منگل، 30 اپریل، 2024

میں کیا کروں ؟ایک بیٹی کا سوال

   


کراچی میں  کاؤنسلنگ  کے کیسز پر کا م کرتے ہوئے  بعض  بڑے  ہی دکھ  بھرے کیسز میرے سامنے آئے ،،کاش  آج کی لڑکی سمجھ سکے کہ شادی  کی اہمیت کیا ہوتی ہے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی  ہے سسرال کے ہر ستم کو سہہ جانے   کا درس اس کے دل کے ورق 'ورق پر لکھا ہو تو شائد ہمارے معاشرے میں  یہ ستم گر داستانیں جنم ہی نالیں

آیئے   ایک کہانی ا یک   بیٹی کی زبانی سنتے ہیں

میں کیا کروں ؟

میں بیرونِ ملک مقیم ہوں ،یہ میری دوسری شادی ہے ،میرے پہلے شوہر انتہائ خوبرو   اور مجھ سے عمر میں صرف دو سال بڑے تھے  - وہ  ہماری امی کے قریبی عزیز تھے میری  ساس بہت ظالم اور انا پرست تھیں  اور میرے شوہر ماں کے تابعدار تھے سال پیچھے اللہ نے میری گود بھر دی تب میری ساس  نے دھوم دھام سےمیری نومو لود  بیٹی کا عقیقہ کیا  لیکن میرے ماں باپ  تک کو نہیں پوچھا گیا   بس اخبار کے ایک ٹکڑے  کی  ایک پڑیا میں لپیٹ کر عقیقہ کا گوشت بھیج دیا گیا  جسے میری امّی نے واپس کر دیا  ،،خیر سوا مہینہ کا زچّہ خانہ سسرال  میں پورا کر کے مجھے میکہ  بھیجا گیا  کہ میں اپنے گھر والوں سے مل کر آجاؤں میری امّی کو عقیقہ میں نا بلائے جانے کا غبار تھا  سو جب میرے  شوہر مجھ سے اور بیٹی سے ملنے آتے امّی ان سے اچھّا برتاؤ نہیں کرتی تھیں-ابھی مجھے آئے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ میرے شوہر مجھ سے اور اپنی بیٹی سے ملنے ہمارے گھر آنے لگے   اور امّی کی کڑوی باتیں اور ان کا پھیکا رویہّ دیکھ کر انہوں نے مجھ سے کہا گھر واپس چلو  دوسری طرف سے میری ساس بھی میرے شوہر کے کان بھر کر  ان کو ہمارے گھر بھیجتی تھیں اس طرح چند روز میں ہی  بات بڑھ گئ اور میری امّی نے مجھے سسرال واپس بھیجنے سے انکار کر دیا  اور میرے شوہر سے خلع کا مطالبہ کر دیا 

امّی کے جواب میں میرے شوہر نے بھی   اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا میری بیٹی مجھے واپس کردو اور  میں ابھی خلع نامہ پر سائن کر دیتا ہوں اور میری امّی نے میری گود سے میری سوا مہینے کی بیٹی لے کر  میرے شوہر کے حوالے کی اور  خلع نامہ پر ان کے دستخط لے لیئے ،میرے جہیز کا تنکا تنکا میرے گھر پر چند روز بعد واپس آ گیا  -جب تک جہیز واپس نہیں آیا تھا میرے دل کو  ناجانے کیوں یقین نہیں آتا تھا کہ میں طلاق جیسے حادثہ سے گزر چکی لیکن جس دن جہیز واپس آیا مجھےبلکل ایسا لگا کہ میرا  جنازہ کسی  نے  میری قبر سے واپس  باہر پھینک دیا ہو مجھے اسی رات سے دورے پڑنے لگے اور میں چیختی ہوئ اٹھ اٹھ کر گھر سے بھاگنے لگی ،میری بیٹی مجھے لا دو،میری بیٹی مجھے لادو ،،پھر میرا نفسیاتی علاج شروع ہوا اور میں برس بھر میں نارمل زندگی میں لوٹ سکی ایسے میں ایک صاحب جو باہر رہتے تھے ان کا رشتہ میرے لئے آیا  امّی نے  میری مرضی پوچھی میں نے کہا امّی جینا ہی تو ہے تو بس یہاں یا وہاں بات برابر ہے آپ کے سر سے میرا بوجھ اتر جائے گا  سو میری شادی اپنے باپ کے برابر اس شخص سے  ہو گئ  جو پہلے سے ایک 15 برس کے بیٹے کا باپ تھا  پھر وہ مجھے بھی  باہر لے آیا یہاں بھی ایک ہی سٹریٹ پر بھری پُری انتہائ جھگڑالو  سسرال ملی جو میرے شوہر پر حاوی تھی  اللہ نے یہاں بھی مجھے  اولاد عطا کر دی  لیکن میرے شوہر مجھے اٹھتے  اور بیٹھتے طعنہ دیتے  ہیں کہ تم کتنی ظالم عورت ہو اپنی  ننھی بچّی کو  کتنے آرام سے  جدا کر دیا مجھے تمھارا قطعئ اعتبار نہیں کل کلاں کو میرے بچّے بھی میرے حوالے کر کے چلتی بنو گی ،

لڑکی نے بتا یا کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے  کہ  میرے موجودہ شوہر میرے ماں باپ کو ہر دوسرے تیسرے دن کال کر کے  انہیں زہنی ازّیت پہنچانے کو کہتے ہیں کہ میں آپ کی بیٹی کو  جہاز میں بٹھا رہا ہوں  طلاق نامہ گھر پر مل جائے گا  میری بوڑھی  ماں میرا بیمار اور ضعیف باپ  ان کے دلوں پر ایسی کالز سن کر کیا گزرتی ہو گیپھر اس نے کہا آنٹی یقین جانئے  کہ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ میں اپنے شوہر کی طعنہ زنی سے بچنے کو کہاں جاؤں -میں نے لڑکی کو کچھ نصحتیں کیں اور روحانی علاج میں سورہء نساء پڑھنے کی تاکید کی اور گھر میں ہر پکنے والے کھانے پر یا ودودُ پڑھ کر دم کرنے کو کہا -کچھ مہینوں بعد لڑکی جب کراچی آئ تب ا مجھ سے بھی ملنے آئ  اوراس نے بتایا کہ اس کی  زندگی میں کلام الٰہی کی بر کت سے یہ تبدیلی آئ کہ وہ ماں کی بیماری پر کراچی آسکی ہے اور اس کے شوہر نے اسے خود سے بھیجا   -پھر اس نے  مجھے بتایا کہ سورہء نساء  پڑھنے کی برکت سے شوہر کا دل موم ہو گیا ہے  اوراب وہ ازیّت بھری   باتیں بھی نہیں  کرتے ہیں،،میں نے  لڑکی  کی باتوں پر اطمینان کا اظہار کیا  اور اس سے کہا تم  اپنے سماج کو اپنی زندگی کے اس تلخ تجربہ سے کیا پیغام دو گی: توو ہ کہنے لگی شادی کے بعد ہر لڑکی بس یہ سمجھ لے کہ میکہ اس  کی شادی کے بعد کہیں ایسی جگہ ہجرت کر گیا جہان  تک اس کی سسرال کی  شکایات کی  رسائ ناممکن ہےتبھی لڑکی اپنا گھر بسا سکتی ہے ،

میں اپنی زندگی کے اجڑنے کی زمّہ دار اپنی ماں سے شکایات  کرنے کو  ٹہراتی ہوں اور ساتھ ہی اپنی امّی کو بھی پورا  پورا قصوروار کہتی ہوں کہ انہوں نے میری شکایات کرتے رہنے کی حوصلہ افزائ کیوں کی مجھے سمجھایا کیوں نہیں کہ ہر لڑکی کو انہی منزلوں سے گزرنا ہوتا ہےاور اس پر ستم یہ کیا میری ماں نے کہ  میری گود سے میری لختِ جگر چھین کر مجھے  شوہر سے طلاق دلوائ ، میری امّی چاہتیں تو مجھے سمجھا سکتی تھیں کہ ہر لڑکی اپنی شادی شدہ  زندگی کےابتدائ برس ا سی طرح مرتے جیتے گزارتی ہے اس لئے تم بھی    گزارو ،لڑکی خاموش ہو گئ اور کہانی تمام ہو گئ اور میرے اپنے دل پرگہرا اثر چھو ڑگئ- ننھی بچّی نے  جب اپنی  ماں کے سینے پر اترنے والا اپنا دسترخوان ڈھونڈا ہو گا تو کیا ہوا ہو گا-اس کہانی میں لڑکی تمام وقت بولتی رہی تھی اور بہت بولنے والی ماں  کے لب بلکل خاموش  تھے اور نظریں زمین پر جھکی  رہی تھیں

   

1 تبصرہ:

  1. یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیٹیوں کے گھر ماوں کی مداخلت کے سبب اجڑتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر