پیر، 2 اگست، 2021

ڈھائ ہزار سال پہلے کا ایک جلیل القدر خط


یہ جلیل القدر قصّہ پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰے صلیّ اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی ولادت مبارک سے ایک ہزار چالیس برس قبل وقوع پذیر ہوا کیسے ہوا یہ پڑھئے-تُبَّع اول حِمْیَری، یمن کا عظیم الشان  بادشاہ تھا۔ وہ ایک زبر دست لشکر کا مالک تھا۔  اس کے پاس ایک لاکھ تینتیس ہزار گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ فوج تھی۔ اس کثیر لشکر کے ساتھ وہ جس ملک یا شہر پر چڑھائی کرتا، لوگ خوف زدہ ہو جاتے اور اطاعت میں سر خم کر دیتے۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتا، وہاں سے دس دانا آدمی منتخب کر کے بطور مشیر اپنے ساتھ رکھتا۔اس طرح اس کے پاس چار سو بہترین علمائے دین جمع ہو گئے تھے جن کے پاس کتب سماویہ کا علم تھا 

جب وہ ممالک کو زیرِ نگیں کرتا ہوا مکہ مکرمہ میں داخل  ہوا، تو اہلِ مکہ اس کے لاؤ لشکر کو دیکھ کر ذرا بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اس وقت اس کے پاس چار ہزار حکماء اور علماء بھی تھے۔ تُبَّع نے اپنے وزیر عَمارِیس کو بلا کر پوچھا کہ اہل مکہ کے دلوں پر اس لشکر جرار کا خوف کیوں نظر نہیں آ رہا؟

اس کے مشیر نے جواب دیا 'ائے بادشاہ اس شہر میں ایک گھر ہے جس کی زیارت کو تمام دنیا سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور جتنا تیرا لشکر ہے اتنے آدمی تو روز اس کا طواف کرتے ہیں بس اس بات نے تُبَّع الحمیری کو طیش دلا دیا اور اس نے کہا فوج کو تیّار ی کا حکم دیا جائے میں خانہ ء کعبہ کو نیست و نابود کر دوں گا  اور اس کے دّام کو غلام بنا وں گا اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ ککو ایسی بیماری لاحق ہوئ کہ وہ اس کا جسم اکڑ گیا اور جسم کے ہر حصّے سے بدبو دار پیپ کا اخراج ہو نے لگا 

جس کی شدت کے باعث کوئی شخص لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے پاس نہ ٹھہر سکتا۔ اس بیماری نے اس کی نیند چھین لی۔دربار کے تمام حکماء اور علماء کو بلایا گیا لیکن بیماری کی کوئ تشخیص نہیں کر سکا جو دوا دیتا بالاخر سب سے آخر میں عالم ربّانی کو بلایا گیا عالم ربّانی نے بادشاہ کو ایک نظر دیکھا اورکہا مرض زمینی نہیں آسمانی ہے جو بادشاہ کی کسی سنگین خطا کے سبب لاحق ہوا ہے عالم ربّانی نے اعتراف کیا کہ اس نے خانہء کعبہ اور خدّام کعبہ کے لئے بری نیت کی تھی-عالم ربّانی نے بادشاہ سے کہا اگر تو توبہ کر لے گا تو تجھے نجات مل جائے گی ورنہ موت تیرے سر پر کھڑی ہے

بادشاہ نے اسی وقت صدق دل سے تو بہ کی اور کہا کہ میں دل سے خانہ ء کعبہ کی تعظیم کروں گا اور خدّام کی خدمت بھی کروں گا ۔ ابھی وہ عالم ربّانی بادشاہ کے پاس سے ہٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بادشاہ کی تکلیف رفع ہو گئی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔پھر  اس نے خانہ کعبہ کے سات قیمتی غلاف تیار کروائے۔اور خدّام کعبہ کو سات 'سات جوڑے زربفت اور کمخواب کے دئے پھر وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یثرب کی جانب روانہ ہوا 

سر زمین ِیثرب ان دنوں ایک صحرا تھا ، جہاں صرف پانی کا ایک چشمہ تھا۔ اس کے علاوہ نہ کوئی عمارت تھی نہ کوئی پودا، نہ کوئی جاندار وہاں بستا تھا۔ تُبَّع نے چشمے کے پاس پڑاؤ ڈال دیا۔ وہاں لشکر کے سب علماء اور حکماء جمع ہوئے، جومختلف شہروں سے منتخب کر کے ہمراہ رکھے گئے تھے۔

ان میں وہ صاف باطن، دین الٰہی کا خیر خواہ، رئیس العلماء بھی تھا جس نے بادشاہ کو عظمت کعبہ سے رو شناس کروایا تھا اور اسے بلائے مرض سے نجات دلائی تھی۔ بادشاہ کے علمائے دین نے یثرب پہنچ کر ناجانے کیا محسوس کیا کہ زمین کی کنکریاں ہاتھ میں آٹھا کر سونگھیں اور پھر کہنے لگے اس شہر کی مٹّی  نبی آخر الزّماں کی خوشبو سے معمور اس لئے ہم   اب یہاں سے واپس نہیں جائیں گے، چاہے ہماری جان چلی جائے۔ وہ آ کر بادشاہ کے خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور کہا: ہم نے اپنے شہر چھوڑے اور مدتوں بادشاہ کے ساتھ رہے اور اس مقام تک پہنچے کہ یہاں موت نصیب ہو۔ اب ہم نے عہد کیا ہے کہ اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے بادشاہ ہمیں قتل کر دے یا جلا ڈالے۔

بادشاہ کا دل اب ہدائت یافتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے ان چار سو علمائے دین کے بہترین گھر بنوائے اور تمام گھروں کو ساز سامان سے آراستہ کیا اور پھر  لونڈیوں کو آزاد کر کے اپنے عالموں کے نکاح کرواتا گیا تاکہ جب نبئ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم دنیا میں تشریف لائِں تب مدینہ اُن کی پاکیزہ نسلوں سے معمور ہو اس کے بعد اس نے ایک متبرّک خط تحریر کیا جس کا متن یہ تھا - یہ خط تبّع الحمیری کی جانب سے نبئ آخرالزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی خدمت میں لکھا گیا 

”کمترین مخلوق تبع اول الحمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم -اما بعد:

اے اللہ کے حبیب!حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پرآ گیا  ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تومیری بڑی خوش نصیبی ہو گی لیکن  اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمائے گا  اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجئے، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔“

شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً عالم ربّانی کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک وہ دنیا نے وہ سنہری ساعتیں بھی دیکھیں جب  ایک ہزار چالیس برس گزر گئے ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور نبئ مکرّم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے مدینہ آنے پر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے خط پڑھا اور مسکرائے اور فرمایا -شاباش میرے بھائ

محفل در سمعان اور بایزید بسطامی

 

حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ  اللہ تعالٰی  کے ایک نیک اور حق پرست مسلمان گزرے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن سفر کرتے ہوئے استغراق اورغنودگی کے عالم میں چلا گیا ،ایسے میں میرے قلب پر الہام ہوا کہ ائےبا یزید درّ سمعان کی جانب چلے جاؤ اورعیسائیوں کے ساتھ انکی عید اور قربانی میں شریک ہو ، اس وقت وہاں تمھاری شرکت سے ایک شاندار واقعہ ظہور پزیر ہو گا ۔حضرت بایزید فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اپنے آپ کو ہوشیار کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ سے کہا کہ میں اب ایسا شیطانی وسوسہ اپنے دل میں نہیں آ نے دوں گا

 لیکن رات کو پھر مجھے الہامی آواز نے متنبہ کیا اور وہی کچھ دہرایا جو دن میں میرے عالم استغراق میں کہا گیا تھا اس آواز کے سننے کے بعد میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئ اور اور پھر میں نے بار بار اپنے دل سے پوچھا کہ اس حکم کی تعمیل کروں یا ناکروں میرے اس طرح سوچنے سے مجھے منجانب پروردگارعالم ایک ڈھارس سی بندھی اور ساتھ  یہ بھی الہام ہوا کہ مین راہبوں کے لباس و زنّار کے ساتھ شرکت کروں ۔چنانچہ میں نے عیسا ئیوں کی عید کے دن بحکم ربّ العالیمن راہبانہ لباس زیب تن کیا ساتھ ہی زنّار بھی پیوسطہ ء لباس کی اور انکی عید منانے کے مقدّس مذہبی مقام پر  پہنچ گیا

وہ تمام اپنی عید کا دن  ہونے کی مناسبت سے اپنی مقدّس محفل سجائے ہوئے بیٹھے تھے ،ان راہبوں میں دنیا کے مختلف ملکوں اور جگہوں کے راہب بھی تھے اور یہ سب کے سب اب راہب اعظم کے منتظر تھے ،میں چونکہ راہبانہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے مجھے کوئی بھی ایک علیحدہ شخصیت کے روپ میں پہچاننے سے قاصر تھا اب میں  بھی انہی کی محفل عید کا ہی حصّہ شمار ہو رہا تھا ،لوگ بہت مودّبانہ لیکن مدّھم آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام تھے اور پھر راہب اعظم کی آمد ہوئ اور تمام لوگ حدّ ادب سے بلکل خاموش ہو گئے،راہب اعظم  نے ممبرپر جاکر جونہی  بولنے کا ارادہ کیا ممبر ویسے ہی لرزنے لگا اورراہب کی قوّت گویائ سلب ہو گئی۔

راہب اعظم کو سننے کے لئے آئے ہوئے تمام راہب ,راہب اعظم کی کیفیت کی جانب متوجّہ ہوئے اور ایک راہب نے کہا اے ہمارے مقدّس اور  بزرگ پیشوا ہم تو بڑی دیر سے آپ کے حکیمانہ ارشادات سننے کے متمنّی ہیں اور آ پ خاموش ہو گئے ہیں تب جوا ب میں راہب اعظم کی قوّت گویائی واپس ہوئی اور اس نے کہا تمھارے درمیاں ایک محمّدی شخص تمھارے دین کی آزمائش کے لئے آ کر شامل ہوا ہئے

 راہب اعظم کے اس انکشاف سے تمام راہب طیش میں آگئے اور انہوں نے راہب اعظم سے کہا کہ ائے ہمارے محترم پیشوا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کر ڈالیں ،راہبوں کی بات سن کر راہب اعظم نے کہا نہیں ! دین عیسوی میں یہ بات جائز نہیں ہئے کہ کسی شخص کو بغیر کسی دلیل و حکائت کے قتل کر دیا جائے تم لوگ زرا توقّف کرو میں اس شخص کی خود آزمائش کر نا چاہتا ہون اگر وہ شخص میری آزما ئش میں ناکام ہوجا ئے تو یقیناً تم لوگ اسے قتل کر دینا ،راہب اعظم کی بات کے جواب میں تمام راہبو ں نے کہا اے ہمارے معزّز پیشوا ہم تو آپ کے ماتحت ہیں آپ جیسا کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے اور پھر وہ سب خاموش ہو کر راہب اعظم کے ا گلے اقدام کی جانب متو جّہ ہو گئے

  اس کے بعد راہب اعظم نے سر ممبر کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا اے محمّدی تجھے قسم ہئے محمّد (صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم )کی کہ تو جہاں ہئے وہیں کھڑا ہو جا ،راہب اعظم کی قسم کے جواب میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے نام  کی تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور راہب اعظم نے کہا اے محمّدی تم نے ہماری محفل میں شرکت کر کے ہمارے دین کو آزمانا چاہا ہئے اب میں تم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے میرے علم الادیان کے سوالوں کے جواب بطور آزمائش صحیح، صحیح دے دیئے تو تمھاری جان بخش دی جائے گی ورنہ تو تم واجب القتل ہی ہو گے۔ حضرت بایزید بسطامی نے تحمّل کے ساتھ جواب دیا اے محترم راہب اعظم آ پ سوال کیجئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا 

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئ دوسرا نا ہو 

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

عالم ہئے جس کا کوئ شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے 

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئ تیسرا نہیں ہئے 

با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے 

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئ چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں 

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں 

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں 

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہو

بایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا  

  اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہو

بایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دیا

(جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں ن ہو 

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17

  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو 

بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے 

 اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئ فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو 

بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہوہ

 راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو 

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ 

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو 

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے 

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4 

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دیا

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے

راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃ

 کیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2  راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

    راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں 

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں 

راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے 

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی 

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی 

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

 راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے 

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام 

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا 

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا 

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر

خرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111 

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں 

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں 

  راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے 

بایزید: بلبل کہتی ہئے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ 

راہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہئے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہئے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطال

راہب اعظم :مور کیا کہتا ہئے 

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ 

راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحل

راہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہئے 

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے 

 بایزید : لعن اللہ العشار

راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہئے 

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہئے اور پھر طلوع ہوتا ہئے

راہب اعظم : طامّہ کیا ہئے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے 

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے 

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں 

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے 

  بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ

   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئے

بایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے 

وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیا

بایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے 

راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?

بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں

راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیں

بایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیں

راہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہئے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہئے

بایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہئے جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے

- اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہئے

اور ان چاروں کا مرکز مغز ہئے جو کاسہء سر میں بند ہئے     

راہب اعظم :جب دن ہوتا ہئے تو رات کہاں چلی جاتی ہئے اور جب رات چلی آتی ہئے تو دن کہاں چلا جاتا ہئے

 بایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہئے 

راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کے ہیں اور تین پھول سائے میں ہیں

بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہئےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہئے 

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں 

   راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے 

بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن علیہ السّلام  اور امام حسین علیہ السّلام ہیں

اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا 

اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔


 

 


منگل، 20 جولائی، 2021

" بی بی پاکدامن "خواہرامام حسین علیہ السّلام

 


اہل بیت نبوّت کی قربانیوں کو اگر دیکھا جائے تو نا صرف پورے برّ صغیر میں بلکہ شائد دنیا کے کسی بھی حصّے میں کسی خاتو ن نے

بعد از شہادت اس طرح سے دین کی بقا کا چراغ نہیں جلایا ہوگا جس طرح سے بی بی پاک دامن نے اس وقت کے کافرانہ کدے   میں کبھی نا بجھنے والابقا ئے دین کا چراغ روشن کیا ۔بی بی پاک دامن

ہاں ! یہ وہی بت کدہ تھا جس کے آتش کدوں میں کبھی بھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی اور یہ وقت محمّد بن قا سم کےسندھ میں آمد سے کہیں پہلے کا تھااور یہ روشنی بی بی پا کدامن کے دامنِ پاک سے اس وقت طلوع ہوئ جب سفر کربلا کے دوران حضرت اما م حسین علیہ السّلام امام عالی مقام نے جناب مسلم بن عقیلکی شہادت کی خبر بہ رنج و ملال سنی تو،بی بی رقیّہ جو اب جناب مسلم بن عقیل کی بیوہ تھیں ان سے فرمایا ،بہن اب تم برصغیر چلی جاؤ ،اس وقت لاہور نام کا کوئی علاقہ موجود نہیں تھا ،بی بی رقیّہ نے پس وپیش کی کیونکہ وہ اپنے بھائ سےکسی طور پر جدا نہیں ہونا چاہتی تھیں ۔بہن کا تردّد دیکھ کر امام عالی مقام نے بی بی رقیّہ

 سےناجانے کیا رازونیاز کئے کہ وہ قافلہء کربلا سے جدا ہو کر برّصغیر کےلئے روانہ ہو گئیں اس طولانی سفر میں ان ک ک دو کمسن بیٹیا ں اور جناب حضرت مسلم بن عقیل کی دو کمسن بہنیں اور ایک کام کرنے والی خادمہ حلیمہ (المعروف مائ تنوری ،کیونکہ وہ تندور پر روٹیاں پکاتی تھیں) اور بروا ئتےتین  مرد حضرات بطور محافظ شامل تھے ،یہ غریب الوطن جنگل کے ایک ٹیلے پر قیام پذیر ہوئےاس وقت دریا ئے  راوی کے کنارے دور تک جنگل ہی جنگل پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے پر ایک ہندو راجہ مہا برن حکومت کرتا تھا اور اسکی راجدھانی میں بت پرستی کا رواج تھا

ان غریب الوطن اہلبیت کے افراد کو یہاں پہنچے ہوئے چندروز ہی گزرے تھے کہ راجہ کے محل میں اونچے چبوتروں پررکھّے ہوئے سنگی بت محل کے فرش پراوندھے منہ گر گئے اور راجہ کی راجدھانی کے آتش کدو ں میں جلنے والی صدیوں پرانی آگ خود بخود بجھ گئ ،اور اس منظر کو دیکھ کر راجہ کے حواس گم ہو گئے اوربستی کے اندر بھی کہرام مچ گیا کہ ان کے دیوتاؤں کا یہ حشر کیو ں کر ہو گیا ،راجہ نے فوراً محل میں نجومیوں اور جوتشیوں کو طلب کر کے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہو اہے نجومیوں اور جوتشیوں نے ستاروں کی چال سے حساب کر کے بتایا کہ ائے راجہ تیری راجدھانی میں کچھ پردیسی وارد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ حال ہواہے اور ستاروں کی چال بتارہی ہئے کہ بہت جلد تیر ی حکومت بھی سر نگوں ہوجائے گی ،نجو میوں کی بات سن کر راجہ نے فوراً ایک کماندار کو طلب کیا اور کہا کہ ابھی ابھی ان پردیسیوں کو ہمارے سامنے محل میں حاضر کیا جائے،،کماندار سپاہیوں کو لے کر گیا اور پورا شہر چھان مارا لیکن کہیں بھی کوئ نو وارد اجنبی انہیں نظر نہیں آیا ،لیکن جب وہ پردیسیوں کی تلاش میں جنگل کی جانب گئے تو وہاں انہوں نے  جنگل کی لکڑ یوں کے سہارے چادروں کے ایک خیمہ میں  اجنبیمسافردیکھے  ،،کماندار نے خیمے کے با ہر سے آواز دی کہ پردیسیوں ہمارے ساتھ چلو تمھیں ہمارا راجہ بلا تا ہئے ۔کماندار کی آواز سن کر بی بی رقیّہ خیمے کے در پر تشریف لایئں اورپردے کے پیچھے سے اس وقت کی مروّجہ زبان سنسکرت میں جواب دیا کہ ہم پردیسی ہیں اورکسی کو کوئ نقصان نہیں پہچانے آئے ہیں ہم کو ہمارے حا لپرچھوڑدیاجائے ،کماندار رحم دل انسان تھا اس پاکیزہ ہستی کا جواب سن کر واپس لوٹ گیا اور باشاہ سےکہا اے راجہ وہ لوگ یہاں آنے کو تیّارنہیں ہیں ،راجہ کو اس جواب کے سننےکے ساتھ ہی غصّہ آگیا اور اس نے اپنے بیٹے راج کمار کنور بکرما ساہری کو طلب کرکے کہا پردیسیوں کو ابھی ابھی ہمارے حضور حاضر کیا جائے نوجوان راج کمار نےاپنے زور با زو کی قوّت پر نازاں خیمے کے در پر آ کر حکم دیا کہ سب پردیسی خیمے سے باہر آکر اس کے ساتھ محل میں چلیں یہ راجہ کا حکم ہے راجکمار کی بات کے جواب میں پھر بی بی رقیّہ در خیمہ پر آئیں اور راج کمار سے کہا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے- ہم کو یہیں بیٹھا رہنے دیا جائے بی بی رقیّہ کی جانب سے انکار پر راج کمار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سارے پردیسیوںکو گرفتار کر لیا جائے اور جونہی سپاہی خیمے کی جانب جھپٹے ویسے ہی خیمے کے مقام پر زمین شق ہو گئ اورخیمہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر دور ہوا میں جا گرا اوراسی لمحےراج کمار نے چادروں میں لپٹی ہوئ بیبیوں کو شق زمین کے اندر تہہ زمین جاتےدیکھا ،،کیونکہ وہ بی بی رقیّہ سے مخاطب تھا اس لئے وہ بہ خوبی سمجھ گیا کہ کون سی بی بی پردے کی اوٹ میں اس سے قریب  اس سے مخاطب تھی جونہی یہ قافلہ ء اہلبیت نبوّت زمین کے اندر گیا اور زمین پھر جو کی توں برابر ہو گئ اوربراوئتے بی بی رقیؤہ کے دوپٹّے کا پلّو باہر رہ گیا ،اپنی آنکھو ں کے سامنے اس منظر نے راج کمار کو حوش و حواس سے بیگانہ کر دیا وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھ جوڑ کر وہ بی بی رقیہ کے دوپٹّے کے پلّو کے قریب بیٹھ  کر روتے ہوئے کہنے لگا بڑی بی بی مجھے معاف کر دیجئے-راجہ کے سپاہیوں نے اسے اپنے ساتھ لےجانا چاہا تو اس نے جانے سے انکار کر دیا , سپاہیوں نے محل میں واپس جاکر راجہ کو بتایا کہ سارے پردیسیوں کو زمین کھا گئ ہئے اور ولی عہد واپس آنے کو تیّار نہیں ہے تب راجہ خود بیٹے کو لینے آیا اور اس سے کہا کہ تم میرے ولی عہد شاہزادےہومیری تمام جائداد تمھاری ہئے لیکن راج کمار نے کہ دیا کہ اسے جائداد اور سلطنت کچھ بھی نہیں چاہئے بادشاہ نےاس کا جنو ن دیکھ کر جس جگہ وہ بیٹھتا تھا وہیں پر کئ میل کا علاقہ اس کے نام کر دیا اور ساتھ میں رہنے کے لئے ایک بڑی عمارت بھی بنا دی لیکن راج کمار اسی مقام پر دن کی دھوپ اور رات کے ہر موسم میں زمین پر ہی بیٹھا روتا  رہتا اور دونو ں ہاتھوں سے خاک اڑاتا اور وہی خاک سر پر بھی ڈال لیتا اور ساتھ میں کہتا 'یہ میں نے کیا کیا-جب اسکےپچھتاوے کا جنون عروج پر پہنچا تب ایک رات بی بی رقیّہ اس کے خواب میں تشریف لایئں اور اس سے کہا کہ وہ مسلمان ہو جائے،چنانچہ راج کمار راجدھانی کے اندر ایک مولانا سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیاور اب اس نا یا ۔ اب اس کا نام جمال دین رکھّا گیااس کے کچھ عرصے بعد پانچ ہزار افراد کا ایک ہندو قبیلہ اس جگہ سے گزر کر دوسری جگہ نقل مکانی کر رہا تھا کہ اس قبیلے کے سردار کی نظر ایک عبادت گزارنوجوان پر پڑی سردار اس نوجوان سے ملا اور پھر اس نے نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرلے نوجوان نے کہا کہ وہ اپنی بڑی بی بی سے

ہو گی  پوچھے بغیر کوئ کام نہیں کرتا ہے ،اس لئے اسے بڑی بی بی سے اجازت لینیاگر انہوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک ہے میں 

تمھاری بیٹی سے شادی کر لوں گا اور اگر منع کر دیا تو تم برا مت ماننا اور پھر جب جمال دین نے بی بی رقیّہ سےشادی کی اجازت 

طلب کی تو آ پ نے اسے شادی اجازت دیدی ،جمال دین لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا  اور جب شادی کی رات گزر کر صبح ہوئ تو لڑکی کی تمام معزوری  دو ر ہو چکی تھی ،لڑ کی کے باپ نے یہ معجزہ دیکھا اور اپنے قبیلے کے پورے پانچ ہزار افراد کے ساتھ اسلام لے آیا-


بدھ، 30 جون، 2021

عالم بے بدل علّامہ طالب جوہری

 

 

کچھ ہستیاں ہماری اس جیتی جاگتی دنیا میں ایسی بھی ہوتی جن کے لئے  دل چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے درمیان رہیں لیکن بہر حال موت ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے جو یہاں آیا اسے جانا لازم ہے ،علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اکیاسی برس کی عمر میں دار فانی سے دار بقا ء کی جانب کوچ کر گیا

ان کی عالمانہ زندگی کا کچھ مختصر احوال

فخر ملّت'سرمایہ ء قوم 'عالم بے بدل علّا مہ طالب جوہری 27 اگست 1939ء کو بھارت کی ریاست بہارکے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اس وقت کے دستور تعلیم کے مطابق  اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور اعلی مذہبی تعلیم کے لیے نجف اشرف عراق چلے گئے۔ وہاں آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی کے زیر انتظام حوزہ میں داخلہ لیا۔طالب جوہری آیت اللہ شہید باقر الصدر کے شاگرد رہے۔ وہ آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے ہم جماعت تھے۔ اگرچہ آیت اللہ سیستانی ان سے کچھ بڑے تھے۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی بھی نجف میں ان کے ہم درس رہے --ان روشن درس گاہوں میں علم دین کی شمع جلاتے ہوئے   آگے بڑھتے رہے

علامہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں

علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول اور حب اہل بیت ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔

عقلیات معاصرعلامہ طالب جوہری کیونکہ اکثر اپنے مداحوں میں گھرے رہتے تھے لہٰذا کبھی کبھار وہ ان معمولات کو توڑ کر لانگ ڈرائیو یا پرندوں کے مشاہدے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ کسی بھی دور دراز سڑک سے ہٹے ہوئے چارپائی ہوٹل پر بیٹھ کر بہت خوش ہوتے جہاں انھیں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔علامہ طالب جوہری علومِ قرانی پر بہترین دسترس  رکھتے ہی تھے مگر نہ خود زاہدِ خشک تھے نہ زاہدانِ خشک کی ہمراہی میں خوش رہتے تھے۔ان کی شرارت آمیز خوش دلی اور حسِ جمالیات ہمیشہ توانا و تر و تازہ رہی

علا مہ طالب جوہری کو نجف اشرف کے ممتاز عالم آیت اللہ سید عبداللہ  شیرازی،آیت اللہ سید علی رفانی،آیت اللہ سید محمد بغدادی،آیت اللہ باقر الصدر نے فارغ التحصیل ہونے کی سند دی،وہ 1965 کو کراچی واپس آئے،پانچ سال جامعہ امامیہ کے پرنسپل رہے،گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں اسلامیات کے لیکچرر مقرر ہوئے،انہیں حکومت نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا،انہوں نے تفسیر قرآن پر کئی کتابیں بھی تحریر کیں۔اسّی کے عشرے میں پی ٹی وی سے فہم القران کی طویل سیریز نشر ہوئی جس میں علامہ نہایت عام فہم اور زود ہضم انداز میں پیغامِ قران سمجھاتے تھے۔

شاعری کا آغاز انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے کیا  تھا، اب تک علامہ نے خاصی تعداد میں غزلیں، قصیدے، سلام، نظمیں اور رباعیات کہی، 1968 میں علامہ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ کہا،علامہ طالب جوہری اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔انہوں نے ہمیشہ نسلی اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ان کے خطبات کا موضوع احکام اللہ کی پیروی، اتباع سنت رسول ص اور حب اہلبیت ع ہوا کرتا تھا۔ انہیں شیعہ اور سُنی مسالک میں ایک جیسا باوقار مقام حاصل رہا ہر دو انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کی تقاریر و تحاریر سے استفادہ کرتے ہیں ۔سنی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد یہ علامہ کے انتقال کے وقت سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ وہ علامہ کو محرم میں سنا کرتے تھے

بین المسالک ہم آہنگی کی اگر بات کی جائے تو بلا شبہ علامہ طالب جوہری کا بیان ایک شیعہ عالم ہونے کے باوجود سرکاری ٹی وی چینل پر طویل عرصے تک اس لیے چلتا رہا کیونکہ انہوں نے مسلک کی بنیاد پر تفریق اور فرقہ واریت پھیلانے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ وہ بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار سمجھے جاتے تھے-وہ ایک عظیم سکالر تھے۔

 ان کی پسندیدہ جگہ ا نکی لائبریری تھی جو ان کے گھر واقع انچولی سوسائٹی میں اوپر کی منزل پر تھی۔ لائبریری کی ہزاروں کتابوں میں سے ہر کتاب علامہ کی انگلیاں پہچانتی تھیں چنانچہ انھیں کسی بھی ریفرینس کے لیے کوئی بھی کتاب نکالنے میں زیادہ سے زیادہ دو منٹ لگتے تھے۔

لباس میں وہ ہمیشہ سفید پاجامہ سیاہ اچکن پہنتے تھے جس کے ساتھ  سر پر عمامہ ہوتا تھا تھا 'یہی ان کی وضع داری کی علامت اور انکی عالی شان شخصیت کی پہچان تھی جو تادم حیات قائم رہی  -نرم خوئ اور نکتہ سنجی ان کے مزاج کا حصّہ تھی وہ اپنی ایک ایک مجلس پر بہت توجّہ دیتے تھے انہوں قرانی اسلوب کو اپنی شبانہ روز زندگی  کا حصّہ بنا لیا تھا  -

وہ صرف شعیوں کے نہیں پوری قوم کے مبلّغ تھے -نفیس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خطابت کے ماہر تھے۔ وہ علم حاصل کرنے کا ذریعہ تھےعلامہ طالب جوہر نے یادگار غزلیں،قصیدے،سلام،نظمیں اور رباعیات کہی، 1968میں آپ نے وجود باری کے عنوان سے پہلا مرثیہ بھی کہا۔

عراق میں لگ بھگ ابتدائی دس برس انہوں نے چوٹی کے علماء کی تدرس سے فیض حاصل کیا -، وہ ایسے  بحر العلو م کی مانند تھے جس سے ہر کوئ اپنے فائدے کا علم حاصل کرتا تھا-

اور یہ  بے پناہ مقبول عام ہستی ہمارے درمیان سے دار فانی سے دار بقا ءکی جانب کوچ کر گئ  - ان کی وفات سےعلم کا ایک زرّیں  باب ختم ہوا۔ 

خدا رحمت کند ایں عاقان پاک طینت را


جمعرات، 24 جون، 2021

ہم تو ڈوبے ہیں صنم

 

 

 

 

 

 

 

 

 


کراچی کا ساحل پورے پاکستان کے لوگوں کے لئے بہت پر کشش حیثیت رکھتا ہے اور تمام سال کراچی میں کسی بھی مقصد کے لئے آنے والے لوگ اس کے

 نظارے کے لئے جاتے ضرور ہیں ،بالخصوص نوجوان ،یہ کہانی ایک ایسے ہی نوجوان کی کہانی ہے جس کو کراچی کے ساحل دیکھنے کی آرزو کراچی لے آئی ۔ ویسے

 توہرسمجھدار ماں کی کو شش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کی فرماںبردار ہو،لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی کہیں نا کہیں  ماؤں سے قابل گرفت غلطیا ں ہو ہی

 جاتی ہیں یا ایسے نقصانات ہو جاتے ہیں جن کا زندگی کے آخری پل تک  مداوا نہیں ہو پاتا ہے،

کچھ برس پہلے کی بات ہے شائد پندرہ برس' کیونکہ میں اس وقت کراچی میں ہی تھی محلّے میں ایک طوفان سا اٹھا کہ کراچی کے کچھ نوجوان  کلفٹن پر ڈوب کر

 جاںبحق ہو گئے ہیں جن میں ہماری چیپل سن سٹی کا بھی ایک نوجوان شامل ہے ۔میں بھی سارے کام چھوڑ کر اس گھر کی جانب چل دی جہاں محلّے کی خواتین

 اکھٹّی ہو رہی تھیں،ماں کی حالت کیا تھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے،میّت مل چکی تھی لیکن آنے کا انتظار تھا ،اس بنا وقت اور اندوہنا ک موت کا سبب کیا ہوا

 اس کے بارے میں پتا چلا کہ پنجاب کے کسی شہر سے (میں شہر کا نام بھول گئ ہوں)نوجوان کا پھپھی زاد بھائ آیا اس نے اپنے کزن سے کہا کہ چلو کلفٹن  چلتے ہیں

 نوجوان نے کہا امّی نہیں جانے دیں گی پھپھی زاد نے کہا امّی سے کہنا قائداعظم کے مزار پر جائیں گے لیکن ہم جائیں گے کلفٹن نوجوان کو بھی کلفٹن جانے کی لالچ آئ اور پھر وہ کلفٹن آگئے ،پھپھی زاد نہانے پانی میں اتر گیا اور دوسرا کزن کلفٹن کی سنگی دیوار پر بیٹھ گیا

 کسی کو کیا معلوم تھا کہ اس شام سنگی دیوار پر جتنے نوجوان بیٹھےتھے سمندرکی صرف ایک بے رحم موج ان کو نگلنے کے لئے بے تاب ہے وہ سب سمندر میں

 نہانے والوں کودیکھتے ہوئے محو نظارہ تھے  کہ اچانک سمندر کے پانی میں جوار بھاٹا اٹھا دیوار پر بیٹھے ہوئے نوجوان اپنے دوستوں اور عزیزوں  کو پانی میں غرق

 ہوتے ، ڈوبتے دیکھ کر چیخنے لگے اور اسی لمحےجوار بھاٹے کی ایک اورلہر نے ان سب کو بھی سنگی دیوار سے یا تو نیچے پڑے پتّھروں پر پٹخ دیا یا اپنی بانہوں میں

 سمیٹ کر سمندر کی موت کے حوالے کر دیا ہمارے علاقے کے نوجوان کی موت سر پر پتھّر کی چوٹ کے باعث ہوئ جبکہ اس کے برابر میں بیٹھنے والے کئ

 نوجوان لہر کے ساتھ ہی بہہ گئے ۔

اس شام کراچی میں سوگ کا سماں تھا ،ان گنت نوجوانوں کے گھروں میں ان کے شام ڈھلے گھر آنے کا انتظار تھا کہ یا تو

 ایمبولینسز نے ان کی میّتیں ان کی دہلیزوں پر پہنچائیں یا پھر اپنے پیچھے اپنے پیاروں کوتمام عمرگھر کی دہلیزپرمحو

 انتظارکرکے ایک جاں گسل صدمے سے دوچار کر گئے

 میرے محلّے کے اس نوجوان کی موت کا اس کی امّی کو اس طرح پتا چلا کہ جب پنجاب سے بچّوں کی پھپھی کا فون آیا  کہ ابھی ابھی پاکستان ٹیلی وژن نے کراچی کے

 ساحل پرڈوبنے والوں کی خبر دی ہے کہ ساحل پر کئ میّتیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ کئ  سمندربرد بھی ہوئیں جن کی تلاش کا کام جاری ہے۔

 اب جو نوجوان کی ماں نے ٹی وی کھولا تو اس کو اپنے لخت جگر کی لاش نظر آئ اور پھر اس سے آگے کیا تھا قارئین اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں وہ ہونہار

 نوجوان جس نے میٹرک میں پوزیشن لی تھی جس کو اپنے ماں باپ کا سہارا بنناتھا وہ

محض زرا سی دل لگی کی خاطر موت کی آغوش میں جا سویا تھا اور اس کے اس پھپھی زاد کی تو میّت بھی سمندر نگل گیا جو اج تک بازیاب نہیں ہو سکی اور یہ واقعہ

 تومیرے اپنے گھر کا ہے ،میرے بڑے صاحبزادے  کلاس ہفتم میں اور چھوٹےکلاس شّشم میں پڑھ رہے تھے،ایسے میں میری سسرال سے ایک قریبی

 نوجوان کزن لاہور سے آئے  اور انہوں نے

 میرے بچّوں سے کہا کہ چلو میرے کزن کے گھر چلتے ہیں دراصل لاہور سے آئے مہمان  کا پروگرام بھی کراچی کا

 سمندر دیکھنے کا تھا انہوں نے سوچا کہ یوں تو مجھ سے اجازت ملے گی نہیں تو کزن کا بہانہ کر کے مجھ سے اجازت لی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ میرے  بچّوں لے کر کلفٹن چلے جائیں گے مجھے تو بس یہ معلوم تھا کہ کزن کے گھر گئے ہیں

اور ہوا یوں کہ کلفٹن پہنچ کر ان میں جو نوجوان سب سے بڑی عمرکا تھا اس نے میرے چھوٹے صاحبزادے کو اپنے بازؤوں

   میں اٹھا لیا اور وہ پرانا جہاز جو ریت میں دھنسنے کے باعث ساحل پرکھڑا تھا اس کے قریب یہ کہ کر لے جانے لگا کہ تم کو جہاز پر پھینک دوں گا-

میرے صاحبزادے بتا رہے تھے کہ میں نے سخت مزاحمت کی اور ان کے ہاتھوں کی گرفت سے اپنے آپ کو چھڑا لیا لیکن وہ جہاز کے اتنے قریب پہنچ چکے تھے کہ جب میں ان کے ہاتھوں سے نکلا تو پانی میرے گلے تک تھا۔

جب شام ہوئ اور میرے شوہر گھر آئے اور ان کو معلوم ہوا کہ بچّے میری اجازت سے اپنے کزن کے ساتھ گئے ہیں تو انہوں نے مجھے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ

 اس طرح اندھا اعتماد نقصان پہنچا سکتا ہے،پھر جب بچّے گھر واپس آئے اور انہوں نے پورا احوال سنایا تو مجھے خود بھی ہوش آیا کہ خالہ زاد ہوں یا پھوپھی زاد

 ہوں نو جوانی' نوجوانی ہوتی ہے اس لئے ان پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ آج بھی مجھے اس دن کا خیال آتا ہے تو ایک خوف کی لہر سی بدن میں گزر جاتی ہے

 کیونکہ جہاز جس جگہ کھڑا تھا وہاں سے ریت ہٹ گئ تھی اور ریت کی جگہ دلدل بن گئ تھی اب زرا سوچا جائے بظاہر نظر آنے والا پانی اپنے اندر دلدل لئے

 ہوئے تھا اور اس جگہ اکثر حادثات کی خبریں بھی آتی رہتی تھیں،اللہ پاک سب کی آل و اولاد کو اپنی امان میں رکھّے ۔ آمین

منگل، 15 جون، 2021

ایسے نا جانا دیس پرائے


ا بھی حال ہی میں انٹر نیٹ پر ایک  خبر پر ایک تحریر دیکھی جس میں ایک پاکستانی نوجوان' اپنے ترکی پہنچنے اور پھر ڈی پورٹ ہونے کی کہانی بتا رہا تھا کہ اب وہ ترکی جانے کے بجائے پاکستان  میں  

مر جانا پسند کرے گا وہ پاکستان سے ایک انسانی اسمگلر کے زریعہ یونان پہنچا اور وہاں سے ترکی 'لیکن ترکی کی چوکس سرحدی محافظوں کےہاتھوں پکڑا گیا اور ڈی پورٹ کر دیا گیا  یہ نیٹ ورک کیسے کام کر رہا ہے آئیے ایک جھلک دیکھتے ہیں

یونان میں انسانی اسمگلروں کا جو بائس رکنی گروہ پکڑا گیا ہے اس میں  چاراعلیٰ پولیس اہلکار بھی گینگ کا حصہ تھے اس بات کاانکشاف یونانی پولیس کے ترجمان خرستوس پارتھینس نے میڈیا بریفنگ کے دوران کیا۔یونانی پولیس کے ترجمان کے مطابق انسانی سمگلنگ میں ملوث گینگ کے بائیس ارکان کومختلف علاقہ جات سے حراست میں لیا گیا

گینگ کے سرکردہ پولیس اہلکاروں کاتعلق یونان کے علاقہ ایتھنز، ایورس،اورتھسلونیکی سے ہے جواپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ غیر قانونی تارکین وطن کوترکی سے یونان لانے میں معاونت فراہم کرتے تھے اوران کومحفوظ مقامات پرمنتقل کرکے بھاری رقوم حاصل کرتے تھے۔

 ان  چارپولیس اہلکاروں کے علاوہ چودہ کاتعلق جارجیا سے ہے جبکہ باقی یونانی شہری ہیں اوران کے مزید چھ ساتھیوں کی تلاش جاری ہے جوان کے گینگ کے لیے کام کرتے ہیں اوریہ تمام یونانی شہری ہیں۔

اس خبر کے تناظر میں ،میں نے آج کی دنیا میں انسانی اسمگلنگ کے وسیع وعریض کینوس پر پھیلے ہوئے اس انتہائ آزاد کاروبار کے چند حقائق لکھنے کے لئے ارادہ کیا اور یہ ہمارے پاکستان کی انسانی اسمگلنگ کی چند خبریں ہیں ، سیالکوٹ  وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے سے ڈان اخبار لکھتا ہے کہ  چند روز قبل گوادر کے ساحل پر بحیرہ عرب میں ایک تارکین وطن کو مسقط لے جانے والی  کشتی سمندر میں  الٹنے سے گیارہ پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہو گئے اس خبر کے منظر عام پر آنےکے بعد ایف آی اے نے پاکستان کے علاقے سیالکوٹ سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ پکڑا ہے

خبر کے منظرعام پر آ جانے کے بعد جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء نے حکومت سے  انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروا ئ کا مطالبہ کیا ہئے

چنانچہ ایف آئ اے کی کارّوائ کے مطابق کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئ ہیں ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسمگلروں کے گروہ  کے حاجی پورہ کے دفتر سے ان کے دو ساتھیوں یاسین اور طاہر عقیل اور سیالکوٹ کے مضافات سے سرغنہ محمد عارف کو گرفتار کر کے 17 پاسپورٹ اور ان کے قبضے سے مختلف لوگوں کی 22 شناختی کارڈ ز پربھی قبضہ کر لیا ہے.

انسانی اسمگلروں  کا مکروہ اور ناجائز دھندا کرکرنے والا یہ گروہ  پاسپورٹ پر لوگوں کی تصاویر کو تبدیل کرنے کے بعد  سادہ لوح بےروزگار نوجوانوں کو روزگار دینے کا جھانسا دیکراور لاکھوں روپے بٹور کر بیٹھا تھا .اس بد نصیب کشتی  کے ڈوبنے کےبعد صرف تین خوش قسمت نوجوان ہی بچائے جا سکے یہ تینوں  نوجوانوں پسرورتحصیل چونڈہ  ٹاؤن میں اپنے گھروں میں واپس  پہنچ گئےانہوں نے بتایا کہ انہوں نے مسقط جانے کے لئے فی کس چالیس ہزار روپئے ادا کئے تھے

اس مکروہ کاروبار کی ڈانڈیاں حکومت کے کارپردازوں کی ملی بھگت کے بغیر مضبوط ہو ہی نہیں سکتی ہیں ہر کچھ عرصے کے بعد تارکین وطن کے جاں بحق ہونے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور پھر حکومتی بیان آتا ہے اور پھر سب کھا پی کر سو جاتے ہیں

اسی طرح ایک  بحری جہازکے عملے کی ملی بھگت سے سولہ پاکستانی  ہم وطنوں کو باہر کی لالچ دے کربحری جہاز  پرسوار کروایا گیا اور پھر جہاز جب دور سمندر مین محو سفر ہوا تو ان بد نصیب مسافروں سے کہا گیا کہ اعلٰی  افسر راؤنڈ پر آرہا ہے تم سب پا نی کی ٹنکی میں چھپ جاؤ وہ سولہ کے سولہ پانی کی ٹنکی میں اتر گئے تو  پھر ٹنکی کا ڈھکنا لاک کر کے اس میں پانی چھوڑ دیا گیا اور سولہ گھروں کے چراغ اندھیری ٹنکی میں گل ہو گئے ،

یہ تو ابھی حال ہی کی بات ہے کہ کنٹینر میں دم گھٹ کر کتنے نوجوان ہلاک ہوئے جس کے لئے کہ دیا گیا کہ ایر کنڈیشنڈ نے کام چھوڑ دیا تھا

اقوام متحدّہ کے ترجمان کے مطابق ہتھیارون اور منشیات کی تجارت کے بعد تیسرے نمبر پر انسانی تجارت ہے-جبکہ زمینی حقائق کے علاوہ  سمندری سمگلنگ اپنے پورے عروج پر ہے اور  کم آمدنی والے ملکوں کے  لوگ بہتر طرز زندگی گزارنے کے لئے موت کی بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں

اس وقت تمام دنیا میں بے روزگاری عفریت کی شکل اختیار کر رہی ہے اور ایسے میں جہاں نوجوانوں کوجہاں سبز باغ دکھائے جارہے ہوں وہ سوچے بغیر ادھرچل پڑتے ہیں جبکہ ان کے لئے یہ سبز باغ ایک سراب ہی نہیں بلکہ موت کا کنواں ثابت ہوتے ہیں اس لئے چار پیسے کم ہی سہی اپنے وطن میں رہ کر کچھ ناکچھ کرنے کا حوصلہ کریں تو دنیا میں اس مکروہ کاروبار کی بنیاد کمزور ہو سکتی ہے

   یونان میں انسانی اسمگلروں کا  بائس رکنی گروہ پکڑا گیا ہے اس میں  چاراعلیٰ پولیس اہلکار بھی گینگ کا حصہ تھے

پیر، 14 جون، 2021

درد شقیقہ کیوں ہوتا ہے

 

درد کہیں بھی ہو 'کیسا ہو ؟بس ہر انسان کے لئے مشکل پیدا کرتا ہے لیکن ابھی ہم جس درد کی بات کرنے جا رہے ہیں وہ عام درد نہیں ہے 'اس درد کو درد شقیقہ کہتے ہیں

کیا آپ درد شقیقہ سے واقف ہیں ؟ یہ عام سردرد سے مختلف ہوتا ہے جس کے دوران سر کے کسی ایک حصے یا آدھے سر میں شدید درد ہوتا ہے اور آنکھیں شدید روشنی برداشت نہیں کر پاتیں ۔ بعض اوقات سردردکےساتھ قے بھی ہونے لگتی ہیں ۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں مناسب نیند نہ لینا  ، کھانے میں بے اعتدالی ،  شدید شور ،   زیادہ تر وقت تیز روشنی میں گزارنا اور کسی کھانے کی چیز سے الرجک ہونا وغیرہ شامل ہیں ۔ درد شقیقہ میں مبتلا مریض کو چاہیے کہ سب سے پہلے پرسکون ہونے کی کوشش کرے ۔ تمام روشنیاں بند کرکے اندھیرے میں لیٹ جائے اور آنکھوں پر پٹی باندھ لے ۔ بہتر یہ ہے کہ کسی دیوار کے پاس اس طرح لیٹیں کہ آپ اس دیوار پر ٹانگیں ٹکا کر اوپر لے جا سکیں ۔ کولہوں سے پاؤں کی ایڑی تک ٹانگیں دیوار کے ساتھ لگا لیں ۔  اپنے دونوں بازو اطراف میں ڈھیلے چھوڑ دیں ۔ اپنے دماغ کو بالکل خالی کرنے کی کوشش کریں اور ساتھ ساتھ گہرے سانس لیں ۔ ٹانگیں اوپر کی جانب کرنے سے دوران خون نیچے اور سر کی طرف آئے گا لہذا جتنی دیر باآسانی اس پوزیشن میں رک سکیں لیٹے رہیں ۔

 آپ خود محسوس کریں گے کہ آپ پہلے سے بہتر اور پرسکون ہوچکے ہیں ۔ درد شقیقہ کے دوران ایک بات کا خیال رکھیں

 کہ اپنا بلڈپریشر ضرور چیک کروائیں ۔ اگر آپ کا بلڈ پریشر ہائی رہتا ہے تو زیادہ دیر تک ٹانگیں اوپر کر کے نہ لیٹیں ۔ اس

 کے بجائے ایک گلاس پانی میں آدھا لیموں کا رس نچوڑ کر پی لیں ۔ اگر بلڈ پریشر کا مسئلہ نہ بھی ہو تو سر درد کے لئے یہ نسخہ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اس کو جدید ایلوپیتھی اصطلاح میں میگرین Migraine بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات  یہ پورے سر میں ہوتا ہے مگر آدھے سر میں کم اور آدھے میں زیادہ ہوتا ہے۔ میگرین شدید نوعیت کا درد ہے جو مریض کو کسی کام کاج کا نہیں چھوڑتا۔ بھنوؤں کے اوپر اور ملحقہ حصے کا درد بھی میگرین ہی کی ایک قسم ہے۔

آدھے سر کا درد خون کی شریانوں کے بڑھے اور اعصاب سے کیمیائی مادوں کی ان شریانوں میں ملنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے دورے کے دوران ہوتا  یہ ہے کہ کنپٹی  کے مقام پر جلد کے نیچے رگ پھول  جاتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں کچھ کیمیائی مادے پیدا ہوکر سوجن اور درد کے ذریعے رگ کو مزید پھلادیتے ہیں جس سے دفاع میں اعصابی نظام ، متلی ، پیٹ کی خرابی اور قے کا احساس پیدا کرتا ہے۔

علاوہ ازیں اس کی وجہ سے خوراک کے ہضم ہونے کا عمل بھی سست پڑجاتا ہے۔ دوران خون کے سست پڑنے سے ہاتھ اور پاؤں ٹھنڈے پڑسکتے ہیں اور  روشنی اور آواز کی حساسیت  میں اضافہ ہوسکتا ہے جسم کو ایک طرف کمزوری کا احساس بھی ہوسکتا ہے۔میگرین کی علامتوں میں سے ایک علامت  یہ بھی ہے کہ مریض کے سر کے پیچھے حصے میں درد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ پرانا بلڈپریشر بھی ہوتا ہے اور یہ سر کا درد دورہ دار ہوتا ہے جو بالعموم دائیں یا بائیں جانب نصف سر میں ہوا کرتا ہے یا پھر طلوع آفتاب کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب کے وقت ختم ہوجاتا ہے۔ کبھی سر شام شروع ہوکر رات پھر رہتا ہے اور صبح ٹھیک ہوجاتا ہے۔ دن کے دورے زیادہ تر پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک ضدی مرض ہے۔ اس کا علاج چالیس سال سے پہلے کروالینا چاہیے ۔  چالیس سال کے بعد  یہ بہت زیادہ زور پکڑلیتا ہے اور بہت ہی مشکل سے جاتا ہے۔

آدھے سر کے درد کے لیے ڈاکٹر طرز زندگی بدلنے کی تجاویز دیتے ہیں۔ یوں تو  میگرین  یعنی آدھے سر کے درد سے ہر دوسرا شخص متاثر ہوتا ہے۔تاہم بہت کم لوگوں  کو علم ہے کہ دراصل یہ درد ہوتا کیوں ہے۔آدھے سر کا درد  ہوا اور ساتھ ساتھ دوسری ذمہ داریاں ہوں جیسے گھر کے کام آفس کے کام  ہوں تو کچھ لوگ درد کو کم کرنے کے لیے بدحواسی میں دھڑا دھڑ درد کو کم کرنے والی گولیوں کا استعمال شروع کردیتے ہیں تاکہ جلد سے جلد اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکیں لیکن پریشانی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب بیک وقت درد کم کرنے والی دو یا دو سے زیادہ گولی کھانے پر بھی افاقہ نہ ہو۔

کسی بھی مسئلے کا حل اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک اس کی وجوہات کو نہ جان لیا جائے۔ طبی ماہرین کے مطابق آدھے سر کا درد اس وقت شروع ہوتا ہے جب دماغ میں غیر معمولی طور پر فعال خلیے  چہرے کے سہ شانی عصب   (trigeminal nerve) کو سگنل بھیج کر اس کو حرکت میں لاتے ہیں۔ نتیجتاً اس عصب کے فعال ہونے سے دماغ میں ایک خاص کیمیکل خارج ہونا شروع ہوجاتا ہے جس کو کیلسی ٹونن جین ریلیٹڈ پیٹائڈ calcitonin -gene related peptide

یا سی جی آر پی کہا جاتا ہے ۔ سی جی آر پی  دماغ کی شریانوں میں سوجن کا باعث بنتا ہے اور یوں مریض آدھے سر کے درد  میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

آدھے سر کے درد کا تعلق بنیادی طور پر اعصاب سے ہے جو کہ عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہوسکتا ہے یہ بچوں اور بڑوں دونوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم دیکھنے میں آیا ہے اس بیماری میں زیادہ تر خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ چوں کہ یہ ایک اعصابی بیماری ہے لہٰذا اکثر مریضوں کو ان کی علامات کی بنیاد پر اعصاب کو پرسکون کرنے والی دوائیں دی جاتی ہیں۔

یہ بیماری دماغ میں ایک کیمیکل کے خارج ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے تاہم عام طور پر ڈاکٹر اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ جیسے ذہنی دباؤ، ڈپریشن، بے سکونی، نیند کی کمی، کم بلڈ پریشر، نظر کی کمزوری، لینز پہننے سے آنکھوں  میں تھکن ، ذہنی تھکن، بعض پودوں سے الرجی اوربعض اوقات کیفین اور کھٹی خوراک اس کا باعث بن جاتی ہے۔ خواتین کی ماہواری کے دوران یا اس کے کچھ دن پہلے اکثر اوقات میگرین کا مسئلہ ہوجاتا ہے کیوں کہ اس کے دوران ہارمونل تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔یوں تو اس درد کو کم کرنے کے لیے بہت ساری ادویات ہیں مگر ان سے بھی ہر ایک کو فوراً فائدہ نہیں ہوتا  اور 48گھنٹے کے بعد یہ درد خود بخود  ختم ہوجاتا ہے


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر