Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعہ، 17 فروری، 2023
بولتی تہذیب کا درخشاں باب ضیاء محی الدّین بھی رخصت ہو گئے
۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ
۔امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ ایک فرد واحدنہیں بلکہ چلتے پھرتے ایک ادارہ تھے ،آپ ایک تنظیم تھے ایک تحریک تھے ،آپ کھلی کتاب تھے جس سے ہزاروں تشنگان علم نے اپنی پیاس بجھائی تھی ،آپ کروڑوں عاشقان رسول کی منزل کی راہ کے چراغ تھے ، آپ فطری و پیدائشی فنافی الرسول ﷺ تھے ،اسی عشق کی بدولت رب کریم نے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا ۔آپکے اُصول چٹانوں کی طرح مضبوط ،الفاظ سچ کی طرح روشن عزم غیر متزلزل اور جذبے صادق تھے ،آپ کا کردار قابل تقلید اور گفتار قابل تعریف تھی ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی ہر بات عزم و حوصلہ سے مزین تھی ،آپ رحمۃ اﷲ علیہ کا دین تو حید پروردگار تھا اور ایمان عشق رسول ﷺ کا پرچار تھا ۔ احمد رضا خان نے محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے : قراءت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگاریتہم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید سیکھا
احمد رضا خان نے اپنے والد نقی علی خان سے مندرجہ ذیل اکیس علوم پڑھے : علم قرآن، علم تفسیر، علم حدیث، اصول حدیث، کتب فقہ حنفی، کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، اصول فقہ، جدل مہذب، علم العقائد و الکلام، علم نجوم، علم صرف، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم منطق، علم مناظرہ، علم فلسفہ مدلسہ، ابتدائی علم تکحیہ، ابتدائی علم ہیئت، علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، ابتدائی علم ہندسہ۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو احمد رضا خان فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے
عنائیت خداوندی کی وہ کتنی ارجمند گھڑی تھی جب رب کریم نے امام احمد رضا خان جیسا مرد قلندر پیدا فرمایا ۔کون جانتا تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر سیلِ رواں بن کر اہل باطل کے مزعومات کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جائے گا اور اس کے قلم کی لو سے ڈالا ہوا شگاف ہمیشہ کے لئے دشمن کے سینے کا ناسور بن جائے گا اور پھر کسے معلوم تھا کہ ایک شخص کی محنت رنگ لائیگی اور اسکا ایک ایک لفظ بحر و بر میں پھیل جائے گا اور ایک چراغ کی لو سے ایمان و عقیدت کے شبستانوں میں کروڑوں چراغ جل اٹھیں گے ۔بلا شبہ یہ احسان عظیم ہے اس خالق لوح و قلم کا جس کے دست قدرت میں انسانی اذہان ،زبان اور قلوب کی کنجیاں ہیں کہ اس نے اپنے حبیب مجتبیٰ ﷺ کی حمایت و دفاع میں اٹھنے والے امام احمد رضا خان کو عزت و اقبال کی بلندی بخشی اور اسے قبول عام کا اعزاز مرحمت فرمایا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ملحد ،فاسق اور نام نہاد صوفیوں کے خلاف بھی اپنا فریضہ سر انجام دیا
۔مختصر یہ کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی پوری عمر اﷲ تعالیٰ جل جلالہ کے سچے دین اور محمد مصطفےٰﷺ کی سنن مقدسہ کی خدمت کی اور جہاں بھی کسی بد مذہب ،بد دین نے سر اٹھایا آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے اسے کچل کر رکھ دیا اور اسکے رد میں کتابیں تصنیف کیں ۔امام احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ سہ عالی مرتبت شخصیت تھے جو اپنی شیریں بیانی سے بچھڑے لوگوں کو قریب کرتے رہے ۔زور تقریر سے بے دینوں کا منہ بند کرتے رہے ۔سیف قلم سے باطل پرستوں کو مجروح و مردہ کرتے رہے ۔آپ نے گلشن عظمت مصطفےٰ ﷺ کو ہرا بھرا بنایا ،گمراہوں کو راہِ حق دکھانے میں بے پناہ محبت کی ،ہزاروں بہکے ہوئے لوگوں کو دوبارہ در نبی ﷺ پر لاکھڑا کیا آپ دشمنان خدا اور رسول ﷺ پر بجلی بن کر گرتے رہے ۔آپ نے اﷲ جل جلالہ کی وحدانیت اور سر کارِ مصطفےٰ ﷺ کی عظمت و حرمت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجایا
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے
آپ کے علم کا احاطہ کرنا میرے قلم کی دسترس سے کہیں بالا تر ہے ۔لیکن وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے زمانے میں آپ کے پایہ کا کوئی عالم موجود نہ تھا ۔ اسی لئے تو بعض چرب زبان مخالفین نے بھی کہا کہ مولانا احمد رضا جس قابلیت و جامعیت کے عالم تھے اس کے پیش نظر سارا زمانہ انکی قدم بوسی کرتا اور انکو پیشوا مانتا مگر انہوں نے عمر بھر سب کا رد کر کے اپنی مقبولیت کو بڑا دھچکا پہنچایا ۔یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ نے جس ملاں میں بھی محمد ﷺ کے ساتھ بے ادبی اور گستاخی کا عنصر دیکھا اسکی ڈٹ کر مخالفت کی اور اسے بد بخت اور ذلیل جانتے ہوئے اس کے خلاف فتویٰ دیا ۔اور یہی باب تو ہم جیسے دیوانوں کے لئے پسندیدہ ہے ۔کیونکہ اگر امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم کے ہوتے ہوئے بھی آقا نامدار ﷺ کی توہین اور گستاخی برداشت کرتے رہتے تو پھر ہمارا ان سے کیا واسطہ تھا ۔انکی اسی عادت پر تو ہر غلام محمد ﷺ اپنی جان و ارتا ہے اور ان سے محبت رکھتا ہے اور جو حضور ﷺ کی توہین اور گستاخی کو برداشت کرنے کی منافقانہ صلاحیت رکھتا ہے وہ امام احمد رضا خان سے عداوت اور بغض رکھتا ہے ۔امام احمد رضا خان نے اگر اپنی شہرت اور مقبولیت کو دھچکا پہنچایا تو عین سنت رسول ﷺ پر عمل کیا کیونکہ جب ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے کفار مکہ کو دعوت اسلام دی اور تمام بت پرستوں کے خلاف آواز حق بلند کی کافروں نے آپ ﷺ سے کہا اگر آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں تو ہم آپ ﷺ کو اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں اور سب مل کر دولت کے انبار آپ ﷺ کیسا منے لا کر رکھنے کو تیار ہیں ،جس قبیلہ میں آپ ﷺ چاہیں وہاں آپ ﷺ کی شادی کرنے کو تیار ہیں ۔
امام احمد رضا خان بریلو ی رحمۃ اﷲ علیہ کے علم و فضل اور فتویٰ کے معترف چند گنے چنے علماء برصغیر ہی نہیں بلکہ مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے کثیر علمائے کرام بھی تھے ۔بلکہ انہوں نے آپ کو اپنا سردار اور پیشوا تسلیم کیا ۔مکہ معظمہ سے مولانا شیخ محمد سعید مکی رحمۃ اﷲ علیہ ،شیخ مولانا احمد ابو الخیر میر داد (امام و مدرس مسجد حرام) مفتی علامہ شیخ صالح کمال مکی (مدرس حرم شریف) علامہ شیخ اسعد بن احمد دہان مکی (مدرس حرم شریف) و دیگر 16علماء کرام اور مدینہ منورہ کے مفتی مولانا تاج الدین الیاس مدنی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا عثمان بن عبد السلام داغستانی رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا سید احمد جزائری مدنی ،و دیگر 10علمائے کرام نے امام احمد رضا خان کے مجموعہ فتاویٰ ’’حسام الحرمین‘‘ پر دستخط فر ما کر آپ کے علم کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اپنا سردار و پیشوا کہا ۔(بحوالہ امام احمد رضا خان اور ان کے مخالفین مصنف حضرت مولانا بد رالدین قادری مطبوعہ فضل نور اکیڈمی گجرات)
اعلیٰ حضرت نے حدود شریعت میں رہ کر جس جوش اور خلوص سے اپنے آقا سید عالم ﷺ کی عظمت و جلالت کے نغمے گائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ میدان نعت میں آپ کا کوئی حریف و مقابل نہیں ۔آپ نے حضور اقدس ﷺ کے لئے ایسے الفاظ اور ایسے استعارے استعمال کئے ہیں جو انتہائی ادب اور محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں آپ کے نعتیہ کلام کی خوبیاں گنی نہیں جا سکتیں ’’حدائق بخشش‘‘ آپ کی نعتیہ تصنیف ہے جس کا ہر اک شعر عشق مصطفےٰ ﷺ سے سرشار ہے ۔آپ نے اپنے نعتیہ کلام میں حدود شریعت کو ازحد قائم رکھا ہے آپ نے آقائے نامدار ﷺ کی تعریف اور انکا تقابل دیگر انبیاء سے اس طرح کیا ہے کہ باقی انبیائے کرام کا احترام بھی باقی رہا ہے آپ کے اشعار میں مبالغہ تصنع اور بناوٹ کی بجائے خلوص و عقیدت کی ترجمانی ہے ،آپ کے کلام میں قرآن وحدیث کے بعینہٖ کلمات و عبارات یا ترجمے موجود ہیں یعنی آپ کی شاعری کا ماخذ ہی کلام الہٰی اور حدیث نبوی کے مضامین ہیں ۔
امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علوم کا تذکرہ میرے بس کی بات نہیں کیونکہ آپ نے علم تفسیر میں 7،علم حدیث میں 45,عقائد و کلام میں 22،فقہ و تجوید میں 70،علم زیجات میں 7، علم جفر و تکسیر میں 11،جبرو مقابلہ میں 4اوردیگر علوم میں کتب و رسائل تصنیف کئے ،آپ نے عشق رسول ﷺ کی شمع وقت رخصت تک جلا رکھی آپ نے جو آخری مجلس میں وعظ فرمایا اس کی چیدہ چیدہ باتیں درج ذیل ہیں جن پر ہمیں ضرور عمل کرنا چاہیے آپ نے فرمایا اے لوگو! تم ہمارے مصطفےٰ ﷺ کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو اور بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بہکا ئیں ،تمہیں فتنہ میں ڈالیں اور اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں ان سے بچو اور دُور بھاگو۔
حضور اقدس ﷺ رب العزت کے نور ہیں ۔حضور ﷺ سے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم روشن ہوئے ۔صحابہ کرام سے تابعین عظام رضی اﷲ عنہم روشن ہوئے ،تابعین سے تبع تابعین روشن ہوئے ۔ان سے ائمہ مجتہدین روشن ہوئے ۔ان سے ہم روشن ہوئے ۔اب ہم تم سے کہتے ہیں یہ نور ہم سے لے لو ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ تم ہم سے روشن ہو ۔وہ نور یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ و رسول اﷲ ﷺ کی سچی محبت ،انکی تعظیم ،انکے دوستوں کی خدمت اور تکریم اور انکے دشمنوں سے سچی عداوت ۔جس سے اﷲ جل شانہٗ رسول اﷲ ﷺ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو ۔میں پونے چودہ برس کی عمر سے یہ بتاتا رہا ہوں اور اس وقت پھر یہی عرض کرتا ہوں ،اﷲ تعالیٰ ضرور اپنے دین کی حمایت کے لئے کسی بندے کو کھڑا کر دیگا مگر نہیں معلوم میرے بعد جو آئے کیسا ہو اور تمہیں کیا بتائے اس لئے ان باتوں کو خوب سن لو ۔حجۃ اﷲ قائم ہو چکی ہے ۔اب میں قبر سے اُٹھ کر تمہارے پاس بتانے نہ آؤں گا جس نے اسے سنا اور مانا قیامت کے دن اس کے لئے نور نجات ہے اور جس نے نہ مانا اس کے لئے ظلمت و ہلاکت ہے ۔آخر میں اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عشق مصطفےٰﷺ کی دولت سے مالا مال رکھے-حب اہل بیت آپ کی زندگی میں آپ کے لہو میں موجزن رہا
یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی! گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات
اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر
امن دینے والے پیارے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے
صاحبِ کوثر شہِ جود و عطا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر
سیّدِ بے سایہ کے ظِلِّ لِوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامنِ محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوشِ خلق، ستّارِ خطا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے
چشمِ گریانِ شفیعِ مُرتجٰی کا ساتھ ہو
یا الٰہی! رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتابِ ہاشمی نور الہُدیٰ کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے
رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غم زُدا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو
یا الٰہی! جب رؔضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو
اولاد کے حق میں حضرت امام سجاد علیہ السّلام کی دعا
آئے ہم بھی پڑھتے ہیں- نزدیک اولا د کے حق میں دعا کی اہمیت کا اندازہ آ پ کی اپنی دعا سے ہوتا ہے اے میرے معبود ! میری اولاد کی بقا اور ان کی اصلاح اور ان سے بہرہ مندی کے سامان مہیا کر کے مجھے ممنون احسان فرما۔ اور میرے سہارے کے لیے ان کی عمروں میں برکت اور زندگیوں میں طول دے اور ان میں سے چھوٹوں کی پرورش فرما اور کمزوروں کو توانائی دے اور ان کی جسمانی، ایمانی اور اخلاقی حالت کو درست فرما اور ان کے جسم و جان اور ان کے دوسرے معاملات میں جن میں مجھے اہتمام کرنا پڑے، انہیں عافیت سے ہمکنار رکھ اور میرے لیے اور میرے ذریعہ ان کے لیے رزق فراواں جاری کر اور انہیں نیکوکار، پرہیزگار، روشن دل، حق نیوش اور اپنا فرمانبردار اور اپنے دوستوں کا دوست و خیر خواہ اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن و بدخواہ قرارد
بدھ، 15 فروری، 2023
فراز دار سے میثم بیان دیتے ہیں-میثم تمّار
میثَم تمّار اَسَدی کوفی، صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔ سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔
امام علی علیہ السلام کے نامی گرامی صحابی ہیں۔ میثم کی ابتدائی زندگی کی تفصیلات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ہاں اتنا ملتا ہے کہ نبی پاک کو بہت پسندتھے اور ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔ وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ سانحہ عاشورا سے پہلے یا بعد میں انہیں ابن زیاد کے حکم پر لٹکا کر شہید کیا گیا۔میثم حاضر جواب اور شعلہ بیان اور نڈر خطیب تھے۔ جب انھوں نے بازار کوفہ کے معترضین کے نمائندے کے عنوان سے ابن زیاد کے دربار میں خطا کیا، ابن زیاد ان کی منطق، خطابت، فصاحت اور بلاغت سے حیرت زدہ ہوکر رہ گیا۔امویوں کی حکومت کے خلاف ان کے بلیغ خطبات نے انہیں حکومت کے مخالفین میں ممتاز شخصیت کے طور پر نمایاں کردیا
میثم تمّار نے کئی موضوعات میں کتب لکھی ہیں جن میں تفسیر بھی شامل ہے۔ میثَم تمّار اَسَدی کوفی، صحابی رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہیں ساتھ ہی آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی اور اہلبیت رسول کے جان نثاروں میں شامل ہیں۔ سن 61 ہجری میں واقعہ کربلا کے قریب آپ کو حق گوئی کے جرم میں یزید کے کارندے ابن سعد کے حکم پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا، اس سے قبل آپ کو قید میں رکھا گیا جہاں آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی تاہم آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا۔ علی علیہ السلام نے آپ کے متعلق شہادت سے کئی برس پہلے فرما دیا تھا کہ اے میثم تمھیں میری محبت میں دار پر چڑھا دیا جائے گا اور اس سے قبل تمھاری زبان کاٹ دی جائے گی، اس وقت میثم نے کہا تھا کہ میری زبان بھی کاٹ دی جائے تو میں حق بات اور آپ کی محبت سے دست بردار نہیں ہوں گا۔ام المؤمنین ام سلمہ فرماتی ہیں کہ، رسول اللہؐ ﷺ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔وہ کوفہ میں کھجور فروخت کرتے تھے۔میثم گرچہ ایک غریب کھجور فروش تھے مگر پروردگار کی عبادت میں کوئی کسر نہ چھوڑتے یہی وجہ تھی کہ آپ علی علیہ السلام کے بہترین ساتھی رہے۔ بہت سی کرامات اور پیشنگوئیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ سانحہ عاشورا سے پہلے یا بعد میں انہیں ابن زیاد کے حکم پر لٹکا کر شہید کیا گیا۔
میثم کو پہلے تین ائمۂ شیعہ یعنی امام علی، حسن اور حسین علیہم السلام، کے اصحاب میں گردانا گیا ہے؛ تاہم ان کی شہرت زیادہ تر حضرت علیؑ کی شاگردی کی وجہ سے ہے میثم بہت زیادہ حبدار اہل بیت رسولؑ تھےاہل بیتؑ بھی میثم کی طرف سخاص توجہ دیتے تھے۔ ام المؤمنین ام سلمہ کے بقول، رسول اللہؐ نے بارہا میثم کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور امیرالمؤمنینؑ سے ان کی سفارش کی ہے۔ میثم کو امام علیؑ کی خاص توجہ حاصل تھی اور انھوں نے امامؑ سے بہت سے علوم حاصل کئے۔ امامؑ ان کے ساتھ زیادہ بات چیت کرتے تھے۔ آپؑ نے میثم کو "اسرارِ وصیت" سمیت بہت سے علوم سکھائے اور انہیں غیبی امور سے آگاہ کیا اور انہیں ان "آزمائے ہوئے مؤمنین" کے گروہ میں قرار دیا جو رسول اللہؐ کے اوامر اور اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کے ادراک اور تحمل کے سلسلے میں اعلی ترین مقام و منزلت سے بہرہ ور تھے۔ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ میثم روحانی ظرف اور اہلیت کے بلند مراتب پر فائز تھے۔
علیہ السلام کے شاگرد تھےمروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمّار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے"۔ چنانچہ میثم تمّار عمرہ بجا لانے کے لئے جب حجاز گئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں"۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا انھوں نے کہا یہ خبر صداقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ دل سے گڑ ھ کر سنائی ہے چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انھوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں"۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی پیشینگو ئی پوری ہو گئیامام علیؑ نے میثم کو ان کی شہادت کی کیفیت، ان کے قاتل اور کھجور کے درخت پر ـ جو آپؑ نے انہیں دکھا دیا تھا ـ
منگل، 14 فروری، 2023
مولا علی علیہ السلام کا خط مالک اشتر کے نام
راستبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنا نا کہ وہ تمہارے- کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کر دیتی ہے
نہج البلاغہ،
ناحق خون ریزی سے پرہیز کرنا ۔وجہ کے بغیر تلوار نیام سے ہر گز نہیں نکالنا
دیکھو ! ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے رکھنا۔ کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شۓنہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں ۔لہذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے والی ہوتی ہے ،بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان بوجھ کر قتل کے جرم میں اللہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا ،نہ میرے سامنے، کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ۔
اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو جاؤ اور سزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا ۔
نہج البلاغہ،
گھمنڈ اور خود پسندی سے پرہیز کرو
دیکھو! خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اِترانا نہیں اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو پسند کرنا ۔کیونکہ شیطان کو جو مواقع ملاکرتے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح نیکوکاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے ۔
نہج البلاغہ،
ہر حال میں عدل اور انصاف کی رعایت کرن۔۱اعام لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو نہیں کرنا
لوگوں کی عیبجویی کے پیچھے نہ پڑنا اور ان کے عیبوں کو حتی آلمقدور ۲
چھپانا۔
لوگوں پر حسن ظن رکھنا۔[3]
شہروں کی آباد کاری کیلئے دانشوروں سے مشورہ کرنا۔[4]
معاشرے کی طبقہبندی اور یہ کہ ہر طبقے کے مخصوص حقوق۔[5]
قاضی کے اوصاف۔ [6]
حکومتی مسئولین کے اوصاف۔
ٹیکس سے زیادہ شہروں کی آبادی ،کی بہبود پر توجہ دینا۔[7]
شرائط کاتبین۔
تاجروں اور صنعتگروں کے ساتھ اچھا برتاؤ۔[8]
معاشرے کے نچلے طبقے کی خاص نگرانی۔
نماز جماعت کے دوران ضعیف اور ناتوان نماز گزار کی رعایت کرنا۔
بیت المال میں رشتہ داروں اور خواص کو فوقیت نہ دینا۔[9]
لوگوں کی بدگمانی کو دور کرنا۔[10]
دشمن کے ساتھ صلح (اگر دشمن کی طرف سے صلح کی درخواست اور خدا کی رضایت بھی اسی میں ہو تو)[11]
عہد و پیمان کو پورا کرنا اور اس پر
یمن سے کوفہ تک کی زندگیی
مالک اشتر کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی معلومات تاریخ میں ثبت نہیں ہے لیکن اس بات میں شک نہیں کہ آپ یمن میں پلے بڑے تھے اور سنہ 11 یا 12 ہجری قمری کو وہاں سے ہجرت کی۔آپ نے زمانہ جاہلیت کو بھی دیکھااور اپنی قوم کے سرکردہ فرد تھے ۔یمن سے آنے کے بعد کوفہ میں مقیم ہوئے اور ان کے بعد کوفہ میں ان کی نسل باقی رہی ہے۔ جنگ یرموک میں شرکت کیا اور اسی جنگ میں ان کی ایک آنکھ پر تیر لگا اور آپ آیک آنکھ سے محروم ہو گئے۔ جنگ یرموک میں آپ نے دشمن کے 13 افراد کو واصل جہنم کیا۔[5]
اے مالک، آپ کو معلوم ہو جائے کہ میں آپ کو ایک ایسے
نعلاقہ کا گورنر بنا کر بھیج رہا ہوں جس نے ماضی میں منصفانہ اور جسے بہت شفاف حکمرانی کا تجربہ کیا ہے۔ یاد رکھو لوگ تمھارے اعمال کا کھوج لگانے والی نظر سے جائزہ لیں گے، جیسا کہ تم اپنے سے پہلے لوگوں کے اعمال کا جائزہ لیا کرتے تھے، اور تمھارے بارے میں اسی طرح بات کرتے تھے جیسے تم ان کے بارے میں کہتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام صرف اچھے کام کرنے والوں کو اچھا سمجھے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو آپ کے اعمال کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس لیے سب سے امیر خزانہ جس کی تم خواہش کر سکتے ہو وہ نیکیوں کا خزانہ ہو گا۔ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں اور اپنے آپ کو ان چیزوں سے ضرور روک کر رکھنا جن سے آپ کو خداوند تبارک تعالی نے منع فرمایا ہے،
کیونکہ صرف اس طرح کی پرہیزگاری ہی تم کو اللہ کی بارگا ہ اور بندوں میں مقرب بنا سکتی ہے
اپنے دل میں اپنے لوگوں کے لیے محبت کا جذبہ بیدار رکھنا اور اسے ان کے لیے مہربانی اور برکت کا ذریعہ بنانا۔ ان کے ساتھ وحشیا نہ سلوک نہ کرنا اور جو اپنے لئے مناسب سمجھو وہی ان کے لئے بھی مناسب جانو۔ یاد رہے کہ ریاست کے شہری دو قسموں کے ہوتے ہیں۔ وہ یا تو آپ کے دین میں بھائی ہیں یا آپ کے بھائی ہیں۔ وہ کمزوریوں کے تابع ہیں اور غلطیوں کے ارتکاب کے ذمہ دار ہیں۔
کچھ لوگ واقعی غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن ان کو معاف کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ خدا تمہیں معاف کرے۔ یاد رکھو کہ تم اُن پر حاکم ہوجیسا کہ میں تم پر رکھا گیا ہوں۔ اور پھر اس کے اوپر بھی خدا ہے جس نے تمہیں گورنر کا عہدہ دیا ہے تاکہ تم اپنے ماتحتوں کی دیکھ بھال کرو اور ان کے لیے کافی ہو۔ اور آپ ان کے لیے کیا کرتے ہیں اس سے آپ کا فیصلہ کیا جائے گا۔
اپنے آپ کو خدا کے خلاف مت کرو، کیونکہ نہ تو تم میں طاقت ہے کہ وہ اس کی ناراضگی کے خلاف اپنے آپ کو ڈھال سکے، اور نہ ہی تم اپنے آپ کو اس کی رحمت اور بخشش کے دائرے سے باہر رکھ سکتے ہو۔ معافی کے کسی عمل پر نادم نہ ہوں اور نہ ہی کسی ایسی سزا پر خوش ہوں جس سے آپ کسی کو مل سکیں۔ تحریر کنندہ علی ابن طالب
پیر، 13 فروری، 2023
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاو ہے- خدا حافظ امجد اسلام امجد
اتوار، 12 فروری، 2023
جابر بن حیان: امام جعفرصادق علیہ السّلام کے ایک عظیم شاگرد
﷽
جابر بن حیان: امام صادق علیہ السّلام کے ایک عظیم شاگرد-کیمیا گری کی دنیا بابائے اعظم کہلائے جانے والے حیّان نے اپنے متّقی با حیّان القحطانی کے آنگن میں آنکھ کھولی تو اس نے اپنے چاروں جانب اہلبیت کی محبّت کے شامیانے دیکھے حیّا ن اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کے قریبی مراسم پر بھی غور کیا اور پھر خود بھی اپنے والد کے رنگ میں رنگ گئے -بس یہی موقع تھا جب ان کے والد نے ان کو کوفے جانے کا مشورہ دیا اوروہ اما م جعفر صادق کے شاگرد بن کر کوفہ آ گئے
جابر بن حیان، جنکی کنیت ابو موسی تھی، وہ امام صادق علیہ السّلام کے اصحاب میں سے تھے اور کیمیا (alchemy) میں ایک اہم کردار رکھتے ہیں جس نے جگہ بنائی دور حاضر کی کیمسٹری کیلئے۔ انکی ولادت تقریبا 103 یا 104 ہجری میں ہوئی اور، وہ 200 ہجری میں طوس میں وفات پا گئے انکی لکھی ہوئی کتاب “کتاب الرحمة” انکے سرہانے موجود تھی۔ ان سے منسوب بہت سی تالیفات ہیں، وہ ہمہ وقت تصنیف و تالیف اور ریسرچ میں مصروف رہا کرتے تھے، علم کیمیا میں جابر کی شخصیت شہرۂ آفاق حیثیت رکھتی ہے۔ یہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے علم کیمیا میں نام پیدا کیا ہے۔
۔ جابر نے علم کیمیا کے توازن کی بحثیں اور فلسفہ کے اہم مباحث کو اجاگر کیا ہے اور نئی نئی تحقیقات منظر عام پر لیکر آئے ہیں۔ ان کی تألیفات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور بعض لوگوں نے انھیں الجبرا کا موجد قرار دیا ہے۔-ہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اس علم میں نام پیدا کیا ہے۔ ان کو صوفی اور حرانی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جابر نے علم کیمیا کے توازن کی بحثیں اور فلسفہ کے اہم مباحث کو اجاگر کیا ہے اور نئی نئی تحقیقات منظر عام پر لیکر آئے ہیں۔ ان کی تألیفات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ علم کیمیا کے بارے میں انھوں نے ہزار صفحہ کے پانچ سو رسالے تألیف کئے ہیں۔جابر علوم کے ذخیرے جمع کرنے کی فکر میں مصروف رہتے تھے، لوگوں کو جدید تحقیقات سے آشنا کرنا ان کا دلپسند مشغلہ تھا -وہ ایک ایسی ہستی کے طالب علم تھے جو عالم بے معلّم تھی اسی لئے۔ جابر ایک شہرۂ آفاق شخصیت بن کے ابھرے اور تاقیامت اپنا نام کر گئے -ا ن کی تألیفات منظر عام پر آچکی ہیں۔-
جابر نے خود اپنے رسالوں میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ میں نے یہ علوم براہ راست امام جعفر صادق علیہ السّلام سے لئےہیں۔خواص کبیر کے ص:۲۰۵ پر جابر کا بیان ہے کہ میں ایک دن امام جعفر صادق علیہ السّلام کے گھر جارہا تھا... اس کے علاوہ جابجا اس کی تصریح موجود ہے، ص:۳۱۶ مقالہ ۲۴ میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھے ان خواص کے جمع کرنے کا حکم دیا اور آئندہ بھی ایسی تحقیقات کے اضافہ کا مشورہ دیا۔
اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کے کافی مواقع تھے۔ کوفہ میں جابر نے امام جعفر صادقؒ کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب کے ساتھ ساتھ منطق، حکمت اور کیمیا جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے
استاذ محمد یحییٰ نے اپنی کتاب ’’امام صادق علیہ السّلام مُلھم الکیمیا‘‘ میں لکھا ہے کہ علوم کی تاریخ میں جابر کا مسئلہ اور ان کا امام جعفر صادق علیہ السّلام سے ارتباط بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس موضوع کو اکثر مستشرقین اور اہل کیمیا نے محل بحث بنایا ہے لیکن کوئی قابل اطمینان کام نہیں کیا ہے اس لئے کہ انھوں نے موضوع کے دیگر مصادر کی چھان بین کی ہے اور خود جابر کے بیانات کو نظر انداز کردیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم جابر ہی کے رسائل کی روشنی میں اس بحث کا تجزیہ کریں اور امام صادق علیہ السّلام کے فکری خدمات کا صحیح جائزہ لیں!.......اس کے بعد ص:۳۹ پر لکھتے ہیں کہ جابر کے چھوڑے ہوئے علمی ذخیرہ کی چھان بین کرنے کے بعد یہ اعتراف کرنا پڑتاہے کہ انھیں یہ سب کچھ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے ملا تھا۔
ایک دفعہ کسی تجربے کے دوران ’’ قرع النبیق‘‘ میں بھورے رنگ کے بخارات اُٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ میں جمع ہو گئے جو تانبے کا بنا ہوا تھا۔ حاصل شدہ مادہ اس قدر تیز تھا کہ دھات گل گئی، جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے میں ڈالا تو اس میں بھی سوراخ ہوگئے، چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکلا۔ جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ جل گئی۔ اس کاٹ دار اور جلانے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو انہوں نے’’ تیزاب‘‘ یعنی ’’ریزاب‘‘ کا نام دیا۔ پھر اس تیزاب کو دیگر متعدد دھاتوں پر آزمایا لیکن سونے اور شیشے کے علاوہ سب دھاتین گل گئیں۔
جابر بن حیان مزید تجربات میں جُٹ گئے۔ آخر کار انہوں نے بہت سے کیمیائی مادے مثلاً گندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک ایسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھلانا ممکن تھا۔اس کے علاوہ لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے لوہے پر وارنش کرنے، موم جامہ بنانے، خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔اس کے علاوہ فولاد کی تیاری، پارچہ بافی ، چرم کی رنگائی اور شیشے کے ٹکڑے کو رنگین بنانا وغیرہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ عمل کشید اور تقطیر کا طریقہ بھی جابر کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے قلماؤ یعنی کرسٹلائزیشن کا طریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کئے۔
جابر نے کیمیا کی اپنی کتابوں میں بہت سی اشیاء بنانے کے طریقے درج کئے۔ انہوں نے کئی اشیاء کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے بتائے۔ انہوں نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ’’ قرع النبیق‘‘ کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی ’’ سائنسی ‘‘ اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطو، اقلیدس، ارشمیدس، بطلیموس اور جالینوس کے بعد صرف اسکندریہ کی آخری محقق ’’پائپا تیا ‘‘چوتھی صدی عیسویں میں گزری تھی لہٰذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان کی تھی۔ اس کے بعد گیارہویں صدی تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا۔ جابر بن حیان کا انتقال ۸۰۶ء میں دمشق میں ہوا۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...