جمعہ، 23 فروری، 2024

حضرت"امام مہدی (عج)"ولادت با سعادت


 اللہ رب العزت نے چمنستان نبو ت میں جب اپنے محبوب،باعث تخلیق کائنات ،فخر موجودات کی بیٹی کے گھر میں پہلا  مولود امام حسن علیہ السّلام کی صورت اتارا اورعلی علیہ السّلام نے اپنے صاحبزادے حسن کی طرف دیکھا اور فرمایاکہ میرا یہی بیٹا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کہا،   میرے اسی فرزند کے پشت سے ایک  امام پیدا ہوگا جس کا    نام لوح میں لکھا جا چکا ہے، وہ اخلاق اور عادات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے   مشابہ     ہوگا  - آپ امام کی پیش گوئ کے مطابق- آپ امام زمانہ  255 ہجری میں پیدا ہوئے اور بروائت پانچ یا چھ برس کی عمر میں پردہ ء غیب میں چلے گئے اگر آپ کو بھی  ظاہری حیات ملتی تو پچھلے گیارہ اماموں کی مانند شہید  کر دئے جاتے اس لئے تب سے لے کرآج تک غیب کے پردے میں ہیں،جب قیامت قریب ہو گی تب آپ اہل دنیا پر ظاہر ہو کر اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔آپ کا سب سے مشہور لقب "مہدی" ہے۔ انہیں "امام مہدی (عج)" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ولادت مبارک: امام زمانہ (عج) عباسی خلیفہ معتمد کے دور میں 15 شعبان 255 ہجری کو سامرہ میں پیدا ہوئے۔ امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے  کئ ہزار روٹیاں اور  کئ  ہزارپکا ہوا  گوشت تقسیم کیا اور تین سو بھیڑ یں  عقیقہ کے طور پر ذبح کئے۔

اپنے والد کی شہادت کے وقت امام زمانہ علیہ السلام کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بچپن میں نبوت عطا فرمائی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گہوارہ میں اپنا رسول بنایا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عمر کے امام کو چھوٹی عمر میں امامت کا منصب عطا فرمایا۔ اس نے کلام کی فصل کو برکت دی اور اسے پوری دنیا کے لیے اپنا ثبوت اور نشان قرار دیا۔ "انتظار امام مہدی" کے عنوان سے لکھے گئے باب میں لکھا ہے کہ اسلام میں امام مہدی (ع) اور ان سے متعلق تمام امور پر ایمان لانے کی پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت اور شیعہ کے نزدیک قابل اعتماد احادیث نبوی موجود ہیں۔   ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ آخری وقت میں اہل بیت میں سے مہدی نام کی ایک شخصیت ظہور کرے گی جو دین کی مدد اور حمایت کرے گی اور عدل و انصاف کی بات کرے گی۔  وہ پوری دنیا پر حکومت کرے گی اور اسے انصاف سے بھر دے گی 

غیبت صغری: اس پہلی غیبت میں امام مہدی علیہ السلام چند خاص لوگوں کے علاوہ تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور ان کا شیعوں سے رابطہ اپنے نمائندوں اور سفیروں کے ذریعے تھا۔ سفیر شیعہ خطوط امام مہدی تک پہنچائے گا۔ امام مہدی (عج) کے سوالات اور خطوط کے جوابات متعلقہ لوگوں تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ذمہ داری تھی۔ مختلف احادیث، تاریخی، مذہبی منابع اور دعاؤں اور زیارتوں میں شیعوں کے بارھویں امام آل رسول کو بہت سے القابات اور کنیتوں سے متعارف کرایا گیا ہے۔محدث نوری نے اپنی کتاب نجم الثقیب میں تقریباً 182 نام اور القاب ذکر کیے ہیں۔ محدث نوری نے یہ نام اور القاب ذکر کیے ہیں: مہدی، قائم، بقیع اللہ، منتقم، مواد، صاحب الزمان، خاتم الوصیہ، منتظر، حجت اللہ، منتقم، احمد، ابوالقاسم، ابو صالح، خاتم الائمہ، خلیفۃ اللہ، صالح، صاحب الامر۔ . محدث نوری النجم الثقیب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے تمام معتبر ناموں اور القابات کو جمع کیا ہے۔ اسی طرح نام نامہ حضرت مہدی (ع) نامی کتاب میں 310 ناموں اور القابات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بارہویں امام (ع) کے نام اور القاب بھی اہل سنت کے منابع میں نقل ہوئے ہیں

امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کو عام لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ . نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "صاحب الامر کی ولادت مخلوق سے پوشیدہ ہے، اگرچہ وہ ظاہر ہو جائے، پیدائش بھی مخفی ہے تاکہ کوئی ان کی بیعت نہ کرے۔" ولادت کو خفیہ رکھنا تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت کو بھی اس لیے خفیہ رکھا گیا تھا کہ بادشاہ کے ہاتھوں ان کے قتل ہونے کا اندیشہ تھا۔ یا قرآن کریم کی سورہ قصص کی آیات 7 تا 13 میں موسیٰ بن عمران کی ولادت کی خوشی کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کی پیدائش کو خفیہ رکھا گیا تھا۔امام زمانہ زیارت-آپ پر سلام ہو جو خدا کی زمین میں اس کی حجت ہیں آپ پر سلام ہو جو خدا کی مخلوق میں اس کی آنکھ آپ پرسلام ہو جو خدا کے وہ نور ہیں جس سے ہدایت چاہنے والے ہدایت پاتے ہیں اور جس سے مومنوں کو کشادگی ملتی ہے آپ پر سلام ہو جو نیک طینت ڈرنے والے ہیں - آپ پر سلام ہو اے خیر خواہ و سرپرست آپ پر سلام ہو اے کشتی نجاتہیں  آپ پر سلام ہو اے چشمہ حیات آپ پر سلام ہو خدا کی رحمت ہو آپؑ پر اورآپکے پاک و پاکیزہ اہل بیتؑ پر-

 آپ پر سلام ہو خدا اس امر کے ظہور اور نصرت میں جس کا وعدہ اس نے آپ سے-کیا ہے آپؑ پر سلام ہو اے میرے سردار میں آپ کا غلام ہوں آپ کے آغاز و انجام سے واقف ہوں میں خدا کا قرب چاہتا ہوں آپ کا اور آپکے خاندان کے وسیلے سے- اور انتظار کرتا ہوں آپکے ظہوراورآ پکے ہاتھوں حق کے ظہور کا اور خدا سے سوال کرتا ہوں کہ وہ محمد و آل محمد پر رحمت فرمائے-اور آپکے سامنے شہید ہونے والے آپکے دوستوں میں سے قرار دے۔ اے میرے آقا اےصاحب زماںؑ آپ پر اور آپؑ کے اہل بیتؑ پر خدا کی رحمتیں ہوں۔ یہ جمعہ کا دن ہے جوآپؑ کا دن ہے جس میں آپؑ کے ظہوراور آپؑ کے ذریعے مومنوں کی آسودگی کی توقع ہے اور آپ کی تلوار سے کافروں کے قتل کی امید ہے- اور اےمیرے آقا میں آج کے دن آپ کی پناہ میں ہوں اور اے میرے آقا آپ کریم اور کریموں کی اولاد سے ہیں-اور مہمان رکھنے اور پناہ دینے پر مامور ہیں پس مجھے مہمان کیجیے اور پنا ہ دیجئے۔ آپ اور آپ کے پاک و پاکیزہ اہلبیتؑ پرخدا تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔سید بن طاؤس کہتے ہیں میں اس زیارت کے بعد اس شعر کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور امام زمانہ ﴿عج﴾ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوںنزیلک حیث ماا تحھت رکابی وضیفک حیث کنت من البلاد میری سواری مجھے جہاں بھی لے جائے میں آپ ہی کا مہمان ہوں اور شہروں میں سے جس شہر میں رہوں وہاں بھی آپکا مہمان ہوں


 

 

گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات

 

گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات

کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کے درمیان گندھارا آرٹ ایک ثقافتی اشتراک ہے، جس کا ارتقاء وسطی ایشیا میں تقریباً ہزار سال کی مدت میں انجام پذیر ہوا۔ یہ مدت سکندر اعظم (چار صدی قبل مسیح) سے اسلامی فتوحات (7ویں صدی عیسوی) کے درمیانی عرصے پر محیط تھی۔ سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا۔ گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔ گندھارا آرٹ دراصل یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔ گندھارا آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت فروزاں نظر آتا ہے۔ ادھر چینی سرحدی علاقوں میں بھی اس کے آثار ملتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں دوہزار سال پرانا مانکیالہ اسٹوپا ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ڈبلیو ایف سیرو (W F Cero) کی کتاب ’’گندھاراکی عبادت گاہیں‘‘ میں شائع شدہ نقشوں کے مطابق افغانستان اور روس تک پھیلی ہوئی گندھارا تہذیب کی آخری سرحد مانکیالہ کا اسٹوپا تھی۔

گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات موریاعہد سے گپتاخاندان کے عروج کے زمانے میں فن سنگ تراشی کے نئے دبستان وجود میں آئے۔ متھرا کے مجسموں کی یہ خصوصیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے گوتم بدھ کو انسانی شکل (مجسمہ) میں پیش کیا گیا، جو مدتوں مقبول رہا۔ اس فن میں گندھارا اسکول نے سب سے زیادہ ترقی کی، چنانچہ بر صغیر کے اکثر علاقوں میں گندھارا آرٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے نمونے پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے بعض مقامات پر بھی ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیکسلا سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔  تمام نمونے گوتم بدھ کی زندگی یا بدھ مذہب کی روایات پر مشتمل ہیں۔ گندھارا فن کے سب سے قابل تعریف نمونے ہمیں گوتم بدھ یا بدہستوا کے مجسموں میں ملتے ہیں۔ گندھارا آرٹ نے کشن حکمرانوں کی سرپرستی میں ترقی کی۔ یہی سبب ہے کہ یہ آرٹ چین اور جاپان ہی نہیں بلکہ مشرقِ بعید تک پہنچ گیا تبھی ان علاقوں کی تہذیب پر ہمیں گندھارا آرٹ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ ٹیکسلا کے دھرم راجیکا کے اسٹوپے میں ایک مجسمے کی بلندی چالیس فٹ کے قریب تھی۔اسٹوپے-گوتم بدھ کی وفات کے بعد بدھوں میں زیارت کا رواج عام ہو گیا ۔یہ روایت مشہور ہو گئی کہ گوتم بدھ نے چار مقامات کی زیارت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ایک تو لمبینی باغ، جہاں بدھ پیدا ہوئےتھے۔ دوسرا گیا کے قریب درخت، جس کے نیچے اُنہیں گیان حاصل ہوا تھا۔ تیسرا بنارس کا ہرن باغ، جہاں اُنھوں نے مذہب کی پہلی دفعہ تعلیم دی تھی۔ چوتھا کشی نگر، جہاں اُنھوں نے وفات پائی۔

 اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا، اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر اسٹوپے تعمیر کرائے تھے۔ ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے گئے، ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بدھ راہب مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے وہار (مندر) بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس مقصد کے لیے وقف کردی گئی۔ گوتم بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی، اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کروا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک 84ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی، چنانچہ ان اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹوپے مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میں پتھریلی کتاب تھے۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں، جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔منظم شہری تہذیب صوابی، مردان روڈ سے ایک سڑک اسوٹا شریف اور شیوکلی کی طرف جاتی ہے، جہاں سے ایک سڑک نوگرام گائوں کی طرف جاتی ہے۔ نوگرام کے ملحقہ پہاڑوں پر رانی گٹ بدھ دور کی دنیا کی بڑی تہذیب ہے۔ یہ کھنڈرات بلند و بالا پہاڑ پر واقع ہیں جس پر پہنچنے کے لیے جاپان ،یونیسکو اور حکومت پاکستان کے مشترکہ تعاون سے سیڑھیاں اور ریلنگ تعمیر کر دی گئی تھی۔ رانی گٹ کھنڈرات 168کنال رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں جس تک پہنچنے کے لیے3540فٹ کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سطح زمین سے اس کی اونچائی 900فٹ ہے۔ بڑی بڑی سیاہ چٹانوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ رانی گٹ کے جنوبی حصہ میں سنگ تراشی ہواکرتی تھی۔

 مورتیوں کے لیے پتھر اونٹوں کے ذریعے لائے جاتے تھے۔ پہاڑ کھود کر ایک کمرہ بھی بنایا گیا تھا جہاں سنگ تراشی کا ماہر بیٹھا کرتا تھا۔ گوتم بدھ کے پیروکار یہاں سے تعلیم حاصل کرکے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے مذہب کی تعلیم دینے جاتے تھے۔ کھنڈرات کے داخلی راستے میں ایک بورڈ پر رانی گٹ کی مختصر تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ سائوتھ سائیکلر بلڈنگ ایریامیں بدھ کے بڑے اسٹوپے کے ساتھ لاتعداد چھوٹے چھوٹے اسٹوپے ہیں۔ مشرق کی جانب چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن پر چھت نہیں ہے۔ شاگردوں کے بیٹھنے کے لیے دیواروں کے ساتھ نشست گاہیں بنائی گئیں۔ یہ کمرے ایک ساتھ تعمیر کیے گئے تھے۔ قریب ہی سات آسمانوں اور زمین کے فلسفہ کو فنِ سنگ تراشی میں پیش کیا گیا ہے۔ گندھاریوں کا پہلا تذکرہ رگ وید میں ایک ایسے قبیلے کے طور پر ملتا ہے جس کی اچھی اون والی بھیڑیں ہوتی ہیں۔گندھارا ایک قدیم ہند آریائی تہذیب تھی جس کا مرکز موجودہ شمال مغربی پاکستان اور شمال مشرقی افغانستان کے کچھ حصوں سمیت تقریباً شمال مغربی برصغیر کے مضافات میں تھا۔ گندھارا کے علاقے کا مرکز وادی پشاور اور وادی سوات تھے،

 "گریٹر گندھارا" کا ثقافتی اثر دریائے سندھ کے پار پوٹھوہار میں ٹیکسلا کے علاقے تک اور مغرب کی طرف افغانستان کی وادی کابل تک پھیلا ہوا تھا، اور شمال کی طرف قراقرم کی حد تک تھا۔ گندھارا قبیلہ، جس کے نام پر اس تہذیب کا نام رکھا گیا ہے،بارہ سے پندرہ سو سال قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے، رگ وید میں اس کا ذکر ہے ۔ اس خطے کا ذکر زرتشتی اوستا میں کیا گیا ہے، کہ پر چھٹا سب سے خوبصورت مقام ہے۔ زمین اہورا مزدا نے بنائی۔گندھارا کا ذکر رامائن اور مہابھارت میں کثرت سے ملتا ہے۔ نام کی اصل سنسکرت کے لفظ گندھ سے ہے، جس کا مطلب ہے "عطر" اور "ان مصالحوں اور خوشبودار جڑی بوٹیوں کا حوالہ دینا جن کی مقامی باشندے تجارت کرتے تھے۔ گندھارا وہ خطہ تھا جو اب وادی پشاور، مردان، سوات، دیر، مالاکنڈ ، باجوڑ اور ٹیکسلا پر مشتمل ہے۔ اسی خطے میں  اتھرو وید میں، گندھاریوں کا ذکر مجاونت، آنگیوں کے ساتھ ملتا ہے۔ اور مگدھی ایک تسبیح میں بخار سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بیمار آدمی کے جسم کو چھوڑ دیں اور اس کے بجائے ان مذکورہ قبائل میں چلے جائیں۔ فہرست میں شامل قبائل سب سے زیادہ سرحدی قبائل تھے جن کو مدھیہ دیش میں جانا جاتا تھا، مشرق میں آنگیا اور مگدھی اور شمال میں مجاونت اور گندھاری۔ 6 ویں صدی قبل مسیح کے بعد تک، فارسی سلطنت کے بانی سائرس نے میڈیا، لیڈیا اور بابل کی فتح کے فوراً بعد گندھارا کی طرف کوچ کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ سائرس نے صرف پشاور کے آس پاس سندھ کے پار سرحدی علاقوںکو فتح کیا تھا جو گندھارا سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پکوساٹی ایک طاقتور بادشاہ رہا جس نے باقی گندھارا اور مغربی پنجاب پر اپنی حکمرانی برقرار رکھی۔ 327 قبل مسیح میں، سکندر اعظم نے گندھارا کے ساتھ ساتھ فارسی سلطنت کے ہندوستانی علاقوں کو بھی فتح کیا۔ سکندر کی مہمات کو اس کے درباری مورخین اور اس واقعے کے کئی صدیوں بعد دوسرے تاریخ نگاروں نے ریکارڈ کیا ۔  

بدھ، 21 فروری، 2024

پنجیری کے فوائد

  

  پنجیری  گزرے ہوئے کل میں بھی اہم تھی  اور آج بھی اہم ہے اور آنے والے کل میں بھی اہم رہےگی - تو آئیے جانتے ہیں قدرت کی اس سوغات کی اہمیت کیوں ہے-اور یہ کیسے تیاّ ر کی جاتی ہےپورے برصغیر میں عام چلن تھا کہ گھروں میں نومولود کے آنے پر پنجیری بناء جاتی تھی 'مقوی میوہ جات سے بھرپور یہ  بہت لذیذ ہو تی         ہے  اوراس کے فوائد مندرجہ زیل ہیں-کیونکہ یہ تمام ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہے اگر اسے غذائیت کا خزانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔سردی ہو یا گرمی پنجیری زچہ عورت کو ضرور کھلائی جاتی ہے کیونکہ یہ بچے کی پیدائش سے قبل اور بعد کی ہر طرح کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے بہترین غذا ہے۔پیدائش کے بعدکمزوری کو دور کرنے کے لئے حلووں یا سفوف میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔ ھڈیوں اور مہروں کی مضبوطی کے لئے

سردیوں کی خاص سوغات "پنجیری" بہت لذیذ اور لائیٹ ہونے کے ساتھ جسم کو گرماہٹ پہنچا کر سردی کے اثرات سے بچاتی ھے, کمر اور جوڑوں کے درد کو دور کرتی ھے اور بچوں کی نظر اور حافظے کو بڑھاتی ھے.زچگی والی خواتین کو لازمی دی جاتی ھےبنانے کی ترکیب -اس کو ہر گھر میں اپنے اپنے طور پربنایا جاتا ہے کچھ لوگ مونگ کا آٹا لیتےہیں تو کچھ بیسن کا استعمال کرتے ہیں اور کچھ گھرانوں میں سوجی کا استعمال کیا جاتا ہے  -مقدار -ایک پاو دیسی گھی آدھا کلو آٹایا سو جی  دو کپ پسی ہوئی چینی دو-چار سبز الائچیاں آدھا کپ ناریل کا برادہ (Dessicated coconut )بادام, پستے, کاجو, کشمش, چار مغز, اخروٹ یہ سب اپنی پسند سے جتنے چاہیں لے لیں -سونٹھ پسی ہوئ ایک چائے کا چمچاجوائن پسی ہوئ آدھی چائے کی چمچی تین بڑے چمچ سونف-دو چمچ کمر کس -تیس عدد مکھانےتین چمچ کھانے والی گوند یعنی گوند کتیراتین چمچ کھانے والے

 بنا نے کی ترکیب :

آدھا گھی کڑاہی میں ڈالیں اور ہلکی آنچ پر مکھانے, گوند اور کمر کس کو الگ الگ بھون کے نکال لیں پھر انکے ساتھ سونف شامل کر کے گرائنڈ کر لیں.اب اسی گھی میں کشمش کو بھی ہلکی آنچ پر بھون کے نکال لیں.. اب ناریل کے علاوہ باقی سب کٹے ہوئےخشک میوے اسی گھی میں بھون کے نکال لیں.اب کڑاہی کو صاف کر کے باقی بچا ہوا گھی ڈالیں الائچی کے دانے ڈالیں اور ہلکی آنچ پر آٹے کو ھلکا براون ہونے تک بھونیں, جب بھن جائے تو چولہا بند کر دیں اور چینی کے علاوہ باقی سب بھنے ہوئے اجزا اور ناریل کو اسمیں ملا دیں, جب ٹھنڈا ہو جائے تو پسی ہوئی چینی بھی ڈال دیں.. مزیدار پنجیری تیار ہے, گرم دودھ کے ساتھ انجوائے  کیجئے-مکھانے میں شامل کیمیائی اجزا:پھول مکھانے میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کی وافر مقدارپائی جاتی ہے۔ان کے علاوہ اس میں دیگر فائدہ مند مرکبات -ا مسئلہ جن لوگوں کو ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ ہے انہیں مکھانہ  استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیئے۔ یہ نہ صرف انکے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ 

یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔جسمانی طاقت بحال کرےمکھانا ایک ایسی چیز ہے جس کو آپ کسی بھی وقت کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے ہم کو بہت سارے فوائد ملتے ہیں۔ اگر آپ روزانہ مکھانا کھائیں گے تو یہ بہت فائد ہ مند ہے۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔ بدن میں موجود ہر طرح کے دردوغیرہ دور ہوجائییں گے۔ نہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی سستی۔خواتین کیلئے تحفہ پھول مکھانے خواتین کے بعض دوسرے مسائل کا حل بھی ہے۔اس نسخے کو تیار کرنے کے لئے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا۔ لیکن آپ کے بہت سے مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔

جن خواتین کو پرانی لیکوریا ہو کمر ٹانگوں اور پنڈلیوں میں ایسا درد ہو کہ درد کی گولیاں کھا کر عاجز آگئی ہوں۔ دوسری طرف بلڈ پریشر ہو۔گرم چیزیں نہ کھاسکتی ہوں اور تیسری طرف موٹاپا بہت زیادہ ہو۔ ایسی خواتین اس نسخے کا استعمال کریں۔حیران کن فائدہ ہوگا۔اسی طرح وہ خواتین جو کمزور ہیں۔ جن میں خون کی کمی ہے۔ پٹھے اعصاب اور جسم دکھتا ہے۔ ہر وقت سانس پھولتا ہے۔طبیعت اکتاہٹ اور بیچینی کا شکار رہتی ہے۔ وہ بھی یہ نسخہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مہوروں کا مسئلہ،ڈسک پرابلم،اعصابی کھنچاؤ،اس نسخے کے سامنے ایسے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکل جائے۔اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی دور کرنےکے لئے پنجیری کا استعمال بےحد مفید ہے -وہ پنجیری پر ضرور توجہ دیں -

 

اتوار، 18 فروری، 2024

حضرت ’’امام مہدی علیہ السلام(عج) ‘‘

    امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد-شیعوں کا عقیدہ اس بات پر ہے کہ امام حسن  عسکری(علیہ السلام) کے صرف ایک بیٹے تھے جو امام مہدی (علیہ السلام) ہیں جو ۲۵۵ ہجری میں پیدا ہوئے اور آج تک رضائے الٰہی سے پردۂ غیب میں ہیں اور انشاء اللہ بحکم پروردگار عالم، ظہور فرمائیں گے اور اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔آپ کا معروف ترین لقب ’’مہدی‘‘ ہے اسی لقب کی وجہ سے آپ کو ’’امام  مہدی(عج) ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ولادت باسعادت: امام زمانہ(عج) کی ولادت باسعادت عباسی خلیفہ معتمد کی حکومت کے دوران 15شعبان 255ہجری کو سامراء میں ہوئی۔  امام زمانہ(عج) کی ولادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام نے دس ہزار رطل روٹی اور دس ہزار رطل گوشت تقسیم کیا اور تین سو دنبے عقیقہ کے طور پر ذبح کیے۔والدہ ماجدہ: امام زمانہ(عج) کی والدہ کا نام جناب ’’نرجس‘‘ہے۔

اپنے بابا کی شہادت کے وقت امام زمانہ(عج)  کی عمر پانچ سال تھی۔ جس طرح اللہ نے حضرت یحیی کو بچپن میں ہی نبوت عطا کی اور حضرت عیسی کو گہوارے میں ہی اپنا رسول بنایا اسی طرح اللہ تعالی نے امام زمانہ کو کم سنی میں ہی امامت کے منصب پہ فائز کیا انھیں دانائی اور حق وباطل میں تمیز کرنے والے فصل الخطاب سے نوازا اور انھیں پوری دنیا کے لیے اپنی حجت اور نشانی قرارا دیا۔ اس کتاب کے’’امام مہدی منتظر‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے باب میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اسلام میں امام مہدی(عج) اور ان سے متعلق تمام امور کے بارے میں عقیدہ رکھنے کا پہلا اور بنیادی سبب اہل سنت اور شیعوں کی معتبر کتابوں میں موجود احادیثِ نبویہ  ہیں، ہر دور میں مسلمانوں کا اس بات پہ اتفاق رہا ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت میں سے مہدی نام کا ایک فرد ظہور کرے گا جو دین کی مدد و تائید کرے گا اور عدل و انصاف کی بات کرے گااور پوری دنیا پر حکومت حاصل کرنے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا-

غیبتِ صغری: اس پہلی غیبت میں امام مہدی سوائے چند خاص لوگوں کے تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے اور شیعوں سے ان کا رابطہ اپنے نمائندوں اور سفراء کے ذریعے رہا، شیعہ اپنے سوالات اور خطوط امام مہدی(عج) کے خاص سفیر کو دیتے اور وہ سفیر شیعوں کے خطوط کو امام مہدی تک پہنچا دیتا۔ امام مہدی(عج) کی طرف سے سوالوں اور خطوط کے جوابات کو متعلقہ افراد تک پہنچانا بھی امام کے سفیر کی ہی ذمہ داری تھی امام مہدی(عج) کی طرف سے لکھے گئے خطوط وغیرہ پہ امام کی مہر اور ان کے دستخط ہوا کرتے تھے۔مختلف حدیثی، تاریخی، کلامی منابع اور دعا و زیارات میں شیعیانِ آل رسول کے بارہویں امام بہت سارے القاب اور کنیت سے متعارف کرائے گئے ہیں؛

 محدث نوری نے اپنی کتاب نجم الثاقب میں تقریباً 182 نام اور القاب ذکر کیے ہیں اسی طرح (نام نامہ حضرت مہدیؑ نامی کتاب) میں امام ؑ کے 310 اسماء اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ محدث نوری نے یہ اسماء اور القاب ذکر کیے ہیں: مهدیؑ، قائم، بقیۃ الله، منتقم، موعود، صاحب الزمان، خاتم الاوصیاء، منتَظَر، حجۃ الله، منتقم، احمد، ابوالقاسم، ابوصالح، خاتم الائمہ، خلیفۃ الله، صالح، صاحب‌الامر۔   محدث نوری، النجم الثاقب میں لکھتے ہیں کہ تمام معتبر اسامی اور القاب کو جمع کیا ہے اور شخصی نظریات اور غیر معتبر تحقیقات سے اجتناب کیا ہے ورنہ مختلف کتابوں سے کئی گنا اسامی اور القاب نکالے جا سکتے تھے۔ اسی طرح نام نامہ حضرت مہدیؑ نامی کتاب میں 310 اسماء اور القاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بارہویں امامؑ کے اسماء اور القاب اہل سنت مآخذ میں بھی نقل ہوئے ہیں؛ گوکہ ان مآخذ میں زیادہ تر مہدی کے عنوان سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ ان القاب میں سے بعض کچھ یوں ہیں:-امام زمانہؑ کی والدہ ماجدہ کے متعدد نام ذکر ہوئے ہیں؛  

ولادت امام زمانہؑ کو عام لوگوں سے خفیہ رکھا گیا۔ ۔ نیز امام صادقؑ فرماتے ہیں: "صاحب الامر کی ولادت خلائق سے پوشیدہ ہے یہاں تک کہ ظہور کریں ولادت مخفی بھی اس لئے ہی تاکہ آپؑ پر کسی کی بیعت نہ ہو"۔  ۔تاریخ میں ولادت کا خفیہ رکھا جانا بے مثال نہیں ہے بلکہ مروی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی ولادت کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا کیونکہ بادشاہ وقت کی طرف سے ان کے قتل کئے جانے کا خدشہ تھا۔ یا پھر قرآن کریم کی سورہ قصص کی آیات 7 سے 13 تک میں موسی بن عمرانؑ کی ولادت کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کی ولادت کو خفیہ رکھے جانے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

 

ہفتہ، 17 فروری، 2024

خطبہ -مولا علی علیہ السلام


مولائے کائنات نے اپنے پیرو کاروں کے لئے نہج البلاغہ جیسی بلند مرتبہ کتاب تخلیق کی اس کتاب میں مولا نے اپنے خطبات کے زریعہ  انسان کی فلاح و بہبود کے اور اخلاقی کو سنوارنے  کے  نکات بیان کئے ہیں -اگر اس کتاب کو دنیا کے تمام مکاتب فکر کے لوگ  زیر مطالعہ لائیں تو بلا مبالغہ وہ جینے کا ایسا   انداز اختیار کر لیں جس  سے دنیا عش عش کر اُٹھے -یہاں میں اپنے مولا کا ایک خطبہ تحریر کر رہی ہوں -ہاں سنو! تمھارے زمانے میں ایک وقت ایسا بھی آءے گا جب اس وقت اپنے سیدھے  راستوں پر چلنے والوں کے پاؤں لڑکھڑا جائیں گے اور سیدھے راستے پر چلنے والے لوگ بہک جائیں گے جب اس فتنے کا حملہ ھو گا تو لوگوں کی خواہشوں میں ٹکڑاؤ ھو گا -لاگ خدا کے احکامات کی کھلم کھلا نافرمانیوں کے مرتکب ہو کر اس کے غیض کو آواز دینےلگیں گے- ان کی رائے میں اختلاف ھوگا جو سر اٹھا کر دیکھے گا اس فتنے کو اس کا سر توڑ دے گا جو اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا یہ اسے جڑ سے اکھاڑ دے گا لوگ ایک دوسرے کو اس طرح کاٹیں گے جیسے   بھرے ھوئے  گلوں میں گدھے ایک دوسرے کو نوچتے ھیں

 دین کی بٹی ھوئی رسی کے بل کھل جائیں گے زمین   میں اندھیرا چھا جائے گاعلم عقل چپ سادھ لیں گے اور ظالموں کی زبانیں کھل جائیں گی یہ فتنہ بیابانوں میں رھنے والوں ک ہتھوڑوں سے کوٹے گا اور اپنے سینے سے دبا کر انھیں ریزہ ریزہ کر دے گا اس سے اٹھنے والی دھول میں اکیلے دو مسافر برباد ھو جائیں گے اور راستوں میں چلنے والے قافلے راہ میں ھی مارے جائیں گے مقدر میں کڑواہٹ بھر جائے گی دودھ کے بدلے تازہ خون دوہا جائے گا دین کے معیار گر جائیں گے یقین کے دھاگے ٹوٹ جائیں گے عقل مند اس سے دور بھاگیں گے اور شر پسند اس کے برابر شریک ھونگے یہ فتنے گرج چمک کے ساتھ آئں گے اور اسقدر سخت اور تیز ھو ں گے کہ تمام رشتے ٹوٹ جائیں گے اور دین کا دامن چھوٹ جائے گا اس سے الگ تھلگ رھنے والا بھی اس میں الجھ جائے گا اور اس بھاگنے والا اپنے قدم باہر نا نکال سکے گا

 ،بہت سے لوگ قتل ھو جائیں گے اور ان کا خون رائیگاں جائے گا اور کچھ اتنے ڈرے ھوئے ھوں گے کہ پناہ ڈھونڈتے پھریں گے انھیں ایمان کے نام پر قسم دے دے کر دھوکہ دیا جائے گا تم نئی نئی رسموں کے بانی نا بننا اس راستہ پر قدم جمائے رکھنا جس پر ایمان والوں کی جماعت چل رھی ھوگی اور جس پر اللہ کا حکم اور ماننے والوں کا عمل اور کردار قائم ھو گا-دیکھو اللہ کے پاس منصف  بن کر جانا ظالم بن کر نا جانا شیطان کے ٹھکانوں سے بچنا اپنے پیٹ میں حرام لقمے نہیں ڈالنا کیوں کہ تم اس کی نگاہوں 

کے سامنے ھو جس نے خطا کو تمھارے لئے  منع کیا ھے اور فرمانبرداری کی راھیں آسان کر دی ھیں آج کے حالات کے تناظر میں دیکھا جا سکتے ھے کہ مولا علی کا فرمان حرف با حرف درست ھے ، یہی فرمان وصی رسول اللہ کا1400 سال پہلے کا ھےسامنا کرنا پڑا اور باعث حیرت ظلم کی بات یہ ہے کہ یہ فتنے اور فتنہ پرور کوئی غیر مسلم نہیں تبلکہ مسلمان ہیں اور اسوقت کے مسلمان تھے جنہوں نے اللہ کے حبیب رحمت عالمین کو دیکھا بھی تھا انکی محفلوں میں بھی رہے تھے اور انکی زبان مبارک سے علی کے بارے میں فرمودات سنے بھی تھے۔ یہ آج کے فتنہ پرور اور فتنہ پروری بھی اسی کا تسلسل ہے۔۔۔۔۔ یہ بات اللہ کے رسول کے بعد فقط باب العلم ہی کہہ سکتے ہیں کہ ۔ سوچو کے لوگ اندھیروں میں بھٹک رھے ھیں تھے جہالت حد سے گزر چکی تھی اور مزاج میں سختی آگئی تھی لوگ حلال کو حرام اور حرام کو حلال اور سمجھ دار کر زلیل سمجھنے لگے تھے

یہ فتنے شروع شروع میں خفیہ راستوں سےآتے ھیں جیسے چھوٹے بچوں کی اٹھان ھوتی ھے لیکن پھر اپنے آثار پتھر پر بننے والے نشان کی طرح چھوڑ جاتے ھیں دنیا کے ظالم گٹھ جوڑ کر کے ان کے وارث ھو جاتے ھیں ان میں جو پہلا ھوتا ھے وہی آخری والے کا رہنما ھوتا ھے اور ان میں جو آخر ھوتا ھے وہ پہلے والے کے راستے پر ہی چلتا ھے یہ لوگ گھٹیا دنیا پر جان دیتے ھیں اور گلے سڑے جانور پر ٹوٹ پڑتے ھیں   -یہ بہت جلد  آپس میں دشمن بن کر ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور آمنا سامنا ھو گا تو ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ جو لوگوں کے سکھ چین کو مٹا دے گا ہر طرف تباہی مچا دے گا اور اللہ کے بندوں پر سختی کے ساتھ حملہ آور ھو گا -



جمعرات، 15 فروری، 2024

اھلا و سہلاً مرحبا🌹ولادت مبارک امام زین العابدین علیہ السلام

 



🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۃ🌹الّلہُم صَلَی الله عَليهِ وَآلِہٖ وَسَلِّمْ🌹اھلا و سہلاً مرحبا 🌹گلستان نبوت میں امامت کے مینارہء چہارم حضرت امام  زین العابدین علیہ السلام کی ولادت کُل عالمین کی مومن مخلوقات و جن و انس کو مبارک ہو- اور اس وقت اپ کے جد حضرت علی عليہ    السلام حیات تھے ۔ آپ کا نام آپ لوح ازل میں محفوظ اسم   علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن اور ابوالقاسم رکھی گئی۔ ولادت کے چند دن بعد آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد آپ کی خالہ گیہان بانو جو محمد بن ابی بکر کی زوجہ تھیں اور انہوں نے محمد بن ابی بکر کے انتقال کے بعد شادی نہیں کی تھی، نے آپ کی پرورش کی۔ دو سال کی عمر میں آپ کے دادا حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام عليہ سلام کو شہید کر دیا گیا

علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب (38-95 ھ) امام سجادؑ اور زین العابدین کے نام سے مشہور، آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھاعلامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے آپ کا نام سید الساجدین  پڑ گیا تھا۔ ابن جوزی خصائص الائمہ کہتے ہیں:علی بن الحسین، زین العابدین املا، انشاء، بات چیت اور خطاب کرنے کی کیفیت اور اللہ کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے سلسلے میں تمام مسلمانوں پر معلمی کا حق رکھتے ہیں؛
 کیونکہ آنحضرت علیہ السلام  نہ ہوتے تو مسلمان اللہ کے ساتھ کلام اور راز و نیاز کرنے اور اس کی بارگاہ میں عرض حاجت کی کیفیت سے نا واقف رہتے؛    امام علیہ السلام  نے لوگوں کو سکھایا کہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس طرح کلام کریں اور بارش طلب کرنے کے وقت کس زبان سے بارش کے نزول کی التجا کرے اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح اللہ کی پناہ میں چلے جائیں اور دشمنوں کا شر دور کرنے کے لیے اللہ سے درخواست کرے۔زکی مبارک اپنی کتاب التصوف الاسلامی والادب والاخلاق نے صحیفہ سجادیہ کو مختلف پہلؤوں سے انجیل کی مثال قرار دیتے ہیں، ۔ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں: صحیفۂ اُولٰی، جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام  تک پہنچتی ہے۔ ... اکابرین کے نزدیک متواترات اور [قطعیات] میں شمار ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ [سلسلۂ سند میں] مذکورہ تمام اصحاب 

نے تمام زمانوں میں اس کی نقل کی اجازت رجال کے تمام طبقات میں اپنے مشائخ سے حاصل کی ہے -نیز محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل کے سلسلے میں دس لاکھ اسناد موجود ہیں ۔ اہل سنت کے علما میں ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودہ میں اس کا تذکرہ کرکے اس کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے ابو المعالی محمد بن ابراہیم کلباسی (متوفٰی 1315ھ ق) نے بھی اپنی کتاب الرسالۃ فی السند الصحیفۃ السجادیۃ میں صحیفہ سجادیہ کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صحیفہ سجادیہ بخط کفعمی ـ جو صحیفہ سجادیہ کے قدیم نسخوں میں سے تھا اور کئی سال تک ایران سے نکل کر گم ہو چکا تھا ـ کا سراغ بڑی محنت کے نتیجے میں، بر صغیر میں لگایا گیا اور ثقافتی شخصیات کے توسط سے قم میں منتقل کیا گیا اور بالآخر زیور طبع سے آراستہ ہوکر شائع ہوا۔

یہ نسخہ صحیفہ کی 54 دعاؤں کے علاوہ چار مزید دعاؤں پر مشتمل ہے۔ امام سجاد :بار پروردگارا! اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج؛ جن کو تو نے  اپنی مخلواقت پر ہدائت کے لئے منتخب کیا ، اور اپنے علوم کا خزینہ اور دین کے محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر نجاست اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔امام سجاد اپنی دعاؤں کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء بجا لاتے ہیں،اپ صلوات کے ورد پربہت توجہ دیتے تھے، یہاں تک کہ صحیفہ میں کم ہی کوئی دعا ہوگی جس میں لفظ صلوات سے استفادہ نہ ہوا ہو  آپ علیہ السلام  آخر میں اللہ سے اپنی حاجت کی درخواست کرتے ہیں۔صحیفہ سجادیہ محض خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس کی بارگاہ میں حاجت کے بیان پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ بہت سے اسلامی علوم و معارف کا مجموعہ بھی ہے   – 

درد جگر ٹھہر زرا

       جگر (liver) ہما رے بد ن میں ایک ایسا عضو ہے  جورنگت میں گہرا سرخ اور نرم گوشت کی مانند ہوتا ہے۔ جگر کوانسانی جسم کا سب سے بڑا اندرونی عضو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جگر   ہما ر ی صحت برقرار رکھنے میں کلید ی کردار ادا کرتا ہے   اگر کسی و جہ  سےجگر  میں کو ئ خرا بی  پید ا  ہو جا   ۓ تو علامات واضح ہونے لگتی ہیں۔جگر کے مسائل کی ابتدائی نشانیاں بہت عام ہوتی ہیں جیسے پیٹ میں درد، بھوک کا احساس نہ ہونا، تھکاوٹ یا توانائی کی کمی اور ہیضہ ہو نا شا مل ہے۔جلد کی رنگت زردی مائل ہوجاتی ہے جبکہ آنکھوں میں بھی پیلاہٹ نمایاں ہوجاتی ہے۔جگر ہمارے جسم کا دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔ ہم جو بھی شے کھاتے ہیں، چاہے غذا ہو یا دوا، وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔

اگر جگر کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ باآسانی خراب ہو کر ہمیں بہت سے امراض میں مبتلا کرسکتاہے ۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب خون کے سرخ خلیات میں زیادہ مقدار میں ایک زرد مادہ جمع ہوجاتا ہے۔عام طور پر جگر اس مادے کو جسم سے خارج کرتا ہے مگر جب وہ بیمار ہوتا ہے تو ایسا نہیں کرپاتا۔اگر کسی مریض کو جگر کے دائمی امراض کا سامنا ہو تو خارش کی شکایت بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔اس خارش کے نتیجے میں سونا مشکل ہوسکتا ہے اور کھجانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر اس طرح کی شکایت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع  کر نا  چا ہۓ -جگر کا ایک عام مرض ہیپاٹائٹس ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔     جگر کے ‏‏بیما ر ہونے پر معدے میں سیال جمع ہونے لگتا ہے جس سے پیٹ میں ورم بڑھ جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے  بہت زیادہ پھول گیا ہے۔جگر کے امراض کے شکار کچھ افراد کی ٹانگوں اور ٹخنوں میں یہ سیال جمع ہوجاتا ہے جس سے یہ حصے سوج جاتے ہیں، ان حالات میں نمک کا کم استعمال مددگار ثابت ہوسکتا ہے مگر ڈاکٹر سے  مشورہ ضروری ہے۔ 

 فضلے کی رنگت بہت زیادہ زرد ہوجاتی ہے۔  جبکہ پیشاب کی رنگت بہت زیادہ گہری براون ہوجاتی ہے۔جگر کے امراض کے شکار بیشتر افراد کو ہر وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے، جس کی وجہ جسم اور دوران خون میں زہریلے مواد کا اجتماع ہوتا ہے۔اس مواد کے نتیجے میں دماغی افعال بھی متاثر ہوتے ہیں جس سے ذہنی الجھن یا توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، چیزیں بھولنا بھی عام مسئلہ ہوتا ہے۔جگر کے ا امراض سے جسم میں زہریلے مواد کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہر وقت متلی ہو نے کا  احساس ہوسکتا ہے یا قے کی تکلیف بھی ہوسکتی ہے۔جگر کو زیادہ نقصان پہنچا ہو تو قے یا فضلے میں خون بھی نظر آسکتا ہے۔اگر جگر کو نقصان پہنچ رہا ہو تو ہلکی رگڑ سے بھی خراشیں نمایاں ہوجاتی ہیں۔اسی طرح اگر کسی جگہ سے خون بہنے لگے تو وہ آسانی سے رکتا نہیں، کئی بار الٹا اثر بھی ہوتا ہے یعنی جریان خون کی بجائے جگر کے امراض کے شکار افراد میں بلڈ کلاٹس کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔'

 جگر کے اہم افعال

آپ کا جگر تقریباً 500 مختلف کام کرتا ہے جن سے آپ کے جسم کی کارکردگی بہترین رہتی ہے۔جگر ہی پیشاب اور فضلے کے افعال کو صحت مند بناتا ہے ان میں سے دو اہم ترین کام خون صاف کرنا اور ہاضمے میں مدد دینا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک صحتمند جگرتوانائی کا ذخیرہ رکھتا ہے، انفیکشن کا مقابلہ کرتا ہے اور زہریلے مادّوں کو جسم سے نکالتا ہے۔-جب جگر کو نقصان پہنچ چکا ہو تو وہ یہ کام ٹھیک طرح نہیں کر سکتا اس لیے اپنے جگر کو صحتمند رکھنا اہم ہے۔ہر طبیب  کا کہنا ہے کہ جگر کو صحت مند رکھنے کے لیے قدرتی غذاؤں کا انتخاب ہی بہت بہتر ہوتا ہے- آپ کو غذائ چارٹ اسی عنوان کے پارٹ  2میں پڑھنے کو ملے گا۔اس اہم عضو کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے  جگر کی حفاظت اور صحت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے جگر کا عالمی دن منایا جا نے لگا ہے۔ 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر