جمعرات، 19 ستمبر، 2024

تقویٰ ایک چمکتا ہوا آ بگینہ ہے

  اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وجود سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے تقویٰ کی وصیت فرمائی ہے۔ تقویٰ ہی کل قیامت کے دن نجات دلانے والی کشتی ہے۔ تقویٰ مؤمنین کے لئے بہترین لباس اور بہترین زادِ راہ ہے۔ یہ وہ عظیم نعمت ہے جس سے دل کی بندشیں کھل جاتی ہیں جو راستے کو روشن کرتی ہے                       تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے -                                                    تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے                      تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے                                                تقویٰ ایک ایسا قیمتی موتی ہے کہ اس کے ذریعہ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا آسان ہوجاتاہے۔ تقویٰ سے متعلق     مولائے کائنات حضرت علی  علیہ السلام کا ایک قول کتابوں میں مذکور ہے کہ تقویٰ دراصل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے، شریعت پر عمل کرنے، جو مل جائے اس پر قناعت کرنے اور قیامت کے دن کی تیاری کرنے کا نام ہے۔تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے البتہ اس کا اظہار مختلف اعمال کے ذریعہ ہوتا ہے، جیساکہ نبی اکرم نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقویٰ یہاں ہے۔ غرضیکہ تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔


 اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی سینکڑوں آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کی اہمیت وتاکید کو ذکر کیا ہے۔ تقویٰ سے متعلق تمام آیات کا ذکر کرنا اس وقت میں میرے لئے ممکن نہیں لیکن چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں: اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے۔ ( آل عمران102) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔ ( الاحزاب 70) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔ ( التوبہ119) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لئے کیا آگے بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو۔ ( الحشر 18) تقویٰ کوئی ایسا عمل نہیں جو صرف اِس امت کے لئے خاص ہو بلکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک اور قیامت تک آنے والے ہر شخص سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ سے ڈر کر زندگی کے ایام گزارے، فرمان الٰہی ہے: ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کوبھی اور تمہیں بھی یہی تاکید کی ہے کہ اللہ سے ڈرو۔ ( النساء131) 


خالق کائنات نے اپنے حبیب محمد مصطفی کو بھی تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ سورۃ الاحزاب آیت نمبرایک میں ارشاد باری ہے: اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ کریم نےقرآن کریم میں اعلان کردیا کہ اس کے دربار میں مال ودولت اور جاہ ومنصب سے کوئی شخص عزیز نہیں بن سکتابلکہ اس کے ہاں عزت کا معیار صرف اللہ کا خوف ہے۔ جو جتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرکر یہ فانی دنیاوی زندگی گزارے گا، وہ اس کے دربار میں اتنا ہی زیادہ عزت پانے والا ہوگا، چنانچہ فرمان الٰہی ہے: درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ ( الحجرات13) عباداتی، معاملاتی اور معاشرتی زندگی میں 24 گھنٹے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آسان نہیں جبکہ شیطان، نفس اور معاشرہ ہمیں مخالف سمت لے جانے پر مصر رہتا ہے، چنانچہ رحمت الہی نے بندوں پر رحم فرماکر ارشاد فرمایا: جہاںتک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔ ( التغابن 16) یعنی ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی کے لمحات گزارتا رہے۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران102) حج کے سفر کے دوران نیز عام زندگی میں ایک مسلمان دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے متعدد چیزوں سے آراستہ ہونا چاہتا ہے، 


فرمان الٰہی ہے : اور (حج کے سفر میں) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ ( البقرہ 197) یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف نہیں لیکن سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف ہے۔ سورۃ الطلاق آیت2 و3 میں رازق کائنات نے اعلان کردیا کہ تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے والا دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کرنے والا ہے: اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا۔ نیز دوسرے مقام پر فرمایا: اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہ تم سے دور کردے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا۔ ( الانفال29) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقویٰ کے مختلف فوائد وثمرات ذکر فرمائے ہیں، چند حسب ذیل ہیں: ہدایت ملتی ہے ۔( البقرہ2)ایسا علم ملتا ہے جس کے ذریعہ حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ ( الانفال29) غم دور ہوجاتے ہیں اور وسیع رزق ملتا ہے۔ ( الطلاق2 و3) اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ ( النحل 128) اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے۔ (الجاثیہ 19) اللہ کی محبت ملتی ہے۔ ( التوبہ7) دنیاوی امور میں آسانی ہوتی ہے۔ ( الطلاق4) گناہوں کی معافی اور اجر عظیم کا حصول ہوتا ہے۔ ( الطلاق 8) نیک عمل کی قبولیت ہوتی ہے۔ (المائدہ27) کامیابی حاصل ہوتی ہے۔


( آل عمران130) اللہ کی جانب سے خوشخبری ملتی ہے۔ (یونس 64) جہنم سے چھٹکارا مل جاتا ہے،جو انتہائی برا ٹھکانا ہے۔ ( مریم 71 و72) ہر انسان کی سب سے بڑی خواہش یعنی جنت میں داخلہ نصیب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت45) بے حیائی اور برائیوں سے رکنا ہی تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اُن کے مال سے زکوٰۃ لو تاکہ اُن کو پاک کرے اور بابرکت کرے اُس کی وجہ سے اور دعا دے اُن کو۔ ( التوبہ103) زکوٰۃ کوئی ٹیکس نہیں جو مسلمان حکومت کو ادا کرتا ہے، اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی امیر کا غریب پر کوئی احسان نہیں بلکہ جس طرح مریض کو اپنے بدن کی اصلاح کے لئے دوا کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اپنے نفس کی اصلاح کے لئے ہر مسلمان کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے حکم پر اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرے اور یہ صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان مال جیسی مرغوب چیز کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور یہی خوفِ خدا تقویٰ کی بنیاد ہے۔ روزہ اُن اعمال میں سے ہے جو تقویٰ کے حصول میں مددگار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں روزہ کی فرضیت کی یہی حکمت بتائی ہے کہ روزہ سے انسان میں تقویٰ پیداہوتا ہے۔

بدھ، 18 ستمبر، 2024

مُشک -کستوری کیسے حاصل کیا جاتا ہے

 


پاکستان اللہ کی ان نعمتوں میں سے ہے جسے اللہ نے دنیا کی ہر نایاب نعمت سے مالا کر رکھا ہے۔کیا خوبصورت موسم ، ندی نالے، ساحل، آبشاریں، انواع واقسام کی نباتات، نایاب چرند ،پرند اورحشرات الارض۔غرضیکہ ہر وہ نعمت جس کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک ترستے ہیں ۔ ایسی ہی کچھ صورت حال یہاں کی پرشکوہ اور سحر انگیز وادیوں کی ہے جہاں کے قدرتی خزانے تو ایک طرف ہم نے تو ان نایاب چرند پرند کو بھی نہیں بخشا جنکی نسل اب تیزی سے معدومیت کا شکار ہے۔ اور دنیا بھر کی تنظیمیں ہمیں چیخ چیخ کر ان کی بقاء کے خطرات سے متنبہ کرتی آرہی ہیں۔ایسے میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر پایا جانے والا ایک نایاب اور قیمتی جانور کستوری ہرن بھی ہے۔جس کے نافہ سے نکلنے والی کستوری سونے سے بھی زیادہ مہنگی فروخت ہوتی ہے۔ غیر قانونی شکار سے حاصل کی جانے والی یہ کستوری دنیا کی مہنگی ترین خوشبوؤں میں استعمال ہوتی  ہے۔ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں شاید سب سے زیادہ غیر قانونی شکارکستوری ہرن کا ہی ہوتا ہے۔


لیکن یہاں اصل المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں اس معصوم جانور کی بقا کو شکاریوں سے خطرہ ہے دوسری طرف اس جانور کو تیزی سے بدلتی موسمی تبدیلیوں کے چیلنجز کاسامنا بھی ہے۔ حیوانیات اور ماحولیات کے ماہرین اکثر و بیشتر اس خدشے کا اظہار کرتے آتے ہیں کہ کستوری ہرن کی بقا ء کو شدید خطرات لاحق ہیں۔اس سلسلے میں حال ہی میں وادیء نیلم میں کنٹرول لائن کے قریب ایک رہائشی قمر الزمان جنہوں نے یوں تو حیوانیات میں ماسٹرز کر رکھا ہے لیکن ان کاقابل ذکر کارنامہ کستوری ہرن بارے وہ مقالہ ہے جس پر انہوں نے وسیع تحقیق کر رکھی ہے۔قمر الزمان کہتے ہیں '' پاکستان میں سب سے زیادہ غیر قانونی شکار اور خرید وفروخت پینگوئن کے بعد کستوری ہرن کا ہی ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے پاکستان میں اس کی تعداد اس قدر کم ہو چکی ہے کہ اب یہ معدومیت کا شکار ہوتا جارہا ہے‘‘۔بنیادی طور پر کستوری ہرن جو بلند و بالا پہاڑوں کی بلندیوں اور ٹھنڈی جگہ پر رہنے کاعادی ہے۔


ہمالیہ ممالک جن میں پاکستان ، بھوٹان ،انڈیا، چین اور نیپال وغیرہ شامل ہیں۔اب حال ہی میں ہمالیہ ممالک نے ایک مشترکہ بین الاقوامی رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق اس جانور کی بقا ء کو جہاں غیر قانونی شکار کی فراوانی سے خطرہ ہے وہیں اسے تیزی سے بدلتے موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا بھی ہے جس کے پیش نظر ماہرین نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ 2050ء تک جب ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں اپنے عروج پرہونگی ،کستوری ہرن اپنی آماجگاہیں تبدیل کرنے پر مجبور ہونگے جس کے سبب ہمالیہ میں شاید یہ جانور ناپید ہو جائیں۔ایک اور ماہر ماحولیات ہمالیہ میں کستوری ہرن کی تیزی سے کم ہوتی نسل بارے کہتے ہیں اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہمالیہ اور کستوری ہرن کا چولی دامن کاساتھ ہے اور اگر کستوری ہرن کم یا ناپید ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمالیہ کا خصوصی ماحول جو کہ ہمالیہ والے ممالک کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ماہرین ماحولیات اور حیوانیات پچھلے کچھ عرصہ سے ایک اور خدشہ کااظہار کرتے آرہے ہیں۔ ان کے مطابق ہمالیہ کے دامن میں جس میں پاکستان ، افغانستان، انڈیااور نیپال شامل ہیں ، 


ماہرین اس کو کستوری ہرن جیسے قیمتی جانور کی زندگی میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہیں جو اس قیمتی جانور کی نسل کشی کے برابر ہے۔ماہرین اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمالیہ میں اسی رفتار سے انسانی مداخلت ہمالیہ کے قدرتی ماحول کو متاثر کرتی رہی تو کستوری ہرن کی نسل کو تو ناقابل تلافی نقصان تو ہوگا ہی انسانوں کو بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے دورس نتائج برداشت کرنا پڑیں گے۔کستوری ہرن اتنا بیش قیمت کیوں ؟کستوری ہرن دنیا کا وہ واحد جانور ہے جب اس کی ناف کستوری سے بھری ہو اگر قریب سے گزر جائے تو ایک لمبے فاصلے تک فضا ایک معطر خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہ ہو کہ ایک ہرن میں اوسطاً ایک سے چار تولہ اور بسااوقات اس سے بھی زیادہ کستوری اس کے نافہ میں جمع ہو چکی ہوتی ہے۔اگر اس کی قیمت کا اندازہ کرنا ہو تو اوسطاًچار تولہ کستوری والے ہرن کی کستوری کی مالیت آٹھ سے دس تولے سونے کی قیمت کے برابر ہوگی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جو شکاری ایک بالغ اور تنومند کستوری ہرن کا شکار کر لے تو سارا سال گھر بیٹھ کر کھاسکتا ہے۔کستوری صرف جوان ہرن میں پائی جاتی ہے۔


کستوری کی خوشبو کستوری ہرن کی ناف کے ساتھ لگی جھلی نما تھیلی میں ہوتی ہے۔چنانچہ کستوری حاصل کرنے کے لئے جب اس کا شکار کیا جاتا ہے تو ماہر شکاری بڑی تیزی سے اس تھیلی کو پکڑ کر باہر نکالتا ہے اور چاقو سے اس کو جلد سے الگ کر دیتا ہے۔ اس کے بعد اس تھیلی کو چیر کر اس میں سے نیم خشک دانے دار سفوف کو نکال کر الگ کر دیتا ہے اور اسے مکمل خشک کرنے کے لئے رکھ چھوڑتا ہے۔کستوری سے تیار کردہ خوشبو یورپ اور عرب ممالک میں بہت مقبول ہے۔-کستوری ہرن کا شکار- کستوری ہرن کے شکار کے آثار آج سے چھ ہزار سال قبل میں بھی ملتے ہیں۔ کیونکہ اس معصوم جانور کو صدیوں سے نہ صرف خوشبو بلکہ مذہبی رسومات اور علاج معالجے کی غرض سے بھی شکار کیا جاتا رہا ہے۔ قدرت نے اس جانور کو کستوری جیسے قیمتی خزانے سے تو مالامال کیا ہے لیکن اس کو اپنے دفاع کی طاقت سے محروم رکھا ہے کیونکہ اس کے سینگ نہیں ہوتے اسلئے یہ غیر محفوظ ہوتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماہر اور پیشہ ور شکاریوں نے اس ہرن کی عادات اور معمولات سے پوری پوری آگاہی حاصل کر رکھی ہوتی ہے جس کے سبب انہیں اس کا شکار کرنے میں آسانی رہتی ہے۔مثال کے طور پر کستوری ہرن عام طور پر رفع حاجت کے لئے ایک ہی مقام استعمال کرتے ہیں ،اس دوران وہ اپنے ساتھیوں کو پیغام رسانی بھی کرتے رہتے ہیں۔

منگل، 17 ستمبر، 2024

اللہ کے سپاہی -علمائے کرام

 


 

‏ترکی ’حضرات، کل ہم ایک آزاد جمہوریہ کا اعلان کریں گے!‘ مصطفیٰ کمال اتاترک نے 29 اکتوبر سنہ 1923 کو قانون سازوں کے ایک گروپ کے ساتھ عشائیے میں یہ اعلان کیا اور اگلے روز ووٹنگ کے بعد، ترک پارلیمنٹ نے حکومت کی نئی شکل اختیار کی اور اتاترک ترکی کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔جمہوریہ زندہ باد! مصطفی کمال پاشا زندہ باد!‘، قانون سازوں نے چیخ چیخ کر یہ نعرے لگائے۔‘تاہم ماہرین کے مطابق اس تاریخی اعلان کے 100 سال بعد جس نے مشرق وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا تھا اب اتاترک کی میراث خطرے میں پڑ چکی ہے۔اتاترک کو ’جدید ترکی کا بانی‘ سمجھا جاتا ہے جبکہ بہت سے لوگ انھیں سلطنت عثمانیہ میں اقلیتوں کے خلاف بدسلوکی کرنے والوں میں سے ایک کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں۔ تاہم متضاد آرا کے باوجود اس بات پر اتفاق رائے ضرور ہے کہ اتاترک 20ویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے۔میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علماء نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہات اور گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینی شروع کی جب وہاں کے لوگ فوج  کو آتے دیکھتے تو فورا بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے بلکہ کھیتی باڑی میں مشغول ہیں ان طالبعلم بچوں میں شیخ محمود آفندی نقشبندی صاحب بھی شامل تھے، حضرت نے یوں دینی تعلیم کی تکمیل کی اور فراغت کے بعد یہی سلسلہ اپنے گاؤں جاری رکھا ،اسی دوران حضرت آفندی کے دو خلفاء شہید کیے گیے تو حالات کے تناظر میں حضرت آفندی نے وہاں سے شہر کا رخ کیا جہاں ایک قدیم  مسجد تھی وہاں رہتے ہوئے حضرت  نے چالیس سال تک دین کی تدریس کا کام جاری رکھا۔ تقریبا اٹھارہ سال تک حضرت آفندی کے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت آفندی سے فیضیاب ہوتے گئے ۔آج جب اسی مسجد میں اذان ہوتی ہے تو جوق درجوق لوگ نماز کیلئے اس مسجد میں آنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہیں جو حضرت آفندی جیسے علماء کی محنت اور اخلاص کا نتیجہ ہے -ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی ۔


اس وقت حضرت مولانا شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے اسباق پڑھائے حج اور نماز کے مسائل بھی ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھائے اللہ تعالی نے حضرت آفندی کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھ دیا تھا. شیخ محمود آفندی کے ساٹھ لاکھ سے زائد شاگرد اور مریدین اس وقت دنیا بھر میں ان کی تعلیمات کو عام کرکے اسلام کا نام روشن کررہے ہیں   معرفت وطریقت کا یہ تابناک سورج زندگی کی 95بہاریں دیکھنے کے بعد دو ہزار بائیس میں غروب ہوگیا    جب قرآن پہ پابندی لگی     کمیونزم  کے دور میں    جب  روس میں کمیونزم کا طوطی بولتا تھا بلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجائے  گا ان دنوں میں ہما رے ایک جاننے والے  ماسکو ٹریننگ کے لیے چلے گئے وہ کہتے ہے کہ جمعے کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہاں مسجدوں کو گودام بنا دیا گیا ہے ایک دو مساجد کو سیاحوں کا قیام گاہ بنا دیا گیا ہے صرف دو ہی مسجد اس شہر میں بچی  ہیں  جو کھبی بند اور کھبی کھلی ہوتی ہیں میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دے میں وہی چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے ۔ پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی ، مسجد کے پڑوس میں ہی ایک بندے کے  پا س مسجد کی چابی تھی میں نے اس آدمی کو کہا کہ دروازہ کھول دو مسجد کا ، مجھے نماز پڑھنی ہے ،اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپکو کوئ  نقصان پہنچا تو میں زمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے  ۔


 اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوشیش کرنے لگا کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے آزان دی   آزان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہو گئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی   لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا، خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں نماز ادا کرکہ باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کویی نیا کام متعارف کرواکر مسجد سے نکلا ہو ں  ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آئیے  ۔ اسکے لہجے میں حلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا میں انکے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پہ سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے


میں نے کھانا کھایا چاے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا آپکو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے ۔ ؟بچے نے کہا جی بلکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے ، میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سناو مجھے بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا ۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نہیں  آتا لیکن اس نے کہا کیوں کہ اسکو قرآن پڑھنا آتا ہے ۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو قرآن کی ا یک  آیت پہ انگلی  رکھی  تو وہ فر فر بولنے لگا بنا قرآن کو دیکھے ہی ۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا میں نے اسکے والدین سے کہا " حضرات یہ کیا معاملہ ہے ؟انہوں نے مسکرا کر کہا " دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کے آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جاے تو اس تمام حاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ھے اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں " تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں " میں نے مزید حیران ہوکر کہاہمارے پاس قرآن کے کئ حافظ ہے کوئی درزی ہے کوی دکاندار کوئ سبزی فروش کوئی کسان ہم انکے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہے محنت مزدوری کے بہانے 


  وہ انکو الحمد اللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہے کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں اسلیئے ہماری نیی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہمارے گلیوں میں آپکو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہے ۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اسکو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکہ لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فر فر بولنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا ۔وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں نے قرآن کا ایک نہیں کئ ہزار معجزے اس دن دیکھے ، جس معاشرے میں قرآن پہ پابندی لگا دی گئ تھی رکھنے پہ ، اس معاشرے کے ہر ہر بچے بوڑھے مرد عورت کے سینوں میں قرآن حفظ ہوکر رہ گیا تھا میں جب باہر نکلا تو کئ سو بچے دیکھے اور ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو سب نے قرآن سنا دی ، میں نے کہا" لوگوں ۔۔۔۔۔! تم نے قرآن رکھنے پہ پابندی لگا دی لیکن جو سینے میں قرآن مجید محفوظ ہے اس پہ پابندی نہ لگا سکے ۔تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہےإِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں

پیر، 16 ستمبر، 2024

آم جیسا شیریں پھل ہمارے لئے عطیہء خداوندی ہے

  آم جیسا  شیریں پھل  ہمارے لئے عطیہء خداوندی ہے  اور پاکستان ان خوش  نصیب ملکوں میں جو بہترین اور   لذیذ ترین آم کی پیداوار دیتے ہیں- پوری دنیا  میں پھلوں کے بادشاہ آم کی1600 کے قریب اقسام دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں -یہ لذیذ پھل  تمام دنیا میں  ا نتہائی مقبول اور پسندیدہ پھل کے طور پر شہرت رکھتا ہے آم ا غذائیت اور ذائقے سے بھر پور پھل ہے پاکستانی آم دنیا کے زیادہ ممالک میں پسند کیا جاتا ہے اس میں فائبر کی مقدار زیادہ، کیلوریز کم اور کاربوہائیڈریٹس، کیلشیم، آئرن، پوٹاشیم اور تھوڑا سا پروٹین ہوتا ہے اور وٹامنز اے بی سی سے یہ بھر پور ہوتے ہیں دیگر اینٹی آکسیڈنٹ وٹامنز کا بھی ایک خزانہ اپنے اندر رکھتے ہیں یہ دنیا کے میٹھے پھلوں میں سے ایک ہے برصغیر آم کا مسکن ہے جہاں یہ تقریبا 4ہزار سال سے بڑھ رہا ہے اور اس کے بعد یہ دیگر علاقوں میں پھیل گیا ہے پاکستان میں آم2ہزار سال سے زیادہ عرصے سے پیدا ہو رہے ہیں اور یہ ملک اب دنیا کا چوتھا بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے، آم کی 1595اقسام مشہور ہیں جن میں سے صرف 25 سے 30قسمیں تجارتی پیمانے پر اگائی جا رہی ہیں، پاکستان میں پھلوں کے بادشاہ کی جو اقسام پیدا ہو رہی ہیں ان میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، انور رٹول، سرولی، ثمر بہشت، طوطا پاری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سانول، سورکھا، سنیرا اور دیسی شامل ہیں ۔


انور رتول جسے حرف عام میں انور راٹھور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انوار الحق نے بھارت کی ریاست اتر پردیش میں رٹول کے علاقے میں ایک باغ میں کاشت کی تھی لیکن اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے انور رتول آم پوری دنیا میں اپنے بھرپور ذائقے کے لیے پہچانا جاتا ہے اپنے شاندار ذائقے کی وجہ سے اس نے حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے اس کا ایک غیر معمولی میٹھا ذائقہ ہے جو تازگی بخشتا ہے یہ آم کی مٹھاس اور ذائقے کے لحاظ سے بہترین قسم ہے جو اسے باقی تمام آموں سے ممتاز کرتی ہے اس کا چوٹی کا موسم جولائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اگست میں ختم ہوتا ہے یہ آم پوری طرح سے غذائیت سے بھرپور ہے جو کافی مقدار میں توانائی فراہم کرتا ہے۔ -ہمارے وطن میں ملتان بھی آموں کے باغات کے لئے مشہور شہر ہے -لیکن اب سننے میں آ رہا ہے کہ ملتان میں آموں کے درخت بڑی تعداد میں ختم کئے جا رہےہیں تاکہ وہاں ہاؤسنگ سوسائیٹیز بن سکیں


پاکستان کا چونسہ آم دنیا کی بہترین دستیاب اقسام میں سے ایک ہے۔ چونسہ آم کی ایک قسم ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اگائی جاتی ہے لیکن اصل میں پنجاب کے رحیم یار خان اور ملتان سے ہے یہ ایک غیر معمولی طور پر میٹھا آم ہے جس میں شاندار خوشبو اور مزیدار نرم، رسیلا ہے جس میں صرف کم سے کم فائبر ہوتا ہے عام طور پر پیلا، میٹ پیلے رنگ کا ہونا لیکن پتلی چھلکے کے اندر یہ ایک لذت ہے چونسا آم کافی موٹا اور رسیلا ہوتا  اس کا تعلق رحیم یار خان اور ملتان پنجاب سے ہے، سندھڑی سندھ کی ایک معروف قسم ہے اس کی شکل بیضوی لمبا، سائز بڑا، جلد کا رنگ لیموں پکنے پر پیلا، گودا رنگ زرد کیڈیم، بناوٹ ٹھیک اور مضبوط ریشے کے بغیر،درمیانے سائز کا، ذائقہ خوشگوار خوشبودار اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے اس کا تعلق میر پور خاص سے ہے، یہ پاکستان کا قومی پھل بھی ہے کیونکہ یہ ورائٹی پاکستان میں سرفہرست ہے، سندھڑی آم پاکستان کی بہت مشہور اور دنیا کے بہترین آموں میں سے ایک ہے، لنگڑا آم کا ریشہ سے کم زرد بھورا رنگ کا ہوتا ہے اور جب پک جاتا ہے تو اس کی خوشبو تیز ہوتی ہے، آم کی دیگر اقسام کے مقابلے میں، یہ قدرتی طور پر بہت میٹھا اور نرم ہوتا ہے، بیج کا سائز چھوٹا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے لنگڑا پکنے کے بعد اس کا سبز رنگ برقرار رکھتا ہے، جب کہ دیگر آم پیلے سرخی مائل رنگ میں بدل جاتے ہیں،دسیری آم لمبا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے جس کی جلد ہلکی سبز یا پیلی سبز ہو جاتی ہے جب پختہ ہو جاتی ہے پکنے پر سنہری پیلی ہو جاتی ہے دسیری آم میں ریشے کے بغیر، آڑو کے رنگ کادرمیانے سائز میں زیادہ پایاجاتا ہے ذائقہ بہت میٹھا اور خوشبودار ہے دسیری آم میں وٹامن سی اور فائبر زیادہ ہوتا ہے قدرتی طور پر ہاضمے کے لیے فائدہ مند انزائمز کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر قیمتی وٹامنز اور منرلز بھی ہوتے ہیں



یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر اگائے جاتے  ہیں - اس کا چوٹی کا موسم وسط جولائی سے اگست تک ہوتا ہے سرولی، شمالی ہندوستان اور پاکستان میں ایک مقبول قسم یہ موسم کے دوران ظاہر ہونے والے پہلے آموں میں سے ایک ہے میٹھے سبز آم خوشبودار اور خوشبو سے بھرپور ہوتے ہیں یہ وٹامنز، پوٹاشیم، فینول اور آئرن کا بھرپور ذریعہ ہے اور یہ بہت پرکشش اور ذائقہ دار لگتا ہے ثمر بہشت مقامی انتخاب ہیں ۔توتاپوری آم ایک کھیتی ہے جو جنوبی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی ہے اور جزوی طور پر سری لنکا میں کاشت کی جاتی ہے بھارت میں آم کے گودے کے لیے ’الفونسو‘ اور ’کیسر‘ کے ساتھ اگائی جانے والی اہم کاشتوں میں سے ایک ہے درخت درمیانے سائز کا ہوتا ہے جس میں سبز پیلے پھل ہوتے ہیں فجر ی موسم بہار سے ماخوذ ہے اسے ایک عورت نے تخلیق کیا تھا جس کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے، جلد کا رنگ پیلا گودا ریشے دار کے بغیر میٹھے ذائقے اور غیر معمولی ساخت کے لیے بھی جانا جاتا ہے-پاکستان اب بھارت، چین، میکسیکو اور تھائی لینڈ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا پروڈیوسر ہے آم پاکستان کی دوسری بڑی پھلوں کی فصل ہے اس وقت یہ 1.8ملین ٹن کی پیداوار کے ساتھ ہزاروں ایکڑ کے رقبے پر اگایا جاتا ہے 


صرف صوبہ پنجاب میں تقریبا 3لاکھ ایکڑ کے قریب رقبے پر آم کے باغات ہیں جو کل پیداوار کا 70فیصد آم پیدا کر رہے ہیں ،صوبہ سندھ تقریبا 24فیصد اور خیبر پختوانخواہ بھی معمولی کا حصہ ڈالتا ہے پاکستان کی فصل دنیا کے آم کا 8.5 فیصد پیدا کرتی ہے پنجاب سے پہلے کی آب و ہوا نے صوبے کو آم کی ابتدائی اقسام اگانے کا اعزاز بخشا ہے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ چند سال میں معیاری آم کی پیداوار میں کمی آرہی ہے اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کوئی کام نہیں کر رہی ۔موسمیاتی تبدیلی اور شدید موسم کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں آم کی فصل متاثر ہوتی ہے ماہرین کے مطابق آم کی فصل اگانے کیلئے پاکستان میں مٹی اور موسمی ماحول معیار کے لحاظ سے معاون ہے آم کی کم پیداوار میں متعدد عوامل کارفرما ہیں بیمار پودے بنانے والے غیر صحت بخش بیجوں کا غیر منظم استعمال، کیڑوں کا حملہ (آم کا میلی بگ، فروٹ فلائی، مینگو ویول، ترازو، مائٹس)، بڈنگ یا گرافٹنگ کے دوران انتظام کے غلط طریقے، آبپاشی کا وقت، کٹائی اور کھادوں کے استعمال کا وقت اس میں خاطر خواہ کردار ادا کر تے ہیں آم کی تشہیر اور تعارف کے لیے محکمہ زراعت کی جانب سے رحیم یار خان میں تین روزہ سالانہ مینگو شو کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ ہر سال میرپورخاص کے شہید بینظیر بھٹونمائش ہال میں قومی آم اور موسم کے پھلوں کے فیسٹیول کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

اتوار، 15 ستمبر، 2024

گورکھ ہِل اسٹیشن، سندھ کا مَری

 

 تما م دنیا کی مہذب اقوام اپنے عوام کے لئے   بہترین اور سستی تفریح گاہیں مہیا کرتی ہیں  لیکن شومئ قسمت  کہ ہمارے ملک کے وسائل صرف چند ہاتھوں میں ہونے کے سبب پاکستان کے عوام ہر سہولت سے محروم ہیں خاص کر تفریح گاہیں - جبکہ ا  للہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے، جن میں سمندر، دریا، پہاڑ، ریگستان، نخلستان،زرخیز زمین، انواع و اقسام کے مزے دار پھل، اناج، سبزیاں، گیس اور معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک نے قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دُنیا میں عروج حاصل کیا،کسی بھی مُلک کے معاشی حالات کی بہتری میں سیّاحت کا شعبہ   اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نیز، سیّاحتی مقامات کی تعمیر و ترقّی کے نتیجے میں شہریوں کو سیر و تفریح کے بہتر مواقع بھی میسّر آتے ہیں۔ پاکستان میں عام طور پر موسمِ گرما میں سندھ اور پنجاب کے شہری اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مَری، سوات، کاغان سمیت دیگر شمالی علاقہ جات کا رُخ کرتے ہیں اوروہاں کےٹھنڈے موسم سےلطف اندوز ہوتے ہیں۔ سندھ کی نسبت فاصلہ کم ہونے کے سبب پنجاب کے شہری پبلک ٹرانسپورٹ یا نجی گاڑیوں کےذریعے ان علاقوں کی سیر کے لیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف سفر پر آنے والے اخراجات کم ہو جاتے ہیں بلکہ سفر کا دورانیہ بھی گھٹ جاتا ہے، جب کہ سندھ کے شہریوں کو ان پُر فضا مقامات تک رسائی کے لیے انٹرسٹی بسز یا ہوائی جہازکا سفر کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، سفر کی مد میں اچّھی خاصی رقم خرچ ہو جاتی ہے اور وقت بھی بہت زیادہ صَرف ہوتا ہے، بالخصوص بذریعہ سڑک آنے جانے میں 5 سے 6 دن لگ جاتے ہیں۔


ایسی صورتِ حال میں گرمی سے بچاؤ کے لیے سندھ کے شہریوں نےشمالی علاقہ جات ہی کا رُخ کیا اور اِس ضمن میں انہیں اچّھا خاصا مالی بوجھ بھی برداشت کرناپڑا۔ حالاں کہ اگرگورکھ ہِل اسٹیشن کو ایک معیاری تفریح گاہ میں بدلتے ہوئے یہاں آنے والے سیّاحوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کر دی جائیں، تو سندھ کے باشندے مَری اور سوات سمیت دیگر شمالی علاقہ جات کا رُخ کرنے کی بجائے گورکھ ہل ہی پر سیرو تفریح کو ترجیح دیں ایک خاصی سَستی سیرگاہ ثابت ہوگی بلکہ وہ طویل سفر کی تکلیف   سے بھی بچ جائیں گے۔واضح رہے کہ سندھ حکومت نے گورکھ ہِل اسٹیشن کو ترقّی دینے کے لیے 1995ء میں ’’گورکھ ہِلز ڈیولپمنٹ اتھارٹی‘‘ (جی ایچ ڈی اے) قائم کی تھی اور اس ضمن میں نجی ماہرین کی مدد سے ایک ماسٹر پلان بھی تشکیل دیا گیا تھا، مگر افسوس کہ 29برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ ترقیاتی کام مکمل نہیں ہوسکا۔ 

 

  اللہ تعالیٰ نے صوبۂ سندھ کے ضلع، دادو میں ’’گورکھ ہِل اسٹیشن‘‘ کی شکل میں موسمِ گرما میں سیر و تفریح کے لیے ایک بہترین مقام عطا کیا ہے۔ مذکورہ مقام کو اس کے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے ’’سندھ کا مَری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گورکھ ہِل اسٹیشن کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں صوبۂ سندھ اور صوبۂ بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ مقام سطحِ سمندر سے 5689 فٹ بلند ہے، جہاں موسمِ گرما میں درجۂ حرارت 20ڈگری سینٹی گریڈ اور موسمِ سرما میں نقطۂ انجماد سے بھی کم ہو جاتا ہے۔نیز، یہاں ہرسال دو سال بعد برف باری بھی ہوتی ہے۔ جنوری 2023ء میں برف باری کے نتیجے میں یہاں درجۂ حرارت منفی 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ ایسے میں اگر گورکھ ہِل اسٹیشن کوایک سیّاحتی مقام کے طور پرترقّی دی جائے، تو نہ صرف صوبۂ سندھ کے عوام بلکہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے شہریوں کو بھی ایک بہترین اورسَستی تفریح گاہ میسّر آسکتی ہے،  گورکھ ہِل اسٹیشن کراچی سے تقریباً 405 کلو میٹر، حیدر آباد سے 265 کلومیٹر، سکھر سے 30اور لاڑکانہ سےکم و 218 کلومیٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔  ۔ اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرمیوں میں شمالی سندھ کےشہروں کا درجۂ حرارت50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرگیا، جب کہ حالیہ موسمِ گرما میں کراچی کے بعض علاقوں میں درجۂ حرارت56 ڈگری سینٹی گریڈ تک محسوس کیا گیا۔ 

 

یاد رہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے سب سے اہم کام   ایک معیاری سڑک کی تعمیر ہے، کیوں کہ آج بھی راستے خراب ہونے کے باعث لوگوں کو وہاں تک پہنچنے کے لیے کرائے پر جیپ لے کر ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں، سکیوریٹی کی ناقص صورتِ حال بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور لُوٹ مار کی وارداتوں کی وجہ سے بھی بالخصوص فیملیز وہاں جانے سے گھبراتی ہیں۔سندھ کے شہریوں کی سہولت کے پیشِ نظر صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد گورکھ ہِل اسٹیشن کو ایک معیاری تفریح گاہ میں تبدیل کرے۔ نیز، وفاقی حکومت بھی اِس ضمن میں سندھ حکومت کو مالی اور تیکنیکی معاونت فراہم کرے۔ ہماری رائے میں پبلک / پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت اس پراجیکٹ کو جلد از جلد اور اعلیٰ معیار کے مطابق تعمیر کیا جاسکتا ہے  پھرحکومت اس ضمن میں کسی بین الاقوامی تعمیراتی کمپنی سے بھی معاہدہ کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ صوبۂ خیبرپختون خوا کے مشہور تفریحی مقام، مالم جبّا کی تعمیر وترقّی کے لیے آسٹریلوی حکومت نے مدد فراہم کی تھی اور آج یہ پاکستان کی ایک بہترین تفریح گاہ ہے۔


 سیّاحوں کی تفریحِ طبع کے لیے  حکومت یہاں کیا بنا سکتی ہے ، چڑیا گھر، سوئمنگ پول، کشتیاں،  الیکٹرک جھولے -ہارس رائڈنگ کا میدان  -سندھ کی پہچان اونٹوں پر سواری -جھولا پل،  ، مینارِ پاکستان کا ماڈل، گراسی پلاٹ، کرکٹ لان، بچّوں کا پارک، اوپن شیڈز اور بینچز وغیرہ  ۔ بڑی تعداد میں فوڈ پوائینٹس -اس کے علاوہ رہایش کے لیے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام کیا جانا چاہیے۔کیونکہ مناسب تعداد میں ریسٹ ہاوسز نا ہونے کی بنا پر اکثر لوگ کیمپنگ کرتے ہیں لہٰذا، حکومتِ سندھ کو چاہیےکہ وہ مذکورہ ہِل اسٹیشن کو جلدازجلد ایک محفوظ اورمعیاری تفریح گاہ میں تبدیل کرکے گرمی کے ستائے صوبے کے شہریوں کو راحت کا موقع فراہم کرے۔ میری حکوت سندھ سے مودبانہ گزارش ہے کہ گورکھ ہل اس ٹیشن کے منصوبے کو جلد سے جلد  مکمل  کر کے مقامی افراد کے روزگار کا بندوبست کیا جائے 


جمعرات، 12 ستمبر، 2024

چھانگا مانگا جنگل' میڈ ان پاکستان


 

 جی جناب عالی 'یہ جنگل بے شک پاکستان میں ہے لیکن اس جنگل کو پروان چڑھایا ہے انگریز بہادر نے-کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کو لکڑی کی بطور ایندھن ضرورت تھی کیونکہ ریل کے انجن بھاپ سے چلتے تھے اس لئے انہوں نے اس وسیع عریض رقبے کا انتخاب کر کے اس کو لہلہاتے ہوئے جنگل میں تبدیل کر دیا اور آج بھی یہ جنگل پنجاب کی شان بڑھانے کے علاوہ قومی آمدنی بھی بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا انسانی ہاتھوں سے لگایا جانے والا مصنوعی جنگل قرار دیا جاتا ہے۔ ۔ چھانگا مانگا کے جنگلات صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے 70 کلومیٹر اور پتوکی سے 7 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اور بارہ ہزارایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ چھانگا مانگا نام لوک کہانی پر مشتمل ہے۔ یہ دو بھائیوں کی کہانی ہے جن میں ایک بھائی کا نام چھانگا اور دوسرے کا نام مانگا تھا۔ یہ دونوں بھائی چوراور ڈاکو تھے اور انگریز حکام سے بچنے کے لیے ان جنگلات میں چھپ جایا کرتے تھے۔ ان بھائیوں کے قصے اس علاقے کے بارے میں جاننے والے ہر بچے کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔پاکستان میں چھانگا مانگا جنگل انسانی کاوش کی عمدہ مثال ہے۔ پاکستان کے ساحلی جنگلات کو بھی بچانے کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں 


محل وقوع-چھانگا مانگا کے جنگلات لاہور اور ساہیوال کے درمیان میں چونیاں کے مقام پر قومی شاہراہ کے مشرقی حصے میں تقریباً 10 کلومیٹر پر واقع ہیں۔ ایک بہت بڑا علاقہ ہونے کیوجہ سے اس کا کچھ حصہ ضلع قصور اور کچھ ضلع لاہور میں آتا ہے۔شجرکاری کی تاریخ-اس کا منصوبہ 1865 میں لاہور، امرتسر اور کراچی کے درمیان میں چلنے والے سٹیم انجنوں کے لیے سستی لکڑی کی فراہمی کے لیے عمل میں آیا تھا،چھانگا مانگا کے جنگلات میں شجر کاری کا آغاز 1866میں کیا گیا۔ اس جنگل کا ابتدائی ورکنگ پلان 1871 میںMr.B.Ribbentro نے تیار کیا۔ اور یہاں سب سے پہلے درختوں کی کٹائی 1881 میں شروع ہوئی۔1888میں برطانوی حکام نے فیصلہ کیاکہ وہ اس جنگل کے ایک وسیع رقبے پرشیشم کی لکڑی اگائیں گے۔


سیاحتی مقام-اس جنگل میں جنگلی حیات پر مشتمل ایک پارک بھی موجود ہے۔ جبکہ ایک واٹر ٹربائن اور بچوں کے کھیلنے کے لیے ایک وسیع ایریا بھی موجود ہے۔ یہاں آنے والے سیاحت کے شوقین لوگوں کے لیے ایک خصوصی ٹرین بھی موجود ہے۔ جس میں سوار ہوکر جنگل کی سیر کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک جھیل بھی بنائی ہے جس میں کشتی کی سواری کی جا سکتی ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے ایک ریزورٹ بھی ہے جو لاہور سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میدانی علاقوں میں شجرکاری کیلئے نیم ، پیپل ، لیگنم اورگل مہر بہترین درخت ہیں۔جبکہ آم ، امرود ،چیکو ،بیر، کھجور ، شریفے اور جنگل جلیبی وہ پھل دار درخت ہیں، جو نہایت آسانی سے اگائے جاسکتے ہیں۔یہ پھل دار درخت پرندوں کی خوراک اور افزائش کا سبب بھی بنتے ہیں۔جبکہ پہاڑی علاقوں میں چیڑھ ، اخروٹ ، سیب اور خوبانی کے درخت موزوں ترین خیال کئے جاتے ہیں۔جنگلی حیات کی افزائش:2008ء سے اس جنگل کو جنگلی جانوروں اور پرندوں کی تعداد میں اضافہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی وہ نسلیں جو ناپید ہو رہی ہیں ان کے لیے یہاں ماہرین کام کر رہے ہیں۔ یہاں نیل گائے، ہرن، گیدڑ، سؤر ،بارہ سنگھا،موراور اڑیال جیسے جنگلی جانوروں کو قدرتی ماحول دیا جاتا ہے اس کے علاوہ گدھ کی افزائش نسل کا مرکز ہے۔  چھانگامانگا جنگل میں جھیل بھی بنائی گئی ہے جہاں سیر تفریخ کرنے والوں کے لیے بے شمار حسین مقامات بنائے گئے ہیں    

چھانگا مانگا کا جنگل نہ صرف لکڑی کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے، بلکہ یہ ایک بہترین سیرگاہ کی حیثیت سے بھی پورے ملک میں شہرت کا حامل ہے۔ 1960ء میں یہاں قومی پارک بنایا گیا، جس کے بعدہر سال لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیّاح، یہاںسیّاحت کی غرض سے آنے لگے۔ سیّاحوں کی تفریحِ طبع کے لیے مہتابی جھیل، چڑیا گھر، سوئمنگ پول، کشتیاں، جھولا پل، مہتاب محل، مینارِ پاکستان کا ماڈل، گراسی پلاٹ، کرکٹ لان، بچّوں کا پارک، اوپن شیڈز اور بینچز وغیرہ کی سہولت مہیّا کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ رہایش کے لیے ریسٹ ہائوسز کا بھی مناسب انتظام ہے۔ علاوہ ازیں، سیّاحوں کی دل چسپی کے لیے بھاپ سے چلنے والی ٹرین بھی چلائی جاتی ہے۔ چھانگا مانگاجنگل کے درمیان سے ایک نہر برانچ لوئر گزرتی ہے،جو پورے جنگل کو سیراب کرتی ہے۔ ساتھ ہی ایک خوب صورت جھیل بھی ہے، جو جنگل کی خوب صورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔ جھیل کی خوب صورتی کے پیشِ نظر اس کا نام’’ مہتابی جھیل‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہاں چلنے والی کشتیاں سیّاحوں کے لیے خاص کشش رکھتی ہیں۔ جھیل کے دوسری جانب جانے کے لیے ایک’’ جھولا پل‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس پر ایک وقت میں آٹھ سے زیادہ افرادکو گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر جھیل کے بیچوں بیچ، پانی میں کھڑے دو منزلہ’’ مہتاب محل‘‘ کے کناروں پر سدا بہار درختوں کی شاخوں کاجھک کر جھیل کے پانی کو چھونے کا حسین منظر تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔


چھانگا مانگا  جنگل! جہاں ریشم کے کیڑے پال کر دھاگہ بنایا جاتا ہے جس سے ورلڈ کلاس ریشم کا کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار سے اوسطاََ ایک خاندان تقریباََ ایک لاکھ روپے تک ماہانہ کما رہا ہےجنگل کے تحفّظ اور اسے خوب صورت بنانے میں ’’محکمۂ تحفّظِ جنگلی حیات‘‘ کابھر پور حصّہ ہے۔اس جنگل میں درختوں کی آب یاری، کاٹ چھانٹ اور پانی دینے کے لیے بیلداروں کی رہائشی کالونیاں بھی جنگل کے احاطے  کے اندر  بنائی گئی ہیں۔ ملازمین کے لیے جنگل کے احاطے ہی میں ایک ڈسپینسری اور بچّوں کے لیے پرائمری اسکول بھی موجودہے۔جنگلی حیات کی افزائش کے لیے جھیل سے متصل، ایک بریڈنگ سینٹر بنایا گیا ہے، جس میں نیل گائے، ہرن، اڑیال اور گدھ سمیت دیگر جانور رکھے گئے ہیں، جانوروں کو حتی الامکان جنگلی ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات نے فیزنٹ (جنگلی مرغے) کی نسل کو بڑھانے کے لیے دو سو کے قریب جنگلی مرغے پال کر جنگل میں آزاد چھوڑے ہیں۔ علاوہ ازیں، کافی تعداد میں خرگوش تیتر، تلور، بٹیر اور مور بھی پائے جاتے ہیں۔ مہمان پرندے تلور، مارچ اور اپریل میں ایشیائے کوچک سے یہاں بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ جب کہ قیمتی اقسام کے باز کے علاوہ بڑے سائز کے بلّے بھی اچھلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، جنگل میں کسی بھی قسم کا شکارممنوع ہے۔

بدھ، 11 ستمبر، 2024

زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے

 زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے، جو کسی بھی وقت کہیں بھی آسکتا ہے۔پاکستان نے بھی  بڑے بڑے زلزلے  سے بڑے جانی اور مالی نقصان اٹھائے ہیں - ریکٹر اسکیل پر زیادہ شدت رکھنے والے زلزلے جانی اور مالی نقصان کا باعث بھی بنتے ہیں، اس کے نتیجے میں عمارتیں بھی زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو زلزلے کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ عالمی بینک رپورٹ کے مطابق، 2005ء کے زلزلہ کی وجہ سے پاکستان کو پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا تھا۔اس زلزلہ کی وجہ سے تقریباً 28 لاکھ لوگ بے گھر جب کہ 73ہزار افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ تاہم دُنیا میں سب سے زیادہ اورسب سے شدید زلزلے جاپان میں آتے ہیں، جو بسا اوقات سونامی کی شکل بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ زلزلوں کو تو نہیں روکا جاسکتا تاہم انسان سائنسی ترقی کی روشنی میں ایسے اقدام ضرور اٹھا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے، ان میں زلزلہ سے محفوظ رہنے والی عمارتوں کی تعمیر ایک اہم قدم ہے۔  تاریخ گواہ ہے کہ غلط منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی عمارتیں، زلزلے کی صورت میں شہری مرکز میں بڑے مالی اور جانی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں، زلزلوں کو برداشت کرنے والی عمارتوں کی تعمیر کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ ذیل میں ایسی ہی چند عمارتوں کی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیتائیوان کے دارالحکومت تائپے کی فلک بوس عمارت تائپے 101کی تعمیر 2004ء میں مکمل کی گئی تھی۔ 1,667میٹر بلندی کے ساتھ اُس وقت یہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ ہرچند کہ، اب اسے دنیا کی بلند ترین عمارت کا درجہ حاصل نہیں رہا، تاہم اس میں زلزلے اور موسمی تغیر سے محفوظ رہنے کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی آج بھی اتنی ہی مؤثر اور اعلیٰ ہے۔ تائپے101میں، زلزلے کے جھٹکوں سے محفوظ رہنے کے لیے ’’اِنٹرنل ڈَیمپر‘‘ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ زلزلے کی صورت میں عمارت کے ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچے گا۔


زلزلہ کے بڑھتے خطرات کے پیشِ نظر پاکستان میں بھی تعمیرات میں زلزلہ پروف ٹیکنالوجی پر کام ہورہا ہے۔ این ای ڈی یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اَرتھ کوئیک انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کی لیب میں اسٹیل کینیڈا کے تعاون سے زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیراور موجودہ عمارتوں کے لیے اسٹیل سے بنے بکلنگ ری اسٹرین فریم کا کامیاب تجربہ کیا جاچکا ہے۔بکلنگ ری اسٹرین بریسنگ(بی آر بی) ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ لچکدار اور زیادہ مضبوط ڈھانچے کی تعمیرممکن ہے، جس کے ذریعے عمارت زلزلے کے شدید جھٹکوں کو برداشت کرسکتی ہے۔این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق، یہ فریم نصب کروانے سے عمارت انتہائی محفوظ ہوجاتی ہے اور خرچ بھی زیادہ نہیں آتا۔ نئی تعمیر ہونے والی عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے ہیں لیکن پُرانی تعمیر شدہ عمارت کے لیے بی آر بی بہترین طریقہ ہے، جس کے ذریعے کسی بڑی ڈیمالیشن کیے بغیر عمارت کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں اس ٹیکنالوجی کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان کا محل وقوع فالٹ لائن پر واقع ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں بی آر بی ٹیکنالوجی زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

 استنبول ایئر پورٹ-زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیں-1999ء میں ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں 7.4شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس کے نتیجے میں 17,000لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ 20لاکھ مربع فٹ پر تعمیر کردہ اس وسیع و عریض اور خوبصورت کمپلیکس میں زلزلے سے محفوظ رہنے کے لیے، سطح زمین پر 300سیسمِک آئسولیٹرز نصب کیے گئے ہیں۔ اس کے انفرادی بیئرنگ، زلزلے سے پیدا ہونے والی حرکت کے ساتھ چلتے ہیں، جس کے نتیجے میں ساری عمارت ایک یونٹ کے طور پر حرکت میں آتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے باعث، زلزلے سے پیدا ہونے والی حرکت کی رفتار میں 80فیصد کمی آجاتی ہے۔-ٹرانس امریکا پیرامیڈزلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیں -یہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکوکی بلند ترین عمارت ہے اور توقع ہے کہ مستقبل میں یہ 6.7کی شدت والے زلزلے تک کو برداشت کرجائے گی۔ اس عمارت کی بنیاد میں استعمال ہونے والاکنکریٹ 52فٹ گہرا ہے اور یہ زلزلے کی صورت میں زمین کے ساتھ حرکت میں آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 1989ء میں سان فرانسسکو میں 6.9شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس زلزلے کے دوران یہ عمارت ایک منٹ تک مسلسل حرکت میں رہی، عمارت کی بالائی منزل اپنی جگہ سے ایک فٹ تک باہر جاتے دیکھی گئی، تاہم عمارت کا ڈھانچہ مکمل طور پر محفوظ رہا

-کاربن فائبر سے بنے تار کا استعمال جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جاپان میں سب سے زیادہ اور سب سے شدید زلزلے آتے ہیں۔ اس بات کے پیشِ نظر جاپان نے اپنی عمارتوں کو محفوظ بنانے کےکئی طریقے ایجاد کیے ہیں۔ ایک ایجاد ’کاربن فائبر‘ سے بنے تاروں کا استعمال ہے۔ جاپانی ماہرِ تعمیرات’کینگو کیومہ ‘نے عمارت کو زلزلہ پروف بنانے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جنوبی جاپان کے شہر’ نومی ‘ میں زلزلہ سے متاثرہ لیبارٹری اوردفتر کی عمارت کو ازسرِ نو تعمیر کیا گیا۔ شنگھائی ٹاور-زلزلہ برداشت کرنے والی جدید عمارتیںچین کے سب سے بڑے شہر شنگھائی کے 2,000فٹ بلند شنگھائی ٹاور کو اس وقت زمین پر موجود دنیا کی دوسری سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ بدقسمتی سے، شنگھائی زلزلے کی زد میں ہونے والے علاقوں میں شامل ہے، اور یہاں کی زمین بھی نسبتاً نرم مٹی پر مشتمل ہے۔ اس عمارت کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لیے انجینئرز نے ساڑھے 21لاکھ مکعب فٹ ’’ری اِنفورسڈ کنکریٹ‘‘ کا استعمال کیا، جوزمین کے اندر 300فٹ تک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پینڈولم پاور ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ پینڈولم کا وزن 1,000ٹن ہے، جس کے سامنے تائپے 101کا پینڈولم بھی شرما جاتا ہے۔

اب کی بار اسے زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لیے آرکیٹیکٹ نے ‘کاربن فائبر’ سے بنے تاروں کا استعمال کیا ہے۔ طریقہ کار کے تحت عمارت کی بنیادوں ، اندرونی دیواروں اور کھڑکیوں کو کئی تاروں سے باندھا گیا ہے۔ عمارت کے باہر سے تاروں کو باندھنے کے لیے ایک سرا عمارت کی چھت اور دوسرازمین پر باندھا گیا ہے، جس کے بعد یہ بلڈنگ، سرکس ٹینٹ سے مشابہہ دِکھائی دیتی ہے۔ آرکیٹیکٹ کے مطابق، اگر زلزلہ بلڈنگ سے ٹکرائے گا، تو یہ زمین کے ساتھ اپنی جگہ بنائے رکھے گی۔بلڈنگ کو ڈیزائن کرنے والے آرکیٹیکٹ کا کہنا ہے کہ یہ ڈیزائن ان عمارتوں کے لیے بنایا گیا ہے، جو ایک سے دو بار زلزلے سے متاثر ہو چکی ہیں اور اس طریقے سےانھیں دوبارہ زلزلہ پروف بنایا جا سکتا ہے۔اسٹائرو فوم سے تعمیرجاپان میں عمارتوں کے زلزلہ سے محفوظ رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر مسلسل کام ہورہا ہے، جس کے باعث ماہرین ہر آئے دن نئی اختراعات متعارف کراتے رہتے ہیں۔ کاربن فائبر سے تیار کردہ تاروں کے استعمال کے علاوہ، جاپانیوں نے زلزلہ سے محفوظ رہنے کا ایک اور طریقہ یہ نکالا ہے کہ وہ فوم کی مدد سے گھر بنانے لگے ہیں، جو زلزلے سے مکمل طور پر محفوظ رہتے ہیں۔ یہ گھر انتہائی خوبصورت بنائے گئے ہیں اور جاپان کی سیر پر جانے والے اکثر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ان ہلکے پھلکے مگر خوب صورت گھروں کو ’اسٹائروفوم‘ نامی مضبوط فوم سے تیار کیا جاتا ہے،جو ایک طرف تو مکینوں کو شدید گرمی اور شدید سردی سے محفوظ رکھتے ہیں تو دوسری جانب اسی فوم کی بدولت یہ مکانات زلزلوں کے خلاف حیرت انگیز مزاحمت بھی رکھتے ہیں۔ اسٹائروفوم سے تعمیر کیے جانے والے تمام مکانات کو گنبد جیسی شکل دی جاتی ہے، کیونکہ اس کی ساخت بہت مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔ اس میں بنیادی ڈھانچے کی لکڑی پر اسٹائروفوم کی موٹی تہہ چڑھادی جاتی ہے۔


6گھنٹہ میں زلزلہ پروف گھر تیار-اِٹلی کی ایک فرم نے عالیشان مکان کے ایسے ضروری اجزاء تیار کیے ہیں، جن کے ذریعے ص6 گھنٹے میں پورا مکان تعمیر کیا جاسکتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ یہ مکان مکمل طور پر زلزلہ پروف ہوتا ہے۔ اسے فلیٹ پیک فولڈنگ ہوم کا نام دیا گیا ہے، جس کے تمام اجزاء اٹلی کی ایک فیکٹری میں تیار کیے گئے ہیں اور انہیں آسانی سے ٹرکوں کے ذریعے کسی بھی جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔اس کی خاص بات مکان کی ڈیزائننگ ہے جو بہت خوبصورت ہے اور اندر سے بھی کشادگی کا احساس دیتی ہے۔ چھوٹے مکان کا رقبہ290مربع فٹ جب کہ بڑے مکان کا رقبہ904 مربع فٹ ہوتا ہے۔ کمپنی کے مطابق، مکان کی فوری تعمیر کے لیے لکڑی اور پلاسٹک سمیت کئی نئے مٹیریل بھی بنائے گئے ہیں، جو موسم کی شدت برداشت کرسکتے ہیں جبکہ فوری تیاری کےلیے ڈیزائن میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ماحول دوست مکان، شمسی پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پیدا کرتا ہے، جسے اٹلی کے ڈیزائنر ریناٹو وائیڈل نے بنایا ہے۔ مکان کو مختلف ماڈیولز میں رکھاجاتا ہے، تاکہ اسے کھول کر بآسانی بنایا جاسکے۔ اس میں 904 مربع فٹ کا ماڈل ایک چھوٹے خاندان کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ ضرورت کے تحت گھر کو پھر سے کھول کر کسی اور جگہ منتقل کرنا بھی آسان ہے۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر