گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات
کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کے درمیان گندھارا آرٹ ایک ثقافتی اشتراک ہے، جس کا ارتقاء وسطی ایشیا میں تقریباً ہزار سال کی مدت میں انجام پذیر ہوا۔ یہ مدت سکندر اعظم (چار صدی قبل مسیح) سے اسلامی فتوحات (7ویں صدی عیسوی) کے درمیانی عرصے پر محیط تھی۔ سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا۔ گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔ گندھارا آرٹ دراصل یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔ گندھارا آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت فروزاں نظر آتا ہے۔ ادھر چینی سرحدی علاقوں میں بھی اس کے آثار ملتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں دوہزار سال پرانا مانکیالہ اسٹوپا ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ڈبلیو ایف سیرو (W F Cero) کی کتاب ’’گندھاراکی عبادت گاہیں‘‘ میں شائع شدہ نقشوں کے مطابق افغانستان اور روس تک پھیلی ہوئی گندھارا تہذیب کی آخری سرحد مانکیالہ کا اسٹوپا تھی۔
گندھارا تہذیب و فن اور تعمیرات موریاعہد سے گپتاخاندان کے عروج کے زمانے میں فن سنگ تراشی کے نئے دبستان وجود میں آئے۔ متھرا کے مجسموں کی یہ خصوصیت بتائی جاتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے گوتم بدھ کو انسانی شکل (مجسمہ) میں پیش کیا گیا، جو مدتوں مقبول رہا۔ اس فن میں گندھارا اسکول نے سب سے زیادہ ترقی کی، چنانچہ بر صغیر کے اکثر علاقوں میں گندھارا آرٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس کے نمونے پاکستان کے شمالی علاقوں اور افغانستان کے بعض مقامات پر بھی ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹیکسلا سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ تمام نمونے گوتم بدھ کی زندگی یا بدھ مذہب کی روایات پر مشتمل ہیں۔ گندھارا فن کے سب سے قابل تعریف نمونے ہمیں گوتم بدھ یا بدہستوا کے مجسموں میں ملتے ہیں۔ گندھارا آرٹ نے کشن حکمرانوں کی سرپرستی میں ترقی کی۔ یہی سبب ہے کہ یہ آرٹ چین اور جاپان ہی نہیں بلکہ مشرقِ بعید تک پہنچ گیا تبھی ان علاقوں کی تہذیب پر ہمیں گندھارا آرٹ کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ ٹیکسلا کے دھرم راجیکا کے اسٹوپے میں ایک مجسمے کی بلندی چالیس فٹ کے قریب تھی۔اسٹوپے-گوتم بدھ کی وفات کے بعد بدھوں میں زیارت کا رواج عام ہو گیا ۔یہ روایت مشہور ہو گئی کہ گوتم بدھ نے چار مقامات کی زیارت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ایک تو لمبینی باغ، جہاں بدھ پیدا ہوئےتھے۔ دوسرا گیا کے قریب درخت، جس کے نیچے اُنہیں گیان حاصل ہوا تھا۔ تیسرا بنارس کا ہرن باغ، جہاں اُنھوں نے مذہب کی پہلی دفعہ تعلیم دی تھی۔ چوتھا کشی نگر، جہاں اُنھوں نے وفات پائی۔
اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا، اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر اسٹوپے تعمیر کرائے تھے۔ ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے گئے، ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بدھ راہب مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے وہار (مندر) بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس مقصد کے لیے وقف کردی گئی۔ گوتم بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی، اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کروا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک 84ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی، چنانچہ ان اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹوپے مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میں پتھریلی کتاب تھے۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں، جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔منظم شہری تہذیب صوابی، مردان روڈ سے ایک سڑک اسوٹا شریف اور شیوکلی کی طرف جاتی ہے، جہاں سے ایک سڑک نوگرام گائوں کی طرف جاتی ہے۔ نوگرام کے ملحقہ پہاڑوں پر رانی گٹ بدھ دور کی دنیا کی بڑی تہذیب ہے۔ یہ کھنڈرات بلند و بالا پہاڑ پر واقع ہیں جس پر پہنچنے کے لیے جاپان ،یونیسکو اور حکومت پاکستان کے مشترکہ تعاون سے سیڑھیاں اور ریلنگ تعمیر کر دی گئی تھی۔ رانی گٹ کھنڈرات 168کنال رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں جس تک پہنچنے کے لیے3540فٹ کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ سطح زمین سے اس کی اونچائی 900فٹ ہے۔ بڑی بڑی سیاہ چٹانوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ رانی گٹ کے جنوبی حصہ میں سنگ تراشی ہواکرتی تھی۔
مورتیوں کے لیے پتھر اونٹوں کے ذریعے لائے جاتے تھے۔ پہاڑ کھود کر ایک کمرہ بھی بنایا گیا تھا جہاں سنگ تراشی کا ماہر بیٹھا کرتا تھا۔ گوتم بدھ کے پیروکار یہاں سے تعلیم حاصل کرکے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے مذہب کی تعلیم دینے جاتے تھے۔ کھنڈرات کے داخلی راستے میں ایک بورڈ پر رانی گٹ کی مختصر تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ سائوتھ سائیکلر بلڈنگ ایریامیں بدھ کے بڑے اسٹوپے کے ساتھ لاتعداد چھوٹے چھوٹے اسٹوپے ہیں۔ مشرق کی جانب چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن پر چھت نہیں ہے۔ شاگردوں کے بیٹھنے کے لیے دیواروں کے ساتھ نشست گاہیں بنائی گئیں۔ یہ کمرے ایک ساتھ تعمیر کیے گئے تھے۔ قریب ہی سات آسمانوں اور زمین کے فلسفہ کو فنِ سنگ تراشی میں پیش کیا گیا ہے۔ گندھاریوں کا پہلا تذکرہ رگ وید میں ایک ایسے قبیلے کے طور پر ملتا ہے جس کی اچھی اون والی بھیڑیں ہوتی ہیں۔گندھارا ایک قدیم ہند آریائی تہذیب تھی جس کا مرکز موجودہ شمال مغربی پاکستان اور شمال مشرقی افغانستان کے کچھ حصوں سمیت تقریباً شمال مغربی برصغیر کے مضافات میں تھا۔ گندھارا کے علاقے کا مرکز وادی پشاور اور وادی سوات تھے،
"گریٹر گندھارا" کا ثقافتی اثر دریائے سندھ کے پار پوٹھوہار میں ٹیکسلا کے علاقے تک اور مغرب کی طرف افغانستان کی وادی کابل تک پھیلا ہوا تھا، اور شمال کی طرف قراقرم کی حد تک تھا۔ گندھارا قبیلہ، جس کے نام پر اس تہذیب کا نام رکھا گیا ہے،بارہ سے پندرہ سو سال قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے، رگ وید میں اس کا ذکر ہے ۔ اس خطے کا ذکر زرتشتی اوستا میں کیا گیا ہے، کہ پر چھٹا سب سے خوبصورت مقام ہے۔ زمین اہورا مزدا نے بنائی۔گندھارا کا ذکر رامائن اور مہابھارت میں کثرت سے ملتا ہے۔ نام کی اصل سنسکرت کے لفظ گندھ سے ہے، جس کا مطلب ہے "عطر" اور "ان مصالحوں اور خوشبودار جڑی بوٹیوں کا حوالہ دینا جن کی مقامی باشندے تجارت کرتے تھے۔ گندھارا وہ خطہ تھا جو اب وادی پشاور، مردان، سوات، دیر، مالاکنڈ ، باجوڑ اور ٹیکسلا پر مشتمل ہے۔ اسی خطے میں اتھرو وید میں، گندھاریوں کا ذکر مجاونت، آنگیوں کے ساتھ ملتا ہے۔ اور مگدھی ایک تسبیح میں بخار سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بیمار آدمی کے جسم کو چھوڑ دیں اور اس کے بجائے ان مذکورہ قبائل میں چلے جائیں۔ فہرست میں شامل قبائل سب سے زیادہ سرحدی قبائل تھے جن کو مدھیہ دیش میں جانا جاتا تھا، مشرق میں آنگیا اور مگدھی اور شمال میں مجاونت اور گندھاری۔ 6 ویں صدی قبل مسیح کے بعد تک، فارسی سلطنت کے بانی سائرس نے میڈیا، لیڈیا اور بابل کی فتح کے فوراً بعد گندھارا کی طرف کوچ کیا اور اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ سائرس نے صرف پشاور کے آس پاس سندھ کے پار سرحدی علاقوںکو فتح کیا تھا جو گندھارا سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پکوساٹی ایک طاقتور بادشاہ رہا جس نے باقی گندھارا اور مغربی پنجاب پر اپنی حکمرانی برقرار رکھی۔ 327 قبل مسیح میں، سکندر اعظم نے گندھارا کے ساتھ ساتھ فارسی سلطنت کے ہندوستانی علاقوں کو بھی فتح کیا۔ سکندر کی مہمات کو اس کے درباری مورخین اور اس واقعے کے کئی صدیوں بعد دوسرے تاریخ نگاروں نے ریکارڈ کیا ۔
دنیا کی قدیم تہذیبی تمدن دیکھ کر عقل حیرا ن رہ جاتی ہے
جواب دیںحذف کریں