکھ دی گئی۔

قرآن جہاں نیک اعمال اور مفید اَشیاء کا حکم دیتا ہے وہاں مضر افعال اور مضر اشیاء کو ممنوع قرار دے کر روح اور جسم دونوں کی

 صحت کا خیال رکھتا ہے۔ اگر صحت روح کے لئے نماز کا حکم دیا گیا ہے تو مضرِ صحت شراب سے بار بار منع فرمایا ہے۔ چناچہ سورہ

 مائدہ آیت نمبر۹۰،۹۱،اور سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۱۹، میں ارشاد ہوتا ہے’اے ایمان والوشراب، قمار اور مجسمہ وغیرہ شیطانی کاموں

 میں سے ہیں۔پس ان سے دور رہو۔ شاید نجات پالو۔ بیشک شیطان چاہتا ہے کہ شراب و قمار کے ذریعہ تم میں باہمی دشمنی

 کردے اور تم کو یادِ خدا اور نماز سے باز رکھے۔ کیا تم ایسے مرد ہو کہ ہَواوہَوس سے منہ موڑ کر پرہیز گار بن جاوٴ‘ سورہ بقر، آیت

 نمبر۲۱۶ میں ارشاد ہوتا ہے ٍ’یہ لوگ ’شراب و قمار ‘ کے بارے سوال کرتے ہیں تو کہ دو کہ دونوں میں بڑا نقصان اور فائدہ ہے مگر

 فائدہ سے کہیں زیادہ نقصان ہی‘ اَقِییْمُواالصَّلوٰةَ کے ساتھ لَا تَقْرَبُو االصَّلوٰةَ وَاَنْتُم سُکاَرَا۔

 بھی ہے.آج مدہوشان و مئے نوشانِ مغرب بھی چلا رہے ہیں کہ شراب کے وقتی اور تھوڑے سے فائدہ میں سینکڑوں رُوحانی اور

 جسمانی قابلِ نفرت مُہلک اَمراض پوشیدہ ہیں۔ یہ جہاں تھوڑی دیر کو خواب آور گولی کی طرح یاعمل جراحی میں جسم کو بے حِ

س کرکے سکون بخش نظر آتی ہے اور عقل و خِرد ، ہوش و حَواس کو زائل کر کے اِنسان کو حیوان بنا دیتی ہے، وہاں بے شمار اَمراض

 کا غمناک پیغام مَیخور کیواسطے اپنے ساتھ لاتی ہے۔ ضُعفِ باہ، ضُعفِ اعضاء، سِل، اَمراضِ سوداوی اور دِق وغیرہ کاواحد سبب یہی

 بادہء بدبخت ہے۔ یہی عقل وخِرد پر پردہ ڈالکر بیگانوں کو یگانہ اور اپنا ہمراز دِکھلا کر راز سر بستہ کو ظاہر کر دیتی ہے اور یگانوں کو بیگانہ

 دِکھلا کر باپ سے بیٹے کو کبھی قتل کرا دیتی ہے۔ بلکہ شرابی کے مضر اثرات نسلاً بعد نسلً اولاد کو وارثتاً پہونچتے ہیں۔ وسائل الشیع

 (جلد دوم) میں صادق اٰلِ محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی لڑکی شراب خور کو دی اُسنے قطعِ رحم

 کیا‘۔۔۔شاید مراد یہ ہے کہ اُس نے دُختر کی نسل ہی کو منقطع کر دیا۔ حلیةُ المتقین میں ہے کہ اپنی اولاد کے لئے شراب پینے والی

 اور سور کا گوشت کھانے والی دایہ مت مقرر کرو کہ اُسکا دودھ اُس بچہ میں یہی اَثر انداز ہو گا۔

 

اتوار، 18 ستمبر، 2022

آ سما ن علم کا در خشا ں ستا ر ہ “ابو علی الحسن بن الہیثم”

 

دنیا ۓ اسلا م  نے ا پنے دو ر عرو ج میں علم و حکمت  اورسائنس کے بڑے بڑے نا مو رستا رے پیدا کئے۔ ان  میں جابر بن

 حیان، کیمیا کا موجد ابن الہیشم، طبیعات کا موجد ابوتا ر الفیض، بصریات کا موجد عمر الخیام، الجبرا کا موجد اور دیگر بے شمار

 سائنسدان  ہیں

ان کا نام “ابو علی الحسن بن الہیثم” ہے، ابن الہیثم کے نام سے مشہور ہیں۔ ابن الہیشم (پیدائش: 965ء، وفات:

 1039ء) عراق کے تاریخی شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ وہ طبعیات، ریاضی، ہندسیات (انجنئرنگ) ،فلکیات اور علم

 الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔ ان کی وجہ شہرت آنکھوں اور روشنی کے متعلق تحقیقات ہيں۔میڈرڈ یونیورسٹی میں

 ریاضی کے پروفیسر ریکارڈو مورینو بتاتے ہیں کہ وہ ایک عظیم ریاضی دان تھے۔ ’وہ ان پہلے عربی ریاضی دانوں میں سے

 تھے جنھوں نے بڑے سوالوں کو حل کرنا سکھایا۔ انھوں نے ہندسوں کی مدد سے ایک تہائی سوالوں کے جواب دیے۔ یہ

 وہ سوال تھے جو ارشمیدس نے 1200 سے زیادہ سال قبل پوچھے تھے۔

الہیثم نے نمبر تھیوری کے شعبے میں کامل عدد جبکہ ہندسوں پر کافی اہم کام کیا۔ اور انھوں نے اقلیدس کے تھیورم کے

 مخصوص سوالوں پر تحقیق کی۔

ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں غالباً 354 ہجری اور وفات 430 ہجری کو ہوئی، وہ مصر چلے گئے تھے اور اپنی

 وفات تک وہیں رہے، بچپن ہی سے وہ غور و فکر کے عادی تھے۔ پڑھائی لکھائی میں خوب دلچسپی لیتے تھے۔ ریاضی

، طبیعیات، طب، اِلٰہیّات، منطق، شاعری، موسیقی اور علم الکلام اُن کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ابن الہیثم نے ان

 مضامین میں محنت کر کے مہارت حاصل کی۔

996ء میں وہ فاطمی خلافت مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف

 بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی قفطی کی “اخبار الحکماء” میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں

 :اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور کم ہونے کی تمام صورتوں میں فائدہ ہی ہوتا”

ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر

 کے حاکم الحاکم بامر اللہ الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول 

کرلی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا، ابن

الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے جہاں اس وقت “السد العالی” (السد العالی

 ڈیم) قائم ہے اور اس کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے زمانے کے امکانات کے حساب سے یہ کام نا

 ممکن ہے اور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کر دیا جسے وہ پورا نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ الحاکم بامر اللہ کے پاس

 جاکر معذرت کر لی اور اپنے گھر سے نکل کر جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی اور اپنی باقی زندگی کو

 تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کر دیا۔ ناکافی وسائل کی وجہ سے جس منصوبے کو اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا

 سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔

کارہائے نمایاں

ابن ابی اصیبعہ “عیون الانباء في طبقات الاطباء” میں کہتے ہیں : “ابن الہیثم فاضل النفس، عاقِل اور علوم کے فن کار

 تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنس دان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا، وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے

 تھے، وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے ”۔

نظریات

ابن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انھوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ریاضی کا سہارا لیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔

مسلمانوں نے علم کی ہر شاخ اور ہر فن میں نئی تحقیقات کا آغاز کیا ان کے کارنامے رہتی دنیا تک قائم رہیں گے اور ان کے مقابلے میں مغرب کے معاصر سائنسدان کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جدید سائنس کی بنیاد ہی مسلمان سائنس دانوں نے رکھی آج پھر سے ہمیں اسی دور کی طرح تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے تاکہ علم اور سائنس کے میدان میں ہم اپنا کھویا ہوا مقام پھر حاصل کر سکیں۔

جمعہ، 16 ستمبر، 2022

نیلامی کے بازا رمیں

 
کافی عرصے پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس میں مصر کے ایک گنجان آباد شہر میں لگنے والے بازار کے بارے میں پڑھا تھا جس کے لئے مہینے کا ایک خاص دن مقرّر کیا جاتا تھا اس دن صبح ،صبح شہر کے لوگ اپنے اپنے نوخیز جگر کے ٹکڑے لے لے آکر آتے اور ان کو بازار لگتے وقت شاہراہ کے دونوں جانب لے کر کھڑے ہوجاتے اور پھر خریدارو ں کا اژ دہام اس شاہراہ میں داخل ہوتا اور پسندیدہ بچّے کو بہ حیثیت زر خریدغلام لے کر اس کے وارث کو دام چکا کر اپنی راہ لیتا حضرت یوسف علیہ السّلا م بھی اسی بازار میں عزیز مصر کے ہاتھوں فرخت کئےگئے تھے۔  مجھے نہیں معلوم کہ اس دور میں ان فروخت شدہ غلامون کے ساتھ ان کے مالکان کیا سلوک کرتے ہو ں گے، اور پھرفروخت ہونے کے بعد ان معصوم بچّوں اور قدرے نو جوان لڑکوں کو واپس اپنے گھروں کی شکل دیکھنی نصیب نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ فروخت شدہ غلام اپنے زرخرید آقاؤں کے ہمراہ اکثر دور دراز کے ملکوں کو چلے جاتے تھے ،پھر ان کے آقا ہی ان کی موت و زیست کے مالک ہوتے تھے مجھےنہیں معلوم کہ وہ بد نصیب غلا م کتنے فیصد جیتے تھے اور کتنے ہی اپنے آقاؤں کے ہاتھوں آج کے پاکستان کے معصوم فروخت شدہ غلاموں کی طرح بچپن کی معصوم عمر کی کسی چھوٹی سی خطا یا بے خطا ہی بہیمانہ طریقے سے مار ڈالے جاتے ہون گے یا زمین کا گڑھا کھود کر زندہ دفن کردیے جاتے ہوں گے 

۔ اس معاملے میں پاکستان کے وہ عوام بڑے ہی کم نصیب ہیں جو علم کی روشنی سے محروم ہیں اور یہ محرومی جان بوجھ کر رکھّی گئ ہے تاکہ پاکستان کی اشرافیہ کو غلام ابن غلاموں کی کبھی تنگی کا سامنا نا کرنا پڑے ،بالخصوص صوبہ پنجاب کا سرائیکی پٹّی کا حصّہ ،ایک طرف تعلیم میں ان کی حصّے داری آٹے میں نمک کے برابر دوسری جانب ان کے اپنے گھروں مین یہ تصوّر کہ بچّے ان کی کما ئ کا زریعہ ہیں اس لئے جتنے بھی ہو جائین وہ اس کو رب کی رضا سمجھ کر خاموش رہتے ہیں اور بہت ننھّی ننھّی عمروں میں شہر کے امیروں کے پاس فرخت شدہ غلاموں کی طرح بھیج دئے جاتے ہیں (عام طور پر جو میں نے خود مشاہدہ کیا

 ان معصوم پھولوں کولڑکے اور لڑکی کی تخصیص کے بغیر چھ یا سات برس کی عمر میں اپنے گھر سے دور جانا ہوتا ہے )ان بچّوں کے عوض ان کے والدین کو ماہانہ ایک مخصوص رقم دی جاتی ہے یہ رقم بہت بڑی نہیں ہوتی ہئے بس دو ہزار یا ڈھائ ہزار اور اس رقم کے عوض وہ بچّے زندگی کی تمام رعنائیوں سے دور اپنے گھر والوں کے لئے دوزخ کا ایندھن بن کر کام کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی سہواً خطائیں ہوجانے پر بہیمانہ سزائیں جھیلتے ہیں ۔ اکثر یہ سزائیں ان کے لئے موت کا پروانہ بھی ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ ابھی حال ہی میں ایک دس برس کی ننھّی کلی ناصرہ کو اس کی مالکن نے کچھ پیسے چوری ہوجانے پر دودن تک کمرے میں بھوکا پیاسا باندھ کر رکھّا اور اتنا مارا کہ وہ ننھی کلی جان کی بازی ہار گئ مالکن گرفتار تو ہوئ ہے لیکن یہاں پیسہ بولتا ہے اس لئے یقین ہے کہ بہت جلد آزاد ہو گی۔ ناصرہ کی موت کے ساتھ ہی اگلے ہی دن کے اخبار میں کراچی کے پوش علاقے کی ایک اور دس برس کے معصوم بچّے کی شدید زخمی حالت میں تصویر منظر عام پر آگئ ،اس بچّے کو اس کے ڈاکٹر مالک نے اپنے بنگلے کی بالائ منزل سے پھینک کر سزا دی جس سے وہ بچّہ شدید زخمی ہوکر اب ہاسپٹل مین موت و زیست کی جنگ لڑ رہا ہے ،
کیا کوئ چارہ گر ہے ،کیا اس ظالم معاشرے کے لئےکیا کوئ مسیحا ہے .

 اس سے پہلے بھی تواتر کے ساتھ یہ تمام کہانیا ں دہرائ جاتی رہی ہیں ۔ اور ظالم بے حس عیّاش باشاہوں کی تسکین کی خاطر اونٹوں کی دوڑ میں شریک کرنے لئے غریب والدین ان کو خود سے فروخت کے لئے پیش کرتے تھے جہاں ان کو دن بحر میں انتہائ قلیل خوراک اور محدود پانی دیا جاتا تھا تاکہ اونٹ پر ان کا وزن کم سے کم ہو اور اونٹ تیز تر دوڑ کردوڑ کی بازی جیت سکے ان میں سے کئ بچّے اونٹوں کی دوڑ میں جان کی بازی بھی ہار گئے اور کئ بچّے تاعمر معذور ہو گئے ان کی عمریں چار سال سے شروع ہو کر بہت سے بہت آٹھ سال ہوتی تھیں،،وائے بد بخت انسانوں اب اس مکروہ اور ظالمانہ کھیل میں پاکستانی بچّوں کاجانا ممنوع ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گھروں میں نوعمر و نوخیز بچیّو ں کے ساتھ جنسی جرائم کا بھی ارتکاب کیاجاتا ہے۔ اب گھریلوملازمین کی ناگفتہ بہ صورتحال سے ہٹ کرزرا اپنے وطن میں چائلڈ لیبر انڈسٹری پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں۔ پاکستان کے اندرٹیکسٹائل ہوم انڈسٹری کا اور قالین بافی کی صنعت کا ایک مظبوط ستون چائلڈ لیبر ہے اور وہاں بھی یہی معصوم فرشتے ہزاروں کی تعداد میں کام کرتے نظر آتے ہیں،،سرمایہ دار مالکان ان کی یومیہ اجرت بھی بہت کم رکھتے ہیں، ان کے زخمی ہونے کی صورت میں کوئ علاج معالجہ بھی نہیں کیا جاتا ہے، ان دونون صنعتوں میں یہ بچّے انتہائ نا مساعد حالات میں انتہائ قلیل اجرت پراور کام کئے جاتے ہیں ،ان بچّوں میں سانس کی بیماریاں عام ہوتی ہیں،، اور ننھی ننھی عمروں میں آٹو ورکشاپس پر کام کرتے ہوئے ،،شام کو 
پھولوں کے ہار لے کر ایک ایک گاڑی والے کی خوشامد کرتے ہوئے سبزی بازار میں بھاری بوجھ اٹھاتے ہوئے یہ پاکستان کے ننھے پھول ہیں انکی آبیاری حکومت پر فرض ہے ,

,,,اسوقت حکومت کے لئے یہ چیلنج ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرانے کے لیئے فوری اورعملی اقدامات اٹھاتے ہوئے غریب گھرانوں کے بچوں کے لئے مفت تعلیم کے حصول کے لیئے سکولز کا قیام عمل میں لایا جائے،جہاں نہ صرف مفت تعلیم بلکہ ان بچوں کو ماہانہ وظا یف بھی دیئے جائیں تاکہ غربت کی زنجیروں میں جکڑے ان بچوں کے والدین انہیں تعلیم کے بجائے کام کاج پر مجبور نہ کریں،اور نئی نسل کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے۔ اگرحکومت مخلص ہوتو ان معصومون کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہے لیکن جہاں اپنا سرمایہ یور پ کے بنکوں میں رکھنے کی ہوس طاری ہو وہاں کوئ کچھ نہیں کر سکتا ہے اگر حکومت وقت چاہے تو سرمایہ دار مجبوراً کچھ ایسے اقدامات ضرور کر سکتے ہیں جن کے زریعے ان معصوموں کی لکھنے پڑھنے کی عمر میں محنت و مشقّت نا کرنی پڑے

 اس کے علاوہ ان محنت کش معصوم بچوں کے والدین کو روزگار دینے کا بندوبست خود حکومت کر ے۔ انٹر نیشنل لیبر آر گنائزیشن کا کہنا ہے کہ ( آئی ایل او) تمام دنیا میں اس وقت قریب قریب بیس لاکھ بچے انتہائی خطرناک صنعتی ماحول میں کام کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر چائلڈ لیبر فورس میں کمی جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں اضافہ ہوا جبکہ تمام دنیا میں بائس ہزار بچّے سالانہ دوران مشقت ہلاک ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی مشقت کے حوا لے سے جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل کے مطابق دنیا میں پانچ سے سے چودہ برس کی عمر کےسولہ کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول کے بجائے محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہیں اور سات کروڑ تیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جو دس برس سے کم عمر ہونے کے باو جود چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں۔ دنیا میں پانچ سے ستّرہ برس کی عمر کے کئ کروڑ بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کل چا ئلڈ فورس کا 93/ فیصد کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے ہے اور کان کنی جیسے سخت ترین پیشے سے بھی کئ لاکھ بچّے اپنا رزق حلال کما رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دنیا میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے اتنے سخت قوانین بنائے جایئں کہ کوئ سرمائہ دار ان معصومون کا جسمانی اور معاشی استحصال نا کر سکے ۔

بدھ، 14 ستمبر، 2022

علّا مہ طالب جوہری

 

  

علّا مہ طالب جوہری کو خراج عقیدت پیش کر نے کے لئے ایک پرانے شعر سے ابتدا کرتی ہوں

ہزاروں سال  نرکس   اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

-وہ زیب ممبر ہو کرچمن کی دیدہ وری کے آئے تھے

طالب جوہری 27 اگست 1939ء کو بھارت کی ریاست بہار

 کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم

 الخوئی کے زیر انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔

 اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے کچھ بڑے تھے۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے

علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ

 التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر

 مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔

علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی

 پیروی، اتباع سنت رسول اور حب اہل بیت ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے

 اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔

عقلیات معاصر  علّامہ طالب جوہری کیونکہ اکثر اپنے مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے

 کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔

علامہ طالب جوہری علومِ قرانی پر بہترین دسترس  رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز

 خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی

علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ

 التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر

 مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔

 اسّی کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔

شاعری کا آغاز انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے کیا  تھا، اب تک علامہ نے خاصی تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ

 نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر

 زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام

 حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ

 کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے۔

بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے

 چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے تھے

 ان کی پسندیدہ جگہ ا نکی لائبریری تھی جو ان کے گھر واقع انچولی سوسائٹی میں اوپر کی منزل پر تھی۔ لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ کی انگلیاں

 پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔ بقول محمد علی سید علامہ نے بلاشبہ ہزاروں

 مجالس پڑھیں مگر ہر مجلس کی تیاری وہ ایسے انہماک اور محنت سے کرتے گویا سپریم کورٹ میں آخری پیشی ہو۔

لباس میں ان کی وضع داری تادم حیات قائم رہی سفید پاجامہ سیاہ اچکن اور سر پر عمامہ

وہ نہائت نرم خو مزاج اور نکتہ سنج شخصیت کے مالک تھے وہ اپنی ایک ایک مجلس پر بہت توجّہ دیتے تھے انہوں قرانی اسلوب کو اپنی شبانہ روز زندگی  کا حصّہ بنا لیا تھا

اس کے بعد نو دس دن تک علامہ روزانہ کوئی ایک موضوع لے لیتے جیسے الحمد، رب العالمین، یوم الدین، نستعین وغیرہ۔ اور آدھا پونا گھنٹہ پرت در پرت سببِ

 نزول، ماخذ، تاریخی پس منظر اور منطق کے سہارے ایسے لے کر چلتے گویا بچے کو کہانی سنا رہے ہوں۔

عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس حضرت قاسم الخوئی، باقر الصدر اور دیگر علمائے عظام کے آگے زانو تہہ کرنے، عربی و فارسی پر عمومی دسترس اور عرب و

 عجم کی تاریخ فہمی کا فیض تھا کہ علامہ کی مذہبی و غیر مذہبی گفتگو ادق مسائل کا احاطہ ضرور کرتی تھی مگر ان کی اجتہادیت مشکل پسندی اور علمیت کے مصنوعی

 دبدبے سے بالکل آزاد تھی۔ اسی لیے عام آدمی بھی بلا امتیازِ مسلک و نظریہ بلا دھڑک ان کی جانب کھنچتا تھا اور پورا پورا ابلاغی لطف کشید کرتا تھا۔

علامہ طالب جوہری معروف خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے،آٹھ برس کی عمر سے آپ نے شاعری کا آغاز کیا تھا،علامہ طالب جوہر

 نے یادگار غزلیں،قصیدے،سلام،نظمیں اور رباعیات کہی، 1968میں آپ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ بھی کہا۔تصنیفات طالب جوہری

 مرحوم-تفسیر القرآن-احسن الحدیث (قرآنی تفسیر)مقاتل-حدیث کربلا-مذہب-ذکر معصوم-نظام حیاتِ انسانی-خلفائے اثناء عشر-علامات ظہور مہدی-فلسفہ:

علامہ طالب جوہری اکیاسی برس کی عمر میں اپنی  جان جان آفریں کے سپرد کر کے کُل کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را،  

 

 

:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر