یہ جلیل القدر قصّہ پیارے نبی حضرت محمّد مصطفٰے صلیّ اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی ولادت مبارک سے ایک ہزار چالیس برس قبل وقوع پذیر ہوا کیسے ہوا یہ پڑھئے-تُبَّع اول حِمْیَری، یمن کا عظیم الشان بادشاہ تھا۔ وہ ایک زبر دست لشکر کا مالک تھا۔ اس کے پاس ایک لاکھ تینتیس ہزار گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ فوج تھی۔ اس کثیر لشکر کے ساتھ وہ جس ملک یا شہر پر چڑھائی کرتا، لوگ خوف زدہ ہو جاتے اور اطاعت میں سر خم کر دیتے۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتا، وہاں سے دس دانا آدمی منتخب کر کے بطور مشیر اپنے ساتھ رکھتا۔اس طرح اس کے پاس چار سو بہترین علمائے دین جمع ہو گئے تھے جن کے پاس کتب سماویہ کا علم تھا
جب وہ ممالک کو زیرِ نگیں کرتا ہوا مکہ مکرمہ میں داخل ہوا، تو اہلِ مکہ اس کے لاؤ لشکر کو دیکھ کر ذرا بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اس وقت اس کے پاس چار ہزار حکماء اور علماء بھی تھے۔ تُبَّع نے اپنے وزیر عَمارِیس کو بلا کر پوچھا کہ اہل مکہ کے دلوں پر اس لشکر جرار کا خوف کیوں نظر نہیں آ رہا؟
اس کے مشیر نے جواب دیا 'ائے بادشاہ اس شہر میں ایک گھر ہے جس کی زیارت کو تمام دنیا سے لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور جتنا تیرا لشکر ہے اتنے آدمی تو روز اس کا طواف کرتے ہیں بس اس بات نے تُبَّع الحمیری کو طیش دلا دیا اور اس نے کہا فوج کو تیّار ی کا حکم دیا جائے میں خانہ ء کعبہ کو نیست و نابود کر دوں گا اور اس کے دّام کو غلام بنا وں گا اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ ککو ایسی بیماری لاحق ہوئ کہ وہ اس کا جسم اکڑ گیا اور جسم کے ہر حصّے سے بدبو دار پیپ کا اخراج ہو نے لگا
جس کی شدت کے باعث کوئی شخص لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے پاس نہ ٹھہر سکتا۔ اس بیماری نے اس کی نیند چھین لی۔دربار کے تمام حکماء اور علماء کو بلایا گیا لیکن بیماری کی کوئ تشخیص نہیں کر سکا جو دوا دیتا بالاخر سب سے آخر میں عالم ربّانی کو بلایا گیا عالم ربّانی نے بادشاہ کو ایک نظر دیکھا اورکہا مرض زمینی نہیں آسمانی ہے جو بادشاہ کی کسی سنگین خطا کے سبب لاحق ہوا ہے عالم ربّانی نے اعتراف کیا کہ اس نے خانہء کعبہ اور خدّام کعبہ کے لئے بری نیت کی تھی-عالم ربّانی نے بادشاہ سے کہا اگر تو توبہ کر لے گا تو تجھے نجات مل جائے گی ورنہ موت تیرے سر پر کھڑی ہے
بادشاہ نے اسی وقت صدق دل سے تو بہ کی اور کہا کہ میں دل سے خانہ ء کعبہ کی تعظیم کروں گا اور خدّام کی خدمت بھی کروں گا ۔ ابھی وہ عالم ربّانی بادشاہ کے پاس سے ہٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بادشاہ کی تکلیف رفع ہو گئی اور وہ صحت یاب ہو گیا۔پھر اس نے خانہ کعبہ کے سات قیمتی غلاف تیار کروائے۔اور خدّام کعبہ کو سات 'سات جوڑے زربفت اور کمخواب کے دئے پھر وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یثرب کی جانب روانہ ہوا
سر زمین ِیثرب ان دنوں ایک صحرا تھا ، جہاں صرف پانی کا ایک چشمہ تھا۔ اس کے علاوہ نہ کوئی عمارت تھی نہ کوئی پودا، نہ کوئی جاندار وہاں بستا تھا۔ تُبَّع نے چشمے کے پاس پڑاؤ ڈال دیا۔ وہاں لشکر کے سب علماء اور حکماء جمع ہوئے، جومختلف شہروں سے منتخب کر کے ہمراہ رکھے گئے تھے۔
ان میں وہ صاف باطن، دین الٰہی کا خیر خواہ، رئیس العلماء بھی تھا جس نے بادشاہ کو عظمت کعبہ سے رو شناس کروایا تھا اور اسے بلائے مرض سے نجات دلائی تھی۔ بادشاہ کے علمائے دین نے یثرب پہنچ کر ناجانے کیا محسوس کیا کہ زمین کی کنکریاں ہاتھ میں آٹھا کر سونگھیں اور پھر کہنے لگے اس شہر کی مٹّی نبی آخر الزّماں کی خوشبو سے معمور اس لئے ہم اب یہاں سے واپس نہیں جائیں گے، چاہے ہماری جان چلی جائے۔ وہ آ کر بادشاہ کے خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور کہا: ہم نے اپنے شہر چھوڑے اور مدتوں بادشاہ کے ساتھ رہے اور اس مقام تک پہنچے کہ یہاں موت نصیب ہو۔ اب ہم نے عہد کیا ہے کہ اس جگہ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے بادشاہ ہمیں قتل کر دے یا جلا ڈالے۔
بادشاہ کا دل اب ہدائت یافتہ ہو چکا تھا اس نے اپنے ان چار سو علمائے دین کے بہترین گھر بنوائے اور تمام گھروں کو ساز سامان سے آراستہ کیا اور پھر لونڈیوں کو آزاد کر کے اپنے عالموں کے نکاح کرواتا گیا تاکہ جب نبئ کریم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم دنیا میں تشریف لائِں تب مدینہ اُن کی پاکیزہ نسلوں سے معمور ہو اس کے بعد اس نے ایک متبرّک خط تحریر کیا جس کا متن یہ تھا - یہ خط تبّع الحمیری کی جانب سے نبئ آخرالزّماں صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی خدمت میں لکھا گیا
”کمترین مخلوق تبع اول الحمیری کی طرف سے شفیع المذنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم -اما بعد:
اے اللہ کے حبیب!حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پرآ گیا ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تومیری بڑی خوش نصیبی ہو گی لیکن اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمائے گا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کیجئے، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔“
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً عالم ربّانی کی نسلوں میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک وہ دنیا نے وہ سنہری ساعتیں بھی دیکھیں جب ایک ہزار چالیس برس گزر گئے ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور نبئ مکرّم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کے مدینہ آنے پر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے خط پڑھا اور مسکرائے اور فرمایا -شاباش میرے بھائ
مجھے اس مضمون میں بے انتہا کشش محسوس ہوئ کیونکہ یہ تمام واقعہ نبئ آخر الزّماں حضرت محمّد مصطفےٰ صلّیی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی ولادت مبار ک سے ایک ہزار چالیس برس قبل پیش آیا تھا
جواب دیںحذف کریں