جمعرات، 25 جنوری، 2024

مولائے کائنات ع مشاہیر عالم کی نظر میں

   رجب کی 13 تاریخ  شیعہ مسلمانوں کی زندگی میں ایک بڑی  اہمیت  کی تاریخ ہے، اس  تاریخ کو مولائے کائنات کعبہ جیسی  جگہ جو بیت اللہ  کے لقب سے سرفراز ہے -آ پ اس مقام عظیم وپاک و پاکیزہ   جگہ  پر تشریف لائےآپ وہ ہستی ہیں جن کی تعلیمات سے آج بھی بنی نوع بشر بہرہ مند ہو رہی ہے، وہ انسان جس کا دل صرف اپنوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ ہر ایک انسان کے لئے تڑپتا تھا۔   ۔آئیے دیکھیں غیر مسلم دانشورں نے امام علی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہا ہے :سلیمان کتانی کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں یہ ایک جملہ کتنا سچا اور پیارا ہے کہ *تمام فضائل و خصائل علي عليہ السلام ميں اکٹھے ہو گئے تھے، وہ جب منظر عام پر آئے تو انسان کي عظمت بلند ہوئي* عیسائی مصنف (Poul Salama) امام علی علیہ السلام کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:

جی ہاں میں ایک عیسائی ہوں، لیکن وسعت نظر کا حامل ہوں، تنگ نظر نہیں، گرچہ میں عیسائی ہوں لیکن ایک ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں تمام مسلمانوں کا کہنا ہے کہ خدا ان سے راضی ہے، ایسی شخصیت جس کا عیسائی احترام کرتے ہیں اور اپنے اجتماعات میں ان کی ذات کو موضوع سخن قرار دیتے ہیں اور ان کے فرامین کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں، آئینہ تاریخ نے پاک و پاکیزہ اور اپنے نفس کو کچلنے والی بعض نمایاں ہستیوں کی واضح تصویر کشی کی ہے، ان میں علیؑ کو سب سے برتری حاصل ہے۔ * اے علیؑ آپ کی شخصیت کا مقام ستاروں کے مدار سے بھی بلند و برتر ہے۔ یہ نور کی خاصیت ہے کہ پاک و پاکیزہ باقی رہتا ہے اور اور گرد و نواح کے گرد و غبار اسے داغدار اور آلودہ نہیں کرسکتے۔ وہ شخص جو شخصیت کے اعتبار سے آراستہ پیراستہ ہو وہ ہرگز فقیر نہیں ہوسکتا، آپ کی نجابت و شرافت دوسروں کے غم بانٹنے کے ذریعے پروان چڑھی شک نہیں کہ دینداری اور ایمان کی حفاظت میں جام شہادت نوش کرنے والا مسکراتے ہوئے ہر درد و الم کو قبول کرتا ہے*۔

کیا قابل غور نہیں کہ ایک عیسائی اس والہانہ انداز میں گفتگو کر رہا ہے اور وہ بھی امام علی علیہ السلام کے سلسلہ میں، اگر ایک عیسائی دانشور علی علیہ السلام کی شخصیت میں دوسروں کا درد دیکھ رہا ہے اگر فقرا کو دیکھ کر علی علیہ السلام میں ان کا درد دیکھ رہا ہے تو ایسے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے ایک علی کے چاہنے والے کی حیثیت سے؟ * اگر علی علیہ السلام کی شخصیت درد و غم و اندوہ سے نکھرتی ہے تو ہمیں بھی مصائب و آلام اور پریشانیوں میں خود کو سنبھالتے ہوئے جادہ عشق پر سربلند و سرفراز ہو  کر جئیں   برطانوی مصنف اور ماہر تعلیم سائمن اوکلے (1678-1720) یوں کہتے نظر آتے ہیں:

”علیؑ ایسے صاحب فصاحت تھے عرب میں ان کی باتیں زبان زد عام ہیں، آپٖ ایسے غنی تھے مساکین کا ان کے گرد حلقہ رہتا تھا، سوال یہ ہے کہ *کیا ہماری زندگی ایسی ہے کہ ہمارے اردگرد مساکین و فقراء کا حلقہ رہے؟ یا ہم اس حلقہ کو ڈھونڈتے ہیں جہاں اغنیاء و ثروت مند افراد نظر آتے ہیں؟* فرانس کے میڈم ڈیالفو Madame Dyalfv کہتے ہیں: آپ اسلام کی سربلندی کے لئے مظلومیت کے ساتھ وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے، حضرت علیؑ وہ باعظمت ہستی ہیں جنہوں نے ان تمام بتوں کو توڑ ڈالا جنہیں عرب یکتا خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔ اس طرح آپ توحید پرستی اور یکتا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے، آپ ہی وہ ہستی ہیں جس کا ہر عمل اور کام مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ ہوا کرتا تھا۔ یہ صرف فرانس کے دانشور ہی نہیں بلکہ برطانوی ماہر تاریخ ایڈوڈ گیبن (1737-1794) بھی امام علی علیہ السلام کے بارے میں کہتے نظر آتے ہیں: ”حضرت علیؑ لڑائی میں بہادر اور تقریروں میں فصیح تھے، وہ دوستوں پر شفیق اور دشمنوں پر فراخ دل تھے۔” ؟    

معروف تاریخ پروفیسر فلپ کے حتٰی 1886-1978) کہتے ہیں:

"سادگی حضرت علیؑ کی پہچان تھی انہوں نے بچپن سے اپنا دل و جان رسول خدا کے نام کردیا تھا”۔سرویلیم مور (1905-1918)” ایک الگ زاویہ کے تحت امام علیہ السلام کی زندگی میں پائی جانے والی دانشمندی و شرافت کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں:"حضرت علیؑ ہمیشہ مسلم دنیا میں شرافت اور دانشمندی میں مثال رہیں گے”۔ اب ہم سوچیں کیا ہماری زندگی کے فیصلے ہماری دانشمندی کی علامت ہیں کیا ہم ایسے مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر ہمارے غیر مسلم بھائی کہہ سکیں کہ یہ ایسا علی علیہ السلام کا ماننے والا ہے جو دانشمندی و شرافت مندانہ زندگی میں علی علیہ السلام کی طرح بے مثال ہے، برطانوی ماہر جنگ جیرالڈ ڈی گورے 1897-1984): ایک مقام پر کہتے ہیں "حضرت علیؑ کے اسلام سے خالصانہ تعلق خاطر اور " معاف کرنے کی فراخدلی نے ہی ان کے دشمنوں کو شکست دی”۔ اب ہم سوچیں کہ ہمارا اسلام سے تعلق کس قدر خالص ہے اور کیا ہم کسی خطا کا شکار ہونے والے اپنے ہی دوست کو معاف کرنے پر تیار ہیں؟ یا ہر وقت بدلہ لینے کی فکر ہمیں ستائے رہتی ہے اور جب تک ہم بدلہ نہ لے لیں آتش انتقام فروکش نہیں ہوتی؟  

امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے مختلف مکاتب فکر سے متعلق دانشوروں کے اظہار خیال کے یہ چند نمونے تھے جنہیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا،  علی کی کتاب نہج البلاغہ آج ہمارے یہاں کیوں مظلوم ہے وہ کتاب جس کے بارے میں یہی سلیمان کتانی لبنانی مفکر کہتے نظر آتے ہیں، ”‌کونسي ايسي چيز ہے جو نہج البلاغہ ميں بيان کي گئي ہے اور وہ ایک حقیقت کی عکاس نہ ہو؟ ايسا لگتا ہے جيسے آفتاب کا تمام نور سمٹ کر پیکر علي ابن ابي طالب عليہ السلام ميں سما گيا ہو

میں نے بہت مختصر کر کے یہ مضمون تحریر کیا ہے

 



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر