ماسی نےپانچ سو کانوٹ اپنے ایک ہاتھ مین پکڑ کر اسے دوسرے ہاتھ سےلپیٹ کر اپنی میلی کچیلی اوڑھنی کے پلّو مین باندھ لیا اور دعائیں دیتی ہوئ گھر سے چلی گئ ماسی کوگئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ایک چھٹّی کے دن راحیل اور انیتا دونو ں ہی لاؤنج میں بیٹھے یہی بات کر ہےتھے اس بارگاؤں سے آنے والی ماسی بار بار کےجانے آنے کی فرمائشیں کر کے تنگ نہ کرے گی ان کے درمیان ابھی یہی بات چیت جاری تھی دروازے کی بیل پر راحیل نے دروازہ کھولاتو ماسی چند روز ہی گاؤن میں گزار کر واپس آگئ تھی اوراپنے ساتھ ایک پکّے رنگ کی سانولی سلونی اچھّے قد کاٹھکی لڑکی بھی ساتھ لے کر آئ تھی ،،،،گھر کے اندر آتے ہی اس نے انیتا سےکہا یہ میری نواسی ہے بیگم صاب اور پھر لڑکی کی طرف گھوم کر بولی سلام کر شنّو،،شنّو نےاس حکم پر مشینی انداز میں اپنا ایک ہاتھ ماتھے پررکھ کرکھردری آوازمیں کہا سلام بیگم صاب ،صاب جی کو بھی سلام کر،اور پھر شنّو نے راحیل کو دیکھکرکہا سلام صاب جی ،وعلیکم وسّلا م اور سلام کا جواب دے کر راحیل نے محسوس کیا کہ اب اسکی وہاں ضرورت نہیں ہے اس لئے اٹھ کر اندر چلاگیا اور پھر بوڑھی مدقوق ماسی تو وہیں انیتاکے قدموں میں بیٹھ گئ لیکن شنّوجہاں کھڑی تھی کھڑی ہی رہی ،تم تو زیادہ دن کی چھٹّی کا کہ کر گئیں تھیں پھر اتنی جلدی کیسے آگئیں -
بیگم صاب جنازہ تو ہو ہی گیا تھا پھر میں کیا کرتی وہاں رہ کر اس لئے واپس آگئ -اچھا کیا انیتا نے ماسی کو جواب دیا پھر شنّو سے سوال کیا -کیا کیا کام کر لیتی ہو؟ انیتا نے جیسے ہی شنّو سے سوال کیا اس کی زبان قینچی کی طرح چل پڑی بیگم صاب سارے کام کر لیتی ہوں جھاڑو پونچھا ،آٹا روٹی ،ہنڈیا سالن،کپڑے استری ،،،،اور۔ اور،لیکن انیتا نے اسے روک دیا ،،بس ،،،معلوم ہو گیا آؤ اب میں تمھیں تمھارے رہنے کی جگہ دکھا دوں ،انیتا کہ کر اٹھ کھڑی ہوئ اوردونوں نانی نوا سی کو اپنے ساتھ لے کر سرونٹ کواٹر راحیل نے صرف اسی ایک مقصدسے نوک پلک سے سنوارا تھا کہ نئ آنے والی ماسی کا دل کواٹر کی آسائشیں دیکھ کرہی لگ جائے ،،،،کواٹر کے اندر آکر شنّو کی آنکھوں میں خوشی کے ستارے چمکنے لگےاور اس کی بوڑھی نانی کی چندھی آنکھیں مذید چندھیا گئیں کہ اب وہ بھی اس جگہ چین سکون سے بیٹھ کر دو روٹی کھاسکے گی ,,,,,,اور پھر شنّو کے شب وروز انیتا کےاحکامات کے پابند ہو گئے ،آ نے والے دنون میں جب ایک چھٹّی کا دن تھا اور اسوقت شنّو کو انیتا کے حکم کے مطابق کچن کیبنٹ کی صفائ کرنا تھی جس کے لئے وہ کچن میں آچکی تھی کہ انیتابھی اپنے چہرے پر کولڈ کریم کا مساج کرتے ہوئے آگئ اور شنّو سے بولی,ارے شنّو دیکھ صاحب کے کپڑے پہلے استری کر دے پھر دوسرا کام کرنا,,وہ کہیں جانے کو کہ رہے تھے اور شنّو انیتا کے حکم دیتے ہی وہاں سے پل بھر میں چھلاوے کی طرح ہٹ کر استری اسٹینڈ پر تھی ،،
اس نے راحیل کے کپڑے استری کر کے ان کو ہینگر پر ڈالا اور ہینگر پکڑ کرانیتا کے پاس آکر بولی بیگم صاب کپڑے استری کردئے ہیں ،اور انیتا نے اس سے کہا ارے یہ میرے پاس کیوں لائ ہئے صاب کے پاس لے جا ! اور شنّو پلک جھپکتے میں راحیل کے کمرے کے دروازےپر آ گئ اور دروازے میں ہی کھڑے ہوئے بولی صاب جی اپنے کپڑے لے لو راحیل اسوقت کمپیوٹر پر مصروف تھا اس لئے اس نے شنّو کی طرف دیکھے بغیر کہا میں کام کر رہاہوں تم ہی آ کر الماری میں سیٹ کردو اور اب شنّوکو راحیل کا حکم ماننا تھا,,پھر شنّو نے جیسے ہی الماری کھولی ویسے ہی بے ساختہ بولی اف توبہ! کتنی بھر رہی ہے تمھاری الماری اور پھر جگہ بنا کر اس نے کپڑے ٹانگ دئے اور کمرے سے جاتے جاتے کہنے لگی زراباورچی خانے کی صفائ ہو لے تو پھر تمھاری الماری بھی صاف کر دوں گی ،راحیل نےماؤس پکڑے پکڑے شنّو پر ایک نظر ڈالی جو اب کمرے سے واپس جارہی تھی ،اورپھر اس نے شنّو کو آہستہ سے پکارا ،،شنّو !،جی صاب جی شنّو راحیل کی پہلی آواز پر ہی گھوم کر اس کے پاس آگئ اور بولی جی صاب جی اور راحیل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے شنّو کو کیوں اپنے پاس بلایا ہے پھر ایک دم کہنے لگا زرا میرے لئے ایک پیالی چائے تو بنا لا ،،اور شنّوبغیر ایک لمحے کی دیر کئے اس کے کمرے سے پھر باورچی خانے میں آ گئ اورپھر اسےخیال آیا کہ وہ انیتا سے بھی پوچھ لے کہ اگر اسے بھی چائے پینی ہو تو دو پیالی بنا لے ،اس نے انیتاکے کمرے میں اسے جاکر دیکھاتو وہڈریسنگ ٹیبل کے سامنے اسٹو ل پر بیٹھی اپنے سامنے رکھّی گرم پانی کی دیگچی سے بھاپ لینے کی تیّاری کر رہی تھی
پھر شنّو نے بس راحیل کے لئےایک پیالی چائے بنائ اور اس کے کمرے میں دینے چلی گئ ،راحیل نے دیکھا صرف ایک پیالی چائے کو ہی شنّو کس سلیقے سے لے کر آئ تھی ،شنّو راحیل کے سامنےچائے رکھ کرجاتے جاتے کہنے لگی صاب جی چائے میں چینی نہیں ہے اپنے حساب سے ڈال لینا،شنّو میں مصروف ہوں ،راحیل نے کہا تو وہ واپس پلٹ کر آ گئ اور راحیل سےپوچھا صاب جی چینی کتنی ڈالو ں ? ڈیڑھ چمچ ! راحیل نے مختصر لفظوں میں اس
کوجواب دیا تو کہنے لگی نا جی نا ں صاب جی ! اتنی چینی مت پیا کرو نقصا ن کرتی ہے ،بس ایک چمچ پینے کی عادت ڈال لو اور چائے مین چینی ڈال کر راحیل کے رو برو دینےآ ئ تو اس نے شنّو کوپہلی بار نظر بھر کر دیکھا ،،عمر یہی کوئ ا ٹھّارہ انّیس برس کے لگ بھگ ,گہرے پکّے سانولے رنگ پر نارنجی رنگ کے لباس مین ملبوس لڑکی جس کے سرسرسوں کے تیل کی بدبوبھبھک رہی تھی اور بالون کی کس کر گوندھی ہوئ چوٹی میں رنگ برنگ کا لہراتا پراندہ ڈالے آنکھوں میں گہرا گہرا کاجل لگائے وہ میلے میں سجائ ہوئ گائے کی مانند نظر آرہی تھی ،،لیکن اس لڑکی کے گھر آجانے سے راحیل کی زندگی میں ترتیب آ گئ تھی ،اب اس کو شرٹس کےبٹن کبھی بھی ٹوٹے نہیں ملتے تھے ،شنّو اسے چائے دے کر چلی گئ اور راحیل کے دل میں ایک سوال نے جنم لیا ،شنّو کی عمرتو ایسی ہے جس میں انکی منگنی یا شادی انہی کے خالہ زاد چچا زاد یا پھر کسی اور سے ہو جاتی ہیں تو شنّواب تک کیوں اپنے گھر کی نہیں ہوئ ,,,, شنّو کو انیتا نے حکم دے دیا تھاکہ جب وہ گھر پر نا ہو تب وہ کواٹر سے اپنی نانی کے ساتھ ہی گھر کا کام
کرنےآیا کرے ،،اور اس کی نانی بھی انیتا کے کہنے کی پاسداری کر رہی تھی لیکن ایک دن جب کہ صبح راحیل کو ناشتہ دینے شنّو آئ تو انیتا اپنی بہن کوچھوڑنے ائر پورٹ جاچکی تھی اور راحیل کے لئے شنّو نے ناشتہ تیّار کر کے لگایااور راحیل سے جا کر کہا کہ ناشتہ میز پر لگا دیا ہے اور خود بھی وہ کچھ فاصلے پرکارپٹ پر اپنی چائے لے کر بیٹھ گئ -راحیل
ٹیبل پر ناشتے کے لئے آیا تو ادھر ادھر دیکھ کر بولا آج تمھار ی نانی کہاں ہے ،صاب جی وہ تو سو رہی بوڑھی جان کو میں نے اٹھانا ٹھیک نہیں جانا اور راحیل نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائ اور پھر بولا آج دفتر سے بازار ہوتا ہوا آؤں گا تمھارے لئے کیا لاؤں ,,اور شنّو نے کہا صاب جی اسی کول پیسے نہیں ہیں -میں تمھاری پسند کو پوچھ رہا ہو ں-پیسے نہیں ،راحیل کے کہنے سے اس کی ہمّت ہوئ تو کہنے لگی صاب جی میرے کو تو کلائ میں پہننے والی گھڑی اچھّی لگتی ہےاور راحیل نے موقع ملتے ہی اس سے پوچھ لیا ،،شنّو گاؤں میں تیراکسی سے رشتہ وشتہ ہوا ہے تو شنّو تنک کر کہنے لگی توبہ کرو صاب جی ،و ہ مری خالہ کا لڑکاہے ناں ! بھنگی ،چرسی،جواری ، ماں کہ رہی تھی تیر ی خایخالہ نے رشتہ ڈالا ہئے ،پر میں نے کہ دیا اس نکمّےسے مجھے بیاہ نہیں کرنا ہے،سارا سارا دن چارپائ پر پڑے پڑے روٹیاں توڑتا رہتا ہئے یا نشے میں دھت پڑا رہتا ہے ،اس سے تو اچھا ہے میں خود گھروں میں کام کاج کر کے دوروٹی کھا لوں گی شنّو کی بات بہت غور سے سن کر نا شتہ ختم کر کے آفس چلاگیا ,,,,اور پھر ایک دن وہ انیتا سے چھپا کر بازار سے شنّو کی گھڑی لے کرآیا اور پھر گھر فون کیا تو معلوم ہوا کہ انیتا گھر پر نہیں ہے اور شنّو اکیلی ہی کام کر رہی ہے ،،تو وہ گھر آگیا اور آتے ہی اس نے شنّو کو گھڑینکال کر دی تو وہ خوشی سے کھل اٹھی اور اس نےگھڑی دیکھ کرکہا ہائے ربّامیں تو خواب میں بھی ایسی گھڑی نہیں خرید سکتی تھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں