اس --اللہ پاک قران پاک میں فر ما رہا ہے -تم میں سے کوئ نہیں جانتا ہے کہ کون کہاں مرےگا اور کون کہاں گڑے گا -قران کریم کی اس روشنی میں ہم برمودہ مثلث کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہاں قدرت کے کسی اسرار کے تھت بڑے بڑے دیو ہیکل جہاز اور بڑے بڑے طیارے غائب ہو جاتے ہیں اور پھر سمندر کی اتاہ گہرائیوں میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا ہے تو پھر وہ جاتے کہاں ہیں؟ اور ان میں موجود افراد کس جگہ جا کر دفن ہو جاتے ہیں -اس خطے میں بحری جہازوں کے غائب ہونے واقعات کی کہانیاں 19 ویں صدی کے وسط میں پھیلنا شروع ہوئیں جبکہ کچھ جہازوں کو مکمل طور پر خالی دریافت کیا گیا جس کی وجہ سامنے نہیں آسکی۔مگر اس کو شہرت دسمبر 1945 میں اس وقت ملی جب امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 جو کہ 5 یو تارپیڈو بمبارطیاروں پر مشتمل تھی، اٹلانٹک میں معمول کے مشن پر نکلی اور غائب ہوگئی، طیاروں کا ملبی یا عملےکے 14 ارکان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکا۔لوگوں کے تجسس میں مزید اس وقت اضافہ ہوا جب یہ رپورٹس سامنے آئی کہ اس فلائٹ مشن کو ڈھونڈنے والے طیاروں میں سے ایک بھی غائب ہوگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا بحریہ کا یو ایس ایس سائیکلوپ بھی اس خطے میں 1918 میں گم ہوگیا تھا جس کا سراغ نہیں ملا، مگر اس وقت لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، حالانکہ اس کے ساتھ 300 افراد بھی غائب ہوگئے تھے۔اس کے بعد مضامین اور کتابیں جیسے چارلس برلیٹز کی 1974 میں شائع کتاب دی برمودا ٹرائی اینگل نے اس خطے کو دنیا بھر میں شہرت دلا دی، اس کتاب کی 30 زبانوں میں 2 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں
سائنسدانوں نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں توہمات کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور بحری و فضائی جہازوں کے غائب ہونے پر مختلف خیالات پیش کیے۔مثال کے طور پر 2016 میں کولوراڈو یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں اس راز کو دریافت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس خطے کے اوپر پھیلے شش پہلو بادل ممکنہ طور پر بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کا باعث بنتے ہیں۔کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شش پہلو بادل 65 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں پیدا کرتے ہیں جو 'ہوائی بم' کی طرح کام کرتے ہوئے بحری جہازوں کو غرق اور طیاروں کو گرا دیتی ہیں۔سائنسدانوں نے ناسا کے سیٹلائیٹ کا استعمال کرتے ہوئے اس خطے کا ڈیٹا اکھٹا کیا اور شش پہلو بادلوں کو دریافت کیا جو کہ 32 اور 88 کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بادل انتہائی غیر معمولی ہیں ' آپ عام طور پر بادلوں کے ایسے کونے نہیں دیکھتے'۔انہوں نے مزید بتایا ' اس طرح کے بادل سمندر کے اوپر ہوائی بموں کی طرح کام کرتے ہیں، وہ ہوا کے دھماکے کرتے ہیں اور نیچے آکر سمندر سے ٹکرا کر ایسی لہریں پیدا کرتے ہیں جو کہ بہت زیادہ بلند ہوتی ہیں'۔اسی سال ناروے کی آرکٹک یونیورسٹی نے خیال پیش کیا تھا کہ سمندری تہہ میں موجود میتھین یا قدرتی گیس کی موجودگی اس معمے کے پیچھے ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس گیس کا اچانک اخراج جہازوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے باعث ہی طیارے اور جہاز غائب ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ گیس ہوا میں داخل ہوکر طوفانی کیفیت پیدا کرسکتی ہے جس سے طیارے گرجاتے ہیں۔دوسری جانب 2017 میں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان کارل کروزن لینسکی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سمندری خطے میں متعدد بحری جہازوں اور طیاروں کے بغیر کسی سراغ کے غائب ہونے کے پیچھے خلائی مخلق یا اٹلانٹس کے گمشدہ شہر کے فائر کرسٹلز کا ہاتھ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں گمشدگیاں ماورائی نہیں بلکہ خراب موسم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں اور اگر اوسط کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر جگہ اس طرح بحری اور ہوائی جہاز غائب اتنی تعداد میں ہی غائب ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمندری تکون 5 لاکھ اسکوائر میل رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہاں بہت زیادہ سمندری ٹریفک ہوتی ہے۔ان کے بقول جب آپ وہاں غائب ہونے والے جہازوں کی تعداد پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکالیں گے کہ دیگر سمندری خطوں کے مقابلے میں اس میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں۔اسٹریلین سائنسدان کے مطابق امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 کا واقعہ خراب موسم اور انسانی غلطی کے باعث پیش آیا تھا جس کا عملہ بھی نشے میں دھت تھا۔2018 میں برطانیہ کی ساﺅتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس سمندری تکون کا راز وہاں کی 100 فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔
تحقیقی ٹیم کا ماننا تھا کہ برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت طاقتور اور خطرناک تھی، جبکہ ان کی اونچائی 100 فٹ تک تھی۔اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا،542 فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا۔تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں 3 مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے، جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی۔مگر کسی بھی تحقیق میں اب تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر بادل یا لہر جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک غیرمصدقہ رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہوجاتے ہیں ان کی آباد کاری کی
برمودا بحر اوقیانوس
جواب دیںحذف کریں(Atlantic Ocean)
کے کل 300 جزیروں پر مشتمل علاقہ ہے.
جن میں اکثر غیرآباد ہیں.
صرف بیس جزیروں پر انسان آباد ہیں وہ بھی بہت کم تعداد میں.
جو علاقہ خطرناک سمجھا جاتا ہے اسکو برمودا تکوں کہتے ییں.
اس تکون کا کل رقبہ 1140000 مربع کلومیڑ ہے.
اسکا شمالی سراجزائر اور جنوب مشرق سراپورٹوریکو اور جنوب مغربی سرامیامی (فلوریڈا امریکی مشہورریاست)ہے.
یعنی اس کا تکون میامی (فلوریڈا)میں بنتا ہے.