جمعرات، 21 مارچ، 2024

مایہ ء ناز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد


 فیصل آباد شہر کو پاکستان بھر میں نمایاں اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ اس خوبصورت شہر میں پاکستان کی سب سے قدیم اور ایشیا کی سب سے بڑی اور اکلوتی اور بہت زی وقار زرعی جامعہ ہے،جو اس شہر کے حسن کو مذید چار چاند لگا رہی ہے-حقیقت یہ ہے کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد پاک و ہند میں زرعی علوم کا سب سے موقر اور پرانا ادارہ ہے۔ برصغیر کی زرعی تاریخ اس ادارے نے رقم کی ہے۔ دُنیا کے عظیم زرعی سائنس دان، استاد، محقق اور ماہر اس جامعہ نے پیدا کئے۔ زراعت کے میدان میں پورے جنوب مشرقی ایشیا میں جامعہ زراعت اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کو بجا طور پر زرعی علوم میں ماں کا درجہ حاصل ہے۔زرعی یونیورسٹی کا اپنا ایک الگ تابناک تشخص ہے۔  ملک میں اس یونیورسٹی کا وجود زراعت کا مضبوط ستون اور معیشت کا سہارا ہے۔ اس عظیم جامعہ کی کامیابیوں کی داستان لکھنے کے لئے کالم یا مضمون نہیں پوری کتاب درکار ہے۔کیونکہ کسی بھی ملک میں تعلیم ادارے قوموں کی ترقی اور خوشحالی کی منزل متعین کرتے ہیں، زرعی یونیورسٹی  معرض وجود میں آنے کے بعد اس زرعی یونیورسٹی  کے فارغ التحصیل طلبہ نے  زراعت کے میدان میں کماحقّہ نام کمایا ۔ ملک ِ عزیز میں موجود زرعی علوم کی تدریس کا فریضہ سرانجام دینے والے سبھی ادارے اس یونیورسٹی کو ماں کا درجہ دیتے ہیں اور دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے فرزند برملا کہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی نے ہمیں علم دیا، عزت دی، پہچان دی اور باوقار معاش کا ذریعہ دیا۔  

زرعی یونیورسٹی کا اپنا ایک الگ تابناک تشخص ہے۔ فیصل آباد شہر کے وسط میں وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی یہ یونیورسٹی دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں چھ فیکلٹیاں ہیں، جن میں ایگریکلچرل، سوشل سائنسز، بنیادی سائنسز، زرعی انجینئرنگ، ویٹرنری اور اینمل ہسبنڈری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سوائل سائنس، ہارٹی کلچر، مائیکرو بیالوجی، سنٹر فار ایگریکلچرل اینڈ جنیٹک انجینئرنگ کے انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس، کمیونٹی کالج پارس، زرعی کالج ڈیرہ غازی خان، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بورے والہ، دیپالپور اور لیہ اِسی شجر کے برگ و بار اور شاخیں ہیں۔ زراعت کی جامعیت میں فصلیں، باغات، جنگلات، حیوانات (اُن کا علاج اور بڑھوتری) ایک جیسی اہمیت کی حامل ہیں۔ زراعت اکیلی فصلوں کی کاشت اور برداشت کا نام نہیں، بلکہ جانوروں کا علاج اور افزائش بھی اس کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ سبھی ایک تسبیح کے دانے ہیں۔ ایک دانہ بھی مالا میں سے گر جائے تو مالا نامکمل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح یہ زرعی علوم کا گلدستہ ان تمام مذکورہ بالا شعبہ جات کے حسین امتزاج سے ہی خوشنما اور دیدہ زیب لگے۔ حالیہ دِنوں میں یونیورسٹی کی ایگری کلچر اور لائیو سٹاک کی دو الگ حصوں میں تقسیم کی بنا پر الگ الگ یونیورسٹیوں کے قیام کی باتیں کی جا رہی ہیں۔زرعی یونیورسٹی کا تخصص یہی ہے کہ ایک پرچم تلے فصلات، حیوانات، ماہی پروری، مرغ بانی، باغات، جنگلات مل کر کام کریں، جس طرح سے قیام پاکستان سے لے کرآج تک کر رہے ہیں۔

موجودہ دور کی انفرمیشن ٹیکنالوجی سے روشناس کرکے مہارت کے اعلیٰ مقام پر متمکن ہونے میں ممدو معاون ہونا ،یونیورسٹی اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ افراد کو ملکی ضروریات کے مطابق ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے تیار کرنا اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا فریضہ اور نصب العین ہوتا ہے۔یونیورسٹی اپنے ماٹو ”رِزقاً حسناً“ میں اپنی کومٹمنٹ یعنی حاصل سعی کا اظہار کرتی ہے۔اچھا پاک اور فراواں رزق اللہ کی زمین سے حاصل کرکے مخلوق خدا کے لئے فراہم کرنا اور اس فراہمی کو بلا تعطل یقینی بنانا اپنا مقصد گردانتی ہے اور خوشحالی کی اس منزل کے حصول کے لئے پورے عزم، حوصلے، عقل و شعور، مادی و غیر مادی صلاحیتوں، آلات صنعت و حرفت (ٹیکنالوجی) کو استعمال میں لا کر میدان عمل میں موجود ہے۔پاکستان کی اس منزل کا  خواب بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ نے دیکھا کہ تعلیم سب کے لئے، ہنر سب کی پہنچ میں، خوشحالی ہر کسی کا مقدر، شخصی وقار اور عزت نفس کے ساتھ زندگی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع اور دیانت دار قیادت و سیادت۔ یہ ہے وہ مشن جس کے لئے زرعی یونیورسٹی کے جناب وائس چانسلر کی قیادت میں دن رات کوشاں ہیں۔پچھلے چھ برس سے اس سلسلہ میں بہت سے سنگ میل عبور کرنے کا سہرا بھی موجودہ قیادت کے سر جاتا ہے۔

زرعی یونیورسٹی دنیا کی بہترین جامعات میں سے  ہے اور یہ اعزاز پاکستان میں صرف اس جامعہ کو حاصل ہے - اسلامک ڈویلپمنٹ بنک نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تمغہ اور کیش پرائز دیا۔یونیورسٹی کو اس کے سرسبز کیمپس کی وجہ سے یو آئی گرین میٹرک ورلڈ کی طرف سے 35ویں نمبر پر رکھا گیا۔2013-14ءمیں پاکستان کونسل آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے زرعی یونیورسٹی کو پہلے نمبر پر قرار دیا۔جامعہ کے ویژن 2030ءکے سلسلہ میں جناب چانسلر/ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف نے اپنے گراں قدر تعریفی خیالات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے یونیورسٹی کے مشن کو سراہا ہے اور اپنی ہر ممکن مدد کا یقین دلایا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے الگ الگ تحریری پیغامات میں کیا ہے جو ویژن 2030ءدستاویز میں شائع کیا گیا۔بلاشبہ یہ دستاویز جس عرق ریزی ،محنت اور بالغ نظری سے ترتیب دی گئی ہے۔راقم پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان (ستارئہ امتیاز) ان کی جملہ ٹیم اور خاص طور پر ڈاکٹر سلطان حبیب اللہ خان مبارکباد  کے مستحق ہیں ۰

     ویژن 2030ءکا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔ملک کو خوراک میں خود کفیل، خوشحال اور خود دار قوم بنانے کے لئے زرعی یونیورسٹی۔ بنیادی اور عملی علم اور تحقیق کی وسیع پیمانے پر ترویج۔علم و کمال سے متصف افراد کو میدان عمل میں اتارنا اور ملکی ترقی کا حصہ بنانا۔دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ زرعی علوم و فنون کو رائج کرنازرعی اصلاحات کو ترتیب دینا اور ان کے عملی ابھی تو بہت کچھ لکھنا باقی ہے لیکن اب جگہ کا دامن تنگ ہے اس لئے زندگی بخیر اگلی بار حاضر ہوتی ہوں ۔   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر