انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے بھارت کے دارلحکومت دلی کواز سرنو بسانا شروع کیا تو معتدل موسم کے لیئے انہوں نے جگہ جگہ نیم کے پیڑ لگوادیئے تھے۔راجستھان کے جودھپورعلاقے میں نیم کا پیڑ روز مرّہ کی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے جہاں ہرگاؤں میں نیم کے سایہ دار پیڑ کی چھاؤں لوگ بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نیم کےسایے میں دوسرے درختوں کی چھاؤں کی نسبت دو تین ڈگری درجہ حرارت کم رہتا ہے۔روایتی طور پر نیم کا استعمال مختلف بیماریوں سے بچنے اور ان کے علاج کے لیئے بھی کیا جاتا ہے۔ بچوں میں بخار یا چیچک جیسی بیماری کی صورت میں نیم کی پتّیاں ان کے بستر پر بچھائی جاتی ہیں۔خارش، تیزابیت، اور سورائسس جیسی بیماری میں نیم کو جلد پر لگانے سے آرام ملتا ہے اور ابال کر پینے سے اسہال کے مریض کو فائدہ ہوتا ہے۔
گرمیوں میں سردیوں کے کپڑوں کو کیڑوں سے بچانے کے لیے نیم کی پتیوں کو کپڑے میں رکھا جا تا ہے۔ خشک سالی کے سبب جن علاقوں میں چارہ نہیں اگتا وہاں جانور نیم کی پتّیاں کھاتے ہیں اور نمکولی سے عمدہ قدرتی کھاد بنائی جاتی ہے۔ نیم کا سب سے زیادہ اور عام استعمال مسواک کے طور پر کیا جاتا ہے۔جدید سائنٹفک دریافت کے مطابق نیم کی چھال سے نکلنے والا تیل بہت اہم ہوتا ہے اوراس میں موجود بعض زہریلے مادوں کا استعمال فنگس کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔
ہندوستان میں نیم فاؤنڈیشن کے ہیڈ ڈاکٹر رمیش سکسینا نے جنوبی ایشیا، فلپیائن، مشرقی افریقہ اور آسٹریلیا میں پہلی بار نیم کو ایک قدرتی زہر یعنی کیڑے مار دوا کے طور پر متعارف کیا تھا۔ سکسینا کا کہنا ہے کہ ’نیم ان کے رگ رگ میں بسا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ نیم دنیا بھر میں بخار، ڈینگو، ملیریا اور ایڈس جیسی جان لیوا بیماریوں پر قابو پانے موثو رول ادا کرسکتا ہے‘۔ان کا کہنا ہے کہ نیم سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے بھارت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے مطابق چین اور برازیل نیم کی خوب کھیتی کر رہے ہیں اور وہ جلد ہی بھارت کو پچھے چوڑ دیں گے۔نیم سے بنی آیرویدک دواؤں کے صحیح استمعال کے لیے حکومت نے دلّی میں ایک روایتی علوم پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری قائم کی ہے۔اس لائبریری کے ڈائریکٹر ونود گپتا کہ کہنا ہے ان کی ٹیم نے ہزاروں قدیم نسخوں کو جدید طبّی اصطلاحات میں تبدیل کیا ہے جو آن لائن لائبریری میں عام لوگوں کے لیئے دستیاب ہیں۔تاریخی ،طبی،زرعی اور ماحولیاتی اہمیت کی بنا پر ایک انمول نعمت ہے
جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مواصلات، طب اور صنعت میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون نے دنیا کو آپس میں جوڑ دیا ہے، لیکن اس ترقی کے ساتھ آلودگی کا مسئلہ بھی بڑھتا گیا ہے۔ صنعتی کارخانوں، گاڑیوں، اور فضلہ کے نامناسب انتظام نے ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کردیا ہے۔اس طرح آج کی دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی، مصنوعی اشیا اور کیمیائی مرکبات نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بہتر یا آسان بنایا ہے، وہیں فطری عناصر کی اہمیت بھی کم نہیں ہوئی ہے۔جدید زندگی کے ہر شعبے میں مصنوعی اشیاء کے وسیع استعمال نے انسان کو تباہ کردیا ہے۔ لباس سے زراعت تک ہر چیز مصنوعی ہوکر رہ گئی ہے، اور انسان وقتاً فوقتاً فطرت کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بسا اوقات لگتاہے دوری اور فاصلہ مزید بڑھ گیا ہےبیسویں صدی کے اوائل اور وسط کے مصنوعی کیمیکلز پر انحصار کے دور نے تمام بیماریوں، اور بیماریوں کے علاج کے طور پر نئے کیمیکلز کو فروغ دیا -
دنیا نے فطرت سے بھاگنا چاہا اور آج بھی بھاگ رہی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ احساس ہورہا ہے کے انسان فطرت سے دور نہیں رہ سکتا، اُسے پلٹنا ہوگا ور لوٹنا ہوگا اپنی اصل کی طرف… اور درخت، جنگل یہ سب اس کی فطرت کا حصہ ہیں۔ درخت زندگی ہیں اور ان ہی درختوں میں نیم کے درخت کو ایک انفرادیت حاصل ہے۔نیم کا درخت (Azadirachta indica) اپنے بیش بہا فوائد اور تاریخی اہمیت کے ساتھ اونچا، مضبوط، گھنیرا، خوب صورت اور مشہور درخت ہے۔ یہ درخت بڑ کی مانند چاروں طرف پھیلتا ہے۔ ایک ہرا بھرا، گھنا، سایہ دار اور ماحول دوست اور آلودگی دور کرنے والا درخت، جس کی گہری جڑیں مضبوطی سے زمین میں پیوست ہوتی ہیں، اس کا تنا سڈول اور بھاری بھرکم ہوتا ہے، اور قد بھی بہت بلند نہیں ہوتا۔درخت کی شاخیں پھیلی ہوئی اور صحت مند ہوتی ہیں، ان پر سرسبز کونپلیں اور پھل جس کو ’نمکولی‘ کہتے ہیں، بہت بھلے اور خوبصورت لگتے ہیں۔ نمکولی جب پکنے پر آتی ہے تو اس میں قدرے مٹھاس سی آجاتی ہے۔ پرندے اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ یہ درخت 20 سے23 میٹر بلند اور 4 سے5 فٹ موٹے تنے کے ساتھ تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے۔نیم کا درخت ایشیا اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں پایا جاتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے طبی، ماحولیاتی اور زرعی فوائد کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے
قدیم ہندو دھرم کی کتابوں، آیورویدک نصوص آیوروید میں نیم کو ’’دوا کی دکان‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کے پتّے، چھال، پھل اور بیج… ہر ایک میں مختلف بیماریوں کے علاج کی خصوصیات موجود ہیں۔بنیادی طور پر ایشیا، افریقہ، امریکا، آسٹریلیا اور جنوبی بحرالکاہل کے جزائر کے خشک علاقوں اور ہندوستان میں یہ بہت سی ریاستوں میں وسیع پیمانے میں موجود ہے۔ انیسویں صدی میں جب انگریزوں نے بھارت کے دارالحکومت دلی کو ازسرنو بسانا شروع کیا تو معتدل موسم کے لیے انہوں نے جگہ جگہ نیم کے پیڑ لگوا دیے تھے۔میانمر کے وسطی حصوں میں نیم کا درخت بہت عام ہے۔ جنوبی بحرالکاہل اور جزائر فجی میں بھی پایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں اسے پہلی بار تقریباً 60-70 سال پہلے متعارف کرایا گیا تھا۔ نیم کا درخت انڈونیشیا میں جاوا کے نشیبی شمالی اور مشرقی حصوں اور مشرق میں فرئیر جزائر (بالی، لومبوک، سمباوا) میں موجود ہے۔ فلپائن میں اسے پچھلی صدی کی ستّر اور اسّی کی دہائی کے دوران متعارف کرایا گیا تھا۔ چین میں A. indica کوہینان اور جنوبی چین کے ذیلی ٹراپیکل جزیرے پر لگایا گیا تھا۔ نیپال میں نیم کے درخت جنوبی نشیبی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
سری لنکا میں یہ جزیرے کے خشک شمالی حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایران میں، جزیرہ نما عرب میں عراق میں شط العرب کے ساحل کے ساتھ نیم کے درخت اگتے ہیں۔ قطر اور ابوظہبی میں نیم کو آب پاشی کے تحت سڑکوں اور پارکوں کے ساتھ صاف شدہ سمندری پانی کا استعمال کرتے ہوئے لگایا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ کے قریب میدانِ عرفات میں حجاج کرام کو سایہ فراہم کرنے کے لیے ایک بڑی شجرکاری کی گئی تھی۔گرمیوں کے مہینوں میں برصغیر پاک و ہند کے شمالی حصوں میں نیم کے درخت کے نیچے کا درجہ حرارت اردگرد کے ماحول سے تقریباً 10 ڈگری سینٹی گریڈ کم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نیم کا درخت قدرتی ایئرکنڈیشنر کے طور پر کام کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مکمل نیم کے درخت کی موثر ٹھنڈک فراہم کرنے کی صلاحیت 10 ایئرکنڈیشنر کے برابر ہے۔ نیم کا درخت نہ صرف ہوا کو صاف کرتا ہے بلکہ انحطاط شدہ مٹی کی صحت کو بحال کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نیم کے درخت کے ذریعے بنجر زمینوں کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا ماحولیاتی علاج کے طور پر اس کی قدر کی ایک اور شاندار مثال ہے۔
قریباً دودہائی قبل میدانِ عرفات میں تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر 50,000 نیم کے درخت لگائے گئے تھے تاکہ حج کے دوران مسلمانوں کو سایہ فراہم کیا جاسکے۔ نیم کے ان باغات نے علاقے کے مائیکرو کلائمیٹ، مائیکرو فلورا، مائیکرو فائونا، اور ریت کی مٹی کی خصوصیات پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔ جب یہ درخت مکمل طور پر اگ جائیں گے، تو یہ باغات 20 لاکھ حاجیوں کو سایہ فراہم کرنے کے قابل ہوں گے۔پاکستان میں بھی نیم کے درخت کا استعمال مختلف بیماریوں کے علاج میں کیا جاتا ہے۔ اس کے پتّوں، چھال اور بیجوں کے عرق کو مختلف طبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم کے پتّے اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل، اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات رکھتے ہیں جو جلد کی بیماریوں، دانتوں کے مسائل اور مختلف انفیکشنز کے علاج میں مؤثر ہیں۔
ہ درخت، بڑ کی مانند چاروں طرف پھیلتا ہے۔ اس کا تنا بھی موٹا ہوتا ہے۔ جب یہ درخت پرانا ہو جاتا ہے تو اس میں سے ایک قسم کی رطوبت خارج ہونا شروع ہو جاتی ہے جو نہایت شیریں ہوتی ہے۔ لوگ اس کو جمع کرکے بطور خوراک استعمال کرتے ہیں۔ اس کے پتے بھی طبی خواص رکھتے ہیں۔ اس کے جوشاندے میں نہانے سے خارش دور ہو جاتی ہے۔ زخموں پر بھی باندھے جاتے ہیں۔ یہ بہترین جراثیم کش درخت ہے اور جراثیم کشی میں استعمال ہوتا ہے۔
جواب دیںحذف کریں