جمعہ، 2 فروری، 2024

گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی حساس علاقہ ہے

    گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی  اسٹرٹیجک علاقہ ہے جو پاکستان اور چین کو جوڑتا ہے -آپ اس علاقے کو شاہراہ ریشم کے مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہین ۔ مشرقی حصہ اپنی بلند بالا خوبصورت برفانی چوٹیوں کی دولت سے مالا مال ہے۔ غیر ملکی کوہ پیماؤں کی پسندیدہ ان چوٹیوں میں مشہور زمانہ کے ٹو، بالتورہ، تیری کانگری، ہڈن پیک، گشہ بروم، براڈپیک، کے 6،کے7 ،پیو، ہرموش، دیران، راکا پوشی اور دستگل سر شامل ہیں۔ شاہراہ ریشم کے اس حصے میں خپلو، اسکردو، دیو سائی کا میدان، کچھورا جھیل، شنگریلا جھیل، کنکورڈیا، سنو لیک، عطاآباد جھیل سست اور خنجراب پاس سیاحوں کے لئے دلچسپی کا سارا حسن رکھتے ہیں، بھارت نے وہاں پر کافی فلیتے لگانے کی کوشش کی اور اس کی کوششوں کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا، کئی عجیب واقعات ہوئے، لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا، ہائیکرز کو بے دریغ مار ڈالا گیا اور پاکستان کی سیاحت کی صنعت کو کافی نقصان پہنچایا گیا، کئی فوجی افسران شہید کئے گئے مگر پھر اِن واقعات کے ذمہ داران کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ ثبوت حاصل کر لئے گئے جن سے یہ پتہ چل گیا کہ کون سی طاقت ان واقعات کے پیچھے تھی۔

 جب     گلگت بلتستان    کے علاقے کے لوگوں کے لئے گندم کی سبسڈی ختم کر دی گئی ،وہاں عوام کئی روز سراپا احتجاج رہے۔ اس علاقے کے لوگوں کو یہ سبسڈی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اس لئے دی تھی کہ وہاں گندم پیدا نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ رعایت اُن کو دوبارہ دی جاتی سو مرکزی حکومت نے وہ اب بحال کر دی ہے۔ اِس خطے میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے جو ایک اچھی علامت ہے اِس لئے بھی کہ یہ ایک انتہائی اہم خطہ ہے مگر صاحبان اقتدار نے یہاں الٹی گنگا بہانے کا پروگرام بنا ڈالا ہے جس پر تیزی سے عمل درامد ہو رہا ہے، چین اور پاکستان کے درمیان معاشی کوریڈور بنانے کا پروگرام روبہ عمل ہے، بھارت نے اس معاشی کوریڈور پر احتجاج کیا ہے اور اس کے علاوہ مغرب کو بھی یہ بات پسند نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی اس پر گہری نظر رکھ رہا ہے اور حالات و معاملات خراب کرنے میں لگا ہوا ہے، اس وجہ سے اس علاقہ میں بےچینی پیدا ہونا چاہئے اور نہ ہی کوئی احتجاجی مظاہرہ ہونا چاہئے، 

ماضی کی حکومت نے پاسپورٹ کے حصول کو اس قدر مشکل بنا دیا تھا بلکہ اس کا حصول یا تو بڑی سفارش یا صرف رشوت کے ذریعے ہی ممکن تھا، نہ پاسپورٹ کا کاغذ تھا اور نہ ہی وہ چھپتا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے بچے غیرملکی تعلیم سے محروم ہو گئے۔ کئی لوگ ملازمتوں سے گئے۔ کئی تاجر بڑے بڑے آرڈر کو حاصل کرنے میں ناکام ہوئے، کئی لوگ رشتہ داروں کی خوشی و غم میں شریک ہونے سے رہ گئے اور ساری عمر کا ملال کا روگ لگا بیٹھے۔ اس شخص کی شبانہ روز کی کاوشوں نے پاسپورٹ کے محکمے کی ہئیت کو بدل ڈالا۔ پرانے تعطل میں پڑے پاسپورٹ کے منتظر لوگوں کے پاسپورٹ کو قلیل ترین مدت میں اُن کے حوالے کیا گیا اور ایک سسٹم وضع کرایا کہ پاسپورٹ کے حصول کا کیا طریقہ ہو گا، کتنی مدت میں کس کیٹیگری کا پاسپورٹ طلبگار کو مل جائے گا۔ ایسا شخص اگر گلگت بلتستان کا چیف سیکریٹری مقرر ہوا ہے تو اِس کے معنی ہیں کہ وہاں کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ 

پاکستان کو حالات نے ایک عالمی کھلاڑی بنا دیا ہے، اِس وجہ سے کہ اُس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، اس کا اسٹرٹیجک محل و قوع ہے، اس کے پاس بے پناہ معدنی دولت ہے اور سارے وسائل سے مالا مال ممالک کے راستے یہاں سے گزرتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اِن حقیقتوں کو تسلیم بھی کرتی ہیں مگر پھر بھی ایک دوسرے کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھتی ہیں،پاکستان کیونکہ نئے کھلاڑی کے طور پر میدان میں اتر رہا ہے، کمزور ہے، ملک میں بدامنی ہے، اس لئے اُس کو کافی مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ایک کے بعد دوسری ابتلاء میں اُسے مبتلا کر دیا جاتا ہے، پاکستان ایک طرف بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے نمٹنے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف طالبان اُس کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں، اب سیاسی و خاکی کشمکش کے ساتھ میڈیا کے ساتھ بھی رسہ کشی شروع ہو گئی ہے، جو کوئی اچھی علامت نہیں ہے، یہ بارودی فلیتے ہیں انہیں جلد سے جلد بے اثر کر دیا جائے تو پاکستان کے لئے بہتر ہے، اِن معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹا دینا چاہئے۔ 

 دُنیا کے ممالک سارے عالم میں سونے کی تلاش کرتے رہے کہ کہیں سے بڑی تعداد میں سونے کے ذخائر نکل آئیں، وہ علاقہ پاکستان نکلا جس میں سونا بڑی مقدار میں موجود ہے۔ ایک ریکوڈک ہے جہاں 1400 بلین ڈالر کے سونے کے ذخائر ہیں اور ہنزہ کی پہاڑیوں میں اِس سے کہیں زیادہ سونا موجود ہے۔ اِس لحاظ سے گلگت اور ہنزہ کو پاکستان کو پُرامن رکھنا چاہئے اور یہاں پر گرفت کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ سیکورٹی کے زاویہ سے بھی اس کی سیکورٹی انتہائی سخت کرنا پڑے گی۔ چن چن کر ایسے افسران کو تعینات کرنا پڑے گا جو ملک و قوم کے لئے اپنی جان نثار کرنے کا عزم رکھتے ہوں اور ساری صورتِ حال کو سمجھتے ہوں تاکہ ہم آسانی سے پاکستان کی فلاح و بہبود کے پروگرام کو پایۂ تکمیل کو پہنچا سکیں، معاشی کوریڈور کو مکمل کرسکیں، سیاسی کشمکش سے گریز، جنگجوئی اور مہم جوئی سے اُسی طرح سے گریز کرنا ہو گا جس طرح سے چین نے کئی عشروں تک خاموش رہ کر اپنے آپ کو معاشی طور پر منظم کیا یا پھر روس نے اپنی معیشت کی بحالی کے بعد اب دُنیا کے معاملات پر توجہ دینا شروع کی ہے۔ پاکستان کے تمام اداروں اور تمام افراد کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے اِس میں پاکستان کے لوگوں کی بہتر زندگی کے سامان اسی زمین میں  ہیں،   


جمعرات، 1 فروری، 2024

حضرت فاطمہ معصومہؑ بنت اما م مو سی علیہ ا لسلا م

 

 


حضرت فاطمہ معصومہؑ بنت اما م  مو سی  علیہ ا لسلا م   و خواہر اما م رضا علیہ السلام  ایک بلند و بالا مقام کی حامل بی بی تھیں۔ آئمہ طاہرینؑ نے آپؑ کا تذکرہ بڑے احترام سے کیا ہے حتی آپؑ کی ولادت سے پہلے بلکہ آپؑ کے والد ماجد کی بھی ولادت سے پہلے ان معظمہ کا نام بعض آئمہؑ کی لسان مبارک پر جاری ہوا اور انہوں نے ان معظمہؑ کے حوالے سے بعض فرامین جاری  کئے -امام صادقؑ علیہ السلام ایک اور حدیث میں ولادت سے قبل آپؑ کی زیارت اور جائے دفن کا ذکر کرتے ہیں اور شیعوں کو اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قم شہر، ہمارا حرم ہے، وہاں  ائمہ کی  اولاد میں سے فاطمہ نامی ایک خاتون دفن ہوں گی، جو بھی ان کی زیارت کرے گا، اس کیلئے بہشت ثابت ہے-

آپ کی والدہ ماجدہ تقویٰ اور شرافت میں تاریخ کی ایک کم نظیر شخصیت ہیں۔واضح ہے کہ ماں باپ کی شخصیت کے اولاد کی روح اور جسم پر اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خصوصیت حضرت فاطمہ معصومہؑ کے وجود میں بھی ظاہر ہوئی۔ آپؑ کو دونوں طرف سے فضائل ہی فضائل وراثت میں ملے۔ حضرتؑ کی باقی اولاد پر حضرت معصومہؑ کی برتری کا راز شاید اسی نکتے میں پنہان ہے۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس راہ میں حضرتؑ کی ذاتی سعی و کوشش بے اثر تھی بلکہ تمام انفرادی شائستگیوں کے علاوہ جو آپؑ نے اپنی ذات میں ایجاد کی تھیں؛ ان عوامل و اسباب سے بھی اخلاقی و عملی ترقی کے مراحل کی تکمیل ہوئی۔

 مروی ہے کہ حضرت رضاؑ نے فرمایا: جو قم میں معصومہؑ کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔ اگرچہ حضرت معصومہؑ کے مقام و عصمت پر شواہد و قرائن بہت زیادہ ہیں۔ تاہم امامؑ کا یہ فرمان بھی شاید اشارہ ہو کہ حضرت معصومہؑ عصمت کے مقام کی حامل ہیں، در ضمن یہ سخن اس امر کو بھی واضح کر رہا ہے کہ: یہ لقب حضرت رضاؑ سے فاطمہ کبریٰ کو عطا ہوا ہو ورنہ ان کا نام معصومہؑ نہیں تھا۔وسیع پیمانے پر شفاعت-انبیا و اولیا کی شفاعت کا عقیدہ مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے ہے اور اس امر میں کوئی تردید نہیں ہے۔ شفاعت کے اعلیٰ ترین مقام پر رسول اکرمؐ فائز ہیں کہ جسے قرآن کریم میں مقام محمود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ خانوادہ رسول کی دو خواتین عظیم مقامِ شفاعت کی حامل ہیں:۱۔خاتون محشر، صدیقہ اطہر، حضرت فاطمہ زہراؑ-۲۔ شفیعہ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہؑ کہ جن کا مقام حضرت زہراؑ کے بعد ہے۔ امام جعفر صادقؑ اس بارے میں فرماتے ہیں: تَدخل بِشفاعتها شیعتنا الجنته باجمعهم. ان کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

شہر مقدس قم میں تشریف آوری:صاحب كتاب تاريخ قم نے لکھا ہے کہ: سن 200 ہجری میں خلیفہ عباسی مامون نے امام علی بن موسی الرضا(ع) کو مدینہ سے مرو (خراسان) اپنا ولیعہد بنانے کے لیے بلایا اور سن 201ہجری میں امام رضا کی بہن اپنے بھائی سے ملنے کے لیے مرو کی طرف روانہ ہوئیں -لیکن جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو کچھ دشمنان اہلبیت علیہ ا لسلا م جن کے سروں پر حکومت کا ہاتھ تھا راستے میں حائل ہو گئے اور حضرت معصومہ  سلا م اللہ علیہ کے کاروان سے ان بد کرداروں نے جنگ شروع کر دی۔ نتیجتاً کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔سیده  معصومہ   سلا م اللہ علیہ نے بهی قم کا انتخاب کیا:بہر کیف حضرت معصومہ  سلا م اللہ علیہ اس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہو گئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفر کو جاری و ساری رکھنا نا ممکن ہو گیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیااور آپ نے پوچھا اس شہر (ساوہ)سے شہر قم کتنا فاصلہ ہے ۔اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے اپنے خادم سے فرمایا: مجھے قم لے چلو اس لیے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ  شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ، 

 اب یہ نورانی مکان شہر قم میں بیت النور کے نام سے مشہور ہے اور ساری دنیا سے آنے والے زائرین بی بی کے نورانی اور مقدس حرم کی زیارت کرنے کے ساتھ ساتھ بی بی کی اس عبادتگاہ کی بھی زیارت کرتے ہیں۔بی بی سلا م اللہ علیہ کی وفات کے بارے میں بھی کتب متقدمین میں کوئی ذکر نہیں ہوا، لیکن کتب متاخرین میں انکی شہادت 10 ربیع الثانی سن 201 ہجری کو ذکر کی گئی ہے۔ آپ کی 28 سال کی عمر میں شہادت ہوئی-۔نقل ہوا ہے کہ جب بی بی سلا م اللہ علیہ کو دفن کرنے کے لیے قبر کو تیار کیا گیا، اب یہ مسئلہ تھا کہ کون قبر میں جائے اور کون بی بی کو دفن کرے، ابھی  جنازے کے  شرکاء نے دیکھا کہ اچانک  ایکسمت  سے  گھوڑے پر سوار  دو نقاب دار  آتے ہوئے دکھائی دئیے اور انھوں نے آ کر بی بی کے   دفن کا سارا انتظام کیا۔  دفن کرنے کے بعد وہ دو بندے کسی سے بات کیے بغیر گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاں سے آئے تھے، وہاں واپس چلے گئے۔ پھر یہاں نماز مودت ادا کرنے کے لئے محبان اہلبیت علیہ ا لسلا م  جوق در جوق آنے لگے ۔ عاشقان ولایت وامامت کے لیے یہ بارگاہ دار الشفاء ہوگئی جس میں مضطرب دلوں کو سکون ملنے لگا ۔ مشکل کشاء کی بیٹی ،لوگوں کی بڑی بڑی مشکلوں کی مشکل کشائی کرتی رہیں اور نا امیدوں کے لیے مرکز امید بن گئیں ۔ 

 ۔

 

بدھ، 31 جنوری، 2024

کلّو چھو لے والے کی شادی part-2

 

- کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ  گئ-   قسط نمبر  1 یہاں پر ختم ہوئ تھی

میں نے گھڑونچی پر رکھّی صراحی سے پانی پیا- میری چھوٹی بہن شائد میری بے چینی کو بھانپ گئ تھی اس نے مجھ سے پوچھا بجّو کیا ہوا میں نے کہا کچھ نہیں مجھے کلّو چھولے والے کی شادی میں جانا تھا اور ابّا جان گھر آ گئے ہیں چھوٹی بہن نے انداز بے نیازی سے کہا تو چلی جائے ،نہیں اب میں نہیں جا سکتی ہوں کیونکہ ابّا جان نے کہا ہے کہ یہ واہی تواہی پھرے گی تو اس کی ہڈّیا ں توڑ دوں گا،ہاہاہاہاہاہاہا، آج میں سوچتی ہوں کہ میری سرگرمیاں یقیناً میرے پیارے ابّا جان کواتنی گراں محسوس ہوتی ہوں گی جو انہوں نے مجھے یہ دھمکی دی تھی ،جبکہ میرے والد زبان کے معاملے میں انتہائ نفیس انسان تھےکچھ ہی دیر میں مجھے امّی جان جب اکیلی نظر آئیں میں نے ان سے خوشامد کرتے کہا امّی جان بس آج کا دن اور اج تو کلّو چھولے والے کی بارات ہے مجھے جانے دیجئے ،


امّی جان نے مجھ سے کہا تم قلم اور کاپی ساتھ میں لے لو تمھارے ابّا پوچھیں گے تو میں کہ دوں گی کہ صالحہ کے پاس پڑھنے گئ ہے ،میں نے اپنی امّی جان کو لپٹ کر پیار کیا اور کاپی قلم لے کر اپنی دوست کے گھر رکھوایا اور دوست کو بھی ساتھ لے کر بارات کا منظر دیکھنے پہنچ گئ بیچارے دولہا کا چھوٹا سا تو مکان تھا اس وقت اس میں چھوٹے بڑے بلائے گئے اور میری طرح بن بلائے سب کی دھکّم پیل مچی ہوئ تھی کلّو چھولے والے نے سرخ ڈھڈھاتے رنگ کا ٹول کا کرتا اور سفید شلوار زیب تن کی ہوئ تھی اور اس دونو ن ہاتھ سرخ رنگ کی مہندی سے رچے ہوئے تھے اور بس بارات روانہ ہو گئ مگر کیسے ؟


دولہا سہرا باندھے اپنے عزیزوں کے ساتھ پیدل آگے آگے اور باقی باراتی اس کے پیچھے پیچھے شائد میں نے کسی سے پوچھاتھا کہ سب پیدل کیوں جارہے ہیں تو جواب ملا تھا دلہن اگلی گلی میں تو رہتی ہے ،اگلی گلی میں؟ میں نے حیران ہو کر کہا ، لیکن میں تو اس گلی کی سب لڑکیوں کو جانتی تھی      -بہر حال بارات جا چکی تھی اس لئے میں اپنی دوست کے ساتھ اس کے گھرآ گئ اصولاً مجھے اپنے گھر آنا چاہئے تھا لیکن دوست نے کہا کہ اس نے کاغذ کو رنگ کر پھول بنائے ہیں بس اسی بہانے میں اس کے ساتھ آگئ ،یہ بھی بتا دوں کہ میری اس دوست کا دروازہ ہمارے گھر سے تیسرا دروازہ تھا اور مجھے گلی کے بس چند ہی گھروں میں آنے جانے کی اجازت تھی ،خیر ابھی تو ہم دونوں سہیلیا ں باتیں ہی کر رہے تھے کہ پھر ڈھول ڈھمکّا اور شہنائ کی آوازیں ہمارے کانوں میں گونجنے لگیں اور ہم دونو ہی اپنی جگہ سے اٹھ کر باہر بھاگے

 مشکل سے پون گھنٹے میں دلہن بیاہ کر لائ جارہی تھی مگر گھوڑے جتے ہوئے ٹانگے میں آگے بھی بینڈ باجا تھا اور پیچھے باراتی پیدل پیدل،ہجوم اتنا تھا کہ ہم دونوں دولہا کے گھر کی دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے ،ٹانگہ رکا اور ( جسے ہم مان گون اور نیگ کہتے ہیں ) یہ ان کی زبان میں بیل اور بدھائیا ں تھیں ناچنے والے ناچ رہے گانے والے گا رہے تھے اور اور بینڈ باجا سونے پر سہاگے کا کام کر رہا تھا بدھائیوں کی رسمیں دلہن کو  یکّہ سے اتارنے سے پہلے گھر کے دروازے پر ہوئیں ،اور پھر دولہا سے کہا گیا کہ وہ دلہن کو گود میں لے کر اتارے،دولہا کچھ کسمسایا کچھ شرمایا لیکن پھر کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ دلہن کو جلدی اندر لاؤ رسمیں ریتیں کرنا ہے تب دولہا نے دلہن کو تانگے کی دہلیز پر کھڑا کیا اور پھر اپنے کندھے پر لا دا اور مجھے لگا کہ د لہن ایک منحنی سی سرخ گٹھری نما کوئ شئے ہے ،


دولہا بہت تیزی سے گھرکے اندر داخل ہوا اور میں اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ دولہا کے پیچھے ہی گھر کے اندر داخل ہو گئ دولہا نے سامنے ہی بچھے پلنگ پر دلہن کو لڑھکا دیا ،اور گھر کی عورتوں نے اس کو سیدھا کیا لیکن اس نے شرم کے مارے اپنے گٹھری نما ہاتھ پاؤں کھولے نہیں یوںہی گھٹنو ں میں سر دے کے بیٹھی رہی ،اب کھیر چٹائ کی رسم کی پکار پڑی لیکن اس کے ساتھ ہی کمرے میں ایک اور آواز گونجی سب کمرے سے چلے جاؤ دلہن کے دادا دعا ء کرنے آ رہے ہیں بس کمرے میں دولہا دلہن رہیں گے اس کے ساتھ کمرے سے سارے بچّے ہنکا دئے گئے اور ہم دونوں سہیلیوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی ،یہ میرے بچپن کی ایک معصوم سے نوجوان کی یادگار شادی تھی ،ان کی رسمیں انکی بولیان کا ہر انداز ہم سے جدا تھا لیکن بہت ہی سادہ اور  خوش رنگ ،یہ میرے ابتدائ بچپن کا ایک یادگار واقعہ بن چکا تھا  

 

جمعرات، 25 جنوری، 2024

مولائے کائنات ع مشاہیر عالم کی نظر میں

   رجب کی 13 تاریخ  شیعہ مسلمانوں کی زندگی میں ایک بڑی  اہمیت  کی تاریخ ہے، اس  تاریخ کو مولائے کائنات کعبہ جیسی  جگہ جو بیت اللہ  کے لقب سے سرفراز ہے -آ پ اس مقام عظیم وپاک و پاکیزہ   جگہ  پر تشریف لائےآپ وہ ہستی ہیں جن کی تعلیمات سے آج بھی بنی نوع بشر بہرہ مند ہو رہی ہے، وہ انسان جس کا دل صرف اپنوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ ہر ایک انسان کے لئے تڑپتا تھا۔   ۔آئیے دیکھیں غیر مسلم دانشورں نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہا ہے :سلیمان کتانی کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ ایک جملہ کتنا سچا اور پیارا ہے کہ *تمام فضائل و خصائل علي عليہ السلام ميں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کي عظمت بلند ہوئي* عیسائی مصنف (Poul Salama) امام علی علیہ السلام کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:

جی ہاں میں ایک عیسائی ہوں، لیکن وسعت نظر کا حامل ہوں، تنگ نظر نہیں، گرچہ میں عیسائی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، ایسی شخصیت جس کا عیسائی احترام کرتے ہیں اور اپنے اجتماعات میں ان کی ذات کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو کچلنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔ * اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔ وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی شک نہیں کہ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراتے ہوئے ہر درد و الم کو قبول کرتا ہے*۔

کیا قابل غور نہیں کہ ایک عیسائی اس والہانہ انداز میں گفتگو کر رہا ہے اور وہ بھی امام علی علیہ السلام کے سلسلہ میں، اگر ایک عیسائی دانشور علی علیہ السلام کی شخصیت میں دوسروں کا درد دیکھ رہا ہے اگر فقرا کو دیکھ کر علی علیہ السلام میں ان کا درد دیکھ رہا ہے تو ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے ایک علی کے چاہنے والے کی حیثیت سے؟ * اگر علی علیہ السلام کی شخصیت درد و غم و اندوہ سے نکھرتی ہے تو ہمیں بھی مصائب و آلام اور پریشانیوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے جادہ عشق پر سربلند و سرفراز ہو  کر جئیں   برطانوی مصنف اور ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) یوں کہتے نظر آتے ہیں:

”علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا، سوال یہ ہے کہ *کیا ہماری زندگی ایسی ہے کہ ہمارے اردگرد مساکین و فقراء کا حلقہ رہے؟ یا ہم اس حلقہ کو ڈھونڈتے ہیں جہاں اغنیاء و ثروت مند افراد نظر آتے ہیں؟* فرانس کے میڈم ڈیالفو Madame Dyalfv کہتے ہیں: آپ اسلام کی سربلندی کے لئے مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے، حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جنہوں نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جنہیں عرب یکتا خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔ اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا۔ یہ صرف فرانس کے دانشور ہی نہیں بلکہ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) بھی امام علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے نظر آتے ہیں: ”حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔” ؟    

معروف تاریخ پروفیسر فلپ کے حتٰی 1886-1978) کہتے ہیں:

"سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کردیا تھا”۔سرویلیم مور (1905-1918)” ایک الگ زاویہ کے تحت امام علیہ السلام کی زندگی میں پائی جانے والی دانشمندی و شرافت کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں:"حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے”۔ اب ہم سوچیں کیا ہماری زندگی کے فیصلے ہماری دانشمندی کی علامت ہیں کیا ہم ایسے مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر ہمارے غیر مسلم بھائی کہہ سکیں کہ یہ ایسا علی علیہ السلام کا ماننے والا ہے جو دانشمندی و شرافت مندانہ زندگی میں علی علیہ السلام کی طرح بے مثال ہے، برطانوی ماہر جنگ جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984): ایک مقام پر کہتے ہیں "حضرت علیؑ کے اسلام سے خالصانہ تعلق خاطر اور " معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی”۔ اب ہم سوچیں کہ ہمارا اسلام سے تعلق کس قدر خالص ہے اور کیا ہم کسی خطا کا شکار ہونے والے اپنے ہی دوست کو معاف کرنے پر تیار ہیں؟ یا ہر وقت بدلہ لینے کی فکر ہمیں ستائے رہتی ہے اور جب تک ہم بدلہ نہ لے لیں آتش انتقام فروکش نہیں ہوتی؟  

امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے مختلف مکاتب فکر سے متعلق دانشوروں کے اظہار خیال کے یہ چند نمونے تھے جنہیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا،  علی کی کتاب نہج البلاغہ آج ہمارے یہاں کیوں مظلوم ہے وہ کتاب جس کے بارے میں یہی سلیمان کتانی لبنانی مفکر کہتے نظر آتے ہیں، ”‌کونسي ايسي چيز ہے جو نہج البلاغہ ميں بيان کي گئي ہے اور وہ ایک حقیقت کی عکاس نہ ہو؟ ايسا لگتا ہے جيسے آفتاب کا تمام نور سمٹ کر پیکر علي ابن ابي طالب عليہ السلام ميں سما گيا ہو

میں نے بہت مختصر کر کے یہ مضمون تحریر کیا ہے

 



 

اتوار، 21 جنوری، 2024

کلّو چھولے والے کی شادی 1

   ا پنی زندگی کے وہ اوّلین دن بتانے چلی ہوں جو بہت پر مشقّت تو تھے لیکن بچپن کی انوکھی آرزؤں سے معمور تھے ،ہمارے چاروں جانب ہندوستان کے شورش زدہ علاقوں سے آیا ہوا سماج تھا -بڑے بڑے  قابل نام بھی تھے اور بہت چھوٹے چھوٹے سماجی حیثیت  والے لوگ بھی جو اپنی جانیں بچا کر پاکستان کی آ بسے تھے -پہلے یہ بتا دوں کہ میں اپنے بچپن میں ایک اچھّی طالبہ ہرگز نہیں تھی ،مجھے زندگی نے بعد مین یہ سبق پڑھایا کہ علم کے بغیر دنیا اندھیری ہے ،میرا رزلٹ گھر میں ہمیشہ تھرڈ دیویزن پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے بہن بھائ اوّل اور دوئم ہوتے تھے ،لیکن پھر مجھے کچھ رعائت اس لئے مل جاتی تھی کہ میں گھر کا کام سب سے زیادہ کرتی تھی اور اپنے چھوٹے بہن بھائ کو بھی سنبھالتی تھی  -بہر حال میرا بچپن کا ایک انتہائ شوق تھا کہ میں کسی طرح ڈھولک بجانا سیکھ جاؤں اس زمانے میں جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو رات کے وقت ڈھو لک کی محفل ضرور سجتی تھی اور میرے پیروں میں پہئے لگ جاتے تھے کہ کس طرح میں اس گھر میں پہنچ جاؤں جہاں ڈھولک بج رہی ہے ،مقصد واحد ہوتا تھا کہ ڈھول بجانے ولی لڑکی کی انگلیاں کس طرح چل رہی ہیں خود دیکھوں اور سیکھوں مگر یہ شوق آ ج بھی ناتمام ہی رہی-ابّا جان تو رات کے وقت گھر سے قدم نکالنے کے ہی سخت مخالف تھے اور امّی جان ابّا جان کے تابع تھیں-ہمارا قیام دیگر مہا جروں کے ہمراہ لالو کھیت نمبر چار میں تھا اور لالو کھیت نمبر تین ہمارے سامنے تھا ہمارا گھر مسجد مستجاب کے سامنے تھا، میری عمر یہی کوئ سات یا آٹھ برس کے دور میں تھی ایسے میں ہمارے سامنے والے محلّے کے ایک گھر سے مجھے دن کے وقت ڈھولک بجنے کی آواز آئ اور میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ ابّا جان تو گھر پر نہیں ہیں مجھے اجازت دے دیجئے

بس امّی جان نے اجازت د ی اور میں نے جھٹ پٹ چھوٹے بھائ کوگود میں اٹھایا اور چند منٹ میں کلّو چھولے والے کے گھر پہنچ گئ ،میں بھائ کے بغیر گھر سے قدم نکالنے کی بھی مجاز نہیں تھی کیونکہ وہ ڈھائ برس کی جان میری واپسی تک امّی جان کا جینا حرام کردیتا ،اس وقت کلٰو چھولے والے کا گھر مجھے دور سے ہی پرستان کے شہزادے کا گھر دکھا ئ دینے لگا گھر کے اندر باہر بلاروک ٹوک آنا جانا لگا ہوا تھا مین نے بھی اسی آپا دھاپی میں اندر پہنچ کر شادی کے گھر کے مناظر کے مشاہدے میں لگ گئ --کچّے آنگن میں ایک طرف کوری ہانڈی میں پانی کے اندر ننھی ننھی مچھلیاں تیر رہی تھیں میں نے ہانڈی میں جھانکا اور پھر گود میں موجود بھائ کو مچھلیاں دکھائیں دوسری طرف بڑے سے تھال میں سل پر پیسی گئ کچّی مہندی بھیگی ہوئ تھی جس کی سوندھی خوشبو گلی کے اندر دور تک مہک رہی تھی اور ساتھ ہی مہکتے چنبیلی کے تیل میں ابٹن کی خوشبو بھی ملی جلی تھی-گھر کے کچّے آنگن کی ملتانی مٹّی سے شائد رات کو ہی لپائ کی گئ تھی آنگن بلکل صاف ستھرا تھا

اور اب اس پرگھر کی عورتیں ایک رسم ادا کرنے جا رہی تھیں یعنی لال رنگ کے بھیگے ہوئے گیرو اور صندل کے آمیزے میں سات سہاگنوں کے ہاتھ ڈبو کر ان کو آنگن کی دیوار پر چھاپنا تھا ،بڑی بوڑھی کا سختی سے حکم تھا کہ خبر دار ہاتھ الگ الگ تھال پر نا پڑے اور ٹیڑھا میڑھا بھی نا پڑے یہ سب بد شگونیاں سہاگ بھرے بھاگ کے گھر میں بد شگونیاں مانی جاتی ہیں-اس رسم کو پہلی دفع ہی دیکھنے کا میرا اتّفاق تھا گھر کی سب سے بڑی بوڑھی خاتون کو لا کر چار پائ پر بٹھا یا گیا اور گیرواور صندل کا سرخ آمیزے سے بھرا تھال ان کے آگے رکھ دیا گیا ساتھ ہی گڑ کا اور مرمروں کا بڑا سا تھا ل آیا اور پھرڈھولک کی تھاپ پر عورتوں نے کوئ اپنی دیہاتی زبان میں گیت گانا شروع کیا ساتھ ہی آوازیں بھی دی جانے لگیں اری او کہاں ہے آ ری آ ،آج ہمرے دوارے سہاگن آئ گیو رے ، عورتیں آتی گئیں ڈھول بجتی رہی اور صندل اور گیرو کے چھاپے دیوار کو سجاتے رہے

 کلّو چھولے والے کا تعارف تو رہ ہی گیا یہ ایک بمشکل بیس بائیس سال کا انتہائ درجے کا سانولا لیکن دلکش نقوش والا نوجوان تھا ،جو ٹھیک دس بجے دوپہر سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھ کے تیّار کئے ہوئے مزیدار چٹ پٹے چھولے کا ٹھیلا لے کر لب سڑک ہمارے گھر سے کچھ فاصلے کھڑا ہوجاتا تھا اور اس کے چھولے اتنے مذیدار ہوتے تھے کہ دوپہر کو یہ گھر واپس چلاجاتا تھا مجھے یا د ہے جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو بڑی حیرت سے دیکھتی رہی تھی سرسوں کے تیل میں چپڑا ہوا سرجس کے بال بلکل جٹ سیاہ اس پر سرسوں کے تیل کی اس کے ماتھے تک آئ ہوئ بہار، بڑی بڑی آنکھیں جن میں بہتا کاجل رچا ہوا ،لیکن وہ اپنے اطراف سے بیگانہ اپنے چھولوں کی دنیا میں مگن سر جھکا کے آتا اور سر جھکا کے واپس جا تا جب اس کی شادی ہوئ تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی ماں نانی اور خالائیں اس کی شادی پر اپنے اپنے ارمان پورے کر رہی تھیں - خیر میری دلچسپی کا ساما ن اس گھر کی رسمیں تھیں میں جن کو دل و جان سے دیکھ بھی رہی تھی اور نگاہوں کے راستے حفظ بھی کر رہی تھی

اب صاف ستھری دیوار پر سات سہاگنو ں کے چودہ ہاتھوں کے لال لال نقش لہلہا رہے تھے میں نے ان نقوش کو بار بار دیکھا ،کوئ خاص بات تو نظر نہیں آئ لیکن اب میں سوچتی ہوں شادی کے گھر میں ان معصوم لوگوں کے کتنے ہزار ارمان تو ہاتھوں کے ان نقوش میں ہی نہاں ہوتے ہوں گےہاتھوں کے چھاپے پورے ہو گئے اور تمام مہمانوں میں گڑ اور مرمرے تقسیم کئے گئے ،مین نے بھی وہ گڑ اور مرمرے کھائے اپنے بھائ کو بھی کھلائے سنہرا گڑ اور سفید مرمرے وہ مٹھا س آج بھی منہ میں محسوس ہورہی ہےاگلا دن شادی کا تھا اور میری خوشی ٹھکانہ کیاتھا میں بتانے سے قاصر ہوں ایسا لگ رہا تھا کلّو چھو لے والا دنیا میں میرا سب سے بڑا عزیز تھا جس کی شادی میں شرکت مجھے بہر طور کرنی تھی                                                 ویسے بھی سارے مہاجر اس دور میں جی رہے تھے جب سب کی خوشی غمی اپنی خوشی غمی سمجھی جاتی تھی -اب میرا بھائ میری گود میں کچھ بے چینی محسوس کر رہا تھا اس لئے میں گھر واپس آ گئ         -اب اگلا دن اس حسین شہزادے کی بارات کا تھا جس میں بلکل بن بلائ مہمان بن کر محلّے کے تمام بچّوں کے کی ریل پیل میں جا نے کو بے چین تھی کہ ابّا جان بے وقت گھر آگئے ،ابّا جان کو دیکھ کر میرے اوپربلاشبہ عالم نزع طاری ہوگیا کچھ دیر کے لئے گلے کے اندر گھگّھی سی بندھ  گئ

جمعہ، 19 جنوری، 2024

تنزانیہ کے فرعون صفت حاکم کا قبول اسلام-part -2

  اس کے بچے امریکہ اور کینیڈا کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم تھے کہ اسی دوران   وہ سب کے سب اسلام کی دعوت سے متاثر ہوئے۔ سب سے پہلے نریرے کی بہو مسلمان ہوئی پھر یکے بعد دیگرے تین بیٹے اور دونوں بیٹیاں بھی مسلمان ہوگئیں۔ نریرے کے بچوں کا قبول اسلام کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ عیسائی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔ یہودی اور عیسائی پریس نے مکمل طور پر ان خبروں کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ماضی میں بھی یہودی پریس کا یہی رویہ رہا ہے۔ اگر کسی قابل ذکر شخصیت نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور قطعاً نظر انداز کر دیا گیا اور اگر کہیں دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں بھی غیر معروف دو چار اشخاص نے عیسائیت قبول کی تو اسے دنیا بھر میں اخبارات کی زینت بنایا گیا۔ اس سلسلے میں مسلم پریس نے بھی بالکل خاموشی اختیار کر لی۔ ہاں تحریکات اسلامی سے تعلق رکھنے والے بعض جریدوں نے اپنے طور پر تحقیقات کر کے اس خبر کو عام کیا۔ اب ہم آگے مسٹر نریرے کے قبول اسلام کی حیرت انگیز تفصیلات سے آگاہ کریں گے جسے پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا جیسے یہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے کہ کسی جدید فرعون نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ وہ تنزانیہ میں عیسائیت کے لیے سرگرداں تھا اور عیسائی مشنریوں کی ہر ممکن مدد کر رہا تھا، اس کے بچے اسلام کے گہرے مطالعے میں مصروف تھے اور بتدریج اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے

نریرے کے بچوں کے قبول اسلام کے بعد دارالسلام اور دیگر اہم شہروں میں تہلکہ سا مچ گیا تھا اور کافی دنوں تک اس کا چرچا رہا۔ لیکن باقاعدہ طور پر ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے اس کی تشہیر کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ لہٰذا عوام الناس اسے افواہ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ باقاعدہ طور پر اس وقت عام لوگوں کو اس پر یقین نہ آیا جب تک خود نریرے کے بچوں نے دارالسلام میں عیسائیت کے خلاف جہاد نہ چھیڑ دیا۔ چنانچہ انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایک بڑے مناظرے کا انعقاد کیا اور براعظم افریقہ کے تمام پادریوں کو چیلنج کیا اور وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر کی۔ سواحلی زبان میں بڑے بڑے پوسٹر دیواروں اور اہم سرکاری دفاتر کے دروازوں پر آویزاں کیے گئے۔ مناظرے کی تاریخ سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہی مساجد اور چرچوں کے دروازے پر کھڑے ہو کر مسلم نوجوانوں نے اس مناظرے سے متعلق پمفلٹس تقسیم کیے۔ تنزانیہ کی سرزمین پر یکایک عیسائیت کے خلاف مسلمانوں کی یہ زبردست یلغار عوام الناس کے لیے انتہائی حیران کن اور بالکل خلاف توقع تھی۔ کیونکہ نریرے کی سخت گیر ڈکٹیٹرشپ اور عیسائیت نواز پالیسی کی موجودگی میں اتنی بڑی جسارت ’’ہماری جیل میں سرنگ‘‘ کے مترادف بات تھی۔ لہٰذا ان سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمان دانشور طبقہ بھی حیرت و استعجاب کا شکار تھا کیونکہ مناظرے سے ایک دو روز قبل تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ عیسائیت کے خلاف اس اچانک اٹھنے والی زبردست تحریک کے پیچھے خود جناب صدر مملکت کے صاحبزادگان کارفرما ہیں۔ 

تنزانیہ کی تاریخ میں یہ بالکل پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے عیسائی مشنریوں کو کھلے عام للکارا تھا۔ چنانچہ عام لوگوں میں اس عظیم مناظراتی اجتماع میں شرکت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور پورے تنزانیہ میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ اس میں شرکت کی تیاری کرنے لگے۔ بلکہ شیخ احمد دیدات کے تین تربیت یافتہ شاگردوں کے نام تھے جو اہل تنزانیہ کے لیے بالکل غیر معروف اور نئے تھے۔ ان تینوں مبلغین نے شیخ احمد دیدات سے ڈربن جنوبی افریقہ میں رہ کر تربیت حاصل کی تھی اور بائبل کے مختلف اور متضاد نسخوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ نریرے کے بچوں کا ان سے بڑا گہرا دوستانہ تھا لہٰذا یہ نوجوان مبلغین بھی آپس میں ملتے تو تنزانیہ میں اسلام کی تبلیغ اور عیسائی مشنریوں کے مقابلے کے لیے صلاح مشورہ کرتے۔ آخر انہوں نے یہ طے کیا کہ اس مناظرے کا اہتمام کھلے میدان میں کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کو دیکھ سکیں اور خود فیصلہ کریں کہ حق کس کے ہاتھ میں ہے اور برسر باطل کون ہے۔ حسب مشورہ اور پروگرام دارالسلام کے سب سے وسیع و عریض اور خوبصورت میدان جمہوری پارک میں یہ مناظرہ شروع ہو کر دو دن تک چلا۔ درمیان میں نمازوں اور کھانے پینے وغیرہ کے لیے وقفہ ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر حاضرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نریرے کے تینوں لڑکے مسلم مبلغین کے دوش بدوش بیٹھے اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ تینوں مبلغین کے نام درج ذیل ہیں:

(۱) غریباں شیخ موسیٰ فونڈی 

(۲) شیخ احمد کامیمبا

(۳) شیخ محمد متانا

ان تینوں میں غریباں شیخ موسیٰ فونڈی سب سے زیادہ چاق و چوبند اور حاضر دماغ و حاضر جواب ہیں۔ مشرقی افریقہ کے مبلغین کے سربراہ بھی یہی ہیں، ان کی تبلیغی کوششوں کی وجہ سے عیسائی پادریوں کی نیند حرام ہو چکی ہے کیونکہ یہ تینوں مبلغین بالکل نوجوان اور صحت مند ہیں، ان کی عمریں بالترتیب تیس، بتیس اور پینتیس سال کی ہیں۔ شیخ احمد دیدات کے یہ تینوں تلامذہ اصل افریقی باشندے ہیں اور مقامی سواحلی زبان کے ماہر اور اچھے ادیب ہیں۔ یہ حضرات مناظرہ بھی سواحلی زبان ہی میں کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تینوں مبلغین پورے مشرقی افریقہ کے پادریوں کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اس مناظرے میں شیخ موسیٰ فونڈی کے ساتھیوں کے مقابلے میں دو پادریوں اور راہبہ نے حصہ لیا۔ مسلم مبلغین کے انداز بیان اور طرز تخاطب سے سامعین بخوبی سمجھ رہے تھے کہ فاتح کون اور مفتوح کون؟ حق کس کے ساتھ او برسر باطل کون۔ مقابلے میں شیخ اور ان کے ساتھیوں کا انداز دلچسپ اور جارحانہ تھا جبکہ عیسائی حضرات کو معذرت خواہانہ اور مدافعانہ پوزیشن لینی پڑی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شرکا کی تعداد تقریباً ستر ہزار سے بھی زائد تھی۔ تیسرے دن ۱۵ فروری کی شام کو جب مناظرہ اختتام کو پہنچا تو تین سو لوگوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا  -اور پوری فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی۔ 

اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اچانک اس نرم پالیسی کے اختیار کرنے کی وجہ سے نریرے کے تعلق سے عیسائی حیران و پریشان تھے کہ اس سخت گیر پالیسی میں یکایک یہ غیر معمولی تبدیلی کیسے آگئی کہ اس قسم کے پروگراموں کی اجازت مل گئی اور خود مسلمان بھی حیران تھے۔ دراصل نریرے کو جب معلوم ہوا کہ خود اس کے بچے اسلام قبول کرنے والے ہیں تو وہ بھی اسلام میں دلچسپی لینے لگا۔ اسی وقت اس نے عہدۂ صدارت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا اور عہدۂ صدارت کے لیے تنزانیہ کے سب سے معروف مسلم رہنما شیخ علی حسن مونٹے کو نامزد بھی کیا۔ صدارت کے لیے علی حسن مونٹے کی نامزدگی سے ہی لوگوں کو معلوم ہوا کہ نریرے کی پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں اس نے اپنی روش تبدیل کر دی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں اور مظالم کی تلافی کے لیے اس نے شیخ علی حسن مونٹے جیسے عالم فاضل شخص کو صدر نامزد کیا ہے۔ یہ سب کچھ جدید نظاموں کے خوبصورت نام پر قائم ہونے والی حکومتوں کے نام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام یہ نہیں سمجھ پاتے کہ پس پردہ عیسائیت ہی کارفرما ہے۔  ۔

تنزانیہ کے فرعون صفت حاکم کا قبول اسلام part -1

یہ اب سے چوبیس برس پہلے کی بات ہےتنزانیہ کے سابق صدر اور حکمران پارٹی کے   سربراہ جولیس نریرے کا خاندان جب دارالسلام میں رابطہ عالم اسلامی کے نمائندے شیخ مصطفیٰ عباس کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تب یہ خبر جہاں عالم اسلام کے لیے ایک حیرت انگیز مژدہ عظیم تھی، وہیں عیسائی دنیا کے لیے بہت ہی المناک اور مایوس کن تھی۔ کیونکہ نریرے کی اسلام دشمنی اور مسلم بیزاری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ نریرے وہ سخت گیر اور متعصب عیسائی   حاکم رہا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں پر بے تحاشا مظالم ڈھائے، گویا وہ جدید دور کا فرعون صفت حکمران تھا۔ تنزانیہ براعظم افریقہ میں ایک غالب مسلم اکثریت والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی کا ۷۸ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ بمشکل ۲۰ فیصد آبادی عیسائیوں کی ہوگی۔ باقی غیر مسلم جنگلی قبائلی ہیں جن کا کوئی معلوم مذہب نہیں ہوتا۔ ۷۸ فیصد مسلم اکثریتی آبادی والے اس ملک میں نریرے نے نام نہاد سوشلزم کی آڑ میں انتہائی متعصب اور ظالم عیسائی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ اپنے دور اقتدار میں اس نے مسلم اکثریت کو ختم کرنے اور عیسائی اکثریت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

 دارالسلام کا نام بدل کر ایک سیکولر نام رکھنے کی کوشش کی گئی جس پر مسلمانوں کے شدید احتجاج اور غیر معمولی ردعمل کی وجہ سے مجبورًا اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا اور دارالحکومت کے لیے نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ دارالسلام سے صرف دس کلو میٹر دور تنزانیہ کے نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع کی گئی۔ تنزانیہ کے دارالحکومت کو جو ایک خوبصورت شہر ہے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ دارالسلام کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور سو فیصد کاروبار بھی مسلمانوں ہی کے پاس ہے۔ اس وقت شہر میں صفائی وغیرہ کا کوئی معقول انتظام نہیں، سڑکوں پر جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں اور شہر کی بڑی بڑی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہیں جن کی مرمت وغیرہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ الغرض نریرے نے مسلمانوں کی دل آزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔نریرے وہ شخص ہے جس نے تنزانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ پڑوسی مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مسلمانوں کو بھی چین کا سانس لینے نہیں دیا۔ چنانچہ اس نے یوگنڈا کے عیدی امین کی حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں ایک نیم پادری جنرل اجوئے کو اقتدار پر بٹھایا اور یوگنڈا کے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کرایا جس کے نتیجے میں کمپالا اور دیگر شہروں سے مسلمان پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان نقل وطن کر کے پڑوسی ملکوں میں جا کر پناہ گزین ہوئے۔

 ایشیائی مسلمانوں کی اکثریت جو کاروبار پر چھائی ہوئی تھی وہ انتہائی بے چارگی کے عالم میں جان بچا کر یوگنڈا سے نکل گئی اور خالی ہاتھ اپنے اپنے وطن کو روانہ ہوئی۔ تنزانیہ کی فوج نے جو فاتح بن کر یوگنڈا میں داخل ہوئی تھی بڑی بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بیش قیمت اثاثے اپنی فوجی گاڑیوں میں بھر بھر کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ نریرے ہی تھا جس نے زنجبار کی آزاد و خودمختار عرب سلطنت کو ختم کر کے اسے زبردستی تنزانیہ کی سوشلسٹ یونین میں شامل کیا اور سوشلسٹ اصلاحات کے نام پر زنجبار سے عرب اور مسلم تشخص کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی۔ زنجبار میں ۱۹۶۳ء سے قبل سرکاری زبان عربی تھی اور ذریعہ تعلیم بھی عربی ہی تھا۔ سب سے پہلے اس نے سرکاری دفاتر اور اسکولوں سے عربی زبان کو ختم کیا۔ سواحلی زبان جس کا رسم الخط عربی تھا اسے عربی کے بجائے انگریزی رسم الخط میں تبدیل کیا۔

 یہ بات قابل ذکر ہے کہ سواحلی زبان پر عربی کا اثر بہت زیادہ ہے،اس کے ستر فیصد الفاظ عربی کے ہیں۔ خصوصاً گنتی مکمل طور پر عربی ہی ہے، انداز گفتگو بھی عربی ہی ہے۔ اگر کوئی شخص عربی سے اچھی طرح واقف نہ ہو تو اندازہ نہ کر پائے گا کہ دو شخص باہم عربی میں گفتگو کر رہے ہیں یا سواحلی میں۔ مسلم خواتین کے لیے برقع کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دیا اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی شادی کی سرپرستی سرکاری سطح پر کی۔ یوگنڈا سے عیدی امین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس نے کمپالا میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں تنزانیہ سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر ہی دم لوں گا۔ چنانچہ اس نے عالمی کلیساؤں کی مدد سے اپنے اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی تھیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ نریرے کے قبول اسلام کی تفصیلات بیان کرنے سے قبل اس کے قبول اسلام کے ان حالات کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد واضح کرنا تھا کہ دنیا یہ دیکھ لے کہ عیسائی حضرات غیر عیسائی لوگوں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کس قدر متعصب اور ظالم ہوا کرتے ہیں۔ 

جبکہ دنیا بھر میں وہ اور ان کے پادری حضرات اپنی امن پسندی اور انصاف کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں اور دیگر غیر مسلم حضرات انہیں اپنا مسیحا سمجھ کر ان کی باتوں میں آکر مسلمانوں کے ساتھ دشمنانہ رویہ اپنا لیا کرتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و ہنود کی نفرت کی طرح عیسائیوں کی نفرت اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے اور اس کی نمایاں مثالیں برطانیہ، فرانس، روس، اور جرمنی سے آنے والی خبروں میں دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جدید نظاموں کے خوبصورت نام پر قائم ہونے والی حکومتوں کے نام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام یہ نہیں سمجھ پاتے کہ پس پردہ عیسائیت ہی کارفرما ہے۔ خیر اب ہم آگے مسٹر نریرے کے قبول اسلام کی حیرت انگیز تفصیلات سے آگاہ کریں گے جسے پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا جیسے یہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے کہ کسی جدید فرعون نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ وہ تنزانیہ میں عیسائیت کے لیے سرگرداں تھا اور عیسائی مشنریوں کی ہر ممکن مدد کر رہا تھا، اس کے بچے اسلام کے گہرے مطالعے میں مصروف تھے اور بتدریج اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ اس کے بچے امریکہ اور کینیڈا کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم تھے 


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر