منگل، 20 جون، 2023

شہر لاہور میرے داتا کی نگری

  یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پرانے زمانے میں عوام النّاس  کی حفاظت کے لئے شہروں کے گرد فصیلیں تعمیر کی جاتی   تھیں قران پاک کے سورہ کہف میں بھی ایک شہر فصیل کا زکر ملتا ہے -جبکہ کراچی کی قدیم تاریخ میں جس فصیل کا زکر ہے اس کے دو دروازے تھے ایک کھارا در اور دوسرا میٹھا در -اب یہ نام باقی رہ گئے اور شہر فصیل معدوم ہو چکی ہے-اسی طرح لاہور شہر کے گرد تعمیر کردہ فصیل میں متعدد جگہوں پر دروازے بنائے گئے تھے۔ یہ علاقہ اب اندرون شہر کہلاتا ہے۔ مغلیہ دور میں قائم ہونے والے ان دروازوں کو دوبارہ تعمیر کی نیت سے انگریزوں کے دور میں گرا دیا گیا اور اْسی طرز پر پھر سے تعمیر بھی کیا گیا۔

یہ سب دروازے انیسویں صدی تک اپنی اصل حالت میں قائم تھے۔ مگر 1947ء کے فسادات میں کچھ دروازوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ بعدازاں کچھ دروازے شکست وریخت کا شکار ہو کر یا تو بالکل ختم ہوگئے یا کچھ کے محض آثار ہی باقی بچے ہیں۔ اب کتابوں میں صرف ان کے نام اور تاریخ ہی ملتی ہے۔ تاحال 13 میں سے صرف 6 دروازے ہی اب تک باقی ہیں۔ہمارا بظاہر قیام امریکہ میں ہے مگر ہمارا دل پاکستان کے دل داتا کی نگری شہر لاہور میں اٹکا رہتا ہے۔ اندرون شہر لاہور کی تفصیلی سیاحت تو شاید کبھی مکمل نہ ہو سکے البتہ ہر سال لاہور آمد پر اندرون شہر بلکہ اصل لاہور کا ایک پھیرا نہ لگا لیں۔ روح تشنہ رہتی ہے۔ دہلی دروازہ میں شاہی حمام بھی ایک تاریخی دریافت ہے جبکہ مسجد وزیر خان حقیقت میں تاریخی ورثہ ہے۔ بلند و بالا دیواریں اور شاندار گنبد ماہرین فن تعمیر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لاہور شہر کی عظمت رفتہ کی ایک عظیم نشانی ’’مسجد وزیرخان‘‘ کے نام سے زمانے بھر میں معروف ہے۔ اس عظیم الشان مسجد اور تعمیر کے نادر نمونے کے بانی کا نام حکیم علیم الدین انصاری المشہور نواب وزیر خان ہے۔ حکیم صاحب شاہی خاندان کے خاندانی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گورنر پنجاب کے عہدے تک بھی پہنچے۔

حکیم صاحب پنجاب کے ایک قدیمی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تو ان کی وجہ سے زمانے بھر میں معروف ہوئی ہی تھی کہ انہوں نے گجرات کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جو آج بھی وزیر آباد کے نام سے زمانے بھر میں جانا جاتا ہے۔ ان کی بہت ساری تعمیرات شہر لاہور میں شاہی حمام، مسجد نواب وزیر خان خود اور مسجد وزیر خان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تعمیرات کے نشان چنیوٹ اور وزیر آباد میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دہلی گیٹ کے علاوہ کھلی چھت کے رکشہ پر شام کی خوشگوار ہوائوں کے سنگ اندرون شہر کا چکر بھی لگایا۔

یکی گیٹ کا نام پہلے ذکی گیٹ ہوا کرتا تھا۔اور یہ نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کے گرد بہت سی حویلیاں اور مندر موجود ہیں۔ اکبری دروازہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے نام پر رکھا گیا۔جلال الدین اکبر نے ٹائون کے قریب ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی بنائی جس کا نام اکبری منڈی ہے اور یہ اب بھی ویسی ہی مقبول اور اعلیٰ معیار کی ہے جیسے پہلے تھی۔ یہ لاہور کی سب سے بڑی ہول سیل کی مارکیٹ ہے۔ اکبری منڈی سے گڑ خریدا جس کا ذائقہ آج بھی ہمیں بچپن کی مٹھاس کی یاد دلاتا ہے۔ ٹیکسالی گیٹ اب موجود نہیں ہے لیکن یہاں کھانے بہت رنگ رنگ کے موجود ہیں جو کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ سکھوں کی مشہور مقدس عمارتیں پانی والا تالاب اور لال کھوہ یہیں واقع ہیں۔ شاہ عالمی گیٹ شہنشاہ بہادر شاہ کے نام پر رکھا گیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران اس گیٹ کو جلا دیا گیا اور اب بس اسکا نام باقی ہے۔ اس گیٹ کے قریب لاہور کی بڑی اور بہترین شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے کیونکہ اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا۔ بھاٹی گیٹ ایک بہت پرانے قبیلے بھٹی راجپوت کے نام پہ رکھا گیا۔ اسے لاہور کا چیلسی بھی کہا جاتا تھا۔ اسے علم و ادب کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ مغربی سمت میں واقع اس دروازے کا یہ نام اس لیے بھی پڑ گیا کہ جب شہر آباد ہونا شروع ہوا تو اس جگہ بھاٹ قوم آباد ہوئی۔ اصل دروازہ شکستہ ہونے پر انگریزوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔ بھاٹی گیٹ کی مشہور چیز اشیائے خوردنی کی مارکیٹ ہے اس کے علاوہ اس کی وجہ شہرت داتا علی ہجویری المعروف داتا صاحب کا دربار بھی ہے۔ یہاں علامہ اقبال کا بھی ایک چھوٹا سا کتب خانہ تھا جہاں وہ مطالعہ اور کتب بینی کے شغل کے لئے آتے تھے۔ کشمیری گیٹ کے نام کی بڑی وجہ اس کا رخ کشمیر کی طرف ہونا ہے۔

 کشمیری گیٹ کے اندر کشمیری بازار اور ایک خوبصورت گرلز کالج واقع ہے۔ کالج کی بلڈنگ مغل فن تعمیر کی عکاسی کرتی ہے۔ اسی سے سڑک نکل کر ایشیا کی سب سے بڑی کپڑے کی مارکیٹ اعظم مارکیٹ کو جاتی ہے جو اس کی مشہوری کی خاص وجہ ہے۔ دہلی گیٹ بہت اہم دروازہ ہے جو شہنشاہ اکبر نے بنوایاتھا۔ یہ گیٹ دہلی کی طرف کھلتا ہے اس لئے اس کا نام دہلی گیٹ ہے۔ یہ کسی زمانے میں لاہور دہلی ٹرانسپورٹ کا واحد راستہ تھا۔ آزادی کی تحریک کے دوران ہونے والے فسادات میں اس کو بہت نقصان پہنچا مگر اس کی تعمیر نو نے اس کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ مستی گیٹ شاہی قلعہ کی پشت پر واقع ہے۔ یہاں کی خالص دودھ کی بنی اشیا لاہور بھر میں مشہور ہیں۔ لاہوری گیٹ لاہور کا سب سے قدیم گیٹ ہے۔ چونکہ اس علاقے میں بہت سے لوہار تھے اور انہوں نے اس دروازے پہ بہت سی دکانیں بنا رکھی تھیں اسلئے اس کو یہ نام دیا گیا

۔ اب لوہاری گیٹ کے کلچر میں کھانا ہی کھانا ہے۔ لوہاری گیٹ کے سامنے لاہور کا مشہور زمانہ انارکلی بازار واقع ہے۔ موچی گیٹ کولاہور کا دل کہا جاتا ہے۔ یہ بھی مغل فن تعمیر ہے۔ یہاں جوتوں کی مرمت اور مینوفیکچر کے بہت کارخانے موجود ہیں۔ اس کے بالکل دائیں ہاتھ پہ موچی باغ ہے جو پرانے وقت سے اب تک سیاسی جلسوں کی آماجگاہ ہے اور بہت مشہور ہے۔ موچی دروازہ کے اندر موجود مبارک حویلی، نثار حویلی اور لال حویلی مغل فن تعمیر کی  خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ روشنائی گیٹ روشنیوں کا دروازہ مشہور تھا۔ یہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر