بدھ، 10 مئی، 2023

آ و چڑیا گھر چلیں

 

 

پاکستان بننے کے بعد جب مہاجروں زرا قدم جما لئے تب کچھ تفریح طبع نے سر اٹھا یا تو ان کے پاس واحد تفریح گاہ شہر کےمشرق میں انگریز کا بنوایا ہوا ایک باغ تھا جس میں انہوں نے دنیا کے چرند 'پرند' اور انواع اقسام کے جنگلی جانور رکھّے تھے ،اب عوام کی دلچسپی یہی جانور ہوا کرتے تھے جو وہ اپنے بچّوں کو لا کر دکھاتے تھے-اس باغ کا نام اس وقت جو معروف تھا وہ تھا چڑیا گھر- جو بعد میں گاندھی گارڈن کہا جانے لگا-

 اس نباتاتی باغ کی جائے پیدائش کو کھوجنے کے لیے اگر ہم تاریخ کے صفحات پلٹیں تو اس جگہ ہمیں باغ کے ہی شواہد ملتے ہیں جنھیں دو صدی قبل عام لوگ سرکاری باغ کے نام سے پکارتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس باغ کی شناخت بدلتی رہی۔سرکاری باغ سے وکٹوریہ کوئین گارڈن، پھر گاندھی گارڈن، کراچی زو اور اب اس کا پورا نام ’کراچی زولوجیکل اینڈ بوٹینیکل گارڈن‘ ہے اور درختوں کے متوالوں، نباتات کے طالب علموں، ماہرین ماحولیات اور محققین کےلئے اس باغ میں برگد کا ایک بہت پرانا درخت ہے  اس برگد سے گذشتہ دو صدیوں میں 9 درخت بن چکے ہیں، حتی کہ کچھ جڑوں نے تو دوسری عمارت تک پہنچ کر وہاں ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے-روایت کے مطابق گوتم بدھ کو ’نروان‘ برگد کے درخت کے نیچے ملا تھا جبکہ کچھ روایات میں املی اور کچھ میں انجیر کے درخت کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا عقیدہ ہے کہ سیتا نے اپنی پارسائی کی گواہی دینے پر برگد کو دعا دی تھی اور ہندوں کا ماننا ہے کہ اسی لیے یہ درخت بڑھتا رہتا ہے۔برگد کے درخت کو تمام مذاہب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اسی لیے اسے صوفی یا درویش درخت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ برگد کا درخت جہاں بھی اگتا ہے وہاں اپنا پورا خاندان تشکیل دیتا ہے۔

۔ یہ درخت کراچی کے گنجان آباد علاقے کے ایک نباتاتی باغ میں موجود ہے۔یہ باغ اس علاقے میں دھواں، شور اور بے ہنگم ٹریفک کے درمیان 43 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں دو ہزار سے زائد درختوں کا ذخیرہ موجود ہے۔لوگ عموماً اس باغ کو چڑیا گھر یا گاندھی گارڈن کے نام سے جانتے ہیں۔جانوروں کی موجودگی اگرچہ اب اس جگہ کی پہچان ہے اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ تاریخی طور پر یہ جگہ ایک نباتاتی باغ کے لیے مخصوص تھی اور اب بھی یہاں دو ہزار سے زائد تناور درختوں کا ذخیرہ موجود ہے جو بدلتے موسموں سے لڑتے کراچی کے لیے کسی آکسیجن کے کارخانے سے کم نہیں ہے۔

لیے آج بھی یہ بطور ’بوٹینیکل گارڈن‘ کشش کا باعث ہے۔

نباتاتی باغ کس حال میں ہے؟کراچی چڑیا گھر میں داخل ہوں تو درختوں کی اہمیت کا احساس زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔ باہر درجہ حرارت 40 کو چھو رہا تھا لیکن باہر کی شدید گرمی کے باوجود اندر چاروں جانب ایک ٹھنڈک سی محسوس ہورہی تھی۔بلند و بالا اشجار کی گھنی چھتری دھوپ کو کہیں اوپر ہی روک رہی تھی۔ ماحول میں خنکی اور ایک فطری سکوت کا احساس نمایاں تھا۔ادارے سے بطور ہارٹی کلچرسٹ وابستہ ضامن عباس کے مطابق یہاں 2,311 بالغ درخت موجود ہیں جبکہ چھوٹے درخت اور پودے لا تعداد ہیں۔ ہر درخت کی تاریخ سو ڈیڑھ سو سال سے پرانی یا اس سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔اگرچہ سائنسی طور پر کسی بھی درخت کی عمر معلوم کرنے کے لیے اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے مگر ان درختوں کے وسیع و عریض تنے، چوڑائی اوربلندی ان کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔

بوٹینیکل گارڈن

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہےبرگد کا قدیم درخت -ضامن عباس نے ہمیں برگد کا وہ درخت دکھایا جس کی عمر 200 سال سے زیادہ ہے۔ برگد کا درخت پرانا ہونے پر اس کی جڑیں اوپر کی شاخوں سے پھوٹ پڑتی ہیں اور نیچے زمین کی طرف بڑھتی ہیں اور زمین میں جگہ بنا کر ایک نیا درخت تشکیل دیتی ہیں گویا ایک درخت سے کئی درخت بنتے چلے جاتے ہیں۔اس برگد سے بھی ان دو صدیوں میں نو درخت بن چکے ہیں حتی کہ کچھ جڑوں نے دوسری عمارت میں جا کر ایک نیا درخت تشکیل دے دیا ہے۔ انتظامیہ نے اس کی حفاظت کے لیے چاروں جانب کیاری اور احاطہ بنا دیا ہے۔اس نباتاتی باغ میں برگد کے مزید 55 درخت موجود ہیں ان میں سے کسی کی عمر بھی ڈیڑھ سو سال سے کم نہیں ہے، ان میں سے ایک درخت تقریباً سوکھ چکا تھا مگر خصوصی دیکھ بھال اور اس سال بارشوں کے بعد اس پر پتے نکل آئے ہیں۔یاد رہے کہ کراچی میں برگد کا درخت شہر کا ورثہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی کٹائی یا کسی بھی طرح نقصان پہنچانے پر پابندی ہے۔ کمشنر کراچی کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق برگد کے درخت کو نقصان پہنچانے کے مرتکب افراد کے خلاف سندھ قومی ورثہ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

املی روڈ

یہاں املی کے بلند و بالا، گھنی چھتری والے 75 سایہ دار درخت موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ایک سڑک کے کنارے لگائے گئے ہیں جو پوری سڑک کو سایہ مہیا کرنے کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔اس روڈ کو ان املی کے درختوں کی وجہ سے املی روڈ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ درخت ہاتھی گھرا ور دفاتر کو سایہ فراہم کرتے ہیں۔ قیاس ہے کہ شاید انگریزوں کے گھوڑے اس کا پھل شوق سے کھایا کرتے تھے اسی لیے یہ اتنی زیادہ تعداد میں لگائے گئے ہیں۔ ان درختوں کی عمر بھی سو سے ڈیڑھ سو سال تک ہے اور ان کی اونچائی 80 سے 100فٹ تک ہے۔

حال ہی مغل گارڈن کا رنگ و روپ سنوارا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی اور نکھر گئی ہے اور اب یہ عمارت بھی شان دار درختوں میں گھری ہوئی سچ مچ کسی مغل فرماں روا کا باغ معلوم ہوتی ہے۔گیٹ سے لے کر عمارت تک جانے والے دونوں راستوں کے درمیان ایک نہر ہے، دونوں جانب دیدہ زیب فانوس لگے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عمارت کی جانب جانے والے دونوں راستوں پر بلند و بالا پام کے درخت اس طرح ایستادہ ہیں گویا محافظ دست بستہ کھڑے پہرا دے رہے ہوں۔پام کے ان درختوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے ان میں فین پام کے 21 ،ملیشیا پام کے 19 اور بوٹل پام کے 71 درخت ہیں جن کی عمریں کسی بھی طور پچیس تیس سال سے کم نہیں ہیں۔بیو مونٹ لانیہ لان کراچی میونسپلٹی کے انگریز دور (1905- 1910) کے صدر ٹی ایل ایف بیومونٹ کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں برگد کے درخت کافی تعداد میں موجود ہیں اور اب تک نام کی تختی بھی موجود ہے۔

اس نباتاتی باغ کا خزانہ 2,311 بڑے درختوں پر مشتمل ہے۔ ان میں نیم کے 111، املی کے 75، برگد کے 55، السٹونیا کے 61، پیلٹوفورم کے 19، ملیٹا کے 4، لیگنم کے 71، مولسری کے 2، گل موہر کے 7، بانس کے 61، جامن کے 11، املتاس کے 7، اشوک کے1100، ناریل کے 5، گلر کے 9، چمپا کے 2، پیپل کے 9، بکائن کے 9، سفیدہ کے 7، بیلگری کے 3، کیتھ کا ایک، بوتل پام کے 71، پاکر کے 7، کارڈیا کے 30، کھرنی کے2 ، انڈین ٹیولپ کے 5، برنا کے 11، جنگل جلیبی کے 511، کینن بال کے 2، ملیٹیا پام کے 19، فین پام کے 21 اور پنک کیسیا کے 5 درخت موجود ہیں۔

باغ بانی کے ماہر توفیق پاشا موراج کے مطابق اس نباتاتی باغ میں کچھ نایاب درخت ایسے بھی ہیں جو پورے کراچی میں کہیں اور نہیں پائے جاتے مثلا کینن بال ٹری جس کے دو درخت یہاں موجود ہیں، یہ درخت کراچی میں کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کراچی کا سبز خزانہ ہے جسے بھرپور طریقے سے کام میں لانا چاہیے۔ طالب علموں کو یہاں کا دورہ کروایا جائے، شجر کاری اور کچن گارڈننگ کے حوالے سے تربیتی کورس کروائے جائیں، شہر بھر کے مالیوں کو تربیت دی جائے۔ بہترین نرسریاں تشکیل دی جائیں جس سے دوسرے ادارے اور شہری بھی استفادہ کر سکیں۔ اس وسیع رقبے اور ان سبز وسائل کو زیادہ سے زیادہ کام میں لایا جائے-

ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق کسی بھی بالغ شجر سے حیات کی کم ا زکم پندرہ اقسام وابستہ ہوتی ہیں جن میں انسان، پرندے، تتلیاں ، گلہریاں، شہد کی مکھی، مختلف کیڑے مکوڑے وغیرہ شامل ہیں۔ لہذا یہ درخت حیاتیاتی تنوع کی وسیع اقسام کا مسکن ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ایک انسان اپنی عمر میں اوسطا جتنی آکسیجن استعمال کرتا ہے وہ کم از کم سات درختوں کے برابر ہے اس لحاظ سے دو کروڑ آبادی والے شہر میں 14 کروڑ درختوں کی ضرورت ہے، ایسے میں درختوں کی انتہائی کم شرح کے ساتھ موسمیاتی تغیرات کے خطرے سے نبرد آزما کراچی کے لیے ایک ایک درخت قیمتی ہے۔

بوٹینیکل گارڈن میں موجود ایک نایاب ’کینن بال‘ درخت

کراچی کی فضائی آلودگی کے پیش نظر شہر میں موجود ہر درخت ایک بیش قیمت اثاثہ ہے کیونکہ درخت فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے فضا کو صاف کرتے ہیں۔ گارڈن کے علاقے کا شمار کراچی کے گنجان آباد اور آلودہ ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ یہاں بے تحاشا اور بے ہنگم ٹریفک سے نکلتا دھواں فضا کو شدید آلودہ کرتا ہے۔محکمہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کے ترجمان مرزا مجتبٰی بیگ کے مطابق سندھ تحفظ ماحول کے اعداد و شمار کے لحاظ سے گارڈن کے علاقے میں فضائی معیار کے ایک اہم جزPM 2.5 کی مقدار 68 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر پائی گئی ہے۔ جو کہ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے معیارات کے مطابق 25 مائیکروگرام فی کیوبک میٹر سے زائد نہیں ہونی چاہیے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس علاقے کا فضائی معیار مطلوبہ حد سے تین گنا ابتر ہے۔مجتبی کے مطابق پی ایم ڈھائی (PM 2.5) سے مراد Particulate Matter 2.5 ہے یعنی وہ فضا جو ہمارے ناک اور منہ کے بالکل قریب ہوتی ہے اور ہمارے پھیپھڑوں میں پہنچنے سے قبل اس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی آلودہ فضا میں ہزاروں درختوں کا ذخیرہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے ، اس کی حفاظت کے لیے تمام سائنسی شواہد اور جدید تکنیک کو بروئے کار لانا چاہیے۔

کیا یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا درخت ہے؟وفاقی اردو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ نباتات کے سابق وزیٹنگ پروفیسر، کئی کتابوں کے مصنف اور ماہرنباتات ڈاکٹر معین الدین احمد پاکستان میں ڈینڈروکرونولوجی کی جدید تحقیقی تکنیک کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس تکنیک سے درختوں کے اندر موجود ’برسا پرتوں‘ سے آپ نہ صرف درختوں کی درست عمر بلکہ ان پر گزرنے والوں موسموں کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تکنیک پھول دار درختوں کے لیے زیادہ موزوں نہیں ہے کیونکہ ان میں گروتھ رنگ زیادہ واضح نہیں ہوتی ہے۔

تاہم ان کے مطابق اس کے علاوہ بھی طریقے موجود ہیں جن سے ان درختوں پر تحقیق کی جاسکتی ہے جس سے درختوں کی عمر، کراچی کے موسموں کا مکمل ڈیٹا مل سکتا ہے کہ کب اس شہر میں بارشیں برسیں اور کب کب خشک سالی نے اپنے پنجے گاڑے، یہ فضا سے کتنا کاربن اور شور کی کتنی آلودگی جذب کرتے ہیں، یہ سب معلوم ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر معین کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے کراچی زولوجیکل اور بوٹینیکل گارڈن اور یونیورسٹی کے مابین اسی طرح کی ایک تحقیق کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو بدقسمتی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ماہرین متفق ہیں کراچی کی فضائی آلودگی کے لیے ان ہزاروں درختوں کی موجودگی ان گنت فوائد کی حامل ہے اور ان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

پیر، 8 مئی، 2023

حضرت مولانا جلال الدین رومی

 

 

 

-مولانا جلاالدّین رومی وہ شاعر اور  صوفی بزرگ ہیں جن کی شاعری آج بھی یورپ میں مقبول عام ہے -اور ان کی مثنوی کو زندہ ء جاوید شاعری کہا جاتا ہےدینی خدمات آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تدریس اور فتاویٰ کے ذریعے اُمّت کی راہنمائی فرمائی نیز کئی کُتُب بھی تصنیف فرمائیں جن میں ”مَثْنَوی مولانا  روم کو عالَم گیر شہرت حاصل سلسلہ باطنی۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔

 یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔-ہے اس عظیمُ الشّان کتاب سے اِسْتِفادَہ انسان کو بااَخلاق بننے، نیکیاں کرنے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنے میں بے حد معاوِن و مددگار ہے

ہم نظریات فارسی ادب، صوفی رقص کارہائے نماياں مثنوی، دیوان شمس تبریزی، فیہ ما فیہ -محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز(یہ اصل میں مولانا کا ہی دیوان ہے لیکن اشعار میں زیادہ تر شمس تبریز کا نام آتا ہے اس لیے اسے انھی کا دیوان سمجھا جاتا ہے) ان کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازوال تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، ان کا مکان پیدائش ایران میں ہے اور ان کا مزار ترکی میں واقع ہے۔-مکتب فکر حنفی، تصوف؛ انکے پیروکاروں نے سلسلہ مولویہ قائم کیا۔

پیدائش اور نام و نسب-اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔ لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ روایت ہے کہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔

ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاولدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا۔ شعبۂ عمل عارفانہ کلام، صوفی رقص، مراقبہ، ذکر-ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں

 علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصانیف میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔

تقریباً 66 سال کی زندگی  گزار کر 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔ مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا رھتا ھےاور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔ حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ھوتے رھیں گے۔ ترکی کے اسی خوبصورت ودلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک خوبصورت ودلکش اور ڈیزائن کا حامل ہے

آخری وصیت مولانا جلالُ الدّین رومی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آخری وصیت  یہ فرمائی : میں تم کو وصیت کرتا ہوں  کہ اللہ پاک سےظاہرو باطن  میں ڈرتے رہو،کھانا تھوڑا کھاؤ،کم سو، گفتگو کم کرو، گناہ چھوڑ دو، ہمیشہ روزے سے رہو،رات  کا قیام کرو، خواہشات کو چھوڑ دو،لوگوں  کا ظلم  برداشت کرو  ، کمینوں اور عام لوگوں کی مجلس  ترک کردو،نیک بختوں اور بزرگوں کی صحبت میں رہو بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ۔بہتر کلام  وہ ہے  کہ جو تھوڑا اور بامعنی ہو۔ (نفحات الانس،ص488)

 

جمعہ، 5 مئی، 2023

منگھو پیر چشمہ کا آب شفاء

 

برّصغیر پاک و ہند میں ابتدائے اسلام سے صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ کی آ مد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا انہی سلسلوں میں ایک نام حضرت حسن المعروف حاجی حافظ سخی سلطان منگھوپیر بھی ہیں یہاں ان کا مزار ہے جہاں قدرتی پانی کے کئی ٹھنڈے اور گرم چشمے ہیں۔ ان چشموں کے پانی میں قدرتی اجزا شامل ہیں جو جلدی امراض کے مریضوں کے شفایاب ہوجاتے ہیں۔ مزار سے ملحقہ ایک تالاب میں درجنوں مگرمچھ موجود ہیں جن کو بابا کے مگرمچھ کہا جاتا ہے۔ یہاں یہ مگرمچھ کئی سو سال سے موجود ہیں۔ مزار کے احاطے میں درجنوں دکانیں بھی موجود ہیں۔ ، آپ کا سلسلہ نسب امیرالمومنین حضرت علیؓ سے ملتا ہے

۔ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سادات ہیں۔ ۔ یہ زمانہ تاتاریوں کے فتنہ کا تھا، آپ بھی ان کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے۔ 13 ویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو اس وقت منگھو پیر عراق سے یہاں تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور صوبہء سندھ سے سفر کرتے ہوئے یہاں (موجودہ کراچی) میں سکونت اختیار کی تھی۔ان کے ماننے والے کہتے ہیں کہ یہاں حاضری دینے سے ان کی مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں۔ مزار کے اطراف میں کچھ ایسی قبریں بھی ہیں جن کے بارے میں روایت ہے کہ یہ ان بہادروں کی ہیں جو منگھوپیر کے ساتھیوں میں سے تھے۔کبھی یہ قبریں شاندار رہی ہوں گی مگر آج کل ان کی حالت خاصی خراب ہے

اس وقت کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے اور منگھو جس جگہ عبادت کرنے کے لیے ٹھہرے، وہ الگ تھلگ، ایک پہاڑی کے اوپر قائم اور کھجور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔جلد ہی ماہی گیروں کے دیہاتوں کے لوگوں نے ان کی پیروی شروع کر دی۔ جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ پر چھوٹا سا مزار تعمیر کر دیا۔ ایک روایت کہ یہ ڈاکوتھے بابا فرید کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور جرائم سے تائب ہو گئے۔ منگھو وسا نے پھر بابا فرید کی رہنمائی میں تصوف کی مشق شروع کر دی اور انہیں بعد میں پیر کا خطاب دیا گیا جس سے وہ منگھو پیر کہلانے لگے۔ آپ کے مسکن کے نزدیک گندھک والے گرم پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا ہے جہاں آج بھی زائرین جلد کے امراض کے علاج کی امید میں غسل کرنے جاتے ہیں اور شفا پاتے  ہیں

۔ ہر سال 8 ذوالحجہ کو ہزاروں عقیدت مند سلطان سخی منگھوپیر کا عرس مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساون کے مہینے سے پہلے میلہ بھی منعقد کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جب آ حج کے لیے تشریف لے گئے اسی دوران مدینہ منورہ میں زیارت رسول اللہؐ نصیب ہوئی۔ بارگاہ رسالت سے آپ کو اجودھن میں مقیم حضرت فریدالدین گنج شکرؒ سے ملنے کی ہدایت ہوئی۔ چنانچہ منگھو بابا (منگھوپیر) حضرت فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سلسلہ عبادت سے منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد خلافت سے نوازے گئے۔

 آپ حکم مرشد موجودہ مقام حسینی منگھوپیر تشریف لے گئے اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ یہ جگہ (منگھوپیر) اس وقت غیرآباد تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں ہندوؤں کا یہ متبرک مقام تھا۔ استبداد زمانہ سے یہ جگہ اکثر آباد ویران ہوتی رہی۔ حضرت منگھوباباؒ (منگھوپیر) کی شہرت اطراف میں پھیلی تو یہ جگہ مرجۂ دوراں ہوگئی۔ کہا جاتا ہے اسی جگہ آپؒ کے ہم عصر چند بزرگان دین حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ ملتانی، حضرت لال شہباز قلندرؒ اور جلال الدین بخاریؒ تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت منگھوپیرؒ مزار کے قریب تالاب ہے جو مگرمچھوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کرامت کے مظہر ہیں۔ ان مگرمچھوں کے سردار بڑے مگرمچھ کا نام مور ہے جب ایک مور مرتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ تمام ایک اجتماعی نظام سے منسلک نظر آتے ہیں۔ ایسا نظم و نسق دیکھ کر ششدر ہو جاتے ہیں۔

منگھوپیرؒ کا مقام اور یہاں کے مگرمچھ غیر مسلم صاحبان، علم و فن کی توجہ کے بھی مراکز رہے ہیں۔ مختلف یورپی ماہرین نے یہاں کے بارے میں لکھا ہے کہ: 1838 میں جیکب برلاکس نے اس جگہ کا جغرافیائی مطالعہ کیا، انیسویں صدی میں ایک افلیوک نامی سیاح یہاں کے مگرمچھوں کی طلسماتی طرز زندگی کا ذکر سن کر خود آیا۔ تحقیق کی اور اپنا مشاہدہ اپنی کتاب میں رقم کیا۔ منگھوپیرؒ کی درگاہ مقام اجابت دعا ہے عقیدت مند اور حاجت مندوں کا یہاں پر تانتا بندھا رہتا ہے

۔8 ذی الحجہ کو آپ کا سالانہ عرس منایا جاتا ہے آپ کے خلفا میں حضرت خاکی شاہ بخاری کا نام ملتا ہے جو حضرت کے احاطے میں مدفون ہیں۔ گرم پانی کا چشمہ بھی موجود ہے۔ بے شمار قدرتی چشمے اولیا کرام اور بزرگان دین کے فیوض کا نتیجہ ہوتے ہیں جو اپنی خاصیت کی وجہ سے سالہا سال سے زائرین کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ کراچی مرکز سے 28 میل اور 45 منٹ کی مسافت پر واقع منگھوپیر کا مزار اور گرم پانی کا چشمہ گزشتہ کئی سو برسوں سے عقیدت مندوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔کہا جاتا ہے یہاں تین یا چار سے زائد چشمے ہیں۔

 کہا جاتا ہے یہاں ایسے مریض آتے ہیں جن کو مختلف چھوٹے بڑے ڈاکٹرز کے علاج سے فائدہ نہ ہوا ہو۔ جب وہ اس چشمے کے پانی سے غسل کرتے ہیں تو انھیں شفا ملتی ہے۔ چونکہ پہاڑوں میں قدرتی معدنیات وسیع تعداد میں موجود ہیں تو پانی معدنیات سے مل کر اپنے لیے عام پانی سے ہٹ کر منفرد افادیت حاصل کرسکتا ہے۔ پتھروں سے وہ پانی اوپر آنا شروع ہو جاتا ہے وہ اوپر آتے آتے بہنا شروع کردیتا ہے۔ جس کو ہم چشمہ کہتے ہیں۔ ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہاڑوں میں کتنا پانی جمع ہے جو تسلسل سے جاری ہونے کے باوجود ختم نہیں ہو رہا؟ منگھوپیر مزار کے قریب ’’جزام‘‘ کا اسپتال تقریباً 100 سال سے موجود ہے۔ کہتے ہیں اسپتال میں داخل عقیدت مند اس گرم پانی کو استعمال کرتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

پیر، 1 مئی، 2023

بوسنیا میں اسلام کی آمد

 

بوسنیا کی تاریخ  -بوسنیا میں اسلام کی آمد 15 ویں صدی عیسوی میں مسلمان فاتحین کی آمد سے ہوئی - سلطان محمد فاتح ﴿30 مارچ 1432 ئ تا 3 مئی 1481 ئ﴾

 نے بوسنیا کو فتح کیا اور یہ علاقہ خلافتِ عثمانیہ کا حصہ بنا اور مسلمانوں نے وہاں اسلام کی تبلیغ شروع کی، اُن لوگوں میں مسلمان فوجی اور تاجر نمایاں تھے - بعد ازاں 16

 ویں صدی میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام نے نمایاں کردار ادا کیا جن میں سلسلہ قادری، سلسلہِ رومی ،سلسلہ نقشبندی اور سلسلہ بکتشی نمایاں

 رہے-

بوسنیا کو چھوٹا ترکی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب پندرہویں صدی میں بوسنیائی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا تو وہ ترک مسلمانوں سے بھی بڑھ کر 'ترک' اور مسلمان ہو

 گئے تھے۔ اور چونکہ عثمانی خلافت میں لوگوں کا بنیادی شاخص ان کی مذہبی ملت ہوا کرتی تھی، اسی وجہ سے بلقان اور مغربی یورپی دنیا کے عیسائی بوسنیائیوں اور

 البانویوں کو 'ترک' کہنے لگے۔ البانویوں کو ترک کہے جانے کی روایت تو ختم ہو چکی ہے، لیکن بوسنیائیوں کو ابھی بھی سرب اور کروٹ ترک کہتے ہیں۔ سریبرینتسا

 کے قصاب سرب کمانڈر راٹکو ملادچ نے بوسنیائی مسلمانوں کے قتلِ عام سے پہلے جو ویڈیو پیغام جاری کیا تھا اُس میں بھی اُس نے یہی کہا تھا کہ آج میں 'ترکوں' سے

 اپنی قوم کی پانچ سو سالہ غلامی کا بدلہ لے رہا ہوں۔

بوسنیا کے لوگ عثمانی خلافت اور ترکی کو بہت اچھی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور ترکی کو اپنے 'بڑے بھائی' ملک کی حیثیت دیتے ہیں۔ بوسنیائیوں کی عثمانی خلفاء سے

 وفاداری بھی اس باہمی رشتے کی عمدہ مثال ہے۔ سربوں کے برعکس عثمانی خلاقت اُن کی نظر میں قابض قوت کے طور پر نہیں، بلکہ اُن کی اپنی نمائندہ ریاست کے طو

ر پر دیکھی جاتی ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو بوسنیا ہر لحاظ سے ترکی جیسا ہی لگتا ہے-لبتہ اس سے کوئی یہ نتیجہ اخذ نہ کرے کہ بوسنیا بھی ہماری طرح کا ایک تنگ نظر اور

 ملا زدہ ملک ہے، بلکہ بوسنیا اپنی تمام تر مسلمانیت کے ساتھ بھی انجامِ کار بلقان کا ایک جدید یورپی ملک ہے۔

سرائیوو کی اسی فیصد آبادی بوسنیائی مسلمان ہے، بقیہ بیس فیصد آبادی سرب آرتھوڈکسوں اور کروٹ کیتھولکوں پر مشتمل ہے۔بوسنیا و ہرزیگووینا (bosnia-

herzegovina) یورپ کا ایک نیا ملک ہے جو پہلے یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ اس کے دو حصے ہیں ایک کو وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا کہتے ہیں اور دوسرے کا نام

 سرپسکا ہے۔ وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا اکثریت مسلمان ہے اور سرپسکا میں مسلمانوں کے علاوہ سرب، کروٹ اور دیگر اقوام بھی آباد ہیں۔ یہ علاقہ یورپ کے جنوب

 میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 51،129 مربع کلومیٹر ( 19،741 مربع میل) ہے۔ تین اطراف سے کرویئشا کے ساتھ سرحد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی یورپی

 اقوام نے اس علاقے کی آزادی کے وقت اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے ساحلِ سمندر نہ مل سکے چنانچہ اس کے پاس صرف 26 کلومیٹر کی سمندری پٹی ہے اور کسی بھی

 جنگ کی صورت میں بوسنیا و ہرزیگووینا کو محصور کیا جا سکتا ہے۔ مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ سب سے بڑا شہر اور دار

 الحکومت سرائیوو ہے جہاں 1984 کی سرمائی اولمپک کھیلوں کا انعقاد ہوا تھا جب وہ یوگوسلاویہ میں شامل تھا۔ تاحال آخری بار ہونے والی 1991ء کی مردم شماری

 کے مطابق آبادی 44 لاکھ تھی جو ایک اندازہ کے مطابق اب کم ہو کر 39 لاکھ ہو چکی ہے۔ کیونکہ 1990 کی دہائی کی جنگ میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے جن کی

 اکثریت مسلمان بوسنیائی افراد کی تھی اور بے شمار لوگ دوسرے ممالک کو ہجرت کر گئے۔

جنوب مشرقی یورپ کے قدیم ترین آثار اسی ملک سے ملے ہیں مثلاً پتھر کے زمانے کے 12000 سال قبل مسیح سے تعلق رکھنے والا ایک مجسمہ جس میں ایک

 گھوڑے کو تیر کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ آثار ہرزیگووینا میں ستولاک (Stolac) نامی قصبہ سے ملے ہیں۔ اس زمانے میں لوگ غاروں میں رہتے تھے یا

 پہاڑیوں کی چوٹیوں پر گھر بناتے تھے۔1893ء میں سرائیوو کے قریب بھی قدیم بتمیر ثقافت کے آثار ملے ہیں۔ جن کا تعلق کانسی کے زمانے سے ہے۔ یہ ثقافت

 آج سے پانچ ہزار سال پہلے معدوم ہو گئی تھی۔ چار سو سال قبل مسیح میں کلتی لوگوں نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد وہ مغربی یورپ میں بھی پھیل گئے۔ یہ

 اپنے ساتھ لوہے کو اوزار اور پہیے لے کر آئے جس نے علاقے کی زراعت میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔بوسنیا میں خلافتِ عثمانیہ کی مثبت پالیسیوں نے بوسنیا کو معاشی،

 دفاعی اور سیاسی طور پر مضبوط کیا عہدِ خلافتِ عثمانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی زندگی پر بھی توجہ دی گئی - انتظامی، قانونی اور سیاسی

 نظام میں مثبت تبدیلیوں نے علاقہ کی ترقی میں خاص کردار ادا کیا

- بوسنیا کے صوفیائ نے احترامِ انسانیت اور قرآن میں موجود امن کی تعلیمات کے ذریعے مختلف مکاتب کے مابین فاصلہ کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا - بوسنیا کے

 لوگوں کا علم، روحانیت اور صوفیا سے لگائو آج بھی مغرب میں مشہو رہے- مختلف المذاہب لوگوں کے مابین زندگی بسر کرتے ہوئے بوسنیا کے مسلمان آج بھی اِس

 بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں اولیا ئ نے احترامِ ِانسانیت کا اور ِحلم کے درس کی بنیاد پر صدیوں تک پُر امن زندگی ممکن بنائی-بوسنیا کے تاریخی مقامات م یں اسلامی تہذیب و ثقافت چھلکتی ہے جس کی مثال غازی خسرو بیگ مسجد، مسجدِ سفید ، بادشاہی مسجد اور محمد پاشا مسجد ہیں - غازی خسرو جنگِ ہسپانیہ کا ہیرو تھا بعد ازاں 1521ئ میں بوسنین صوبہ کا گورنر بنا، اسی کے نام پر غازی خسرو بیگ مسجد 1557ئ میں تعمیر ہوئی جِس کے اندر کی کندہ کاری اور پچی کاری مسلمانوں کے عمدہ ذوق اور فنِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہے - مسجدِ سفید اپنے طرزِ تعمیر کے لحاظ سے نہایت ہی منفرد ہے اور ایشیا کی اُس دور کی تعمیر کردہ دیگر مساجد کے فن تعمیر سے مختلف ہے- صوفیائے کرام کی خانقاہیں بھی رُوحانی و تاریخی مرکز ہیں جن میں سلسلہِ قادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں-

 

ہفتہ، 29 اپریل، 2023

بحر مرداردنیا کے لئے ایک عبرت ناک سمندر

بحر مرداردنیا کے لئے ایک عبرت ناک نام جس کا ذکر اکثر جگہ بے شمار حوالوں اور قِصوں کے ساتھ موجود ہے۔ بحر مْردار اْردن اور اسرائیل کے درمیان واقع ہے اس کے مشرق میں اْردن اور مغرب میں اسرائیلی شہر الخلیل ہے جہاں کہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پوشیدہ ہے۔ اْردن خود تو سطح سمندر سے 3 سو میٹر بلند ہے لیکن بحر مْردار سطح سمندر سے 420 میٹر نیچے گہرائی میں واقع ہے۔ بحر مْردار کو ایک سمندری جھیل کہا جا سکتا ہے ، اس کا اور کسی سمندر سے رابطہ نہیں ہے یہ اتنی گہرائی میں ہے کہ اس کا اپنا پانی باہر نہیں نکل سکتا یعنی یہ 67 کلو میٹر لمبا اور زیادہ سے زیادہ 18 کلومیٹر چوڑا ایسا کنواں ہے جس کی اپنی گہرائی بھی 377 میٹر تک ہے۔بحر مْردار اسے اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی جاندار چیز نہ موجود ہے اور نہ زندہ رہ سکتی ہے کیونکہ اس کا پانی عام سمندر سے 23 سے 25 فیصد تک زیادہ نمکین ہے۔ 35 سو سال سے منجمند رہنے والے اس پانی میں کیلشیم ،سوڈیم ، مینگشیم کلورائیڈ کے علاوہ بہت سے نمکیات شامل ہو چکے ہیں۔ جن میں کئی بیماریوں کی شفا موجود ہے۔ یہ نمکیات اتنے زیادہ ہیں جنہوں نے اس پانی کو اس حد تک گاڑھا کر دیا ہے کہ نہ کوئی اس میں ڈوب سکتا ہے نہ اس کے اندر گہرائی میں غوطہ لگا سکتا ہے اس پر بس انسان اْلٹا اکڑوں ہو کر تیر یا لیٹ سکتا ہے۔ ب

حر مردار پر کوئی کشتی بھی آ جائے تو اْلٹ جاتی ہے۔انبیاء کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر ’’ اْڑ ‘‘ میں رہتے تھے جب اْنہوں نے اپنی قوم کو بْتوں کی پرستش سے منع کیا تو قوم میں سے صرف اْن کے بھتیجے حضرت لوط اْن پر ایمان لائے لوگوں کے بْت پرستی نہ چھوڑنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خاندان کے ہمراہ  ’’ اْڑ ‘‘سے ہجرت کی تو حضرت لوط علیہ السلام بھی ان کے ہمراہ تھے ؛ یہ بے سروسامان قافلہ پیدل مْسافتیں طے کر کے ترکی کے شہر  ’’ شانلی عْرفہ ‘‘ میں ٹھہرا جہاں نمرود کی بادشاہی تھی نمرود نے بْتوں کے مقابلے میں اللہ کی عبادت کرنے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے کی ناکام کوشش کی اْس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اہل قافلہ کے ہمراہ وہاں سے روانہ ہو کر سدوم کے مقام پر آئے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی بیوی کے ہمراہ  ’’ سدوم ‘‘ میں سکونت اختیار کر لی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام آگے فلسطین کی طرف چلے گئے جہاں بعد میں بیت المقدس بنا جسے یہودی حضرت سلیمان علیہ السلام کا یروشلم کہتے ہیں۔ 

 سدوم کے باسی ہم جنس پرستی اور ڈاکے مارنے میں مْبتلا تھے جنہیں ہدایت کے لیے حضرت لوط علیہ السلام تبلیغ کرتے رہتے کہ ان بْرائیوں سے باز آجائیں لیکن اْنہوں نے اپنی روش نہ چھوڑی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ہمراہ فلسطین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور اْنہیں بڑھاپے میں حضرت اسحق اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی ان کی نسل سے پیدا ہونے کی بشارت دی اور بتایا کہ وہ حضرت لوط علیہ السلام کی بستی کو غرق کرنے آئے ہیں وہ قوم بْرائیوں میں مْبتلا ہے اور انبیاء کی تکذیب کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام سے اْنسیت اور پیار کی بدولت اکثر وادی سدوم میں جاتے رہتے تھے تب بحر مردار نہیں تھا فلسطین اور سدوم کا درمیانی فاصلہ کم تھا اْنہیں فرشتوں کی بات پر تشویش ہوئی تو فرشتوں نے بتایا کہ لوط علیہ السلام خدا کے اس عذاب سے محفوظ رھیں گے لیکن ان کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہو گی۔ قرآن پاک کی دو سورتوں میں خدا نے بستی کو بارش اور پتھروں سے غرق کرنے کے متعلق بتایا ہے وہ اتنی شدید بارش تھی کہ بستی اْلٹائے جانے سے زمین کا پانی اوپر آنے اور عذاب کی بارش سے بحر مردار وجود میں آیا۔جدید سائنس سات سال قبل ان پانچوں بستیوں سمیت سدوم کے غرق شدہ شہر کو دریافت کر چکی ہے کہ وہ بحر مْردار کے اندر ہے شاید اللہ کے عذاب کی شدت سے بحر مْردار آج بھی سطح سمندر سے 420 میٹر نیچے ہے جسے اللہ کی قدرت سے آنے والی صدیوں میں سائنس مزید دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ تین سو پچاس سال قبل خدا کے عذاب سے ؛ سدوم ، عمورہ اور زغر نامی پانچ بستیاں غرق ہو گئی تھیں جن کی دریافت سات سال قبل 2015ء میں امریکی تحقیق کاروں نے دس سال سے تلاش کے بعد کی ہے ان دریافت کاروں کی سربراہی امریکی پروفیسر سٹیون کولن کر رہے تھے۔ اْنہوں نے سیٹلائٹ کی مدد سے اسے تلاش کیا اور سیارچوں کی مدد سے اس کی گہرائی میں دیکھا تو چھ پوائنٹ کی نشاندہی ہوئی جن میں پْرانے درخت اور اْن کی شاخیں تک موجود ہیں جو سمندری نمکیات کے باعث ساڑھے تین ہزار سال بعد بھی محفوظ ہیں۔ 

امریکی ماہرین ارضیات وآثار قدیمہ نے 10 سال کی تحقیق و جستجو کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اردن میں قوم لوط کےتباہ ہونے والے شہر کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ قوم لوط کے تباہ شہر"سدوم" کے کھنڈرات "تل الحمام" کے مقام پر پائے گئے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی مشن کے سربراہ پروفیسر Steven Collins کا کہنا ہےکہ ان کی تحقیقات کا نتیجہ سامنے آیا تو وہ خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ سدوم شہر میں زندگی دفعتاً ختم ہوگئی تھی 

محققین کا کہنا ہے کہ سدوم شہر دو حصوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ایک بالائی اور دوسرا زیریں حصہ ہے۔ شہر کے گرد مِٹی کی اینٹوں کی 10 میٹر اونچی اور 5.2 میٹر چوٹی دیوار بھی دریافت ہوئی ہے۔ شہرکے دروازوں کی باقیات بھی ملی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جب یہ شہر تباہ ہوا تو اس وقت بھی لوگ روز مرہ کے معمولات میں مشغول تھے مگر زندگی اچانک ہی ختم ہوگئی تھی۔ رہائش کے لیے بنائی گئے مکانات کے لیے مٹی کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں 

قوم لوط کے مسکن شہر سدوم اور عمورہ بحر مردار کے ساحل پر واقع تھے اور قریش مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ان آبادیوں کی ہلاکت کا زمانہ جدید تحقیق کے مطابق 2061 ق م ہے۔  لوط (علیہ السلام) کو بھی حق تعالیٰ نے نبوت عطا فرما کر اردن اور بیت المقدس کے درمیان مقام سدوم کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اور بالع یا صوغر تھے ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہیں قیام فرمایا۔ زمین سرسبز و شاداب تھی ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی۔ (یہ تاریخی تفصیلات بحر محیط، مظہری، ابن کثیر، المنار وغیرہ میں مذکور ہیں)۔ بیت المقدس اور نہر اردن کے درمیان آج بھی یہ قطعہ زمین بحر لوط یا بحر میت کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی زمین سطح سمندر سے بہت زیادہ گہرائی میں ہے اور اس کے ایک خاص حصہ پر ایک دریا کی صورت میں ایک عجیب قسم کا پانی موجود ہے جس میں کوئی جاندار مچھلی، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے اس کو بحر میت بولتے ہیں۔ یہی مقام سدوم کا بتلایا جاتا ہے  الٹائی ہوئی بستیوں سے مراد سیدنا لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں ہیں۔ سیدنا جبریل نے بحکم الٰہی ان بستیوں کو اپنے پر کے اوپر اٹھایا اور بلندیوں پر لے جا کر انہیں اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا۔ پھر بھی اس قوم پر اللہ کا غضب کم نہ ہوا تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ سیدنا لوط کا مرکز تبلیغ سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ الٹائی ہوئی بستیاں غالباً آج کل بحیرہ مردار میں دفن ہوچکی ہیں۔ 

سیدنا لوط (علیہ السلام) کی تبلیغ کاعلاقہ بحر میت یا بحر لوط کے اردگرد سدوم کا شہر اور اردگرد عمورہ کی بستیاں تھا آپ کی قوم شرک اور دوسری بد اخلاقیوں کے علاوہ لواطت میں گرفتار بلکہ اس بدفعلی کی موجد بھی تھی۔ لوط کے سمجھانے پر بھی یہ لوگ اپنی کرتوتوں سے باز نہ آئے بلکہ الٹا سیدنا لوط (علیہ السلام) اور معدودے چند مسلمانوں کو اپنے شہر سے نکل جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ آخر فرشتے اس قوم پر قہر الٰہی ڈھانے کے لیے نازل ہوئے سیدنا جبریل نے ان کی بستیوں کو اکھاڑ کر اپنے پروں پر اٹھایا اور بلندی پر لے جا کر اور اٹھا کر نیچے پٹخ دیا۔ پھر اوپر سے پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ چنانچہ یہ خطہ زمین سطح سمندر سے چار سو کلومیٹر نیچے چلا گیا اور اوپر پانی آ گیا۔ اسی پانی کے ذخیرہ کو بحر مردار، بحر میت یا غرقاب لوطی کہا جاتا ہے 

سدوم اور عمورہ کا بائبلی بیان پیدایش کی کتاب کے 18-19ابواب میں درج ہے۔ پیدایش 18باب خداوند اور دو فرشتوں کے ابرہام کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے آ نے کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ خُداوند نے ابرہام کو آگاہ کیا کہ "سدُوم اور عمورہ کا شور بڑھ گیا اور اُن کا جُرم نہایت سنگین ہو گیا ہے" ( پیدایش 18باب 20آیت) ۔ 22-33 آیات ابر ہام کی طرف سے خداوند سے سدوم اور عمورہ پر رحم کی التجا کو بیان کرتی ہیں کیونکہ ابرہام کا بھتیجا لوط اور اُس کا گھرانہ سدوم میں رہتا تھا۔ 

جب قومِ لوط کی سرکشی اور خصلتِ بد فعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ پاک کا عذاب آ گیا،چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ہمراہ اَمردِ حسین یعنی خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے، ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے حضرت لوط علیہ السلام نہایت مُسوْس یعنی فکرمند ہوئے، تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے مکانِ عالی شان کا محاصرہ کر لیا اور ان مہمانون کے ساتھ بد فعلی کے بُرے ارادے سے دیوار پر چڑنے لگے، حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا، مگر وہ اپنے بَد اِرادے سے باز نہ آئے، آپ علیہ السلام کو متفکر ورنجیدہ دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:یا نبیَّ اللہ!آپ غمگین نہ ہوں، ہم فرشتے ہیں اور ان بدکاروں پر اللہ پاک کا عذاب لے کر اُترے ہیں،آپ مؤمنین اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے پہلے پہلے اس بستی سے دُور نکل جائیے اور خبردار! کوئی شخص پیچھے مُڑ کر بستی کی طرف نہ دیکھے، ورنہ وہ بھی عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔

چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مؤمنین کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر تشریف لے گئے،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اُٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ اُوپر جاکر ان بستیوں کو زمین پر اُلٹ دیا،پھران پر اس زور سے پتھروں کا مینہ برسا کہ قومِ لوط کی لاشوں کےبھی پَرخچے اُڑ گئے، عین اس وقت جب کہ یہ شہر اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا، حضرت لوط علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ”واعلہ“تھا،جو درحقیقت منافقہ تھی اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی، اُس نے پیچھے مُڑ کر دیکھ لیا اور اُس کے مُنہ سے نکلا:ہائے رے میری قوم!یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی، تو عذابِ الہٰی کا ایک پتھر اسے بھی پڑا اور وہ ہلاک ہوگئی۔بدکار قوم پر برسائے جانے والے ہر پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا تھا، جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔


کنگز رائل گولڈ میڈل‘ حاصل کرنے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات یاسمین لاری

 


پاکستانی ماہرِ تعمیرات پروفیسر یاسمین لاری کو برطانیہ میں فنِ تعمیر کے حوالے سے دنیا کا اعلیٰ ترین اعزاز ’کنگز رائل گولڈ میڈل‘ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔کسی شخصیت کو اس کے کام کے اعتراف میں دیے جانے والے اس میڈل کی منظوری شاہ برطانیہ خود دیتے ہیں۔ یہ ایوارڈ کسی ایسے شخص یا گروپ کو دیا جاتا ہے جن کے کام سے فن تعمیر میں اہم پیش رفت ہوئی ہو۔

ریبا (RIBA) کی ویب سائٹ کے مطابق جب یاسمین کو بتایا گیا کہ انھیں ایوارڈ دیا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ خبر سُن کر بہت حیران تو ہوئی مگر بہت خوش بھی ہوئی۔‘

یاسمین کا کہنا تھا کہ ’جب میں اپنے ملک کے سب سے پسماندہ لوگوں پر توجہ مرکوز کر رہی تھی اور نامعوم رستوں پر بھٹک رہی تھی، تب میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اسی کے لیے مجھے تعمیرات کے اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار سمجھا جا سکتا ہے۔‘ریبا نے ماہرِِ تعمیرات کو مراعات یافتہ طبقے کے ساتھ ساتھ انسانیت پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دی ہے، خاص کر ایسے افراد پر جو جنگوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔ یاسمین لاری کون ہیں اور ان کے کام میں خاص کیا ہے

اسمین لاری کا کریئر کنکریٹ اور سٹیل کے گرد گھومتا رہا ہے۔

انھوں نے کراچی کی ایف ٹی سی بلڈنگ سمیت کئی بلند و بالا عمارتوں کی بنیاد رکھی، لیکن اب وہ اس مٹیریل سے بغاوت کر چکی ہیں اور ماحول دوست مکانات بنانے کے مشن پر گامزن ہیں۔یاسمین لاری لاہور کے شاہی قلعے کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے سائنس، تعلیم اور ثقافت یونیسکو کی مشیر بھی رہی ہیں۔

اسی دوران 2005 میں کشمیر میں زلزلہ آگیا اور بقول یاسمین لاری کے یہ زلزلہ ان سمیت کئی لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لایا۔پاکستان میں 2010 اور 2011 میں آنے والے سیلاب اور بعد میں زلزلوں نے یاسمین لاری کو ’کم قیمت‘ مکانات کی تعمیر کا موقع فراہم کیا۔’میں نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی قدروں سے سیکھا ہے‘Play video, "بانس، مٹی اور چونے کا کم قیمت، ماحول دوست گھر بنانے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات", دورانیہ 3,09یاسمین لاری: عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرِ تعمیرات جن کی سوچ 2005 کے زلزلے نے بدل دیسنہ 2020 میں بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ ’ہر کوئی ’سٹار آرکیٹیکٹ‘ بننا چاہتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ بڑی بڑی خوبصورت عمارتیں بنائیں‘ ان کا بھی وہ ہی حال تھا اور تقریباً 36 سال انھوں نے یہی کیا۔

’اس وقت دنیا اور تھی۔ کھپت مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ خیال نہیں آیا کہ ہم دنیا کے وسائل ختم کرتے جا رہے ہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ کیا تباہی آئی ہے۔ ہم نے زمین کو بری طرح سے استعمال کیا ہے۔ قدرتی آفات بڑھ گئی ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ گلیشیئر پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے سیلاب آ رہے ہیں۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے یہ سوچا کہ تعمیرات میں مقامی طریقوں اور زمین کو کیسے استعمال کروں؟ اس میں چونے کا بڑا ہاتھ تھا۔ جو تاریخی عمارتیں ہیں، ان کے تحفظ میں چونے کا استعمال ہوتا ہے۔ وہ میں نے وہاں سے سیکھا اور بعد میں زلزلے سے متاثرہ علاقے میں یہی استعمال کیا۔ اس کی وجہ سے ہمارے گھر بڑے سستے بنتے تھے اور لوگ خود بنا سکتے تھے۔ لکڑی ہو یا پتھر، اس سے ہم نے تعمیرات کیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے جو کچھ سیکھا ہے، وہ پرانی قدروں سے سیکھا ہے۔ میں جو بھی ڈیزائن کرتی ہوں وہ ورنیکیولر روایات (دیسی طرزِ تعمیر) ہیں یا تاریخی عمارتوں کی مرمت سے سیکھا۔‘مٹی، چونے اور بانس کااستعمال‘یاسمین لاری نے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں مکلی قبرستان کے قریب اپنا ماڈل ولیج بنایا ہے اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے زیرو کاربن یا ماحول دوست تعمیرات کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ان کی تعمیرات میں مٹی، چونے اور بانس کا استعمال عام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’مٹی ہر جگہ موجود ہے۔

 چونا ایک قدیم میٹریل ہے جو اہرامِ مصر، رومن طرز تعمیر اور جو بڑے بڑے قلعے ہیں، ان میں بھی استعمال ہوا۔‘’1990 کی دہائی سے چوںکہ سیمنٹ کا دور دورہ شروع ہو گیا اس لیے عام لوگ صرف سیمنٹ کو جانتے ہیں حالانکہ چونے میں سے سب کم کاربن کا اخراج ہوتا ہے اور یہ ہوا سے کاربن کو جذب بھی کرتا ہے۔ مٹی دوبارہ جا کر مٹی میں مل سکتی ہے اور بانس کی فصل ہر دو سال کے بعد مل جاتی ہے۔ لکڑی استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔‘

یاسمین لاری: صرف 50 ہزار روپے میں ماحول دوست گھر بنانے والی پاکستانی ماہرِ تعمیرات عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہرِ تعمیرات جن کی سوچ 2005 کے زلزلے نے بدل دی یاسمین لاری نے پنج گوشہ اور اگلو سٹائل سمیت جیومیٹری کی مختلف اشکال کے گھر بنائے ہیں جو ایک کمرے سے لے کر تین کمروں تک پر مشتمل ہیں، جن کی دیواریں مٹی جبکہ چھت، دروازے، کھڑکیاں اور دروازے بانس سے بنے ہوئے ہیں۔

یاسمین لاری کے مطابق یہ بانس کا پری فیب یا پہلے سے تیار شدہ گھر ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو ایک ڈھانچہ دیتے ہیں جس کی فنیشنگ وہ خود کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ٹوائلٹ جو بھی بانس سے بنتا ہے اور ہینڈ پمپ جو پانچ لوگ شیئر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ چولھا بھی ہوتا ہے جس کو پاکستان چولھے کا نام دیا ہے اور اس کو عالمی ایوراڈ مل چکا ہے۔ ان سب چیزوں کی لاگت تقریبا 27 ہزار روپے بنتی ہے۔‘

یاسمین لاری کے مطابق یہ گھر گرمی میں ٹھنڈا بھی رہتا ہے جبکہ کنکریٹ بہت زیادہ گرم ہوجاتا ہے۔ ’دیہاتوں میں ماحول مختلف ہے، وہاں ضرورت ہی نہیں ہے کہ کنکریٹ یا سٹیل کا استعمال کریں۔ جو تعمیرات کے پرانے طریقے ہیں، ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ہم ایسی چیزیں کریں جو غریبوں کے لیے مناسب ہوں۔ ہمیں یہ فکر نہیں کرنی چاہیے کہ یہ امیروں کے لیے اچھی ہیں یا نہیں؟‘

رقیّہ تم برّصغیر چلی جاوامام حسین (ع)

  

برّصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی روشنی لے کر بے شمار اولیائے دین آئے ا ور ہر ایک ولی نے بہت ہی بامشقّت زندگی گزارتے ہوئے اور شہنشاہان وقت کے عتاب

 کو جھیلتے ہوئے اپنے پاکیزہ مشن کو جاری رکھّا ان میں سے بے شمار ولی اللہ نے ا پنے حقّا نی مشن کی تکمیل کے دوران شہا دت کی حیات آفرین موت کو گلے لگا لیا لیکن

 اپنے دین الِہی کی تبلیغ کے مشن سے دست بردار نہیں ہوئے ،ان شہید اولیائے کرام کے مزارات مقدّ سہ تمام برّصغیر کے گوشے گوشے میں مرجع ءخلائق عام ہیں۔

لیکن اگر دیکھا جائے تو نا صرف پورے برّ صغیر میں بلکہ شائد دنیا کے کسی بھی حصّے میں کسی خاتو ن نے بعد از شہادت اس طرح سے دین کی بقا کا چراغ نہیں جلایا ہوگا جس

 طرح سے بی بی پاک دامن نے اس وقت کے کافرانہ بت کدے میں کبھی نا بجھنے والابقا ئے دین کا چراغ روشن کیا ۔ہاں ! یہ وہی بت کدہ تھا جس کے آتش کدوں میں

 کبھی بھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی اور یہ وقت محمّد بن قاسم کی سندھ میں آمد سے کہیں پہلے کا تھااور یہ روشنی بی بی پا کدامن کے دامنِ پاک سے اس وقت طلوع

 ہوئ جب سفر کربلا کے دوران حضرت اما م حسین علیہ السّلام امام عالی مقام نے جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر بہ رنج و ملال سنی تو ،بی بی رقیّہ جو آپ امام عالی

 مقام کی ہمشیرہ تھیں اور اور شادی ہو کر اپنے عم زاد حضرت مسلم بن عقیل کی زوج میں گئیں تھیں ، اوراب جناب مسلم بن عقیل کی بیوہ تھیں ان سے و صیت کی،بہن

 اب تم برّ صغیر چلی جانا ،اس وقت لاہور نام کا کوئی علاقہ موجود نا تھابہن کا تردّد دیکھ کر امام عالی مقام نے بی بی رقیّہ سےناجانے کیا رازونیاز کئے کہ وہ قافلہء کربلا سے جدا

 ہو کر برّصغیر کے لئے روانہ ہو گئیں اس طولانی سفر میں ان کے ہمرا ہ ان کی دو کمسن بیٹیا ں اور جناب حضرت مسلم بن عقیل کی دو کمسن بہنیں اور ایک کام کرنے والی

 خادمہ حلیمہ (المعروف مائ تنوری ،کیونکہ وہ تندور پر روٹیاں پکاتی تھیں) اور بروا ئتے تین یا چار مرد حضرات بطور محافظ شامل تھے ،یہ قافلہ ء بے وطن جنگل کے ایک

 ٹیلے پر قیام پذیر ہوا اس وقت دریائے راوی کے کنارے دور تک جنگل ہی جنگل پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے پر ایک ہندو راجہ مہا برن حکومت کرتا تھا جس کے راج کمار کا

 نام کنور بکرما ساہر تھا اور اس راجدھانی میں بت پرستی کا رواج تھا بستی کے مندروں میں کبھی نا بجھنے والی آگ جلتی رہتی تھی۔ان غریب الوطن اہلبیت کے افراد کو

 یہاں پہنچے ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ راجہ کے محل میں اونچے چبوتروں پر رکھّے ہو سنگی بت محل کے فرش پر اوندھے منہ گر گئے اور راجہ کی راجدھانی کے

 آتش کدو ں میں جلنے والی صدیوں پرانی آگ جو مقدّس آگ مانی جاتی تھی وہ خود بخود بجھ گئ ،اور اس منظر کو دیکھ کر راجہ کے حواس گم ہو گئے اور بستی کے اندر بھی کہرام

 مچ گیا کہ ان کے دیوتاؤں کا یہ حشر کیو ں کر ہو گیا ،راجہ نے فوراً محل میں نجومیوں اور جوتشیوں کو طلب کر کے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہوا ہئے نجومیوں اور جوتشیوں نے

 ستاروں کی چال سے حساب کر کے بتایا کہ ائے راجہ تیری راجدھانی میں کچھ پردیسی وارد ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ حال ہوا ہئے اور ستاروں کی چال بتارہی ہئے کہ

 بہت جلد تیر ی حکومت بھی سر نگوں ہوجائے گی ،نجو میوں کی بات سن کر راجہ نے فوراً ایک کماندار کو طلب کیا اور کہا کہ ابھی ابھی ان پردیسیوں کو ہمارے سامنے محل

 میں حاضر کیا جائے،،کماندار سپاہیوں کو لے کر گیا اور پورا شہر چھان مارا لیکن کہیں بھی کوئ نو وارد اجنبی انہیں نظر نہیں آیا ،لیکن جب وہ پردیسیوں کی تلاش میں جنگل

 کی جانب گئے تو وہاں انہوں نے دیکھا کہ جنگل کی لکڑ یوں کے سہارے چادروں کا ایک خیمہ نصب ہئے جس میں اجنبی مسافر ٹہرے ہیں ،،کماندار نے خیمے کے با ہر

 سے آواز دی کہ پردیسیوں ہمارے ساتھ چلو تمھیں ہمارا راجہ بلا تا ہئے ۔

کماندار کی آواز سن کر بی بی رقیّہ خیمے کے در پر تشریف لایئں اورپردے کے پیچھے سے اس وقت کی مروّجہ زبان سنسکرت میں جواب دیا کہ ہم پردیسی ہیں اور کسی کو کوئ

 نقصان نہیں پہچانے آئے ہیں ہم کو ہمارے حا ل پر چھوڑ دیاجائے ،کماندار رحم دل انسان تھا اس پاکیزہ ہستی کا جواب سن کر واپس لوٹ گیا اور باشاہ سے کہا اے راجہ وہ

 لوگ یہاں آنے کو تیّارنہیں ہیں ،راجہ کو اس جواب کے سننےکے ساتھ ہی غصّہ آگیا اور اس نے اپنے بیٹے راج کمار کنور بکرما ساہری کو طلب کر کے کہا پردیسیوں کو ابھی

 ابھی ہمارے حضور حاضر کیا جائے نوجوان راج کمار نےاپنے زور با زو کی قوّت پر نازاں خیمے کے در پر آ کر حکم دیا کہ سب پردیسی خیمے سے باہر آکر اس کے ساتھ محل میں چلیں یہ راجہ کا حکم ہئے راجکمار کی بات کے جواب میں پھر بی بیرقیّہ در خیمہ پر آئیں اور راج کمار سے کہا کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ہم کو یہیں بیٹھا رہنے دیا جائے

 بی بی رقیّہ کی جانب سے انکار پر راج کمار نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سارے پردیسیوں کو گرفتار کر لیا جائے اور جونہی سپاہی خیمے کی جانب جھپٹے ویسے ہی خیمے کے

 مقام پر زمین شق ہو گئ اور( خیمہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر دور ہوا میں جا گرا اوراسی لمحے راج کمار نے چادروں میں لپٹی ہوئ بیبیوں کو شق زمین کے اندر تہہ زمین جاتے

 دیکھا ،،کیونکہ وہ بی بی رقیّہ سے مخاطب تھا اس لئے وہ بہ خوبی سمجھ گیا کہ کون سی بی بی پردے کی اوٹ میں اس سے قریب ہی اس سے مخاطب تھی جونہی یہ قافلہ ء

 اہلبیت نبوّت زمین کے اندر گیا اور زمین پھر جو کی توں برابر ہو گئ اور براوئتے بیبیوں کے دوپٹّوں کے پلّو باہر رہ گئے ،اپنی آنکھو ں کے سامنے اس منظر نے راج کمار کو

 حوش و حواس سے بیگانہ کر دیا وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئیا اور اپنے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہنے لگا،بڑی بی بی مجھے معاف کر دیجئے ،وہ اتنا رویا کہ اس کے آںسوؤ ں سے وہ

 زمین تر ہو گئ سپاہیوں نے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو اس نے جانے سے انکار کر دیا , سپاہیوں نے محل میں واپس جاکر راجہ کو بتایا کہ راجکمار واپس آنے کوتیّار نہیں

 ہئے اور سارے پردیسیوں کو زمین کھا گئ ہئے تو راجہ خود بیٹے کو لینے آیا اور اس سے کہا کہ تم میرے ولی عہد شاہزادے ہومیری تمام جائداد تمھاری ہئے لیکن راج کمار

 نے کہ دیا کہ اسے جائداد اور سلطنت کچھ بھی نہیں چاہئے بادشاہ نے اس کا جنو ن دیکھ کر جس جگہ وہ بیٹھتا تھا وہیں پر کئ میل کا علاقہ اس کے نام کر دیا اور ساتھ میں رہنے

 کے لئے ایک بڑی عمارت بھی بنا دی لیکن راج کمار اسی مقام پر دن کی دھوپ اور رات کے ہر موسم میں زمین پر ہی بیٹھا رہتا اور دونو ں ہاتھوں سے خاک اڑاتا اور وہی

 خاک سر پر بھی ڈال لیتا اور ساتھ میں کہتا یہ میں نے کیا کیا جب اس کے پچھتاوے کا جنون عروج پر پہنچا تب ایک رات بی بی رقیّہ اس کے خواب میں تشریف لایئں اور

 اس سے کہا کہ وہ مسلمان ہو جائے،چنانچہ راج کمار راجدھانی کے اندر ایک مولانا سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور اب اس نام جمال دین یا عبد اللہ بابا خاکی کہلایا جانے لگا۔

اس کے کچھ عرصے بعد پانچ ہزار افراد کا ایک ہندو قبیلہ اس جگہ سے گزر کر دوسری جگہ نقل مکانی کر رہا تھا کہ اس قبیلے کے سردار کی نظر ایک عبادت گزار نوجوان

 پر پڑی سردار اس نوجوان سے ملا اور پھر اس نے نوجوان سے درخواست کی کہ وہ اس کی بیٹی سے شادی کرلے نوجوان نے کہا کہ وہ اپنی بڑی بی بی سے پوچھے بغیر کوئ

 کام نہیں کرتا ہے ،اس لئے اسے بڑی بی بی سے اجازت لینی ہوگی

اگر انہوں نے اجازت دے دی تو ٹھیک ہے میں تمھاری بیٹی سے شادی کر لوں گا اور اگر منع کر دیا تو تم برا مت ماننا اور پھر جب جمال دین نے بی بی رقیّہ سے شادی کی

 اجازت طلب کی تو آ پ نے اسے شادی اجازت دیدی ،جمال دین لڑکی کو بیاہ کر گھر لایا اور جب شادی کی رات گزر کر صبح ہوئ تو لڑکی کی تمام معزوری دور ہو چکی تھی

 ،لڑ کی کے باپ نے یہ معجزہ دیکھا اور اپنے قبیلے کے پورے پانچ ہزار افراد کے ساتھ اسلام لے آیا ،بی بی پاک دامن کے مزار کی مجاوری آج بھی جمال دین کی اولاد ہی سنبھالے ہوئے 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکررپارٹ2

   اور اس کے ساتھ فائزہ وہیں صوفے پر بیٹھ کر چائے تھرماس سے پیالیوں میں ڈالتے ہوئے کہنے لگیں ارے چھوڑو نصیر شاہ کیا یاد دلادیا ، نا تمھاری ا...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر