بدھ، 20 مارچ، 2024

لیو ان ریلیشن شپ

  


 آ ج کے آج کے جدید اور روشن زمانے تعلیم یافتہ  نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ایک نیا ٹرینڈ سامنے آیا ہے کہ وہ میں حرام رشتے کوخوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر اسے حلال کرنے کی کوشش کرتے ہی اور اس رشتے کا نام ہے "لیو ان ریلیشن شپ' -لیکن اس صورتحا ل کاپیدا ہونے والے بچے کو جس طرح ایک ماں کی گود اور اس کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بلوغت کے بعد اس کو ایک پیار کرنے والے جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سکھ دکھ بانٹ سکے اور ایک مضبوط تعلق بنا سکےمگر کچھ معاشرتی وجوہات کے مطابق اگر ایک صحت مند انسان کی شادی بلوغت کے بعد نہ ہو سکے تو اس کے اثرات انسانی صحت پر بھی ہو سکتے ہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیںپریشانی اور ذہنی دباؤاگر کسی انسان کی شادی میں تاخیر ہوجاۓ تو وہ تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ تنہائی کے سبب ان کی نفسیاتی کیفیت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔ زمّہ دار آخر کون ہے کیا لڑکا اور لڑکی یو والدین یا حالات جو شادی کی عمر ہونے کے باوجود مالی استحکام کا ناہونا -شادی کا مطلب روحانی خوشی  مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے نے مختلف اثرات کے سبب شادی کے اتنا دشوار بنا دیا ہے کہ جہیز اور بری کی تیاری میں لڑکے اور لڑکی کی شادی کی اصل عمر گزر جاتی ہے ۔

اس میں کوئ شک نہیں کہ دنیا میں پیدا ہونے والے بچے کو جس طرح ایک ماں کی گود اور اس کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح بلوغت کے بعد اس کو ایک پیار کرنے والے جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ اپنے سکھ دکھ بانٹ سکے اور ایک مضبوط تعلق بنا سکےمگر کچھ معاشرتی وجوہات کے مطابق اگر ایک صحت مند انسان کی شادی بلوغت کے بعد نہ ہو سکے تو اس کے اثرات انسانی صحت پر بھی ہو سکتے ہیں جو کہ کچھ اس طرح سے ہو سکتے ہیں پریشانی اور ذہنی دباؤاگر کسی انسان کی شادی میں تاخیر ہوجاۓ تو وہ تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ تنہائی کے سبب ان کی نفسیاتی کیفیت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرتا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں بے شمار سینکڑوں نہیں ہزاروں لڑکے ایسے موجود ہیں جو نہ صرف تعلیمی زیور سے آراستہ برسر روزگار‘ معقول آمدنی کے حامل اور ساتھ ہی شادی کرنے کے نہ صرف خواہشمند بلکہ شادی کر بھی سکتے ہیں -شادی کا عمل پوری دنیا میں ایک نیک اور مقدس عمل کے طور پر کیا اور جانا پہچانا جاتا ہے جن ممالک میں اس عمل کو قانون سے آزاد ہوکر کیا جاتا ہے وہاں آج بے شمار اخلاقی‘ سماجی اور جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جیسا کہ آزاد خیال ترقی یافتہ ممالک میں یہ امر بالکل نہ صرف عام ہے بلکہ اس جنسی فعل کو معیوب بھی نہیں جانا جاتا ہے۔

اگر ہم عقل وشعور کی کسوٹی پر جنس کے حوالے سے غور کریں تو ہمیں یہ جاننے میں ذرا دیر نہیں لگے گی کہ جس طرح ہمیں پیاس لگتی ہے ہم پانی پیتے ہیں‘ بھوک لگتی ہے تو کھانا کھالیتے ہیں اور جب لڑکا لڑکی بلوغت کی منزل پرآتے ہیں تو خود بخود جنس مخالف کی جانب مائل ہوتے ہیں اور یہیں سے ان کی زندگی کی اگلی منزل کی راہوں کا تعین ہوتا ہے -ایک پاکیزہ خاندانی اکائ وجود میں آ تی اور لڑکا لڑکی دونوں پاک دامن کے رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں - شادی ایک نئی زندگی کی ابتدا کا نام ہے اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ انسان شادی سے جڑی ذمہ داریوں کو بہتر انداز میں نبھانے کے قابل ہو سکے اللہ پاک نے پہلے پہل  روئے زمین پر اسی مقدّس اور پاکیزہ رشتے کو نازل کیا -کہیں پروردگار عالم ارشاد فرما رہا ہے کہ تم ایک دوسرے کا لباس ہو کہیں فرما رہو کہ تم ایک دوسرے سے تسکین حاصل کرو تو کہیں فرما رہا ہے کہ میں نے تم کو جوڑ ے جوڑے کی صورت اتارا ہے-لیکن عصر حاضر نے انسان کو بہت کچھ دے دیا ہے تو اس کی زندگی سے سچّی مہرو محبت کے جذبا ت بھی چھین لئے ہیں -لیو ان ریلیشن شپ -یعنی جب تک دل چاہے اس حرام رشتے میں ساتھ رہو دل بھر جائے تو اپنی راہ لو  

اس حوالے سے ماہرین نے ایک طویل ریسرچ کے بعد لڑکیوں کے لیۓ شادی کی بہترین عمر 20 سال سے لے کر 25 سال تک قرار دی ہے جب کہ مرد حضرات کے لیۓ یہ عمر 22 سال سے 27 سال تک قرار دی ہے اس سے زیادہ دیر تک شادی نہ کرنے والے افراد کی شادی کو دیر سے شادی قرار دیا گیا ہےدیر سے شادی کرنے کے صحت پر اثرات انسان کو اللہ تعالی نے اس فطرت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا ہے ۔ عام طور پر ایسے افراد کی قوت فیصلہ کمزور ہو جاتی ہے اور وہ جلد غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیںآج ہمارے معاشرے میں بے شمار سینکڑوں نہیں ہزاروں لڑکے ایسے موجود ہیں جو نہ صرف تعلیمی زیور سے آراستہ برسر روزگار‘ معقول آمدنی کے حامل اور ساتھ ہی شادی کرنے کے نہ صرف خواہشمند بلکہ شادی کر بھی سکتے ہیںشادی کا عمل پوری دنیا میں ایک نیک اور مقدس عمل کے طور پر کیا اور جانا پہچانا جاتا ہے جن ممالک میں اس عمل کو قانون سے آزاد ہوکر کیا جاتا ہے وہاں آج بے شمار اخلاقی‘ سماجی اور جنسی بیماریاں پائی جاتی ہیں جیسا کہ آزاد خیال ترقی یافتہ ممالک میں یہ امر بالکل نہ صرف عام ہے بلکہ جنسی فعل کو معیوب بھی نہیں جانا جاتا ہے۔


جب کہ شادی شدہ انسان جب اپنے جیون ساتھی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں آکسی ٹاکسن اور اینڈورفن نامی ہارمون خارج ہوتا ہے جس سے ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے اور انسان پرسکون نیند سو سکتا ہے ۔جن افراد کی شادی دیر سے ہوتی ہے ایسے افراد کے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی طاقت میں کمی واقع ہوتی ہے ایسے افراد ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگرچہ اس کے دیگر کئی عوامل بھی ہو سکتے ہیں مگر ماہرین نفسیات کا یہ ماننا ہے کہ جن افراد کی بڑی عمر تک شادی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات کے حوالے سے کافی حد تک لاپرواہ ہو جاتے ہیں جس سے ان کی یاداشت بھی کمزور ہو سکتی ہےدل کے دورے کے خطرے میں اضافہ  -ایک تحقیق کے مطابق جو مرد حضرات بلوغت کے بعد دیر تک میرج  نہ ہونے کے سبب قربت کے لمحات نہیں پا سکتے ایسے افراد کے اندردل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ایسے افراد کے اندر دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ان کی شریانوں میں خون کے جمنے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو دل کا دورہ بھی پڑسکتا ہے

1 تبصرہ:

  1. اللہ ہماری اولادوں کو ہمیشہ اپنی امان میں رکھّے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے-آمین

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر