جمعرات، 20 اپریل، 2023

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا دستر خوان

  


 

سورہ مائدہ قران کریم کا پانچواں سورہ ہے اور پارہ نمبر سات وازاسمعو ہے آئت نمبر ایکسو گیارہ میں پروردگارعالم اپنے حبیب حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے فرما رہا ہے وہ وقت یاد کرو جب حواریوں نے عیسٰی سے عرض کی اے مریم کے بیٹے عیسٰی کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے نعمت کا ایک خوان نازل فرما ئے۔حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا اگر تم سچّے ایماندار ہو تو اللہ سے ڈرو اور ایسی فرمائش جس سے امتحان مقصود ہو اس کا اللہ سے تقاضہ نا کرولیکن حواریوں نے جوابدیا کہ ہم تو بس آپ کی رسالت کی سچّائ دیکھنا چاہتے ہیں اور آنے والے خوان سے تبرّک کھانا چاہتے ہیں اس طرح ہمیں یقین آ جائے گا کہ آپ نے ہم سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور ہم اس کے خود گواہ ہیں تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے پروردگارعالم کی بارگاہ میں دعاء کی کہ

ئے ہمارے پالنے والے پروردگارعالم ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما اور اس دن کو ہم لوگون کے لئے اور ہم اگلی نسلوں کے لئے اور جو پچھلے گزر گئے ان کے لئے خوان نعمت اترنے کا مبارک روز عید قرار پائے اور ہمارے حق میں وہ تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی عطا کر کہ تیری زات ہی سب سے بہتر روزی عطا کرنے والی ہے۔"حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے جواب میں پروردگارعالم نے فرمایا کہ میں خوان اتار تو دوں گا لیکن کہ پھر ان میں سےجو شخص کافر ہوا

تو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائ میں کسی ایک پر بھی ایسا عزاب نا ہو گا۔اورپھر یکش کے دن کچھ دن چڑھے آسمان سے ابرِ سفید کے ایک ٹکڑے اوپر ایک خوان برنگ سرخ پروردگارعالم نے نازل فرمایا حضرت عیسٰی علیہ السّلام اس وقت اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنی بستی کے قریب ایک کھلی جگہ پر بیٹھے ہوءے تھے کہ آسمان سے دستر خوان زمین پر حواریوں کے درمیان اتر آیا ،،

حضرت عیسٰی علیہ السّلام ابر سفید پر خوان سرخ  پُر نعمتِ  ہائے پروردگار دیکھ کر رونے لگے اور بارگاہ رب العالمین میں دعا کی اے ہمارے پالنے والے اس دستر خوان کو ہمارے لئے باعث رحمت قرار دینا نا کہ باعث عذاب ہو اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر دوبارہ روئے اور پھر بسم اللہ خیر الرّازقین کہہ کر خوان پوش ہٹایا تو روغن میں ڈوبی ہوئ ایک تلی ہوئ مچھلی رکھّی تھی ، مچھلی کی دم کے پاس سرکہ تھااور سر کے پاس نمک تھا اور گردا گرد انواع و اقسام کی ترکاریا ں و ساگ تھے ساتھ میں پانچ روٹیا ں تھیں ایک روٹی پر روغن تھا دوسری پر شہد تھا تیسری روٹی پر گھی تھا چوتھی روٹی ہر پنیر تھا پانچویں روٹی پرخشک گوشت تھا۔

وہیں پر موجود حضرت شمعون علیہ السّلام نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے سوال کیا کہ یا روح اللہ یہ کھانا دنیا کا ہے یا آخرت کا ہے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ یہ کھانا دنیا کا ہے لیکن اسے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے حواریوں نے کہا یا حضرت ہمیں کوئ اور بھی معجزہ دکھائیے تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ ائے مچھلی اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا پس مچھلی فوراً تڑپ کر زندہ ہو گئ اور اس کے سپنے کانٹے چھلکے سب آ موجود ہوئے پھر آپ نے فرمایا پہلے جیسی ہو جا مچھلی پھر پہلے کی حالت پر آ گئ تب حواریوں نے کہا کہ یا حضرت پہلے آپ اس میں سے نوش فر مائیں پھر ہم کھائیں گے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا معاز اللہ میں اس میں سے کیسے کھا سکتا ہوں جنہون نے یہ خوان منگایا ہے وہی اس میں سے تناول کریں گے۔

لیکن حواری خوان میں سے کھاتے ہوئے ڈر رہے تھے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بستی کے اندر سے مریضانِ دائمی و لاعلاج مریض کوڑھی ،اندھے،مبروص اور بستی کے تمام کے تمام مریض طلب کئے اور انہیں دستر خوان سے کھانا کھلایا۔ اس دستر خوان کی برکت سے جو جو کھاتا گیا وہ شفا پاتا گیا اندھے بینا ہو گئے مبروص صحت یاب ہو گئے بیساکھی کے محتاج اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئےیہاں تک کہ اس دستر خوان سے تیرہ سو آدمیوں نے کھایا اور دستر کی برکت بہ اعجاز پروردگار قائم رہی اور کھانا کم نا ہوا پھر دوپہر کے بعد دسترخوان چلا گیا اور پھر چالیس روز برابر اسی طرح آتا رہا لیکن پھر کچھ امیر و دولت مند حواریوں کو شرارت سوجھی اور وہ کبر و نخوت پر آمادہ ہوئے اور لوگوں کو بہکانے لگے کہ یہ جادو ہے اس پر پروردگارعالم نے تین سو تینتیس لوگوں کو خنزیر بنا دیا وہ تین دن تک زندہ رہے اور نجاست کھاتے رہے اور پھر سب کے سب مر گئے

میں نے یہ تفسیر وترجمہ قبلہ مولانا فرمان علی مدظلہ کے ترجمے و تفسیر سے لینے کی سعادت حاصل کی۔ منکران احکام الٰہی کا انجام ہی برا ہوتا ہے مگر پھر بھی یہ سمجھتے نہیں ہیں۔ اللہ کریم ورحیم ہم سب مسلمانوں کو قران کریم پڑھنے کی اور سمجھنے کی بہترین توفیق عطا فرمائے . آمین الٰہی آمین

مفلس تھر بھوکا اور پیاسا ہے

تھر میں بھوک،پیاس اور پانی وہ المیہ ہے جو صدیوں پرانا ہے۔”تھرپارکر سندھ کے جنوب میں واقع صوبے کا سب سے بڑا ضلع ہے،جس کا ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے،اس کا کل رقبہ تقریبا 21ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 13لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تھر کی زبان،ثقافت اور رسم ورواج باقی ماندہ سندھ سے الگ ہیں۔قدیم دور میں یہ علاقہ سرسوتی دریا کے ذریعے سیراب ہوتا تھا۔بعد ازاں” مہرانوں نہر“ کے ذریعے اسے سیراب کیا جاتا رہا۔اس کے علاوہ تھر پارکر کی سیرابی کیلئے دریائے سندھ سے ایک بڑی نہر ”باکڑو“نکلا کرتی تھی ،جسے سترھویں صدی میں کلہوڑا حکمرانوں نے سیاسی مخالفت کی بنیاد پر بند کروادیا،جس کے سبب تھر مزید خشک سالی کا شکار ہوا۔ان جزوی اقدامات کے باوجود پانی کی دستیابی تھر کا صدیوں سے اہم مسئلہ ہے۔ “ تھراپنے دامن میں بھوک، پیاس بیماری ، سسکتی ہوئی انسانیت اور حکمرانوں کی سنگدلی اور بے حسی کی مکمل داستان سموئے ہوئے ہے۔ڈاکٹر آصف محمود جاہ جو ایک معالج،مورخ ،مصنف اور حقیقت نگاربھی ہیں، نے ”تھر پیاس اور پانی“ کے تین لفظوں میں تھر کی مظلومیت کی پوری کہانی بیان کردی ہے۔روحانی اعتبار سے تھر کی مسلم آبادی پیری مریدی کے زیر اثر ہے، الیکشن مئی 2013ءمیں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 230تھر پارکرٹوجہاں سے پیپلز پارٹی کے پیر نور محمد شیر جیلانی نے 61903ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی اُن کے مدمقابل ملتان کے مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 59852ووٹ لے کر دوسری پوزیشن میں رہے۔یہ سارے ووٹ انہیں نظریاتی یا پارٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ روحانی حلقوں کی سپورٹ کی وجہ سے ملے تھے۔اسی طرح این اے 229تھر پارکر ون میں بھی پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کے فقیر محمد بلالانی 88218ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ دوسری پوزیشن پر ارباب تگاچی فواد رزاق نے آزاد حیثیت میں86097ووٹ لیے ۔تھرپارکر کے یہ دونوں حلقے دراصل ارباب خاندان کے ہیں اگر کوئی دوسرا کامیاب ہوبھی تو اسے اربابوں کی حمایت ضرور حاصل ہوتی ہے ۔“ ارباب خاندان گزشتہ ایک صدی سے تھر کی سیاست میں اہم کردار کرتا رہا ہے،ارباب کے علاوہ تھر کی دیگر مسلم برادریوں میں جونیجو،راحموں،سمیچواوربجیر شامل ہیں جبکہ ہندو برادریوں میں میگواڑ،کولہی،بھیل،لہانا،مہراج اور راجپوت شامل ہیں،تھر کی 80 فیصد آبادی ریگستان میں آباد ہے ،اُن کی ثقافت، بودوباش، رہن سہن اور طرز حیات مسلم وغیر مسلم سب کایکساں ہے ،بھوک ،ننگ اور غربت نے تھر میں صدیوں سے ڈیرا ڈالا ہوا ہے ۔ علاقے کی مجموعی زندگی آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم اور سسکتی ہوئی انسانیت کا نوحہ سناتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اِن تمام تلخ حقائق کا فہم وادراک رکھنے کے باوجود ہر حکومت نے تھر کے حوالے سے بے رخی ،لاپروائی ، سرد مہری اور سنگدلی کا مظاہرہ کیاہے۔آج بھی تھرکے70 فیصد مراکزصحت بند پڑے ہیں،گزشتہ دنوں قحط سے متاثرہ علاقے تھر کی ایک مقامی عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کو قحط کی صورتحال سے متعلق ایک رپورٹ ارسال کی،جس میں کہا گیا ہے کہ عمر کوٹ کے صحرائی علاقوں کی 25 دیہات کے 35450 خاندانوں کے 167230 افراد متاثر ہوئے ہیں،اِس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحرائی علاقوں میں 29 مراکز صحت میں سے 18 مراکز ڈاکٹر نہ ہونے کی باعث بند پڑے ہیں، جبکہ سول اسپتال عمر کوٹ میں 46 ڈاکٹروں کی اسامیاں 2007 سے خالی ہیں اور ضلع بھر میں 401 اسامیوں میں سے صرف 130 پر ڈاکٹرز کام کررہے ہیں۔سیشن جج نے رپورٹ میں صحت کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ضلع کی سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو غیرمعیاری ادویات فراہم کی جارہی ہیں جبکہ سول اسپتال عمرکوٹ کی ایکسرے مشین گزشتہ دو سال سے خراب ہے۔ خیال رہے کہ تھر میں غذائی قلت کے علاوہ بھی کئی مسائل اور ہیں، جن میں بے روزگاری، صحت کی ناکافی سہولتیں، ذرائع نقل و حمل کی عدم دستیابی جس کے باعث بیشتر لوگ اسپتالوں تک رسائی نہیں رکھتے ۔ اکیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور تقریباً تیرہ لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل تھرپارکرصوبہ سندھ کے 23اضلاع میں سے سب سے پسماندہ ضلع ہے۔ پینے کے صاف پانی سمیت زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں کا فقدان اِس صحرائی علاقے کا مستقل مسئلہ ہے۔جن پر توجہ دینے کی شدید ضرورت کے باوجود ملک کی 67 سالہ تاریخ میں کسی حکومت نے بھی اِس طرف توجہ نہیں دی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال دو سال بعد یہاں بارشیں نہ ہونے کے سبب شدید قحط کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ،جس کے ساتھ ساتھ مختلف مہلک بیماریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں اور سینکڑوں افراد فاقہ کشی اور مناسب علاج کی سہولت نہ ملنے کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اِن میں چھوٹے بچوں کی تعداد خاص طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ خشک سالی سے متاثرہ ضلع تھر پارکر میں غذائی قلت سے ہونے والی ہلاکتوں پہ تاحال قابو نہیں پایا جا سکاہے۔رواں ہفتے کے ابتدائی تین دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد 28 ہوگئی ہے جبکہ اِس سال کے پونے گیارہ مہینوں میں قحط اور بیماریوں کے سبب تھر میں ہونے والی اموات کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 900 سے زائد ہے ،صرف 16 دن کے دروان غذائی قلت سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 24 ہے۔ تھرکے سرکاری اسپتالوں میں غذائی قلت اور اِس سے متعلقہ بیماریوں کے باعث سال 2011ءسے تاحال 1608بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ ذرائع ابلاغ میں اِس قسم کی رپورٹوں کا بھی چرچا رہا کہ پچھلے سال صحرائے تھر کے علاقے میں مرکزی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مہیا ہونے والی اشیاءخورو نوش گوداموں میں پڑی پڑی ضائع ہو گئیں اور انہیں مستحقین میں تقسیم نہیںکیا جا سکا۔یہ بھی سننے میں آیا کہ مخیراداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی پانی کی بوتلیں بھی متاثرین تک پہنچنے کے بجائے راستے ہی میں غائب ہوگئیں۔جب میڈیا نے تین سو گندم کی بوریاں مٹی میں ملانے کی خبر دی تو سرکاری وضاحت جاری کی گئی کہ تین سو نہیں دو سو بیانوے بوریاں تھیں۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ بدانتظامی ،لاپروائی اوربے حسی کی وجہ سے یہ اشیاءضرورت مندوں کے استعمال میں آنے کے بجائے ضائع ہو جائیں اور پڑے پڑے سڑ جائیں۔ہمارا ماننا ہے کہ یہ بنیادی طور پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اور تمام صوبائی حکومتیں اپنے گوداموں میں اناج اور دیگر اشیاءخورو نوش کا ذخیرہ رکھتی ہیں تا کہ انہیں وقت پڑنے پر استعمال میں لایا جا سکے۔ لیکن افسوس صوبے کے انتظامی سربراہ ذمہ داری محسوس کرنے کے بجائے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کی طرح عجیب وغریب بیانات جاری کررہے ہیں،کبھی فرماتے ہیں کہ تھر میں اموات بھوک سے نہیں بلکہ غربت سے ہوئیں ہیں، کبھی کہتے ہیں بچوں کی اموات زچگی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔تو کبھی کہتے ہیں کہ مرنے والوں کو خدا ہی بچاسکتا ہے، انسان کے بس کی بات نہیں۔کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ تھر میں قحط کی ذمہ دار سابقہ حکومتیں ہیں، جن کی عدم توجہی سے موجودہ صورت حال پیدا ہوئی ہے،کبھی وہ اپنی حلیف جماعت کے سابق صوبائی وزیر پر کوتاہی کا الزام لگاتے ہیں اورکبھی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ متاثرین کو دیتے ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے آپس میں تقسیم کرلو۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ اگر حکومت سندھ کے ان موقف کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی وہ کسی طور اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔،حکومت اور حکمران ِوقت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ غربت ، بھوک ، افلاس اور بے روزگاری کا خاتمہ کرے اور صوبے کی تمام صوبے عوام کو یکساں بنیادی سہولیات فراہم کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سندھ حکومت کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ تھر میں اموات غربت کی وجہ سے ہوئی ہیں تو کروڑوں کی تعداد میں غریب لوگ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بستے ہیں۔ اُن کے مسائل بھی اسی طرح سے ہیں، یہ درست ہے کہ اُن کے حالات تھر جیسے نہیں ، لیکن پھر بھی انہیں بھی اِس قسم کے حالات کا سامنا تو ہو گا، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ملک کے طول و عرض میں تھر جیسی صورت حال نہیں ہے، اِس لیے تھر کے مسئلے کو اُس علاقے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تھر ِاس قسم کے حالات سے پہلی بار دو چار نہیں ہوا بلکہ اکثر اسے اِس قسم کے حالات سے وابستہ پڑاہے۔گزشتہ تین سالوں سے تھر میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی چھائی ہوئی ہے،لیکن اِس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ تھر قدرتی وسائل سے محروم ہے، یہ دنیا کا واحد زرخیز صحرا ہے جہاں بارش کی صورت میں لوگ اپنی اور اپنے مویشیوں کی ضرورت کیلئے بعض فصلیں بھی کاشت کرلیتے ہیں، یہ زمین معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے،گرینائٹ اور دوسرے قیمتی پتھر وں کے علاوہ کوئلے کے وسیع ذخائر صرف تھر ہی نہیں پورے ملک کیلئے ترقی اور خوش حالی کی ذریعہ بن سکتے ہیں، اِس علاقے میں گیس اور تیل کے ذخائر کی موجودگی کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں، اِس لیے تھر میں ذرائع آمد ورفت کو بہتر بناکر نیز صحت اور تعلیم کی خاطر خواہ سہولتیں فراہم کرکے مقامی آبادی کے لئے ترقی کی راہیں کھولی جاسکتی ہیں۔صرف ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اچھی منصوبہ بندی اور اُس پر سنجیدگی اور ذمہ داری سے عمل درآمد کیا جائے۔اِس سلسلے میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ،ڈاکٹر صاحب اور اُن کے رفیقوں نے حکومتی امداد اور سرپرستی کے بغیر تھر کے لوگوں کیلئے قابل مثال کام کرکے ثابت کیا ہے کہ نیت صالح ہو ، عزم جواں ہو اور اخلاص موجود ہو تو کوئی رکاوٹ آپ کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ہماری صاحب ثروت اور مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالیں،ساتھ ہی ہماری سندھ اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران سے بھی استدعا ہے کہ وہ تھر کو تباہی وبربادی سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف فوری توجہ دیں تاکہ بھوک،پیاس ،بے روزگاری اور بیماری سے تھر کے معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا روح فرسا سلسلہ ختم ہو اور یہ مظلوم خطہ بھی قومی ترقی اور خوش حالی کے فوائد سے پوری طرح مستفید ہو سکے 

شداد نے جنت کس طرح تعمیر کی

   

یہ قصہ قرآن پاک میں مذکور ہے
کہتے ہیں شدّاد اور شدید کے باپ کے پاس بہت دولت تھی باپ نے اپنے بعد دونوں بیٹوں میں وہ دولت تقسیم کر دی -لیکن قسمت نے دوسرے بھائ کے ساتھ یاوری نہیں کی اور وہ جلدی مر گیا اب دوسرے بھائ کی دولت بھی شدّاد کو مل گئ-دولت کی فراوانی  نے شدّاد کو مغرور اور خود سر بنا دیا -اس قوم کو ان کے دادا کی طرف منسوب کرکے ان کو عادِ اِرم بھی کہا جاتاہے۔ اپنے شہر کا نام بھی انھوں نے اپنے دادا کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا وطن عدن سے  متصل تھا۔ان کی طرف حضرت ہُودؑ مبعوث کیے گئے تھے احقاف میں بسنے والی اس قوم نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کوغیرمعمولی قدوقامت اور قوت عطا فرمائی تھی۔ ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔ طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں، ان کا ایک آدمی  ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔ یہ لوگ طاقت و قوت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہوگئے۔نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کوغیرمعمولی قدوقامت اور قوت عطا فرمائی تھی۔ ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔ طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں، ان کا ایک آدمی ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔ یہ لوگ طاقت و قوت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہوگئے۔
شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اس کے باج گزار تھے۔ اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ اس تسلط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کردیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جوحکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟ حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔ چناں چہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ ع پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔ اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کیے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔ پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سے سجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی ویاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔ شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور عنبر و گلاب سے صیقل کیاگیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کردیا گیا۔ بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لیے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچایا کریں۔ لیکن قومِ عاد کی بداعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کردیا گیا تو حضرت ہُود علیہ السّلام بحکم اللہ تعالِی نزول عذاب سے پہلے ہی حضر موت کی طرف مراجعت کر گئےتھے۔ ۔ حضرت ہوُدؑ علیہ السّلام کی وفات یہیں پر ہوئی۔ شداد اور اس کی جنت کا انجام معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنےلگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟ اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس دمشق آئے اور لوگوں سے سارا ماجرہ بیان کیا جو ان کے ساتھ پیش آیا تھا، پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔ ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔ پھر اہلِ علمحضرات سے وہاں کے لوگوں نے رجوع کرکے اس بارے میں معلومات حاصل کیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟ علما نےبتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ حضرتؐ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا اور یہ نشانیا ں چشم دید گواہ عبد اللہ بن قلابہ میں موجود تھیں ۔ زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسی کیسی قوموں کو ہلاک کر مارا
القران

رکن ہدایت جب منہدم ہو گیا۔شہادت امام محمد باقر علیہ السلام

  • سات ذوالحجۃ کی تاریخ ایک غمناک ترین دن ہے۔  جب ایک ستون امامت اور رکن ہدایت منہدم کر دیا گیا ۔اس المناک موقع پر امام عصر (عج)، تمام مؤمنین و مؤمنات اور تمام محبان اہل بیت کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش ہے۔

    آپ وہ عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں “باقر” (یعنی شگافتہ کرنے والا) کا لقب آپکی ولادت سے کہیں قبل آپکے جد امجد جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا تھا۔ آپ 57ھ میں امام زین العابدین علیہ السلام کے آنگن کی زینت بنے۔ آپکی والدہ ماجدہ بھی وہ عجیب و منفرد ہستی ہیں جن کے براہ راست رشتے پانچ معصوم اماموں سے ملتے ہیں، یعنی حضرت فاطمہ بنت امام حسن علیہ السلام۔
    آپکے سرتاج امام، آپکے چچا امام، آپکے دادا امام، آپکے والد امام اور آپکے فرزند بھی امام۔ سبحان اللہ۔ جس بچے کی ماں ایسی ہو اور باپ عابدین کی زینت اور ساجدین کا سردار ہو تو وہ بچہ کیسا ہوگا۔
    اتنی مضبوط بنیادوں کی بنا پر ہی شاید اللہ تعالٰی نے آپکو کربلا جیسے معرکے کے شاہد کے طور پر چنا۔ آپکا سن مبارک بوقت واقعہءکربلا محض چار برس کا تھا جسمیں اپ نے بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا و دیگر بچوں کے ساتھ نہ صرف ریگزار کربلا کی پیاس کو برداشت کیا، بلکہ معرکہءکربلا میں اپنے دادا، چچاؤں، تایاؤں اور دیگر اصحاب کی شہادت کا عین الیقین سے مشاہدہ بھی کیا۔ آپ نے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا بہ رسن سفر بھی کیا اور شام کی خوفناک قید بھی کاٹی۔ آپ نے اپنی کمسن پھپو کو زندان میں شہید ہوتے بھی دیکھا اور اپنے والد کے ہمراہ انکی تدفین بھی فرمائی۔
    آپ نے اپنے والد بزرگوار کو 35 سال خون کے آنسو روتے بھی دیکھا اور خود بھی تمام عمر عزادار رہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود علم و حکمت کے وہ چشمے جاری کرگئے جو رہتی دنیا تک کے لیئے سرمایہءحیات ہیں۔
    آپ کی عظمت کے لیے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جناب جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ وہ مکالمہ خاصا مشہور ہے، جسمیں آپ نے جابر سے فرمایا کہ 

    “اے جابر! تم طویل عم پاؤ گے، اگرچہ تمہاری بینائی جاتی رہے گی لیکن تم میرے اس پانچویں جانشین کی زیارت کا شرف حاصل کرو گے، جسکا نام، میرے نام پر ہوگا اور وہ چال ڈھال میں بھی میرا مشابہ ہوگا۔ پس جب تم اس سے ملو تو میرا سلام پہنچا دینا۔”

    جس ہستی کو صاحب معراج سلام بھجوائے، امت کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ خدا کے دین کے اس چراغ ہدایت کو 7 ذی الحج 114ھ کو 57 سال کے سن میں بجھا ڈالا گیا

    امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ہجری مدینہ منورہ میں ہوءی آپ خاندان عصمت و طہارت کی وہ پہلی کڑی ہیں جنکا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے مولاءے کاءنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے ۔
    اس لءے کہ کہ آپکی والدہ امام حسن سے ہیں اور والد گرامی امام حسین علیہ السلام سے ( ابن خلکان ، وفیات الاعیان ، جلد ۴ ص ۴۷۱)
    آپکی کنیت ابو جعفر اور القاب ، ہادی ،و شاکر ہیں باقر آپ کا سب سے معرو ف لقب ہے آپکو باقر اس لءے کہا جاتا ہے کہ آپ علوم انبیاء کو شگافتہ کرنے والے ہیں
    آپکےاس لقب کے سلسلہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری سے یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ نے آپکو یہ لقب عنایت فرمایا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ انکا نام میرے نام سے شبیہ ہے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں تم انہیں میرا سلام کہنا( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
    آپکے علمی مرتبہ کا عالم یہ ہے کہ آپ کے لءے تاریخ میں الفاظ ملتے ہیں کہ ” تفسیر قرآن ،کلام اور حلال و حرام کے احکام میں آپ یکتاءے روزگار تھے ( ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، الجزء الرابع ، ص ۱۹۵ ) اور مخلتف ادیان و مذاہب کے سربراہوں سے مناظرہ کرتے تھے ۔
    آپکے علمی مرتبہ کے لءے اتنا کافی ہے کہ ” اصحاب کرام ، تابعین اور تبع تابعین اور عالم اسلام کے عظیم الشان فقہا نے دینی معارف اور احکامات کو آپ سے نقل کیا ہے آپ کو علم ہی کی بنیاد پر اپنے خاندان میں فضیلت حاصل ہے ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۵۵)
    آپ نے اپنی عمر کے چار بابرکت سال اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے سایہ شفقت میں گزارے اور ۳۸ سال اپنے والد گرامی علی ابن الحسین سید سجاد علیہ السلام کے زیر سایہ بسر کءےآپکا کل دور امامت ۱۹ سال پر مشتمل ہے ۔
    آپ واقعہ کربلا کے تنہا کمسن معصوم شاہد ہیں جنہوں نے چار سال کی کمسنی میں کربلا کے دردناک حوادث کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چنانچہ آپ خود ایک مقام پر فرماتے ہیں ” میں چار سال کا تھا کہ میرے جد حسین بن علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا جو کچھ آپ کی شہادت کے وقت رونما ہوا وہ سب میری نظروں کے سامنے ہے ( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
    آپکی سیرت:
    آپ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے لوگوں میں صادق اور امین کے طور پر جانے جاتے تھے اپنے آباو اجداد کی طرح محنت و مشقت کرتے تھے ، چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دن تپتے ہوءے سورج کے نیچے آپ کھیتی باڑی میں مصروف تھے کسی نے آپ کو شدید گرمی میں بیلچہ چلاتے ہوءے دیکھ لیا تو کہا ” آپ بھی اس گرمی میں طلب دنیا کے لءے نکل آءے ؟ اگر اس حالت میں آپ کو موت آ جاءے تو کیا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا اگر میں اس حالت میں مر جاءوں تو اطاعت خداوندی کی حالت میں اس دنیا سے جاءوں گا اس لے کہ میں اس محنت کے ذریعہ خود کو لوگوں سے بے نیاز کر رہا ہوں ”
    آپ ہمیشہ ذکر خدا میں مصروف رہتے بخشش و عطا میں آپ کی کوءی نظیر نہ تھی ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۶۱)
    امام باقر علیہ السلام کے دور کے حالات :
    امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے دوران حکومت جن مشکلات کا سامنا کیا وہ خود میں بہت پیچیدہ اور روح فرسا تھیں جن میں سے کچھ اہم مشکلات یہ ہیں :
    ۱۔ سیاسی فساد :
    آپ کے دور امامت میں آل مروان کی حکومت تھی جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران جاہلی رسوم اور جاہلی افکار کو اسلامی معاشرہ پر مسلط کر رکھا تھا اور پورے حکومتی ڈھانچہ میں سیاسی فساد کی حکم رانی تھی ۔
    ۲۔ فرہنگی و ثقافتی انحراف :
    آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا 
    1. آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا دوبھر کر دیا تھا اور کسی کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ اسلامی اور محمدی کلچر کو معاشرہ میں بڑھاوا دے سکے ، اسلامی تہذٰیب و ثقافت کی جگہ جاہلانہ رسم ورواج نے لے رکھی تھی اور منحرف افکار کا دور درہ تھا ۔
      ۳۔اجتماعی فساد :
      اجتماعی طور پر اس وقت کے اسلامی معاشرہ میں ایسا فساد تھا کہ ہر طرف بھید بھاءو ، نسلی برتری ، نا انصافی ، کے کیڑے نظر آ رہے تھے اور ان سے مقابلہ کا کسی کو یارا نہ تھا
      امام محمد باقر علیہ السلام میں ان حالات میں تقیہ کرتے ہوءے آہستہ آہستہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرایا اور فرہنگی و ثقافتی میدان میں مسند درس کے ذریعہ تبدیلی کو اپنا شعار بنا کر معاشرے کی علمی اور فکری بنیادوں پر خاموشی کے ساتھ کام کیا ۔
      چنانچہ آپ نے مسجد النبی میں مسند درس بچھا کر قرآنی آیات کی روشنی میں تشنگان معارف اسلامی کو سیراب کیا اور مسجد نبی کو اسلامی ثقافت کے علی شان محل میں تبدیل کر دیا
      آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی جنہوں نے قریہ قریہ جا کر اسلام کی حقیقی تصویر کو متعارف کیا ۱۹ سال کی جدو جہد کے دوران آپ نے جن شاگردوں کی تربیت کی ان میں ۴۶۷ لوگوں کے نام منابع میں اب بھی موجود ہیں ( شیخ طوسی ، رجال ، ۱۰۲)جن میں زرارہ بن اعین ، ابو بصیر مرادی ، برید بن معاویہ بجلی ، محمد بن مسلم ثقفی ، فضیل بن یسار م جابر بن یزید جعفی و غیرہ خود اپنے آپ میں ایک اجتماع کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔
      آپ کی علمی اور ثقافتی تحریک ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مکتب امامیہ کو ایک غنی اور ہمہ گیر مکتب کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
      آج اگر مکتب امامیہ کو ایک مضبوط تصورکاءنات رکھنے والے مذہب کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے تو یہ آپ ہی کی جانفشانیوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔
      علمی اور فکری حلقوں میں جب بھی شیعت کی بات ہوگی آپ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اس لءے کہ شیعت کی اساس اور بنیاد آپ کی کاوشوں کی رہین منت ہیں ۔
      آپ ظلمت و جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر چراغ علم نہ جلایا ہوتا تو شاید آج تعلیمات محمدی کی جگہ جاہلی رسوم کو تقدس حاصل ہوتا آج اگر محمدی تعلیمات عام ہیں اور انکے اندر کشش و جاذبیت پاءی جا رہی ہے تو یہ نتیجہ باقر آل محمد کی جانفشانیوں کا ۔ جب تک دنیا میں علم رہے گا دنیا آپ کو سلام کرتی رہے گی ۔
       
    2. باقر العلوم امام محمد باقر علیہ السلام کے چند فرمودات
      خدا کے نزدیک بہترین عبادت پاکدامنی ہے۔
      ۔ بہترین خیرات نیکی ہے،
      ۔امام فرماتے ہیں :جب تمھیں کوئی نعمت ملے تو کہو” الحمد للّٰہ “اور جب کوئی رنج و تکلیف پہنچے تو کہو ” لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ“ اور جب تنگ د ست( روزی تنگ) ہو تو کہو ”استغفراللّٰہ “
      ۔ایک عالم جس سے لوگ فائدہ اٹھا تے ہوں وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے ۔
      ۔تھوڑی دیر عالم کی صحبت میں بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔
      ۔علم حاصل کرنے کے بعد اسے نشر کرواور پھیلا ؤ اس لئے کہ علم کوبند رکھنے سے شیطان غالب ہوجاتا ہے۔
      ۔ علم حاصل کرنے کے بعداگر کسی کا مقصد یہ ہو کہ وہ علماء سے بحث کرے گا اورجہلا پر رعب جماکر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا توایسا شخص جہنمی ہے ۔
      ۔علم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مخلوق خدا کو تعلیم دی جائے ۔
      ۔تکبر بری چیز ہے انسان میں جتنا زیادہ تکبر پایا جائے گا اتنی ہی اس کی عقل گھٹتی جائے گی ۔
      ۔مومن کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ٭ ایک عالم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے ۔

    3. تھوڑی دیر عالم کی صحبت میں بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے
      ٭ علم حاصل کرنے کے بعد اسے نشر کرو اور پھیلاؤ اس لئے کہ علم کو بند رکھنے سے شیطان غالب ہو جاتا ہے۔
      ٭ علم حاصل کرنے کے بعد اگر کسی کا مقصد یہ ہو کہ وہ علماء سے بحث کرے گا اورجہلا پر رعب جما کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا توایسا شخص جہنمی ہے ۔
      ٭ علم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مخلوق خدا کو تعلیم دی جائے ۔
      ٭ تکبر بری چیز ہے انسان میں جتنا زیادہ تکبر پایا جائے گا اتنی ہی اس کی عقل گھٹتی جائے گی ۔
      ٭ مومن کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ۔
        

     

معدے کاالسر کیا ہے؟

 معدے کاالسر کیا ہے؟

 ایسے افراد جو متواتر مرغن، تیز مسالے والی غذائیں،نہا ری 'پا ۓ'چٹ پٹے پکوان اور چٹخارے دار اشیاء کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ فاسٹ فوڈز، سموسے، پکوڑے، کولا مشروبات، بیکری مصنوعات، میدے سے بنی اشیاء، بریانی، بیگن، دال مسور اور بادی غذاؤں کے بکثرت استعمال سے بھی معدے میں ورم کی کیفیت ہوسکتی ہے۔ گوشت خوری،چائے ،کافی اور سگریٹ نوشی کی زیادتی سے بھی معدے میں تیزابی مادے بڑھ جاتے ہیں۔جب معدے کی تیزابیت مسلسل بڑھی رہے تو یہ معدہ کی حفاظتی جھلی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور السر کا موجب بن سکتی ہے۔تیزابیت کے علاوہ مندرجہ ذیل عوامل السر کا باعث بن سکتے ہیں۔ اینٹی بائیو ٹیک اور دردوں کی دوا کا زیادہ استعمال کرنے سے بھی معدے میں ورم کی کیفیت پیدا ہوجانے سے زخم بن کر السر کا روپ دھار لیتا ہے۔ دافع جسمانی درد، جوڑوں کی درد وغیرہ کیلئے دردوں کی دوائیاں (NSAIDs) گروپ کا استعمال زیادہ کرنے سے معدے کے السر کے ساتھ ساتھ جگر اور گردے بھی متاثرہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس کی رو سے H.Pilory بھی معدے کے السر کا ایک سبب بنتی نظام ہضم کا تعلق ہمارے معدے سے ہے، ہم جو بھی کھاتے اور پیتے ہیں وہ سب سے پہلے معدے میں کیمیائی پروسس سے گزر کر دوسرے اعضاء تک پہنچ پاتا ہے۔ معدے کی کارکردگی جتنی مثالی اور عمدہ ہوگی ، ہماری صحت بھی اتنی ہی شاندار اور قابل رشک ہوگی۔ یوں تومعدے کے کئی ایک امراض ہیں جو بدن انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے کر پریشانی کا سبب بنتے ہیں لیکن ان میں سب سے تکلیف دہ مر ض معدے کا زخم (السر ) ہے جس سے پورا بدن ہی متاثر ہوتا ہے

معدہ کے السر  سے مراد معدہ کی حفاظتی جھلی  میں زخم کا بن جانا ہے۔ یہ زخم عمومی طور پر 5mmیا اس سے زیادہ بڑا ہو سکتا ہے اور معدہ کی اندرونی تہہ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ معدہ کے السر کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے لئے معدہ کی ساخت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ کسی بھی انسان کوالسر کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ معدہ کا السر عام طور پر زیادہ عمر کے لوگوں مثلاً70-55 سال تک کی عمر میں ہوتا ہے جب کہ چھوٹی آنت کا السرنسبتاً کم عمر کے افراد یعنی30-55سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ معدہ کے علاوہ ، ایچ پیلوری ایک جراثیم ہے جو معدہ اور چھوٹی آنت کے السر کا باعث بن سکتا ہے یہ جراثیم بہت عام ہے اور تقریباً دنیا کی آدھی آبادی کو متاثر کیے ہوئے ہے۔یہ جراثیم حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل نہ کرنے کے باعث ، گندی آب و ہوا، آلودہ پانی یا غیر معیاری خوراک استعمال کرنے سے پھیلتا ہے۔بلا کے سگریٹ نوش حضرات بھی السر کے خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ سگریٹ نوشی اورشراب نوشی کے استعمال سے السر ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ ہونے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔ اسی طرح پان اور نسوار کا استعمال کرنے والے افراد بھی معدے کے السر کے نشانے پرہوسکتے ہیں چھوٹی آنت میں بھی ہو سکتا ہے

انسا ن کے معدے کی سا خت کیا ہے 

غذائی نالی ایک ایسی ٹیوب ہے جو منہ کو پیٹ سے جوڑتی ہے۔ یہ پٹھوں سے بنی ہے جو تال لہروں کے ذریعے کھانے کو پیٹ کی

 طرف بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ ایک بار پیٹ میں پہنچنے کے بعد ، غذائی نالی اور پیٹ کے سنگم پر واقع سرکلر پٹھوں کے ایک خاص

 حصہ ، کھانے کو ریفلکس ہونے سے روکتا ہے (غذائی نالی میں واپس جانے سے) ، جس کو نچلی غذائی نالی کے اسفنکٹر (ایل ای ایس) کہتے ہیں۔ 

ہضم شروع کرنے کے لئے معدہ کھانا ، تیزاب ، اور انزائیم کو اکٹھا کرتا ہے۔ خاص حفاظتی خلیات موجود ہوتے ہیں جو تیزابیت کو

 معدے کی دیوار پر سوزش پیدا کرنے سے روکتے ہیں۔ غذائی نالی کو ایسا ہی تحفظ حاصل نہیں ہوتا ہے ، اور اگر پیٹ میں تیزاب اور

 ہاضمہ کا رس واپس غذائی نالی میں پھنس جاتا ہے تو ، یہ اس کی غیر محفوظ استر کو سوزش اور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

معدے کی تیزابیت سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں


معدے کی تیزابیت کی وجوہات

ہارٹ برن دراصل جی آر ڈی (گیسٹرو ایسو فیزیجل ریفلوکس ڈیزیز) کی علامت ہے ، اور ایسڈ کو بار غذاائی نالی میں پھرنے سے ہوتا

 ہے۔ خطرے والے عوامل میں وہ شامل ہیں جو پیٹ میں تیزاب کی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں ، اور اس کے ساتھ ساتھ ساختی

 مسائل جو غذائی نالی میں تیزاب کے بہاؤ کی اجازت دیتے ہیں۔

کچھ عام کھانے کی چیزیں جو ہم کھاتے اور پیتے ہیں ، پیٹ میں تیزابیت کی بڑھتی ہوئی حرکت کو متحرک کرتی ہیں جو سینے میں جلن

 کو پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انسداد دوائیں بھی جلن کو بڑھا سکتی ہیں۔ ان پریشان کن مثالوں میں شامل ہی  

تمباکو نوشی اور زیادہ چربی والے غذائی اجزاء کا  استعمال نچلے غذائی نالی کے اسفنکٹر (ایل ای ایس) کے کام کو متاثر کرتا ہے ، جس کی

 وجہ سے پیٹ ریلیکس ہو جاتا ہے اور تیزاب کو غذائی نالی میں ریفلیکس کر دیتا ہے۔

ہائٹل ہرنیا جہاں پیٹ کا ایک حصہ پیٹ کے بجائے سینے کے اندر رہتا ہے ، ایل ای ایس کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کرسکتا

 ہے اور ریفلوکس کا خطرہ عنصر ہے۔ ہیئٹل ہرنیا کی خود کوئی علامات نہیں ہیں۔ یہ تب ہی ہوتا ہے جب ایل ای ایس ناکام ہوجاتا

 ہے اور جلن کا باعث بنتا ہے۔

حمل پیٹ کے اندر دباؤ میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور ایل ای ایس فنکشن کو متاثر کرتا ہے اور اسے ریفلیکس کا شکار ہوجاتا

 ہے۔

موٹاپا پیٹ میں دباؤ میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے ، اور اسی طرح ریفلیکس ہوسکتا ہے۔

غذائی نالی کی ابتدائی بیماریاں علامت کی حیثیت سے جلن کے ساتھ بھی پیش آسکتی ہیں۔ ان میں ، دوسری بیماریوں کے سات

ھ ساتھ، اسکلیروڈرما اور سارکوائڈوسس شامل ہیں۔

معدے کی تیزابیت کی علامات

گیسٹرو ایسو فیزل ریفلکس ڈیزیز (جی ای آر ڈی) ، ایسی حالت ہے جس میں جلن کا احساس ایک علامت ہوتی ہے۔ پیٹ میں موجود

 تیزاب غذائی نالی میں چلا جاتا ہے اور درد کا سبب بنتا ہے۔ اس درد کو اسٹرنم یا چھاتی کی ہڈی کے پیچھے جلن کے احساس کے طور پر

 محسوس کیا جاسکتا ہے ، ایسڈ ریفلیکس کا درد کئی بار غلط فہمی کے طور پر دل کے دورے کے درد کے لئے لے لیا جاتا ہے۔

ایسڈ ریفلیکس (جلن) کا درد نچلے سینے میں رہ سکتا ہے یا یہ گلے کے پچھلے حصے تک جاسکتا ہے اور واٹر بریش کے ساتھ وابستہ ہوسکتا

 ہے ، جو گلے کے پچھلے حصے میں ایک کھٹا ذائقہ ہے۔ اگر گلے میں لیرینکس (آواز پیدا کرنے والا باکس) کے قریب ایسڈ ریفلیکس

 ہو تو ، اس سے کھانسی کے واقعات ہوسکتے ہیں ۔ طویل عرصے تک ریفلکس کافی شدید ہوسکتا ہے کہ تیزاب دانتوں پر تامچینی

 باندھ دیتا ہے اور اس کی خرابی کا سبب بنتا ہے۔

بھاری کھانے ، آگے جھکاؤ ، یا سیدھا لیٹنے کے بعد علامات اکثر خراب ہوجاتی ہیں۔ متاثرہ افراد اکثر جلن کے ساتھ نیند سے بیدار ہو

 سکتے ہیں۔

معدے کی تیزابیت سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں

سینے کی جلن پیچیدگیوں کے بغیر نہیں ہے۔ اگر نظرانداز کیا جائے تو ، اکثر جلن اور غذائی نالی کی سوزش سے السر ہوسکتے ہیں ، ایسے چھوٹے چھوٹے عحصے جہاں پر سے ٹشو خراب ہو جاتے ہیں۔ ان سے شدید خون بہہ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ، زخم بننا جی ای آر ڈی کی دیگر اہم پیچیدگیاں ہیں۔ غذائی نالی کے استر کے خلیوں کی قسم میں ہونے والی تبدیلیوں کا

 نتیجہ ایسڈ ریفلیکس کے نتیجے میں ہوسکتا ہے ، جس کو بیریٹ ایسوفیگس کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو کہ غذائی نالی کے کینسر کے

 بڑھتے ہوئے خطرہ سے وابستہ ہے-معدے کی تیزابیت کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟دل کی جلن ایک عام شکایت ہے ، حالانکہ اسے

 سینے سے متعلق دیگر بیماریوں میں الجھایا جاسکتا ہے ، ان میں شامل ہیں

دل کا دورہ

پلمونری ایمبولس

نمونیا ، اورسینے کی دیوار میں درد

تشخیص کا آغاز ایک مکمل ہسٹری اور جسمانی معائنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور

 افراد کو تشخیص کرنے اور علاج معالجے کا منصوبہ شروع کرنے کے لئے کافی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ کچھ مثالوں میں ، مزید

 جانچ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

معدہ میں درد، السر کی بیماری کی سب سے اہم علامت ہے اور 90-80% لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ بھوک کی کمی اور متلی کی

 کیفیت معدہ کے السرسے متاثر لوگوں میں اکثر پائی جاتی ہے۔ چھوٹی آنت کے السر میں دو تہائی افراد میں درد  رات کو ہوتی ہے

 اور پیٹ سے کمر کی طرف جا سکتی ہے۔ قے کا بار بار آنا اور وزن کا مسلسل کم ہونا خطرے کی علامت ہے اور معدے کا کینسر یا معدہ

 کے خارجی راستے کی رکاوٹ کی نشان دہی کرتی ہے۔ اگر السر مندمل نہ ہو تو پیچیدگی کی صورت اختیار کر سکتا ہے اور مریض کو

 خون کی اُلٹی یا سیاہ پاخانے بھی آسکتے ہیں۔۔

السر کی تشخیص

جب کسی کو السر کا مسئلہ پیش آتا ہے تو معدے میں مسلسل درد،جلن ، قے،ابکائیاں اور بعض حالات میں خون کی الٹی بھی آنے

 لگتی ہے۔ السر کے مریض کی بھوک بھی تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ پانی پینے سے بھی معدے میں دکھن کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے

 علاوہ جدید لیبارٹریز کے تحت السر اور اس کی وجوہات کی تشخیص کیلئے کئی ٹیسٹ کئے جا سکتے ہیں لیکن السر کی تشخیص کا سب سے

 بہتر طریقہ  اینڈو سکوپی ہے۔ اس ٹیسٹ کی مدد سے اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ السر معدہ یا چھوٹی آنت میں ہے۔

السر سے بچاؤ-السر کیوں اور کیسے؟

امراض کے خلاف ہماری غذا ہی بہترین ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر ہمیں غذاؤں کے انتخاب اور مناسب استعمال سے آگاہی ہو

 جائے۔ کچی سبزیاں اور موسمی پھلوں کا بکثرت استعمال معدے کے السر سمیت تمام بیماریوں سے بچاؤ کا بہترین قدرتی طریقہ

 ہے۔ ہماری غذا میں جس قدر ریشے دار غذائیں شامل ہوں گی، اسی قدر تیزابی مادے کم بنیں گے، السر پیدا ہونے کی سب سے

 بڑی وجہ تیزابیت بنتی ہے۔ جب معدے میں تیزابی مادے ہی نہیں بنیں گے تو السر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اسی طرح خالی

 پیٹ تیز قدموں کی سیر اور ورزش کو معمول میں شامل رکھنا بھی السر کے حملے سے محفوظ بناتا ہے

کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنکس پینے کی عادت ترک کردینے سے بھی السر کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔ گوشت پکاتے وقت

 سبزی شامل کر لینے سے بھی کئی ایک معدے کے مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔سرخ مرچ،تیز مسالے،تلی اور بھنی ہوئی غذاؤں

 سے بھی گریز السر کی شکایت سے محفوظ بناتا ہے۔ بغیر کسی خاص مسئلے کے دافع درد ادویات کے استعمال سے بھی بچنا چاہیے۔

 کیونکہ جسمانی درد کی دوائیاں خاص کرNSAIDs گروپ کے مبینہ مسلسل استعمال سے نہ صرف معدے اور انتڑیوں کا

 السر پیدا ہوتا ہے بلکہ جگر اور گردوں کو  مبینہ طور پرناکارہ بھی یہی ادویات بناتی ہیں۔ دافع  درد کی ادویات کا استعمال اگر  ناگزیر

 ہوں تو ماہر معالج کے مشورہ سے متبادل دوائیاں استعمال کریں۔

H.Pylori جراثیم معدہ کی بیماریوں خصوصی طور پر السر کی ایک اہم ترین وجہ ہے بازاری سے پرہیز کیا جائے اور صاف تازہ

 پانی کا استعمال کیا جائے۔ جتنا ممکن ہوسکے چائے ،سگریٹ اور شراب نوشی سے پرہیز کریں۔ اگر عادت سے مجبور ہوں تو خالی

 پیٹ چائے یا سگریٹ پینے سے اجتناب کیا جائے۔ تیز سرخ مرچ مسالے دار مرغن کھانے اور آلودہ پانی کے استعمال سے اجتناب

 کریں۔ اگر معدے میں تیزابی مادے بڑھ جائیں تو فوری جلاب آور ادویات کا استعمال کر کے معدے اور انتڑیوں کو فاسد مادوں سے پاک کریں۔

کھانا بھوک رکھ کر کھائیں، رات کا کھانا سونے سے 2 سے3گھنٹے پہلے کھائیں۔ موسمی پھل، پھلوں کے جوسز اور سبزیاں  قدرے

 زیادہ استعمال کریں۔کچی سبزیاں کھیرا ، ٹماٹر، پیاز، بند گوبھی، مولی، گاجر اور سلاد کے پتے بطور سلاد دوپہر کے کھانے میں لازمی

 شامل کریں۔ ناشتے میں جو اور گندم کا دلیہ شامل کرنا بھی معدے کے کئی ایک مسائل سے بچاتا ہے۔گنے کی گنڈیریاں، قدرتی

 مشروبات جیسے صندل، الائچی، عناب، آلو بخارا وغیرہ کا اور احتیاطی تدابیر

اور احتیاطی تدابیر معدے کی کارکردگی جتنی مثالی اور عمدہ ہوگی ، ہماری صحت بھی اتنی ہی شاندار اور قابل رشک ہوگی۔  انسانی

 وجود کی صحت وتن درستی کا تمام تر انحصار متوازن خوراک اور نظام ہضم کی اعلیٰ کارکردگی پر سمجھا جاتا ہے۔خوراک جس قدر

 متوازن، مقوی اور بھرپور ہوگی اسی قدر جسم میں توانائی اور قوت کا احساس ہوگا۔ کھائے جانے والی خوراک کا فائدہ بھی اسی وقت

 ہوتا ہے جب بدن کا نظام ہضم مضبوط اور مکمل کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا ہو۔ فی زمانہ لذت اور مزے سے بھرپور پکوانوں

 کے استعمال سے نظام ہضم کسی خوش نصیب ہی کا مکمل طور پر فعال اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا ہوگا۔استعمال بھی مفید

 ثابت ہوتا ہے۔

تفکرات، اداسی، ٹینشن، سٹریس اور ڈپریشن سے بھی معدے میں تیزابی مادوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نتیجتاََ السر پید اہوکر

 زندگی کو اجیرن بنادیتا ہے۔ لہذا روز مرہ کی زندگی میں فکر ، پریشانی ، ٹینشن اور فضول سوچنے کے طرز عمل اور اداس رہنے سے

 گریز کر یں۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہماری معروضات کو اپنا کر مثالی صحت کا حصول ممکن بنائیں گے۔ معدے کی کارکردگی

 جتنی مثالی اور عمدہ ہو گی ہما ری صحت اتنی شا ندار ہو گی ہے

معدے کی تیزابیت کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

ایکس رے

اینڈوکوپی

منومیٹری اور پی ایچ ٹیسٹنگ

معدے کی تیزابیت کا علاج

:طرز زندگی میں تبدیلیاں

   یاد رکھئے  معدے کی کارکردگی

 جتنی مثالی اور عمدہ ہو گی ہما ری صحت اتنی شا ندار ہو گی ہے

خدائے پاک آپ کو ہمیشہ تندرست رکھّے آمین




حضرت عیسی علیہ السلام کے قصے

جب کافروں نےآسمانی دستر خوان کی فرمائش کی

سورہ مائدہ قران کریم کا پانچواں سورہ ہے اور پارہ نمبر سات وازاسمعو ہے آئت نمبر ایکسو گیارہ میں پروردگارعالم اپنے حبیب حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم سے فرما رہا ہے وہ وقت یاد کرو جب حواریوں نے عیسٰی سے عرض کی اے مریم کے بیٹے عیسٰی کیا آپ کا خدا اس پر قادر ہے کہ ہم پر آسمان سے نعمت کا ایک خوان نازل فرما ئے۔
 
حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا اگر تم سچّے ایماندار ہو تو اللہ سے ڈرو اور ایسی فرمائش جس سے امتحان مقصود ہو اس کا اللہ سے تقاضہ نا کرو لیکن حواریوں نے جوابدیا کہ ہم تو بس آپ کی رسالت کی سچّائ دیکھنا چاہتے ہیں اور آنے والے خوان سے تبرّک کھانا چاہتے ہیں اس طرح ہمیں یقین آ جائے گا کہ آپ نے ہم سے جو کہا تھا وہ سچ تھا اور ہم اس کے خود گواہ ہیں تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے پروردگارعالم کی بارگاہ میں دعاء کی کہ

"ائے ہمارے پالنے والے پروردگارعالم ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما اور اس دن کو ہم لوگون کے لئے اور ہماری اگلی نسلوں کے لئے اور جو پچھلے گزر گئے ان کے لئے خوان نعمت اترنے کا مبارک روز عید قرار پائے اور ہمارے حق میں وہ تیری طرف سے ایک بڑی نشانی ہو اور تو ہمیں روزی عطا کر کہ تیری زات ہی سب سے بہتر روزی عطا کرنے والی ہے۔"

حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے جواب میں پروردگارعالم نے فرمایا کہ میں خوان اتار تو دوں گا لیکن کہ پھر ان میں سے جو شخص کافر ہوا
 
تو میں اس کو یقیناً ایسے سخت عذاب کی سزا دوں گا کہ ساری خدائ میں کسی ایک پر بھی ایسا عزاب نا ہو گا۔اورپھر یکشنبہ کے دن کچھ دن چڑھے آسمان سے ابرِ سفید کے ایک ٹکڑے اوپر ایک خوان برنگ سرخ پروردگارعالم نے نازل فرمایا
 
"جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اس وقت اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنی بستی کے قریب ایک کھلی جگہ پر بیٹھے ہوءے تھے کہ آسمان سے دستر خوان زمین پر حواریوں کے درمیان اتر آیا ،،
 
حضرت عیسٰی علیہ السّلام ابر سفید پر خوان سرخ  پُر نعمتِ  ہائے پروردگار دیکھ کر رونے لگے اور بارگاہ رب العالمین میں دعا کی اے ہمارے پالنے والے اس دستر خوان کو ہمارے لئے باعث رحمت قرار دینا نا کہ باعث عذاب ہو اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھی اور پھر دوبارہ روئے اور پھر بسم اللہ خیر الرّازقین کہہ کر خوان پوش ہٹایا تو روغن میں ڈوبی ہوئ ایک تلی ہوئ مچھلی رکھّی تھی ، مچھلی کی دم کے پاس سرکہ تھااور سر کے پاس نمک تھا اور گردا گرد انواع و اقسام کی ترکاریا ں و ساگ تھے ساتھ میں پانچ روٹیا ں تھیں ایک روٹی پر روغن تھا دوسری پر شہد تھا تیسری روٹی پر گھی تھا چوتھی روٹی ہر پنیر تھا پانچویں روٹی پرخشک گوشت تھا۔
 
وہیں پر موجود حضرت شمعون علیہ السّلام نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے سوال کیا کہ یا روح اللہ یہ کھانا دنیا کا ہے یا آخرت کا ہے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ یہ کھانا دنیا کا ہے لیکن اسے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے حواریوں نے کہا یا حضرت ہمیں کوئ اور بھی معجزہ دکھائیے تب حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ ائے مچھلی اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا پس مچھلی فوراً تڑپ کر زندہ ہو گئ اور اس کے سپنے کانٹے چھلکے سب آ موجود ہوئے پھر آپ نے فرمایا پہلے جیسی ہو جا مچھلی پھر پہلے کی حالت پر آ گئ تب حواریوں نے کہا کہ یا حضرت پہلے آپ اس میں سے نوش فر مائیں پھر ہم کھائیں گے حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے فرمایا معاز اللہ میں اس میں سے کیسے کھا سکتا ہوں جنہون نے یہ خوان منگایا ہے وہی اس میں سے تناول کریں گے۔ 

لیکن حواری خوان میں سے کھاتے ہوئے ڈر رہے تھے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بستی کے اندر سے مریضانِ دائمی و لاعلاج مریض کوڑھی ،اندھے،مبروص اور بستی کے تمام کے تمام مریض طلب کئے اور انہیں دستر خوان سے کھانا کھلایا۔ اس دستر خوان کی برکت سے جو جو کھاتا گیا وہ شفا پاتا گیا اندھے بینا ہو گئے مبروص صحت یاب ہو گئے بیساکھی کے محتاج اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے
 
یہاں تک کہ اس دستر خوان سے تیرہ سو آدمیوں نے کھایا اور دستر کی برکت بہ اعجاز پروردگار قائم رہی اور کھانا کم نا ہوا پھر دوپہر کے بعد دسترخوان چلا گیا اور پھر چالیس روز برابر اسی طرح آتا رہا لیکن پھر کچھ امیر و دولت مند حواریوں کو شرارت سوجھی اور وہ کبر و نخوت پر آمادہ ہوئے اور لوگوں کو بہکانے لگے کہ یہ جادو ہے اس پر پروردگارعالم نے تین سو تینتیس لوگوں کو خنزیر بنا دیا وہ تین دن تک زندہ رہے اور نجاست کھاتے رہے اور پھر سب کے سب 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصے


حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ایک شاگرد کے ساتھ کسی سفر پر نکلے ، راستے میں ایک جگہ شاگرد سے پوچھا : تمہاری جیب میں کچھ ہے ؟ اس نے کہا : میرے پاس دو درہم ہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم اسے دیا اور فرمایا : یہ تین درہم ہو جائیں گے ، قریب کی آبادی سے ، روٹیاں لے آؤ ! وہ گیا اور تین روٹیاں لیں ، راستے میں سوچنے لگا کہ حضرت نے ایک درہم دیا اور دو درہم میرے تھے ، جبکہ روٹیاں تین ہیں ، آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھا ئیں گے تو آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی ، لہذا میں ایک روٹی پہلے ہی کھالوں ، چنانچہ اس نے ایک روٹی کھائی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا ۔ آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا : تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ؟ اس نے کہا : دو روٹیاں ، ایک آپ علیہ السلام نے کھائی اور ایک اس نے کھائی ۔حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام روانہ ہوئے تو ، راستے میں ایک دریا آیا ، شاگرد نے کہا : ہم دریا عبور کیسے کریں گئے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی بھی نظر نہیں آئی ؟ حضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : گھبراؤ مت ، میں آ گے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلنا ہم دریا پار کرلیں گے ۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا ، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ۔ شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا : میری ہزاروں جانیں آپ علیہ السلام پر قربان ! آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! میرا دل نور سے بھر گیا ، پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ؟ اس نے کہا : حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ۔ پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے چلے راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا ، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا ، وہ آپ کے پاس چلا آیا ، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا 

شاگرد کو بھی کھلا یا ۔ جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کی کھال پر ٹھوکر مارکر کہا : ' اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ' ' ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جاملا ۔شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے۔حضرت نے فرمایا : یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ؟ شاگرد نے کہا : اے اللہ کے نبی ! میرا ایمان - پہلے سے دو گنا ہو چکا ہے ۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ؟ شاگرد نے کہا : حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ۔ دونوں چلتے گئے ، ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی تھیں ، آپ علیہ الصلوۃ والسلام - نے فرمایا : ایک اینٹ میری اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی شاگرد جلدی سے بولا : حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ۔ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لالچی شاگردکو چھوڑ دیا اور فرمایا : تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ، اور وہاں سے ۔ روانہ ہو گئے ، لالچی شاگر دسوچنے لگا کہ ان اینٹوں کو گھر کیسے لے جائے ۔اس دوران تین ڈاکو گزرے ، انہوں نے اس  کے پاس سونے کی تین اینٹیں دیکھیں ، تو اسے قتل کر دیا اور آپس میں طے کر لیا کہ ہرشخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آئی ہے ۔ وہ بھوکے تھے ، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دیے اور کہا روٹیاں لے آؤ ، پھر ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے ، ۔ وہ روٹیاں لینے گیا تو دل میں سوچا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھی مر جائیں گے اور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی ۔ادھر دونوں ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کردیں  تو ہمارے حصے میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آ جائے گی ۔ جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو دونوں نے اسے قتل کر دیا ۔ پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر سے مرگئے ، واپسی میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف

ویسی کی ویسی رکھی ہیں اور وہاں چار لاشیں بھی پڑی ہیں ، آپ علیہ السلام نے فرمایا : دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے

منگل، 18 اپریل، 2023

دنیا کی عظیم زمینی شاہراہ-شاہراہ ریشم

 

 

شاہراہ قراقرم (قومی شاہراہ 35 یا مختصراً این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔شاہراہ ریشم-گلگت سے کچھ پہلے پڑی کے مقام پر دریائے سندھ اور دریائے گلگت کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہیں پر دریائے سندھ کے بالائی حصے کے کنارے چٹانوں کے طویل پہاڑی سلسلے پر اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے کندہ کاری کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔خنجراب دنیا کے متعدد نایاب جانوروں کا مسکن ہے جن میں مارکوپولو، برفانی چیتے، بھیڑیں ، مارموٹ، پہاڑی ریچھ ، یاک ، مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔اسی بنا پر خنجراب کو    نیشنل پارک‘‘ کا درجہ بھی حاصل ہے۔شاہراہ قراقرم کا وجود انسانی تخلیق اور ہنر کا ایک لازوال نمونہ ہے اس وادی کے رنگ قدرت کی حسیں تخلیق کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔ 

شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم میں بھی اہم شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی ، چین سے اجناس اور ریشم کی تجارت کے لئے یہ راستہ بھی استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ اس مناسبت سے اس شاہراہ کا نام   شاہراہ ریشم‘‘ پڑ گیا تھا۔ جب ذرائع آمدورفت میں تبدیلیاں آنے لگیں اور چین کی تجارت بحری رستوں سے بھی شروع ہوئی تو اس شاہراہ کی رونقیں ماند پڑنے لگیں۔قیام پاکستان کے بعد چین نے اس شاہراہ کی افادیت کو محسوس کرنا شروع کیا اور یوں پاکستان اور چین کی دوستی کے رشتے بڑھنا شروع ہوئی تو دونوں ملکوں نے یہ شاہراہ بنائی ۔3 مئی 1962 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 1966 میں شروع ہوا۔شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔

عہدِ قدیم (Ancient Ages) کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم (انگریزی: Silk Road یا Silk route) کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گذر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔

مغرب سے شمالی چین کے تجارتی مراکز تک پھیلی یہ تجارتی گذر گاہیں سطح مرتفع تبت کے دونوں جانب شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہیں۔ شمالی راستہ بلغار قپپچاق علاقے سے گذرتا ہے اور چین کے شمال مغربی صوبے گانسو سے گذرنے کے بعد مزید تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے جن میں سے دو صحرائے ٹکلا مکان کے شمال اور جنوب سے گذرتے ہیں اور دوبارہ کاشغر پر آ کر ملتے ہیں جبکہ تیسرا راستہ تین شان کے پہاڑوں کے شمال سے طرفان اور الماتی سے گذرتا ہے۔

 

شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لیے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑ گیا تھا۔ جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہو گئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہو گیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔

 اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا، پاکستان کی شمالی سرحد تک کا حصہ 1969ء میں مکمل ہوا ۔ تعمیر و توسیع کا کام 16 فروری 1971 ء کو دوبارہ شروع ہوا۔ شاہراہِ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ ہے اور دُنیا کی بلند ترین پکی سڑک سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میں یہ سرکاری طور پر نیشنل ہائی وے 35 (N-35) اور چین میں یہ چین نیشنل ہائی وے 314 (G314) کے نام سے جانی جاتی ہے، چونکہ یہ قراقرم سلسلہ سے گزرتی ہے اس لیے یہ عام طور پر شاہراہِ قراقرم کے نام سے جانی جاتی ہے

شاہراہِ قراقرم کی کُل لمبائی تقریباً 1300 کلو میٹر ہے، جس میں سے 887 کلو میٹر پاکستان میں اور 413 کلو میٹر چین میں موجود ہے۔ یہ 85 پُلوں پر مشتمل ہے اور خنجراب پاس پر 4,693 میٹر کی حدِ اونچائی تک جا پہنچتی ہے۔ حسن ابدال شہر سے شروع ہوتے ہوئے، شاہراہ ِ قراقرم پامیر، ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔یہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ تقریباً 200 کلو میٹر تک سفر کرتی ہے اور یہ دونوں مل کے اُس مقام سے گزرتے ہیں جو ہمالیہ پہاڑوں کو قراقرم سلسلے سے الگ کرتا ہےشاہراہِ قراقرم دریائے سندھ کو چھوڑتے ہوئے اپنے راستے پر گلگت، ہُنزہ اور خنجراب دریاؤں کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ بالآخر یہ خنجراب پاس پہنچتی ہے ، پامیر سے اپنا راستہ بناتی ہے، اور آخر میں چین کے شہر کاشغر میں ختم ہو جاتی ہے۔

قراقرم ہائی وے جو دنیا کی 'بلند ترین پختہ سڑک' ہے۔ چین کے سرحدی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ خنجراب پاس کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں سے ہوتی ہوئی حسن ابدال میں جی ٹی روڈ سے لنک ہو جاتی ہے-سڑکوں اور ہائی ویز پر مشتمل مواصلاتی نظام کی تعمیر سے قبل گلگت بلتستان سمیت ملک کے بیشتر شمالی علاقے دنیا بھر سے کٹے ہوئے تھے اور یہاں مقامی افراد کا طرز زندگی صدیوں پرانے طور طریقوں کے مطابق چلتا تھا۔گلگت بلتستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو چین سے زمینی راستے کے ذریعے جوڑنے کا خیال سنہ 1956 سے سنہ 1958 تک پاکستان میں چین کے سفیر تعینات رہنے والے جنرل چینگ بایئو کا تھا، جس پر سنہ 1963 میں دونوں ملکوں میں اعلیٰ سطحی بات چیت ہوئی۔

اس شاہراہ کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک ہر قدم ایک چیلنج تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے حال ہی میں اس شاہراہ کی تعمیر سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں اس دور کے کچھ نایاب مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔شاہراہ قراقرم کا منصوبہ تشکیل دینے پر کام شروع ہوا تو انتہائی مشکل علاقے ہونے کے باعث یہ ذمہ داری فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او کے حصے میں آئی۔سنہ 1965 کی جنگ کے بعد جب پاکستانی فوج کے اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف چین کی جانب سے دفاعی ساز و سامان کی فراہمی اور تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنے گئے تو اس وقت چین کے صدر نے بھی ان الفاظ میں ایک شاہراہ کی تعمیر کا ذکر کیا تھا کہ ’اگر پاکستان اور چین کے درمیان ایک بہتر زمینی راستہ ہوتا تو یہ امداد بہتر انداز میں پہنچ سکتی تھی۔‘

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر