جمعہ، 15 دسمبر، 2023

ساہیوال جیل میں درود ابرا ہیمی کی محفل


 یہ میرا ایک پرانا مضمون ہے جو ایمیلز کی تلاش کے دوران ہاتھ لگا پھر ایک بار آپ سب سے شئر کر رہی ہوں اس اُمید کے ساتھ یقیناً آپ لوگوں کو بھی پسند آئے گا

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ .إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌاللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ .إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ پاکستان کے علاقے پنجاب کے شہر ساہیوال کی جیل کا احوال اس طرح سے بتایا جاتا ہے -ساہیوال جیل کے سارے قیدی یا تو طالب علم ہیں یا استاد ہیں ،جو پڑھے لکھے ہیں وہ پڑھاتے ہیں جو ان پڑھ ہیں وہ پڑھتے ہیں یو ں وہ ہیڈ ماسٹر ،پی ٹی سر ، وائس پرنسپل ،پرنسپل کے عہدے سنبھالے اپنی قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جس تیزی سے اس جیل کا تعلیمی ماحول فروغ پا رہا ہے گمان غالب ہے کہ بہت جلد کسی کو وائس چا نسلر بھی نام زد کرنا پڑے گا-تعلیم بالغاں، اور روائتی تعلیمی نصاب الغرض پہلی جماعت سے سولہویں جماعت تک کلاسز جاری ہیں -ووکیشنل ٹریننگ او-ر ویلڈنگ کورسز کے علاوہ مجھے بتا یا گیا کہ الیکٹریکل انجینئر بننے تک کی سا ری سہولیات یہان ں موجود ہیں-جیل میں چار ہزار مسلمان اور ستّا ئیس غیر مسلم قیدی ہیں ان قیدیوں میں چالیس خواتین قیدی بھی ہیں نماز کی پابندی کرنے والے قیدی کو قید میں رعائت دی جاتی ہے ،

غیر مسلموں کو ان کی عبا دت کی آزادی اور سہو لت ہےہر مسلمان قید ی پر روزانہ 200 مرتبہ درود پڑھنا لا زم ہے ،،اس سے زیاد ہ پڑ ھنے والے کو قید میں چھوٹ ملتی ہے ،روزانہ سارا درود شریف ایک جگہ جمع کروا دیا جاتا ہے اور پھر جہلم کی تحصیل ‘‘ دینہ‘‘ کے موضع چک عبد الخالق میں سیّد حسنات احمد کمال کے پاس جمع کروایا جاتا ہے جو درود شریف کے ورلڈ بنک سر پرست ہیں ،،سا ہیوال کی اس جیل کے تعلیمی نظام کے انچارج ڈ پٹی جیلر شیخ محمّد اکرام  کا کہنا ہے کہ  درود شریف کا کمال یہ ہے کہ جو قیدی یہاں سے رہا ہوتا ہے وہ دوبارہ کبھی جیل میں مجرم کے طور پر نہیں آیا شیخ اکرام کو جیل میں د رود شریف کے اجرا کی تاکید مسجد نبوی میں ندیم پیر زادہ نے کی تھی جو ان د نوں ڈیرہ غازی خان میں جیلر تھے اور آج کل لاہور کے ایم اے او کالج کے پروفیسر ہیں -

 ،جبکہ 12 اسسٹنٹ جیلر ،اور ایک جیلر کامران انجم ہیں-مزہبی تعلیمی پروگرام کے انچارج قاری عبد العزیز ہیں ،ملتان انٹر میڈیٹ بورڈ ، بہا الدّین زکریا یونیورسٹی ،علّا مہ اقبال اوپن یونیور سٹی مدرسہ حافظ نزر محمّد لاہور ،جمیعت تعلیم القران کراچی سے اس کا تعلیمی الحاق ہے-امتحانات کے دنوں میں جیل امتحانی مرکز بنی ہوتی ہے ،،جیل میں لائبریری بھی ہے ، جسے نادر و نایاب کتا بیں پہنچانے کا بیڑہ لاہور سے ملک مقبول احمد نے اٹھا یا ہےوہ قیدی جو سزا ختم ہونے کے بعد جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیل میں پڑے رہتے ہیں انہیں لاھور کے علّامہ عبدالستا ر عاصم جو خود بھی کئ کتابو ں کے مولّف ہیں ،رانا فضل الرّحمٰن فا ؤنڈ یشن کی جانب سے جرمانہ ادا کر کے چھڑاتے ہیں--ساہیوال جیل کی دیگر خوبصورت باتوں میں سے ایک خوبصورت بات یہ ہے کہ وہاں کوئ جھوٹ نہیں بولتا ہے عملہ بھی اور قیدی بھی ،سچ جیل کی بنیاسی شناخت اور اصول ہے-

ہمارے آج کے سیاستداں حکومت میں ہوں یا اپو زیشن میں انہیں کچھ عرصے ساہیوال جیل میں گزارنا چاہئے ،سچّائ کے حصول کے لئے پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی پکار رہی ہے چلو چلو ساہیوال جیل چلو-پیارے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجنا تمام مسلمین اور مؤمنین کی روزمرّہ زندگی کا لازمی جزو ہے کیونکہ ہم کم از کم پانچ دفعہ نماز میں درودِ ابراہیمی کے کلمات دہراتے ہیں۔ مومنین کو نبی کی طرف سے بروز جمعہ درود و سلام کی کثرت کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ اس دن ہمارا درود و سلام نبی ﷺ تک پہنچایا جاتا ہے ۔ درود پڑھنے کی بے پناہ فضیلت ہے کہ ایک دفعہ پڑھنے سے دس نیکیاں بڑھائی جاتی ہیں، دس گناہ مٹائے جاتے ہیں اور دس درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ درودِ ابراہیمی میں ایسا کیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان کلمات کو ہر آن دہرا رہے ہیں۔ 

درودِ ابراہیمی پر غور کرنے سے یہ گمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آلِ محمّد میں سے بھی ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتی ہو گی اور اللہ اور رسول ان سے محبت رکھتے ہوں گے۔ چونکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا معجزہ قرآن تھا اس لیے اللہ اور رسول کی فرمانبردار نسل کا معجزہ بھی غیر معمولی علم ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور لوگوں کا درود و سلام پڑھنا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی روحانی قوّت کو جلا بخشتا ہے اور ان کے مشن کو مقامِ محمود تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جو ان کی وفات کے بعد بھی فعال ہے اور تا قیامت رہے گی۔ صرف زبان سے درود پڑھنے سے زیادہ اس وقت ہمیں عملی طور پر رسول اللہ ﷺ کا دستِ بازو بننے کی ضرورت ہے۔ یہ مقام ہم سیرت ، اخلاص اور اخلاقیات میں نبی ﷺ کی پیروی کر کے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔آئیں ہم سب مل کر یہ دعا کریں کہ اے اللہ پیارے نبی ﷺ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ہمیں ان کے دستِ شفقت کی ضرورت ہے۔ اے اللہ ہمیں اپنے پیارے نبی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے چُن لے

آمین

جمعرات، 14 دسمبر، 2023

خاموش دشمن جاں بیماری''بلڈ پریشر"

ہائی بلڈ پریشر دنیا بھر میں قبل از وقت موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ غیر متعدی بیماریوں کے عالمی اہداف میں سے ایک 2010 اور 2030 کے درمیان ہائی بلڈ پریشر کے پھیلاؤ کو 33 فیصد تک کم کرنا ہے۔جائزہ-ہائی بلڈ پریشر (ہائی بلڈ پریشر) تب ہوتا ہے جب آپ کی خون کی نالیوں میں دباؤ بہت زیادہ ہو (140/90 mmHg یا اس سے زیادہ)۔ یہ عام ہے لیکن اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ سنگین ہوسکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر والے لوگ علامات محسوس نہیں کرسکتے ہیں۔ جاننے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیں۔بڑھتی ہوئ  عمر زیادہ وزن یا موٹاپا ہونا، جسمانی طور پر متحرک نہ ہونا، زیادہ نمک والی غذا بہت زیادہ الکحل پینا، طرز زندگی میں تبدیلیاں جیسے صحت مند غذا کھانا، تمباکو چھوڑنا اور زیادہ متحرک رہنا بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ک

ہائی بلڈ پریشر کو ہائپر ٹینشن بھی کہا جاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے شریانوں کے خلاف خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، جس کہ وجہ سے خون کی نالیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کا شمار عام بیماریوں میں کیا جاتا ہے، کیوں کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ارب اٹھائیس کروڑ ہے۔ جب کہ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق پاکستان میں ہر بیس میں سے نواں شخص ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے۔طبی ماہرین کے مطابق کئی افراد میں یہ مرض خاموش قاتل بھی ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی علامات لمبے عرصے تک ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ ہائپر ٹینشن کی وجہ سے اسٹروکس، دل کی بیماریوں، اور گردوں کے مسائل کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔عمومی طور پر نارمل بلڈ پریشر 80 سے 120 ملی میٹر مرکیوری ہونا چاہیئے، اس کے برعکس ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے بلڈ پریشر نارمل سطح سے بڑھ جاتا ہے۔ 

ہائپر ٹینشن لاحق ہونے کی صورت میں بہت زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے مزید طبی مسائل کے خطرات بڑھ جاتے ہیں -ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30-79 سال کی عمر کے 1.28 بلین بالغ افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں، زیادہ تر (دو

 تہائی) کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں- نصف سے بھی کم بالغ افراد (42%) ہائی بلڈ 

علامات-ہائی بلڈ پریشر والے زیادہ تر لوگ کوئی علامات محسوس نہیں کرتے۔ بہت زیادہ بلڈ پریشر  درد، دھندلا نظر، سینے میں درد اور دیگر علامات کا سبب بن سکتا ہے۔اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کرنا یہ جاننے کا بہترین طریقہ ہے کہ آیا آپ کو ہائی بلڈ پریشر ہے۔ اگر ہائی بلڈ پریشر کا علاج نہ کیا جائے تو یہ دیگر صحت کی حالتوں جیسے گردے کی بیماری، دل کی بیماری اور فالج کا سبب بن سکتا ہے۔بہت زیادہ ہائی بلڈ پریشر والے لوگ (عام طور پر 180/120 یا اس سے زیادہ) علامات کا تجربہ کر سکتے ہیں بشمول:شدید سر درد-سینے کا درد-چکر آنا-سانس لینے میں دشواری-متلی-بے چینی-الجھاؤ-کانوں میں گونجنا-ناک سے خون بہنا-غیر معمولی دل کی تال - کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہائی بلڈ پریشر۔ ہائی بلڈ پریشر کا پھیلاؤ خطوں اور ملکی آمدنی والے گروپوں میں مختلف ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او افریقی خطے میں ہائی بلڈ پریشر کا سب سے زیادہ پھیلاؤ (27%) ہے جبکہ امریکہ کے ڈبلیو ایچ او کے خطے میں ہائی بلڈ پریشر کا سب سے کم پھیلاؤ ہے (18%)۔ ہائی بلڈ پریشر والے بالغوں کی تعداد 1975 میں 594 ملین سے بڑھ کر 2015 میں 1.13 بلین ہو گئی، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا۔

بلڈ پریشر کو دو نمبروں کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ پہلا (سسٹولک) نمبر خون کی نالیوں میں دباؤ کو ظاہر کرتا ہے جب دل سکڑتا ہے یا دھڑکتا ہے۔ دوسرا (ڈائیسٹولک) نمبر برتنوں میں دباؤ کی نمائندگی کرتا ہے جب دل دھڑکنوں کے درمیان آرام کرتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کی تشخیص اس صورت میں کی جاتی ہے جب اسے دو مختلف دنوں میں ناپا جاتا ہے، دونوں دنوں میں سسٹولک بلڈ پریشر کی ریڈنگ 140 mmHg ہے اور/یا دونوں دنوں میں diastolic بلڈ پریشر کی ریڈنگ 90 mmHg ہے۔خطرے کے عوامل-قابل ردوبدل خطرے والے عوامل میں غیر صحت بخش غذا (بہت زیادہ نمک کا استعمال، سیر شدہ چکنائی اور ٹرانس چکنائی والی خوراک، پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال)، جسمانی غیرفعالیت، تمباکو اور الکحل کا استعمال، اور زیادہ وزن یا موٹاپا شامل ہیں۔غیر تبدیل شدہ خطرے کے عوامل میں ہائی بلڈ پریشر کی خاندانی تاریخ، 65 سال سے زیادہ عمر اور ساتھ موجود بیماریاں جیسے ذیابیطس یا گردے کی بیماری شامل ہیں۔ یہ اضافہ بنیادی طور پر ان آبادیوں میں ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کے عوامل میں اضافے کی وجہ سے ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا جواب-ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) صحت عامہ کے مسئلے کے طور پر ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے ممالک کی مدد کرتا ہے۔2021 میں، ڈبلیو ایچ او نے بالغوں میں ہائی بلڈ پریشر کے فارماسولوجیکل علاج کے لیے ایک نئی گائیڈ لائن جاری کی۔ یہ اشاعت ہائی بلڈ پریشر کے علاج کے آغاز کے لیے شواہد پر مبنی سفارشات اور فالو اپ کے لیے تجویز کردہ وقفے فراہم کرتی ہے۔ دستاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے حاصل کیا جانا ہے، اور یہ معلومات بھی شامل ہیں کہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں کون علاج شروع کر سکتا ہے۔امراض قلب کی روک تھام اور کنٹرول کو مضبوط بنانے میں حکومتوں کی مدد کرنے کے لیے، ڈبلیو ایچ او اور ریاستہائے متحدہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (یو ایس سی ڈی سی) نے ستمبر 2016 میں گلوبل ہارٹس انیشیٹو کا آغاز کیا، جس میں ہارٹس تکنیکی پیکیج بھی شامل ہے۔ HEARTS تکنیکی پیکیج کے چھ ماڈیولز (صحت مند طرز زندگی سے متعلق مشاورت، ثبوت پر مبنی علاج کے پروٹوکول، ضروری ادویات اور ٹیکنالوجی تک رسائی، رسک پر مبنی انتظام، ٹیم پر مبنی دیکھ بھال، اور نگرانی کے نظام) قلبی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر فراہم کرتے ہیں۔


اتوار، 10 دسمبر، 2023

2023-12-10 -غزّہ میں موت اور بھوک ناچ رہی ہے

  میں نے ابھی غزّہ کی تازہ صورتحال معلوم کرنے لئے کمپیوٹر کھولا تو اب سے  6 گھنٹے پہلے کی تازہ صورتحال بی بی سی نے اس طرح بیان کی ہوئ ہےاقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے۔قوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ پٹی میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے 10 میں سے نو لوگوں کو روزانہ کا کھانا بھی میسر نہیں۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ غزہ کے جنگی حالات نے رسد اور سامان کی ترسیل کو ’تقریباً ناممکن‘ بنا رکھا ہے۔جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے حماس کے خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھنا ہوں گے۔اسرائیلی دفاعی افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے ہفتے کے روز بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی شہری کی موت اور درد تکلیف دہ ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ہم غزہ پٹی کے اندر جتنا ممکن ہے پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ کے اندر اور باہر نقل و حرکت پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔ واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سخت حفاظتی باڑ کو توڑ دیا تھا اور ان کے حملے میں 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ انھوں نے 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور علاقے پر فضائی حملے شروع کر دیے اور غزہ کے باشندوں کے لیے ضروری سامان کی رسد اور امداد کی ترسیل کو بہت حد تک روک دیا۔حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنی انتقامی مہم میں غزہ کے 17,700 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 7,000 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔

صرف رفح سرحد کھلی ہےمصر کی سرحد سے متصل صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے۔رواں ہفتے اسرائیل نے امدادی لاریوں کے معائنے کے لیے اگلے چند دنوں میں اسرائیل سے غزہ کے لیے کریم شلوم کراسنگ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد ٹرک غزہ میں داخل ہونے کے لیے رفح جائیں گے۔مسٹر سکاؤ نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں موجود 'خوف، افراتفری اور مایوسی' کے لیے تیار نہیں تھے جن کا انھیں اور ان کی ٹیم کو رواں ہفتے غزہ کے دورے کے دوران سابقہ پڑا۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے 'گوداموں میں افراتفری، تقسیم کے مقامات پر ہزاروں مایوس بھوکے لوگوں کے ہجوم، سپر مارکیٹوں کی خالی الماریاں اور خستہ حال باتھ رومز اور پناہ گاہوں میں لوگوں کی گنجائش سے زیادہ بھیڑ' دیکھی۔گذشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ پٹی میں کچھ اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا اصرار ہے کہ غزہ پٹی کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اب دوسرے سرحدی کراسنگ کو کھولے جانے کی ضرورت ہے۔صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے-غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا-غزہ کا شہر خان یونس: جہاں بھوک و افلاس کے باعث ایک نئے انسانی بحران کا خطرہ موجود ہے-

سرائیلی بمباری کے دوران غزہ کا دنیا سے رابطہ منقطع-

سکاؤ کا کہنا ہے کہ بعض جگہ تو ہر دس میں سے نو نو افراد ’رات دن بغیر کسی کھانے کے‘ گزار رہے ہیں۔غزہ کے جنوب میں واقع خان یونس کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کے دو محاذوں پر گھرے شہر کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔شہر کی واحد باقی رہ جانے والی صحت کی سہولت ناصر ہسپتال میں پلاسٹک سرجری اور برنز یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر احمد مغرابی خوراک کی کمی کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رو پڑے۔ انھوں نے کہا: 'میری تین سال کی ایک بیٹی ہے، وہ مٹھائی، سیب اور پھل کے لیے ضد کرتی رہتی ہے۔ میں اسے کچھ نہیں دے سکتا۔ میں خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہوں۔'یہاں کافی کھانا نہیں ہے، بلکہ کھانا ہی نہیں ہے۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ صرف چاول ہی ہے؟ ہم دن بھر میں ایک بار، صرف ایک بار کھاتے ہیں۔خان یونس میں گنجائش سے زیادہ آبادی نے لوگوں کو کھلے میں رہنے پر مجبور کیا ہے-خان یونس کے حالات ناگفتہ بہ -خان یونس حالیہ دنوں میں شدید فضائی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور وہاں کے ناصر ہسپتال کے باس نے کہا کہ ان کی ٹیم کا ہسپتال پہنچنے والے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد پر 'کنٹرول نہیں رہا ہے'۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما خان یونس میں ممکنہ طور پر سرنگوں کے زیر زمین نیٹ ورک میں چھپے ہوئے ہیں، اور یہ کہ وہ گروپ کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے گھر گھر اور 'کونے کونے' میں لڑ رہا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے سنیچر کے روز غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد امریکہ پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔لامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13 ممالک نے جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور امریکہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا

۔فلسطینی اتھارٹی کے رہنما مسٹر عباس نے کہا کہ وہ ’(اسرائیلی) قابض افواج کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے خون بہائے جانے کا ذمہ دار واشنگٹن کو ٹھہراتے ہیں۔‘اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رابرٹ وڈ نے ویٹو کا دفاع کیا اور کہا کہ قرارداد ایک 'غیر پائیدار جنگ بندی' کا مطالبہ کر رہی ہے جس سے 'حماس اس قابل ہو جائے گا کہ وہ 7 اکتوبر کو کیے جانے والے اقدامات کو دہرا سکے۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ’درست موقف‘ کو سراہتے ہیں۔ سات دن کی عارضی جنگ بندی ابھی ایک ہفتہ قبل ختم ہوئی ہے۔ جنگ بندی کے تحت حماس نے اسرائیلی جیلوں میں قید 180 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 78 مغویوں کو رہا کیا تھا۔غزہ میں حماس کے ہاتھوں میں اب بھی 100 سے زائد لوگ یرغمال ہیں۔’غزہ میں انسانی حقوق کے علاقے میں کوئی انسانی حقوق میسّر نہیں‘اسرائیلی فوج نے بار بار غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک ایسے علاقے جسے وہ ’یومینیٹیرین زون‘ کہہ رہے ہیں وہاں منتقل ہو جائیں  خیال رہے کہ یہ علا لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا ہے۔المواصی بحیرہ روم کے کنارے زمین کی ایک تنگ پٹی ہے۔ اس میں چند عمارتیں ہیں اور یہ زیادہ تر ریتیلے ٹیلوں اور زرعی زمین پر مشتمل ہے۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی طرف سے نامزد کیا گیا محفوظ علاقہ صرف 8.5 مربع کلومیٹر (3.3 مربع میل) ہے۔ایک پناہ گزین اس علاقے میں کئی ہفتوں سے زمین پر سو رہی ہیں اور چار دیگر خاندانوں کے ساتھ ایک ہی ٹینٹ میں رہ رہی ہیں۔انھیں لگا کہ یہ جگہ بمباری اور لڑائی سے محفوظ ہو گی لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو بنیادی سہولیات ہی موجود نہیں تھیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پانی ایک دن آتا ہے اور دس دن نہیں آتا، باتھ روم میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اور بجلی کی بھی یہی صورتحال ہے۔اسرائیلی فوج نے کم از کم 15 دفعہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو المواصی جانے کو کہا ہےآ آخری دفعہ انھوں نے 2 دسمبر کو یہ اعلان کیا تھا۔نٹرنیٹ کے محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو غزہ کے دیگر علاقوں میں محفوظ جگہیں ڈھونڈنا مشکل ہوچکا ہے۔ 

تاہم المواصی کے متعلق اسرائیلی فوج کی ہدایات بھی کئی دفعہ تبدیل ہوئی ہیں۔عام شہریوں کا کہنا ہے کہ بدلتے ہوئے پیغامات کی وجہ سے محفوظ علاقوں کی نشاندہی کرنا ان کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہر پوسٹ میں ایک نقشہ ہے جس میں المواصی کے اندر ایک علاقے میں جانے کو کہا جاتا ہے۔لیکن مختلف اوقات میں المواصی کے اندر مختلف مقامات کو اسرائیل نے محفوظ مقام قرار دیا ہے۔مونا الاستال ایک ڈاکٹر ہیں جب ان کے پڑوسی کا گھر بمباری سے تباہ ہو گیا تھا انھیں مجبوراً خان یونس چھوڑ کر المواصی آنا پڑا۔وہ کہتی ہیں کہ بمباری کی آوازوں کی وجہ سے وہ پوری رات جاگتی رہتی ہیں۔مونا بھی اس علاقے میں پانی بجلی اور سہولیات کی عدم موجودگی کا بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ٹینٹ اور دیگر اشیائے ضروریہ کے لیے انھیں 300 ڈالر دینے پڑے۔مونا کہتی ہیں انھوں نے لوگوں کو اقوام متحدہ کے سٹورہاؤس میں زبردستی گھستے ہوئے بھی دیکھا ہے کیونکہ وہ ’بہت بھوکے تھے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔‘

مونا مزید کہتی ہیں ’ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے لیے یہاں خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘

 

 

 

ہفتہ، 9 دسمبر، 2023

عرشی شاپنگ مال آتشزدگی

   

عرشی شاپنگ        مال کی تعمیر شروع ہی ہوئ تھی کہ  اس کی نو تعمیر شدہ چھت بیچارے ان مزدوروں کے اوپر منہدم ہو کر آ گری جو اس کے مقام پر موجود تھے -چھ مزدور اس میں کام آگئے -اس کے  بعد کیا ہوا کچھ خبر نہیں یہ شاپنگ مال مرحوم جام صادق علی کا تھا  اس کے بعد اس کی ملکیت کس کے پاس گئ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے اور اب صورتحا  ل یہ ہے کہ اس مال کے بیچارے دکاندار  فریاد کر رہے ہیں  کہ ہمارا تمام  مال جل گیا ہے دکانداروں کی دہائ-فائر بریگیڈ کی رپورٹ کے مطابق عمارت میں ہنگامی اخراج، ایمرجنسی الارم، اخراج کے سائن موجود تھے، آگ لگنے کی وجوہات کا فی الحال تعین نہیں ہوسکا۔عرشی مال آتشزدگی : دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا-کراچی میں عرشی مال میں آتشزدگی کے 2 روز بعد دکانداروں نے بیچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا جبکہ شاپنگ مال کی دکانوں کوعارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔عائشہ منزل پر واقع عرشی مال میں بدھ کو آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 5 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ گھروں اور دکانوں میں رکھا سامان بھی جل گیا۔ڈپٹی کمشنر کی جانب سے شاپنگ مال کی دکانوں کو عارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔جس کے بعد عرشی مال کے دکانداروں کو اندر جانے کی اجازت دے دی گئی رپورٹ کے مطابق آگ لگنے کی اطلاع 5 بج کر41 منٹ پر ملی، فائر بریگیڈ کی ٹیم 5 بج کر 42 منٹ پرروانہ ہوئی، آگ سے دوسری منزل پر موجود دو اپارٹمنٹس کو معمولی نقصان پہنچا، تیسری منزل پر ایک اپارٹمنٹ مکمل آگ سے متاثر ہوا۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شاپنگ مال کے سامنے کھڑی 18موٹر سائیکلیں ، ایک گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی، آگ سے عمارت میں 76 میں سے 73 اپارٹمنٹس محفوظ رہے، اطراف کی رہائشی عمارتیں، بینک، الیکٹرانک مارکیٹ ، گوداموں کو آگ سے بچایا گیا۔محکمہ فائر بریگیڈ کے مطابق گراؤنڈ فلور پر قائم 169 دکانیں آگ سے جل کر مکمل خاکستر ہوئیں، گراؤنڈ فلور پر 120 دکانوں اور میزنائن فلور پر 30 دکانوں کو جلنےسے بچایا گیا جبکہ گراؤنڈ فلور پر بیشتر دکانیں گدوں، کپڑوں اور لکڑی کے فرنیچر پر مشتمل تھیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آگ گراؤنڈ فلور سے میزنائن فلور تک پھیلی اور پھر فرسٹ فلور کے اپارٹمنٹس میں لگ گئی، محکمہ فائر بریگیڈ کو آگ لگنے کی بروقت اطلاع نہ ملی، فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ کے ایم سی کے 12 فائر ٹینڈرز، 2 واٹر باؤزر، 2 اسنارکل نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، واقعہ میں 500 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔کراچی میں دو روز قبل عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ مال میں آگ لگنے کے واقعے پر کے ایم سی کے محکمہ فائربریگیڈ کی حادثاتی رپورٹ سامنے آگئی جبکہ انتظامیہ نے شاپنگ مال کی دکانوں کوعارضی طور پر ڈی سیل کیا جس کے بعد دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا۔

شہر قائد کے علاقے عائشہ منزل پر واقع عرشی شاپنگ شاپنگ مال میں آگ لگنے کے واقعے کے 2 روز بعد کے ایم سی کے محکمہ فائربریگیڈ کی حادثاتی رپورٹ سامنے آگئی۔فائر بریگیڈ کی رپورٹ کے مطابق عمارت میں ہنگامی اخراج، ایمرجنسی الارم، اخراج کے سائن موجود تھے، آگ لگنے کی وجوہات کا فی الحال تعین نہیں ہوسکا۔رپورٹ کے مطابق آگ لگنے کی اطلاع 5 بج کر41 منٹ پر ملی، فائر بریگیڈ کی ٹیم 5 بج کر 42 منٹ پرروانہ ہوئی، آگ سے دوسری منزل پر موجود دو اپارٹمنٹس کو معمولی نقصان پہنچا، تیسری منزل پر ایک اپارٹمنٹ مکمل آگ سے متاثر ہوا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شاپنگ مال کے سامنے کھڑی 18موٹر سائیکلیں ، ایک گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی، آگ سے عمارت میں 76 میں سے 73 اپارٹمنٹس محفوظ رہے، اطراف کی رہائشی عمارتیں، بینک، الیکٹرانک مارکیٹ ، گوداموں کو آگ سے بچایا گیا۔محکمہ فائر بریگیڈ کے مطابق گراؤنڈ فلور پر قائم 169 دکانیں آگ سے جل کر مکمل خاکستر ہوئیں، گراؤنڈ فلور پر 120 دکانوں اور میزنائن فلور پر 30 دکانوں کو جلنےسے بچایا گیا جبکہ گراؤنڈ فلور پر بیشتر دکانیں گدوں، کپڑوں اور لکڑی کے فرنیچر پر مشتمل تھیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آگ گراؤنڈ فلور سے میزنائن فلور تک پھیلی اور پھر فرسٹ فلور کے اپارٹمنٹس میں لگ گئی، محکمہ فائر بریگیڈ کو آگ لگنے کی بروقت اطلاع نہ ملی، فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ کے ایم سی کے 12 فائر ٹینڈرز، 2 واٹر باؤزر، 2 اسنارکل نے ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا، واقعہ میں 500 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔عرشی مال آتشزدگی : دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیاکراچی میں عرشی مال میں آتشزدگی کے 2 روز بعد دکانداروں نے بچنے والا سامان نکالنا شروع کردیا جبکہ شاپنگ مال کی دکانوں کوعارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔عائشہ منزل پر واقع عرشی مال میں بدھ کو آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 5 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ گھروں اور دکانوں میں رکھا سامان بھی جل گیا۔ڈپٹی کمشنر کی جانب سے شاپنگ مال کی دکانوں کو عارضی طور پر ڈی سیل کردیا گیا۔جس کے بعد عرشی مال کے دکانداروں کواندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نقصان کا تخمینہ لگانے کیلئے اجازت دی گئی ہے، ایک ساتھ  دکانداروں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔

موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دکانداروں نے محفوظ سامان نکلانا شروع کردیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پولیس تمام تر عمل کی نگرانی کررہی ہے۔گزشتہ روز عرشی شاپنگ مال میں آتشزدگی کے واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے فلیٹس کو کلیئر قرار دے کر رہائشیوں کو گھروں میں جانے کی اجازت دے دی تھی۔ ایس بی سی اے کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلڈنگ پہلی سے چار منزل تک رہائش کے قابل ہیں۔شاپنگ مالز میں آتشزدگی کا زمہ دار کون-شاپنگ مال میں آتشزدگی، میئر کراچی نے ملبہ کنٹونمنٹ بورڈ پر ڈال دیا-راشد منہاس روڈ پر شاپنگ مال میں آتشزدگی کے بعد میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جس عمارت میں آگ لگی وہ جگہ کے ڈی اے اور کے ایم سی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی ہے-انہوں نے کہا کہ مذکورہ جگہ کنٹونمنٹ بورڈ کی ہے لیکن اس کے باوجود ہماری ٹیم آگ لگتے ہی موقع پر پہنچ گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کا عملہ کیوں نہیں پہنچ سکا؟۔کمشنر کراچی سلیم راجپوت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمارت میں خارجی راستہ اور  

 فائر الارم سسٹم بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے آگ نے عمارت کو اپنی لپیٹ لے لیا -


بدھ، 6 دسمبر، 2023

سوّا مچھلی ماہی گیر کی لاٹری

 

سوّا مچھلی میں پائے جانے والے ایک بلیڈر کو چین میں شان و شوکت کی علامت تصور کیا جاتا ہے جبکہ لوگ اسے اپنے گھر پر رکھتے ہیں، اس کے علاوہ چینی روایتی ادویات میں بھی اس کے استعمال کا حوالہ ملتا ہےسمندر کو ماہی گیر ’بادشاہ‘ بھی کہتے ہیں بقول ان کے کہ یہ بادشاہ کے انداز میں نوازتا ہے جس سے انسان کی قسمت ہی بدل جاتی ہے۔حال ہی میں کراچی سے تھوڑا دور بحیرہ عرب میں شکار کے دوران ماہی گیروں کے جال میں دو ایسی نایاب مچھلیاں آگئیں جنھوں نے انھیں لکھ پتی بنا دیا۔ان ماہی گیروں کی موبائل پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو کے مطابق جیسے ہی جال کھنچتا ہے تو سندھی زبان میں ایک بزرگ ماہی گیر کی آواز آتی ہے کہ سوّا ہے سوّا۔

جیسے جیسے جال اوپر آتا ہے تو دوسری آواز آتی ہے کہ 'ایک نہیں، دو ہیں دو۔' مچھلیوں سے بھرا یہ جال اوپر کشتی پر پہنچتا ہے تو خوشی کے مارے ایک ماہی گیر کی چیخ نکل جاتی ہے، برف اٹھانے والی قینچی سے ان مچھلیوں کو دوسری مچھلیوں سے الگ کردیا جاتا ہے جبکہ ایک ماہی گیر خوشی میں جھوم اٹھتا ہے۔ابراہیم حیدری کی جیٹی پر یہ دونوں مچھلیاں دس دس لاکھ روپے سے زائد قیمت میں فروخت ہوئیں اور فروخت کے تقریباً دو ماہ کے بعد ان مچھلیوں کی ویڈیو سوشل میڈیا اور اس کے بعد میڈیا پر وائرل ہوئی۔

 سوّا مچھلی کیا ہے اور قیمتی کیوں ہے؟

ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم کے مطابق سوّا کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سندھی میں سوّا اور بلوچی میں کر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔اس کا سائز ڈیڑھ میٹر تک ہوسکتا ہے جبکہ وزن 30 سے 40 کلو بھی ہوسکتا ہے، یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے لیکن نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے۔مچھلی کی برآمد سے وابستہ اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ یہ ہانگ کانگ ایکسپورٹ کی جاتی ہے اور انھوں نے سنا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون محمد معظم کے مطابق اس کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر آتی ہے اور نیچے جاتی ہے، یہ بلیڈر تمام ہی مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں تھوڑے موٹے اور تندرست ہوتے ہیں۔کراچی فشریز میں تازہ پکڑی گئی مچھلیاں نیلامی کے لیے رکھی ہیں'پوٹے کی چینی روایتی کھانوں میں بڑی اہمیت ہے، اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی کرتے ہیں جس طرح ہمارے یہاں لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر پر رکھتے ہیں۔'فرض کرلیں کہ ہمیں جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم سونا فروخت کردیتے ہیں اس طرح چینی بوقت ضرورت اس کو فروخت کرتے ہیں اس کی وجہ سے سوّا مچھلی کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔'

چین کی بعض روایتی ادویات میں بھی سوّا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے درد اور جنسی کمزوریاں شامل ہیں۔غیر سرکاری تنظیم گرین پیس ایشیا کے مطابق ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت 2 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق خاص مواقع پر اسے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات بطور کرنسی بھی اس کا لین دین ہوتا ہے۔ 2008 میں عالمی مالی بحران کے دوران لوگوں نے اس بلیڈر میں سرمایہ کاری کی تھی۔واضح رہے کہ چین میں بعض مچھلیوں کی اقسام کو خوش قسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے، مچھلیوں کا جوڑا بدھ ازم کی آٹھ علامات میں بھی شامل ہے۔ چین کے نئے سالوں کے علامات میں مقبول ایک علامت میں ایک بچے نے ایک بڑی گولڈ فش اور کنول کا پھول اٹھا رکھا ہے۔

چین میں گولڈ فش اور کنول کے پھول کو نئے سال کی علامت تصور کیا جاتا ہےپاکستان میں سوّا کہاں پائی جاتی ہے؟پاکستان میں سوّا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماجگاہ ہے۔ ٹھٹہ کے صحافی غلام حسین خواجہ کے مطابق اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔

کیا سوّا مچھلی معدوم ہو رہی ہے؟ ڈبلیو ڈبلیو ایف کو خدشہ ہے کہ کروکر نسل کی یہ مچھلی پاکستان کے پانیوں سے بھی معدوم ہو رہی ہے۔ محمد معظم کے مطابق پہلے یہ مچھلی کنارے سے لے کر سو میٹر تک پکڑی جاتی تھی مگر اس بلیڈر کی منہ مانگی قیمت کی وجہ سے اب اس کی آبادی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔مچھلی کے ایکسپورٹر اخلاق عابدی کے مطابق کسی زمانے میں ماہی گیر کشتیاں بھر بھر کر سوّا مچھلی لاتے تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہوگئی ہے اور ہفتے میں ایک دو روز ہی کوئی اس کا شکار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ایک چینی ماہی گیر یلو کروکر مچھلی اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے

محمد معظم کا کہنا ہے کہ چین میں ایک مچھلی پائی جاتی تھی جس کو یلو کروکر کہا جاتا تھا، جو اب وہاں نایاب ہوچکی ہے اور کاجھر کریک سر کریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

محمد معظم کے مطابق سوّا کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔ یہ غول کے ساتھ رہتی ہے اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔اب جہاں جہاں دنیا میں یہ پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بہت زیادہ طلب ہے۔

سالار جنگ میو زیم- حیدر آبا د دکن

  کہتے ہیں شوق کا کوئ مول نہیں ہوتا ہے -کیا کبھی آپ نےایسا بھی کوئ سودائ دیکھا ہو گا جو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر زمانے بھر کی پرانی چیزیں جمع کرنے لگ جائے جی ہاں یہ ہیں حیدر آباد دکن کے  سالار جنگ-توآئے ان کے میوزیم کی غائبانہ سیر کرنے چلیں -حیدرآباد  موتیو ں   نگینو ںاور    جوا   ہر ا ت   'ومحلا ت  کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم  دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔ اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔

دس ایکڑ اراضی پر پھیلے اس میوزیم میں نو ہزار مخطوطات، 43ہزار نوادرات اور47ہزار کتابیں ہیں۔گیلریوں میں چوتھی صدی اتنے پرانے نوادرات بھی ہیں۔ان میں انڈین ، ایشیائے مشرق آرٹ ، یوروپین آرٹ، مشرق وسطیٰ آرٹ اور بچوں کے آرٹ پر مشتمل گیلریاں ہیں۔ میوزیم میں سب سے دلچسپ چیز انیسویں صدی کی برطانوی میوزکل گھڑی ہے۔ سیاح گھنٹہ کے پورے ہونے پر کلاک ہال میں جمع ہوجاتے ہیں تاکہ وہ اس مشینی شخص کو دیکھ لیں جو کہ مشین کے اندر سے نکل کر گھنٹی پر ہتھوڑا مارتا ہے۔ میوزیم کا دوسرا اہم اور قیمتی سرمایہ اطالوی مجسمہ ساز جی بی بینزونی کے ذریعہ تراشہ گیا ریبیکا کا مجسمہ ہے

۔ یہاں پر فرانس کے بادشاہ لوئس شانزدہم سے لے کر میسورکے ٹیپو سلطان تک کی ہاتھی کے دانت کی بنی کرسیا ں بھی ہیں۔احترام علی خان کا ماننا ہے کہ تاریخ اور آرٹ کے حوالے سے کوئی جتنے بھی زاویے سے سوچے وہ تمام طرح کے نوادرات یہاں پر موجود پائے گا۔ احترام علی کا یہ بھی اندازہ ہے کہ ان نوادرات کی بدولت یہ میوزیم یوروپ کے میوزموں کو بھی پیچھے چھوڑسکتا ہے۔سالار جنگ میو زیم -یدرآباد جیسے موتیوں اور محلوں کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔ 

اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔ ان کے اہم نوادرات میں سے ویلڈ ریبیکا نامی سنگ مرمر سے تراشا مجسمہ بھی شامل ہے جو کہ انہوں نے روم سے 1876میں حاصل کیا تھا۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔40سال کی محنت سے ان کے ذریعہ اکٹھا کی گئیں نوادرات آج سالار جنگ میوزیم میں تاریخ اورآرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں اور اس سے متعلق طلبہ کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ یوسف علی خان نے نوادرات جمع کرنے کے لیے یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں کا سفر کیا۔

 بعد میں دنیا کے مختلف علاقوں سے تاجر اپنے نوادرات بیچنے حیدرآباد آنے لگے۔۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔ -ان نوادرات میں گزشتہ نظاموں کی بیگمات کی وہ نادر روزگار جیولری بھی شامل ہے جو انہوں نے اپنی وفات کے وقت چھوڑی -یہ ایسی جیولری ہے جو ہیروں اور جواہرات  سے مزیّن ہے اور ایک ایک جیولری کی قیمت کروڑوں ڈالر مالیت ہے-نظام جو پیپر ویٹ استعمال کرتے تھے وہ بھی دنیا کا مہنگا ترین ہیرا ہے-نظام کی چھڑی کا دستہ بھی ہیروں سے مزیّن ہےسالار جنگ میوزیم کے خاص کمرہ / گیلری یسالار جنگ میوزیم میں تقریبا 26 الگ الگ گیلریاں ہیں۔ جہاں نایاب و نادر اشیا نظر کو خیرا کردیتی ہے۔ ان گیلریاں میں قابل ذکر ہیں-شعبہ اطفالہاتھی دانت کی تراش کاری و نقش نگار موسیقی والی گھڑینایاب و نادر عصے والا کمرہفوجی ساز و سامان والا کمرہماڈرن انڈین پینٹنگس گیلریہندوستانی مورتیوں کی گیلریہتھیار اور قدیم و جدید تلواروں کی گیلری

سالار جنگ میوزیم کی پہلی منزل میں دو حصے ہیں۔   سالارجنگ میوزیم میں داخلہ فیس 50 روپے فی شخص ہے، جب کہ طلبہ اور سال کے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے یہ مفت ہے۔ طلبہ ٹکٹ مفت داخلہ حاصل کرنے کے لیے شناختی کارڈ پیش کرنا ہوگا۔ اگر کوئی کیمرے یا موبائل فون ساتھ لے جانا چاہتا ہے، تو اسے الگ سے 50 روپیے ادا کرنا ہوگا۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے ٹکٹ کی قیمت 500 روپے فی کس ہے۔ آڈیو ٹور کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ تقریباً 90 منٹ کے اس آڈیو ٹور کی فیس 60 روپے فی شخص ہے، مذکورہ رقم میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے۔ سالار جنگ میوزیم کے اوقات جمعہ کے علاوہ تمام دنوں میں صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک ہیں۔سالارجنگ میوزیم بورڈ کے ممبر اورسالارجنگ خاندان کے چشم وچراغ نواب احترام علی خان کےمطابق’’انہوںنے اپنا پیسہ گانے بجانے جیسی پارٹیوں میں برباد نہیں کیابلکہ انہوں نے اپنی دولت نوادرات جمع کرنے میں خرچ کی جس کی وجہ سے ان کے محل کی دیوان ڈیوڑھی میں ہزاروں نوادرات  جمع ہوگئے۔ ان کو گویا زیادہ سے زیادہ نوادرات جمع کرنے کا ایک جنون تھا اور دیکھتے دیکھتے اتنے نوادرات جمع ہوگئ کہ محل میں ان کو رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ لہذا انہوں نے اس کو دوسرے محل میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن قبل اس کے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کوپہنچتا داعی اجل کا بلاوا آگیا۔ 

منگل، 5 دسمبر، 2023

اوجھا سینی ٹوریم



یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے جب ٹی بی کا مرض لاعلاج ہوتا تھا اور مریض خون کی الٹیاں کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوجاتا تھا ایسے میں ایک ماں بے بسی کے عالم میں دنیا چھوڑ گئ اور اس کے بیٹے نے سینی ٹوریم بنانے کا ارادہ کیا   ۔ 1997ءمیں اسے گلوبل ٹی بی یونٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اورسارک ٹیوبرکلوسزسینٹر، نیپال نے ٹی بی کے علاج معالجے کے ضمن میں، سینٹر آف ایکسی لینس قراردیا۔ 2003ءمیں جب ڈا میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیاگیا، تو اوجھا کو اس کا کیمپس بنادیاگیا۔ 1931 میں جب سکھرام داس نے حکمت کی اعلی ڈگری حاصل کی تو کراچی کے باسیوں نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی جس میں شہر میں بڑھتے ہوئے ٹی-بی کے مرض پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس مرض کے خلاف دونوں بھائیوں کی خدمات کو بھی بیحد سراہا گیا تھا۔ اسی تقریب کے موقع پر سکھرام داس اوجھا نے اپنے مرحوم بھائی دیپ چند اوجھا کے نام سے یہ تپ دق گھر (سینی ٹوریم) قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اوجھا سینی ٹورییم  ٹی۔بی  کے مریضوں کے لئے کراچی میں 1942 میں قائم ہوا۔ ابتداء میں یہ اٹھاون سنگل اور سات ڈبل کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سینیٹوریم تھا جو اُس وقت کے کراچی شہر سے خاصے فاصلے پر مضافات میں ایک پُرفضا اور سرسبز مقام (موجودہ صفورہ گوٹھ) پر قائم کیا گیا تھا۔ جس کے لئے 150 ایکڑ زمین اور 50 ہزار روپے نقد شہر کے مخیر ہندو خاندان "اوجھا" نے ہی عطیہ کیے تھے۔

اس کا پورا نام "دیپ چند اوجھا سینی ٹورییم" ہے۔  دنیا اُس وقت دوسری عالمی جنگ کی دہشت سے گزر رہی تھی۔ جس میں برطانیہ ایک مرکزی کردار ادا کر رہا تھا اور ہماری سرزمین پہ برطانوی راج مسلط تھا۔ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً وہ دور ایمرجنسی کا تھا اس لیے کچھ عرصے کے لیے اس سینی ٹوریم کو جنگی قیدیوں کے لیے بطور کیمپ، پولینڈ کے یہودیوں کے لیے جو عالمی جنگ کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور تھے پناہ گزین کیمپ اور امریکی فوج کے اسٹیشن کے طور پر بھی استعمال میں لایا گیا تھا۔ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب حالات سازگار ہو گئے تو اکتوبر 1946 میں اس کو دوبارہ سے ٹی بی کے مریضوں کے علاج معالجے اور ان کے داخلے کے لیے کھول دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے تقریباً اٹھارہ سال بعد 1965ء میں یہاں پر پانچ نئے وارڈز جن میں 200 بستروں کی گنجائش تھی اور لیبارٹری قائم کر کے اسے باقاعدہ ہسپتال کی شکل دے دی گئی۔ 1970 میں اوجھا سینیٹوریم کو صوبہ سندھ کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ 1973

 میں اس کو "سینیٹوریم" سے ترقی دے کر "انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز" کا درجہ دیا گیا جس میں ٹی-بی کی بیماری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کا آغاز ہوا۔ 1994 میں "کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان" کی طرف سے یہاں پر کروائے جانے والے ڈپلومہ کورسز کو تسلیم کیا گیا۔ 1997 میں گلوبل ٹی-بی یُونِٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جینیوا، سارک، ٹیوبرکلوسز سینٹر کھٹمنڈو، نیپال نے "ٹی-بی" کی روک تھام اور اس کی تعلیم کے لیے کراچی کے اس انسٹیٹیوٹ کی خدمات کو بیحد سراہا۔ دسمبر 2003 میں جب ڈاؤ میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیا گیا تو "اوجھا" کو اس کا "کیمپس" بنا دیا گیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اب تک آٹھ ہزار سے زائد اسٹوڈنٹس اور بیس دوسرے انسٹیٹیوٹ کے ریزیڈنٹس کو بھی تعلیم و تربیت دے چکا ہے۔ یہاں پر اس وقت 850 فیکلٹی ممبرز کے علاوہ تقریباً تین ہزار کے قریب کارکن کام کر رہے ہیں۔"حکمت" اوجھا خاندان کا خاندانی پیشہ تھا۔ تاریخی طور پر اس خاندان کا تعلق ٹھٹھہ سے تھا۔

 ٹھٹھ ماضی میں حکمت کے حوالے سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ سکھرام داس اوجھا کا شفا خانہ میری ویدر ٹاور کے قریب لکھمیداس اسٹریٹ میں ہوا کرتا تھا۔ وہ خاص طور پر تپِ دق (ٹی بی) کے علاج کے ماہر تھے۔ طبی پیشے میں دلچسپی رکھنے والے افراد ان سے حکمت کی تعلیمات کے لیے رجوع کرتے تھے۔ یہ اُس زمانے کے ایک ماہر حکیم تھے-سینی ٹوریم کی توسیع-ٹی بی مرکز کے لیے حکومت نے دیھ صفوراں میں 127 ایکڑ پر محیط پلاٹ بطور عطیہ دیا۔ یونائیٹڈ مشن ٹیوبرکلوسز سینی ٹوریم آف معدناپالی، آندھرا پردیش کے میڈیکل سپرینٹینڈنٹ ڈاکٹر فریموٹ مولر نے اس کے ڈیزائن میں مدد فراہم کی اور پھر 16 جون 1939ء کو اس وقت کے صوبائی وزیر نہال داس وزیرانی نے دیپ چند ٹی اوجھا کے نام پر بننے والے ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ عمارت کی تعمیر کا کام ویلجی ہرکا پٹیل اینڈ سنز کو سونپا گیا۔20 کمروں پر مشتمل ہسپتال، 3 کمروں پر مشتمل انتظامی بلاک، 2 رہائش گاہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا وید (یعنی آیور وید کے معالج) کے لیے بنائی گئیں، عملے کے لیے (ڈاکٹر کائی خوشرو اسپینسر کے اہل خانہ کی جانب سے عطیے کے طور پر) 4 کوارٹرز اور خادمین کے لیے 30 کمروں پر مشتمل بلاک کا تعمیراتی کام انجام دیا گیا۔ کمپلیکس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا جس میں مریضوں کے لیے 64 کاٹیجز ایک دوسرے سے 80 فٹ کے فاصلے پر موجود تھے، ان میں سے چند کاٹجز 2 کمروں پر مشتمل تھے۔ہر ایک یونٹ میں سونے کا کمرا، باورچی خانہ، لیٹرین اور برآمدہ بنا ہوا تھا۔ تمام کاٹجز عطیات کے ذریعے تعمیر کیے گئے تھے اور ہر ایک کاٹج پر ایک ہزار 400 روپے کی لاگت آئی  -برآمدے میں عطیہ دینے والے اپنی تختی نصب کرتے۔ ایک تختی پر (انگریزی زبان میں) لکھا ہے کہ 'خان بہادر دادا بھائی منصف کی پاکیزہ یاد میں جنہوں نے 19 فروری 1910ء کو وفات پائی۔یہ عطیہ ان کی اہلیہ گل بانو ڈی منصف کی جانب سے دیا گیا'۔

 ایک دوسری تختی پر رقم ہے کہ، 'بچو بائی نادرشا ایڈولجی ڈنشا کی پیاری یاد میں یہ ان کے بھائیوں کی جانب سے تعمیر کروایا گیا جو ان کی جدائی کو بھول نہیں پائے'۔ ایک تختی پر یہ تحریر ہے کہ، 'یہ سیٹھ جیون جی کریم جی مرسی والا نے اپنی زوجہ بائی امتل بائی کی یاد میں تعمیر کروایا'۔سیٹھ ڈونگرسی جوشی نے تفریحی سرگرمیوں کے لیے ہال عطیے کے طور پر تعمیر کروایا۔ سر ڈیوڈ سسون نے برقی جنریٹر فراہم کیا، جو پونا سے منگوایا گیا تھا اور پاور ہاؤس تعمیر کروایا۔ سکھ رام داس نے سینی ٹوریم میں اپنی وقتاً فوتاً رہائش کے لیے اپنے پیسوں سے بنگلہ تعمیر کروایا۔ انہوں نے ادارے کے اعزازی منیجرکے طور پر خدمات انجام دیں۔ 8 جنوری 1942ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ لنلتھگو نے اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا۔ بعدازاں اس میں مسافر خانہ اور چھوٹا گرجا گھر کا اضافہ کیا گیا-دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج نے اس عمارت کو اپنے قبضے میں لیا اور اسے امریکی آرمی کا بیس بنانے کے ساتھ جنگی قیدیوں اور پولش مہاجرین کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا۔ اس عمارت کو دوبارہ 1946ء میں دیپ چند ٹی اوجھا ٹی بی سینی ٹوریم کے طور پر بحال کردیا گیا۔   

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر