ہفتہ، 8 مارچ، 2025

پاکستانی میڈیا انڈسٹری کی روح رواں سلطانہ صدیقی

 

جب سے دنیا وجود میں آئ ہے تب سے لے کر وہ آج تک ارتقا ئ مدارج طے کرتی چلی آئ ہے -انہی مدارج میں ایک درجہ یہ بھی ہے کہ  انسانوں کے اس بے کراں ہجوم میں کچھ لوگ صرف زندگی نہیں گزارتے وہ زندگی کی کہانیا ں  لکھتے ہیں ۔ایسی کہانیاں  جو لوگوں کے دلوں میں اور وقت کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتی ہے۔ سلطانہ صدیقی کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے ایک ایسی عورت جس نے  ادب کی دنیا میں  جھلمل کرتا خواب دیکھا اور پھر اسے خواب کو اپنے قلم سے تعبیر بھی دے  کر حقیقت میں بدلا۔  سلطانہ صدیقی ایسی ہستی جس نے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں نہ صرف اپنا مقام بنایا بلکہ اسے ایک نئی شناخت دی ۔ یہ 1974 کی بات ہے جب ایک باہمت خاتون نے پی ٹی وی کے دروازے پر دستک دی   ، آنکھوں میں ایک نئے سفر کی چمک اور دل میں کچھ انوکھا کرنے کی لگن لیے وہ اس میدان میں اتریں۔ پی ٹی وی میں ان کا پہلا تخلیقی کام بچوں کے پروگرام "رنگ برنگ" کی صورت میں سامنے آیا مگر یہ تو محض شروعات تھی۔ اصل معرکہ تب سر ہوا جب نوے کی دہائی میں  انہوں نے "ماروی" جیسا شاہکار تخلیق کیا

 یہ ڈرامہ نہ صرف فنی معراج کو چھوا بلکہ ثقافتی رنگوں میں لپٹا ایک امر داستان بن گیا۔سلطانہ صدیقی کے خواب صرف ایک ڈرامے یا ایک کامیابی تک محدود نہیں تھے۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستان میں ایسا پلیٹ فارم ہو جہاں کہانیاں سانس لے سکیں کردار بولیں اور  جذبات ایک تصویر میں ڈھلیں۔  ناظرین صرف ڈرامے دیکھیں نہیں بلکہ محسوس بھی کریں اور یہی خواب ہم ٹی وی کی صورت میں حقیقت میں ڈھل گیا ۔2004میں جب انہوں نے ہم ٹی وی کی بنیاد رکھی تو شاید کسی کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ چینل دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کی پہچان بن جائے گا۔"زندگی گلزار ہے" جیسے ڈرامے نے جہاں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو بین الاقوامی شناخت دی وہیں سلطانہ صدیقی کے وژن پر بھی مہر ثبت کر دی۔ فواد خان اور صنم سعید جیسے اداکاروں کو شہرت کی معراج بخشنے والا یہ ڈرامہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور دیگر ممالک میں بھی بے حد پسند کیا گیا۔ایک خواب پورا ہو جائے تو دوسرا خواب آنکھوں میں بس جاتا ہے۔


 سلطانہ صدیقی نے ہم ٹی وی کو محض ایک چینل نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک میڈیا ایمپائر میں تبدیل کر دیا۔ ان کی بہو مومنہ درید نے ایم ڈی پروڈکشن کی صورت میں اس سفر کو آگے بڑھایا اور ان کا بیٹا درید قریشی ہم ٹی وی کے انتظامی معاملات کو دیکھنے لگا۔ یوں ایک خواب نے حقیقت کی زمین پر جڑیں پکڑ لیں اور ایک خاندان نے مل کر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ۔ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے انہوں نے دبئی اور لندن میں ہم ایوارڈز کا انعقاد کیا۔ اس کا مقصد صرف ایوارڈ دینا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی کہانی کو دنیا کے سامنے رکھنا تھا اور یہ بتانا تھا کہ ہم بھی تخلیق کی دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے ایک اور شاندار پروجیکٹ "تن من نیل و نیل" پروڈیوس کیا جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوا۔ پاکستان کے ڈرامہ شائقین کو پی ٹی وی کا سنہرا دور یاد آیا ۔ سلطانہ صدیقی کی میڈیا انڈسٹری میں شاندار کاوشوں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا ہے  مگر اصل اعزاز وہ محبت اور عزت ہے جو انہیں عوام نے دی۔


سلطانہ صدیقی کی کہانی صرف ایک فرد کی کہانی نہیں، یہ جستجو کی کہانی ہے ایک خواب کے حقیقت بننے کی کہانی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر حوصلہ، ہنر اور ہمت ہو تو دنیا کی کوئی رکاوٹ راستہ نہیں روک سکتی۔سلطانہ صدیقی جنوبی ایشیا کی ایک تجربہ کار ٹیلی ویژن پروڈیوسر، جنہیں جنوبی ایشیا کی ایسی واحد خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو کئی ٹیلی ویژن چینلز کی مالک ہیں اور نہایت کامیابی سے اس شعبے میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ سلطانہ صدیقی حیدرآباد، سندھ میں پیدا ہوئیں۔ سلطانہ کا تعلق سندھ کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔ بے اے آنرز کے بعد ہی ان کی شادی ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ صدیقی نے عورت ہو کر عورت کو ایکسپو لائٹ کیا ہے۔ اِس سے پہلے عورتوں پر اِتنے بولڈ ڈرامے نہ تو لکھے گئے اور نہ بنائے گئے کہ جن سے عورت کا تقدس مجروح ہوا ہے۔تعلیم-حیدرآباد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سندھ یونیورسٹی سے انھوں نے علم نفسیات اور تقابلی مذاہب کے شعبے میں بی اے آنرز کیا۔مشاغل اور پیشہ- انھیں بچپن ہی سے کھیل کود، فنونِ لطیفہ و موسیقی اور تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا شوق تھا۔ انھوں نے اپنے شوق اور اپنے اندر پائی جانے والی صلاحیتوں کو کبھی دبایا نہیں، بلکہ انھیں اپنی تخلیقی قوت کے بھرپور اظہار کا ذریعہ بنایا۔


 انیس سو تہتر، چوہتر سے انھوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا۔1981ء سے لے کر 2008ء تک انھیں 15 مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ سلطانہ صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن پر بحثیت پروڈیسر اور ڈائریکٹر کام کرنا اس وقت شروع کیا، جب میڈیا میں بہت کم خواتین دیکھی جاتی تھیں۔ ان کا غیر معمولی شہرت حاصل کرنے والا ڈراما ’ماروی‘ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جس کے بعد سے انھوں نے بے شمار ڈرامے پیش کیے اور اُن کی ہدایات دیں۔ سلطانہ سماجی کاموں میں بھی پیش پیش نظر آتی ہیں۔ وہ ’فخر امداد فاؤنڈیشن ‘ نامی ایک این جی او کی ڈائریکٹر اور ایک مشہور پروڈکشن ہاؤس ’مومل‘ کی بانی بھی ہیں۔سندھ گریجوایٹس ایسوسی ایشن وومن ونگ، میڈیا وومن جرنلسٹس اینڈ پبلشرز آرگنائزیشن کی سربراہ ہیں۔ سندھ مدرستہ الاسلام کے بورڈ آف گورنر کی رکن ہیں۔ایوارڈز-صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی (2007ء۔2008ء) سمیت مزید چھ مختلف ایوارڈز حاصل کرچکی ہیں۔سی سی او سمٹ ایشیا 2013ء کی جانب سے حال ہی میں منعقدہ ایک اجلاس میں ہم نیٹ ورک لمیٹڈ کی صدر سلطانہ صدیقی کو اُن کی پیشہ ورانہ خدمات کے اعتراف میں ٹرافی پیش کی گئی۔اس کے ساتھ ہی انھیں ایک کتاب ”100بزنس لیڈرز آف پاکستان“ کا2013کا ایڈیشن بھی پیش کیا گیا جس میں ایسے 100 نمایاں صنعت کاروں کے پروفائل ہیں جنھوں نے پاکستانی صنعت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کتاب میں سلطانہ صدیقی کا پروفائل بھی شامل کیا گیا ہے۔یادش بخیر سلطانہ صدیقی کو یہ اہم ایوارڈ پہلی مرتبہ نہیں دیا گیاہے قبل ازیں انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا جاچکا ہے۔یہ تقریب منیجر ٹوڈے اور سی ای او کلب پاکستان کی جانب سے منعقد کی گئی تھی- وہ کہانیوں کی دنیا میں روشنی کا مینار ہیں اور جب تک کہانیاں لکھی جاتی رہیں گی سلطانہ صدیقی کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا رہے گا۔ 

جمعرات، 6 مارچ، 2025

علم کے شیدائ فرزند سندھ حسن علی آفندی

 

حسن علی آفندی (ولادت: 14 اگست 1830ء)  ہندوستان کے ایک نامور مسلم دانشور تھے۔ وہ حیدرآباد، سندھ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے مگر خود اپنی محنت سے تعلیم حاصل کرکے آگے بڑھتے گئے حتی کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم مکمل کر لی۔سندھ میں تعلیم کا سفر-حسن علی آفندی بھی سرسید کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے ایک پڑھی لکھی جدید علو م سے آراستہ  قوم کی ضرورت ہو گی ۔ اپنی سوچ اپنا مقصد لے کر وہ میدان عمل میں اتر پڑے -حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں کئی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسی دوران انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ تب انھوں نے ہندوستان کی قابل شخصیات اور مخیّر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا، بعد میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا


۔ حسن علی آفندی نے علی گڑھ کا سفر کرکے سر سید احمد خان سے ملاقات کی اور پھر علی گڑھ تحریک کی پیروی کرتے ہوئے سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے قائم کردہ سندھ مدرسہ بورڈ کے تحت سندھ مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی۔ اس ایسوسی ایشن کے قیام کا فیصلہ جسٹس امیر علی کے دورہ سندھ کے موقع پر کیا گیا تھا۔حسن علی آفندی نے  نوشہروفیروز میں ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں منشی گری سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی دوران انگریزی, سندھی, عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا،پھر وہ ایک کلرک کے طور پر کوٹری میں ایک اسٹیم کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ جس کے بعد عدالتی کلرک کے طور پر ملازم ہوئے اور ساتھ ہی قانون کی تعلیم مکمل کرکے وکالت شروع کردی ،   وہ سندھ کے پہلے مسلم وکیل تھے، جب کہ ہندو وکیل دیارام جیٹھ مل اور اودھا رام مول چند پہلے ہی وکالت کررہے تھے۔1881 میں حسن علی آفندی کراچی میونسپلٹی کے کونسلر منتخب ہوئے۔ تین چار سال کے عرصے میں ہی کراچی میں محمڈن ایسوسی ایشن کی شاخ قائم کی۔ سندھ مدرسہ بورڈ کے پہلے صدر حسن علی آفندی اور نائب صدر خان بہادر نجم الدین تھے جب کہ ارکان میں سیٹھ علی بھائی کریم جی, سیٹھ غلام حسین چھا گلہ, سیٹھ صالح محمد ڈوسل, غلام حسین خالق دینا وغیرہ شامل تھے۔1890 میں سندھ مدرسے کے دو شعبے تھے ایک انگریزی اور دوسرے کا تعلق مقامی زبانوں میں تعلیم سے تھا، جس میں سندھی, گجراتی اور اردو کی تعلیم چوتھی جماعت تک دی جاتی تھی ۔


گو کہ سندھ مدرسہ ہائی اسکول تھا لیکن پرائمری اور مڈل کے بعد بہت سے بچے تعلیم منقطع کردیتے تھے۔ لیکن  1900 تک مدرسے میں بچوں کی تعداد کوئی پانچ سو کے قریب تھی جن میں کراچی کے طلبا کی اکثریت تھی جو زیادہ تر مسلم تھے۔ ہندو طلبا دس فی صد سے بھی کم تھے۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا پورا نام سندھ مدرسۃسندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر مصطفیٰ جتوئی انڈپینڈنٹ اردو کو اس ادارے کی تاریخ کے حوالے سے بتایا: ’18ویں صدی میں اس خطے میں کوئی مشنری یا ماڈرن سکول نہیں تھا جو بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دے تو اس وقت خان بہادر حسن علی آفندی کو یہ خیال آیا کہ یہاں پر ایک ایسا سکول ہونا چاہیے۔ پھر اس وقت حسن علی آفندی نے لوکل گورنمنٹ سے یہ زمین لی اور یہاں پر یہ سندھ مدرستہ الاسلام سکول قائم کیا۔‘آج آفندی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے  کی آغوش سے نکلے ایس ایم لا کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔   حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برٹش گورنمنٹ  نے انھیں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ  میں بھی شامل  رہے اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی رہے۔ سنہ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ انھوں نے محمد علی جناح کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کو مسلمانوں میں متعارف کرانے کا کام کیا۔


 اس کے ساتھ انھوں نے مصر، فلسطین، شام، عراق، یمن، سعودی عرب اور امریکا کا دورہ بھی کیا    اس زمانے میں میٹرک کا امتحان بمبئی یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام ہوتا تھا۔ گجراتی پڑھنے والوں میں ہندو اور مسلم دونوں تھے جن میں خوجے, بوہرے اور میمن زیادہ تھے۔سندھ مدرستہ الاسلام سکول میں برطانوی دور کے انسپیکٹر جیکب سمیت کئی حکومتی ملازمین انگریزی زبان کی تعلیم دیتے تھے-ا س سکول میں سندھ کو بمبئی سے علیحدگی کی تحریک چلانے والے سر شاہ نواز بھٹو، غلام حسین ہدایت اللہ، سر عبداللہ ہارون سمیت کئی لیڈروں نے تعلیم حاصل کی۔اس کے علاوہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، ٹیسٹ کرکٹر محمد حنیف، سندھ کے مشہور سیاست دان رسول بخش پلیجو، ابراہیم جوئیو سمیت کئی اہم شخصیات نے یہاں پر اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اس ادارے کا دوسرا سفر 1943 میں شروع ہوا اور سکول کو کالج کا درجہ ملا اور قائداعظم محمد علی جناح نے خود اس کا افتتاح کیا۔قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زاتی جائداد میں سے جن اداروں کو حصہ دیا، ان میں سے ایک سندھ مدرستہ الاسلام بھی ہے۔پھر اس مدرسے نے  آہستہ آہستہ سکول سے کالج اور پھر فروری 2012 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، جس کا نام سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی رکھا گیا۔  ’18ویں صدی میں اس خطے میں کوئی مشنری یا ماڈرن سکول نہیں تھا جو بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دے تو اس وقت خان بہادر حسن علی آفندی کو یہ خیال آیا کہ یہاں پر ایک ایسا سکول ہونا چاہیے۔ پھر اس وقت حسن علی آفندی نے لوکل گورنمنٹ سے یہ زمین لی اور یہاں پر یہ سندھ مدرستہ الاسلام سکول قائم کیا۔


شروع میں جامعہ بنتے وقت اس میں پانچ شعبے تھے اور اب یہاں بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے 20 کے قریب مختلف شعبہ جات ہیں۔سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں ایک میوزم بھی قائم ہے جس میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال چیزیں اور قائداعظم محمد علی جناح کے داخلے کا رجسٹر بھی موجود ہے، جس میں ان کے اس سکول میں داخلہ لینے کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے سندھ مدرستہ الاسلام سکول میں ساڑھے چار سال کے عرصے تک تعلیم حاصل کی تھی۔اس کے علاوہ میوزم میں مختلف اہم شخصیات کی تصاویر وغیرہ بھی موجود ہیں، جنہوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی تھی۔  -اور 20 اگست 1895 ء  میں وہ اپنی مادر وطن کے فرزندوں کا حق  ادا کرتے ہوئے  خالق حقیقی سے جاملے ان کا نام فلاح و بہبود کے کاموں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں ان کی خدمات کی وجہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 

بدھ، 5 مارچ، 2025

بھگت سنگھ آزادی کا نغمہ گاتے ہوئے تختہءدار تک گئے

 


جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ، جن کی پھانسی کے بعد ورثا کو لاش نہ دی گئی-بھگت سنگھ کا گاؤں جس کے مکین آج بھی ان پر فخر کرتے ہیں بھگت سنگھ: سکنہ بنگا چک نمبر 105 ضلع لائلپور-انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر اسے اصلی حالت میں بحال کیا جا رہا ہے۔ ’سکھ یاتریوں کے لیے پونچھ ہاؤس میں نہ صرف سکھوں بلکہ پنجاب کے ہیرو بھگت سنگھ سے منسوب گیلری کا قیام ہو چکا ہے، جس میں انہیں دی گئی سزاؤں کے احکامات، تصاویر اور کتابیں رکھی گئی ہیں تاکہ نہ صرف سکھ یاتری بلکہ نوجوان بھی ماضی کے بے مثال مزاحمتی ہیرو کی زندگی کے بارے میں جانیں اور سیکھیں۔احسان بھٹہ کے بقول: ’ہم نے یہاں ان کی فیملی اور دو ساتھیوں کی تصاویر بھی لگائی ہیں، جب اسی جگہ پونچھ ہاؤس میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔’ان تینوں نے برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ سیاسی قیدیوں کی حیثیت کے پیش نظر انہیں عام مجرموں کی طرح پھانسی نہ دی جائے بلکہ گولی مار کر سزا دی  جائے، لیکن برطانوی حکومت نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ 


لاہور: بھگت سنگھ کو پھانسی سنائے جانے کے مقام پر یادگار گیلری قائم-حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور کے پونچھ ہاؤس میں گیلری قائم کرتے ہوئے بھگت سنگھ کو ’پنجاب کا ہیرو‘ قرار دیا گیا ہے۔پنجاب حکومت نے لاہور میں واقع پونچھ ہاؤس میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے معروف ہیرو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب ایک گیلری قائم کر دی ہے۔یہ وہی پونچھ ہاؤس ہے، جہاں 117 سال پہلے انہیں برطانوی سرکار نے پھانسی کی سزا سنائی تھی اور اب اسی گیلری میں ان سے جڑی یادوں پر مشتمل تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔حکومت پنجاب کی جانب سے لاہور میں گیلری قائم کرتے ہوئے بھگت سنگھ کو ’پنجاب کا ہیرو‘ قرار دیا گیا ہے۔سیکرٹری انڈسٹریز احسان بھٹہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’بھگت سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان سے جڑی ماضی کی تلخ یادوں کو آج کی نسل کے سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘پونچھ ہاؤس انگریز دور میں سرکاری دفاتر پر مشتمل مقام تھا، لیکن قیام پاکستان کے کچھ سالوں بعد یہ عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوتی گئی تھی۔


انگریز سرکاری نے انہیں اسمبلی میں دستی بم پھینکنے کے جرم میں سزائے موت سنائی اور 23 مارچ 1931کو انہیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔‘محکمہ انڈسٹریز کے ڈائریکٹر جنرل آصف علی فرخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پونچھ ہاؤس کی بحالی اور بھگت سنگھ گیلری کی تعمیر محکمہ انڈسٹریز اور محکمہ سیاحت کے تعاون سے کی گئی ہے۔ بھگت سنگھ جیسے جنگ آزادی کے ہیرو کی خدمات اور ان کی جدوجہد کو اجاگر کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ ہم نے مختصر وقت میں اس گیلری کو مکمل کیا تاکہ پنجاب کے اس روشن پہلو کو دنیا بھر میں اجاگر کیا جائے۔لاہور کا پونچھ ہاؤس جہاں 117 سال پہلے بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی بھگت سنگھ کی زندگی-پونچھ ہاؤس کے ریکارڈ کے مطابق بھگت سنگھ ہندوستان میں صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد (جس کا نام اس وقت لائل پور تھا) کے علاقے بنگا میں 28 ستمبر 1907کو ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔


 ان کا تعلق جٹ سندھو گھرانے سے تھا۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی اور 1921 میں میٹرک کے بعد نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔ جلیانوالہ قتل عام کے بعد 1927 میں انہوں نے نوجوان بھارت سبھا کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی اور پھر انقلاب کے لیے چلنے والی انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے سوشلسٹ نظریات کے ساتھ اپنی آواز بلند کرنا شروع کر دی۔ریکارڈ کے مطابق دہلی میں قانون ساز اسمبلی میں عین اس وقت جب کالونیلزم سے متعلق قانون پاس کرنے کے لیے اجلاس جاری تھا، بھگت سنگھ کو ساتھیوں سمیت دستی بم پھینکنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔


گرفتاری کے بعد انہیں مختلف جیلوں میں رکھا گیا  لیکن  بھگت سنگھ  نے  اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی اور  جیل میں کئی بار بھوک ہڑتال بھی کی۔اُن دنوں پونچھ ہاؤس میں برطانوی حکومت کی عدالتیں قائم تھیں۔ انہیں عدالت نے ساتھیوں سمیت سزائے موت سنائی۔ بالآخر پنجاب کے اس 24 سالہ سپوت کو ان کے دو ساتھیوں سمیت لاہور میں پھانسی دے دی گئی۔پھانسی   کے تختے تک جاتے ہوءے بھگت سنگھ   آزاد وطن کے  گیت  گا رہے تھے  - حالانکہ عام طور پر پھانسی کا وقت صبح سویرے ہوتا تھا لیکن انہیں شام کے وقت تختہ دار پر چڑھایا گیا۔

 


منگل، 4 مارچ، 2025

بیرون ملک پاکستانی قیدی توجہ چاہتے ہیں-

 

بیرون ملک پاکستانی قیدیوں پر حکومت توجہ دے -جسٹس پراجیکٹ پاکستان مختلف ملکوں میں قیدیوں کے جرائم، ان کی منتقلی کے معاہدے اور قونصلر تک رسائی نیز انہیں تحفظ فراہم کرنے جیسی تفصیلات کی بنیاد پر اعداد و شمار جمع کرتا ہے اور  پراجیکٹ  کی کوشش کرتی  ہے کہ قیدیوں کو جلد پاکستان لایا جا سکے'پاکستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتیں بھی اس بارے میں اعلانات کرتی رہی ہیں کہ بیرون ممالک قید پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم اس کے باوجود ان کی تعداد میں اضافہ ماہرین کے مطابق حکومتی اعلانات کی نفی کرتا ہے۔دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے وائس آف امریکہ کے سوال پر بتایا کہ پاکستان کے سفارت خانے بیرون ممالک قید ان پاکستانی قیدیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور انہیں قانونی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ دفتر خارجہ نے ان پاکستانیوں کو واپس لانے کی اپنی کوششوں سے پارلیمنٹ کو بھی آگاہ کیا ہے۔ممتاز زہرا نے کہا کہ   یقیناًًپردیس میں رہنے والے پردیسیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ اور بے شمار شکایات بھی ہیں۔


 اور  ان قیدیوں  کو بہت سے مسائل بھی درپیش۔ جن کے  پائیدار  حل کے لئے ہم کوشاں ہیں -ایک بہت ہی توجہ طلب بات یہ ہےبے شمار  لوگ جو ہیں وہ بے گناہ قید ہیں اور بہت سے تو ایسے ہیں کہ جن کی سزائیں بھی مکمل ہو چکی ہیں لیکن وہ تاحال قید میں ہیں کیونکہ  ان کے لئے رہائ تو کجا   کوئ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور رہائی نہ ملنے کی وجہ کے انکے کاغذات تاحال نامکمل ہیں جسکی بڑی وجہ جو ہے وہ ایک یہ بھی ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کاعملہ پاکستانی قیدیوں سے کسی قسم کا کو ئی رابطہ روا نہیں رکھتا۔ یاد  رہے کہ ہمارے وطن کے ممتاز لکھاری  ممتاز مفتی نے اپنی ایک تحریر میں پاکستان کے سفارتی عملے کی  نالائقی سے نالاں ہو کر ایک تحریر بھی لکھی تھی  جبکہ دوسری جانب  دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کا انکے ملک کے سفارتی عملے کی طرف سے بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ سفارتخانے کی طرف سے باقاعدگی سے خرچا بھی دیا جاتا ہے اور ان کی خوراک و دیگر سہولتوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے جبکہ پاکستانی سفارتی عملے کی طرف سے کوئی خاطر داری نہیں ہوتی انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ہمیں ملنے والے پاکستانی قیدی کے پیغام میں بیشمار گلے شکوے پاکستانی سفارت خانے کے عملے اور حکومت سے کئے گئے ہیں۔ جی ہاں پاکستانی قیدیوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاکستان جو ہے وہ ان کے مسائل کو نہ صرف سنے بلکہ ان کے حل کے لئے مناسب اقدامات بھی کرے۔


 تاہم ہمارے پاکستانی قیدی بھائی جو طویل عرصہ سے بے گناہ نہ صرف سعودی قید میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہیں ان کے حالات پر رحم کیا جائے اور ان کی رہائی کا بندوبست کیاجائے۔  یہ  شکایات ہمارے ان دوستوں کی جو دیار غیر میں مقید ہیں۔ بہر حال اب اخلاقی طور سے بھی اور انسانی ہمدردی کے ناطے  ہمارا فرض ہے کہ دیار غیر میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائیں۔تاہم دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے اہلکاروں کو چاہیے کہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو سمجھے اور جہاں تک ہوسکے ان کی پریشانیوں کو حل کرنے کی کوشش کرے۔بہر حال اب حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ از خود دنیا بھر کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کے کوائف حاصل کرے اور پاکستانیوں کی رہائی کے لئے بھی عالمی سطح پر آواز اٹھائے تاکہ دیار غیر میں قید پاکستانی بھائی بھی نہ صرف آزادی کا سورج دیکھ سکیں


  بے شمار پاکستانی   نوجوان     ہیں وہ غیرممالک کی جیلوں میں بھی قید ہیں۔  ایک  پاکستانی  نوجوان نے اس طرح    ایک  کہانی بتائ  ہے-جی ہاں دوستوہمیں بھی ہمارے ایک مہربان اور پیارے پاکستانی بھائی کا پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ وہ میرے محلے دار ہیں مجھ سے مل بھی چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی کسی نے انہیں بھی دھوکے سے پکڑوایا خیر ہمارے پاکستانی دوست جو کہ سعودی عرب جیل میں قید ہیں اور سعودی جیل سے ہی بذریعہ سوشل میڈیا اپنی آواز میں پیغام ہم تک پہنچا دیا۔  دیار غیر میں سعودی جیلوں میں قید بے شمار پاکستانی قیدیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے  پیغام میں بتایا کہ   کمیشن کومختلف ممالک میں قید پاکستانیوں کے اعدادوشمار اکھٹے کرنے کے علاوہ اُن کی رہائی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم ایسے قیدی جو دہشت گردی یا منشیات کی سمگلنگ میں قصوروار ٹھہرائے گئے ہیں اُن کے متعلق کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔


وزارت داخلہ کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں جوائنٹ سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ کمیٹی دنیا کی مختلف جیلوں میں قید اُن تمام پاکستانیوں کے کوائف اکھٹے کرنے کے علاوہ اُن کے خلاف درج کیے گئے مقدمات کا جائزہ لے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی ان مقدمات کا جائزہ لینے کے بعداس پرقانونی ماہرین سے رابطہ کرنے کے بعد اُن سے رائے لی جائے گی جس کے بعد مختلف ممالک میں سفارت خانوں کے متعلقہ حکام کوان افراد کے مقدمات کی پیروی کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جیلوں میں قید پاکستانیوں کے بارے میں معلومات وہاں پر موجود پاکستانی سفارت خانے کے عملے کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہیں۔بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی پاکستانی معمولی جرائم میں قید ہواور وہ کونسل کی خدمات چاہتا ہو تو پھر سفارتخانے کے اہلکار وہیں پرکسی وکیل کی خدمات حاصل کرکے اُن کی رہائی کےاقدامات کرتے ہیں۔‘


انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی پاکستانی منشیات، قتل اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو ایسے افراد کو قانونی امداد دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ زیاہ ممالک میں ان جرائم کی سزا موت ہے۔‘قیدیوں کے حالت زار کے بارے میں کام کرنے والی تنظیم گلوبل فاؤنڈیشن کےمطابق دنیا بھر کے اکیاون ممالک کی جیلوں میں7934 پاکستانی قیدی موجود ہیں جن میں درجنوں خواتین بھی پابند سلاسل ہیں۔ تنظیم کےاعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ تعداد سعودی جیلوں میں ہے جن کی تعداد 5237ہے دوسرے نمبر پر بھارت کی 31جیلوں میں472قیدی موجود ہیں جبکہ ماہی گیروں کی کثیر تعداد اس کے علاوہ ہے۔تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق صرف فیروز پور جیل میں35 پاکستانی سزائیں پوری کر لینے کے باوجوداذیت ناک حالات میں قید کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تھائی لینڈ کی دو جیلوں لارڈ یاؤ اور بنک کوانگ میں قید ہیں-میں نے یہ تحریر انٹر نیٹ سے لے کر تلخیص کی ہے

 

 


پیر، 3 مارچ، 2025

مانٹریا ل کینیڈا کا بہترین رہائشی شہر ہے

    اگر آپ  کینیڈا میں  مستقل رہائش  اختیار کرنا چاہتے ہیں تو مانٹریا ل  کینیڈا کے ان چنندہ شہروں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں بہترین زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اگرچہ اسے کینیڈا کے معاشی مرکز کی حیثیت حاصل تھی لیکن 1976 میں ٹورنٹو کی آبادی اور اس کی معاشی ترقی مانٹریال  سے آگے نکل گئی۔ آج بھی یہ شہر کامرس، ہوابازی، معیشت، ادویہ سازی، ٹیکنالوجی، ثقافت، سیاحت، فلم اور عالمی امور کے حوالے سے اہم مرکز شمار ہوتا ہے۔ مانٹریال  کو دنیا میں اپنی شبینہ زندگی کی وجہ سے چند گنے چنے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔2010 میں مانٹریال کو مرکزی شہر کی حیثیت سے کل 289 شہروں میں سے 34ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔ سالانہ اعشاریے میں ٹورنٹو کے بعد مانٹریال  کا نمبر آتا ہے۔ 2009 میں مانٹریال کو شمالی امریکا کا اول شہر قرار دیا گیا تھا ۔ مانٹریال کے مرکز میں میک گِل یونیورسٹی موجود ہے جو کینیڈا میں پہلے نمبر پر جبکہ دنیا بھر کی 20 بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔تاریخ-آثارِ قدیمہ کی تاریخ بتاتی  ہے کہ مانٹریال شہر  کی زمین  پر یورپی باشندوں  کی آمد سے کم از کم 2000 سال قبل تک یہاں مختلف مقامی خانہ بدوش قبائل آباد تھے۔


موسم-مانٹریال کی گرمیوں کا موسم گرم رہتا ہے تاہم اکثر حبس ہو جاتا ہے۔ اوسطاً زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 26 جبکہ اوسطاً کم سے کم درجہ حرارت 16 ڈگری رہتا ہے۔ اکثر اوقات درجہ حرارت 30 ڈگری سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ مانٹریال کی سردیاں زیادہ تر انتہائی سرد، برفانی، تیز ہوا کے ساتھ اور یخ بستہ ہوتی ہیں۔ سردیوں میں اوسطاً زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت منفی 5 جبکہ اوسطاً کم سے کم درجہ حرارت منفی 13 رہتا ہے۔ بعض اوقات سردیوں میں دن کے وقت درجہ حرارت صفر سے اوپر چلا جاتا ہے اور بارش بھی ہو سکتی ہے جبکہ دیگر اوقات منفی 20 سے بھی نیچے جا سکتا ہے۔بہار اور خزاں کے موسم بالعموم معتدل ہوتے ہیں تاہم موسم اچانک شدید ہو سکتا ہے۔ گرمیوں کی لہر نومبر میں جبکہ نومبر، مارچ اور اپریل میں برفانی طوفان بھی ممکن ہیں-سالانہ بارش کی مقدار 39 انچ جبکہ 86 انچ برف بھی شامل ہے۔ برفباری نومبر سے مارچ تک ہوتی ہے۔ بہار کے اواخر سے گرمیوں اور خزاں کے شروع تک طوفانِ باد و باراں آتے رہتے ہیں اور بہت زیادہ بارش ہوتی ہے۔ شہر میں سالانہ 2000 گھنٹے اوسطاً سورج نکلتا ہے۔


جہاں تک اس شہر کی قدیم تاریخ  ہے تو  1000 عیسوی میں یہاں مکئی کی کاشت شروع ہو گئی تھی۔ اگلی چند صدیوں کے دوران مضبوط  گاؤں بننا شروع ہو گئے تھے۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے مقامی قبائل کے یہاں اور دیگر جگہوں پر 14ویں صدی تک نشانات پائے ہیں۔ فرانسیسی مہم جو جیکوئس کارٹیئر جب 2 اکتوبر 1535 کو یہاں پہنچا تو اس نے یہاں موجود مقامی قبائلیوں کی تعداد کا اندازہ کم از کم 1000 لگایا۔70 سال بعد جب ایک اور فرانسیسی مہم جو سیموئل ڈی چیمپلین یہاں پہنچا تو اس نے ان قبائل کو یہاں سے بالکل ہی غائب پایا۔ اس کے مطابق اس انخلاء کی وجوہات میں   بیماریاں اور دیگر قبائل کے ساتھ جنگیں اہم تھیں۔ 1611 میں چیمپلین نے یہاں سمور کی تجارتی چوکی مانٹریال کے جزیرے پر بنائی۔ولے ماری جلد ہی سمور کی کھال کا اہم مرکز بن گیا اور یہاں سے شمالی امریکا کا راستہ کھل گیا۔ 1760 تک کینیڈا فرانس کی ماتحت آبادی رہا جس کے بعد سات سالہ جنگ میں برطانیہ کی فتح کے بعد یہ شہر برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ مانٹریال  کو 1832 میں شہر کا درجہ دیا گیا۔ لاچِن نہر کے بننے سے یہاں بحری جہاز آنے لگ گئے۔ وکٹوریا کے پل کے بننے سے ریل کا راستہ کھل گیا۔ 1860 تک برطانوی شمالی امریکا میں مانٹریال  سب سے بڑا شہر اور کینیڈا کا غیر متنازع معاشی اور ثقافتی مرکز بن چکا تھا۔مانٹریال    1849 تک کینیڈا کے صوبے کا دارلخلافہ رہا


  ۔ اس کے بعد اوٹاوا کو بوجہ کینیڈا کا دار الخلافہ بنا دیا گیا جو سرحد سے دور واقع تھا۔ بعد ازاں اوٹاوا کینیڈا کے آزاد ملک کا دارلحکومت بنا1951 تک شہر کی آبادی دس لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ سینٹ لارنس کے بحری راستے کے 1959 میں کھلنے کے بعد سے بحری جہاز مانٹریال  سے ہٹ کر براہ راست آنے جانے لگے۔ وقت ساتھ اس وجہ سے شہر کا معاشی غلبہ کمزور پڑتا گیا۔ تاہم 1960 کی دہائی میں صورت حال بہتر ہونے لگی اور ایکسپو 67، کینیڈا کی بلند ترین فلک بوس عمارات کی تعمیر، نئی ایکسپریس وے اور مانٹریال کے میٹرو کی تعمیر ہوئی۔1979کی دہائی میں وسیع پیمانے پر سماجی اور سیاسی تبدیلیاں واقع ہونے لگیں اور فرانسیسی بولنے والے کینیڈین باشندوں کو اپنی ثقافت اور اپنی زبان کے تحفظ کی فکر لاحق ہو گئی۔ اس وقت شہر کی اقلیتی انگریزی بولنے والی آبادی کاروباری سرگرمیوں پر چھائی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے پارٹی کیبویکوئس نے آزاد کیوبیک کی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں اکتوبر کا بحران پیدا ہوا۔ نتیجتاً بہت سارے کینیڈا کے اعداد و شمار کے محکمے کے مطابق 2006 کی مردم شماری میں مانٹریال کی کُل آبادی 1620693 نفوس پر مشتمل تھی۔ یورپی النسل افراد آبادی کی اکثریت ہیں جن میں سے فرانسیسی، برطانوی، آئرش اور اطالوی اہم ہیں۔ اقلیتوں میں سیاہ فام، مراکشی، لاطینی امریکی، جنوب ایشیائی اور چینی اہم ہیں۔فرانسیسی کو سب سے زیادہ افراد مادری زبان گردانتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر انگریزی اور اس کے بعد اطالوی، عربی، ہسپانوی، کریول، چینی، یونانی، پرتگالی، رومانی، ویتنامی اور روسی زبانیں آتی ہیں۔ آبادی کی اکثریت فرانسیسی اور انگریزی دونوں ہی کسی نہ کسی حد تک جانتی ہے۔رومن کاتھولک اکثریتی مذہب ہے تاہم چرچ جانے والے افراد کی ہفتہ وار اوسط کینیڈا بھر میں سب سے کم ہے۔ 84 فیصد سے زیادہ افراد رومن کاتھولک ہیں۔ دیگر اہم غیر مسیحی مذاہب میں اسلام سب سے بڑا مذہب ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد کینیڈا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد یہودی مذہب کی آبادی تقریباً 93000 ہےکاروباری افراد شہر سے اپنے کاروبار کو منتقل کرنے لگے۔ 1976 میں مانٹریال میں گرمائی اولمپک کھیل منعقد ہوئے۔


مانٹریال  کی بندرگاہ دنیا میں سب سے بڑی بحری بندرگاہ ہے۔ یہاں سالانہ 2 کروڑ 60 لاکھ ٹن کارگو/سامان منتقل ہوتا ہے۔ غلہ، چینی، پیٹرولیم کی مصنوعات، مشینری اور عام استعمال کی اشیاء یہاں سے منتقل ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے مانٹریال ریلوے کا بھی اہم مرکز ہے۔ کینیڈین نیشنل ریلوے کا صدر دفتر یہاں قائم ہے اور کینیڈین پیسیفک ریلوے کا صدر دفتر بھی 1995 تک یہاں موجود تھا۔کینیڈا کے خلائی ادارے کا صدر دفتر بھی یہاں موجود ہے۔ اس کے علاوہ مانٹریال(موں غیال) میں بین الاقوامی ہوابازی کے ادارے کا صدر دفتر موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایاٹا، اینٹی ڈوپنگ ادارہ اور دیگر بے شمار اہم بین الاقوامی ادارے بھی یہاں قائم ہیں۔ مانٹریال(موں غیال) فلم اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کی تیاری کا مرکز بھی ہے۔ الائنس فلم اور نیشنل فلم بورڈ آف کینیڈا اور ٹیلی فلم کینیڈا کے صدر دفاتر بھی یہاں واقع ہیں۔وڈیو گیم کی صنعت بھی 1997 سے مانٹریال میں اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں یہاں اوبی سافٹ مانٹریال، ای اے، ایڈوس انٹرایکٹو، آرٹیفیشل مائنڈ اینڈ موومنٹ، سٹریٹیجی فرسٹ، ٹی ایچ کیو وغیرہ کے دفاتر بھی یہاں قائم ہوئے ہیں۔مانٹریال  فنانس انڈسٹری میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بینک آف مانٹریال اور رائل بینک آف کینیڈا کے قانونی صدر دفاتر یہاں قائم ہیں۔ یہ دونوں بینک کینیڈا کے پانچ بڑے بینکوں میں شامل ہیں۔گریٹر مانٹریال کی جی ڈی پی 2005 میں 120 ارب ڈالر تھی جو دنیا بھر میں 39ویں نمبر پر تھی۔ اندازہ ہے کہ 2012 تک یہ 140 ارب تک پہنچ جائے گی۔مانٹریال کی تیل کی صفائی کا مرکز کینیڈا بھر میں سب سے بڑا ہے اور پیٹرو کینیڈا، الٹرامر، گلف آئل، پیٹرمونٹ، ایش لینڈ کینیڈا، پراچیم پیٹرو کیمیکل، کوسٹل پیٹرو کیمیکل، وغیرہ کے لیے تیل یہاں صاف کیا جاتا ہے۔ تاہم 2010 میں شیل نے اس پلانٹ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور سینکڑوں افراد بے روزگار ہو گئے۔ مشرقی کینیڈا کے لیے تیل مہیا کرنے کے لیے دوسرے ملکوں کی ریفائنریوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔حکومت-مانٹریال میں شہری حکومت کا سربراہ میئر ہوتا ہے۔ سٹی کونسل کو عوام براہِ راست منتخب کرتے ہیں۔ کونسل کے کل 73 اراکین ہوتے ہیں۔جو تمام امور مملکت چلاتے ہیں 

 

اتوار، 2 مارچ، 2025

سندھ پر انگریزسرکار کے قبضے کی کہانی

  


سیٹھ ناؤمل ہوت چند سندھ کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ اگر ان کا نام حذف کر دیا جائے تو سندھ کی تاریخ ادھوری رہ جائے۔حقیقت یہ ہے کہ  ایک مجبور  تالپور افسر خیر محمد نے سات فروری 1839 کو کراچی شہر کی چابیاں انگریزوں کے حوالے کردیں۔اور کلہوڑوں سے جبریہ اقتدار چھیننے کے صرف 60 سال بعد تالپور حاکمان بھی اقتدار سے محروم ہو گئے اور سندھ پر انگریز سرکار کا قبضہ ہو گیا -بتایا جاتا ہے  کہ ’سیٹھ ناؤمل نے برطانوی فوج کی مدد کے لیے 800 اونٹوں کی نقل و حمل اور دیگر ضروری سامان کا انتظام کیا۔‘لیکن اپنی تحریر کو آگے  بڑھانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس وقت کی سماجی تصویر کو پیش کروں جو کسی بھی اقلیت کو بغاوت پر آمادہ کر سکتی ہے  سندھ کی تاریخ لکھنے والے اپنی یاد داشتوں میں بتاتے ہیں  کہ شہر ہوں یا دیہات   ہندوؤں کو گھوڑے کی سواری منع ہے۔ اس لیے دولت مند تاجر بھی گدھے کی سواری کرتے نظر آتے ہیں. ہندوؤں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کسی مسلمان کی سواری گذرے تو اس کے راستے میں ادب سے ایک طرف کھڑے ہوجائیں۔"اور مسلمان گھڑ سوار کے گزرنے کا انتظار کریں (زرا سوچئیے یہ اس نبی ص کی امت تھی جس نے محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کیا تھا )

اس کے علاوہ   ہند ووں کو وہ نفیس کپڑا پہننے کی اجازت نہیں تھی جو مسلمان پہنتے تھے ان کے لئے گھٹیا کھدر ہی تھا -اس  امتیازی   سلوک سے ہندو بد دل ہو چکے تھے -  لاوہ پک رہا تھا  کہ نصر پور کے ایک ہندو مزدور کا بیٹا اپنے استاد کی سختیوں سے تنگ آکر ایک مسجد کے دروازے کے قریب جا کھڑا ہوا کچھ مسلمانوں کی اس پر نظر پڑی وہ اسے مسجد میں لے گئے اس پر غصے میں آکر ہندو دکاندار   وں نے اپنی دکانیں بند کریں اور مسلمانوں کو سودا سلف دینے سے انکار کر دیا۔ مسلمانوں نے انتقامی طور پر لیاری میں موجود پانی کے کنوؤں میں گندگی ڈال دی۔ ان کنوؤں سے ہندو پینے کا پانی بھرتے تھےدوسرے دن نورل شاہ نامی ایک سید نے ہمارے محلے سے گذرتے ہوئے گالیاں دیں۔ میرا چھوٹا بھائی پرسرام جو اس محلے کے بیرونی دروازے پر کھڑا تھا اس نے نورل شاہ کو نرمی سے سمجھایا کہ اس طرح کی بات مناسب نہیں، دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور جوش میں آکر نورل شاہ نے کہا کہ پر سرام نے میرے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ہے۔ مسلمانوں کا ایک ہجوم اکھٹا ہوگیا۔


بعد میں نورل شاہ نے قرآن گلے میں ڈال کر سندھ کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور لوگوں کو بھڑکایا۔ اس دوران کسی طریقے سے میرا بھائی پرسرام جیسلمیر (موجودہ انڈیا) منتقل ہوگیا۔ معاملہ اس وقت سندھ کے حاکم میر مراد علی تالپور تک پہنچا، مسلمانوں کا دباؤ تھا، میر صاحب نے میرے والد ہوت چند کو فرمان بھیجا کہ سیٹھ پر سرام کو حیدرآباد روانہ کیا جائے۔پرسرام کراچی میں نہیں تھا۔ میر صاحب نے دوسرا فرمان بھیجا کہ ہوت چند خود حاضر ہو۔ میرے والد حیدرآباد پہنچے میر صاحب نے جھگڑے کے حل کے لیے معاملہ نصر پور کے قاضی کی عدالت میں بھیجا (نصر پور حیدرآباد سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر ہے). قاضی نے معاملہ سننے سے انکار کر دیا مسلمانوں نے اس کے بعد اچانک حملہ کرکے سیٹھ ہوت چند کو اغوا کرلیا. وہ دس سے بارہ دن مسلمانوں کی تحویل میں رہے جنہوں نے انہیں زبر دستی مسلمان کرنے کا ارادہ کیا (مراد یہ ہے کہ ان کی ختنہ کرنے کی کوشش کی) لیکن چوں کہ ان کی عمر 50 سال تھی اور ان کی ختنہ کرنا قرآن کے بھی خلاف تھا اس کے علاوہ مسلمانوں کا یہ خوف بھی تھا کہ اس کے نتائج خطرناک بھی ہوسکتے ہیں اس لیے وہ اپنے اس ارادے سے باز رہے ۔ بعد ازاں میر مراد علی کو پچھتاوا ہوا اور میرے والد کی بازیابی کا حکم جاری کیا۔ جس کے بعد میرے والد کو رہائی ملی '


تقسیم سے قبل سندھ کی ہندو برادری بہت زیادہ امیر تھی اور سندھ کے وڈیرے اور جاگیردار تو چوٹی بات حکمران خاندان تک ان کا مقروض ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں وہ سماجی رتبہ حاصل نہ تھا جو مسلمانوں کو حاصل ہوتا تھا.جیمز برنز کے مطابق سندھ کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور کیا ہے اس پر بے شمار لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ یہاں تین ہزار سال قبل مسیح کے موئن جودڑو کے آثار   ہیں  -بات ہورہی تھی سیٹھ ناؤ مل ہوت چند کی، تاریخ بتاتی ہے کہ ناؤ مل وہ شخص تھا جس نے سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے لیے ان کی مکمل مدد کی۔اس نے ایسا کیوں کیا؟مالی فائدے کے لیے؟ انگریز سرکار کی جانب سے کوئی خطاب حاصل کرنے کے لیے؟ یا اس کے والد سیٹھ ہوت چند کے ساتھ میروں کی حکومت میں جو کچھ ہوا تھا اس کا بدلہ لینے کے لیے؟ان تمام باتوں پر آگے چل کر بات کریں گے لیکن ایک حقیقت ہمیں ذہن میں رکھنی ہوگی کہ میروں کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب سندھ میں انگریزوں کا راج قائم ہوا تو ایک جدید سندھ نے جنم لیا۔ شہری علاقوں میں روڈ راستے بنے، بجلی آئی، اسکول اسپتال بنے، ریلوے کے نظام نے جنم لیا، جدید نہری نظام اور بہت کچھ نیا متعارف ہوا.بعض ناقدین کا خیال ہے کہ نہری نظام انگریز نے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بنایا، ریلوے افغانستان تک فوجی ساز و سامان پہنچانے کے لیے اور اسکول و اسپتال براؤن صاحبوں (جو گورے صاحبوں کے حاشیہ بردار تھے) کے لیے۔انگریزوں کی دیکھا دیکھی ہندوؤں اور پارسیوں نے بھی ایسے بے شمار فلاحی ادارے قائم کیے جس کے بعد مسلمانوں کو بھی ایسے ادارے قائم کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے فلاحی اور تعلیمی ادارے قائم بھی کیے.قصہ طویل ہوگیا، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف یعنی سیٹھ ناؤمل  ہوت چند کون تھے اور کیوں غدار وطن ٹھہرے؟ 


محمد عثمان دموہی اپنی کتاب 'کراچی تاریخ کے آئینے میں'، دوسری اشاعت مطبوعہ 2013میں ہوت چند کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛اس شخص کی دولت جاگیر اور مرتبہ حاصل کرنے کی ہوس کی وجہ سے سندھ کے وطن پرست مسلمانوں اور ہندوؤں کو نہ صرف آزادی وطن سے محروم ہونا پڑا بلکہ غلامی کی صعوبتوں کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس شخص نے انگریزوں کو سندھ پر قابض کرانے میں میران سندھ کے خلاف مکر و فریب اور دغا بازی کا دلیرانہ مظاہرہ کیا۔"ناؤمل کے خاندانی پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں؛وہ 1729 میں کراچی شہر کی بنیاد رکھنے والے مشہور ہندو تاجر بھوجومل کا پڑپوتا تھا جو 1804 میں کراچی کے قدیم محلے کھارادر میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ہوت چند بھی ایک مشہور تاجر تھا۔ اس کا کاروبار نہ صرف سندھ بلکہ ہندوستان، افغانستان، ایران اور مسقط تک پھیلا ہوا تھا۔ سندھ کے جو ہندو تاجر میران سندھ کو قرض فراہم کرتے تھے ان میں اس کا نام بھی شامل تھا۔ اس کی حیدرآباد دکن  کے دربار تک رسائی تھی"۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بااثر ہونے کے باوجود ناؤمل کے خاندان کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ ناؤمل نے سندھ پر انگریزوں کا قبضہ کروایا؟سیٹھ ناؤمل اپنی یاداشتوں تیسری اشاعت مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ 1996 (یہ یاداشتیں 1930سے 1845) کے واقعات پر مشتمل ہیں.سندھی میں لکھی گئی یہ یاداشتیں بعد میں انگریزی میں ترجمہ کروائی گئیں

ہفتہ، 1 مارچ، 2025

صوبہ سندھ میں آوارہ کتے اور بے یارو مددگار شہری

 - موقر روز نامے انٹر نیٹ پر رقم طراز ہیں -صوبہ سندھ میں آوارہ کتے اور بے یارو مددگار شہری-  رواں برس کتے کے کاٹنے کے سندھ میں کتنے کیس رجسٹر ہوئے کتے  کے کاٹنے کے سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ  ڈویژن میں پیش آئے  -  ڈان نیوز کے مطابق صوبہ سندھ میں رواں سال ستمبر تک کتوں کے کاٹنے سے 12 شہری انتقال کرچکے ہیں جبکہ 2 لاکھ 26 ہزار سے زائد افراد کو کتوں نے کاٹ کر زخمی کیا ہے۔انچارج ڈاگ بائیٹ کلینک سول ہسپتال ڈاکٹر رومانہ فرحت کے مطابق کتوں کے کاٹنے کے یومیہ 120 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، بچے اور بزرگ افراد کم مزاحمت کے باعث زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں 27 ہزار 333، فروری میں 27 ہزار 473، مارچ میں 29 ہزار 426 کتوں کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔رواں سال اپریل میں 25 ہزار 514، مئی میں 25 ہزار 311، جون میں 22 ہزار 305، جولائی میں 22 ہزار 558 کیسز، اگست میں 22 ہزار 575 اور ستمبر میں 24 ہزار سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئےکاش  پیپلز پارٹی میں کوئ  ادارہ ایسا بھی ہو جو عوام کی جانوں کا اس طرح بیدردی سے زیاں ہونے سے روک سکے -بخت آور نے حکم تو لگا دیا کہ کتوں کا ہلاک نا کیا جائے لیکن وہ جانوں کے اس زیاں پر تو بلکل خاموش  ہیں۔



رومانہ فرحت کے مطابق کتوں کے کاٹنے پر کم از کم 15 منٹ کے لیے ڈیٹرجنٹ، صابن سے متاثرہ جگہ کو دھونا چاہیے اور اینٹی ریبیز ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی مکمل کرنا چاہیے۔ کے پہلے پانچ ماہ میں 69 ہزار سے زیادہ کتے کے کاٹنے کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں سندھ میں ساحلی ضلعے ٹھٹہ کے شہر ساکرو میں 14 سالہ کاشف سہراب کو جب کتے نے کاٹا تو ان کے والدین یہ سوچ کر ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے کہ کتا پالتو ہے باؤلا یا آوارہ نہیں۔ لیکن چند ماہ بعد کاشف کی طبیعت بگڑنے لگی اور بروقت ویکسین نہ لگنے کے باعث وہ مر گیا۔ کاشف سہراب کے پڑوسی محمد اسلم نے بی بی سی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ تقریباً نو ماہ قبل کاشف کو کتے نے کاٹا اور چند روز قبل جب اس کی حالت بگڑی تو والدین اسے مقامی مولوی کے پاس دم کروانے لے گئے۔ مولوی صاحب کے مشورے پر کاشف کو مقامی ہسپتال لے جایا گیا تو وہاں ویکیسن دستیاب نہیں تھی۔ بعد ازاں کاشف کے لواحقین اسے جناح ہپستال کراچی لے گئے جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ جناح ہسپتال کے شعبۂ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ کاشف کو دو روز قبل تقریباً صبح چھ بجے ہسپتال لایا گیا تھا لیکن ایک، ڈیڑھ گھنٹے میں ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ 



’جناح ہسپتال میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب ہے لیکن سندھ میں بالعموم اس کی قلت ہے۔ اس ویکسین کے ساتھ متاثرہ فرد کو ربیز امینوگبلن بھی لگنا چاہیے جو ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں خدشہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو ربیز ہو جائے گی۔‘ سندھ کے سب سے بڑے سرکاری ہپستال جناح پوسٹ گریجوئیٹ میں رواں برس کتے کے کاٹنے کے تقریباً چھ ہزار کیسز آ چکے ہیں جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے قریب تھی۔   ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق اسی طرح کیسز آتے رہے تو ان کے ہسپتال میں بھی یہ ویکیسن ختم ہو جائے گی۔ محکمہ صحت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں 69 ہزار سے زیادہ کتے کے کاٹے کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سب سے زیادہ واقعات لاڑکانہ اور سب سے کم کراچی ڈویژن میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں کتے کاٹے کے کیسز کی تعداد 22 ہزار 822 ہے، حیدرآباد ڈویژن میں لگ بھگ 21 ہزار، شہید بینظیر آباد ڈویژن میں 12 ہزار سے زیادہ، میر پور خاص ڈویژن میں چھ ہزار 774 اور کراچی ڈویژن میں 320 واقعات پیش آئے ہیں۔


 انڈیا نے ویکسین فراہم کرنے سے معذرت کیوں کی؟ پاکستان میں کتے کاٹے کی ویکیسن پڑوسی ممالک انڈیا اور چین سے درآمد کی جاتی ہے۔ تاہم اب انڈیا نے مزید ویکیسن فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت کی صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد پچھلے دنوں بتا چکی ہیں کہ انڈیا اور چین نے اینٹی ریبیز ویکسین فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یاسمین راشد کے مطابق انڈیا پاکستان کو آگاہ کر چکا ہے کہ ویکسین کی مقامی سطح پر طلب بڑھنے کی وجہ سے انڈیا اس ویکیسن کو مزید برآمد نہیں کر سکتا۔ عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا میں کتے کے کاٹے کے 36 فیصد کیسز انڈیا میں ہوتے ہیں۔  انڈیا پاکستان کو آگاہ کر چکا ہے کہ ویکسین کی مقامی سطح پر طلب بڑھنے کی وجہ سے انڈیا اس ویکیسن کو مزید برآمد نہیں کر سکتا ہے انڈیا اینٹی ریبیز ویکسین پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، ماینمار، ترکی اور افریقی ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ جناح ہپستال کے شعبہ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ چین کی ویکسین پر پاکستان کو اعتماد نہیں کیونکہ ویکسین جب تک ایف ڈی اے یعنی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے منظور شدہ اور عالمی ادارۂ صحت سے تصدیق شدہ نہ ہو تو تب تک وہ اس ویکسین استعمال کرنے سے کتراتے ہیں۔


 سندھ کے ڈائریکٹر جنرل صحت ڈاکٹر مقصود کی جانب سے تمام ڈویژن کے کمشنروں کو خط تحریر کیا گیا ہے جس میں آوارہ کتوں کے معاملے سے نمٹنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ چند سال قبل جب بلدیاتی اداروں نے آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا تو ایک غیر سرکاری تنظیم نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ اس تنطیم کا کہنا تھا کہ کتوں کو زہر دیکر مارنے کی بجائے اس کی نس بندی کی جائے، جس کے بعد کراچی میں انڈس ہسپتال میں اس حوالے سے ایک منصوبے پر عملدر آمد جاری ہے۔ ملک میں آوارہ کتوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے جو عوام کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ آوارہ کتے صرف انسانوں کے لیے ہی خوفناک ثابت نہیں ہو رہے بلکہ یہ چند چھوٹے اور معصوم جانوروں پر بھی حملہ آور ہو کر ان کو بآسانی نگل لتیے ہیں، جبکہ انسان ان جانوروں کو زہریلے کتوں کے خوف سے بچا بھی نہیں پاتے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آوارہ کتوں کو ختم کیا جائے اگر بخت آور بھٹو اجازت دیں تب۔

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر