جمعہ، 16 جون، 2023

شہر ٹھٹھہ صدیوں کی مسافت میں

 

 

 شہر ٹھٹھہ صدیوں کی مسافت میں-اور اس صدیوں کی مسافت نے بھی اس شہر کو پرانا نہیں ہونے دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج جوق در جوق سیاّاح اس کی قدیم تاریخ پڑھنے اس کے گلی کوچوں کی صحرا نوردی کرتے نظر آ تے ہیں-مغل بادشاہوں نے اپنے زریں دور سلطنت میں جو تعمیراتی یادگاریں چھوڑی ہیں ان میں بیش قیمت یادگار شاہجہاں مسجد ٹھٹھہ بھی ہے جو فن تعمیر کی  ایک مکمل دور کی عکّاس ہے - یہ مسجد مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 100 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے۔ عمارت کے گنبد فن تعمیر کا حسین نمونہ ہیں۔ اگرچہ عہد رفتہ نے اسے نقصان پہنچایا مگر آج بھی یہ فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے ۔اس مسجد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے خطباء ایک ہی خاندان میں نسل در نسل چلے آرہے ہیں،اس وقت مسجد کے نویں خطیب حضرت علامہ عبد الباسط صدیقی ہیں۔یہ 1494 کی بات ہے جب مکلی کی پہاڑی کے ساتھ جام نظام الدین نے ایک شہر آباد کیا، چوں‌ کہ یہ پہاڑی کے نیچے واقع تھا، اس لیے مقامی لوگوں‌ نے اسے ‘‘تہ تہ‘‘ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں ٹھٹھہ ہو گیا۔

یہ سندھ کا قدیم اور مشہور شہر ہے جو منسوب تو جام نظام الدین سے ہے، مگر بعض مؤرخین کے مطابق ٹھٹھہ پہلے سے آباد ایک بستی تھی۔ مختلف حوالوں اور تذکروں کے مطابق محمد شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ ٹھٹھہ آباد تو بہت پہلے ہوا تھا، مگر اسے جام نظام الدین نندا نے اپنے دور میں تعمیر و توسیع کے عمل سے گزارا اور یوں یہ شہر جام نظام الدین نندا سے منسوب ہو گیا۔اس شہر میں کئی تاریخی آثار اور اس زمانے کی یادگاریں موجود ہیں جب کہ سندھ کے کئی عالم، درویش، حاکم اور امرا یہاں دفن ہیں۔تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ کئی نام وَر اس سرزمین سے اٹھے۔ یہ اہلَ علم و فنون بھی تھے اور ہنر مند بھی۔ٹھٹھہ کا ذکر کینجھر جھیل اور شاہ جہاں مسجد اور مکلی کے قبرستان کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ جھیل ٹھٹھہ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ایک خوب صورت تفریحی مقام ہے جس کی مناسب اور ضروری دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا حُسن ماند پڑ رہا ہے۔شہرہ آفاق مسجد کو چوں کہ شاہ جہاں کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے یہ شاہ جہاں مسجد کہلائی۔ کہتے ہیں یہ مسجد ٹھٹھہ کے صوبے دار میر ابوالبقا نے بنوائی تھی۔ اس کی تعمیر کا سن 1644 بتایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس زمانے میں اس کی تعمیر اور تزئین و آرائش پر 9 لاکھ خرچ ہوئے تھے۔مکلی کا قبرستان بھی ٹھٹھہ کی ایک وجہِ شہرت ہے۔ اس قدیم اور تاریخی قبرستان میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مخدوم ابو القاسم نقشبندی، مخدوم آدم نقشبندی، سید عبداللہ شاہ اصحابی، حضرت شاہ مراد شیرازی کے مزارات ہیں۔ یہ تمام مزارات اور دیگر قبریں اس دور کے فنِ سنگ تراشی اور نقاشی کا نمونہ ہیں۔جام نظام الدین نندا بھی اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔مکلی تقریباً 50 فٹ بلند ایک پہاڑی اور اس اطراف کے علاقے کا نام ہے جو ٹھٹھہ شہر سے مغرب کی طرف ہے۔ 20 میل کے پہاڑی سلسلے میں پھیلا، سندھ کی قدیم تاریخ کا لازوال شہرہ آفاق قبرستان، مکلی کا یہ پراسرارقبرستان ’ساموئی‘ سے شروع ہوتا ہے اور ’پیر پٹھو‘ پر ختم ہوتا ہے۔اس شہرِ خموشاں میں 14 ویں سے 18 ویں صدی عیسوی تک کے وہ بادشاہ مدفون ہیں جنہوں نے اپنے لیے شاندار مقبرے اور قبریں بنوائے تاکہ مرنے کے بعد وہ اُن میں طمطراق سے دفن ہوسکیں۔ ان میں سمہ، ارغون، ترخان اور مغل ادوار کے حکمران، سپہ سالار، ملکاؤں، گورنروں، صوفیوں، دانشوروں، فلسفیوں، امراء، خدا رسیدہ اور صاحبانِ کمال افراد کے علاوہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ 7 صدیوں کے راز دفن ہیں۔

محکمہ آثار قدیمہ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل منظور کناسرو کے مطابق یہ عظیم الشان قبریں اور مقبرے عہد پارینہ کی یاد دلاتے ہیں جسے دیکھنے کےلیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔ ان مقبروں کی تعمیر کےلیے پتھر یا پختہ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں جو ضرب لگنے پر بجتی ہیں اور ٹوٹنے کی حالت میں شیشے کی طرح چمکتی ہیں۔ اینٹوں کی دیواریں منقش روغنی ٹائلوں سے مزین مقبرے کی دیواروں پر جو شجری نقوش ابھارے گئے ہیں وہ سندھ، راجپوتانہ اور گجرات کے فنِ سنگ تراشی کی پرانی روایات کے بہترین نمونے ہیں۔ ان مقبروں کی عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1980 کی دہائی میں ثقافتی اہمیت کے پیشِ نظر مکلی کوعالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ حال ہی میں مکلی کو عالمی ورثہ کمیٹی سے ڈی لسٹ ہونے کا خطرہ تھا۔ وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے پولینڈ میں یونیسکو کے سامنے بہترین انداز میں مکلی کا مقدمہ پیش کیا تھا۔ محکمہ ثقافت کی کاوشیں رنگ لائیں، تبھی مکلی عالمی ورثے کی فہرست میں برقرار رکھا گیا اور عالمی ورثہ کمیٹی نے مکلی پر کیے گئے بحالی اقدامات کو تسلی بخش قرار دیا۔مکلی کی تاریخ پر پہلی عالمی کانفرنس -مکلی میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد اولیاء کرام، 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ مکلی میں اندازاً چار لاکھ سے زائد قبریں ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد اولیاء کرام، 33 بادشاہ اور 17 گورنر مدفون ہیں۔ گزشتہ دنوں محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات کی جانب سے پہلی عالمی مکلی کانفرنس منعقد کی گئی کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، لبنان، ایران، اسپین اور وطن عزیز کے نامور محققین نے تاریخی مقبروں، مقامات، شاندار فن تعمیر، شاہجہان مسجد اور دیگر پر 22 تفصیلی و تحقیقی

 مقالے پیش کئے اور اپنے اپنے تجربے کی روشنی میں مکلی کی تاریخ پر نظر ڈالی -اس قبرستان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان اور دنیا کا گیارہواں بڑا قبرستان ہے، جو اپنے اندر سات صدیوں کے راز سموئے ہوئے ہیں، یہاں کم و بیش دس لاکھ مسلمان مدفن ہیں۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ مقبرے جاہ جلال اور شان و شوکت سے کھڑے ہیں، ان سے ماضی کی کئی سو سال پرانی ایک عظیم تہذیب وابستہ ہے۔ اس میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلی معیار کا ہے۔ اس قبرستان میں مغل، ترخان اور سمہ دور کی قبریں موجود ہیں۔ ان مقابر پر انتہائی نفیس انداز میں قرآنی آیات اور خوبصورت نقش و نگار کندہ ہیں۔ وہ قبریں جو کسی سردار یا کسی بزرگ کی ہیں ان پر خوبصورت مقبرے تعمیر ہیں۔ مقابر کی تعمیر میں سندھی ٹائلوں اور سرخ اینٹوں کا استعمال ہوا ہے۔ مزارات میں سرخ اینٹوں سے گنبد بھی بنائے گئے ہیں۔ قبروں کے تعویز اور ستونوں پر اتنا خوبصورت کام کیا گیا ہے کہ دیکھنے والا کاریگروں کی تعریف کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔شاہی خاندانوں کے 80 سے زائد یادگار و مقبرے موجود ہیں جہاں بہت سے سلاطین، سردار، شہدا، علما کرام اور مسلمان مدفون ہیں۔ یہاں سندھ کے سابق حکمرانوں کی بھی قبریں ہیں۔ ان مقابر میں مغل سردار طغرل بیگ، جانی بیگ، جان بابا، باقی بیگ ترخان، سلطان ابراہیم اور ترخان اول جیسے علما، سردار اور دیگر نامور لوگ اس قبرستان کی پہچان ہیں۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر