سات ذوالحجۃ کی تاریخ ایک غمناک ترین دن ہے۔ جب ایک ستون امامت اور رکن ہدایت منہدم کر دیا گیا ۔اس المناک موقع پر امام عصر (عج)، تمام مؤمنین و مؤمنات اور تمام محبان اہل بیت کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش ہے۔
آپ وہ عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں “باقر” (یعنی شگافتہ کرنے والا) کا لقب آپکی ولادت سے کہیں قبل آپکے جد امجد جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا تھا۔ آپ 57ھ میں امام زین العابدین علیہ السلام کے آنگن کی زینت بنے۔ آپکی والدہ ماجدہ بھی وہ عجیب و منفرد ہستی ہیں جن کے براہ راست رشتے پانچ معصوم اماموں سے ملتے ہیں، یعنی حضرت فاطمہ بنت امام حسن علیہ السلام۔
آپکے سرتاج امام، آپکے چچا امام، آپکے دادا امام، آپکے والد امام اور آپکے فرزند بھی امام۔ سبحان اللہ۔ جس بچے کی ماں ایسی ہو اور باپ عابدین کی زینت اور ساجدین کا سردار ہو تو وہ بچہ کیسا ہوگا۔
اتنی مضبوط بنیادوں کی بنا پر ہی شاید اللہ تعالٰی نے آپکو کربلا جیسے معرکے کے شاہد کے طور پر چنا۔ آپکا سن مبارک بوقت واقعہءکربلا محض چار برس کا تھا جسمیں اپ نے بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا و دیگر بچوں کے ساتھ نہ صرف ریگزار کربلا کی پیاس کو برداشت کیا، بلکہ معرکہءکربلا میں اپنے دادا، چچاؤں، تایاؤں اور دیگر اصحاب کی شہادت کا عین الیقین سے مشاہدہ بھی کیا۔ آپ نے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا بہ رسن سفر بھی کیا اور شام کی خوفناک قید بھی کاٹی۔ آپ نے اپنی کمسن پھپو کو زندان میں شہید ہوتے بھی دیکھا اور اپنے والد کے ہمراہ انکی تدفین بھی فرمائی۔
آپ نے اپنے والد بزرگوار کو 35 سال خون کے آنسو روتے بھی دیکھا اور خود بھی تمام عمر عزادار رہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود علم و حکمت کے وہ چشمے جاری کرگئے جو رہتی دنیا تک کے لیئے سرمایہءحیات ہیں۔
آپ کی عظمت کے لیے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جناب جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ وہ مکالمہ خاصا مشہور ہے، جسمیں آپ نے جابر سے فرمایا کہ“اے جابر! تم طویل عم پاؤ گے، اگرچہ تمہاری بینائی جاتی رہے گی لیکن تم میرے اس پانچویں جانشین کی زیارت کا شرف حاصل کرو گے، جسکا نام، میرے نام پر ہوگا اور وہ چال ڈھال میں بھی میرا مشابہ ہوگا۔ پس جب تم اس سے ملو تو میرا سلام پہنچا دینا۔”
جس ہستی کو صاحب معراج سلام بھجوائے، امت کی ستم ظریفی دیکھیئے کہ خدا کے دین کے اس چراغ ہدایت کو 7 ذی الحج 114ھ کو 57 سال کے سن میں بجھا ڈالا گیا
امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ہجری مدینہ منورہ میں ہوءی آپ خاندان عصمت و طہارت کی وہ پہلی کڑی ہیں جنکا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے مولاءے کاءنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے ۔
اس لءے کہ کہ آپکی والدہ امام حسن سے ہیں اور والد گرامی امام حسین علیہ السلام سے ( ابن خلکان ، وفیات الاعیان ، جلد ۴ ص ۴۷۱)
آپکی کنیت ابو جعفر اور القاب ، ہادی ،و شاکر ہیں باقر آپ کا سب سے معرو ف لقب ہے آپکو باقر اس لءے کہا جاتا ہے کہ آپ علوم انبیاء کو شگافتہ کرنے والے ہیں
آپکےاس لقب کے سلسلہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری سے یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ نے آپکو یہ لقب عنایت فرمایا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ انکا نام میرے نام سے شبیہ ہے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں تم انہیں میرا سلام کہنا( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
آپکے علمی مرتبہ کا عالم یہ ہے کہ آپ کے لءے تاریخ میں الفاظ ملتے ہیں کہ ” تفسیر قرآن ،کلام اور حلال و حرام کے احکام میں آپ یکتاءے روزگار تھے ( ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، الجزء الرابع ، ص ۱۹۵ ) اور مخلتف ادیان و مذاہب کے سربراہوں سے مناظرہ کرتے تھے ۔
آپکے علمی مرتبہ کے لءے اتنا کافی ہے کہ ” اصحاب کرام ، تابعین اور تبع تابعین اور عالم اسلام کے عظیم الشان فقہا نے دینی معارف اور احکامات کو آپ سے نقل کیا ہے آپ کو علم ہی کی بنیاد پر اپنے خاندان میں فضیلت حاصل ہے ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۵۵)
آپ نے اپنی عمر کے چار بابرکت سال اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے سایہ شفقت میں گزارے اور ۳۸ سال اپنے والد گرامی علی ابن الحسین سید سجاد علیہ السلام کے زیر سایہ بسر کءےآپکا کل دور امامت ۱۹ سال پر مشتمل ہے ۔
آپ واقعہ کربلا کے تنہا کمسن معصوم شاہد ہیں جنہوں نے چار سال کی کمسنی میں کربلا کے دردناک حوادث کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چنانچہ آپ خود ایک مقام پر فرماتے ہیں ” میں چار سال کا تھا کہ میرے جد حسین بن علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا جو کچھ آپ کی شہادت کے وقت رونما ہوا وہ سب میری نظروں کے سامنے ہے ( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
آپکی سیرت:
آپ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے لوگوں میں صادق اور امین کے طور پر جانے جاتے تھے اپنے آباو اجداد کی طرح محنت و مشقت کرتے تھے ، چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دن تپتے ہوءے سورج کے نیچے آپ کھیتی باڑی میں مصروف تھے کسی نے آپ کو شدید گرمی میں بیلچہ چلاتے ہوءے دیکھ لیا تو کہا ” آپ بھی اس گرمی میں طلب دنیا کے لءے نکل آءے ؟ اگر اس حالت میں آپ کو موت آ جاءے تو کیا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا اگر میں اس حالت میں مر جاءوں تو اطاعت خداوندی کی حالت میں اس دنیا سے جاءوں گا اس لے کہ میں اس محنت کے ذریعہ خود کو لوگوں سے بے نیاز کر رہا ہوں ”
آپ ہمیشہ ذکر خدا میں مصروف رہتے بخشش و عطا میں آپ کی کوءی نظیر نہ تھی ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۶۱)
امام باقر علیہ السلام کے دور کے حالات :
امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے دوران حکومت جن مشکلات کا سامنا کیا وہ خود میں بہت پیچیدہ اور روح فرسا تھیں جن میں سے کچھ اہم مشکلات یہ ہیں :
۱۔ سیاسی فساد :
آپ کے دور امامت میں آل مروان کی حکومت تھی جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران جاہلی رسوم اور جاہلی افکار کو اسلامی معاشرہ پر مسلط کر رکھا تھا اور پورے حکومتی ڈھانچہ میں سیاسی فساد کی حکم رانی تھی ۔
۲۔ فرہنگی و ثقافتی انحراف :
آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا- آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا دوبھر کر دیا تھا اور کسی کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ اسلامی اور محمدی کلچر کو معاشرہ میں بڑھاوا دے سکے ، اسلامی تہذٰیب و ثقافت کی جگہ جاہلانہ رسم ورواج نے لے رکھی تھی اور منحرف افکار کا دور درہ تھا ۔
۳۔اجتماعی فساد :
اجتماعی طور پر اس وقت کے اسلامی معاشرہ میں ایسا فساد تھا کہ ہر طرف بھید بھاءو ، نسلی برتری ، نا انصافی ، کے کیڑے نظر آ رہے تھے اور ان سے مقابلہ کا کسی کو یارا نہ تھا
امام محمد باقر علیہ السلام میں ان حالات میں تقیہ کرتے ہوءے آہستہ آہستہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرایا اور فرہنگی و ثقافتی میدان میں مسند درس کے ذریعہ تبدیلی کو اپنا شعار بنا کر معاشرے کی علمی اور فکری بنیادوں پر خاموشی کے ساتھ کام کیا ۔
چنانچہ آپ نے مسجد النبی میں مسند درس بچھا کر قرآنی آیات کی روشنی میں تشنگان معارف اسلامی کو سیراب کیا اور مسجد نبی کو اسلامی ثقافت کے علی شان محل میں تبدیل کر دیا
آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی جنہوں نے قریہ قریہ جا کر اسلام کی حقیقی تصویر کو متعارف کیا ۱۹ سال کی جدو جہد کے دوران آپ نے جن شاگردوں کی تربیت کی ان میں ۴۶۷ لوگوں کے نام منابع میں اب بھی موجود ہیں ( شیخ طوسی ، رجال ، ۱۰۲)جن میں زرارہ بن اعین ، ابو بصیر مرادی ، برید بن معاویہ بجلی ، محمد بن مسلم ثقفی ، فضیل بن یسار م جابر بن یزید جعفی و غیرہ خود اپنے آپ میں ایک اجتماع کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔
آپ کی علمی اور ثقافتی تحریک ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مکتب امامیہ کو ایک غنی اور ہمہ گیر مکتب کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
آج اگر مکتب امامیہ کو ایک مضبوط تصورکاءنات رکھنے والے مذہب کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے تو یہ آپ ہی کی جانفشانیوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔
علمی اور فکری حلقوں میں جب بھی شیعت کی بات ہوگی آپ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اس لءے کہ شیعت کی اساس اور بنیاد آپ کی کاوشوں کی رہین منت ہیں ۔
آپ ظلمت و جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر چراغ علم نہ جلایا ہوتا تو شاید آج تعلیمات محمدی کی جگہ جاہلی رسوم کو تقدس حاصل ہوتا آج اگر محمدی تعلیمات عام ہیں اور انکے اندر کشش و جاذبیت پاءی جا رہی ہے تو یہ نتیجہ باقر آل محمد کی جانفشانیوں کا ۔ جب تک دنیا میں علم رہے گا دنیا آپ کو سلام کرتی رہے گی ۔
باقر العلوم امام محمد باقر علیہ السلام کے چند فرمودات
خدا کے نزدیک بہترین عبادت پاکدامنی ہے۔
۔ بہترین خیرات نیکی ہے،
۔امام فرماتے ہیں :جب تمھیں کوئی نعمت ملے تو کہو” الحمد للّٰہ “اور جب کوئی رنج و تکلیف پہنچے تو کہو ” لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ“ اور جب تنگ د ست( روزی تنگ) ہو تو کہو ”استغفراللّٰہ “
۔ایک عالم جس سے لوگ فائدہ اٹھا تے ہوں وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے ۔
۔تھوڑی دیر عالم کی صحبت میں بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔
۔علم حاصل کرنے کے بعد اسے نشر کرواور پھیلا ؤ اس لئے کہ علم کوبند رکھنے سے شیطان غالب ہوجاتا ہے۔
۔ علم حاصل کرنے کے بعداگر کسی کا مقصد یہ ہو کہ وہ علماء سے بحث کرے گا اورجہلا پر رعب جماکر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا توایسا شخص جہنمی ہے ۔
۔علم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مخلوق خدا کو تعلیم دی جائے ۔
۔تکبر بری چیز ہے انسان میں جتنا زیادہ تکبر پایا جائے گا اتنی ہی اس کی عقل گھٹتی جائے گی ۔
۔مومن کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ٭ ایک عالم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں وہ ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے ۔تھوڑی دیر عالم کی صحبت میں بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے
٭ علم حاصل کرنے کے بعد اسے نشر کرو اور پھیلاؤ اس لئے کہ علم کو بند رکھنے سے شیطان غالب ہو جاتا ہے۔
٭ علم حاصل کرنے کے بعد اگر کسی کا مقصد یہ ہو کہ وہ علماء سے بحث کرے گا اورجہلا پر رعب جما کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے گا توایسا شخص جہنمی ہے ۔
٭ علم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ مخلوق خدا کو تعلیم دی جائے ۔
٭ تکبر بری چیز ہے انسان میں جتنا زیادہ تکبر پایا جائے گا اتنی ہی اس کی عقل گھٹتی جائے گی ۔
٭ مومن کو تقویٰ اختیار کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ ہر وقت اسے متنبہ اور بیدار رکھتا ہے ۔
- آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا دوبھر کر دیا تھا اور کسی کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ اسلامی اور محمدی کلچر کو معاشرہ میں بڑھاوا دے سکے ، اسلامی تہذٰیب و ثقافت کی جگہ جاہلانہ رسم ورواج نے لے رکھی تھی اور منحرف افکار کا دور درہ تھا ۔
Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعرات، 20 اپریل، 2023
رکن ہدایت جب منہدم ہو گیا۔شہادت امام محمد باقر علیہ السلام
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں