منگل، 27 جون، 2023

اصفہا ن ۔نصف جہان

صوبہ اصفہان ایران کے مرکز میں  واقع شہر اصفہان  ایک ایسا نادر روزگار شہر ہےجو  محصولات بنانے کا سب سے بڑا مرکز ہے- صفوی فرمانرواوں نے اس شہر کو اپنے دور میں بہت ترقی دی - اس صوبے کا مرکزی شہر اصفہان  ہے جو  ایک قدیم شہر ہے اور ایران کے  مرکز اور زایندہ رود کے کنارے پر واقع ہے-  ایران کی تہذیب میں یہ شہر نصف جہان کے نام سے مشہور ہے- اصفہان، تہران اور مشہد کے بعد ایران کا سب سے گنجان آباد  شہر ہے- اس شہر میں بہت ساری تاریخی  عمارتیں موجود ہیں  جن میں سے بعض  کے نام تاریخی ورثے کے زیر عنوان یونسکو میں لکھے گئے ہیں- چہل ستون کا باغ شاہ عباس کے عہد میں بنایا گیا ہے جس کے درمیان چہل ستون کی عمارت موجود ہے- ہشت بہشت کی تاریخی عمارت صفوی بادشاہوں کا محل تھا جو 1080ھ میں بنایا گیا ہے- اس تاریخی جگہ کا باغ اپنی اصل حالت میں باقی نہیں  رہا مگر اس کا محل اب بھی دیکھنے کے قابل ہے- اس دہائی میں اس محل کے اردگرد ایک بڑا شاندار پارک بنایا گیا تھا جس نے اس محل کی خوبصورتی کو دگنا کر دیا ہے- عالی قاپو کی پانچ منزلہ عمارت کو  بارہویں صدی ہجری کی ابتدا میں شاہ عباس اول کے حکم پر بنایا گیا تھا اور بادشاہ اس محل میں سفیروں اور عالی مرتبہ مہمانوں سے ملتے تھے اور اسی محل کے تالار سے مہمانوں کے ساتھ چوگان، آتشبازی اور  چراغانی جیسے کھیلوں کو دیکھتے تھے- اصفہان کے مینار جنبان  کی شہرت اس کے دو میناروں کے لرزنے کی وجہ سے ہے- ایک مینار کے لرزنے سے پوری عمارت لرزنے لگتی ہے- ہر مینار کی لمبائی 17 میٹر ہوتی ہے- اس عمارت کا ایوان مغل معماری کی طرز پر بنائیا گیا ہے- ایسا کہا جاتا ہے کہ دو میناروں کو  اس میں  اضافہ کیا گیا ہے-ایوان میں چچا عبداللہ کے نام سے ایک قبر ہے جو مغل عہد کے ہمعصر تھے- اللہ وردی خان کا پل ایران کے پل بنانے کی معماری میں بڑا شہکار ہے- یہ پل سی و سہ (33) پل کے نام سے مشہور ہے اور 1005ہجری کو شاہ عباس اول کے عہد میں اللہ وردی خان کی زیرنگرانی میں زایندہ رود پر بنایا گیا ہے- اس پل کا طول 3000 میٹر ہے اور اس لحاظ سے زایندہ رود کا سب سے لمبا پل ہے- خوبصورتی اور عظمت کے لحاظ سے یہ پل بہت منفرد ہے- پل خواجو بھی تیموری دور میں بنایا گیا اور شاہ عباس دوم کے دور میں اس کی مرمت ہوئی اور آج کے روپ میں ڈھل گیا- شاہ کے عارضی قیام کے لیے اس پل کے بیچ میں ایک عمارت بنائی گئی جو بیگلر بیگی کے نام سے مشہور ہے- اس پل کا اصل نام شاہی پل ہے اور خواجو محلے کی مجاورت کی وجہ سے  یہ دو صدی میں پل خواجو کے نام سے مشہور ہو گیا ہے- صوبہ اصفہان کے دیگر تاریخی سیاحتی جگہوں کے نام حسب ذیل ہیں: آران اور بیدل نمک کا جھیل، سیلک کی پہاڑی، مارنان کا پل، ابیانہ گاۆں، گوگد کا گڑھ، شیخ بہائی کا گڑھ، توحید خانہ کی عمارت، وانک کا گرجا، زایندہ رود کا ڈیم، چار باغ کا مدرسہ، شیخ لطف اللہ کی مسجد، تخت فولاد اصفہان کا قبرستان، باقوشخانہ مینار، برسیان مینار، مرنجاب کا کاروانسرا، نیاسر کا جھرنا ایرانی صوبہ بہت عرصہ تک ہم سنتے رہے  اصفہان نصف جہان ہے ۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ اصفہان شہر فن تعمیرکے لحاظ سے ہے نفیس شہر شت بہشت محل (انگریزی: Hasht Behesht؛ فارسی: کاخِ ہشت بہشت اصفہان) اصفہان میں واقع ایک شاہی محل ہے جو 1669ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ محل شاہ عباس دوم کے دورِ حکومت میں تکمیل کو پہنچا۔


ہشت بہشت اصفہان میں سترہویں صدی میں تعمیر کیے جانے والے خوبصورت ترین محلات میں سے ایک ہے۔ ہشت بہشت کی تعمیر 1080ھ/ 1669ء میں تکمیل کو پہنچی۔ اِس محل کی چالیس شاہی عمارات میں سے صرف ایک باقی ہے جو محفوظ کرلی گئی ہے۔ یہ محل ادارہ برائے ثقافتی و وراثت و دستکاری و سیاحت ایران کی تحویل میں ہے اصفہان شہر اپنی دستکاری کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ دستکاری کے فنکار دنیا بھر میں شہرت یافتہ ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبہ اصفہان میں دستکاری کے فن پارے ایرانیوں اور غیر ملکی سیاحوں کے گھروں کی زینت ہیں ۔ اصفہان کے چاندی کے زیورات اپنی مثال آپ کسی بھی ملک کی شناخت اس کی قدیم تہذیب و ثقافت کی تاریخ سے اجاگر ہوتی ہے۔ ایران اپنی قدیم تہذیب کے توسط سے دنیا کی تاریخ میں تہذیب یافتہ ملکوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے ۔ ایرانی تہذیب کا مظہر ایرانی آباو اجداد کے فن پاروں سے پایا جاتا ہے ۔ ایران کی دستکاری کو اگر ہم مشاہدہ کریں تو ثقافت اور تاریخ کی گہری جڑیں پائی جاتی ہیں۔ قبل از اسلام اور بعد از اسلام کی تاریخ میں یہ فن پارے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایران کے صنعت دستکاری دنیا کے تمام ممالک سے الگ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں دستکاری فنون لطیفہ کا ایک حصہ ہے ۔ ایران کی  سر زمین فنی ورثہ سے بہت غنی ہے ۔ ایران کے لوگ سچے فنکار ہیں جو تمام شعبوں جیسے فن تعمیر، مصوری، قالین سازی، لکڑی کی تراشی کاشی سازی (ٹائل) خطاطی میں بے مثال ہیں۔

اسلام کے بعد سامانیوں کے دور سے لے کر سلجوقی دور تک فن تعمیر کے بے مثال شاہکار نظر آتے ہیں۔ صنعت کو تاریخ اور تہذیب کا عکاس سمجھا جاتا ہے ۔ یہ صنعتیں در حقیقت لوگوں کی ثقافت اور ان کی صلاحیتوں اور مہارت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جو ملک کی معیشت پر بھی گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ ایران کی حکومت بھی دستکاری اور ثقافت کی سرپرستی کرتی ہے اور اس کو فروغ دینے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے ۔ ایران ہر سال دستکاری کے عالمی دن کی مناسبت سے روایتی اور ثقافتی  اشیاء کی نمائش کا اہتمام کرتا ہے ۔ ایران دستکاری کے شعبے میں چین اور ہندوستان کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے جو دستکاری کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ دستکاری کی عالمی فہرست میں ایران کا صوبے اصفہان رجسٹرڈ رپورٹ کے مطابق، مینیئیچر آرٹ ، خاتم کاری، مینا کاری، قلم زنی ، قلم کاری، معرق کاری ، منبت کاری ، خامہ بافی اور گلیم بافی وغیرہ کے بہترین نمونے اس نمائش میں پیش کئے گئے ہیں جہاں آرٹ اور ہنر کے دلدادہ افراد، ایرانی آرٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہاں پر پیش کئے جانے والے ایرانی آرٹ کے نمونوں میں فیروزے سے سجے اور تانبے سے بنے ایسے برتنوں کو بھی پیش کیا گیا ہے جنہیں ایرانی اور غیرملکی سیاح دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں ۔

اس نمائش میں ڈیکوریشن کی اشیا کے علاوہ ایرانی آرٹ کو روزمرہ کے استعمال کے وسائل کی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے جس کا نوجوان نسل نے خصوصی طور پر خیرمقدم کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ایران کے دستکاری کے نمونوں کا دو تہائی حصہ اصفہان شہر اور اس کے مضافات میں تیار کیا جاتا ہے۔اس شہر میں موجود متنوع دستکاری کے پیش نظر سن دو ہزار پانچ میں اصفہان کو یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک میں شامل کیا گیا تھا اور دستکاری کی عالمی کمیٹی نے، مرکزی ایران میں واقع اس شہر کو دستکاری کا عالمی شہر قرار دیا تھا-ایرا نصنعت دستکاری میں دنیا کےدوسرے ممالک سے بہت آگے ہے۔ قالین بافی  ایران کی ایک بہت اہم صنایع دستی (دستکاری) ہے  جو دنیا بھر میں بہت مشہور ہے ۔ ایرانی قالین سر زمین ایران کے تمدن و فرھنگ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ تقریباً ہزار سال سے ایرانی قالین بانی کا ہنر اس قوم میں پایا جاتا ہے۔ سر زمین ایران کے روایتی انداز سے بنے  ہوئے قالین تیزا ور شوخ رنگوں میں پھولوں کے ڈیزائنوں کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ایران کے شہر اور گاوں  میں بہت سارے ایسے افراد ہیں جو قالین بنانے مہارت  رکھتے ہیں اور ایسے مراکز ہیں جو یہ ہنر سکھاتے ہیں۔ مشہور ترین مراکز جہاں قالین بافی ہوتی ہے وہ کاشان، اصفہان، تبریز، مشھد، یزد، کرمان ہیں۔ شہر اور گاؤں میں سب سے مہنگا قالین ابر شیم سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ ایران کی قالین بافی  کی صنعت زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بھی ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ایرانی قالین کی بہت مانگ ہے ۔  تبریز قالینوں کے عالمی شہر کے طور پر بہت شہرت رکھتا ہے ۔ اور اس شہر کے ہاتھ سے بنے ہوئے قالین دنیا کی بہت ساری نمائیشوں میں رکھے گئے جنہیں شائقین کی طر ف  سے بہت زیادہ  پذیرائی ملی ہے۔اصفہان میں قائم ایک اور فن مینا کاری ہے۔ اس کے علاوہ شہر اصفہان خاتم کاری کے لئے بھی بہت شہرت رکھتا ہے ۔دستکاری  کی عالمی فہرست میں ایران کے صوبے اصفہان ایک سو تئیس سے زائد دستکاری کی مختلف اشیاء کے ساتھ پہلا شہر ہے  جو عالمی فہرست میں رجسٹرڈ ہے ۔ ایران کے  سارے  شہر کسی نہ کسی صورت میں دستکاری  کے شعبے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ دستکاری کی عالمی فہرست میں ایک اور ایرانی گاؤں صوبہ گیلان کا قاسم آباد ہے جو چادر شب  بافی کے لئے مشہور ہے ۔ چادر شب بافی  ایران میں بہت ہی مشہور  چادر ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر تحائف کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ جہیز میں بھی دی جاتی ہیں۔ ایران کا صوبہ ہمدان مٹی کی برتنوں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے  یہ مٹی کے برتن خوبصورت نقش و نگار کی وجہ سے بہت خوبصورت نظر آتے ہیں اور فنکار کے لطیف احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اپنی خوبصورت رنگ آمیزی کی وجہ سے عاملی شہرت رکھتے ہیں۔

ایران کے مختلف صوبو ں میں کڑھائی کا کام بھی کیا جاتا ہے تاہم زبخان کی کڑھائی دوسرے شہر وں کی نسبت زیادہ قدیمی اور اصلی ہے ۔ سیر جان قالی نما گلیم کی  منفرد بافت اور ساخت کی وجہ سے عالمی شہر کے طور پر رجسٹرڈ کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان قالیچوں کو بننے کے لئے کئی افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے ۔ اسے دوسرے گلیموں کی طرح ایک آدمی بن نہیں سکتا۔ صوبہ خراسان میں بھی چاندی کے زیورات بنانے کا فن نمایا ں ہے ۔ ایرانی قوم کے  اپنے تخلیقی جذبے اور فنکاروں کی تخلیق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ ایران کی دستکاری دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ فن مصوری ، ٹائل سازی، خاتم کاری، قالین بافی، مٹی کے برتن اور دستکاری کی دوسری اشیاء کے حوالے سے دنیا  بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔ ایران دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ایرانی دستکاری کے فن پاروں کو دیکھ کر اس قوم کی فنی صلاحیتوں کی تعریف کیے بغیر انسان نہیں رہ سکتا ہے۔

ایران نے دستکاری کے شعبے سے وابستہ افراد کو عالمی مارکیٹوں تک رسائی دینے اور ان کی تیار کردہ اشیاء کی فروخت کو ممکن بنانے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کر رہا ہے۔  ایران کے دستکاری کے خوبصورت فن پارے اپنی شناخت آپ رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے دستکاری کے فن پاروں میں پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی خوبصورتی ، رنگ آمیزی اور نزاکت اپنے دور کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے ۔ ہر ملک کی دستکاری اُس کے ہنر کو اجاگر کرتی ہےاور دنیا میں اپنی شناخت کراتی ہے ۔ ایرانی کارمند، ہنر مند اپنی ہنر اور مہارت سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے رپورٹ کے مطابق، مینیئیچر آرٹ ، خاتم کاری، مینا کاری، قلم زنی ، قلم کاری، معرق کاری ، منبت کاری ، خامہ بافی اور گلیم بافی وغیرہ کے بہترین نمونے اس نمائش میں پیش کئے گئے ہیں جہاں آرٹ اور ہنر کے دلدادہ افراد، ایرانی آرٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہاں پر پیش کئے جانے والے ایرانی آرٹ کے نمونوں میں فیروزے سے سجے اور تانبے سے بنے ایسے برتنوں کو بھی پیش کیا گیا ہے جنہیں ایرانی اور غیرملکی سیاح دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں ۔

اس نمائش میں ڈیکوریشن کی اشیا کے علاوہ ایرانی آرٹ کو روزمرہ کے استعمال کے وسائل کی شکل میں بھی پیش کیا گیا ہے جس کا نوجوان نسل نے خصوصی طور پر خیرمقدم کیا ہے۔قابل ذکر  بات یہ ہے کہ ایران کے دستکاری کے نمونوں کا دو تہائی حصہ اصفہان شہر اور اس کے مضافات میں تیار کیا جاتا ہے۔اس شہر میں موجود متنوع دستکاری کے پیش نظر سن دو ہزار پانچ میں اصفہان کو یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک میں شامل کیا گیا تھا اور دستکاری کی عالمی کمیٹی نے، مرکزی ایران میں واقع اس شہر کو دستکاری کا عالمی شہر قرار دیا تھا۔



اتوار، 25 جون، 2023

یونان کشتی حادثہ

 

یونان کشتی حادثہ  -انسانی اسمگلروں کا یہ تمام دنیا میں اتہائ منظّم طریقہ پر پھیلا ہوا وہ نیٹ ورک ہے جو یونان کشتی کوئ نِا حادثہ تو نہیں تھا چند مہینوں کے اندر یہ تیسرا بڑا حادثہ تھا حکومتی کارندوں کی خفیہ سرپرستی میں سالانہ بنیادوں پر کئ ارب روپئے کا بزنس کر رہا ہے -ٹوٹی کشتیاں کرائے پر لے کر کسی بھی ملک کے نوجوانوں کو اپنےکمیشن پر رکھّے ہوئے ایجنٹوں کے زریعہ ورغلا کر لاکھوں روپے بٹور کر معصوم نوجوانوں کو موت کے غار میں دھکیل کر پھر اگلے شکار کرنے نکل پڑتا ہے- یہ وہی مافیا ہے جس کو اقوام متحدہ نے اپنے ایک کنونشن کے مطابق اس کو آرگنائز کرائم قرار دیا ہے۔ جنرل اسمبلی کے ریزولیشن نمبر 54/212 میں تمام حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ اس آرگنائز کرائم کے سرغنوں اور گینگز کو پکڑا جائے تاکہ ہیومن اسمگلنگ کا قلع قمع ہو - اس ضمن میں تمام ممالک کواپنی لاان فورسز ایجنسیزکو فعال کرنا ہو گاتاکہ اس مافیا کا خاتمہ ہوسکے۔

یونان کشتی کوئ نِا حادثہ تو نہیں تھا چند مہینوں کے اندر یہ تیسرا بڑا حادثہ تھا -اس سے قبل چند ہفتوں کے کے فرق سے اٹلی کے پانیوں میں اور لیبیا کے سمندر میں بھی کافی بڑِ تعداد میں پاکستانی جاں بحق ہوئےلیکن مجال ہے جو کسی فرد یا کسی ادارے نے ان حادثات کا نوٹس لیا ہو-جہاں پائلوس کے جنوب میں 50کلو میٹر کے فاصلے پر یہ کشتی ڈوب گئی۔حادثہ کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ملاح تارکین وطن کو سمندر کے درمیان چھوڑ کر خود ایک چھوٹی کشتی میں فرار ہو گیا تھا۔ معلومات کے مطابق صوبہ پنجاب کے اضلاع منڈی بہائو الدین، گجرات، گوجرانوالہ، شیخوپورہ کے نوجوان بھی اس کشتی میں سوار تھے یونان میں پاکستانی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی ایک ٹیم یونانی حکام سے رابطے میں ہے اور ابتدائی معلومات کے بعد 12پاکستانیوں کو بچالیا گیا ہے ۔جن پاکستانیوں کو بچایا گیا ہے ان میں محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمن کا تعلق کوٹلی سے ہے ۔یونان کی عبوری حکومت نے کشتی کے اس بڑے حادثے کے پیش نظر ملک میں 3دن سوگ منانے کا اعلان کیا ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد 500سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں خوشحال خان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کیل سیکٹر کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یونان کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والوں میں اُن کا بھتیجا شبہاز محمود اور تین پڑوسی چوہدری آزاد، چوہدری ناصر اور نبیل بٹ بھی شامل ہیں۔وہ یاد کرتے ہیں کہ شہباز کو ’اس کے والد نے منع کیا، والد ہی نہیں بلکہ سب جاننے والوں نے منع کیا تھا کہ یہ کام نہ کرو۔مگر وہ لگ بھگ دو ماہ پہلے سعودی عرب سے واپس (پاکستان) آیا، گھر میں صرف پانچ دن رہا اور پھر یورپ  سفر پر روانہ ہو گیا۔‘خوشحال کے مطابق ان کے بھتیجے شہباز کے دو بچے ہیں اور وہ اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا۔انھوں نے کہا کہ ان کا بھتیجا بھی اُسی کشتی پر سوار تھا جسے یونان کے قریب حادثہ پیش آیا۔ شہباز نے کشتی پر روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر والوں کو اس بابت آگاہ کیا تھا۔یاد رہے کہ 14 جون کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا جسے یورپ میں تارکین وطن کو پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔کشتی ڈوبنے کے اس واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 104 افراد کو بچایا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے کہا کہ اس واقعے میں خواتین اور بچوں سمیت لگ بھگ 500 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔

یونان میں پاکستانی سفارتخانے کے اہلکاروں کے مطابق جس جگہ کشتی ڈوبی ہے وہاں سمندر انتہائی گہرا ہے۔بچائے جانے والے 104 افراد میں 12 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرانوالہ، گجرات، شیخوپورہ، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، گجرات اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔رپورٹس کے مطابق اس کشتی پر 750 سے زیادہ افراد سوار تھے جن میں سے 100 کے لگ بھگ بچے سوار کیئے گئے تھے-یونان نے اسے تاریخ کے بڑے کشتی حادثوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔دوسری جانب یونان میں پاکستان کےسفارتخانے نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر یونانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انھوں نے ایسے تمام پاکستانیوں سے گزارش کی ہے کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار یا جاننے والا اس کشتی پر سوار تھا تو اس سے متعلق شناختی تفصیلات ایتھنز میں پاکستانی سفارتخانے کو فراہم کی جائیں۔یونان میں کشتی حادثے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی کے کیل سیکٹر کے علاقے کے متعدد نوجوان سوار ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگ اس بارے میں متفرق اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔تاہم بی بی سی نے کوٹلی میں تین ایسے خاندانوں سے رابطہ کیا جن کے قریبی رشتہ داروں کو خدشہ ہے کہ ان کے پیارے اس کشتی پر سوار تھے اور اب وہ لاپتہ ہیں۔محمد مبشر کوٹلی کے رہنے والے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے چچا آفتاب قاسم اور ایک قریبی عزیز انعام شفاعت ماہ رمضان کے بعد اٹلی کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ پہلے پاکستان سے لیبیا پہنچیں گے، جس کے بعد ان کی منزل اٹلی تھی۔ وہ کافی عرصے سے گھر سے نکلے ہوئے تھے اور گاہے بگاہے اپنی خیریت سے آگاہ کرتے رہے تھے۔‘محمد مبشر کے مطابق ’چند دن قبل ہمیں اطلاع ملی کہ اُن کو لیبیا میں مسائل کا سامنا ہے اور فی الحال وہ لیبیا ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد پتا چلا کہ انعام شفاعت کشتی میں بیٹھ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئے ہیں جبکہ آفتاب قاسم ابھی بھی لیبیا میں ہیں۔ جب ہمیں اس حادثے کا پتا چلا تو ہم نے آفتاب قاسم سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ وہی کشتی ہے جس میں انعام شفاعت سوار تھے۔

محمد مبشر بتاتے ہیں کہ ان کے لیبیا میں موجود کزن آفتاب قاسم نے یہ بھی بتایا کہ اس کشتی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کیل سیکٹر کے کافی لوگ سوار تھے۔ انھیں تعداد کا اندازہ نہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ کشتی میں سوار کافی نوجوانوں کا تعلق ان ہی کے علاقے سے تھا اور وہ سب تقریباً ساتھ ہی اپنے علاقے سے نکلے تھے۔مبشر نے بتایا کہ گذشتہ دو روز سے ان کا لیبیا میں موجود آفتاب قاسم سے بھی رابطہ قائم نہیں ہو رہا ہے محمد مبشر کہتے ہیں کہ انھوں نے گاؤں کے لوگوں سے بات کی ہے اور ان کو جو تفصیلات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق کیل سیکٹر کے ایک گاؤں سے کافی تعداد میں افراد یورپ جانے کے لیے نکلے تھے۔کوٹلی ہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے مقصود نگڑیال نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس کشتی پر ان کے پانچ قریبی رشتہ داروں کے علاوہ علاقے کے دو درجن کے لگ بھگ افراد سوار ہو سکتے ہیں۔مقصود نگڑیال نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں حسیب اور عدنان بشیر کو بچا لیا گیا ہے۔ ’حسیب اور عدنان ہمارے ہی گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘مقصود نے دعویٰ کیا کہ اُن کی بچنے والے دونوں نوجوانوں سے بات ہوئی ہے جنھوں نے بتایا ہے کہ ’ہمارے علاقے کے 30 نوجوان کشتی پر سوار تھے۔‘مقصود نگڑیال کا کہنا تھا کہ ان لاپتہ افراد میں ان کے خاندان کے پانچ قریبی لوگ موجود ہیں جن میں شہباز محمود (چچا زاد بھائی)، حمید حسین (داماد)، خادم حسین (تایا زاد)، یوسف حسین (چچا زاد بھائی) اور مسکین (تایا زاد بھائی) شامل ہیںاگر حکومت قانونی طریقے سے باعزت طور پر ان نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے کا بندوبست کر ے تو اس سے نہ صرف ایسےحادثات سے بچا جاسکتا ہے بلکہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کی چوکھٹ پر ناک رگڑ نے سے بھی نجات مل سکتی ہے ۔اس کیلئے کوئی لمبا چوڑا بجٹ بھی درکار نہیں ۔ضرورت صرف اتنی ہے کہ نوجوانوں کو مختلف ممالک میں کار آمد ہنر سکھائے جائیں اور متعلقہ ممالک کی زبانیں سکھا کر سفارتی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ ہنر مندوں کو باہر بھیجا جائے ۔ جس طرح 2دہائیوں سے فلپائن ،بنگلہ دیش اور بھارت کر رہے ہیں۔ یقین رکھیں حکومت اگر اپنے نوجوانوں کا ہنر ایکسپورٹ کرنے کی منصوبہ بندی کرلے تو زرمبادلہ کے معاملہ میں خود کفیل ہو سکتی ہے۔۔

منگل، 20 جون، 2023

شہر لاہور میرے داتا کی نگری

  یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پرانے زمانے میں عوام النّاس  کی حفاظت کے لئے شہروں کے گرد فصیلیں تعمیر کی جاتی   تھیں قران پاک کے سورہ کہف میں بھی ایک شہر فصیل کا زکر ملتا ہے -جبکہ کراچی کی قدیم تاریخ میں جس فصیل کا زکر ہے اس کے دو دروازے تھے ایک کھارا در اور دوسرا میٹھا در -اب یہ نام باقی رہ گئے اور شہر فصیل معدوم ہو چکی ہے-اسی طرح لاہور شہر کے گرد تعمیر کردہ فصیل میں متعدد جگہوں پر دروازے بنائے گئے تھے۔ یہ علاقہ اب اندرون شہر کہلاتا ہے۔ مغلیہ دور میں قائم ہونے والے ان دروازوں کو دوبارہ تعمیر کی نیت سے انگریزوں کے دور میں گرا دیا گیا اور اْسی طرز پر پھر سے تعمیر بھی کیا گیا۔

یہ سب دروازے انیسویں صدی تک اپنی اصل حالت میں قائم تھے۔ مگر 1947ء کے فسادات میں کچھ دروازوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ بعدازاں کچھ دروازے شکست وریخت کا شکار ہو کر یا تو بالکل ختم ہوگئے یا کچھ کے محض آثار ہی باقی بچے ہیں۔ اب کتابوں میں صرف ان کے نام اور تاریخ ہی ملتی ہے۔ تاحال 13 میں سے صرف 6 دروازے ہی اب تک باقی ہیں۔ہمارا بظاہر قیام امریکہ میں ہے مگر ہمارا دل پاکستان کے دل داتا کی نگری شہر لاہور میں اٹکا رہتا ہے۔ اندرون شہر لاہور کی تفصیلی سیاحت تو شاید کبھی مکمل نہ ہو سکے البتہ ہر سال لاہور آمد پر اندرون شہر بلکہ اصل لاہور کا ایک پھیرا نہ لگا لیں۔ روح تشنہ رہتی ہے۔ دہلی دروازہ میں شاہی حمام بھی ایک تاریخی دریافت ہے جبکہ مسجد وزیر خان حقیقت میں تاریخی ورثہ ہے۔ بلند و بالا دیواریں اور شاندار گنبد ماہرین فن تعمیر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لاہور شہر کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم نشانی ’’مسجد وزیرخان‘‘ کے نام سے زمانے بھر میں معروف ہے۔ اس عظیم الشان مسجد اور تعمیر کے نادر نمونے کے بانی کا نام حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان ہے۔ حکیم صاحب شاہی خاندان کے خاندانی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گورنر پنجاب کے عہدے تک بھی پہنچے۔

حکیم صاحب پنجاب کے ایک قدیمی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تو ان کی وجہ سے زمانے بھر میں معروف ہوئی ہی تھی کہ انہوں نے گجرات کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج بھی وزیر آباد کے نام سے زمانے بھر میں جانا جاتا ہے۔ ان کی بہت ساری تعمیرات شہر لاہور میں شاہی حمام، مسجد نواب وزیر خان خود اور مسجد وزیر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کے نشان چنیوٹ اور وزیر آباد میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دہلی گیٹ کے علاوہ کھلی چھت کے رکشہ پر شام کی خوشگوار ہوائوں کے سنگ اندرون شہر کا چکر بھی لگایا۔

یکی گیٹ کا نام پہلے ذکی گیٹ ہوا کرتا تھا۔اور یہ نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کے گرد بہت سی حویلیاں اور مندر موجود ہیں۔ اکبری دروازہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر رکھا گیا۔جلال الدین اکبر نے ٹائون کے قریب ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی بنائی جس کا نام اکبری منڈی ہے اور یہ اب بھی ویسی ہی مقبول اور اعلیٰ معیار کی ہے جیسے پہلے تھی۔ یہ لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل کی مارکیٹ ہے۔ اکبری منڈی سے گڑ خریدا جس کا ذائقہ آج بھی ہمیں بچپن کی مٹھاس کی یاد دلاتا ہے۔ ٹیکسالی گیٹ اب موجود نہیں ہے لیکن یہاں کھانے بہت رنگ رنگ کے موجود ہیں جو کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ سکھوں کی مشہور مقدس عمارتیں پانی والا تالاب اور لال کھوہ یہیں واقع ہیں۔ شاہ عالمی گیٹ شہنشاہ بہادر شاہ کے نام پر رکھا گیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران اس گیٹ کو جلا دیا گیا اور اب بس اسکا نام باقی ہے۔ اس گیٹ کے قریب لاہور کی بڑی اور بہترین شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے کیونکہ اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔ بھاٹی گیٹ ایک بہت پرانے قبیلے بھٹی راجپوت کے نام پہ رکھا گیا۔ اسے لاہور کا چیلسی بھی کہا جاتا تھا۔ اسے علم و ادب کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ مغربی سمت میں واقع اس دروازے کا یہ نام اس لیے بھی پڑ گیا کہ جب شہر آباد ہونا شروع ہوا تو اس جگہ بھاٹ قوم آباد ہوئی۔ اصل دروازہ شکستہ ہونے پر انگریزوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔ بھاٹی گیٹ کی مشہور چیز اشیائے خوردنی کی مارکیٹ ہے اس کے علاوہ اس کی وجہ شہرت داتا علی ہجویری المعروف داتا صاحب کا دربار بھی ہے۔ یہاں علامہ اقبال کا بھی ایک چھوٹا سا کتب خانہ تھا جہاں وہ مطالعہ اور کتب بینی کے شغل کے لئے آتے تھے۔ کشمیری گیٹ کے نام کی بڑی وجہ اس کا رخ کشمیر کی طرف ہونا ہے۔

 کشمیری گیٹ کے اندر کشمیری بازار اور ایک خوبصورت گرلز کالج واقع ہے۔ کالج کی بلڈنگ مغل فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی سے سڑک نکل کر ایشیا کی سب سے بڑی کپڑے کی مارکیٹ اعظم مارکیٹ کو جاتی ہے جو اس کی مشہوری کی خاص وجہ ہے۔ دہلی گیٹ بہت اہم دروازہ ہے جو شہنشاہ اکبر نے بنوایاتھا۔ یہ گیٹ دہلی کی طرف کھلتا ہے اس لئے اس کا نام دہلی گیٹ ہے۔ یہ کسی زمانے میں لاہور دہلی ٹرانسپورٹ کا واحد راستہ تھا۔ آزادی کی تحریک کے دوران ہونے والے فسادات میں اس کو بہت نقصان پہنچا مگر اس کی تعمیر نو نے اس کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ مستی گیٹ شاہی قلعہ کی پشت پر واقع ہے۔ یہاں کی خالص دودھ کی بنی اشیا لاہور بھر میں مشہور ہیں۔ لاہوری گیٹ لاہور کا سب سے قدیم گیٹ ہے۔ چونکہ اس علاقے میں بہت سے لوہار تھے اور انہوں نے اس دروازے پہ بہت سی دکانیں بنا رکھی تھیں اسلئے اس کو یہ نام دیا گیا

۔ اب لوہاری گیٹ کے کلچر میں کھانا ہی کھانا ہے۔ لوہاری گیٹ کے سامنے لاہور کا مشہور زمانہ انارکلی بازار واقع ہے۔ موچی گیٹ کولاہور کا دل کہا جاتا ہے۔ یہ بھی مغل فن تعمیر ہے۔ یہاں جوتوں کی مرمت اور مینوفیکچر کے بہت کارخانے موجود ہیں۔ اس کے بالکل دائیں ہاتھ پہ موچی باغ ہے جو پرانے وقت سے اب تک سیاسی جلسوں کی آماجگاہ ہے اور بہت مشہور ہے۔ موچی دروازہ کے اندر موجود مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی مغل فن تعمیر کی  خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ روشنائی گیٹ روشنیوں کا دروازہ مشہور تھا۔ یہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔

جمعہ، 16 جون، 2023

شہر ٹھٹھہ صدیوں کی مسافت میں

 

 

 شہر ٹھٹھہ صدیوں کی مسافت میں-اور اس صدیوں کی مسافت نے بھی اس شہر کو پرانا نہیں ہونے دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج جوق در جوق سیاّاح اس کی قدیم تاریخ پڑھنے اس کے گلی کوچوں کی صحرا نوردی کرتے نظر آ تے ہیں-مغل بادشاہوں نے اپنے زریں دور سلطنت میں جو تعمیراتی یادگاریں چھوڑی ہیں ان میں بیش قیمت یادگار شاہجہاں مسجد ٹھٹھہ بھی ہے جو فن تعمیر کی  ایک مکمل دور کی عکّاس ہے - یہ مسجد مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 100 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے۔ عمارت کے گنبد فن تعمیر کا حسین نمونہ ہیں۔ اگرچہ عہد رفتہ نے اسے نقصان پہنچایا مگر آج بھی یہ فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے ۔اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے خطباء ایک ہی خاندان میں نسل در نسل چلے آرہے ہیں،اس وقت مسجد کے نویں خطیب حضرت علامہ عبد الباسط صدیقی ہیں۔یہ 1494 کی بات ہے جب مکلی کی پہاڑی کے ساتھ جام نظام الدین نے ایک شہر آباد کیا، چوں‌ کہ یہ پہاڑی کے نیچے واقع تھا، اس لیے مقامی لوگوں‌ نے اسے ‘‘تہ تہ‘‘ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں ٹھٹھہ ہو گیا۔

یہ سندھ کا قدیم اور مشہور شہر ہے جو منسوب تو جام نظام الدین سے ہے، مگر بعض مؤرخین کے مطابق ٹھٹھہ پہلے سے آباد ایک بستی تھی۔ مختلف حوالوں اور تذکروں کے مطابق محمد شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ ٹھٹھہ آباد تو بہت پہلے ہوا تھا، مگر اسے جام نظام الدین نندا نے اپنے دور میں تعمیر و توسیع کے عمل سے گزارا اور یوں یہ شہر جام نظام الدین نندا سے منسوب ہو گیا۔اس شہر میں کئی تاریخی آثار اور اس زمانے کی یادگاریں موجود ہیں جب کہ سندھ کے کئی عالم، درویش، حاکم اور امرا یہاں دفن ہیں۔تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ کئی نام وَر اس سرزمین سے اٹھے۔ یہ اہلَ علم و فنون بھی تھے اور ہنر مند بھی۔ٹھٹھہ کا ذکر کینجھر جھیل اور شاہ جہاں مسجد اور مکلی کے قبرستان کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ جھیل ٹھٹھہ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ایک خوب صورت تفریحی مقام ہے جس کی مناسب اور ضروری دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا حُسن ماند پڑ رہا ہے۔شہرہ آفاق مسجد کو چوں کہ شاہ جہاں کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے یہ شاہ جہاں مسجد کہلائی۔ کہتے ہیں یہ مسجد ٹھٹھہ کے صوبے دار میر ابوالبقا نے بنوائی تھی۔ اس کی تعمیر کا سن 1644 بتایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس زمانے میں اس کی تعمیر اور تزئین و آرائش پر 9 لاکھ خرچ ہوئے تھے۔مکلی کا قبرستان بھی ٹھٹھہ کی ایک وجہِ شہرت ہے۔ اس قدیم اور تاریخی قبرستان میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مخدوم ابو القاسم نقشبندی، مخدوم آدم نقشبندی، سید عبداللہ شاہ اصحابی، حضرت شاہ مراد شیرازی کے مزارات ہیں۔ یہ تمام مزارات اور دیگر قبریں اس دور کے فنِ سنگ تراشی اور نقاشی کا نمونہ ہیں۔جام نظام الدین نندا بھی اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔مکلی تقریباً 50 فٹ بلند ایک پہاڑی اور اس اطراف کے علاقے کا نام ہے جو ٹھٹھہ شہر سے مغرب کی طرف ہے۔ 20 میل کے پہاڑی سلسلے میں پھیلا، سندھ کی قدیم تاریخ کا لازوال شہرہ آفاق قبرستان، مکلی کا یہ پراسرارقبرستان ’ساموئی‘ سے شروع ہوتا ہے اور ’پیر پٹھو‘ پر ختم ہوتا ہے۔اس شہرِ خموشاں میں 14 ویں سے 18 ویں صدی عیسوی تک کے وہ بادشاہ مدفون ہیں جنہوں نے اپنے لیے شاندار مقبرے اور قبریں بنوائے تاکہ مرنے کے بعد وہ اُن میں طمطراق سے دفن ہوسکیں۔ ان میں سمہ، ارغون، ترخان اور مغل ادوار کے حکمران، سپہ سالار، ملکاؤں، گورنروں، صوفیوں، دانشوروں، فلسفیوں، امراء، خدا رسیدہ اور صاحبانِ کمال افراد کے علاوہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ 7 صدیوں کے راز دفن ہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل منظور کناسرو کے مطابق یہ عظیم الشان قبریں اور مقبرے عہد پارینہ کی یاد دلاتے ہیں جسے دیکھنے کےلیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔ ان مقبروں کی تعمیر کےلیے پتھر یا پختہ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں جو ضرب لگنے پر بجتی ہیں اور ٹوٹنے کی حالت میں شیشے کی طرح چمکتی ہیں۔ اینٹوں کی دیواریں منقش روغنی ٹائلوں سے مزین مقبرے کی دیواروں پر جو شجری نقوش ابھارے گئے ہیں وہ سندھ، راجپوتانہ اور گجرات کے فنِ سنگ تراشی کی پرانی روایات کے بہترین نمونے ہیں۔ ان مقبروں کی عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1980 کی دہائی میں ثقافتی اہمیت کے پیشِ نظر مکلی کوعالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ حال ہی میں مکلی کو عالمی ورثہ کمیٹی سے ڈی لسٹ ہونے کا خطرہ تھا۔ وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے پولینڈ میں یونیسکو کے سامنے بہترین انداز میں مکلی کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ محکمہ ثقافت کی کاوشیں رنگ لائیں، تبھی مکلی عالمی ورثے کی فہرست میں برقرار رکھا گیا اور عالمی ورثہ کمیٹی نے مکلی پر کیے گئے بحالی اقدامات کو تسلی بخش قرار دیا۔مکلی کی تاریخ پر پہلی عالمی کانفرنس -مکلی میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد اولیاء کرام، 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ مکلی میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد اولیاء کرام، 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ گزشتہ دنوں محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات کی جانب سے پہلی عالمی مکلی کانفرنس منعقد کی گئی کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، لبنان، ایران، اسپین اور وطن عزیز کے نامور محققین نے تاریخی مقبروں، مقامات، شاندار فن تعمیر، شاہجہان مسجد اور دیگر پر 22 تفصیلی و تحقیقی

 مقالے پیش کئے اور اپنے اپنے تجربے کی روشنی میں مکلی کی تاریخ پر نظر ڈالی -اس قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان اور دنیا کا گیارہواں بڑا قبرستان ہے، جو اپنے اندر سات صدیوں کے راز سموئے ہوئے ہیں، یہاں کم و بیش دس لاکھ مسلمان مدفن ہیں۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ مقبرے جاہ جلال اور شان و شوکت سے کھڑے ہیں، ان سے ماضی کی کئی سو سال پرانی ایک عظیم تہذیب وابستہ ہے۔ اس میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلی معیار کا ہے۔ اس قبرستان میں مغل، ترخان اور سمہ دور کی قبریں موجود ہیں۔ ان مقابر پر انتہائی نفیس انداز میں قرآنی آیات اور خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں۔ وہ قبریں جو کسی سردار یا کسی بزرگ کی ہیں ان پر خوبصورت مقبرے تعمیر ہیں۔ مقابر کی تعمیر میں سندھی ٹائلوں اور سرخ اینٹوں کا استعمال ہوا ہے۔ مزارات میں سرخ اینٹوں سے گنبد بھی بنائے گئے ہیں۔ قبروں کے تعویز اور ستونوں پر اتنا خوبصورت کام کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا کاریگروں کی تعریف کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔شاہی خاندانوں کے 80 سے زائد یادگار و مقبرے موجود ہیں جہاں بہت سے سلاطین، سردار، شہدا، علما کرام اور مسلمان مدفون ہیں۔ یہاں سندھ کے سابق حکمرانوں کی بھی قبریں ہیں۔ ان مقابر میں مغل سردار طغرل بیگ، جانی بیگ، جان بابا، باقی بیگ ترخان، سلطان ابراہیم اور ترخان اول جیسے علما، سردار اور دیگر نامور لوگ اس قبرستان کی پہچان ہیں۔

 

بدھ، 14 جون، 2023

حضرت بایذید بسطامی محفل عید میں

 

 

 حضرت بایذید بسطامی محفل عید میں-حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن سفر کے دوران  استغراق  کے عالم میں چلا گیا ،ایسے میں میرے قلب پر الہام ہوا کہ ائےبا یزید درّ سمعان چلے جاؤ اورعیسائیوں کے ساتھ انکی عید اور قربانی میں شریک ہو ، اس وقت وہاں تمھاری شرکت سے ایک شاندار واقعہ ظہور پزیر ہو گا ۔حضرت بایزید فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً اپنے آپ کو ہوشیار کیا اور لا حول پڑھ کر اپنے آپ سے کہا کہ میں اب ایسا شیطانی وسوسہ اپنے دل میں نہیں آ نے دوں گا لیکن رات کو پھر مجھے الہامی آواز نے متنبہ کیا اور وہی کچھ دہرایا جو دن میں میرے عالم استغراق میں کہا گیا تھا اس آواز کے سننے کے بعد میرے بدن پر کپکپی طاری ہو گئی اور اور پھر میں نے بار بار اپنے دل سے پوچھا کہ اس حکم کی تعمیل کروں یا ناکروں میرے اس طرح سوچنے سے مجھے منجانب پروردگارعالم ایک ڈھارس سی بندھی اور ساتھ  یہ بھی الہام ہوا کہ مین راہبوں کے لباس و زنّار کے ساتھ شرکت کروں ۔چنانچہ میں نے عیسا ئیوں کی عید کے دن بحکم ربّ العالیمن راہبانہ لباس زیب تن کیا ساتھ ہی زنّار بھی پیوسطہ ء لباس کی اور انکی عید منانے کے مقدّس مذہبی مقام پر  پہنچ گیا أوہ تمام اپنی عید کا دن  ہونے کی مناسبت سے اپنی مقدّس محفل سجائے ہوئے بیٹھے تھے ،ان راہبوں میں دنیا کے مختلف ملکوں اور جگہوں کے راہب بھی تھے اور یہ سب کے سب اب راہب اعظم کے منتظر تھے ،میں چونکہ راہبانہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھا اس لئے مجھے کوئی بھی ایک علیحدہ شخصیت کے روپ میں پہچاننے سے قاصر تھا اب میں  بھی انہی کی محفل عید کا ہی حصّہ شمار ہو رہا تھا ،لوگ بہت مودّبانہ لیکن مدّھم آواز میں ایک دوسرے سے ہمکلام تھے اور پھر راہب اعظم کی آمد ہوئی اور تمام لوگ حدّ ادب سے بلکل خاموش ہو گئے،راہب اعظم  ے ممبرپر جاکر جونہی  بولنے کا ارادہ کیا ممبر ویسے ہی لرزنے لگا اورراہب کی قوّت گویائی سلب ہو گئی۔راہب اعظم کو سننے کے لئے آئے ہوئے تمام راہب ,راہب اعظم کی کیفیت کی جانب متوجّہ ہوئے اور ایک راہب نے کہا اے ہمارے مقدّس اور  بزرگ پیشوا ہم تو بڑی دیر سے آپ کے حکیمانہ ارشادات سننے کے متمنّی ہیں اور آ پ خاموش ہو گئے ہیں تب جواب میں راہب اعظم کی قوّت گویائی واپس ہوئی اور اس نے کہا تمھارے درمیاں ایک محمّدی شخص تمھارے دین کی آزمائش کے ئے آ کر شامل ہوا ہئےأراہب اعظم کے اس انکشاف سے تمام راہب طیش میں آگئے اور انہوں نے راہب اعظم سے کہا کہ ائےہمارے محترم پیشوا ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کر ڈالیں ،راہبوں کی بات سن کر راہب اعظم نے کہا نہیں ! دین عیسوی میں یہ بات جائز نہیں ہئے کہ کسی شخص کو بغیر کسی دلیل و حکائت کے قتل کر دیا جائے تم لوگ زرا توقّف کرو میں اس شخص کی خود آزمائش کر نا چاہتا ہون اگر وہ شخص میری آزما ئش میں ناکام ہوجا ئے تو یقیناً تم لوگ اسے قتل کر دینا ،راہب اعظم کی بات کے جواب میں تمام راہبو ں نے کہا اے ہمارے معزّز پیشوا ہم تو آپ کے ماتحت ہیں آپ جیسا کہیں گے ہم ویسا ہی کریں گے اور پھر وہ سب خاموش ہو کرراہب اعظم کے ا گلے اقدام کی جانب متو جّہ ہو گئےاس کے بعد راہب اعظم نے سر ممبر کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا اے محمّدی تجھے قسم ہئے محمّد (صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم )کی کہ تو جہاں ہئے وہیں کھڑا ہو جا ،راہب اعظم کی قسم کے جواب میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالٰی کے نام  کی تسبیح وتہلیل کرتے ہوئے اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور راہب اعظم نے کہا اے محمّدی تم نے ہماری محفل میں شرکت کر کے ہمارے دین کو آزمانا چاہا ہئے اب میں تم کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے میرے علم الادیان کے سوالوں کے

 جواب بطور آزمائش صحیح، صحیح دے دیئے تو تمھاری جان بخش دی جائے گی ورنہ تو تم واجب القتل ہی ہو گے۔ حضرت بایزید بسطامی نےتحمّل کے ساتھ جواب دیا اے محترم راہب اعظم آ پ سوال کیجئے۔۔تب راہب اعظم نے بایزید سے پہلا سوال کیا

راہب اعظم :وہ ایک بتاؤ جس کا کوئی دوسرا نا ہو

بایزید :وہ عرش اعظم کا مکین پروردگار

عالم ہئے جس کا کو ئی شریک نہیں جو واحدو جبّار و قہّار ہئے

راہب اعظم :وہ دو بتاؤ جس کاکوئی  تیسرا نہیں ہئے

با یزید :وہ رات اور دن ہیں سورہ بنی اسرائیل آئت نمبراکّیس  میں ہئے

راہب اعظم :وہ تین بتاؤ جن کا کوئی چو تھا ناہو

با یزید :وہ عرش ،و کرسی اور قلم ہیں

راہب اعظم: وہ چار بتاؤ جن کا پانچواں نا ہو

با یزید :وہ چار آسمانی کتب عالیہ ہیں جن کے نام زبور،تورات انجیل اور قران مجید ہیں

راہب اعظم : وہ پانچ بتاؤ جن کا چھٹا نا ہو

بایزید :وہ پانچ وقت کی فرض نما زیں ہیں

راہب اعظم :وہ چھ بتاؤ جن کا ساتواں ناہو

بایزید: وہ چھ دن ہیں جن میں پروردگارعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا سورہ ق آئت نمبر 38 کا حوالہ دے کر جوابدیا 

  اور ہم ہی نے یقیناًسارے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہئے چھ د ن میں پیدا کئے )

راہب اعظم : وہ سات بتاؤ جن کا آٹھواں نا ہو

بایزید : وہ سات آسمان ہیں سورہ ملک کی آئت نمبر تین  کا حوالہ دیا

(جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے

راہب اعظم : وہ آٹھ بتاؤ جن کا نواں نا ہو

بایزید :وہ آٹھ فرشتے ہیں جو عرش اعظم کو اٹھائے ہوئے ہیں سورہ حاقّہ آئت (17

  اور تمھارے پروردگار کےعرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے)

  راہب اعظم :وہ نو بتاؤ جن کا دسواں ناہو

بایزید :وہ بنی اسرائیل کے نو فسادی اشخاص تھے

 اور شہر میں نو آدمی تھے جو ملک میں بانئی فساد تھے اور اصلاح کی فکر نا کرتے تھے ) سورہ نمل آئت نمبر8 4 کی گوا ہی ہئے

راہب اعظم: وہ دس بتاؤ جن کا گیارھواں نا ہو

بایزید :یہ دس روزے اس متمتّع پر فرض کئے گئے جس میں قربانی کرنے کی سکت ناہو

راہب اعظم: وہ گیارہ جن کا بارھواں ناہو

بایزید :وہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی تھے سورہ یوسف آئت نمبر 4 کا حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج

 کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم :وہ بارہ جن کا تیرھواں نا ہو

با یزید: یہ ازل سے سال کے بارہ مہینے ہیں  ربّ جلیل نے سورہء توبہ میں جن کا زکر کیا ہے

راہب اعظم :وہ تیرہ جن کا چودھواں نا ہو

بایزید : وہ حضرت یوسف علیہ السّلام  کا خواب ہئے سورہ یوسف کی آئت نمبر 4کا

 حوالہ

( جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام سے کہا اے بابا مین نے گیارہ ستاروں اور سورج

 کو چاند کو خواب میں دیکھا ہئے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں )

راہب اعظم : وہ قوم کونسی ہے جو جھوٹی ہونے کے باوجود جنّت میں جائے گی

بایزید : وہ قوم حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی ہیں جن کو پروردگارعالم نے معاف کر دیا

راہب اعظم : وہ سچّی قوم کون سی ہئے جو سچّی ہونے کے باوجود دوزخ میں جائے گی

بایزید: وہ قوم یہود نصا ریٰ کی قوم ہئے سورہ بقرہ آئت نمبر113

راہب اعظم:  انسان کا نام  اس کے جسم میں کہاں رہتا ہے

بایزید :  انسان کےنام کا قیام  اس کے کانوں میں رہتا ہے 

راہب اعظم :  وَا لذّٰ ر یٰتِ ذَ رٴ وً ا ۃکیا ہیں

با یذید : وہ چار سمتوں سے چلے والی ہوائیں ہیں شرقاً ،غرباً،شمالاً ،جنوباً

  سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 1

راہب اعظم:  فَا ٴلحٰمِلٰتِ وِقرًا کیا ہیں

بایزید :  وہ وہ پانی بھرے بادلوں کو اپنے جلو میں لے کر بارش برسانے والی ہو ائیں ہیں   سورہ و الزّا ریات  آئت نمبر 2

راہب اعظم  فَا ٴلجٰر یٰت یُسرًا ۃ کیا ہیں

با یزید : ( پھر بادلو ں کو اٹھا کر ) آہستہ آہستہ چلتی  ہیں سورہ و الزّا ریات آئت نمبر  3

    راہب اعظم: فَالمقسّمات امراً کیا ہیں

بایزید :(یہ رب کریم کی جانب سے بارش کی تقسیم ہئے )،ہواؤں کو جہاں حکم ہوتا ہئے و ہیں جاکر بادلو ں کو ٹہرا کر(بارش تقسیم کرتی) برسا تی ہیں

راہب اعظم: وہ کیا ہے جو بے جان ہو کر بھی سانس لیتی ہے

بایزید: وہ صبح ہے جس کا زکر قران نے اس طرح کیا ہے

 

وا لصّبح اذ اتَنفّسَ

 سورہ تکویر آئت نمبر 81

راہب اعظم : وہ چودہ جنہوں نے ربّ جلیل سے گفتگو کی

بایزید: وہ سات زمینیں اور سات آسمان ہیں  )

راہب اعظم : وہ قبر جو اپنے مقبور کو اپنے ہمراہ لے کر چلی

بایزید : وہ حضرت یونس علیہ السّلا م کو نگل لینے والی مچھلی تھی

 راہب اعظم : وہ پانی جو نا تو زمین سے نکلا نا آسمان سے برسا

بایزید: وہ ملکہ بلقیس کے گھوڑوں کا پسینہ تھا جسے ملکہ نے گھوڑوں سے حاصل کر کے بطور تحفہ حضرت سلیمان علیہ السّلام کو بھجوایا تھا

 راہب اعظم : وہ چار جو پشت پدر سے اور ناشکم مادر سے پیدا ہوئے

بایزید: وہ حضرت آدم علیہا لسّلام اور بی بی حوّا اور ناقہ ء صالح علیہ ا لسّلام اور دنبہ بعوض

حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام

راہب اعظم: پہلا خون جو زمین پر بہا گیا

بایزید : وہ ہابیل کا خون تھا جو قابیل نے بہایا تھا

راہب اعظم : وہ جس کو پیدا کر کے خدا نے خود خرید لیا اور پھر اس کی عظمت بیان کی

 با یزید: وہ مومن کی جان ہئے جس کے لئے اللہ خود خریدار بن گیا

 اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پرخرید لئے ہیں کہ کہ ان کی قیمت ان کے لئے بہشت ہئے سورہ توبہ آئت نمبر 111

   راہب اعظم: وہ کون سی محرمات ساری دنیا کی محرمات سے افضل ہیں

بایزید : بی بی خدیجہ سلام اللہ علیہا ،بی بی فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیہا ، بی بی آسیہ سلام اللہ علیہا و بی بی مریم سلام اللہ علیہاہیں

  راہب اعظم : اب میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ بلبل اپنی زبان میں کیا کہتی ہئے

بایزید: بلبل کہتی ہئے فَسُبحٰنَ اللہِ حِینَ  تُمسُو نَ وَ حِینَ تُصبِحُو نَ ْ

راہب اعظم : اونٹ کیا کہتا ہئے

بایزید : حَسبِی اللہُ وَ کفیٰ بِا للہِ وَکِیلاَ

راہب اعظم : بتاؤ گھوڑا کیا کہتا ہئے

بایزید : سُبحانَ حافِظی اذا اثقلت الابطال

راہب اعظم :مور کیا کہتا ہئے

بایزید:الرّحمٰن علی العرش الستویٰ

راہب اعظم :  مینڈک کیا کہتا ہئے

  بایزید:سُبحا ن المعبود فی البراری وا لقفار سبحان الملک الجبّار سور ہ نحل

راہب اعظم :کتّا بھونکتے وقت کیا کہتا ہئے

 بایزید : وَیلُن( دو پیش کی آواز سے پڑھیں )

راہب اعظم :گدھا ہینکتے وقت کیا کہتا ہئے

 بایزید : لعن اللہ العشار

راہب اعظم :چاند لگاتار تین راتیں کہاں غائب رہتا ہئے

 بایزید : یہ بھی غامض میں جاکر رب جلیل کے حضور سجدہ ریز رہتا ہئے اور پھر طلوع ہوتا ہئے

راہب اعظم : طامّہ کیا ہئے

بایزید :قیامت کا دن ہئے

راہب: اعظم :طمّہ و رمّہ  کیا ہئے

بایزید: یہ حضرت آدم علیہالسّلام سے قبل کی مخلوقات تھیں

راہب اعظم: سبد و لبد کیا ہئے

یہ بھیڑ و بکری کے بال کہے جاتے ہیں

راہب اعظم :ناقوس بجتا ہئے تو کیا کہتا ہئے

  بایزید:سبحان اللہ حقّاً حقّاً انظر یا بن آدم فی ھٰذا الدّنیا غرباً شرقاً ما تریٰ فیھا امراً یبقیٰ

   راہب اعظم : وہ قوم کو ن سی ہئے جس پر اللہ تعالٰی نے وحی بھیجی جو ناتو انسان ہئے ناہی جن ہئے اور ناہی فرشتہ ہئے

بایزید : وہ شہد کی مکھّی ہئے سورہ نحل میں جس کا تذکرہ ہئے

وہ کون سی بے روح شئے ہئے جس پر حج فرض بھی نہیں تھا پھر بھی اس نے طواف کعبہ بھی کیا اور حج بھی کیا

بایزید: وہ کشتئ نوح علیہ السّلام ہئے جس نے پانی کے اوپر چلتے ہوئےہی حج کے ارکان ادا کئے

راہب اعظم : قطمیر کیا ہئے?

بایزید کھجور کی گٹھلی کے اوپر جو غلاف ہوتا ہئے اس کو قطمیر کہتے ہیں

راہب اعظم : نقیر کسے کہتے ہیں

بایزید :کھجور کی گٹھلی کی پپشت پر جو نقطہ ہوتا ہئے اس کو نقیر کہتے ہیں

راہب اعظم : وہ چار چیزیں بتاؤ جن کی جڑ ایک ہئے لیکن مزہ ہر ایک کا جدا ہئے

بایزید: آنکھون کا پانی نمکین ہوتا ہئے جبکہ ناک کا پانی ترش ہئے اور منہ کا پانی میٹھا ہئے اورکانوں کا پانی کڑوا ہئے اور ان چاروں

 کا مرکز مغز ہئے جو کاسہء سر میں بند ہئے

راہب اعظم :جب دن ہوتا ہئے تو رات کہاں چلی جاتی ہئے اور جب رات چلی آتی ہئے تو دن کہاں چلا جاتا ہئے

 بایزید : رات اور دن لگاتار اللہ تعالیٰ کے غامض میں چلے جاتے ہیں یہاں تک کسی کی بھی رسائ نہیں ہئے

راہب اعظم : ایک درخت جس کی بارہ ٹہنیاں ہیں اور ہر ٹہنی پر تیس پتّے ہیں ہر پتّے پر پانچ پھول ہیں ،دو پھول دھوپ کےہیں اور تین پھول سائے میں ہیں

بایزید: ا ئے راہب اعظم وہ جو تم نے درخت پوچھا تو وہ ایک سال کی مدّت ہئےاس کے بارہ مہینے ہیں اور ہر مہینے کے تیس دن ہیں ہر دن کی پانچ نمازیں ہیں دو دھوپ کے وقت پڑھی جاتی ہیں تین سائے کے وقت پڑھی جاتی  ہیں

راہب اعظم: بتاؤ نبی کتنے ہیں اور رسول اور غیر رسول میں کیا فرق  ہئے

بایزید : تین سو تیرہ رسول ہیں باقی نبی ہیں

   راہب اعظم بہشت کی اور آسمانوں کی کنجیا ں کن کو کہا گیا ہئے

بایزید: وہ اللہ کے مقرّب ترین بندے پنجتن پاک حضرت رسول خدا محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہِ وسلّم آپ (صلعم )کی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا

ان کے شوہر حضرت علی علیہ ا لسلام  ان کے دونوں بیٹےحضرت  امام حسن علیہالسّلام  اور امام حسین علیہالسّلام ہیں اور جب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے راہب اعظم کی گفتگو تمام ہوئی تو وہ بایزید کے دست حق پرست پر اپنے پانچ سو ما تحت راہبوں کے ہمراہ دین اسلام پر ایمان لے آیا اس طرح ندائے غیبی کی وہ بات پوری ہوئی جس میں ایک شاندار واقع ظہور پذیر ہونے تذکرہ تھا۔

 

 

پیر، 12 جون، 2023

آج تیسری دنیا کا تنہا ہوتا ہو ا سماج

 

 

آج  تیسری دنیا کا تنہا  ہوتا  ہو ا سماج

کیا عجب دستور دنیا ہے -ایک بچّہ جب اپنے ماں باپ کے آنگن میں پیدا ہوتا ہے تو گھر کے تمام رشتے اس کو اپنا بچّہ کہہ کر پکارتے ہیں -پھر وہ بچّہ پل بڑھ کر جوان ہو جاتا ہے اور ماں باپ بہت ارمانوں سے اس کی شادی کرتے ہیں خواہ لڑکی ہو یا لڑکا لیکن موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق یہ بچّہ جو کہ خود ایک گھر بارمالک بن چکا ہوتا ہے اپنے دیس کو چھوڑ کر پرائے دیس میں جابسنے کا ارادہ کرتا ہے اور پھر وہ دیس پرائے جا کر اس طرح آباد ہوتا ہے کہ جانووہ وہیں کے لئے پیدا ہواتھا اور اب اس کے پیچھے رہ جانے والے بوڑھے ماں باپ اس کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں -آ ج کی تیسری دنیا کا معاشرہ اسی المیہ سے دو چارہےآئے آپ کو میں انڈیا کے ایک شہر کی کہانی سناوں جس کے بوڑھے مکین تنہا اور اکیلے ہیں یہ مضمون میں نے بی بی سی اردو سے لیا ہے-دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک کا ویران قصبہ، جہاں ’بڑھاپا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن کر ایک طرف تو انڈیا چین کو پیچھے چھوڑتا نظر آ رہا ہے لیکن دوسری جانب ملک کے کچھ حصوں میں آبادی کا بحران ہے جہاں شرح پیدائش بہت نیچے آ گئی ہے اور نوجوانوں کی ہجرت نے اپنے پیچھے بوڑھوں کی آبادی والے قصبوں کو چھوڑ دیا ہے۔برسوں سے، کیرالہ کے اس قصبے میں سکولوں کو ایک غیر معمولی مسئلے کا سامنا ہے، یہاں طلبہ کی کمی ہے اور اساتذہ کو انھیں تلاش کر کے لانا پڑتا ہے۔ طلبا کو سکول لانے کے لیے بھی انھیں اپنی جیب سے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔کمباناد میں ایک ڈیڑھ سو سال پرانا گورنمنٹ پرائمری سکول، جو 14 سال کی عمر تک کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، وہاں صرف 50 طلبہ ہیں، جو 1980 کی دہائی کے آخر تک تقریباً 700 تھے۔

 ان میں سے زیادہ تر غریب اور پسماندہ خاندانوں سے ہیں جو شہر کے بالکل کنارے پر رہتے ہیں۔یہاں صرف سات طلبا کے ساتھ، ساتویں جماعت سب سے بڑی کلاس ہے۔ 2016 میں، اس کلاس میں صرف ایک طالب علم تھا۔ طلبا کو سکول میں لانا ایک چیلنج ہے۔ اس کے آٹھ اساتذہ میں سے ہر ایک طالب علموں کو گھر سے سکول لانے اور لے جانے کے لیے آٹو رکشہ کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ 2,800 روپے خرچ کرتا ہے۔وہ گھر گھر جا کر شاگردوں کی تلاش بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ علاقے کے چند نجی سکول بھی اساتذہ کو طلبا کی تلاش کے لیے بھیج رہے ہیں، یہاں کے سب سے بڑے سکول میں بمشکل 70 طالبِعلم ہیں۔پرائمری سکول میں ایک دھندلی سی دوپہر میں آپ بمشکل ہی اسباق کی گونج اور بچوں کی آوازیں سن سکتے تھے جو ایک مصروف سکول میں سنی جا سکتی ہیں۔

 وہاں اس کے برعکس، اساتذہ چند بچوں کو نیم اندھیرے اور خاموش کلاس رومز میں پڑھا رہے تھے۔ باہر، دھوپ سے بھرے صحن میں چند طالب علم ادھر ادھر گھوم رہے تھے-سکول کی پرنسپل جیا دیوی آر نے کہا ’ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس قصبے میں بچے ہی نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہاں بمشکل ہی کوئی رہتا ہے۔‘تقریباً 15 فیصد گھروں میں تالے لگے ہوئے ہیں کیونکہ رہائشی نقل مکانی کر چکے ہیں یا اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ملک مقیم ہیں-کمباناد کیرالہ کے پٹھانمتھیٹا ضلع کے مرکز میں واقع ہے جہاں آبادی میں کمی آ رہی ہے اور بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہے جہاں 47 فیصد لوگ 25 سال سے کم عمر ہیں اور ان میں سے دو تہائی 1990 کی دہائی کے اوائل میں انڈیا میں آزاد معیشت کے دور کے بعد پیدا ہوئے۔

کمباناد اور اس کے آس پاس کے نصف درجن گاؤں میں تقریباً 25,000 لوگ رہتے ہیں۔ مقامی ویلج کونسل کی سربراہ آشا سی جے کا کہنا ہے کہ یہاں کے گیارہ ہزار سے زائد گھروں میں سے تقریباً 15 فیصد پر تالے لگے ہوئے ہیں کیونکہ مالکان اپنے بچوں کے ساتھ بیرون ملک ہجرت کر چکےہیں۔ یہاں 20 سکول ہیں لیکن طلبہ کی تعداد بہت کم ہے۔ایک ہسپتال، ایک سرکاری کلینک، 30 سے زیادہ تشخیصی مراکز اور تین اولڈ ایج ہوم اس علاقے کی بزرگ آبادی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دو درجن سے زیادہ بینک، یہاں آنے والی ترسیلات کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔انڈیا نے پچھلے سال بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں سے جو 100 ارب ڈالر کی ترسیلات زر جمع کیں، ان میں سے تقریباً 10 فیصد کیرالہ میں آئے۔ریاست میں 30 سال سے شرح پیدائش فی عورت 1.7 سے 1.9 ہے۔ چھوٹے خاندان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچوں کی اچھی تعلیم ہو۔ اس سے نوجوان اپنے والدین کو گھر پر چھوڑ کر مواقع کے لیے ملک کے اندر اور باہر تیزی سے ہجرت کر رہے ہیں اور ان کے والدین پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اناما جیکب کئی دہائیوں سے اپنے دو منزلہ گھر میں اکیلی رہ رہی ہیں ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے پروفیسر کے ایس جیمز نے کہا کہ ’تعلیم بچوں کو بہتر ملازمتوں اور زندگیوں کی ہوتی ہے اور وہ نقل مکانی کرتے ہیں۔‘’ان کے آبائی شہروں یا قصبوں میں پھر ان کے بوڑھے والدین آباد ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر اکیلے رہتے ہیں۔‘74 سالہ اناما جیکب کمبود میں اپنے دو منزلہ سرخ ٹائل والے گھر میں کئی دہائیوں سے تنہا رہ رہی ہیں۔ ان کے شوہر جو ایک سرکاری تیل کمپنی میں مکینیکل انجینیئر تھے، 1980 کی دہائی میں انتقال کر گئے۔ ان کا 50 سالہ بیٹا دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ابوظہبی میں کام کر رہا ہے۔ ایک بیٹی چند میل دور رہتی ہے لیکن بیٹی کا شوہر دبئی میں تین دہائیوں سے سافٹ ویئر انجینیئر کے طور پر کام کر رہا ہے۔ان کے پڑوسی غائب ہیں، ایک نے اپنے گھر کو تالا لگا دیا اور اپنے والدین کو بحرین لے گئیں جہاں وہ بطور نرس کام کرتی ہیں۔ دوسرا دبئی چلا گیا اور اپنا گھر ایک بزرگ جوڑے کو کرائے پر دے دیا۔

 یہ محلہ ویرانی کی تصویر پیش کرتا ہے۔انڈیا کے افراتفری اور ہلچل سے بھرے قصبوں کے برعکس، کمباناد کے کچھ حصے واقعی ویران اور وقت کے ساتھ آدھے منجمد ہیں۔ یہ ایک ایسا قصبہ ہے جسے اس کے بہت سے باشندوں نے ترک کر دیا لیکن یہ کھنڈرات میں تبدیل نہیں ہو رہا۔ویران گھروں کو باقاعدگی سے پینٹ کیا جاتا ہے، تقریباً اسی طرح جیسے کسی بھی دن وہاں کے مکین واپس آ سکتے ہیں حالانکہ وہ شاذو نادر ہی وہاں آتے ہیں۔ اناما جیکب کا کہنا تھا کہ ’یہاں زندگی بہت تنہا ہے۔ میری صحت بھی اچھی نہیں۔‘74 سالہ چاکو ممین اپنی خراب صحت کے باوجود کیلے کی کاشت کر رہے ہیں -دل کی بیماری اور جوڑوں کے درد کے باوجود، جیکب اپنے بیٹے اور پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے بیرون ملک سفر کر چکی ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ اردن، ابوظہبی، دبئی اور اسرائیل می

 

اتوار، 11 جون، 2023

اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت مبارک ہو

 

اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو  مبارک ہو-فرزندرسولۖ، سلطان عرب و عجم حضرت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام گیارہ ذی القعدہ ایک سو اڑتالیس ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں گلستا ن نبوت میں امامت کی منزل ہشتم  پر تشریف لائے- امام رضا علیہ السلام کے علم کا اتنا شہرہ تھا کہ رضا کے ساتھ ساتھ آپ کو عالم آل محمد کے نام سے بھی شہرت حاصل تھی- آپ کا اسم گرامی علی اور کنیت ابوالحسن ہے۔آپ کا نام مبارک روز ازل سے اللہ کریم کی بارگاہ میں لوح محفوظ پر درج تھا

لقب رضاْ کی وضاحت: ہمارے ائمہ علیہ السلام کے نام، لقب اور کنیت میں ایک خاص پیغام ہوتا ہے  مثلاً سجادعلیہ السّلام، باقرعلیہ السّلام -صادق  علیہ السّلام  -ابن جریر طبری نے سال ٢١ھ کے واقعات کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس سال مامون رشید نے امام علی بن موسیٰ بن جعفرعلیہ السّلام  کو اپنا ولی عہد مقرر کیا اور ان کو ”الرضا من آلِ محمد علیہ السّلام ” کے نام سے مخصوص کیا۔ البتہ ابن خلدون نے ”الرضا ” کی جگہ ”الرضی ” تحریر کیا ہے۔ لیکن محمد جواد معینی (مترجم) کتاب ” امام علی بن موسیٰ علیہ السّلام الرضا علیہ السّلام ” نے مختلف روایات کی روشنی میں یہ دلیل دی ہے کہ اس لقب کا ولی عہدی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مامون رشید کے وزیر خاص فضل بن سہل نے امام کے نام اپنے تمام پیغامات میں الفاظ ” بعلی بن موسیٰ الرضا علیہ السّلام  ” سے مخاطب کیا ہے جو اس لقب کی قدامت پر دلیل ہے۔ اس کے علاوہ ابوالحسن ، ابو علی اور ابو محمد آپ علیہ السّلام کی کنیت ہیں۔ امام علیہ السّلام کے رضا علیہ السّلام  کے علاوہ اور بھی القاب ہیں جنہیں سراج اﷲ ، نور الھدیٰ ، سلطان انس وجن، غریب الغربا اور شمس الشموس وغیرہ ہیں جو آپ کی زیارتوں میں شامل ہیں۔ 

اَللّـهُمَّ صَلِّ عَلى عَلِیِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا الْمُرْتَضَى الاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ وَحُجَّتِکَ عَلى مَنْ فَوْقَ الاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرى، الصِّدّیقِ الشَّهیدِ، صَلاةً کَثیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً، کَاَفْضَلِ ما صَلَّیْتَ عَلى اَحَد مِنْ اَوْلِیائِکَ

بو الحسن علی بن موسی الرضا (148-203ھ)، امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف، شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ امام محمد تقیؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام رضا علیہ السلام کو "رضا" کا لقب خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح آپ عالم آل محمدؐ اور امام رئوف کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

امام رضاؑ سنہ 183 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور 20 سال تک آپؑ کی امامت جاری رہی۔ آپ کی امامت تین عباسی خلفاء؛ ہارون الرشید (10 سال)، محمد امین (تقریبا 5 سال) اور مأمون عباسی (5 سال) کی حکومت پر محیط تھی۔ 

امام رضاؑ عباسی خلیفہ مامون کے حکم پر خراسان کا سفر کرنے سے پہلے مدینہ میں مقیم تھے۔ سنہ 200 ہجری یا سنہ 201 ہجری کو مامون کے حکم پر آپ کو مدینہ سے خراسان لایا گیا اور مامون کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ امامؑ نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر ایک حدیث ارشاد فرمائی جو حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے مشہور اور توحید و اس کے شرائط جیسے مضامین پر مشتمل ہے۔ مامون نے اپنے خاص مقاصد کے تحت مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جس کے نتیجے میں یہ سارے اکابرین آپ کی فضیلت اور علمی بلندی کے معترف ہوئے۔ ان مناظروں میں سے بعض احمد بن علی طبرسی کی کتاب الاحتجاج میں نقل ہوئے ہیں۔امام رضاؑ نے اپنی امامت کے تقریبا 17 سال (183-200 یا 201 ہجری) مدینے میں گزارے ہیں جہاں پر آپؑ لوگوں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ مأمون کے ساتھ ولایت عہدی کے بارے میں ہونے والی گفتگو میں امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میرے نزدیک اس ولایت عہدی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جس وقت میں مدینے میں ہوتا تھا تو مشرق و مغرب میں میرا حکم چلتا تھا اور جب میں اپنی سواری پر مدینے کے گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگوں کے یہاں مجھ سے زیاده محبوب شخصیت کوئی نہیں تھی۔ 

مدینے میں آپؑ کی علمی مرجعیت کے بارے میں بھی خود امامؑ فرماتے ہیں: ۔۔۔میں مسجد نبوی میں بیٹھتا تھا اور مدینے میں موجود صاحبان علم جب بھی کسی علمی مشکل سے دوچار تھے تو وہ لوگ اپنے مسائل کو میری طرف ارجاع دیتے تھے اور میں ان کا جواب دیتا تھا-یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم سے امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امامؑ کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل بن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء بن ضحاک تھا۔ آپ کو بصرے کے راستے مرو لایا گیا۔ امامؑ کی مرو منتقلی کے لئے مامون نے ایک خاص راستہ منتخب کیا تھا تاکہ آپ کو شیعہ اکثریتی علاقوں سے گزرنے نہ دیا جائے، کیونکہ وہ ان علاقوں میں لوگوں کی جانب سے امام رضاؑ کے استقبال کے لیے متوقع اجتماعات سے خوفزدہ تھا۔ لہذا اس نے حکم دیا کہ امامؑ کو کوفہ کے راستے سے نہیں بلکہ بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے سے نیشاپور لایا جائے۔ کتاب "اطلسِ شیعہ" کے مطابق امام رضاؑ کو مرو لانے کے لئے مقررہ راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، امام رضاؑ کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضاؑ کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امامؑ نے اس کی شدید مخالفت کی۔ امام رضاؑ نے فرمایا: «اگر حکومت تیرا حق ہے تو تم کیوں کسی دوسرے کو دوگے اور اگر تمہارا حق نہیں ہے تو تم اس بات کے لائق ہی نہیں ہو کہ کسی دوسرے کو بخش دے۔؟. اس کے بعد مأمون نے آپؑ کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرایا

۔ اس موقع پر مأمون نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا: عمر بن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی بن ابی طالب تھے۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جو کچھ میں آپ سے طلب کر رہا ہوں اسے قبول کریں۔ اس وقت امامؑ نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں حکومتی معاملات کے سلسلے میں نہ کوئی حکم جاری کروں گا اور نہ کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوی دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناوں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دوں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کیا۔  اس طرح مومون نے سنہ201ھ، 7 رمضان بروز پیر امام رضاؑ کے دست مبارک پر بعنوان ولی عہد بیعت کی اور لوگوں کو سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہونے کے بجائے سبز کپڑے پہننے کا حکم جاری کیا۔ سوائے اسماعیل بن جعفر ہاشمی کے سب نے سبز لباس زیب تن کیا۔بعد از آں لوگوں سے امام کی بیعت لی گئی، امام کے نام پر لوگوں کے مابین خطبے پڑھے جانے لگے اور امام کے نام پر سرکاری سکے جاری کیے

-اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس اور مرو. 

شیخ مفید لکھتے ہیں: مامون نے خاندان ابو طالبؑ کے بعض افراد کو مدینہ سے بلوایا جن میں امام رضاؑ بھی شامل تھے۔ وہ یعقوبی کے برعکس، لکھتے ہیں کہ مامون نے امامؑ کی خراسان منتقلی کے لئے عیسی جلودی کو ایلچی کے طور پر مدینہ بھجوایا تھا اور کہتے ہیں کہ جلودی امامؑ کو بصرہ کے راستے مامون کے پاس لے آیا۔ مامون نے آل ابی طالب کو ایک گھر میں جبکہ امام رضاؑ کو کسی دوسرے مقام پر ٹھہرایا اور آپ کی تکریم و تعظیم کی -اما م علی رضا علیہ السّلام کا یوم ولادت کل عالمین کے جن و انس مومنین کو  مبارک ہو

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر