بدھ، 1 مئی، 2024

پیار کا وعدہ ففٹی،ففٹی پار ٹ1


 یہ بات نہیں تھی کہ راحیل کو انیتا سے محبّت نہیں تھی لیکن انیتا کی سست روی نے جہان گھر کو ماسیون کا محتاج بنادیا تھا وہیں راحیل کے رویّے  میں بھی ایک بےزاری کی جھلک نظر آنے لگی تھی وہ سو چ بھی نہیں سکتا تھا کہ یونیورسٹی کی تعلیمی زندگی میں چاق و چوبند رہنے والی انیتا شادی کے بعد گھر یلو زندگی میں ایک کاہل الوجودبیوی ثابت ہو گی،راحیل کو انیتا سےشادی کےبعد اس میں صرف دو ہی باتین بہت مرغوب نظر آرہی تھیں ایک وقت بےوقت اٹھکر میکے چلے جانا دوسرے ،اپنی بیوٹی کی نگہداشت کے نام پر کئ کئ گھنٹےکے لئے بیوٹی پارلرمیں جا کر بیٹھ جانا ،اس کی بے توجّہی کا یہی ،نتیجہ نکلنا تھا کہ ہر وقت خوش خوش رہنے والا راحیل بھی جھنجھلا ہٹ کا شکار ہو ہی گیا ،،،،،،کیا مصیبت ہئے! راحیل آفس جانے سے پہلے گریبان کےٹوٹے ہوئے بٹن والی شرٹ ہاتھ میں اٹھا کر انیتا کو دکھاتے ہوئے بولا جس کے جواب میں انیتا نے بلکل ٹھنڈے لہجے میں اطمینان سے کہا -،،،،ہاں ! کلماسی نہیں آئ تھی ،،،اور تم مجھ سے پہلے بتا دیتے تو میں اسے بٹن لگانےکو کہدیتی ,

ہاں تمھارے پاس تو میرے اور گھر کے ہر مسئلے کا ایک ہی جواب ہے،یہ کام کیوں نہیں ہو ا? ماسی نہیں آئ ،،،وہ کام کیوں نہیں ہوا ماسی نہیں آئ ،،تو اس میں اتنا خفا ہونے کی کیا ضرورت ہئے کوئ سی ٹی شرٹ  پہن لو ، انیتا نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے سے ہیر برش اٹھاکر اسٹولپربیٹھتے ہوئے بلکل اطمینان بھرے لہجے میں راحیل سے کہا تو راحیل نےاسے بھڑک کر جوابدیا ہاں ! کمپنی ڈائریکٹر کے ساتھ میٹنگ میں کاؤ بوائے بن کر جاؤں یہ تم کواچھا لگے گا پھر راحیل شرٹ اپنے شانے پر ڈال کر الماری سے دوسری شر ٹ ڈ ھونڈتے ہوئے بڑ بڑایا ،اس سے اچھّا تھا کہ میں کسی ماسی سے شادی کرلیتا راحیل کی آواز اتنی اونچی تھی کہ انیتا نے سنی اور اپنی جگہ سےجواب میں کہا ,,,اگر تمھاری اوقات ماسی کا شوہر بننے کی ہئے تو اب کر لو-ماسی سے شادی ،انیتا راحیل کی بات کا جواب دے کر کمرے سے باورچی خانے میں آ گئ اور راحیل شانے پر پڑی ہوئ شرٹ کارپٹ پر پٹخ کر الماری سے دوبارہ دوسری شرٹ ڈھونڈنےمیں لگ گیا

،زرا سی دیر میں ایک شرٹ اس کے ہاتھ لگی جو پینٹ  اور ٹائ سے میچ تونہیں کر رہی تھی لیکن کام چلانے کی حد تک پہنی جاسکتی تھی ،اس نے ٹائ بھی وہیں کارپٹ پر پھینک دی،،،،،جلدی جلدی تیّار ہوکر-ڈائیننگ ٹیبل پر آ یا تو ناشتہ ڈائیننگ ٹیبل پر لگا ہوا تھا لیکن انیتا خود موجود نہیں تھی اس لئے وہ ناشتے کے بغیر ہی گاڑی میں آ بیٹھا اور گھرسے گاڑی سے تیزی سے نکال لے گیا ,,سرونٹ کواٹر کی تکمیل میں ابھی وقت باقی تھا کہ راحیل کوآ فس کے سلسلے سے ایک ہفتےکے لئے,,ناشتے کے بغیر راحیل کے یوں چلے جانےسےانیتا کے ضمیر نے اس کو آگاہ کیا کہ وہ ماسیون کے معاملے میں واقعی کوئ رعائت نا کر کے خود ہی تکلیف اٹھاتی ہئے ،محلے میں الگ مشہور ہو گیاتھا کہ انیتا ماسیون سے بے رحمانہ سلوک کرتی ہےاور ماسی کتنی ہی محنت کااچھّا کام کیوں نا کرلے اس کے کام کو کبھی سراہتی بھی نہیں ہےنتیجہ یہ ہواکہ اب اس کا گھر مایوسیو ں کے معاملے میں اتنا بد نام ہو چکا تھا کہ اب اس کے گھرکو ئ ماسی آنے کو تیّار ہی نہیں تھی اور گھرکئ روز سے ماسی کے بغیر چل رہا تھا جس کی وجہ سے گھر کی ہر' ہر شے بےترتیب ہو گئ تھئ اس صورتحال پر انیتا نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ اب ماسیوں سے الجھے گی نہیں ,تو دوسری جانب راحیل نے فیصلہ کیا کہ گھر میں چوبیس گھنٹے رہنےوالی ملازمہ کا بندوست کر لیاجائے ،تاکہ یہ ماسی کے آنے اور جانے کا چکّرہی ختم ہوجائے ،

جب راحیل نے انیتا سے اپنی خواہش کا زکرکیا تو وہ خوشی یےکھل اٹھی -راحیل نے انیتا سے کہا کہ بنگلے کے اوپر سرونٹ کواٹربنوا لیتے ہیں -لیکن انیتا نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تم نے پیچھے گیلری میں ناریل کے پودے لگانے کی جو جگہ رکھّی ہئے وہاں پر بنوالو اور پھر انہی دنوں میں انیتا کو ایک نحیف و نزار چندھیائ ہوئ آنکھوں والی ماسی مل ہی گئ اور اب اسکوکم سے کم برتن دھونے اور جھاڑو پونچھے کی مصیبت سےچھٹکارہ چاہئے تھا سو اس نے اسی لاغر ،بوڑھی ماسی کو دل و جان سے قبول کرلیا-ادھر 'راحیل کو دوسرے شہر جانے کے آرڈر مل گئے اور وہ کواٹر کی تعمیر کاکام ٹھیکیدار کے سپرد کر کے جاتے جاتے بھی چوبیس گھنٹے گھر پر رہنےوالی ملازمہ کا اشتہار اخبار میں دے کر گیا ،ٹوور سے واپسی پرشام کی چائےپر دونوں آمنےسامنے بیٹھے تھے کہ راحیل نے چائے کا گھونٹ لے کرانیتا سےسوال کیا،،،،کیا ہوا بھئ ? کس بارے میں سوال کر رہے ہو ?انیتا نے اس سے خود بھی سوال  کردیا،،،وہ جو مین نے ملازمہ کا اشتہار دیا تھا،،راحیل نے وضاحت کی تو انیتا کہنے لگی فون توکئ ایک آئے ہیں ٹیلیفونریکارڈر میں محفوظ ہیں خود ہی دیکھ کر جو کوئ مناسب لگے تو اسے رکھ لوانیتا کہ کر جیسے اپنی طرف سے اپنی زمّہ داری سے بر ی ہو گئ اور اس کی باتپرراحیل کہنے لگا بھئ گھر پر تم رہتی ہو میرے مناسب اور نا مناسب کہدینے سے کیا ہوتا ہئے اصل رضامندی تو تمھاری ہو نی چاہئے راحیل نے انیتاسے کہا تو کہنے لگی میرے دل کو تو کوئ بھی مناسب نہیں لگا ہئے،،ایسا کرتےہیں کہ کچھ اور انتظار کرلیتے ہیں ،

 جیسا تم پسند کرو ،کہ کر راحیل اپنے  کام سے اس کے پاس سے اٹھ گیا ،،،،اور پھر انیتا کے بھائ کی شادی   سر پر آگئ ،انیتا حسب معمول اس کی تیّاریوں میں لگی تو دوسری جانب ایک دن بوڑھی ماسی کام کاج سے فارغ ہو کرگھر جانے سے پہلےراحیل کے سر پر کھڑی اس سے مخاطب تھی ،،صاب جی! ہاں بولئے کیابات ہئے ،،میں کل گاؤں جارہی ہوں ،صاب جی میری بہن بیمار ہے،،گاؤں سےچٹّھی آئ ہے وہ کہ رہی ہئے ملنے آجاؤ,,ماسی کی بات پر را حیل کچھ جز بزسا ہو کربولا,,,, تو جائیں ،،،راحیل کے جواب میں ماسی کہنےلگی صاب جی ہم غریب لوگ ہیں کہتے ہوئے لاج آتی ہئے پر کیا کریں،،تم ہی سےتو کہیں گے ،بولئے کیا بات ہئے راحیل کی سمجھ میں اس وقت قطعی نہیں آسکا کہ ماسی کیا کہنا چاہ رہی ہئے ،،صاب جی کچھ مدد کردو ،،،ماسی کےجواب میں راحیل نے پرس سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر اس کو دیتے ہوئے کہاماسی جی آپ کو ہمارا بھی ایک کام کرنا ہو گا ،،کیا کام ہے بو لو صاب جی،ماسی نے کہا ،،گاؤں سے واپسی پر زرا ایک اچھّے ہاتھ پاؤں والی گھرسنبھالنے کےلئے ملازمہ لیتی آئے گا اور ہم آپ کو بھی نہیں ہٹائیں گے اسیطرح سے کام کرتی رہئے گا جیسے کر رہی ہیں راحیل نے سہولت سے کہا تو وہ دعا   دیتے ہوئے بولی،صاب جی تینوں جم جم جیو یں ست ہزاریاں ،می تینو ں لائے لاوان گی ر احیل کو ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئےماسی چلی گئ- جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر