جمعہ، 3 مئی، 2024

ہاں! میں موچی کا بیٹا ہوں


ابراہام لنکن نے 1861 ءمیں امریکہ کے  صدر کا عہدہ سنبھا لا   تو اس وقت امریکی سینیٹ میں  معاشرے کے امراء  تاجر ، صنعتکاراور سرمایہ دار سینٹ پر قابض تھے  ، جوسینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی  ہر ممکن  حفاظت  کرتے تھے۔ ابراہام لنکن نے  صدر بنتے ہی    امریکہ  سے غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس نے ایک حکم نامے کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کر کے فوج میں شامل کر لیا، امریکی اشرافیہ ابراہام لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ یہ لوگ ابراہام لنکن کے خلاف ہو گئے، یہ ابراہام لنکن کی شہرت کو بھی نقصان پہنچاتے تھے اور اس کی کردار کشی کا بھی کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔ سینیٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہام لنکن کا مذاق اڑاتے تھے لیکن وہ کبھی اس مذاق پر دکھی نہیں ہوا، ہمیشہ کہتا تھا میرے جیسے شخص کا امریکہ کا صدر بن جانا ان تمام لوگوں کے ہزاروں لاکھوں اعتراضات کا جواب ہے، اس لیے مجھے جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ابراہام لنکن کس قدر مضبوط اعصاب اور حوصلے کا مالک تھا۔ اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے لگا لیجئے۔ یہ اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لئے سینیٹ میں داخل ہوا، صدر کے لئے مخصوص نشست کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ”لنکن صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا کہ ”تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا“۔ 

یہ فقرہ سن کر پورے سینیٹ نے قہقہ لگایا۔‎لنکن مسکرایا اور سیدھا ڈائس پر چلا گیا اور اس رئیس سینیٹر سے مخاطب ہو کر بولا ۔‎”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراءکے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا۔ میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تے بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا، کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے“ ۔‎ابراہام لنکن تقریر ختم کرکے صدارت کی کرسی پر بیٹھ گیا، پورے ہال کو سانپ سونگھ گیا، ابراہام لنکن پر فقرہ کسنے والے سینیٹر نے شرمندگی کے عالم میں سر جھکایا، اس کے بعد کسی امریکی سیاستدان نے ابراہام لنکن کو موچی کا بیٹا نہیں کہا۔


امریکی تاریخ کے عظیم ترین صدر کا اعزاز اکثر ابراہم لنکن کو دیا جاتا ہے۔ریاستہائے متحدہ امریکا کے پہلے سیاہ فام اور سولہویں صدر’ابراہم لنکن‘ کی شخصیت ویسے تو کسی تعارف کی محتاج نہیں کیوںکہ ان کی محنت اورجدوجہد سے بھرپور زندگی ایک ایسا دور تھا، جسے ان کے رخصت ہوجانے کے اتنے عرصے بعد بھی دنیا بھرمیں مقبولیت حاصل ہے۔انھوں نے امریکا میں سیاہ فام افراد کی آزادی کے معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کی اور ملک کو ٹوٹنے سے بچایا۔ مگر اتنے بڑے صدر کا بچپن شدید غربت میں گذرا۔ لنکن کے والد ایک چھوٹے کاشتکار تھے۔ ان کے پاس ریاست کنٹکی میں تھوڑی زمین تھی جہاں پر وہ اپنا فارم چلاتے تھے۔ لنکن جب دو سال کے تھے تو ان کے والد اپنی زمین کے حوالے سے ایک مقدمہ ہار گئے اور ان کے پاس یہ فارم بھی نہ رہا۔ لنکن فیملی اس موقعے پر ریاست انڈیانا منتقل ہو گئی۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد نے سرکاری زمین پر لکڑی کا  ایک غیر قانونی کیبن بنایا اور اسی گھر میں لنکن بڑے ہوئے۔ ابراہم لنکن زندگی میں صرف ایک سال ہی اسکول گئے  کینونکہ ان کے غریب  والدین کی اسطاعت نہیں تھی کہ وہ لنکن کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے اور ان     کی تمام  تعلیم ان کی سوتیلی ماں سارہ جانسٹن کے ہاتھوں ہوئی  حالانکہ ان کے والد نے کئے پیشے اختیار کئے لیکن ان کو کامیابی  اپنے ہی جیسے لوگوں کے جوتوں کی  مرمت میں ملی -انھوں نے دوسروں کی زرعی زمین پربھی کام کیا ، جولاہے کے پاس بھی کام کیا، اور جوتے کی مرمّت کرنا بھی سیکھا اور پھر لوگوں کے جوتے سیتے اور مرمت کر کے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ اپنے محنتی باپ کی اسی جانفشانی نےابراہم لنکن کو زندگی کو شان سے جینے کا قرینہ سکھایا۔ اور بلآخر امریکی صدارت کی کرسی تک پہنچے

‎ابراہام لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کو ایک شہرہ آفاق خط لکھا، جو پاکستان کے تمام والدین کو ضرور پڑھنا چاہئے۔اس نے لکھا:‎”میرے بیٹے کو وہ طاقت عطا کرنے کی کوشش کیجئے کہ یہ ہر شخص کی بات سنے لیکن یہ بھی بتائیے کہ جو کچھ سنے اسے سچ کی کسوٹی پر پرکھے اور درست ہو تو عمل کرے۔‎اسے دوستوں کے لیے قربانی دینا سکھائیے۔‎اسے بتائیے کہ، اداسی میں کیسے مسکرایا جاتا ہے، ‎اسے بتائیے کہ آنسوؤں میں کوئی شرم نہیں۔‎  اسے سمجھائیے کہ منفی سوچ رکھنے والوں کو خاطر میں مت لائے۔ خوشامد اور بہت زیادہ مٹھاس سے ہوشیار ر۔‎اسے سکھائیے کہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا بہترین معاوضہ وصول کرے لیکن کبھی بھی اپنی روح اور دل کو بیچنے کی کوشش نہ کرے۔ ‎اسے بتائیے کہ شور مچاتے ہوئے ہجوم کی باتوں پر کان نہ دھرے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے تو اپنی جگہ پر مظبو طی سے قائم رہے قانون کی حکمرانی، غلامی کا خاتمہ یا پھر امریکا کے عام افراد کی زندگی سہل اورآسان بنانے کے حوالے سے ابراہم لنکن کا نام سنہری حرف میں یاد رکھا جائے گا۔

آپ اس کے استاد ہیں اس سے شفقت سے پیش آئیے مگر پیار اور دلاسہ مت دیجئے، ‎کیونکہ یاد رکھیئے، خام لوہے کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی فولاد بنایا کرتی ہے۔‎اسے سیکھنا ہو گا کہ ہر شخص کھرا نہیں ہوتا۔ لیکن اسے یہ بھی بتائیے کہ ہر غنڈے کے مقابلے میں ایک ہیرو بھی ہوا کرتا ہے۔ ہر خود غرض سیاستدان کے مقابلے میں ایک دوست بھی ہوا کرتا ہے۔‎آپ اسے  ضرور بتائے کہ حسد سے دور   رہنا کتنا بڑا مرتبہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کر سکیں تو اسے خاموش قہقہوں کے راز کے بارے میں بھی بتائیے۔‎اسے یہ سیکھ لینا چاہئے کہ بدمعاشوں کا مقابلہ کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔   ‎اگر آپ بتا سکیں تو اسے کتابوں کے سحر کے بارے  ، لیکن اسے اتنا وقت ضرور دیجئے کہ وہ آسمانوں پر اڑنے والے پرندوں کے دائمی راز، شہد کی مکھیوں کے سورج سے تعلق اور پہاڑوں سے پھوٹنے والے پھولوں پر بھی غور کر سکے۔‎اسے بتائیے کہ اسکول میں نقل کر کے پاس ہونے سے فیل ہو جانا زیادہ ۔‎ابراہم لنکن کی موت کے بارے میں لکھئےاسے بتائیے کہ جب سب کہتے بھی رہیں کہ وہ غلط ہے تو اپنے خیالات پر پختہ یقین رکھے۔“لیکن آخر کار اتنے اچھے انسان کو ایک جنونی نے اس وقت مار ڈالا جب وہ تھیٹر میں ایک فلم دیکھ رہے تھے

 

جمعرات، 2 مئی، 2024

پیار کا وعدہ 'ففٹی'ففٹی افسانہ پارٹ 3


،سارا سارا دن چارپائ پر پڑے پڑے روٹیاں توڑتا رہتا ہے یا نشے میں دھت پڑا رہتا ہے ،اس سے تو اچھا ہے میں خود گھروں میں کام کاج کر کے دوروٹی کھا لوں گی شنّو کی بات بہت غور سے سن کر  راحیل نا شتہ ختم کر کے آفس چلاگیا ,,,,اور پھر ایک دن وہ انیتا سے چھپا کر بازار سے شنّو کی گھڑی لے کرآیا اور پھر گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ انیتا گھر پر نہیں ہے اور شنّوکیلی ہی کام کر رہی ہے ،،تو وہ گھر آگیا اور آتے ہی اس نے شنّو کو گھڑی نکال کر دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھی اور اس نےگھڑی دیکھ کرکہا ہائے ربّا-میں تو خواب میں بھی ایسی گھڑی نہیں خرید سکتی تھی پھر اس نے شنّو سےکہا بھاگ کر یہ گھڑی کواٹر مین چھپا کر آجاؤ بیگم صاحب کو پتا نا چلے اورشنّو چھلاوے کی مانند گھڑی رکھ کر پھر اس کے حضور حاضر تھی -ارے شنّو تو نے مجھ سے پوچھا نہیں ،کھانا چائے شربت ،راحیل نے شوخی سےکہا تو بولی ارے معاف کرنا صاب جی ،،بتادو کی لاواں چاء-  شربت،کھانا شانا-راحیل نے اس کے جواب میں کہا  کچھ نہیں صرف دو گلاس شربت لے آؤ ،اور شنّو نے پھر ٹوکا 'ناں صاب جی ،دو گلاس مت پینا میں تو صرف ایک گلاس ہی لاواں گی اور راحیل نے اس سے کہا ،دو ہی گلاسلانا ایک تیرا ایک میرا ،شنّو شربت سے بھرے گلاس لے کر آگئ اور راحیل کےقریب ہی زمین پربیٹھنے لگی تو اس نے کہا

و وہاں نہیں یہاں بیٹھو اس نےاپنے روبرو کرسی کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا تو   شنّو کچھ جھجھکتی ہوئ اس کے ربرو کرسی پر بیٹھ گئ,,,,راحیل کو اب ایو  گونہ تو اطمینان ہو گیا تھا کہ شنّو کی کہیں بات نہیں ہوئ ہئے اس لئے اس نے   منصوبہ بندی شروع کر دی تھی,,,,ابھی ان دونو ں نے شربت پینا شروع بھی نہیں کیاتھا کہ انیتا گھر واپس آگئ اور دروازے پر بیل ہوتے ہی شنّو نے اپنا شربت کابھرا گلاس بھاگ کربرتن دھونے والے سنک میں الٹ دیا اور پھر دروازہ کھولنےگئ،اس بیچ راحیل اٹھ کر اپنے کمرے میں جا چکاتھا ،انیتا نے شنّو سے کہا تیری نانی کہاں ہے-ایک تو انیتا کو راحیل کی گاڑی بے وقت کھڑی ملی اور اس پرسے گھر میں شنّو بھی اکیلی ہی ملی تو پھر اس کا غصّہ ابال کھا گیا ،،تیری نانی کہاں ہے وہ پھنکاری ،بیگم صاب اسے تو رات ہیضہ ہو گیاتھا ابھی بھی وہ کمزوری میں غش کھائ پڑی ہئے ،تم کہوتومیں واپس چلی جاؤں ،،اور انیتا نےپھر اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے کہا چل جا میرا دماغ مت کھا اور میرےلئے چائے بنا کر لا سر درد سے پھٹا جارہا ہے ,,

,راحیل سے الجھنا انیتانے بہتر نہیں جانا اس لئے خاموش ہوگئ ،اور راحیل نے اب یہ دستور ہی بنالیا کہ وہ گھر پر فون کر کے انیتا کی مصروفیات کا اندازہ لگا لیتا اوراسی حساب سے اس طرح گھر آجاتا جس مین اس کو شنّو سے تنہائ میں کچھ وقت ملاقاتک کا مل جاتھا ،اس طرح انیتا راحیل سے دور ہونے لگی اور شنّو اس سے قریب ہونے لگی ایسے میں ایک دن راحیل کچھ دوپہر کے بعد گھر لوٹ آیا شنّو کام کر کےواپس کواٹر جاچکی تھی ،اس نے کواٹر کی بیل کی تو اس کی نانی اپنی چندھیائ ہوئ آنکھوں کو اوڑھنی کے پلّو سے صاف کرتی ہوئ دروازے پر آئ نانی کو دیکھتے ہی راحیل نے کہاوہ زرا شنّو کو بھیج دیں کام ہے،اور کہ کر واپس بنگلے میں آگیا اورشنّو کچھ ہی دیر میں اس کے پاس آ گئ،، کی گل ائے صاب جی شنّو نےادائے بے نیازی سے اس سے پو چھا ،میرے کپڑے الماری سے لے کر استری کر دو اس نےبہانہ بنایا ،تو شنّو بولی صاب جی کل ہی تو سارے کپڑے استری کر کے ٹانگے ہیں،ٹھیک ہئے لیکن مجھے تو جو دوسرے کپڑے پہننے ہیں وہ استری کے بغیر ہیں ،

راحیل نےاس کو جواب دیا تو وہ کہنے لگی چلو بتادو کون سے پہننے ہیں وہی استری کر دوں-پھر راحیل اس کے ساتھ کمرے میں آگیا شنّو اب کھلی الماری کے دونوں پٹوں کےدرمیان کھڑی کپڑے دیکھ رہی تھی کہ راحیل نے اس قریب پہنچ کر اس کے نکلنے کاراستہ  مسدود کر دیا اور شنّو موقع کی نزاکت دیکھ کر رونے لگی ،صاب جی میری چنری کو داغ مت لگا نا-میری ماں نے نانی کے بھروسے پر تمھارے گھر بھیجا اگر مجھے کچھ ہوا تو میری ماں مجھ سے پہلے جیتے جی مر جائے گی ،شنو نے فریاد کی شکل میں رونا جو شروع کیاتو راحیل نے بھی بہت محبّت کے ساتھ اس سے کہا میں بازاری آدمی نہیں ہوں،میں تیرے بھروسے کا مان نہیں توڑوں گا ،پر تجھ کو اپنی دلہن ضرور بناؤںگا ،تجھے اپنے پیار کا دوشالہ اڑھاؤں گا ،میں تو تجھے تیرے کپڑے دکھانےلایا ہوں الماری کے اندر دیکھ تو سہی ،،شنّو روتے بولی صاب جی ہم کمّی کمین لوگ تمھارے قابل کہاں دیکھو تمھاری بیگم کتنی حسین ہیں اور میں چمارن ،شنّوبس کر راحیل نے اسے جواب دیا اور دل ہی دل میں کہنے لگا تو ،تو میرےلیئے حسینہء عالم ہے تجھے کیا پتا اب مجھے ہر کام کیا کرایا مل جاتا ہے ور شنّو سسکیاں بھربھر کر راحیل کی بتائ ہوئ جگہ سے اپنے کپڑے اور گہنے پاتے نکالتی گئ لہنگا ٹیکہ جھومر کنگن اور پھر شنّو دلہن بن گئ 

،راحیل اسے لے کر ہواکے دوش پر گاڑی اڑاتامولوی کے پاس حاضر ہو ا ،،اس نےحجلہء عروسی سرو نٹ کواٹر کے ایک کمرے کو بنادیا ،،شام کو انیتا واپس آئ تو شنّو کو دیکھ کر حیرانی سے بولی یہ تو کیا دلہن بنی پھر رہی ہئے ،شنّو نے جھٹ اس کو جواب دیا ہا ں جی میں تمھارے صاحب کی دلہن ہی تو بن گئ ہوں اور انیتا ایک چیخ مار کر وہیں فرش پر گر کر بے ہوش ہو گئ ،،انیتا کے گرنے کی آواز پر راحیل دوڑا ہوا آیا اور شنّو سے بولاارے شنّو جلدی پانی لا ،،،شنّو راحیل کے بلانے پرانیتا کے پاس آئ توسہی لیکن پانی نہیں لائ بلکہ کہنے لگی صاب جی جوتی سنگھا دو ابھی ہو ش آ جائےگا ،پانی تو ایسے  میں نقصان کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی شنّو اپنے پیر کی جوتی اتار کر انیتا کو سنگھا کر ہوش میں بھی لے آئ ,,,انیتا ہوش میں آ کر مسلسل روئے جا رہی تھی ،اب چپ ہو جاؤ ،راحیل نے اسے تنبیہ ک ی تو کہنے لگی کیسے چپ ہو جاؤں تم نے میرے سینے پر سوکن بٹھا دی وہ بھی ماسی،،یہ کیسی محبّت تھی تم کو مجھ سے ،،تو راحیل نے اس سے کہا انیتا بیگم شادی عورت کی کل وقتی جاب ہوتی ہے اس جاب کا اوّلین فرض شوہر کی خدمت اور اس کا خیال ہوتا ہے جو تم کو ناگوار گزرتاتھا سو میں نے تمھاری محبّت کوبہت ہی مجبور ہو کر ففٹی،ففٹی تمھارے اور شنو کےدرمیان تقسیم کر لیا  

بدھ، 1 مئی، 2024

پیار کا وعدہ ففٹی'ففٹی-پارٹ 2

<\head>

 ماسی نےپانچ سو کانوٹ اپنے ایک ہاتھ مین پکڑ کر اسے دوسرے ہاتھ سےلپیٹ کر اپنی میلی کچیلی اوڑھنی کے پلّو مین باندھ لیا اور دعائیں دیتی ہوئ گھر سے چلی گئ ماسی کوگئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ایک چھٹّی کے دن راحیل اور انیتا دونو ں ہی لاؤنج میں بیٹھے یہی بات کر ہےتھے اس بارگاؤں سے آنے والی ماسی بار بار کےجانے آنے کی فرمائشیں کر کے تنگ نہ کرے گی ان کے درمیان ابھی یہی بات چیت  جاری تھی دروازے کی بیل پر راحیل نے دروازہ کھولاتو ماسی چند روز ہی گاؤن میں گزار کر واپس آگئ تھی اوراپنے ساتھ ایک پکّے رنگ کی سانولی سلونی اچھّے قد کاٹھکی لڑکی بھی ساتھ لے کر آئ تھی ،،،،گھر کے اندر آتے ہی اس نے انیتا سےکہا یہ میری نواسی ہے بیگم صاب اور پھر لڑکی کی طرف گھوم کر بولی سلام کر شنّو،،شنّو نےاس حکم پر مشینی انداز میں اپنا ایک ہاتھ ماتھے پررکھ کرکھردری آوازمیں کہا سلام بیگم صاب ،صاب جی کو بھی سلام کر،اور پھر شنّو نے راحیل کو دیکھکرکہا سلام صاب جی ،وعلیکم وسّلا م اور سلام کا جواب دے کر راحیل نے محسوس کیا کہ اب اسکی وہاں ضرورت نہیں ہے اس لئے اٹھ کر اندر چلاگیا اور پھر بوڑھی مدقوق ماسی تو وہیں انیتاکے قدموں میں بیٹھ گئ لیکن شنّوجہاں کھڑی تھی کھڑی ہی رہی ،تم تو زیادہ  دن کی چھٹّی  کا کہ کر گئیں تھیں پھر اتنی جلدی کیسے آگئیں -

بیگم صاب جنازہ تو ہو ہی گیا تھا پھر میں کیا کرتی وہاں رہ کر  اس لئے واپس آگئ -اچھا کیا   انیتا نے ماسی کو جواب دیا پھر شنّو سے سوال کیا -کیا کیا کام کر لیتی ہو؟ انیتا نے جیسے ہی شنّو سے سوال کیا اس کی زبان قینچی کی طرح چل پڑی بیگم صاب سارے کام کر لیتی ہوں جھاڑو پونچھا ،آٹا روٹی ،ہنڈیا سالن،کپڑے استری ،،،،اور۔ اور،لیکن انیتا نے اسے روک دیا ،،بس ،،،معلوم ہو گیا آؤ اب میں تمھیں  تمھارے رہنے کی جگہ دکھا دوں ،انیتا کہ کر اٹھ کھڑی ہوئ اوردونوں نانی نوا سی کو اپنے ساتھ لے کر سرونٹ کواٹر   راحیل نے صرف اسی ایک مقصدسے نوک پلک سے سنوارا تھا کہ نئ آنے والی ماسی کا دل کواٹر کی آسائشیں دیکھ کرہی لگ جائے ،،،،کواٹر کے اندر آکر شنّو کی آنکھوں میں خوشی کے ستارے چمکنے لگےاور اس کی بوڑھی نانی کی چندھی آنکھیں مذید چندھیا گئیں کہ اب وہ بھی اس جگہ چین سکون سے بیٹھ کر دو روٹی کھاسکے گی ,,,,,,اور پھر شنّو کے شب وروز انیتا کےاحکامات کے پابند ہو گئے ،آ نے والے دنون میں جب ایک چھٹّی کا دن تھا اور اسوقت شنّو کو انیتا کے حکم کے مطابق کچن کیبنٹ کی صفائ کرنا تھی جس کے لئے وہ کچن میں آچکی تھی  کہ انیتابھی اپنے چہرے پر کولڈ کریم کا مساج کرتے ہوئے آگئ اور شنّو سے بولی,ارے شنّو دیکھ صاحب کے کپڑے پہلے استری کر دے پھر دوسرا کام کرنا,,وہ کہیں جانے کو کہ رہے تھے اور شنّو انیتا کے حکم دیتے ہی وہاں سے پل بھر میں چھلاوے کی طرح ہٹ کر استری اسٹینڈ پر تھی ،،

اس نے راحیل کے کپڑے استری کر کے ان کو ہینگر پر ڈالا اور ہینگر پکڑ کرانیتا کے پاس آکر بولی بیگم صاب کپڑے استری کردئے ہیں ،اور انیتا نے اس سے کہا ارے یہ میرے پاس کیوں لائ ہئے صاب کے پاس لے جا ! اور شنّو پلک جھپکتے میں راحیل کے کمرے کے دروازےپر آ گئ اور دروازے میں ہی کھڑے ہوئے بولی صاب جی اپنے کپڑے لے لو راحیل اسوقت کمپیوٹر پر مصروف تھا اس لئے اس نے شنّو کی طرف دیکھے بغیر کہا میں کام کر رہاہوں تم ہی آ کر الماری میں سیٹ کردو اور اب شنّوکو راحیل کا حکم ماننا تھا,,پھر شنّو نے جیسے ہی الماری کھولی ویسے ہی بے ساختہ بولی اف توبہ! کتنی بھر رہی ہے تمھاری الماری اور پھر جگہ بنا کر اس نے کپڑے ٹانگ دئے اور کمرے سے جاتے جاتے کہنے لگی زراباورچی خانے کی صفائ ہو لے تو پھر تمھاری الماری بھی صاف کر دوں گی ،راحیل نےماؤس پکڑے پکڑے شنّو پر ایک نظر ڈالی جو اب کمرے سے واپس جارہی تھی ،اورپھر اس نے شنّو کو آہستہ سے پکارا ،،شنّو !،جی صاب جی شنّو راحیل کی پہلی آواز پر ہی گھوم کر اس کے پاس آگئ اور بولی جی صاب جی اور راحیل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے شنّو کو کیوں اپنے پاس بلایا ہے پھر ایک دم کہنے لگا زرا میرے لئے ایک پیالی چائے تو بنا لا ،،اور شنّوبغیر ایک لمحے کی دیر کئے اس کے کمرے سے پھر باورچی خانے میں آ گئ اورپھر اسےخیال آیا کہ وہ انیتا سے بھی پوچھ لے کہ اگر اسے بھی چائے پینی ہو تو دو پیالی بنا لے ،اس نے انیتاکے کمرے میں اسے جاکر دیکھاتو وہڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اسٹو ل پر بیٹھی اپنے سامنے رکھّی گرم پانی کی دیگچی سے بھاپ لینے کی تیّاری کر رہی تھی

پھر شنّو نے بس راحیل کے لئےایک پیالی چائے بنائ اور اس کے کمرے میں دینے چلی گئ ،راحیل نے دیکھا صرف ایک پیالی چائے کو ہی شنّو کس سلیقے سے لے کر آئ تھی ،شنّو راحیل کے سامنےچائے رکھ کرجاتے جاتے کہنے لگی صاب جی چائے میں چینی نہیں ہے اپنے حساب   سے ڈال لینا،شنّو میں مصروف ہوں ،راحیل نے کہا تو وہ واپس پلٹ کر آ گئ اور راحیل سےپوچھا صاب جی چینی کتنی ڈالو ں ? ڈیڑھ چمچ ! راحیل نے مختصر لفظوں میں اس

کوجواب دیا تو کہنے لگی نا جی نا ں صاب جی ! اتنی چینی مت پیا کرو نقصا  ن کرتی ہے ،بس ایک چمچ پینے کی عادت ڈال لو اور چائے مین چینی ڈال کر راحیل کے رو برو دینےآ ئ تو اس نے شنّو کوپہلی بار نظر بھر کر دیکھا ،،عمر یہی کوئ ا ٹھّارہ انّیس برس کے لگ بھگ ,گہرے پکّے سانولے رنگ پر نارنجی رنگ کے لباس مین ملبوس لڑکی جس کے سرسرسوں کے تیل کی بدبوبھبھک رہی تھی اور بالون کی کس کر گوندھی ہوئ چوٹی میں رنگ برنگ کا لہراتا پراندہ ڈالے آنکھوں میں گہرا گہرا کاجل لگائے وہ میلے میں سجائ ہوئ گائے کی مانند نظر آرہی تھی ،،لیکن اس لڑکی کے گھر آجانے سے راحیل کی زندگی میں ترتیب آ گئ تھی ،اب اس کو شرٹس کےبٹن کبھی بھی ٹوٹے نہیں ملتے تھے ،شنّو اسے چائے دے کر چلی گئ اور راحیل کے دل میں ایک سوال نے جنم لیا ،شنّو کی عمرتو ایسی ہے جس میں انکی منگنی یا شادی انہی کے خالہ زاد چچا زاد یا پھر کسی اور سے ہو جاتی ہیں تو شنّواب تک کیوں اپنے گھر کی نہیں ہوئ ,,,, شنّو کو انیتا نے حکم دے دیا تھاکہ جب وہ گھر پر نا ہو تب وہ کواٹر سے اپنی نانی کے ساتھ ہی گھر کا کام

کرنےآیا کرے ،،اور اس کی نانی بھی انیتا کے کہنے کی پاسداری کر رہی تھی  لیکن ایک دن جب کہ صبح راحیل کو ناشتہ دینے شنّو آئ تو انیتا اپنی بہن کوچھوڑنے ائر پورٹ جاچکی تھی اور راحیل کے لئے شنّو نے ناشتہ تیّار کر کے لگایااور راحیل سے جا کر کہا کہ ناشتہ میز پر لگا دیا ہے اور خود بھی وہ کچھ فاصلے پرکارپٹ پر اپنی چائے لے کر بیٹھ گئ -راحیل  

 ٹیبل پر ناشتے کے لئے آیا تو ادھر ادھر دیکھ کر بولا آج تمھار ی نانی کہاں  ہے ،صاب جی وہ تو سو رہی بوڑھی جان کو میں نے اٹھانا ٹھیک  نہیں جانا اور راحیل نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائ اور پھر بولا آج  دفتر سے بازار ہوتا ہوا آؤں گا تمھارے لئے کیا لاؤں ,,اور شنّو نے   کہا صاب جی  اسی کول پیسے نہیں ہیں -میں  تمھاری پسند کو پوچھ رہا ہو ں-پیسے نہیں ،راحیل کے کہنے سے اس کی ہمّت ہوئ تو کہنے لگی صاب جی میرے کو تو کلائ میں پہننے والی گھڑی اچھّی لگتی ہےاور راحیل نے موقع ملتے ہی اس سے پوچھ لیا ،،شنّو گاؤں میں تیراکسی سے رشتہ وشتہ ہوا ہے تو شنّو تنک کر کہنے لگی توبہ کرو صاب جی ،و  ہ  مری خالہ کا لڑکاہے ناں ! بھنگی ،چرسی،جواری ، ماں کہ رہی تھی تیر ی خایخالہ نے رشتہ ڈالا ہئے ،پر میں نے کہ دیا اس نکمّےسے مجھے بیاہ   نہیں کرنا ہے،سارا سارا دن چارپائ پر پڑے پڑے روٹیاں توڑتا رہتا ہئے یا نشے میں دھت  پڑا رہتا ہے ،اس سے تو اچھا ہے میں خود گھروں میں کام کاج کر کے دوروٹی کھا لوں گی شنّو کی بات بہت غور سے سن کر نا شتہ ختم کر کے آفس چلاگیا ,,,,اور پھر ایک دن وہ انیتا سے چھپا کر بازار سے شنّو کی گھڑی لے کرآیا اور پھر گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ انیتا گھر پر نہیں ہے اور شنّو اکیلی ہی کام کر رہی ہے ،،تو وہ گھر آگیا اور آتے ہی اس نے شنّو کو گھڑینکال کر دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھی اور اس نےگھڑی دیکھ کرکہا ہائے ربّامیں تو خواب میں بھی ایسی گھڑی نہیں خرید سکتی تھی  


خواب کا وجود برحق ہے

 

                انسان کبھی نیند کی حالت میں بہت سی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اورجاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خلاصة التفاسیر میں ہے کہ خواب میں روح جسم سے نکل کر عالم علوی اور عالم سفلی میں سیرکرتی ہے جو جاگنے میں نہیں دیکھ سکتی وہ دیکھتی ہے۔ اسے حِسِّ روحانی کہنا چاہیے، حس جسمانی صرف حاضر پر حاوی ہوسکتی ہے اور حِس روحانی حاضر وغائب دونوں کا ادراک و احساس کرتی ہے، اس لئے خواب میں ایسے احوال وکیفیات مشاہدہ  میں آ تی ہیں جن سے خود خواب دیکھنے والے کو بڑی حیرت ہوتی ہے، کبھی مسرت انگیز اورکبھی خوفناک تصویریں ذہن میں ابھرتی ہیں اور بیداری کے ساتھ ہی یہ تمام کہانی یکلخت مٹ جاتی ہے۔ قرآن کے متعدد مقامات میں مختلف نوعیتوں سے خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اوراحادیث میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کا وجود حق ہے۔ انبیاء کرام کے علاوہ دیگر افراد کا خواب اگرچہ حجت شرعی نہیں تاہم یہ فیضان الوہیت اور برکات نبوت سے ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اس سے مراد علم نبوت ہے یعنی رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جزو حصہ ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم) غور کیاجائے تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور بہتر خواب کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی ہے اوراسے نبوت کا پرتو قرار دیا ہے۔

                واضح رہے کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اوراس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکّل ہوکر نظر آتی ہیں، مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ ور روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن وخیال ان ہی باتوں کی فکر اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ ور روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، یا ایک شخص اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتا ہے اوراس کے ذہن پر ہروقت اسی محبوب کا سایہ رہتا ہے تو اس کے خواب کی دنیا پر بھی وہی محبوب چھایا رہتا ہے۔ غرض کہ عالمِ بیداری میں جس شخص کے ذہن وخیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے، وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہے۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔

                دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا۔ چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اورڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔ کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل وصورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوفزدہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی جاتی نظر آتی ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ جو موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہوجاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے۔ پہلی قسم کی طرح یہ بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔ اسی طرح کے ڈراؤنے اور برے خواب سے حفاظت کے لیے حدیث میں اس دعا کی ہدایت دی گئی ہے۔ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضبِہ وَعَذَابِہ وَمِنْ شَرِّ عِبَادِہ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیاطِیْنَ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ․ (ابوداؤد وترمذی) ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اوراس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وساوس و اثرات سے اوراس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں“۔

                خواب کی تیسری قسم وہ ہے جس کو منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اوراس کے قلب کے آئینہ میں بطورِ اشارات وعلامات ان چیزوں کو مشکل کرکے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے یا جن کا تعلق موٴمن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اورجس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ (مظاہرحق جدید)

                اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور خوشخبری ہوتی ہے کہ وہ بندہ خوش ہو اور اس کا وہ خواب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے حسن سلوک اورامید آوری کا باعث اور شکر خداوندی میں اضافہ کا موجب بنے اور برا خواب شیطانی اثرات کا عکاس ہوتاہے یعنی برے خواب سے انسان فطری طور پر پریشان اور غمگین ہوتا ہے جس سے شیطان بڑا خوش ہوتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ جو شخص برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے اس کو چاہیے کہ بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور اپنی اس کروٹ کو تبدیل کردے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سورہا تھا۔(مشکوٰة:۳۹۴)


                دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی اس طرح کا خواب دیکھے تو اس طرف توجہ نہ دے اور نہ اس کو کسی دشمن یا دوست کے پاس بیان کرے، اللہ کی پناہ مانگنے اور تین بار تھتکارنے سے انشاء اللہ وہ اس برے خواب کے مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ایساخواب کسی دشمن یا دوست کے سامنے بیان نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر جب خراب تعبیر دے گاتواس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا لازم آئے گا۔ دل ودماغ میں مختلف قسم کے اندیشے، وسوسے اور مختلف اوہام وخیالات پیدا ہوں گے جن سے وہ شخص پریشان ہوگا اور خواہ مخواہ اس کا سکون و چین متاثر ہوگا، اسی کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے

پیار کا وعدہ ففٹی،ففٹی پار ٹ1


 یہ بات نہیں تھی کہ راحیل کو انیتا سے محبّت نہیں تھی لیکن انیتا کی سست روی نے جہان گھر کو ماسیون کا محتاج بنادیا تھا وہیں راحیل کے رویّے  میں بھی ایک بےزاری کی جھلک نظر آنے لگی تھی وہ سو چ بھی نہیں سکتا تھا کہ یونیورسٹی کی تعلیمی زندگی میں چاق و چوبند رہنے والی انیتا شادی کے بعد گھر یلو زندگی میں ایک کاہل الوجودبیوی ثابت ہو گی،راحیل کو انیتا سےشادی کےبعد اس میں صرف دو ہی باتین بہت مرغوب نظر آرہی تھیں ایک وقت بےوقت اٹھکر میکے چلے جانا دوسرے ،اپنی بیوٹی کی نگہداشت کے نام پر کئ کئ گھنٹےکے لئے بیوٹی پارلرمیں جا کر بیٹھ جانا ،اس کی بے توجّہی کا یہی ،نتیجہ نکلنا تھا کہ ہر وقت خوش خوش رہنے والا راحیل بھی جھنجھلا ہٹ کا شکار ہو ہی گیا ،،،،،،کیا مصیبت ہئے! راحیل آفس جانے سے پہلے گریبان کےٹوٹے ہوئے بٹن والی شرٹ ہاتھ میں اٹھا کر انیتا کو دکھاتے ہوئے بولا جس کے جواب میں انیتا نے بلکل ٹھنڈے لہجے میں اطمینان سے کہا -،،،،ہاں ! کلماسی نہیں آئ تھی ،،،اور تم مجھ سے پہلے بتا دیتے تو میں اسے بٹن لگانےکو کہدیتی ,

ہاں تمھارے پاس تو میرے اور گھر کے ہر مسئلے کا ایک ہی جواب ہے،یہ کام کیوں نہیں ہو ا? ماسی نہیں آئ ،،،وہ کام کیوں نہیں ہوا ماسی نہیں آئ ،،تو اس میں اتنا خفا ہونے کی کیا ضرورت ہئے کوئ سی ٹی شرٹ  پہن لو ، انیتا نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے سے ہیر برش اٹھاکر اسٹولپربیٹھتے ہوئے بلکل اطمینان بھرے لہجے میں راحیل سے کہا تو راحیل نےاسے بھڑک کر جوابدیا ہاں ! کمپنی ڈائریکٹر کے ساتھ میٹنگ میں کاؤ بوائے بن کر جاؤں یہ تم کواچھا لگے گا پھر راحیل شرٹ اپنے شانے پر ڈال کر الماری سے دوسری شر ٹ ڈ ھونڈتے ہوئے بڑ بڑایا ،اس سے اچھّا تھا کہ میں کسی ماسی سے شادی کرلیتا راحیل کی آواز اتنی اونچی تھی کہ انیتا نے سنی اور اپنی جگہ سےجواب میں کہا ,,,اگر تمھاری اوقات ماسی کا شوہر بننے کی ہئے تو اب کر لو-ماسی سے شادی ،انیتا راحیل کی بات کا جواب دے کر کمرے سے باورچی خانے میں آ گئ اور راحیل شانے پر پڑی ہوئ شرٹ کارپٹ پر پٹخ کر الماری سے دوبارہ دوسری شرٹ ڈھونڈنےمیں لگ گیا

،زرا سی دیر میں ایک شرٹ اس کے ہاتھ لگی جو پینٹ  اور ٹائ سے میچ تونہیں کر رہی تھی لیکن کام چلانے کی حد تک پہنی جاسکتی تھی ،اس نے ٹائ بھی وہیں کارپٹ پر پھینک دی،،،،،جلدی جلدی تیّار ہوکر-ڈائیننگ ٹیبل پر آ یا تو ناشتہ ڈائیننگ ٹیبل پر لگا ہوا تھا لیکن انیتا خود موجود نہیں تھی اس لئے وہ ناشتے کے بغیر ہی گاڑی میں آ بیٹھا اور گھرسے گاڑی سے تیزی سے نکال لے گیا ,,سرونٹ کواٹر کی تکمیل میں ابھی وقت باقی تھا کہ راحیل کوآ فس کے سلسلے سے ایک ہفتےکے لئے,,ناشتے کے بغیر راحیل کے یوں چلے جانےسےانیتا کے ضمیر نے اس کو آگاہ کیا کہ وہ ماسیون کے معاملے میں واقعی کوئ رعائت نا کر کے خود ہی تکلیف اٹھاتی ہئے ،محلے میں الگ مشہور ہو گیاتھا کہ انیتا ماسیون سے بے رحمانہ سلوک کرتی ہےاور ماسی کتنی ہی محنت کااچھّا کام کیوں نا کرلے اس کے کام کو کبھی سراہتی بھی نہیں ہےنتیجہ یہ ہواکہ اب اس کا گھر مایوسیو ں کے معاملے میں اتنا بد نام ہو چکا تھا کہ اب اس کے گھرکو ئ ماسی آنے کو تیّار ہی نہیں تھی اور گھرکئ روز سے ماسی کے بغیر چل رہا تھا جس کی وجہ سے گھر کی ہر' ہر شے بےترتیب ہو گئ تھئ اس صورتحال پر انیتا نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ اب ماسیوں سے الجھے گی نہیں ,تو دوسری جانب راحیل نے فیصلہ کیا کہ گھر میں چوبیس گھنٹے رہنےوالی ملازمہ کا بندوست کر لیاجائے ،تاکہ یہ ماسی کے آنے اور جانے کا چکّرہی ختم ہوجائے ،

جب راحیل نے انیتا سے اپنی خواہش کا زکرکیا تو وہ خوشی یےکھل اٹھی -راحیل نے انیتا سے کہا کہ بنگلے کے اوپر سرونٹ کواٹربنوا لیتے ہیں -لیکن انیتا نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تم نے پیچھے گیلری میں ناریل کے پودے لگانے کی جو جگہ رکھّی ہئے وہاں پر بنوالو اور پھر انہی دنوں میں انیتا کو ایک نحیف و نزار چندھیائ ہوئ آنکھوں والی ماسی مل ہی گئ اور اب اسکوکم سے کم برتن دھونے اور جھاڑو پونچھے کی مصیبت سےچھٹکارہ چاہئے تھا سو اس نے اسی لاغر ،بوڑھی ماسی کو دل و جان سے قبول کرلیا-ادھر 'راحیل کو دوسرے شہر جانے کے آرڈر مل گئے اور وہ کواٹر کی تعمیر کاکام ٹھیکیدار کے سپرد کر کے جاتے جاتے بھی چوبیس گھنٹے گھر پر رہنےوالی ملازمہ کا اشتہار اخبار میں دے کر گیا ،ٹوور سے واپسی پرشام کی چائےپر دونوں آمنےسامنے بیٹھے تھے کہ راحیل نے چائے کا گھونٹ لے کرانیتا سےسوال کیا،،،،کیا ہوا بھئ ? کس بارے میں سوال کر رہے ہو ?انیتا نے اس سے خود بھی سوال  کردیا،،،وہ جو مین نے ملازمہ کا اشتہار دیا تھا،،راحیل نے وضاحت کی تو انیتا کہنے لگی فون توکئ ایک آئے ہیں ٹیلیفونریکارڈر میں محفوظ ہیں خود ہی دیکھ کر جو کوئ مناسب لگے تو اسے رکھ لوانیتا کہ کر جیسے اپنی طرف سے اپنی زمّہ داری سے بر ی ہو گئ اور اس کی باتپرراحیل کہنے لگا بھئ گھر پر تم رہتی ہو میرے مناسب اور نا مناسب کہدینے سے کیا ہوتا ہئے اصل رضامندی تو تمھاری ہو نی چاہئے راحیل نے انیتاسے کہا تو کہنے لگی میرے دل کو تو کوئ بھی مناسب نہیں لگا ہئے،،ایسا کرتےہیں کہ کچھ اور انتظار کرلیتے ہیں ،

 جیسا تم پسند کرو ،کہ کر راحیل اپنے  کام سے اس کے پاس سے اٹھ گیا ،،،،اور پھر انیتا کے بھائ کی شادی   سر پر آگئ ،انیتا حسب معمول اس کی تیّاریوں میں لگی تو دوسری جانب ایک دن بوڑھی ماسی کام کاج سے فارغ ہو کرگھر جانے سے پہلےراحیل کے سر پر کھڑی اس سے مخاطب تھی ،،صاب جی! ہاں بولئے کیابات ہئے ،،میں کل گاؤں جارہی ہوں ،صاب جی میری بہن بیمار ہے،،گاؤں سےچٹّھی آئ ہے وہ کہ رہی ہئے ملنے آجاؤ,,ماسی کی بات پر را حیل کچھ جز بزسا ہو کربولا,,,, تو جائیں ،،،راحیل کے جواب میں ماسی کہنےلگی صاب جی ہم غریب لوگ ہیں کہتے ہوئے لاج آتی ہئے پر کیا کریں،،تم ہی سےتو کہیں گے ،بولئے کیا بات ہئے راحیل کی سمجھ میں اس وقت قطعی نہیں آسکا کہ ماسی کیا کہنا چاہ رہی ہئے ،،صاب جی کچھ مدد کردو ،،،ماسی کےجواب میں راحیل نے پرس سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کو دیتے ہوئے کہاماسی جی آپ کو ہمارا بھی ایک کام کرنا ہو گا ،،کیا کام ہے بو لو صاب جی،ماسی نے کہا ،،گاؤں سے واپسی پر زرا ایک اچھّے ہاتھ پاؤں والی گھرسنبھالنے کےلئے ملازمہ لیتی آئے گا اور ہم آپ کو بھی نہیں ہٹائیں گے اسیطرح سے کام کرتی رہئے گا جیسے کر رہی ہیں راحیل نے سہولت سے کہا تو وہ دعا   دیتے ہوئے بولی،صاب جی تینوں جم جم جیو یں ست ہزاریاں ،می تینو ں لائے لاوان گی ر احیل کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئےماسی چلی گئ- جاری ہے

منگل، 30 اپریل، 2024

میں کیا کروں ؟ایک بیٹی کا سوال

   


کراچی میں  کاؤنسلنگ  کے کیسز پر کا م کرتے ہوئے  بعض  بڑے  ہی دکھ  بھرے کیسز میرے سامنے آئے ،،کاش  آج کی لڑکی سمجھ سکے کہ شادی  کی اہمیت کیا ہوتی ہے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی  ہے سسرال کے ہر ستم کو سہہ جانے   کا درس اس کے دل کے ورق 'ورق پر لکھا ہو تو شائد ہمارے معاشرے میں  یہ ستم گر داستانیں جنم ہی نالیں

آیئے   ایک کہانی ا یک   بیٹی کی زبانی سنتے ہیں

میں کیا کروں ؟

میں بیرونِ ملک مقیم ہوں ،یہ میری دوسری شادی ہے ،میرے پہلے شوہر انتہائ خوبرو   اور مجھ سے عمر میں صرف دو سال بڑے تھے  - وہ  ہماری امی کے قریبی عزیز تھے میری  ساس بہت ظالم اور انا پرست تھیں  اور میرے شوہر ماں کے تابعدار تھے سال پیچھے اللہ نے میری گود بھر دی تب میری ساس  نے دھوم دھام سےمیری نومو لود  بیٹی کا عقیقہ کیا  لیکن میرے ماں باپ  تک کو نہیں پوچھا گیا   بس اخبار کے ایک ٹکڑے  کی  ایک پڑیا میں لپیٹ کر عقیقہ کا گوشت بھیج دیا گیا  جسے میری امّی نے واپس کر دیا  ،،خیر سوا مہینہ کا زچّہ خانہ سسرال  میں پورا کر کے مجھے میکہ  بھیجا گیا  کہ میں اپنے گھر والوں سے مل کر آجاؤں میری امّی کو عقیقہ میں نا بلائے جانے کا غبار تھا  سو جب میرے  شوہر مجھ سے اور بیٹی سے ملنے آتے امّی ان سے اچھّا برتاؤ نہیں کرتی تھیں-ابھی مجھے آئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ میرے شوہر مجھ سے اور اپنی بیٹی سے ملنے ہمارے گھر آنے لگے   اور امّی کی کڑوی باتیں اور ان کا پھیکا رویہّ دیکھ کر انہوں نے مجھ سے کہا گھر واپس چلو  دوسری طرف سے میری ساس بھی میرے شوہر کے کان بھر کر  ان کو ہمارے گھر بھیجتی تھیں اس طرح چند روز میں ہی  بات بڑھ گئ اور میری امّی نے مجھے سسرال واپس بھیجنے سے انکار کر دیا  اور میرے شوہر سے خلع کا مطالبہ کر دیا 

امّی کے جواب میں میرے شوہر نے بھی   اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا میری بیٹی مجھے واپس کردو اور  میں ابھی خلع نامہ پر سائن کر دیتا ہوں اور میری امّی نے میری گود سے میری سوا مہینے کی بیٹی لے کر  میرے شوہر کے حوالے کی اور  خلع نامہ پر ان کے دستخط لے لیئے ،میرے جہیز کا تنکا تنکا میرے گھر پر چند روز بعد واپس آ گیا  -جب تک جہیز واپس نہیں آیا تھا میرے دل کو  ناجانے کیوں یقین نہیں آتا تھا کہ میں طلاق جیسے حادثہ سے گزر چکی لیکن جس دن جہیز واپس آیا مجھےبلکل ایسا لگا کہ میرا  جنازہ کسی  نے  میری قبر سے واپس  باہر پھینک دیا ہو مجھے اسی رات سے دورے پڑنے لگے اور میں چیختی ہوئ اٹھ اٹھ کر گھر سے بھاگنے لگی ،میری بیٹی مجھے لا دو،میری بیٹی مجھے لادو ،،پھر میرا نفسیاتی علاج شروع ہوا اور میں برس بھر میں نارمل زندگی میں لوٹ سکی ایسے میں ایک صاحب جو باہر رہتے تھے ان کا رشتہ میرے لئے آیا  امّی نے  میری مرضی پوچھی میں نے کہا امّی جینا ہی تو ہے تو بس یہاں یا وہاں بات برابر ہے آپ کے سر سے میرا بوجھ اتر جائے گا  سو میری شادی اپنے باپ کے برابر اس شخص سے  ہو گئ  جو پہلے سے ایک 15 برس کے بیٹے کا باپ تھا  پھر وہ مجھے بھی  باہر لے آیا یہاں بھی ایک ہی سٹریٹ پر بھری پُری انتہائ جھگڑالو  سسرال ملی جو میرے شوہر پر حاوی تھی  اللہ نے یہاں بھی مجھے  اولاد عطا کر دی  لیکن میرے شوہر مجھے اٹھتے  اور بیٹھتے طعنہ دیتے  ہیں کہ تم کتنی ظالم عورت ہو اپنی  ننھی بچّی کو  کتنے آرام سے  جدا کر دیا مجھے تمھارا قطعئ اعتبار نہیں کل کلاں کو میرے بچّے بھی میرے حوالے کر کے چلتی بنو گی ،

لڑکی نے بتا یا کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے  کہ  میرے موجودہ شوہر میرے ماں باپ کو ہر دوسرے تیسرے دن کال کر کے  انہیں زہنی ازّیت پہنچانے کو کہتے ہیں کہ میں آپ کی بیٹی کو  جہاز میں بٹھا رہا ہوں  طلاق نامہ گھر پر مل جائے گا  میری بوڑھی  ماں میرا بیمار اور ضعیف باپ  ان کے دلوں پر ایسی کالز سن کر کیا گزرتی ہو گیپھر اس نے کہا آنٹی یقین جانئے  کہ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ میں اپنے شوہر کی طعنہ زنی سے بچنے کو کہاں جاؤں -میں نے لڑکی کو کچھ نصحتیں کیں اور روحانی علاج میں سورہء نساء پڑھنے کی تاکید کی اور گھر میں ہر پکنے والے کھانے پر یا ودودُ پڑھ کر دم کرنے کو کہا -کچھ مہینوں بعد لڑکی جب کراچی آئ تب ا مجھ سے بھی ملنے آئ  اوراس نے بتایا کہ اس کی  زندگی میں کلام الٰہی کی بر کت سے یہ تبدیلی آئ کہ وہ ماں کی بیماری پر کراچی آسکی ہے اور اس کے شوہر نے اسے خود سے بھیجا   -پھر اس نے  مجھے بتایا کہ سورہء نساء  پڑھنے کی برکت سے شوہر کا دل موم ہو گیا ہے  اوراب وہ ازیّت بھری   باتیں بھی نہیں  کرتے ہیں،،میں نے  لڑکی  کی باتوں پر اطمینان کا اظہار کیا  اور اس سے کہا تم  اپنے سماج کو اپنی زندگی کے اس تلخ تجربہ سے کیا پیغام دو گی: توو ہ کہنے لگی شادی کے بعد ہر لڑکی بس یہ سمجھ لے کہ میکہ اس  کی شادی کے بعد کہیں ایسی جگہ ہجرت کر گیا جہان  تک اس کی سسرال کی  شکایات کی  رسائ ناممکن ہےتبھی لڑکی اپنا گھر بسا سکتی ہے ،

میں اپنی زندگی کے اجڑنے کی زمّہ دار اپنی ماں سے شکایات  کرنے کو  ٹہراتی ہوں اور ساتھ ہی اپنی امّی کو بھی پورا  پورا قصوروار کہتی ہوں کہ انہوں نے میری شکایات کرتے رہنے کی حوصلہ افزائ کیوں کی مجھے سمجھایا کیوں نہیں کہ ہر لڑکی کو انہی منزلوں سے گزرنا ہوتا ہےاور اس پر ستم یہ کیا میری ماں نے کہ  میری گود سے میری لختِ جگر چھین کر مجھے  شوہر سے طلاق دلوائ ، میری امّی چاہتیں تو مجھے سمجھا سکتی تھیں کہ ہر لڑکی اپنی شادی شدہ  زندگی کےابتدائ برس ا سی طرح مرتے جیتے گزارتی ہے اس لئے تم بھی    گزارو ،لڑکی خاموش ہو گئ اور کہانی تمام ہو گئ اور میرے اپنے دل پرگہرا اثر چھو ڑگئ- ننھی بچّی نے  جب اپنی  ماں کے سینے پر اترنے والا اپنا دسترخوان ڈھونڈا ہو گا تو کیا ہوا ہو گا-اس کہانی میں لڑکی تمام وقت بولتی رہی تھی اور بہت بولنے والی ماں  کے لب بلکل خاموش  تھے اور نظریں زمین پر جھکی  رہی تھیں

   

پیر، 29 اپریل، 2024

ایک گوہر نایاب'حمایت علی شاعر

 
 زندگی میں کبھی  'کبھی اتنے خوبصورت اتّفاقات آ جاتے ہیں کہ زہن کے پردے پر تمام عمر ان لمحات کا نقش قائم رہتا ہے-تو ہوا یوں کہ انیس ننانوے کی پہلی سہ ماہی چل رہی تھی اور میں الحمد للہ جنوری اور فروری میں تینوں بچّوں کی شادیوں سے فراغت پا کر بیٹھی تھی کہ میرے والد کا نارتھ ناظم آباد سے فون آیا 'و الد کہ رہے تھے کہ اورنگ آباد سےوحید الحسن  بھائ صاحب آئے ہیں اگر تم ملنا چاہو تو آ جاؤ - ابا جان کا فون سن کر میرا دل خوشی سے بھر گیا -اس وقت بڑی بہو اپنے میکے گئ ہوئ تھی اور چھوٹی میرے پاس تھی میں نے چھوٹی بہو سے کہا کہ بیٹا تم ڈرائور کو بلا کر اپنے میکے چلی جاؤ تو میں اپنے والد کے پاس ہوآؤں -بہو نے جواب دیا      آپ اپنے والد کے پاس چلی جائیے میں اکیلے رہ لوں گی  -چنانچہ میں اپنے والد صاحب کے پاس چلی گئ  اور اپنے منجھلے تایا سید وحید الحسن عابدی سے ملی -تایا جان بہت دیر مجھے اپنے سینے سے لگائے رہے اور پھر میں نے اپنے تایا جان سے بہت سی باتیں کیں  انہوں نے  لکھنے کے لئے قلم اور پیپر رکھّا ہوا تھا  وہ جو سوال کرتے گئے میں  ان  کوجواب دیتی گئ  اور وہ لکھتے گئے -بچّوں کی تعلیم بہووں کی تعلیم بیٹیوں کی تعلیم دامادوں کی تعلیم انہوں نے تعلیم پوچھی میں تعلیم کے ساتھ عہدے بھی بتاتی گئ اور  تایاجان سبحا ن اللہ ماشاللہ کہتے گئے -                    پھر تایا جان نے مجھ سے کہا کہ  ان کو حمائت علی شاعر نے اپنے  گھر  بلایا ہے  -اگر تم چلنا چاہو تو ساتھ چلو اور مین بغیر چوں چرا کے اپنے تایا جان اور والد صاحب کے ہمرا جناب حمائت علی شاعر کے گھر پہنچ                 گئ -

 

وہ ملاقات بہت ہی خوبصورت تھی جس میں میرے والد اور حمائت علی شاعر  اور میرے تایا جان  اپنے بچپن کی باتوں اور شرارتوں کو یاد کر کےدل کھول  کر ہنس رہے تھےاسی ملاقات میں مجھے معلوم ہوا کہ  درپن اور سنتوش کی فیمیلی  بھی انہی کی گلی  کی رہائشی تھی  -اس ملاقات کے بہانے  جناب حماءت علی شاعر نے بہت ہی پر تکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا -اس نشست میں جناب  حما    ئت علی  شاعر اور میرے درمیان  شاعری اور ادب لطیف پر بہت سیر حاصل گفتگو ہوئ  اور انہوں نے مجھے ہدائت کہ کہ میں  نثری ادب یاد رکھوں یا نہیں یاد رکھوں لیکن مجھے  اپنی  شاعری ضرور یاد رکھنی ہے   ملاقات کے اختتام پر انہون نے اور میں نےدوبارہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا  'لیکن جیسا کہ میں نے اوپر زکر کیا کہ  حال ہی حال میں بچوں کی شادیا  ں ہوئیں تھیں اس لئے  میری گھریلو مصروفیات دوچند تھیں  اور پھر  وہ  کینیڈا آ گئے اور میں بھی  کینیڈا آ گئ  اور ہماری ملاقات کی آرزو تشنہ ہی رہ گئ کیونکہ وہ مسی ساگا میں رہائش پذیر تھے اور میری سکونت ایڈمنٹن  میں تھی  جس کا فاصلہ

 

پانچ گھنٹے کی فلائٹ پر ہے-اب کچھ جناب حمائت  علی شاعر کے بارے میں
                                      میں نے ا      پنے بچپن میں کسی سے سنا تھا کہ حیدر آباد کی سرزمین چونکہ آتش فشانی ہے اس لئے یہاں پر ہیرے بکثرت پائے جاتے ہیں قارئین کو یاد بھی ہو گا کہ شہرہء آفاق ہیرا کوہ نور بھی سرزمین دکن سے برامد ہوا تھا ،،جب آگے میری عمر نے شعور کی سیڑھِی پر قدم رکھّا اور مجھے زمانہ آ شنائ ملی تب معلوم ہوا کہ سر زمین دکن صرف اپنے تہہ زمین خزانوں میں ہی ہیرے نہیں رکھتی بلکہ اس کے اوپر کی  آباد دنیا بھی ہیرے اور جواہرات سے مرصّع ہے جنوبی ہندوستان کے شہرحیدرآباد کے ایک ضلع اورنگ آباد میں ایک میر خاندان سے تعلّق رکھنے والے معزّز فرد سیّد تراب علی کے گھر میں چودہ جولائ سنہء انّیس سو چھبّیس کو   ایک بچہ پیدا   ہوا جس  کا پیدائشی نام حمایت تراب علی رکھّا گیا جو اپنے تخلّص کی بنیا د پر حمائت علی شاعر زبان زد عام ہو گیا ہےجی ہاں تو میں بات کر رہی ہوں اس سرزمین کے شعراء کی جن کا سرا والئ ء دکن قلی قطب شاہ سے شروع ہو ا اور پھر اس قافلے نے اپنا سفر روکا نہیں ہجرت کے قافلے میں شامل ہو کر ہندوستان سے لے کر پاکستان کی سر زمین تک حمائت علی شاعر بن کر محیط ہو گیا '  انہوں نے  پاکستان کی سر زمین  پر اپنی لیاقت اور ہونہاری کے جھنڈے  گاڑے-

 

2002ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی  کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔ گیت نگار اسکرپٹ رائٹر،لاتعداد فِلمی گیتوں کے خالق ، ڈرامہ نگار، ہدایت کار، فلم ساز اور نا جانے کتنے گن جو میری رسائ میں نہیں آ سکے ہیں جبکہ ان کی نثری تصانیف"شیخ ایاز" شخص وعکس کھلتے کنول سے لوگ 'بنگال سے کوریا تک نے اردو بینوں میں بہت پذیرائ ملی مشاعروں میں ان کی خوش الحانی اور ترنّم کا جداگانہ اور دل کو موہ لینے والا انداز لوگ ابھی تک یاد کرتے ہیں انہوں نے روایات سے انحراف بھی نہیں کیا اور معاشرے کی دھڑکتی ہوئ نبض کو بھی سنبھالے رکھاوہ  لاتعداد تصانیف کے مصنّف ہیں اور ان کی کئ تصانیف کے کئ کئ ایڈیشن چھپتے رہے قرض   تشنگی کا سفر آگ میں پھول ، حرف حرف روشنی شکست آرزو د چراغ محفل (مختلف شعرا کے کلام)، عقیدت کا سفر (نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)،آئینہ در آئینہ (منظوم خودنوشت سوانح حیات)،، کھلتے کنول سے لوگ(دکنی شعرا کا تذکرہ)،ہارون کی آواز (نظمیں اور غزلیں)، تجھ کو معلوم نہیں(فلمی نغمات) محبتوں کے سفیر(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔ حمایت علی شاعر کونگار ایوارڈ(بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا

 

۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازامحترم حمایت علی شاعر سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت استاد درس دیا اور اس کے بعد ریڈیو سے بھی اپنے ہنر کا لوہا منوایا ۔جب وہ بحیثیت استاد کے کھڑے ہوئے تو انہوں نے اپنے طالبعلموں کو صرف زیورعلم نہیں دیا بلکہ درس انسانیت سے بھی بہرہ مند کیا جب انہوں فلمی گیت لکھے تو گیتوں کے بول دل کی گہرائ میں ثبت ہو گئےجب وہ ہدائت کار بنے تو ہیرے تراش کر سماج کو دے دئے مشاعروں میں بلائے گئے تو اسٹیج پر ان کے آنے سے مجمع دم بخود ہو کر سنتا رہا اور سر دُھنتا رہا انہوں نے شاعری کو سخن ملبوس دے دیا اور وہ بیسویں صدی کا ترنّم آمیز دور بن گئے ہجرت کے بعد پہلے کراچی میں سکونت اختیار کی اور اب مستقلاً کینیڈا میں آباد ہیں۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ ثلاثی کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔میں نے جب یہ مضمون لکھا تھا وہ حیات تھے-'اللہ انکو  اپنی رحمت کے سائے میں رکھے -آمین 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر