بدھ، 6 دسمبر، 2023

سوّا مچھلی ماہی گیر کی لاٹری

 

سوّا مچھلی میں پائے جانے والے ایک بلیڈر کو چین میں شان و شوکت کی علامت تصور کیا جاتا ہے جبکہ لوگ اسے اپنے گھر پر رکھتے ہیں، اس کے علاوہ چینی روایتی ادویات میں بھی اس کے استعمال کا حوالہ ملتا ہےسمندر کو ماہی گیر ’بادشاہ‘ بھی کہتے ہیں بقول ان کے کہ یہ بادشاہ کے انداز میں نوازتا ہے جس سے انسان کی قسمت ہی بدل جاتی ہے۔حال ہی میں کراچی سے تھوڑا دور بحیرہ عرب میں شکار کے دوران ماہی گیروں کے جال میں دو ایسی نایاب مچھلیاں آگئیں جنھوں نے انھیں لکھ پتی بنا دیا۔ان ماہی گیروں کی موبائل پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو کے مطابق جیسے ہی جال کھنچتا ہے تو سندھی زبان میں ایک بزرگ ماہی گیر کی آواز آتی ہے کہ سوّا ہے سوّا۔

جیسے جیسے جال اوپر آتا ہے تو دوسری آواز آتی ہے کہ 'ایک نہیں، دو ہیں دو۔' مچھلیوں سے بھرا یہ جال اوپر کشتی پر پہنچتا ہے تو خوشی کے مارے ایک ماہی گیر کی چیخ نکل جاتی ہے، برف اٹھانے والی قینچی سے ان مچھلیوں کو دوسری مچھلیوں سے الگ کردیا جاتا ہے جبکہ ایک ماہی گیر خوشی میں جھوم اٹھتا ہے۔ابراہیم حیدری کی جیٹی پر یہ دونوں مچھلیاں دس دس لاکھ روپے سے زائد قیمت میں فروخت ہوئیں اور فروخت کے تقریباً دو ماہ کے بعد ان مچھلیوں کی ویڈیو سوشل میڈیا اور اس کے بعد میڈیا پر وائرل ہوئی۔

 سوّا مچھلی کیا ہے اور قیمتی کیوں ہے؟

ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم کے مطابق سوّا کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سندھی میں سوّا اور بلوچی میں کر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔اس کا سائز ڈیڑھ میٹر تک ہوسکتا ہے جبکہ وزن 30 سے 40 کلو بھی ہوسکتا ہے، یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے لیکن نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے۔مچھلی کی برآمد سے وابستہ اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ یہ ہانگ کانگ ایکسپورٹ کی جاتی ہے اور انھوں نے سنا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون محمد معظم کے مطابق اس کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر آتی ہے اور نیچے جاتی ہے، یہ بلیڈر تمام ہی مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں تھوڑے موٹے اور تندرست ہوتے ہیں۔کراچی فشریز میں تازہ پکڑی گئی مچھلیاں نیلامی کے لیے رکھی ہیں'پوٹے کی چینی روایتی کھانوں میں بڑی اہمیت ہے، اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی کرتے ہیں جس طرح ہمارے یہاں لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر پر رکھتے ہیں۔'فرض کرلیں کہ ہمیں جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم سونا فروخت کردیتے ہیں اس طرح چینی بوقت ضرورت اس کو فروخت کرتے ہیں اس کی وجہ سے سوّا مچھلی کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔'

چین کی بعض روایتی ادویات میں بھی سوّا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے درد اور جنسی کمزوریاں شامل ہیں۔غیر سرکاری تنظیم گرین پیس ایشیا کے مطابق ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت 2 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق خاص مواقع پر اسے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات بطور کرنسی بھی اس کا لین دین ہوتا ہے۔ 2008 میں عالمی مالی بحران کے دوران لوگوں نے اس بلیڈر میں سرمایہ کاری کی تھی۔واضح رہے کہ چین میں بعض مچھلیوں کی اقسام کو خوش قسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے، مچھلیوں کا جوڑا بدھ ازم کی آٹھ علامات میں بھی شامل ہے۔ چین کے نئے سالوں کے علامات میں مقبول ایک علامت میں ایک بچے نے ایک بڑی گولڈ فش اور کنول کا پھول اٹھا رکھا ہے۔

چین میں گولڈ فش اور کنول کے پھول کو نئے سال کی علامت تصور کیا جاتا ہےپاکستان میں سوّا کہاں پائی جاتی ہے؟پاکستان میں سوّا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماجگاہ ہے۔ ٹھٹہ کے صحافی غلام حسین خواجہ کے مطابق اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔

کیا سوّا مچھلی معدوم ہو رہی ہے؟ ڈبلیو ڈبلیو ایف کو خدشہ ہے کہ کروکر نسل کی یہ مچھلی پاکستان کے پانیوں سے بھی معدوم ہو رہی ہے۔ محمد معظم کے مطابق پہلے یہ مچھلی کنارے سے لے کر سو میٹر تک پکڑی جاتی تھی مگر اس بلیڈر کی منہ مانگی قیمت کی وجہ سے اب اس کی آبادی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔مچھلی کے ایکسپورٹر اخلاق عابدی کے مطابق کسی زمانے میں ماہی گیر کشتیاں بھر بھر کر سوّا مچھلی لاتے تھے لیکن اب ان کی تعداد کم ہوگئی ہے اور ہفتے میں ایک دو روز ہی کوئی اس کا شکار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ایک چینی ماہی گیر یلو کروکر مچھلی اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے

محمد معظم کا کہنا ہے کہ چین میں ایک مچھلی پائی جاتی تھی جس کو یلو کروکر کہا جاتا تھا، جو اب وہاں نایاب ہوچکی ہے اور کاجھر کریک سر کریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

محمد معظم کے مطابق سوّا کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔ یہ غول کے ساتھ رہتی ہے اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔اب جہاں جہاں دنیا میں یہ پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بہت زیادہ طلب ہے۔

سالار جنگ میو زیم- حیدر آبا د دکن

  کہتے ہیں شوق کا کوئ مول نہیں ہوتا ہے -کیا کبھی آپ نےایسا بھی کوئ سودائ دیکھا ہو گا جو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر زمانے بھر کی پرانی چیزیں جمع کرنے لگ جائے جی ہاں یہ ہیں حیدر آباد دکن کے  سالار جنگ-توآئے ان کے میوزیم کی غائبانہ سیر کرنے چلیں -حیدرآباد  موتیو ں   نگینو ںاور    جوا   ہر ا ت   'ومحلا ت  کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم  دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔ اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔

دس ایکڑ اراضی پر پھیلے اس میوزیم میں نو ہزار مخطوطات، 43ہزار نوادرات اور47ہزار کتابیں ہیں۔گیلریوں میں چوتھی صدی اتنے پرانے نوادرات بھی ہیں۔ان میں انڈین ، ایشیائے مشرق آرٹ ، یوروپین آرٹ، مشرق وسطیٰ آرٹ اور بچوں کے آرٹ پر مشتمل گیلریاں ہیں۔ میوزیم میں سب سے دلچسپ چیز انیسویں صدی کی برطانوی میوزکل گھڑی ہے۔ سیاح گھنٹہ کے پورے ہونے پر کلاک ہال میں جمع ہوجاتے ہیں تاکہ وہ اس مشینی شخص کو دیکھ لیں جو کہ مشین کے اندر سے نکل کر گھنٹی پر ہتھوڑا مارتا ہے۔ میوزیم کا دوسرا اہم اور قیمتی سرمایہ اطالوی مجسمہ ساز جی بی بینزونی کے ذریعہ تراشہ گیا ریبیکا کا مجسمہ ہے

۔ یہاں پر فرانس کے بادشاہ لوئس شانزدہم سے لے کر میسورکے ٹیپو سلطان تک کی ہاتھی کے دانت کی بنی کرسیا ں بھی ہیں۔احترام علی خان کا ماننا ہے کہ تاریخ اور آرٹ کے حوالے سے کوئی جتنے بھی زاویے سے سوچے وہ تمام طرح کے نوادرات یہاں پر موجود پائے گا۔ احترام علی کا یہ بھی اندازہ ہے کہ ان نوادرات کی بدولت یہ میوزیم یوروپ کے میوزموں کو بھی پیچھے چھوڑسکتا ہے۔سالار جنگ میو زیم -یدرآباد جیسے موتیوں اور محلوں کے شہر میں جہاں چار مینار اور گولکنڈہ کا قلعہ کافی مشہور ہے سالار جنگ میوزیم دنیا میں کسی بھی فرد واحد کے ذریعہ قائم کیا گیا قدیم اور قیمتی چیزوں کے سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ میوزیم موسی ندی کے کنارے واقع ہے۔جیسے ہی آپ پرانے شہر میں قدم رکھیں گے جو کہ تاریخی عمارتوں، پرسکون محلوں ، لذیذ پکوان اور گوناگوں تہذیبوں کے لیے جانا جاتا ہے، میوزم کو آپ خوش آمدید کہنے کے لیے ا پنے سامنے پائیں گے۔ 

اس شاندار میوزیم کی 40گیلیریوں سے گذرتے ہوئے سیاحوں کو لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے شاندار ماضی کے کسی عہد میں ہیں۔ اس لیے کہ ہندوستان کے اس تیسرے سب سے بڑے میوزیم میں جن نوادرات کو جمع کیا گیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف علاقوں کے انتہائی منفرد اور نایاب نوادرات ہیں۔ یہ میوزیم اس لیے بھی مشہور ہے کیوں کہ یہاں پر موجود نوادرات ایک خاندان کی ذاتی ملکیت رہے ہیں اور ان کو جمع کرتے تین نسلیں گذری ہیں اوریہ لوگ ریاست حیدرآباد کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔سالار جنگ اور ان کا خاندان پوری دنیا سے نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشہور تھا۔ یہ سلسلہ سالار جنگ اول نواب میر تراب علی خان سے شروع ہوا۔ ان کے اہم نوادرات میں سے ویلڈ ریبیکا نامی سنگ مرمر سے تراشا مجسمہ بھی شامل ہے جو کہ انہوں نے روم سے 1876میں حاصل کیا تھا۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔40سال کی محنت سے ان کے ذریعہ اکٹھا کی گئیں نوادرات آج سالار جنگ میوزیم میں تاریخ اورآرٹ سے دلچسپی رکھنے والوں اور اس سے متعلق طلبہ کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ یوسف علی خان نے نوادرات جمع کرنے کے لیے یورپ اور دنیا کے دوسرے علاقوں کا سفر کیا۔

 بعد میں دنیا کے مختلف علاقوں سے تاجر اپنے نوادرات بیچنے حیدرآباد آنے لگے۔۔سالار جنگ دوم میر لئیق علی خان کا محض 26سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ زیادہ تر نوادرات جن کی تعداد تقریبا 50ہزار ہے وہ سالارجنگ سوم میر یوسف علی خان نے جمع کیا ہے۔ آرٹ کے معاملے وہ بہت باذوق واقع ہوئے تھے اور انہوں نے 1914میں نظام کی ریاست سے وزیر اعظم کی عہدے سے استعفی دے کر اپنی بقیہ زندگی دنیابھر سے نوادرات جمع کرنے میں صرف کردی۔ -ان نوادرات میں گزشتہ نظاموں کی بیگمات کی وہ نادر روزگار جیولری بھی شامل ہے جو انہوں نے اپنی وفات کے وقت چھوڑی -یہ ایسی جیولری ہے جو ہیروں اور جواہرات  سے مزیّن ہے اور ایک ایک جیولری کی قیمت کروڑوں ڈالر مالیت ہے-نظام جو پیپر ویٹ استعمال کرتے تھے وہ بھی دنیا کا مہنگا ترین ہیرا ہے-نظام کی چھڑی کا دستہ بھی ہیروں سے مزیّن ہےسالار جنگ میوزیم کے خاص کمرہ / گیلری یسالار جنگ میوزیم میں تقریبا 26 الگ الگ گیلریاں ہیں۔ جہاں نایاب و نادر اشیا نظر کو خیرا کردیتی ہے۔ ان گیلریاں میں قابل ذکر ہیں-شعبہ اطفالہاتھی دانت کی تراش کاری و نقش نگار موسیقی والی گھڑینایاب و نادر عصے والا کمرہفوجی ساز و سامان والا کمرہماڈرن انڈین پینٹنگس گیلریہندوستانی مورتیوں کی گیلریہتھیار اور قدیم و جدید تلواروں کی گیلری

سالار جنگ میوزیم کی پہلی منزل میں دو حصے ہیں۔   سالارجنگ میوزیم میں داخلہ فیس 50 روپے فی شخص ہے، جب کہ طلبہ اور سال کے 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے یہ مفت ہے۔ طلبہ ٹکٹ مفت داخلہ حاصل کرنے کے لیے شناختی کارڈ پیش کرنا ہوگا۔ اگر کوئی کیمرے یا موبائل فون ساتھ لے جانا چاہتا ہے، تو اسے الگ سے 50 روپیے ادا کرنا ہوگا۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے ٹکٹ کی قیمت 500 روپے فی کس ہے۔ آڈیو ٹور کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ تقریباً 90 منٹ کے اس آڈیو ٹور کی فیس 60 روپے فی شخص ہے، مذکورہ رقم میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے۔ سالار جنگ میوزیم کے اوقات جمعہ کے علاوہ تمام دنوں میں صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک ہیں۔سالارجنگ میوزیم بورڈ کے ممبر اورسالارجنگ خاندان کے چشم وچراغ نواب احترام علی خان کےمطابق’’انہوںنے اپنا پیسہ گانے بجانے جیسی پارٹیوں میں برباد نہیں کیابلکہ انہوں نے اپنی دولت نوادرات جمع کرنے میں خرچ کی جس کی وجہ سے ان کے محل کی دیوان ڈیوڑھی میں ہزاروں نوادرات  جمع ہوگئے۔ ان کو گویا زیادہ سے زیادہ نوادرات جمع کرنے کا ایک جنون تھا اور دیکھتے دیکھتے اتنے نوادرات جمع ہوگئ کہ محل میں ان کو رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ لہذا انہوں نے اس کو دوسرے محل میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن قبل اس کے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کوپہنچتا داعی اجل کا بلاوا آگیا۔ 

منگل، 5 دسمبر، 2023

اوجھا سینی ٹوریم



یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے جب ٹی بی کا مرض لاعلاج ہوتا تھا اور مریض خون کی الٹیاں کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہوجاتا تھا ایسے میں ایک ماں بے بسی کے عالم میں دنیا چھوڑ گئ اور اس کے بیٹے نے سینی ٹوریم بنانے کا ارادہ کیا   ۔ 1997ءمیں اسے گلوبل ٹی بی یونٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اورسارک ٹیوبرکلوسزسینٹر، نیپال نے ٹی بی کے علاج معالجے کے ضمن میں، سینٹر آف ایکسی لینس قراردیا۔ 2003ءمیں جب ڈا میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیاگیا، تو اوجھا کو اس کا کیمپس بنادیاگیا۔ 1931 میں جب سکھرام داس نے حکمت کی اعلی ڈگری حاصل کی تو کراچی کے باسیوں نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی جس میں شہر میں بڑھتے ہوئے ٹی-بی کے مرض پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس مرض کے خلاف دونوں بھائیوں کی خدمات کو بھی بیحد سراہا گیا تھا۔ اسی تقریب کے موقع پر سکھرام داس اوجھا نے اپنے مرحوم بھائی دیپ چند اوجھا کے نام سے یہ تپ دق گھر (سینی ٹوریم) قائم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اوجھا سینی ٹورییم  ٹی۔بی  کے مریضوں کے لئے کراچی میں 1942 میں قائم ہوا۔ ابتداء میں یہ اٹھاون سنگل اور سات ڈبل کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سینیٹوریم تھا جو اُس وقت کے کراچی شہر سے خاصے فاصلے پر مضافات میں ایک پُرفضا اور سرسبز مقام (موجودہ صفورہ گوٹھ) پر قائم کیا گیا تھا۔ جس کے لئے 150 ایکڑ زمین اور 50 ہزار روپے نقد شہر کے مخیر ہندو خاندان "اوجھا" نے ہی عطیہ کیے تھے۔

اس کا پورا نام "دیپ چند اوجھا سینی ٹورییم" ہے۔  دنیا اُس وقت دوسری عالمی جنگ کی دہشت سے گزر رہی تھی۔ جس میں برطانیہ ایک مرکزی کردار ادا کر رہا تھا اور ہماری سرزمین پہ برطانوی راج مسلط تھا۔ حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً وہ دور ایمرجنسی کا تھا اس لیے کچھ عرصے کے لیے اس سینی ٹوریم کو جنگی قیدیوں کے لیے بطور کیمپ، پولینڈ کے یہودیوں کے لیے جو عالمی جنگ کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور تھے پناہ گزین کیمپ اور امریکی فوج کے اسٹیشن کے طور پر بھی استعمال میں لایا گیا تھا۔ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب حالات سازگار ہو گئے تو اکتوبر 1946 میں اس کو دوبارہ سے ٹی بی کے مریضوں کے علاج معالجے اور ان کے داخلے کے لیے کھول دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے تقریباً اٹھارہ سال بعد 1965ء میں یہاں پر پانچ نئے وارڈز جن میں 200 بستروں کی گنجائش تھی اور لیبارٹری قائم کر کے اسے باقاعدہ ہسپتال کی شکل دے دی گئی۔ 1970 میں اوجھا سینیٹوریم کو صوبہ سندھ کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ 1973

 میں اس کو "سینیٹوریم" سے ترقی دے کر "انسٹیٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز" کا درجہ دیا گیا جس میں ٹی-بی کی بیماری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کا آغاز ہوا۔ 1994 میں "کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز آف پاکستان" کی طرف سے یہاں پر کروائے جانے والے ڈپلومہ کورسز کو تسلیم کیا گیا۔ 1997 میں گلوبل ٹی-بی یُونِٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جینیوا، سارک، ٹیوبرکلوسز سینٹر کھٹمنڈو، نیپال نے "ٹی-بی" کی روک تھام اور اس کی تعلیم کے لیے کراچی کے اس انسٹیٹیوٹ کی خدمات کو بیحد سراہا۔ دسمبر 2003 میں جب ڈاؤ میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیا گیا تو "اوجھا" کو اس کا "کیمپس" بنا دیا گیا۔ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اب تک آٹھ ہزار سے زائد اسٹوڈنٹس اور بیس دوسرے انسٹیٹیوٹ کے ریزیڈنٹس کو بھی تعلیم و تربیت دے چکا ہے۔ یہاں پر اس وقت 850 فیکلٹی ممبرز کے علاوہ تقریباً تین ہزار کے قریب کارکن کام کر رہے ہیں۔"حکمت" اوجھا خاندان کا خاندانی پیشہ تھا۔ تاریخی طور پر اس خاندان کا تعلق ٹھٹھہ سے تھا۔

 ٹھٹھ ماضی میں حکمت کے حوالے سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ سکھرام داس اوجھا کا شفا خانہ میری ویدر ٹاور کے قریب لکھمیداس اسٹریٹ میں ہوا کرتا تھا۔ وہ خاص طور پر تپِ دق (ٹی بی) کے علاج کے ماہر تھے۔ طبی پیشے میں دلچسپی رکھنے والے افراد ان سے حکمت کی تعلیمات کے لیے رجوع کرتے تھے۔ یہ اُس زمانے کے ایک ماہر حکیم تھے-سینی ٹوریم کی توسیع-ٹی بی مرکز کے لیے حکومت نے دیھ صفوراں میں 127 ایکڑ پر محیط پلاٹ بطور عطیہ دیا۔ یونائیٹڈ مشن ٹیوبرکلوسز سینی ٹوریم آف معدناپالی، آندھرا پردیش کے میڈیکل سپرینٹینڈنٹ ڈاکٹر فریموٹ مولر نے اس کے ڈیزائن میں مدد فراہم کی اور پھر 16 جون 1939ء کو اس وقت کے صوبائی وزیر نہال داس وزیرانی نے دیپ چند ٹی اوجھا کے نام پر بننے والے ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ عمارت کی تعمیر کا کام ویلجی ہرکا پٹیل اینڈ سنز کو سونپا گیا۔20 کمروں پر مشتمل ہسپتال، 3 کمروں پر مشتمل انتظامی بلاک، 2 رہائش گاہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا وید (یعنی آیور وید کے معالج) کے لیے بنائی گئیں، عملے کے لیے (ڈاکٹر کائی خوشرو اسپینسر کے اہل خانہ کی جانب سے عطیے کے طور پر) 4 کوارٹرز اور خادمین کے لیے 30 کمروں پر مشتمل بلاک کا تعمیراتی کام انجام دیا گیا۔ کمپلیکس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا جس میں مریضوں کے لیے 64 کاٹیجز ایک دوسرے سے 80 فٹ کے فاصلے پر موجود تھے، ان میں سے چند کاٹجز 2 کمروں پر مشتمل تھے۔ہر ایک یونٹ میں سونے کا کمرا، باورچی خانہ، لیٹرین اور برآمدہ بنا ہوا تھا۔ تمام کاٹجز عطیات کے ذریعے تعمیر کیے گئے تھے اور ہر ایک کاٹج پر ایک ہزار 400 روپے کی لاگت آئی  -برآمدے میں عطیہ دینے والے اپنی تختی نصب کرتے۔ ایک تختی پر (انگریزی زبان میں) لکھا ہے کہ 'خان بہادر دادا بھائی منصف کی پاکیزہ یاد میں جنہوں نے 19 فروری 1910ء کو وفات پائی۔یہ عطیہ ان کی اہلیہ گل بانو ڈی منصف کی جانب سے دیا گیا'۔

 ایک دوسری تختی پر رقم ہے کہ، 'بچو بائی نادرشا ایڈولجی ڈنشا کی پیاری یاد میں یہ ان کے بھائیوں کی جانب سے تعمیر کروایا گیا جو ان کی جدائی کو بھول نہیں پائے'۔ ایک تختی پر یہ تحریر ہے کہ، 'یہ سیٹھ جیون جی کریم جی مرسی والا نے اپنی زوجہ بائی امتل بائی کی یاد میں تعمیر کروایا'۔سیٹھ ڈونگرسی جوشی نے تفریحی سرگرمیوں کے لیے ہال عطیے کے طور پر تعمیر کروایا۔ سر ڈیوڈ سسون نے برقی جنریٹر فراہم کیا، جو پونا سے منگوایا گیا تھا اور پاور ہاؤس تعمیر کروایا۔ سکھ رام داس نے سینی ٹوریم میں اپنی وقتاً فوتاً رہائش کے لیے اپنے پیسوں سے بنگلہ تعمیر کروایا۔ انہوں نے ادارے کے اعزازی منیجرکے طور پر خدمات انجام دیں۔ 8 جنوری 1942ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ لنلتھگو نے اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا۔ بعدازاں اس میں مسافر خانہ اور چھوٹا گرجا گھر کا اضافہ کیا گیا-دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج نے اس عمارت کو اپنے قبضے میں لیا اور اسے امریکی آرمی کا بیس بنانے کے ساتھ جنگی قیدیوں اور پولش مہاجرین کو ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا۔ اس عمارت کو دوبارہ 1946ء میں دیپ چند ٹی اوجھا ٹی بی سینی ٹوریم کے طور پر بحال کردیا گیا۔   

ہفتہ، 2 دسمبر، 2023

امام علی نقی علیہ السلام


  امام علی نقی علیہ السلام ایک دن کسی اهم کام کی وجہ سے سامره سے ایک دیہات کی طرف جارهے تھے ۔ اسی دوران ایک عرب نے امام علیہ السلام کے بارے میں معلوم کیا تو اس کو بتایا گیا کہ امام  فلان دیہات کی طرف روانہ هوئے هیں، وه عرب اس قریہ کی طرف چلنے لگا۔ جب وه حضرت کے محضر مبارک میں  پہونچا تو اس نے کہا: میں کوفہ کا رهنے والا هوں اور آپ کے جد بزرگوار امیرالمؤمنین کی ولایت کے متمسّکین میں سے هوں، لیکن بڑے بھاری قرض نے میری کمر توڑ دی هے، وه اس قدر بھاری هے کہ میں اسے تحمّل کرنے کی تاب نهیں رکھتا هوں۔ اور آپ کے علاوه میں کسی کو نهیں پہچانتا کہ وه میری ضرورت کو پورا کرسکے۔ امام علیہ السلام   نے پوچھا: تمهارا قرض کتنا هے ؟ اس نے عرض کیا: تقریباً دس هزار درهم ۔

امام علیہ السلام  نے اسے تسلّی دی اور فرمایا: تم ناراض نہ هو تمهاری مشکلیں حل هوجائیں گی۔ میں جو حکم تمهیں دوں اس پر عمل کرو اور اس کے انجام دینے میں تکلّف نہ کرنا۔ یہ میرا نوشتہ اپنے پاس رکھو۔ جب تم سامره میں آؤ تو اس ورقہ میں لکھے هوئے مبلغ کا مجھ سے مطالبہ کرو، هرچند لوگوں کے مجمع میں هو اور اس کام میں ذرّه برابر کوتاهی سے کام نهیں لینا۔

امام کے سامره واپس هونے پر وه مرد عرب، حضرت کے محضر مبارک میں آیا جبکہ خلیفہ کے جاسوس، ایجنٹ اور کچھ لوگ وهاں بیٹھے هوئے تھے، اس آدمی نے امام کا لکھا هوا خط انهیں دکھا کر اپنے قرض کا مطالبہ اور اصرار کرنے لگا ۔امام علیہ السلام  نے بڑی نرمی و مهربانی سے اس کی تاخیر کی معذرت خواهی کی اور اس سے مهلت کی درخواست کی تاکہ مناسب وقت پر اسے ادا کریں،

 اس نے کہا مجھے ابھی چاهئے ۔ یہ ماجرا متوکل تک پہونچا ۔ اس نے دستور دیا کہ تیس هزار دینار امام کو دیئے جائیں۔ امام نے ان تمام دیناروں کو لے کر اس مرد عرب کے حوالہ کردیا، اس نے دیناروں کو لے کر کہا: خداوند عالم بہتر جانتا هے کہ اپنی رسالت کو کس خاندان میں قررا دے۔ائمہ معصومین  علیہم  السلام خداوند عالم کی قدرت و عظمت کے مظاهر، ذات مقدس پروردگار کے کلمات و حکمت کے معادن اور اس کی تجلّیات کے منبع و مرکز اور خاص انوار هیں، اسی بنیاد پر یہ حضرات ایک غیر معمولی معنوی قدرت کے حامل تھے اور لوگوں میں خاص مقام و مرتبہ اور رعب و دبدبہ رکھتے هیں:

"طَأْطَأَ كُلُّ شَرِيفٍ لِشَرَفِكُمْ وَ بَخَعَ كُل‏ مُتَكَبِّرٍ لِطَاعَتِكُمْ وَ خَضَعَ كُلُّ جَبَّارٍ لِفَضْلِكُمْ وَ ذَلَّ كُلُّ شَيْ‏ءٍ لَكُمْ” هر شریف و بزرگ نے آپ کی شرافت و عظمت کے سامنے سرخم کردیا هے اور هر متکبّر و مغرور نے آپ کی اطاعت کی هے اور هر جابر و ظالم نے آپ کے فضل و کرم کے مقابلے میں سر جھکادیا هے 

اور ساری چیزیں آپ کے سامنے ذلیل و خوار هوگئی هیں ۔

زید بن موسی۔ نے کئی بار (عمربن فرخ) کا کان بھرا اور اس سے درخواست کیا کہ اسے اس کے بھتیجے (امام علی نقی علیہ السلام) پر ترجیح دے، اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا تھا، وه جوان هیں اور میں ان کے والد کا چچا هوں۔ عمر نے اس کی بات امام علی نقی علیہ السلام  سے بیان کردی، امام  نے فرمایا:

تم ایک بار یہ کام کرو، کل مجھے ان سے پہلے بزم میں بٹھا دو، اس کے بعد دیکھو کیا هوتا هے ۔دوسرے دن عمر بن فرخ نے امام علی نقی علیہ السلام  کو بلایا اور حضرت کو بزم میں صدر مقام پر بٹھایا، اس کے بعد زید کو آنے کی اجازت دی۔ زید، امام کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا ۔جب پنجشنبہ کا دن آیا تو پہلے زید کو داخل هونے کی اجازت دی اور صدر مجلس میں بٹھایا، اس کے بعد امام سے اندر آنے کی درخواست کی، امام  علیہ السلام  اندر داخل هوئے جس وقت زید کی نظر امام علیہ السلام  پر پڑی اور امام کی هیبت و جلالت کو ان کے رخسار پر دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑا هوگیا، امام کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود امام کے سامنے بیٹھا ۔ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔

امام علی نقی علیہ السلام  رات کے وقت بارگاه پروردگار میں حاضر هوکر پوری رات عبادت، حالت خشوع و خضوع اور سجدے و رکوع میں گزارتے تھے اور آپ کی نورانی پیشانی زمین پر هوتی، جس کے درمیان سوائے سنگریزوں اور خاک کے کوئی چیز حائل نهیں هوا کرتی تھی اور مسلسل اس دعا کو پڑھا کرتے تھے ۔ ” الٰهي مُسيٌء قد وَرَدَ، و فقيرٌ قد قَصَدَ، لا تُخيِّبْ مسعاه و ارحَمهُ و اغفر لَه خَطۡاَهُ؛ اے میرے پروردگار تیرا گنہگار بنده تیرے پاس آیا هے اور ایک تہی دست تیری بارگاه میں حاضر هوا هے اس کی سعی و کوشش کو ناکام نہ کرنا اور اسے اپنی رحمت و عنایت کے سایہ میں قرار دے اور اس کی لغزشوں کو معاف کردے  

 ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات همیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاه میں حاضری کے لئے بے چین کئے رهتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔امام علی نقی  علیہ السلام  کے اخلاق و فضائل کسی پر پوشیده نهیں هیں، علماء اور مؤرخین اس بات سے اچھی طرح واقف هیں، یہاں تک کہ اهل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے بھی آپ کی مدح و ثنا کی هے ۔  "خدا کی قسم وه روئے زمین پر الله کی بہترین مخلوق اور لوگوں میں سب سے افضل هیں

جمعرات، 30 نومبر، 2023

اھلاً و سھلاً مرحبا 'ولا دت امام زین العابدین علیہ السّلام

 

 

 اھلاً و سھلاً مرحبا 'بے شک منجانب پرور دگار عالم  یہ ہمارے لئےروز سعید ہے- ولا دت با سعادت فرزند نبی امام زین العابدین علیہ السّلام تمام خانوادے بنو ہاشم اور کائنات کی تمام مومن مخلوقات کومبارک ہو

 والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ جناب شہربانو بنت یزدجرد ابن شہریار ابن کسری ہیں ،یعنی آپ نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں۔ علم: امام زین العابدین علیہ السلام کا علم آل رسول کا علم ہے اور آل رسول کا علم ان کے جد امجد والا ہی علم ہے کہ جو بیٹے کو باپ سے باپ کو جد امجد سےاور جد امجد کو جبرائیل سے اور جبرائیل کو خدا سے ملا ہے۔اہل سنت اور شیعہ علماء نے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت سے علوم، دعائیں، نصیحت بھری باتیں، تفسیر، حلال و حرام کے شرعی احکام اور مختلف واقعات وغیرہ کو نقل کیا ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہونے والی احادیث یا کسی قول کو امام علیہ السلام نے کسی صحابی یا تابعی سے نقل نہیں کیا بلکہ ان سب چیزوں کا مصدر رسول خدا ہیں۔ تمام لوگ علوم میں اہل بیت کے محتاج ہیں اور اہل بیت کسی بھی شخص کے محتاج نہیں ہیں۔امام زین العابدین علیہ السلام فقیہ اور محدث تھے اور اپنے دادا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طرح فقہی مسائل کی تمام جوانب اور فروعات پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔جب بھی امام زین العابدین علیہ السلام ایسے نوجوانوں کو دیکھتے کہ جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ انھیں قریب کر لیتے اور فرماتے خوش آمدید آپ لوگ علم کے امانت دار ہو، آج آپ لوگ اپنی قوم کے چھوٹے شمار ہوتے ہو لیکن عنقریب آپ قوموں کے بڑے بزرگ بن جاؤ گے۔ جب بھی کوئی طالب علم امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آتا تو امام علیہ السلام اسے خوش آمدید کہتے اور فرماتے کہ تم ہی رسول خدا کی وصیت کے مصداق ہو۔

جب بھی کوئی طالب علم زمین پہ موجود کسی بھی خشک یا تر چیز پہ قدم رکھتا ہے تو زمین کے ساتوں طبقے اس کے لیے تسبیح بجا لاتے ہیں۔کسی بھی شخص کا امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس علوم محمدیہ و علویہ ہونے کے بارے میں اختلاف موجود نہیں ہے اگر ظالم و جابر حکمران امام زین العابدین علیہ السلام کو نظر بندی اور جاسوسی جال کی قید میں نہ رکھتے تو یہ علوم ہر طرف پھیل جاتے اور کتابیں ان سے بھر جاتیں۔عبادت اور اخلاق: جب نماز کا وقت آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور رنگ پیلا پڑ جاتا اور جسم کانپنے لگتا۔امام زین العابدین علیہ السلام ایک دن اور رات میں ہزار رکعت نماز ادا کرتےاور بہت زیادہ نمازیں پڑھنے کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام کے ساتوں اعضاء سجدہ پہ گہرے نشان پڑ گئے۔امام زین العابدین علیہ السلام نےایک اونٹنی پہ بیس مرتبہ حج کیا لیکن اسے کبھی ایک مرتبہ بھی چھڑی سے نہ مارا۔امام زین العابدین علیہ السلام ہر اس شخص سے بھی نیکی اور بھلائی سے پیش آتے کہ جو انھیں اذیت دیتا۔ ہشام بن اسماعیل مدینہ کا گورنرتھا وہ جان بوجھ کر امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو اذیت پہنچاتا رہتا تھاجب ولید نے اسے معزول کیا تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ وہ راستے میں کھڑا ہو جائے تا کہ ہر شخص اس سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے ہشام اس حکم کی وجہ سے امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت ڈرا ہوا تھا لیکن امام سجادعلیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اصحاب کو اس سے سختی سے پیش نہ آنے کی نصیحت کی پھر امام زین العابدین علیہ السلام خود ہشام کے پاس گئے اور اس سے کہا تمہیں ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تمہیں جس چیز کی بھی ضرورت ہے ہم اسے پورا کریں گے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے61 ھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں ۔ 10 محرم کی شام کویزیدی فوج نے اہلیبیت علیہ السلام کےتمام خیموں کو آگ لگا دی تمام بییبیاں ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں منتقل ہوتی رہیں بالآخرامام وقت کے حکم پر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر بیبیاں خیموں سے باہر آگئیں اس کے بعد تو ظلم کی انتہا ہوگئی اور تمام بیبیوں کی چادریں چھین لی گئیں۔ 11 محرم کو آپ کے اہلِ حرم کو بے کجاوہ اؤنٹوں پرسوار کیا گیا اور امام (ع) کے گلے میں لوہے کاطوق اور ہاتھوں میں ھتکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین علیہ السلام کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گئے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ 16 ربیع الاول سن 61 ھ کو دمشق پہنچا اور عورتوں اور بچوں کو رسیوں میں بندھا ہوا دربارِ یزید میں پیش کیا گیاایک سال کی قید و صعوبت کی مشکلات سہ کر آپ 8 ربیع الاول سن 62 ھ کو مدینے واپس تشریف لائے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کی بازارِ شام اور کوفہ میں کی گئی بے حرمتی پر گریہ کرتے رہے۔ آپ کی زیادہ تر زندگی عبادت اور گریہ میں گزری وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جب امام علیہ السلام سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کہاں پر زیادہ مصیبت کا سامنا کرنا پڑا آپ آہ بھرتے اورفرماتے الشام ، الشام ، الشام۔ آپ (ع) کو اس بات کا سب سے زیادہ قلق تھا نبی زادیوں کو سر برہنہ فاسق و فاجر یزید معلون کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ:

”اے لوگوجومجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پرپیاسا ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔“دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔“یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تویزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے،چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں،اگرچہ کہ اذان کا وقت تھا نہ نماز کا مگر یزید کے حکم پر اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا’۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔

اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔ ۔جب حجاج نے کعبہ کو تباہ کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا مسئلہ ہوا کیونکہ جو کوئی بھی اسے نصب کرنا چاہتا تھا تو حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا۔ بالآخر حضرت علی ابن الحسین زین العابدین نے اسے بسم اللہ پڑھ کر نصب کیا تو بخوبی نصب ہو گیا۔اگرچہ آپ گوشہ نشین تھے اور خلافت کی خواہش نہ رکھتے تھے مگر حکمرانوں کو ان کے روحانی اقتدار سے بھی خطرہ تھا اور خوف تھا کہ کہیں وہ خروج نہ کریں، چنانچہ 95 ھ میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دے دیا ، امام مظلوم حضرت علی ابنِ حسین ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام 25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پر فائزہوئے۔ آپ کی تجہیز و تکفین آپ کے فرزند اور پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے کی اور آپ کی تدفین جنت البقیع میں امام حسن ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کے پہلو میں کی گئی ا

بدھ، 29 نومبر، 2023

مکھانے اور آپ کی صحت

  مکھانے کاپودا تالابوں میں پیداہوتاہے۔اس کے پھول اور پتے نیلوفر کے پھول اور پتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔اس کی جڑ چھوٹے چقندر کے برابر ہوتی ہے۔اس کا بیرونی چھال سیاہ اور کھردری ہوتی ہے۔اس کے جوف میں خانے ہوتے ہیں اور ہرایک خانے کے اندر سے سیاہ رنگ کے گول بیج نکلتے ہیں جن کا مغز سفید اور قدرے شیریں لیس دارہوتاہے۔خام ہونے کی حالت میں ان کا مغز نکال کر کھاتے ہیں اور خشک شدہ کو مرکبات میں شامل کرتے ہیں۔مزاج سردتر ہے تازہ مکھانا مقوی بدن،مقوی باہ اورمولدمنی خیال کیاجاتاہے۔جبکہ خشک بھونے ہوئے مکھانے قابض اورغذائیت سے بھرپو رہوتے ہیں۔ مکھانے زیادہ تر مستورات کو بچے کی پیدائش کے بعدک مزوری کو دور کرنے کے لئے حلووں یا سفوف میں شامل کرکے کھلاتے ہیں۔مکھانے میں شامل کیمیائی اجزا:پھول مکھانے میں کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کی وافر مقدارپائی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو  ہائی بلڈپریشر کا مسئلہ ہے انہیں مکھانہ کا استعمال باقاعدگی سے کرنا چاہیئے:پھول مکھانے خواتین کے بعض دوسرے مسائل کا حل بھی ہے۔اس نسخے کو تیار کرنے کے لئے آپ کو تھوڑا تردد کرنا پڑے گا۔ لیکن آپ کے بہت سے مسائل اس سے حل ہوجائیں گے۔جن خواتین کو پرانی لیکوریا ہو کمر ٹانگوں اور پنڈلیوں میں ایسا درد ہو کہ درد کی گولیاں کھا کر عاجز آگئی ہوں۔ دوسری طرف بلڈ پریشر ہو۔گرم چیزیں نہ کھاسکتی ہوں اور تیسری طرف موٹاپا بہت زیادہ ہو۔ ایسی خواتین اس نسخے کا استعمال کریں۔حیران کن فائدہ ہوگا۔اسی طرح وہ خواتین جو کمزور ہیں۔ جن میں خون کی کمی ہے۔ پٹھے اعصاب اور جسم دکھتا ہے۔ ہر وقت سانس پھولتا ہے۔طبیعت اکتاہٹ اور بیچینی کا شکار رہتی ہے۔ وہ بھی یہ نسخہ استعمال کرسکتی ہیں۔ اسی طرح مہوروں کا مسئلہ،ڈسک پرابلم،اعصابی کھنچاؤ،اس نسخے کے سامنے ایسے ہیں جیسے آٹے میں سے بال نکل جائے۔کے بیج ہیں   

مکھانوں سےجریان،ضعف باہ اور رقت منی کے لئے سفوفات میں شامل کرتے ہیں۔ان کو کھانے کیلئے فرائینگ پین ہلکی آنچ پر رکھ کر چھوڑ دیجئے اور جب پین گرم ہوجائے تو پھول مکھانے اس پر ڈال کر ان کو پانچ منٹ تک پکاتے رہیں۔تیل وغیرہ کچھ بھی نہیں ڈالنا۔صرف پھول مکھانے کو روسٹ کرنا ہے اس دورا ن آپ نے چمچ کے ساتھ ان کو ہلاتے رہنا ہے تا کہ یہ ہر طرف سے پک جائیں۔ان کو روسٹ کرنے کے بعد آپ نے انہیں اتار لینا ہے۔ ایک برتن میں آپ نے ایک گلاس گرم دودھ لینا ہے اور اس میں پھول مکھانے شامل کر لینے ہیں۔ اور ان کو تقریبا دس منٹ تک رکھ کے چھوڑ دینا ہے تا کہ مکھانوں میں دودھ اچھی طرح سے جذب ہوجائے۔یہ لیجئے آپ کا یہ نسخہ تیارہوگیا۔اس کو آپ کھا لیں اور اگر ذائقے کے لئے آپ نے شہد شامل کرنا ہے تو آپ حسب ذائقہ شامل کرسکتے ہیں۔یہ نسخہ ایسا قیمتی ہے کہ اس سے آپ کی ہر طرح کی کمزوری دورہوجائے گی۔آپ اپنے آپ کو تندرست اور توانا محسوس کریں گے۔ بدن میں موجود ہر طرح کے دردوغیرہ دور ہوجائییں گے۔ نہ آپ کبھی تھکاوٹ محسوس کریں گے اور نہ ہی سستی۔

   یہ نہ صرف انکے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔مکھانےبلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔جریان، ضعف باہ کا علاج -اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔

ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔ چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: ،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔بے اولاد افراد توجّہ دیںجسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے

مکھانے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھے گا بلکہ انہیں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ ہونے والے خطرے سے بھی بچائے رکھے گا۔ دراصل مکھانے میں میگنیشیم کی مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا منرل ہے جو جسم کے بلڈ پریشر کو متوازن بنائے رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے-بزرگ لوگ دن میں دو بار مکھانہ کا استعمال کرسکتے ہیں۔ ۔یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کو کمزور ہونے سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔جب کہ دیگر عمر کے لوگ بھی اسے ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک فائدہ مند کھانے کی اشیاء کے طور پر کھا سکتے ہیں۔ مکھانا کھانے سے بہت سی بیماریاں تو ختم ہوتی ہیں۔جسم کو طاقت ملتی اور اس کے ساتھ ساتھ مردانہ کمزوری کو ختم کرنے میں بھی بہت مدد گار ہوتاہے۔  -اس نسخے کو کچھ عرصے تک استعمال کرنا شرط ہے۔ اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی نسخہ ہو ایک یا دو بار استعمال کرنے سے ان کے مسائل حل ہوجائیں۔ تو ایسا نہیں ہوتا۔ کسی بھی نسخے کا مستقل استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خواتین جن میں بے اولادی کے مسائل ہوں اور وہ اپنی بے اولادی کے لئے مختلف ادویات استعمال کر چکی ہوں۔ان کو فائدہ نہ ہوتا ہو تو انہیں یہ نسخہ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔وہ مرد جن کا مادہ تولید اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں اور ہر ٹیسٹ ان کا ناکام ہوتا ہے اور وہ مایوس ہوچکے ہیں وہ بھی یہی مرکب دودھ کے ساتھ ضرور استعمال کریں۔

 چند دن چند ہفتے اور چند مہینے کا استعمال انہیں بے اولادی کے روگ سے نکال کر اولاد کی خوشیاں دے گا۔نسخہ تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے: پہلے اجزاء نوٹ فرمائیے،ثابت مونگ ایک کلو۔بادام گری ایک پاؤ۔،پسی ہوئی چینی یا دیسی شکر ایک کلو۔پستہ ایک چھٹانک۔سونف آدھا پاؤ۔ناریل ایک پاؤ۔پھول مکھانے آدھا پاؤ۔چھوٹی الائچی۔ایک تولا۔چاروں گوندیں ایک پاؤ۔ نشاستہ ایک پاؤ۔اسپغول کا چھلکا آدھا پاؤ۔دیسی گھی ڈیڑھ کلو۔ ثابت مونگ کو بھون لیں۔ بعد میں اس کا آٹا بنا لیں۔ دیسی گھی میں چاروں گوندیں براؤن کریں اور کوٹیں۔ پھر پھول مکھانے بھی دیسی گھی میں براؤن کریں اور کوٹیں۔ بادام گھی میں براؤن کر کے کوٹ لیں۔ سونف کو بھی براؤن کر کے اس کا آٹا بنا لیں۔ یعنی سب دیسی گھی میں نشاستے کو بھی گھی میں براؤن کریں۔باقی پستہ اور چھوٹی الائچی کو براؤن کئے بغیر ہلکا کوٹ لیں۔آخر میں تمام اجزاء کو ملا کر گھی میں بھون لیں اور پسی ہوئی چینی شامل کردیں۔خوب مکس کریں۔ اس کے بعد ناریل کھوپرا اور اسپغول کا چھلکا ملالیں۔تمام اشیاء ملانے کے بعد ایک کھلے برتن میں ٹھنڈا کریں اور ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔ 

پیر، 27 نومبر، 2023

ملتان میں تعزیہ داری کی ابتدا


ملتان میں تعزیہ داری کی تاریخ بہت قدیم ہے۔اور ملتان وہ  واحد شہر ہے جہاں یوم عاشور پر ایک سو سے زائد تعزیوں کے ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں ان سب تعزیوں میں بناوٹ اور تاریخی لحاظ سے استاد اور شاگرد کے تعزیے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ امیر تیمور کے دور میں شروع ہونے والی تعزیہ داری اپنی تاریخی روایات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ آغاز میں کھجور کی چھڑیوں اور بانسوں سے تعزیہ تیار کیا جاتا تھا ماتمی جلوس امام بارگاہوں تک محدود تھے۔ رفتہ رفتہ تعزیوں کی تیاری میں لکڑی‘ کاغذ اور دیگر اشیاءاستعمال ہونے لگیں۔ انگریز دور میں ہندووں کی جانب سے اس روایت کی مخالفت کی گئی تو شیعہ سنی متحد ہو گئے۔ انگریز حکومت نے 1845ءمیں تعزیوں کے لائسنس کے اجراءکے ساتھ ساتھ باقاعدہ روٹس متعین اور جلوس کے آغاز اور اختتام کے وقت مقرر کئے۔ہر تعزیہ ملتان دستکاری کا خوبصورت نمونہ ہے لیکن استاد اور شاگرد کے تعزیے تعزیہ داری کی تاریخ میں خاص مقام رکھتے ہیں۔کسی دور میں تعزیہ سازی میں چنیوٹ خاصا مشہور تھا یہاں کے چوب کار زیارتیں تیار کرتے تھے استاد پیر بخش اور شاگرد محکم الدین کا رشتہ بھی اسی کام کے دوران پختہ ہوا۔

استاد کا تعزیہ۔استاد پیر بخش نے 1810میں تعزیے کا کام شروع کیا گیا اور 1835ءمیں اسے مکمل کیا۔بعد از اسے ملتان میں زیارت کے لئیے رکھوایا گیا۔یہ خالص ساگوان کی لکڑی سے تیار کیا گیا ہے۔بناوٹ کے لحاظ سے اس تعزیہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی صرف اوپر والی منزل کے جھروکوں کو نئے انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔  تعزیے کی اونچائی 27 فٹ اور چوڑائی 8 فٹ ہے۔ اس کی سات منزلیں 35 حصوں پر مشتمل ہیں۔اس کا وزن 70 من ہے۔اور اسے 50 آدمی مل کر بانسوں کی مدد سے اٹھاتے ہیں۔شاگرد کے تعزیہ۔شاگرد محکم الدین نے  یہ تعزیہ اپنے استاد کے تعزیے کے کچھ عرصہ بعد تیار کیا۔ایک روایت کے مطابق شاگرد دن کو استاد کے ساتھ تعزیہ تیار کرتا اور رات کو اپنا تعزیہ تیار کرتا۔اس تعزیے کی پہلی زیارت بوسیدہ ہو گئی تو استاد علی احمد نے دوسری زیارت تیار کی وہ 1943 میں آگ لگنے سے خاکستر ہو گئی تو اس کا تیسرا اور موجودہ تعزیہ استاد عنایت چنیوٹی نے تیار کیا۔ پہلے دو تعزیے دستکاروں نے تیار کئے جبکہ موجودہ تعزیہ کی تیاری میں مشینی کام کا بہت عمل دخل ہے۔شاگرد کے تعزیے کی اونچائی تقریباً 25 فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہے۔ اس تعزیے کو ایک سو کے قریب عزادار مل کر اٹھاتے ہیں۔

تعزیوں کی بناوٹ میں چوب کاری کا فن نمایاں نظر آتا ہے جو خاصا محنت طلب ہے۔ دستکاروں نے نفاست‘ مہارت اور مذہ عقیدت کے ساتھ لکڑی کے کٹ ورک سے شاہکار زیارتیں تخلیق کی ہیں۔ تعزیوں کو بغور دیکھیں تو اس کی ہر منزل‘ ہر کونہ اور گوشہ محرابوں‘ کھڑکیوں‘ کبڑوں اور آرائشی میٹریل سے مزین ہوتا ہے۔ نقش کاری‘ مینا کاری‘ شیشہ کاری میں اتنی مہارت دکھائی گئی ہے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے روضہ مبارک کی شبیہ کے طور پر سجائے گئے یہ استاد اور شاگرد کے تعزیے دستکاروں کی جادوئی انگلیوں کا کمال ہیں جن میں مذہبی عقیدت اور محنت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔کسی کے مرنے پر صبر کی تلقین اور اظہار ہمدردی کرناتعزیت کہلاتا ہے۔ (عربی تعزیة) اہل تشیع کے نزدیک شہید کربلا اور دیگر شہدا کا ماتم جو ان کے روضے پر، گھروں یا امام بارگاہوں میں محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تک کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر کہیں تابوت، کہیں ان کے روضے کی تصویر، جسے تعزیہ کہتے ہیں، کہیں دُلدُل یا علم نکالے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ شہدا کا ماتم بھی کرتے ہیں۔ مجالس عزا میں مرثیہ، نوحہ، سلام پڑھتے اور شہادت کا حال بیان کرتے ہیں۔ ہرملک میں تعزیت کے مختلف طریق رائج ہیں۔ اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں شہدا کا ماتم ضرور کیا جاتا ہے۔

عراقی اسے شبیہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ لوگ حادثہ کربلا کی نقل پیش کرتے ہیں۔ قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری امام حسین منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی۔ ایران میں دولت صفویہ کے عہد سے یعنی سولہویں صدی کے شروع سے تعزیہ داری کا رواج ہوا۔ اور پھر رفتہ رفتہ برصغیر پاکستان و ہندوستان میں بھی تعزیہ داری ہونے لگی۔امام  حسین علیہ السلام  کے روضہ مبارک کی شبیہہ کو اردو میں  تعزیہ کہا جاتا ہے۔ تعزیہ سونے، چاندی، لکڑی، بانس، کپڑ اسٹیل  اور کاغذ  سے تیار کیا جاتا ہے۔ اہل تشیع تعزیہ کو غم اور  سوگ کی علامت کے طور پر جلوس کی شکل میں نکالتے ہیں۔ جلوس تعزیہ امام بارگاہ سے برآمد ہو کر کربلا پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعزیہ کی ابتدا تیمور کے دور میں ہوئی۔ بناوٹ کے لحاظ سے تعزیہ کی مختلف اقسام ہیں ؛

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر