سوّا مچھلی میں
پائے جانے والے ایک بلیڈر کو چین میں شان و شوکت کی علامت تصور کیا جاتا ہے جبکہ
لوگ اسے اپنے گھر پر رکھتے ہیں، اس کے علاوہ چینی روایتی ادویات میں بھی اس کے
استعمال کا حوالہ ملتا ہےسمندر کو ماہی گیر ’بادشاہ‘ بھی کہتے ہیں بقول ان کے کہ یہ
بادشاہ کے انداز میں نوازتا ہے جس سے انسان کی قسمت ہی بدل جاتی ہے۔حال ہی میں
کراچی سے تھوڑا دور بحیرہ عرب میں شکار کے دوران ماہی گیروں کے جال میں دو ایسی نایاب
مچھلیاں آگئیں جنھوں نے انھیں لکھ پتی بنا دیا۔ان ماہی گیروں کی موبائل پر ریکارڈ
کی گئی ویڈیو کے مطابق جیسے ہی جال کھنچتا ہے تو سندھی زبان میں ایک بزرگ ماہی گیر
کی آواز آتی ہے کہ سوّا ہے سوّا۔
جیسے جیسے
جال اوپر آتا ہے تو دوسری آواز آتی ہے کہ 'ایک نہیں، دو ہیں دو۔' مچھلیوں سے بھرا یہ
جال اوپر کشتی پر پہنچتا ہے تو خوشی کے مارے ایک ماہی گیر کی چیخ نکل جاتی ہے، برف
اٹھانے والی قینچی سے ان مچھلیوں کو دوسری مچھلیوں سے الگ کردیا جاتا ہے جبکہ ایک
ماہی گیر خوشی میں جھوم اٹھتا ہے۔ابراہیم حیدری کی جیٹی پر یہ دونوں مچھلیاں دس دس
لاکھ روپے سے زائد قیمت میں فروخت ہوئیں اور فروخت کے تقریباً دو ماہ کے بعد ان
مچھلیوں کی ویڈیو سوشل میڈیا اور اس کے بعد میڈیا پر وائرل ہوئی۔
سوّا مچھلی کیا ہے اور قیمتی کیوں ہے؟
ماحول کے بقا
کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد
معظم کے مطابق سوّا کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے، اس کو سندھی میں سوّا اور بلوچی میں
کر کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔اس کا سائز ڈیڑھ میٹر
تک ہوسکتا ہے جبکہ وزن 30 سے 40 کلو بھی ہوسکتا ہے، یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے لیکن
نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے۔مچھلی کی
برآمد سے وابستہ اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ یہ ہانگ کانگ ایکسپورٹ کی جاتی ہے اور
انھوں نے سنا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے
والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو
ایف کے معاون محمد معظم کے مطابق اس کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر
ہے جسے مقامی زبان میں پوٹا کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر آتی ہے اور نیچے
جاتی ہے، یہ بلیڈر تمام ہی مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں تھوڑے موٹے اور
تندرست ہوتے ہیں۔کراچی فشریز میں تازہ پکڑی گئی مچھلیاں نیلامی کے لیے رکھی ہیں'پوٹے
کی چینی روایتی کھانوں میں بڑی اہمیت ہے، اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی
کرتے ہیں جس طرح ہمارے یہاں لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو
اپنے گھر پر رکھتے ہیں۔'فرض کرلیں کہ ہمیں جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم سونا فروخت کردیتے
ہیں اس طرح چینی بوقت ضرورت اس کو فروخت کرتے ہیں اس کی وجہ سے سوّا مچھلی کی قیمت
بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔'
چین کی بعض
روایتی ادویات میں بھی سوّا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے
درد اور جنسی کمزوریاں شامل ہیں۔غیر سرکاری تنظیم گرین پیس ایشیا کے مطابق ہانگ
کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت 2 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق
خاص مواقع پر اسے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات بطور کرنسی بھی اس
کا لین دین ہوتا ہے۔ 2008 میں عالمی مالی بحران کے دوران لوگوں نے اس بلیڈر میں
سرمایہ کاری کی تھی۔واضح رہے کہ چین میں بعض مچھلیوں کی اقسام کو خوش قسمتی کی
علامت بھی سمجھا جاتا ہے، مچھلیوں کا جوڑا بدھ ازم کی آٹھ علامات میں بھی شامل ہے۔
چین کے نئے سالوں کے علامات میں مقبول ایک علامت میں ایک بچے نے ایک بڑی گولڈ فش
اور کنول کا پھول اٹھا رکھا ہے۔
چین میں گولڈ فش اور کنول کے پھول کو نئے سال کی علامت تصور کیا جاتا ہےپاکستان میں سوّا کہاں پائی جاتی ہے؟پاکستان میں سوّا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماجگاہ ہے۔ ٹھٹہ کے صحافی غلام حسین خواجہ کے مطابق اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں۔
کیا سوّا
مچھلی معدوم ہو رہی ہے؟ ڈبلیو ڈبلیو ایف کو خدشہ ہے کہ کروکر نسل کی یہ مچھلی
پاکستان کے پانیوں سے بھی معدوم ہو رہی ہے۔ محمد معظم کے مطابق پہلے یہ مچھلی
کنارے سے لے کر سو میٹر تک پکڑی جاتی تھی مگر اس بلیڈر کی منہ مانگی قیمت کی وجہ
سے اب اس کی آبادی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہی ہے۔مچھلی کے ایکسپورٹر اخلاق عابدی کے
مطابق کسی زمانے میں ماہی گیر کشتیاں بھر بھر کر سوّا مچھلی لاتے تھے لیکن اب ان کی
تعداد کم ہوگئی ہے اور ہفتے میں ایک دو روز ہی کوئی اس کا شکار کرنے میں کامیاب
ہوتا ہے۔ایک چینی ماہی گیر یلو کروکر مچھلی اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے
محمد معظم کا کہنا ہے کہ چین میں ایک مچھلی پائی جاتی تھی جس کو یلو کروکر کہا جاتا تھا، جو اب وہاں نایاب ہوچکی ہے اور کاجھر کریک سر کریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
محمد معظم کے مطابق سوّا کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔ یہ غول کے ساتھ رہتی ہے اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔اب جہاں جہاں دنیا میں یہ پائی جاتی ہے، وہاں اس کی بہت زیادہ
طلب ہے۔