آج بھی تباہ شدہ ریکٹر کو مضبوط پتھروں سے چھپا دیا گیاہے ، 30 کلو میٹر پر محیط علاقے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ چرنوبل کے قریبی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس حادثے سے کئی نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ اُس وقت جو لوگ کم عمر تھے ان کی قوت مدافعت کم ہوئی ہے اور وہ اپنی پچھلی دو نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہیں۔یہ حادثہ اتنا اچانک، بڑا اورہولناک تھا کہ اِس کو دیکھ کر اُس وقت کے سویت یونین کے حکام بوکھلا اٹھے ۔ اُن سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا کہ وہ کیسے اور کب لوگوں اور دنیا کو اِس حادثے کے بارے میں بتائیں۔بعض حکام یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں لوگوں کو اِس خبر سے آگاہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں؟میڈیا کو یہ لکھنے پر مجبور کیا گیا کہ یہ جوہری پلانٹ میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ کسی حادثے کی وجہ سے ریڈیو ایکٹو شعائیں خارج ہونا شروع ہوگئی ہیں
۔26 اپریل 1986 کو جوہری ریکٹر میں حادثے کی وجہ سے آسمان پر ریڈیوایکٹو دھویں کے گہرے بادلوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا لیکن 29 اپریل کو اس حادثے کے سلسلے میں پہلا سرکاری بیان جاری کیا گیا۔ اِس میں کہا گیا کہ ماحول میں کچھ آلودگی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو۔ بعض اطلاعات کے مطابق سویت یونین کے حکام نے قریب کے علاقوں میں تابکاری اثرات محسوس کئے جانے کے بعد ان تنصیبات میں صرف ایک جوہری حادثے کے امکان کا اعلان کیا ۔ایک اخبار کے مطابق حکام کی مجرمانہ بزدلی کی وجہ سے تابکاری علاقے کے ہزاروں لوگ اس حادثے کا نشانہ بنے اور سپاہیوں کو حقیقت حال سے آگاہ کیے بغیر اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے تباہ شدہ جوہری پلانٹ کی طرف روانہ کیا گیا۔
اِس حادثے کے سلسلے میں متعدد تحقیقات کے باوجود ابھی تک اس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے کیونکہ اب تک تحقیقاتی ٹیموں میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی کے زیر اثر ہونے یا دباﺅ کی وجہ سے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جوہری پلانٹ میں دھماکے کی وجہ وہاں کے عملے کی طرف سے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی بنی ہےلیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد میں پتا چلا کہ جن قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی بات کی گئی ہے انہیں اس حادثے کے بعد قلمبند کر کے قوانین کی شکل میں سامنے لایا گیا۔ جبکہ درحقیقت جوہری ریکٹر کا اصل منصوبہ ہی ناقص تھا جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے سلسلے میں بھی مختلف قسم کے اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں۔ا
قوام متحدہ نے اُس وقت 9 ہزار افراد کی ہلاکت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی کی تصدیق کی تھی۔جبکہ ماحولیاتی ادارے Green Peace نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میںکہا ہے کہ چرنوبل کے جوہری تنصیبات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا یعنی 93 ہزار تک ہو سکتی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ریڈی ایکٹو اثرات سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ سب سے زیادہ تابکاری اثرات کی زد میں تھے انہیں سب سے کم اس حادثے کی اطلاع دی گئی۔چرنوبل سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقعے Pripyat شہر کے لوگ اس واقعے کے بعد بھی معمول کی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ 36 گھنٹوں بعد اُن کو شہر خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور قریب کے دیہاتوں سے بھی انخلا کا عمل کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ یوکرائن کے دارالحکومت Kiev
5 دن تک تو شہر کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ تابکاری اثرات کی زد میں آ چکے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آج 20برس گزرنے کے بعد بھی اس حادثے کے تابکاری اثرات کی وجہ سے لوگ Chest اور Blood کینسر کے علاوہ مختلف قسم کے سرطانوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور پیدائش کے وقت بچوں کی اموات کے کیس سامنے آرہے ہیں۔اگرچہ اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن ان تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا کیونکہ ملکی حکام اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان بڑھتی ہوئی خوفناک بیماریوں کی وجہ چرنوبل کے جوہری پلانٹ میں 20 برس قبل ہونے والا دھماکہ ہے۔
انسان جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے کبھی کبھی وہ ترقی معکوس سمت میں جا نکلتی ہے
جواب دیںحذف کریں