جمعرات، 8 اگست، 2024

بس مٹھی بھر پستے

  

 جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اینٹی  آکسیڈنٹس صحت کے لیے کتنے ضروری  ہوتے ہیں کیونکہ یہ خلیات کو ہونے والے نقصان کی روک تھام کرنے کے ساتھ مختلف امراض  کا خطرہ کم کرتے ہیں۔اور کسی بھی گری کے مقابلے میں پستوں میں اینٹی آکسیڈنٹس کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے، پستہ اخروٹ سے دوسرے نمبر پر بہتر ہوتا ہے۔غذائ ماہرین  کہ روزانہ کچھ مقدار میں پستے کھانے والے افراد میں لیوٹین اور y-Tocopherol کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔ پستے میں لیوٹین اور zeaxanthin کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو آنکھوں کی صحت کے لیے انتہائی اہم اینٹی آکسیڈنٹس ہیں ان کی مدد سے آنکھوں کو ڈیوائسز کی نیلی روشنی اور عمر بڑھنے سے پٹھوں میں آنے والی تنزلی سے تحفظ مل سکتا ہے۔ اسی طرح پستے میں موجود 2 اینٹی آکسیڈنٹس پولی فینولز اور tocopherols کینسر اور امراض قلب سے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس گری میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس معدے میں بہت آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں اور ہاضمے کے دوران جذب ہوجاتے ہیں


 اس بات کا بہت کم افراد کو علم ہے کہ مٹھی بھر پستے کھالینا بہتر صحت اور خوبصورتی کا انوکھا راز ہے۔7 ہزار قبل مسیح سے استعمال ہونے والے پستہ کا آبائی علاقہ ایران تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایشیاء کے دیگر علاقوں شام، ہندوستان اور ترکی کو بھی اس کا آبائی وطن مانا جاتا ہے۔ ایران اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ پستہ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور شام تیسرے نمبر پر ہیں۔ ترکی، چین، یونان، افغانستان، اٹلی، ازبکستان اور پاکستان میں پستہ کاشت کیا جاتا ہے۔بلوچستان میں پستہ کی جنگلی قسم Pistachio kinjakپہاڑی علاقوں میں اب بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ بلوچستان میں اس وقت کوئٹہ، مستونگ، قلات، پشین اور دیگر علاقوں میں پستہ کے باغات پائے جاتے ہیں۔ ضلع مستونگ میں محکمہ زراعت توسیعی کا ایک پستہ کا فارم سریاب فارم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں پستے کے کچھ قدیم درخت اب بھی موجود ہیں اور ہر سال نرسری میں ہزاروں کی تعداد میں پودے اُگائے جاتے ہیں۔

.

پستے میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا:چھلکوں کے بغیر ایک پیالی پستے میں 159 کیلوریز، 5.72 گرام پروٹین، 13 گرام چکنائیاں، 3 گرام فائبر، 7.70 گرام کاربوہائڈریٹس، 34 ملی گرام میگنیشیم، 291 ملی گرام پوٹاشیم، 0.482 ملی گرام وٹامن بی 6 اور 0.247 ملی گرام تھایامن ہوتا ہے۔ان اجزا میں سے وٹامن بی 6 میٹابولزم اور دماغی نشونما کیلئے نہایت مفید قرار پایا ہےپستہ کے طبی فوائد:٭پستہ مختلف طریقوں سے امراض قلب کا خطرہ کم کرتا ہے۔ اینٹی آکسیڈنٹس کے ساتھ ساتھ یہ گری بلڈ کولیسٹرول میں کمی اور بلڈ پریشر کو بہتر کرسکتی ہے جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوتا ہے کہ پستے کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے میں مدد دے سکتے ہیں ۔نقصان دہ کولیسٹرول کے شکار افراد پر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پستے کھانے سے کولیسٹرول کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جبکہ دن کی 20 فیصد کیلوریز اس گری سے حاصل کرنا کولیسٹرول کی شرح میں 12 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔


٭گریاں کھانے کے متعدد فوائد ہوتے ہیں مگر عام طور پر ان میں کیلوریز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے مگر پستے سب سے کم کیلوریز والی گریوںمیں سے ایک ہے۔ پروٹین کے حوالے سے پستہ بادام کے بعد دوسرا اہم ترین میوہ ہے۔ پستوں میں امینو ایسڈز کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے جو پٹھوں کی صحت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں جبکہ یہ امینو ایسڈز اس لیے بھی ضروری ہیں کیونکہ جسم خود انہیں بنا نہیں سکتا، اور وہ غذا کے ذریعے ہی حاصل کیے جاتے ہیں اسمیں ایک امینو ایسڈ ایل آرگینی بھی ہوتا ہے جو جسم میں جاکر نائٹرک آکسائیڈ میں بدل جاتا ہے جو شریانوں کو کشادہ کرنے کے ساتھ خون کی روانی میں مدد دیتا ہے۔٭ینٹی آکسیڈنٹس صحت کے لیے لازمی ہوتے ہیں کیونکہ یہ خلیات کو ہونے والے نقصان کی روک تھام کرنے کے ساتھ مختلف امراض جیسے کینسر کا خطرہ کم کرتے ہیں۔کسی بھی گری کے مقابلے میں پستوں میں اینٹی آکسیڈنٹس کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے، صرف اخروٹ ہی اس حوالے سے پستے سے بہتر ہوتا ہے۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں پستے کھانے والے افراد میں لیوٹین کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔ پستے میں لیوٹین کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو آنکھوں کی صحت کے لیے انتہائی اہم اینٹی آکسیڈنٹس ہیں ان کی مدد سے آنکھوں کو ڈیوائسز کی نیلی روشنی اور عمر بڑھنے سے پٹھوں میں آنے والی تنزلی سے تحفظ مل سکتا ہے۔ اسی طرح پستے میں موجود 2 اینٹی آکسیڈنٹس پولی فینولز اور tocopherols کینسر اور امراض قلب سے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ اس گری میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس معدے میں بہت آسانی سے قابل رسائی ہوتے ہیں اور ہاضمے کے دوران جذب ہوجاتے ہیں۔٭پستے کو جسمانی وزن میں کمی کے لیے بہترین غذاؤں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اگرچہ اس بارے میں زیادہ تحقیقی رپورٹس تو موجود نہیں مگر نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں پستے فائبر اور پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ دونوں ہی پیٹ کو بھرنے کا احساس بڑھانے کے ساتھ کم کھانے میں مدد دیتے ہیں ایک تحقیق کے دوران روزانہ 53 گرام پستے کھانے سے جسمانی وزن میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی محققین کے خیال میں اس کی ایک ممکنہ وجہ اس میں موجود چکنائی ہے جو پوری طرح جسم میں جذب نہیں ہوتا۔ چھلکوں والے پستے کھانے میں وقت زیادہ لگتا ہے اور ان چھلکوں کو دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ کتنی گریاں کھائی ہیں۔

٭پستے فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں اور یہ جزو نظام ہاضمہ میں پوری طرح ہضم نہیں ہوتا، کچھ اقسام کے فائبر معدے میں موجود بیکٹیریا کی غذا بنتے ہیں جو پروبائیوٹیکس کا کام کرنے لگتے ہیں یہ بیکٹیریا فائبر کو شارٹ چین فیٹی ایسڈز میں بدل دیتا ہے جو متعدد طبی فوائد کا باعث بن سکتا ہے نظام ہاضمہ کے امراض کینسر اور امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔٭خون کی شریانوں کی اندرونی جھلی کے درست افعال بہت ضروری ہوتے ہیں اور اس میں خرابی امراض قلب کا خطرہ بڑھاتی ہے۔پستوں میں ایک امینو ایسڈ ایل آرگینی بھی موجود ہوتا ہے جو جسم میں جاکر نائٹرک آکسائیڈ میں بدل جاتا ہے یہ ایسا مرکب ہے جو شریانوں کو کشادہ کرنے کے ساتھ خون کی روانی میں مدد دیتا ہے، ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ 40 گرام پستے تین ماہ تک کھانے سے شریانوں کی اندرونی جھلی کے افعال اور شریانوں کی اکڑن میں بہتری دیکھنے میں آئی دوران خون ٹھیک رہنا بھی متعدد جسمانی افعال کو ٹھیک رکھنے کے لیے ضروری ہے۔٭اگر آپ غذائی حراروں (کیلوریز) کی وجہ سے پریشان ہیں تو 50 پستوں میں صرف 159 کیلوریز پائی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ خیال غلط ہے کہ پستے کھانے سے جسم موٹاپے کی جانب مائل ہوتا ہے۔٭2017 کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فائبر کی وجہ سے پستے آنتوں کے سرطان کو روکنے میں نہایت مفید ثابت ہوتے

بدھ، 7 اگست، 2024

آم کے آم گٹھلیوں کے دام

 ،آم کے لئے تو  یہ محاورہ پورے ہندوستان میں مشہور تھا لیکن اس کی سچی حقیقت اس وقت معلوم ہوئ جب واقعئ اس کی گٹھلی کے جادوئ اثرات پڑھنے کو ملےہم سب جانتے ہیں  کہ آم   صحت کے خزانوں سے مالا مال پھل ہے ۔ یہ مختلف بیماریاں دُور کرنے کی استعداد رکھتا ہے   لیکن آم کی گٹھلی کے فوائد   بھی بے شمار ہیں -آم کی گٹھلی کا حلوہ بنا کر کھانا اولاد نرینہ کے حصول کا بہترین زریعہ ہے۔ بیٹے کے خواہشمند جوڑے کو چاہئے کہ وہ آم کی گٹھلی کا حلوہ سوجی کے ساتھ بنا کر تین مہینے دونوں شوہر بیوی استعمال میں لائیں  اور انشاللہ اس کے بہرین نتائج دیکھیں اس کے علاوہ عام حالات میں بھی یہ گٹھلی طاقت کا خزانہ رکھتی ہے،   آپ اس کی گٹھلی پھینکنے کی بجائے سُکھا کے سفوف بنا کر رکھ لیں گے، تاکہ بوقت ضرورت استعمال کرسکیں۔دل کی بیماری کو دور رکھتی ہے۔اس کی گٹھلی کا استعمال دل کی بیماریوں اور ہائپر ٹینشن کے خطرے کو کم کرنے کے لئے مفید ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس کی گٹھلی سے حاصل ہونے والے عرق مجموعی طور پر کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جبکہ میٹابولزم کو متحرک کرنے اور وزن میں کمی کو فروغ دینے کے قابل بھی ہوتے ہیں، یہ سب مجموعی طور پر دل کی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔آم کی گٹھلی کیسے کھائیں؟کسی بھی پھل کا بیج کھانا بہت سے لوگوں کو عجیب لگتا ہے، لیکن اس کی گٹھلی جو غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے ۔ اگر آپ اس کی گٹھلی کے فوائد سے اس کی سب سے بہتر قدرتی شکل میں لطف اندوز ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو آپ  آم کے ساتھ ساتھ اس کی گٹھلی کو بھی استعمال کیجئے 


   غذائ ماہرین کا کہنا ہے کہ گٹھلی میں    بے شمار وٹامنز، منرلز اور معدنیاتی اجزا پائے جاتے ہیں۔ یعنی جو' جو خوبیاں طبی لحاظ سے آم میں پائی جاتی ہیں،وہی آم کی   گٹھلی میں پائ جاتی ہیں  اس  کا مطلب ہے کہ آم کی گٹھلی بھی طاقت کا بھر پور خزانہ ہےگٹھلیوں کو ہوا میں خشک کرکے ان کو گرائنڈر کا استعمال کرکے پیسا جائے یہاں تک کہ پاؤڈر بن جائے اور اس کو محفوظ کرلیا جائے۔  اس کے بے شمار فوائد میں  سینے کی جلن، مسوڑھوں کی خرابی، ذیابطیس، دست، قے اور لُو لگنے کی صُورت میں مفید ہے۔٭دانت اور مسوڑھوں میں درد یا خون رِسنے کی شکایت سے شفا کے لیے آم کی گٹھلی کے اندر سے گِری نکال کر سُکھا دیں اور سفوف بنا کر اس سے دانت صاف کریں٭کولیسٹرول بڑھنے کی شکایت میں آم کی سوکھی گٹھلی کا پاؤڈر ایک چمچ دِن میں ایک بار پانی کے ساتھ پھانک لیں۔وزن میں کمی کے لیے روزانہ نہار منہ ایک چائے کا چمچ گٹھلی کا سفوف استعمال کریں۔قبض یا اسہال کی شکایت میں گٹھلی کےسفوف کا ایک چمچ سادہ پانی سے پھانک لیں۔سَر کی جوؤںسے نجات کے لیے گٹھلی کے سفوف میں لیموں کا رس مِکس کرکے بالوں میں لگائیں اور آدھے گھنٹے بعد سَر دھولیں۔ ایک ہفتے کے استعمال سے جوئیں ختم ہوجائیں  گی۔ ایک بار آم پکنے کے بعد بیج سخت ہو جاتا ہے، جسے صرف پاؤڈر کی شکل میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ پھل نہ صرف مزیدار ہے بلکہ ایک متاثر کن غذائی پروفائل کا حامل بھی ہے۔مطالعات آم اور اس کے غذائی اجزاء کو صحت کے بہت سے  فوائد بتاتے ہیں، جس میں بہتر قوت مدافعت اور ہاضمہ کی صحت شامل ہے ۔ اس پھل میں پائے جانے والے کچھ پولی فینول  کینسرکے خطرے کو بھی کم کرسکتے ہیں۔

    آم کے مرکز میں یہ بڑے سائز کا کریمی سفید بیج غذائی اجزاء اور اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں۔آپ کو صرف انہیں  پاؤڈر یا پیسٹ اور یہاں تک کہ مکھن میں ملانے کی ضرورت ہے۔ آم کی گٹھلی  عام طور پر کچے آموں میں کھائی جاسکتی ہے۔ ایک بار آم پکنے کے بعد بیج سخت ہو جاتا ہے، جسے صرف پاؤڈر کی شکل میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کچھ فوائد ہیں۔آم کے بیجوں کے سب سے متاثر کن فوائد میں خشکی کے علاج، جلد اور بالوں کی شکل کو بہتر بنانے، ہاضمے کو سکون دینے، ذیابیطس کی علامات سے بچنے اور وزن میں کمی میں مدد سمیت بہت سے دیگر شامل ہیں۔جلد کی خوبصورتی کے لیے -اس کی گٹھلی اینٹی آکسیڈنٹس اور غیر مستحکم مرکبات کی کثافت کے ساتھ، جلد کی شکل کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے قابل ہوتا ہے، سوزش کی علامات کو کم کرتا ہے، جیسے مہاسوں، خاص طور پر جب پاؤڈر کی شکل متاثرہ حصے پر وقتی طور پر لگائی جاتی ہے۔ تو یہ جھریوں اور بڑھتی عمر کے دھبوں کی شکل کو کم کرنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔ 


بالوں کی دیکھ بھال اور خشکی کے لیے مؤثر۔آم کی گٹھلی کا پاؤڈر اور پانی کے ساتھ بالوں کا ماسک بنا کربالوں کی جڑوں پر لگانے سے، آپ اپنے بالوں کے فولیکلز کو مضبوط بنا سکتے ہیں، خاص طور پر جب آپ پیسٹ کو اپنی کھوپڑی میں رگڑتے ہیں۔ تو اس سے خشکی جیسی سوزش ور خارش بھی ختم ہوسکتی ہے۔خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے جلد کے ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اچھا ہوسکتا ہے۔یہ 2014 میں نیوٹریشن اینڈ میٹابولک انسائٹس نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق آم کی گٹھلی کے عرق کے ساتھ باقاعدگی سے سپلیمنٹ لینے کے نتیجے میں بلڈ شوگر زیادہ کنٹرول ہوسکتا ہے، جو ذیابیطس کے شکار افراد یا اس حالت  کے خطرے سے دوچار افراد کے لئے بہت اچھا ہے۔اس کی گٹھلی خون میں شکر کی سطح کو کم کرسکتی ہے، یقینا جب مناسب مقدار میں کھایا جاتا ہے۔ تو وہ گلوکوز کے جذب ہونے کو اور شوگر کو کم کرنے کے لئے آنتوں اور جگر کے انزائم کو تبدیل کرتے ہیں۔اس کا استعمال ذیابیطس کے ڈاکٹر کے مشورے سے کریں۔ڈائریا کے خطرے کو کم کرتا ہے۔اس طرح کی حالت کے علاج کے لئے دن میں کم از کم دو بار آم کی گٹھلی کا پاؤڈر لیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کا پاؤڈر بنانے کے لئے اچھی طرح خشک کیا گیا ہے۔ شہد کے ساتھ ملا ہوا پاؤڈر ایک گرام سے زیادہ استعمال نہ کریں۔

 


منگل، 6 اگست، 2024

نامہ بر کبوتر کی پرورش کی منزلیں -

 

ہماری  دنیا میں  اس کار آمد پرندے  کی پرورش کا سلسلہ نصف صدی پیشتر تک بڑی بڑی آبادیوں میں جاری تھا۔ اب بھی دنیا سے بالکل مفقود نہیں ہوا ہے۔ بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگی حصاروں کے زمانے میں ان سے کام لینا پڑتا ہے، جب نئی دنیا کی بڑی بڑی قیمتی اور مغرورانہ ایجادیں کام دینے سے بالکل عاجز ہو جاتی ہیں۔ حکومتِ فرانس نے تو اب تک ان کے باقاعدہ اہتمام اور پرورش کے کام کو باقی و جاری رکھا ہے۔ ان امانت دار پیامبروں نے دنیا میں خبر رسانی کی عجیب عجیب خدمتیں انجام دی ہیں اور احسان فراموش انسان کو بڑی بڑی ہلاکتوں سے بچایا ہے۔ جہاں انسان کی قوتیں کام نہ دے سکیں، وہاں ان کی حقیر ہستی کام آ گئی۔ہمارے عالم حسن و عشق کے راز دارانہ پیغاموں کے لیے اکثر انہیں سفیروں سے کام لیا گیا ہے۔ عشاق بے صبر کو ان کا انتظار قاصد بے مہر کے انتظار سے کچھ کم شاق نہیں ہوتا۔ شعراء کی کائناتِ خیال میں بھی خبر رسانی و پیامبری صرف انہی کے سپرد کر دی گئی ہے اور فارسی شاعری میں تو ’’عظیم الشان‘‘ بلبل کے بعد اگر کسی دوسرے وجود کو جگہ ملی ہے تو وہ یہی مسکین کبوتر ہے۔مسلمانوں نے بھی اپنے عہدِ تمدن میں ان پیامبروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے۔ حتیٰ کہ نامہ بر کبوتروں کے اقسام و تربیت کا کام ایک مستقل فن بن گیا تھا جس میں متعدد کتابیں بھی تصنیف کی گئیں۔ ان کا ذکر تاریخوں میں موجود ہے۔


  ان کی رہائش گاہوں کے نزدیک  بڑے درخت اور اونچی اونچی عمارتیں بھی قابل اعتراض سمجھی جاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کی وجہ سے ان کبوتروں کو بآسانی  بیٹھنے کے مواقع مل جاتے ہیں اور پھر وہ اونچی اڑان بھرنے   سے جی چرانے لگتے ہیں۔ کترنے والے جانوروں مثلاً Ordents کی روک کے لیے شیشہ دار پنجرے چوکھٹوں میں رکھے جاتے ہیں۔ پاس کی چمنی پر لوہے کا جال تنا رہتا ہے تاکہ چمنی میں بچے نہ گر سکیں۔ تمام کبوتر خانوں اور انجینئرنگ کور کے دفتروں میں ٹلی فون لگا ہوا ہے۔یہ قاعدہ ہے کہ ہر کبوترخانے میں ۱۰۰ کبوتر ایسے ہوتے ہیں جو فراہمی فوج میں شرکت کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس مفید طاقت کے قائم رکھنے کے لیے دو کمرے ایک سو تیس جوان کبوتروں کے، ایک کمرہ دو سو بچوں کا جو اسی سال پیدا ہوئے ہوں، ایک جنوب رو شفاخانہ (infirmary) اور ایک دار التجربہ (Laboratory) درکار ہوتا ہے۔ان خانوں میں رکھنے کے لیے کبوتر ان بچوں میں سے انتخاب کیے جاتے ہیں جن کی عمر ابھی ۴ ہفتہ ہی کی ہوتی ہے اور جو ابھی تک اپنے ان پیدائشی خانوں سے نہیں نکلے ہوتے جن میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔


صحت اور غذا کی نگرانی کے خیال سے پہلے ۴ یا ۵ دن تک ان کی دیکھ بھال رہتی ہے۔ اس کے بعد خانے سے نکلنے اور ادھر ادھر اڑتے پھرنے میں اس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ بغیر ڈرائے ہوئے (تاکہ وہ اپنے داخلے کا دروازہ پہچان سکیں) نکل بھاگنے کا انہیں موقع دیا جاتا ہے۔ یہ تربیت روز تین بجے دن کو کی جاتی ہے۔جب اس نوآبادی میں جوان کبوتر ملا دیے جاتے ہیں تو یہ مشق بہت دیر تک جاری رہتی ہے۔ تازہ وارد کبوتر پہلے تو ایک معتدبہ زمانے تک علیحدہ بند رہتے ہیں۔ اس کے بعد پرانے رہنے والوں کے ساتھ ملا دیے جاتے ہیں۔ آخر میں ان کی اگلی پانچ پانچ یا چار چار کلیاں دو دو انچ کے قریب کتر دی جاتی ہیں تاکہ موسم بھر اڑ نہ سکیں۔ جب جھاڑنے کا زمانہ آتا ہے تو ان کتری ہوئی کلیوں کی جگہ پوری پوری نئی کلیاں نکل آتی ہیں۔قابلِ خدمت ٹکڑیوں میں (ٹکڑیاں فوجی اصطلاح میں کور Corps کہلاتی ہیں) ماہ مئی کے قریب دو برس سے لے کر آٹھ برس تک کے ۱۰۰ کبوتر ہوتے ہیں۔ ان میں اکتوبر تک ۶ محفوظ کبوتر اور ۱۸ مہینے کے ایسے ۲۳ پٹھے نوجوان بڑھا دیے جاتے ہیں جو تعلیمی معرکوں میں حصہ لے چکے ہیں۔


کھانے کے لیے سیم، مٹر اور مسور کا اکرا دیا جاتا ہے جو برابر سال بھر تک جمع ہوتا رہتا ہے۔ اکرے کی مقدار فی کبوتر تقریباً ڈیڑھ اونس ہوتی ہے جو تین وقتوں میں یعنی صبح، دوپہر اور ۳ بجے دن کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی، چونا، دریا کی عمدہ بالو، انڈے کے چھلکے اور گھونگے بھی ہم وزن پسے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ مرکب جسے نمک آمیز زمین (Salted Earth) کہتے ہیں، ہمیشہ ان کے پنجروں میں پڑا رہتا ہے۔بہار کے زمانے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ دو ہلکے یا دو بہت ہلکے رنگ کے کبوتروں میں یا نہایت ہی قریبی رشتہ دار کبوتروں میں، یا ایک دوسرے سے بے حد ملتے ہوئے کبوتروں میں جوڑا نہ لگنے پائے۔ جوڑا صرف انہی کبوتروں میں قائم کرنا چاہیے جن کی آنکھوں اور پروں کے رنگ مختلف ہوں۔ چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے، باہم مانوس اور غیر مانوس کبوتروں میں اوٹ ضرور بنا دینی چاہیے۔جب چند دنوں تک ایک ساتھ علیحدہ بند رہنے سے جوڑا لگ جائے تو پھر انہیں کمرہ میں آزادی سے پھرنے دینا چاہیے۔ جوڑا لگنے کے بعد سے۴۰ دن کے اندر مادہ انڈے دیتی ہے اور اس کے بعد ۱۷ دن تک سیکتی ہے۔ جب بچے ۴ یا ۵ ہفتے کے ہو جاتے ہیں اور دانہ چگنے لگتے ہیں تو ماں باپ سے علیحدہ کر کے ایک ایسے جنوب رویہ کمرہ میں رکھ دیے جاتے ہیں جس میں زائد سے زائد دھوپ آتی ہو۔ کسی دوسری جھولی کے یا موسم خزاں کے انڈے نہیں رکھے جاتے۔ کیونکہ ان کے بچے موٹے ہوتے ہیں اور بے قاعدہ پر جھاڑنے لگتے ہیں۔


(انشاء پرداز اور صاحبِ طرز ادیب ابوالکلام آزاد کے ایک مضمون سے اقتباس، اندازہ ہے کہ یہ تحریر لگ بھگ سات، آٹھ دہائیاں پرانی ہے)

 مٰں نے یہ تحریر انٹر نیٹ سے مستعار لی ہے


پیر، 5 اگست، 2024

نیم کا درخت-قدرتی نعمت



انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے بھارت کے دارلحکومت دلی کواز سرنو بسانا شروع کیا تو معتدل موسم کے لیئے انہوں نے جگہ جگہ نیم کے پیڑ لگوادیئے تھے۔راجستھان کے جودھپورعلاقے میں نیم کا پیڑ روز مرّہ کی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے جہاں ہرگا‎‎ؤں میں نیم کے سایہ دار پیڑ کی چھاؤں لوگ بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نیم کےسایے میں دوسرے درختوں کی چھاؤں کی نسبت دو تین ڈگری درجہ حرارت کم رہتا ہے۔روایتی طور پر نیم کا استعمال مختلف بیماریوں سے بچنے اور ان کے علاج کے لیئے بھی کیا جاتا ہے۔ بچوں میں بخار یا چیچک جیسی بیماری کی صورت میں نیم کی پتّیاں ان کے بستر پر بچھائی جاتی ہیں۔خارش، تیزابیت، اور سورائسس جیسی بیماری میں نیم کو جلد پر لگانے سے آرام ملتا ہے اور ابال کر پینے سے اسہال کے مریض کو فائدہ ہوتا ہے۔


گرمیوں میں سردیوں کے کپڑوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے نیم کی پتیوں کو کپڑے میں رکھا جا تا ہے۔ خشک سالی کے سبب جن علاقوں میں چارہ نہیں اگتا وہاں جانور نیم کی پتّیاں کھاتے ہیں اور نمکولی سے عمدہ قدرتی کھاد بنائی جاتی ہے۔ نیم کا سب سے زیادہ اور عام استعمال مسواک کے طور پر کیا جاتا ہے۔جدید سائنٹفک دریافت کے مطابق نیم کی چھال سے نکلنے والا تیل بہت اہم ہوتا ہے اوراس میں موجود بعض زہریلے مادوں کا استعمال فنگس کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔


ہندوستان میں نیم فاؤنڈیشن کے ہیڈ ڈاکٹر رمیش سکسینا نے جنوبی ایشیا، فلپیائن، مشرقی افریقہ اور آسٹریلیا میں پہلی بار نیم کو ایک قدرتی زہر یعنی کیڑے مار دوا کے طور پر متعارف کیا تھا۔ سکسینا کا کہنا ہے کہ ’نیم ان کے رگ رگ میں بسا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ نیم دنیا بھر میں بخار، ڈینگو، ملیریا اور ایڈس جیسی جان لیوا بیماریوں پر قابو پانے موثو رول ادا کرسکتا ہے‘۔ان کا کہنا ہے کہ نیم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے بھارت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے مطابق چین اور برازیل نیم کی خوب کھیتی کر رہے ہیں اور وہ جلد ہی بھارت کو پچھے چوڑ دیں گے۔نیم سے بنی آیرویدک دواؤں کے صحیح استمعال کے لیے حکومت نے دلّی میں ایک روایتی علوم پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری قائم کی ہے۔اس لائبریری کے ڈائریکٹر ونود گپتا کہ کہنا ہے ان کی ٹیم نے ہزاروں قدیم نسخوں کو جدید طبّی اصطلاحات میں تبدیل کیا ہے جو آن لائن لائبریری میں عام لوگوں کے لیئے دستیاب ہیں۔تاریخی ،طبی،زرعی اور ماحولیاتی اہمیت کی بنا پر ایک انمول نعمت ہے

جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مواصلات، طب اور صنعت میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون نے دنیا کو آپس میں جوڑ دیا ہے، لیکن اس ترقی کے ساتھ آلودگی کا مسئلہ بھی بڑھتا گیا ہے۔ صنعتی کارخانوں، گاڑیوں، اور فضلہ کے نامناسب انتظام نے ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کردیا ہے۔اس طرح آج کی دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی، مصنوعی اشیا اور کیمیائی مرکبات نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بہتر یا آسان بنایا ہے، وہیں فطری عناصر کی اہمیت بھی کم نہیں ہوئی ہے۔جدید زندگی کے ہر شعبے میں مصنوعی اشیاء کے وسیع استعمال نے انسان کو تباہ کردیا ہے۔ لباس سے زراعت تک ہر چیز مصنوعی ہوکر رہ گئی ہے، اور انسان وقتاً فوقتاً فطرت کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بسا اوقات لگتاہے دوری اور فاصلہ مزید بڑھ گیا ہےبیسویں صدی کے اوائل اور وسط کے مصنوعی کیمیکلز پر انحصار کے دور نے تمام بیماریوں، اور بیماریوں کے علاج کے طور پر نئے کیمیکلز کو فروغ دیا -


  دنیا نے فطرت سے بھاگنا چاہا اور آج بھی بھاگ رہی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ احساس ہورہا ہے کے انسان فطرت سے دور نہیں رہ سکتا، اُسے پلٹنا ہوگا ور لوٹنا ہوگا اپنی اصل کی طرف… اور درخت، جنگل یہ سب اس کی فطرت کا حصہ ہیں۔ درخت زندگی ہیں اور ان ہی درختوں میں نیم کے درخت کو ایک انفرادیت حاصل ہے۔نیم کا درخت (Azadirachta indica) اپنے بیش بہا فوائد اور تاریخی اہمیت کے ساتھ اونچا، مضبوط، گھنیرا، خوب صورت اور مشہور درخت ہے۔ یہ درخت بڑ کی مانند چاروں طرف پھیلتا ہے۔ ایک ہرا بھرا، گھنا، سایہ دار اور ماحول دوست اور آلودگی دور کرنے والا درخت، جس کی گہری جڑیں مضبوطی سے زمین میں پیوست ہوتی ہیں، اس کا تنا سڈول اور بھاری بھرکم ہوتا ہے، اور قد بھی بہت بلند نہیں ہوتا۔درخت کی شاخیں پھیلی ہوئی اور صحت مند ہوتی ہیں، ان پر سرسبز کونپلیں اور پھل جس کو ’نمکولی‘ کہتے ہیں، بہت بھلے اور خوبصورت لگتے ہیں۔ نمکولی جب پکنے پر آتی ہے تو اس میں قدرے مٹھاس سی آجاتی ہے۔ پرندے اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ یہ درخت 20 سے23 میٹر بلند اور 4 سے5 فٹ موٹے تنے کے ساتھ تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے۔نیم کا درخت ایشیا اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں پایا جاتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے طبی، ماحولیاتی اور زرعی فوائد کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے


    قدیم ہندو دھرم کی کتابوں، آیورویدک نصوص آیوروید میں نیم کو ’’دوا کی دکان‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے پتّے، چھال، پھل اور بیج… ہر ایک میں مختلف بیماریوں کے علاج کی خصوصیات موجود ہیں۔بنیادی طور پر ایشیا، افریقہ، امریکا، آسٹریلیا اور جنوبی بحرالکاہل کے جزائر کے خشک علاقوں اور ہندوستان میں یہ بہت سی ریاستوں میں وسیع پیمانے میں موجود ہے۔ انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے بھارت کے دارالحکومت دلی کو ازسرنو بسانا شروع کیا تو معتدل موسم کے لیے انہوں نے جگہ جگہ نیم کے پیڑ لگوا دیے تھے۔میانمر کے وسطی حصوں میں نیم کا درخت بہت عام ہے۔ جنوبی بحرالکاہل اور جزائر فجی میں بھی پایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں اسے پہلی بار تقریباً 60-70 سال پہلے متعارف کرایا گیا تھا۔ نیم کا درخت انڈونیشیا میں جاوا کے نشیبی شمالی اور مشرقی حصوں اور مشرق میں فرئیر جزائر (بالی، لومبوک، سمباوا) میں موجود ہے۔ فلپائن میں اسے پچھلی صدی کی ستّر اور اسّی کی دہائی کے دوران متعارف کرایا گیا تھا۔ چین میں A. indica کوہینان اور جنوبی چین کے ذیلی ٹراپیکل جزیرے پر لگایا گیا تھا۔ نیپال میں نیم کے درخت جنوبی نشیبی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ 


سری لنکا میں یہ جزیرے کے خشک شمالی حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایران میں، جزیرہ نما عرب میں عراق میں شط العرب کے ساحل کے ساتھ نیم کے درخت اگتے ہیں۔ قطر اور ابوظہبی میں نیم کو آب پاشی کے تحت سڑکوں اور پارکوں کے ساتھ صاف شدہ سمندری پانی کا استعمال کرتے ہوئے لگایا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کے قریب میدانِ عرفات میں حجاج کرام کو سایہ فراہم کرنے کے لیے ایک بڑی شجرکاری کی گئی تھی۔گرمیوں کے مہینوں میں برصغیر پاک و ہند کے شمالی حصوں میں نیم کے درخت کے نیچے کا درجہ حرارت اردگرد کے ماحول سے تقریباً 10 ڈگری سینٹی گریڈ کم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیم کا درخت قدرتی ایئرکنڈیشنر کے طور پر کام کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مکمل نیم کے درخت کی موثر ٹھنڈک فراہم کرنے کی صلاحیت 10 ایئرکنڈیشنر کے برابر ہے۔ نیم کا درخت نہ صرف ہوا کو صاف کرتا ہے بلکہ انحطاط شدہ مٹی کی صحت کو بحال کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نیم کے درخت کے ذریعے بنجر زمینوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ماحولیاتی علاج کے طور پر اس کی قدر کی ایک اور شاندار مثال ہے۔


قریباً دودہائی قبل میدانِ عرفات میں تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر 50,000 نیم کے درخت لگائے گئے تھے تاکہ حج کے دوران مسلمانوں کو سایہ فراہم کیا جاسکے۔ نیم کے ان باغات نے علاقے کے مائیکرو کلائمیٹ، مائیکرو فلورا، مائیکرو فائونا، اور ریت کی مٹی کی خصوصیات پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ جب یہ درخت مکمل طور پر اگ جائیں گے، تو یہ باغات 20 لاکھ حاجیوں کو سایہ فراہم کرنے کے قابل ہوں گے۔پاکستان میں بھی نیم کے درخت کا استعمال مختلف بیماریوں کے علاج میں کیا جاتا ہے۔ اس کے پتّوں، چھال اور بیجوں کے عرق کو مختلف طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم کے پتّے اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل، اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات رکھتے ہیں جو جلد کی بیماریوں، دانتوں کے مسائل اور مختلف انفیکشنز کے علاج میں مؤثر ہیں۔

اتوار، 4 اگست، 2024

دماغ کو کھانے والا جرثومہ امیبا کیا ہے ؟

   انسانی دماغ تک رسائ حاصل کرنے والا  یہ  خورد بینی مہلک امیبا کوئی نیا جرثومہ  نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں بہت  پہلے سے موجود ہے۔پاکستان نیگلیریا سے متاثر ہونے والے ممالک میں امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے - کچھ دن پہلے  لاس ویگاس کی میڈ جھیل میں دماغ خور امیبا کے سبب ایک نوجوان کی موت کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا-نیگلیریا فولیری کے کیسز جنوبی آسٹریلیا، مغربی آسٹریلیا، کوئنز لینڈ اور نیو ساؤتھ ویلز اور پوری دنیا کے کئی ممالک میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔۔ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں صحت و صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے اس کیسز اب سامنے آرہے ہیں۔ نیگلیریا دماغ کو کھا جانے  والا جرثومہ ہے  ۔ یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے صرف خوردبین سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ عام طور پر گرم تازہ پانی جیسے جھیلوں، ندیوں، گرم چشموں اور روزانہ استعمال والے پانی میں پایا جاتا ہے۔ نیگلیریا کی صرف ایک قسم انسانوں کو متاثر کرتی ہے وہ نیگلیریا فولیری ہے۔ نیگلیریا کی کئی اقسام ہیں لیکن صرف فولیری ہی اس بیماری کا سبب بنتی ہیں۔

نیگلیریا فولیری انفیکشنز نایاب ہیں۔ زیادہ تر نیگلیریا فولیری انفیکشن نوجوان مردوں میں ہوتا ہے، خاص کر 14 سال اور اس سے کم عمر میں ہوتا ہے۔ اس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ نوجوان لڑکوں کے پانی میں تیراکی کرنے اور جھیلوں اور ندیوں میں کھیلنے سے اس بیماری کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ میٹھے پانی کی جھیلوں، دریاؤں، چشموں، سوئمنگ پول اور روزانہ استعمال ہونے والے پانی میں موجود رہتا ہے۔ بس لوگوں کو اب احتیاط برتنے کی ضرورت ہے خوفزدہ ہونے کی نہیں ہے۔3- نیگلیریا فولیری دماغ کھانے والے امیبا کہاں پائے جاتے ہیں نیگلیریا کو گرم پانی بہت پسند ہے۔ یہ گرم پانی میں زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ امیبا دنیا بھر میں گرم جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ وہ جگہیں جن میں نیگلیریا فولیری پایا جاتا ہے۔1 گرم جھیلیں، تالاب اور پتھر کے گڑھے2 کیچڑ کے ڈھیر۔3 گرم، آہستہ بہنے والے دریا، خاص طور پر وہ ندیاں جن میں پانی کی سطح کم ہوتی ہے۔4 سوئمنگ پول اور سپا

۔5 کنویں کا پانی یا میونسپلٹی کا پانی-۔6 گرم چشمے اور دیگر جیوتھرمل پانی کے ذرائع7 تھرمل  پاور پلانٹس سے بہنے والا پانی-۔8 ایکویریم۔9 واٹر پارکس-نیگلیریا کھارے پانی میں نہیں رہ سکتا۔ آپ آلودہ پانی پینے سے بھی اس بیماری کا شکار نہیں ہو سکتے ہیں۔۔4 نیگلیریا فولیری کی علامات کیا ہیں؟ جو کسی کو بھی ہو سکتی ہیں؟نیگلیریا فولیری کی علامات مخصوص نہیں ہیں۔ یہ امیبا بنیادی طور پر دماغی انفیکشن کا سبب بنتا ہے، جس کی علامات میننجائٹس یا انسیفلائٹس سے ملتی جلتی ہیں۔مریض کے جسم میں امیبا داخل ہونے کے ایک سے بارہ دن بعد ظاہر ہو سکتی ہیں اور موت عام طور پر تقریباً پانچ دنوں کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کی تشخیص ہمیشہ دیر سے ہوتی ہے۔ امیبا ناک کے ذریعے دماغ میں داخل ہوکر نقصان پہنچاتا ہے اور ایسی صورت جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے اور یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل بھی نہیں ہو سکتا ہے۔


۔5 نیگلیریا فولیری سے اپنے آپ کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ڈاکٹرز  نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کلورین کے بغیر پانی کے استعمال سے گریز کریں۔نگلیریا سوئمنگ پولز، نہر، جھیلوں، تالابوں، ندیوں، گرم چشموں میں پایا جاتا ہے۔شہری سوئمنگ پول میں نہاتے وقت پانی ناک میں لیکر نہ جائیں۔کلورینیشن کے بغیرپانی کےاستعمال سےگریز کیا جائے۔سوئمنگ پولز کو روزانہ صاف کیا جائے، کلورین ڈالنے کے بعد استعمال کیا جائے۔پانی کی ٹینکیوں، پائپ سمیت دیگر سٹوریج کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے۔آپ کو موسم گرما میں ٹھرے ہوئے پانیوں میں کھیلوں اور سرگرمیوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے۔۔6 ناک کی حفاظت کریںکوشش کریں کہ ناک میں پانی نہ جا سکے کیونکہ امیبا ناک میں داخل ہوکر اس کے روٹس میں چپک کے دماغ تک پہنچ جاتا ہے جہاں وہ دماغ کو آہستہ آہستہ کھانا شروع کردیتا جس کی وجہ سے انسان کی حالت دن بدن بگڑتی جاتی ہے اور بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے۔ہمیشہ پانی میں سوئمنگ کرتے وقت، ناک کے کلپس استعمال کریں یا ناک کو بند رکھیں تاکہ پانی آپ کے ناک میں داخل ہونے سے بچ سکے۔ اس سے امیبا کا دماغ تک پہنچنے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

۔1 پاکستان میں نیگلیریا فولیری کی تشخیص

۔2 نیگلیریا فولیری (دماغ کھانے والا امیبا ) کیا ہے؟

۔3 نیگلیریا فولیری دماغ کھانے والے امیبا کہاں پائے جاتے ہیں؟

۔4 نیگلیریا فولیری کی علامات کیا ہیں؟ جو کسی کو بھی ہو سکتی ہیں؟

۔5 نیگلیریا فولیری سے اپنے آپ کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

۔6 ناک کی حفاظت کریں

۔1 پاکستان میں نیگلیریا فولیری کی تشخیص

 اس کی علامات میں شامل ہیں۔

۔1 سر درد ہونا

۔2 بخار ہونا

۔3 گردن میں اکڑاؤ

۔4 بھوک میں کمی

۔5 قے کا آنا

۔6 ذہنی حالت کا تبدیل ہونا

۔7 دورے پڑنا

۔8 کوما میں چلے جانا

۔9 پ لکیں جھکنا، دھندلا نظر آنا، اور ذائقہ کی حس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

  کسی بھی شخص میں یہ علامات  نظر آ رہی ہوں تو دوراً ڈاکٹر سے رجوع کیجئے 

اس مضمون کی تیاری میں  انٹر نیت سے مدد لی گئ ہے

جمعہ، 2 اگست، 2024

سندھ معدنی زخائر سے مالا مال صوبہ…

 

صو بہ سندھ میں معدنی زخائر-پاکستان کے ماہرین ارضیات بتاتے ہیں  کہ صرف سندھ کی سرزمین پر پچاس ٹریلین ڈالر سے زائد مالیت کے معدنی ذخائرموجود ہیں۔یہ بات ایک  وزیر معدنیات  نے محکمہ معدنیات و ذخائر ڈویلپمنٹ اور داود یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لوجی کے درمیان ہونے والی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی -انہوں  نے کہا کہ پہلی بار بائیولوجیکل مشینوں کے استعمال، ڈیٹا شئیرنگ اور ریسرچ کے ذریعے سے ان ذخائر سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ وزیر برائے معدنیات کا کہنا تھا کہ ماضی میں محکمے، جامعات اور متعلقہ ذمہ داران کی غلطیوں سے اس محکمے میں بہتر کام نہ ہوسکا، دنیا کے مختلف ممالک کی جی ڈی پی ان کی معدنیات پر منحصر ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس شعبے میں نئی ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری لائی جائے-انہوں نے بتایا کہ سندھ کی زمین میں سلیکا سینڈ سمیت پچاس ٹریلین ڈالرز کے بے شمار معدنیات موجود ہیں جبکہ ملک محض ایک ٹریلین ڈالر کے لیے ترس رہا ہے۔


صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی مائننگ کے خلاف اداروں کو شکایتی خط لکھا ہے، محکمہ کا سسٹم ڈیجیٹلائز کرنے اور مانیٹرنگ کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ضلع جامشورو معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے ضلع میں چونے کا پتھر (لائم اسٹون) یہ تھانو بولا خان کے قریب 10کلو میٹر کے فاصلے پر دریافت ہوئے۔ سیلٹائیٹ کی رگیں عمر ایوسین کے چونا پتھر میں ایک شگاف زدہ زون کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں اور دھاتیں سڑانشیم سلفیٹ، کیلشیم سلفیٹ، کیلشیم کاربونیٹ، سلیکا، بیریم سلفیٹ اس مقام پر اندازہ شدہ محفوظ 52ہزار لانگ ٹن ہیں۔ جن میں 25فیصد بے فائدہ مواد ہے باقی 39ہزار لانگ ٹن سیلٹائیٹ ہے۔ یہاں کانکنی 1956ء کے قریب شروع کی گئی تھی اور کچ دھات کھلے گڑھے کھود کر نکالی گئی کچھ کو دوسر ے پیوستہ پتھروں سے علیحدہ کرنے کا کام ہاتھوں سے کیا گیا۔ کچ دھات کا زیادہ تر استعمال کراچی اور لاہور میں واقع پینٹ کی فیکٹریز میں ہوتا ہے اس پہاڑی کے مشرق میں کئی اور فالٹ ہیں جن میں مزید معدنی گیس ملز کی توقع ہے۔سرزمین سندھ کے پہاڑ معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔ 


ماہرین ارضیات کے مطابق، سندھ کے پہاڑ تیل، گیس، گرینائیٹ، جپسم، کیلشئیم، چونا، گندھک، نباتات اور نادر قسم کے چرند پرند سے آباد ہیں۔ سندھ کے سب سے طویل پہاڑی سلسلے کو  کھیرتھر رینج کہتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے ’کھیر‘ ایک عربی نام ہے جس کا مطلب فضیلت، اعزاز اور سخاوت ہے۔  کھیرتھر رینج بھی سندھ کے لئے اعزاز کی بات ہے، جس کے طویل سلسلے میں کئی اور پہاڑ جڑے ہوئے ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کی، ان مختلف چوٹیوں کے جو الگ الگ مقامات پر ملتی ہیں، اپنے اپنے نام ہیں مگر یہ تمام چوٹیاں، چٹانیں اور پہاڑیاں  کھیر تھر رینج کا حصہ ہیں۔ اس سلسلہ کوہ کی پہاڑیوں، چوٹیوں اور ان کے نشیبی علاقوں کی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔کراچی کے علاقے گڈاپ سے اندر کی جانب سفر کریں تو کھار اور مول کے پہاڑ ہیں۔ لائم اسٹون اور چونے کے پتھر کا بڑا ذخیرہ ان پہاڑوں میں ملتا ہے۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے 1500 فٹ بلند ہیں۔جھمپیر کے قریب میٹنگ کے پہاڑوں میں چائنا کلی جو کہ چینی کے برتن اور سرامکس (سینیٹری) کے لئے استعمال ہوتی ہے بڑے پیمانے پر ملتی ہے۔ یہاں میلوں رقبے پر چونے کے پتھر کے بڑے ذخائر موجود ہیں جو کیمیائی انڈسٹری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ 


    دو ہزار پانچ سو  سال پرانی تاریخ کا حامل ضلع جامشوروتھانو بولا خان سے 5کلو میٹر دور فلرمٹی کے ذخائر کی بھی دریافت ہوئی ہے یہ مٹی دو مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی ہے ایک تیل صاف کرنے کے کارخانے اور دوسرے کوزہ گری کے لئے اس کی سالانہ پیداوار تقریباً آٹھ ہزار ٹن ہے۔ کوٹری کے نزدیک سنگ مرمر کے ذخائر کی دریافت ہوئی ہے یہاں عمر ایوسیں کا چونا کا پتھر بھی موجود ہے۔ لاکھڑا کا علاقہ کوئلے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ میٹنگ قصبہ سے 98 کلو میٹر خانوٹ ریلوے اسٹیشن سے 16؍کلو میٹر مغرب کی جانب واقع ہے۔ یہ کوئلے کی بہت بڑی کان کہلاتی ہے۔ضلع جامشورو میں آئل ا ینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے 1965ء میں ساری اور 1970ء میں ہندی کے مقام پر تیل و گیس کے ذخائر دریافت کئے۔ ساری میں 57کروڑ مکعب گیس موجود ہے۔ بحوالہ: (پاکستان کی معدنی دولت اعداد و شمار 2008ء تک کے ہیں)سیہون شریف سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر بڈو نامی بلند و بالا پہاڑ موجود ہے۔ 


یہ پہاڑ 3000 فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تیل اور گیس کے متعدد ذخائر ریافت ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اب بھی کئی مقامات پر مزید تلاش جاری ہے۔ بڈو جبل سے ماربل کا ذخیرہ بھی ملا ہے جو 46 میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کا پتھر ریتیلا کہا جاتا ہے جو تعمیرات کے لئے نہایت موزوں ہے۔ یہاں پر قدرتی چشمے بھی ہیں۔ٹھٹہ کے قریب سندھ کا قدیم شہر سونڈا ہے۔ سونڈا کے پہاڑوں میں چونے کا پتھر ملتا ہے جبکہ تعمیراتی کام کے لئے پتھر بھی یہاں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کراچی اور نیشنل ہائی وے پر اکثر مرمتی کام کے لئے سونڈا کے پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا جاتا ہے۔ بالکل ہلدی کی طرح پیلا، چمکدار پتھر فقط یہاں نظر آتا ہے۔ جب برسات ہوتی ہے یہ پتھر دھل کر اور بھی نکھر جاتا ہے۔ سونڈا میں پہاڑیوں سے مزدور، سخت مشقت کر کے، پتھر توڑ کر، اسے فروخت کرتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک سونڈا میں قبریں اسی پتھر کی بنائی جاتی ہیں۔ یہاں ایک تاریخی قبرستان بھی ہے جو 15 صدی عیسوی کے زمانے کی لگتی ہیں۔  

یہ تحریر میں نے انٹرنیٹ  اور کچھ اپنی معلومات کی مدد سے تیار کی ہے


 

 




جمعرات، 1 اگست، 2024

خضدار'بلوچستان معدنی خزانوں کی سرزمین




بلوچستان کاوسائل اپنے محلِ وقوع، رقبے اور پاکستان کے باقی حصوں کی طرح انتہائی مثبت کا حامل ہے۔  کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی ترقی پاکستان میں ترقی کی پوشیدہ ہے - ۔بلوچستان کے تین اضلاع خضدار، اور آواران ملک کے لیے طاقت کے حامل اور تاریخ کے اعتبار سے منفر د مقام سے تعلق رکھتے ہیں۔ان اضلاع میں سکوت پذیر لوگ، جغرافیائی حدود، محل و وقوع، قدرتی و مدنی وسائل، بناوٹ، قدیم ثقافتی طرزِ عمل کی وجہ سے ہمیشہ توجہ کا مرکز رہے ۔یہاں کی قدرتی جھیل، فلک بوس وسنگلاخ پہاڑ جہاں خوبصورت ہیں وہ معدنی وسائل سے لبریز بھی ہیں۔ یہاں کی خوبصورتی کو پوری دنیا میں اعلیٰ اور ارفع بنادیتی۔اناضلاع کے تاریخی پس منظر اور قدرتی لینڈ سکیپ کی اپنی الگ شناخت ہے، خضدار کو 1974 میں ضلع کادرجہ ملا۔، قبل ازیں یہ قلات ضلع میں شامل ہے۔ خضدار کی آبادی آٹھ لاکھ دو ہزار سات اور رقبہ پنتیس ہزار تین سو اسی مربع کلومیٹرزپرمشتمل ہے۔ وڈھ، نال، کرخ، اس کی تحصیلیں اور خضدار صدر مقام۔ خضدار شہر نیشنل ہائی وے این 25 پر واقعتا ہے عرف عام میں آرسی ڈی ہائی وے یعنی ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ ہائی ویو کانام دیا جاتا ہے۔


جو کہ علاقائی ترقی تنظیم تعاون کے نام سے۔ یہ پاکستان اور ترکی کو ملانے کے لیے ایک معاہدے کے تحت کیا گیا تھا۔اب این ایچ اے کے نمبر میں اسے 25 کہا جاتا ہے۔ خضد ار سندھ کے دارالحکومت کراچی سے 300جب کہ رتوڈیرو سے 259 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ایم 8شاہ خضدار کو رتوڈیرو سندھ سے لنک ہے جس کی تعمیر تین سال قبل مکمل طور پر اور آمدورفت اور تجارت کے استعمال کے لیے استعمال ہے۔ 30دونوں شاہراہیں سی پیک کاحصہ یہ سینٹرل روٹ کہلاتا ہے۔ یہ شاہراہیں خضدار سے لنک ہو کر گزرتی ہیں۔ ان شاہراہوں کے نیٹ ورک کے لیے خضدار گوادر کے بعد سی پیک کے لیے دوسرے مرکز اور گیٹ وے ثابت ہونے والا ہے ۔  ۔قلات کا پرانا نام قیقان تھا ضلع قلات کی آبادی چار لاکھ اُنہترہزار اور رقبہ چھ ہزار سو اکیس مربع کلومیٹر ز ۔اس ضلع کی قلات اور منگچر دو تحصیلیں ہیں، یہاں براہ راست براہوی زبان چند خاندان بلوچی اور فارسی زبان بھی بولتے ہیں کہ قومی زبان میں اردو کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے۔ قلات ضلع بھی نیشنل ہائی وے این 25پر واقع اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 142 کلو میٹر کی دوری پر۔ سی پیک کا مشرقی روٹ ہوشاب، سوراب سے ہواضلع قلات کو لنک کر رہا ہے۔انہیں دنیا کے افسانوی کردار سے محبت اور محبت کی حقیقی داستان، شیرین اور فرہادکا مزار ضلع آواران کے علاقے جھاؤ میں واقع ہے ا س کے لیے یہ مزار بھی آواران کے لیے تاریخ بن چکا ہے۔خضدار ، قلات ، آواران کے پہاڑوں میں انمول خزانے چھپے ہوئے ۔ خضدار میں ماربل، کرویٹ، بیرائیٹ، لڈاینڈ زنک متفق دیگر قیمتی دھاتیں موجود ہیں۔خضدار کی زمین کی پیداوار کے لحاظ سے بھی زرخیز یہاں تمام پیداوار کی اجناس، پھل اور سبزیوں کی پیداوار ہوتی ہے، جب کہ یہاں زمین کاٹن کی کاشت کی پیداوار ہوتی ہے۔ آپ کے لیے اور یہاں کے لوگوں کے لیے اچھی خاصی حاصل کرتے ہیں۔ خضدا ر زیتون، مورنگا، شہتوت، انار، انگور، بادام،کھجور، کے نشان کے نشانے پر ہیں۔ خضدار گلہ بانی  اور زراعت کے لیے مشہور ہے۔   


-تانبا (Copper) : چا خضدار کی معدنی دولت -چا غی میں سیندک اور ریکوڈک جیسے مقامات پر اس کے بڑے ذخائر ہیں جن کے تخمینے پانچ بلین ٹن سے بڑھ کر یا کہیں بڑھ کر بتائے جاتے ہیں۔ایلومینیم (Aluminum) : اس کے بڑے ذخائر ہیں زیارت اور قلات کے علاقوں میں۔ قسم کے لحاظ سے یہ باکسائٹ (Bauxite) اور لیٹرائٹ (Laterite) کہلاتے ہیں۔  سیسہ اور جست (Lead and Zinc) :خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں ان کے کم وبیش ۶۰ ملین ٹن سے زیادہ ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی کیرتھر بیلٹ کے علاقے دودّر میں بھی کوئی دس ملین ٹن کا ذخیرہ ملا ہے  کرومائٹ (Chromite) :مسلم باغ اور خضدار ، لس بیلہ کے علاقے میں ملتا ہے مگر ذخائر محدود ہیں ۔ مسلم باغ میں اس کی چھوٹے پیمانے پر کام کنی بھی ہوتی رہی ہے۔  سونا : چاغی میں سیندک اور ریکوڈک کے مقام پر مناسب مقدار میں ہے۔ چاغی میں چاندی ، مولی بڈنم (Molybdenum) ، یورینیم اور ٹنگسٹن (Tungsten) بھی کچھ مقدار میں ہے۔ وہا (Iron) : چاغی میں آتش فشانی چٹانوں میں ملا جلا لوہا بھی کوئی ا یک سو ملین ٹن کے لگ بھگ ہے اور زیادہ بھی ہوسکتاہے۔ پلاٹینم (Platinum) : مسلم باغ ، ژوب ، خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں موجود ہے ۔


ٹائی ٹینیم اور ذِرکن (Titanium & Zircon): یہ مکران کی ریت میں پائے گئے ہیں۔ مکران اور سیاہان کے علاقے میں اینٹی منی (Antimony) اور سونا چاندی بھی کچھ ملا تھا۔ غیر دھاتی منرلز  : ایلم (Alum) : یہ مغربی چاغی میں کو ہ سلطان آتشِ فشاں پہاڑ سے نکلتا ہے اور رنگسازی اور چمڑے کی صنعت میں کام آتا ہے۔ بیرائٹ (Barite) : کو ہ سلطان ، چاغی ، لس بیلہ اور خضدار کے علاقوں سے نکلتا ہے۔ رنگوں اور ڈرلنگ کمپاؤنڈز بنانے میں کام آتا ہے۔ ایس بسٹاس (Asbistos): ژوب سے نکلتا ہے۔ بیرائٹ (Barite) : کو ہ سلطان ، چاغی ، لس بیلہ اور خضدار کے علاقوں سے نکلتا ہے۔ رنگوں اور ڈرلنگ کمپاؤنڈز بنانے میں کام آتا ہے۔ فلورائیٹ (Fluorite) : قلات میں دالبندین اور آس پاس کے علاقوں میں اچھے ذخائر ہیں ۔جپسم (Gypsum) : یہ اسپن تنگی، ہرنائی اور چم لانگ کی طرف ملتا ہے۔ چونے کا پتھر (Limestone) : بلوچستان میں بھرا پڑا ہے۔ ذخائر پانچ بلین ٹن کے اندازوں سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ سیمنٹ بنانے میں کام آتا ہے۔ دکی ، بارکھان ،کوئٹہ ، ہرنائی ، شاہرگ ، خضدار ، قلات اور لس بیلہ کے علاقوں میں بھرپور ملتا ہے۔ ڈولومائٹ (Dolomite) : قلات اور خضدار میں لائم سٹون کے ساتھ ملتا ہے۔ سجاوٹی پتھر: جیسے ماربل (Marble) ،آنکس (Onyx) ، سرپینٹین (Serpentine) ، گرینائٹ (Granite) ، ڈائیورائٹ (Diorite) گیبرو (Gabbro) ، بسالٹ (Basalt), رائیو لائٹ (Rhyolite) اور کوارٹزائٹ (Quartzite) بلوچستان میں چاغی، خضدار ، لس بیلہ کی طرف بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لس بیلہ کے سجاوٹی پتھروں میں سربینٹین ، پکچر مارل سٹون، ریفل (Reefal) ، لائم اسٹون ، ماربل اور کئی قسموں کا فریکچرڈ لائم اسٹون مقبول ہیں اور کراچی کی کاٹج انڈسٹری کو سپلائی ہوتے ہیں جہاں ان سے فرش کے اور دیواروں کے لیے ٹائلز اور آرائشی برتن وغیرہ بنا کر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ ابریسوِز (Abrasives) :یہ وہ سخت قسم کے منرلز ہوتے ہیں جن کی مدد سے دوسرے منرلز کو، جو نسبتاً نرم ہوتے ہیں ، کاٹا جاتا ہے اور پالش کیا جاتا ہے۔ مثلا گارنٹ (Garnet) ، پامس (Pumice) ،پارلائٹ (Parlite) اور بسالٹ (Basalt) وغیرہ۔ یہ سب چاغی کے علاقے میں دستیاب ہیں اور کچھ ژوب کی طرف۔ فرٹیلائزر ( Fertilizers): پوٹا شیم چاغی اور کچھی ڈسٹرکٹ میں، نائٹریٹ چاغی میں اور 


فاسفیٹ بولان پاس کے علاقے میں ملتا ہے۔ میگنیشیم خضدار ، قلات ، مسلم باغ اور ژوب کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ رنگ سازی کی مد میں -- ذرد آکر (Ochre) زیارت، ڈسٹرکٹ میں ملتا ہے اور ٹالک (Talc) زیارت مسلم باغ کی طرف ۔ نمکیات (Salts) : اس مد میں ہم بوریکس (Borax) ، بوریٹس (Borates) اور سلفائڈ اور کاربونیٹس (Carbonates) کا نام لے سکتے ہیں، جو چاغی، لس بیلہ ، پنجگور اور مکران کی طرف ملتے ہیں جہاں نمک بھی ہوتا ہے۔گندھک : چاغی میں اور کچھی ڈسٹرکٹ میں ملتی ہے۔ میگنی سائٹ (Magnesite) :ژوب ، مسلم باغ اور لس بیلہ کے علاقوں کی آتشی چٹانوں کے ساتھ ملتا ہے ، جن کے لاولے کے ساتھ مینگنیز (Manganese) بھی ملتا ہے۔ سیلسٹایٹ (Celestite) : یہ کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، بارکھان اور لورالائی کی طرف پایا جاتا ہے۔ جم سٹونز (Gemstones) : بلوچستان میں اتنے اچھے جم اسٹونز نہیں جیسے شمالی پاکستان میں ہیں۔ قابل ذکر پتھر یہ ہیں : گارنٹ (Garnet) وغیرہ ، سفید اور ہراکوارٹز (Quartz) جسے بلّور یا سنگ مردار بھی کہا گیا ہے۔ اقسام کے عقیق (Agates) ، فیروزہ (Turquoise) ،کری سوکولا (Chrysocolla) ، مالاکائٹ (Malachite) ، ذِرکن (Zircon) ، جیڈ (Jade) ،جاسپر (Jasper) ، لاپس لزولی (Lapis Lazuli) یعنی لاجورد وغیرہ ۔سٹ رین (Citrine) ، آئیڈوکریز (Idocrase) ،کرسوپریز (Chrysoprase) اور ایمی تھسٹ (Amethyst) وغیرہ بھی ملتے ہیں مگر کوالٹی اور مقدار کا انداز کم ہے۔ بلوچستان میں سلی کا سینڈ (Silica Sand) بھی ملتی ہے اور سرمہ (Stibnite= Antimony Sulphide) بھی چمن فالٹ کے ساتھ کچھ ملا تھاگیس: روایتی (Conventional) گیس کے ذخائر زیادہ ہیں مگر ایسے آثار ہیں کہ غیر روایتی گیس (Unconventional Gas) کے ذخائر بھی بڑی مقدار میں مل سکتے ہیں۔ جیسے غازج شیل (Ghazij Shale) قدرتی گیس سے بھرا ہوسکتا ہے اور بہت سی شیل فارمیشنز ہیں۔کوئلے:جی ایس پی کے مطابق ، کوئٹہ ، مچھ ، شاہرگ اور اسپن کاریز کے اطراف میں کوئی ۲۱۷ ملین ٹن کوئلہ موجود ہے

 

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر