Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
جمعرات، 1 دسمبر، 2022
بیٹی چاہئے یا بیٹا چاہئے ؟
بدھ، 30 نومبر، 2022
توشہ خانہ کیا ہے؟
توشہ خانہ کیا ہے؟
۔توشہ خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری کا نام تو آپ نے اس سارے معاملے کے دوران بار بار سنا ہو گا۔ یہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور ملک واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے۔یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔پاکستان کے قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
توشہ خانہ قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے، اگر وہ اسے نہیں لیتے تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے لیے نیلامی کی جاتی ہے۔ اگر اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انھیں عام عوام کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔جو بھی فوجی یا سرکاری ملازم ان قیمتی اشیا کو خریدتے ہیں انھیں اپنی ذرائع آمدن ڈیکلیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔حکمرانوں کی جانب سے توشہ خانہ میں جمع کروائے گئے تحائف حکومت کے بنائے ہوئے قواعد کے تحت ہی فروخت کیے جا سکتے ہیں۔
جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے، انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن پیسز، سوینیرز، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کوئی سربراہِ مملکت چاہے تو وہ ملنے والے کسی تحفے کو مخصوص رقم ادا کر کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے مگر پاکستان اور انڈیا میں ایسے تحائف کی نیلامی بھی کی جاتی ہے
اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ ریاست کے خزانے میں جاتا ہے۔کابینہ ڈویژن کے حکام کے مطابق یہ نیلامی ہر سال ہونا ہوتی ہے لیکن سالانہ بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ایک برس کے دوران سربراہان مملکت اور وزرا کے دوروں میں اتنے تحائف نہیں ملتے کہ ہر برس نیلامی کا انعقاد کیا جا سکے۔سربراہان مملکت اور وزرا کو ملنے والے تحائف اور توشہ خانہ میں ان کے اندراج کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ ان کی مارکیٹ قیمت کا تعین کروایا جاتا ہے اور نیلامی کی جاتی ہے
۔حکام کے مطابق اگر سربراہان مملکت یا وزرا یہ تحائف نہیں رکھتے تو پھر ان تحائف کی فہرست تیار کر کے انھیں توشہ خانہ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین اور فوج کے افسران کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔نیلامی کی قیمت کا تعین دوبارہ ایف بی آر اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے اور ان میں سے چند اشیا کی قیمت کو مارکیٹ ویلیو سے کچھ کم رکھا جاتا ہے جبکہ چند ایسے تحائف جو کسی خاص سربراہ ملک کی جانب سے ملے ہو ان کی اہمیت اور اعزازی مالیت کے تحت ان کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ رکھی جاتی ہے
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں الزامات ثابت ہونے پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے
1980 سے 2008 تک کس حکمران نے سرکاری توشہ خانہ سے کتنے تحائف اونے پونے خریدے:
شوکت عزیز پاکستان کے سابق وزیر اعظم، وزیر خزانہ نے - 1126تحائف خریدے
صدر پاکستان جنرل ضیا الحق نے - 122
سابق وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو -304
سابق صدر پاکستان اسحاق خان - 88
محترمہ بینظیر بھٹو - 194
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف (دو ادوار) - 95
سابق صدرپاکستان فاروق لغاری - 114
سابق صدر پاکستان رفیق تارڑ - 83
سابق وزیر اعظم پاکستا ن ظفر اللہ جمالی - 110
سسابق وزیر اعظم پاکستان چوہدری شجاعت - 9
سابق صدر پپپاکستان جنرل پر ویز مشرف - 515
· Nov 16, 2022--یہ اعداد و شمار ہیں تو شہ خانہ کے
صدر زرداری نے توشہ خانے سے قیمتی گاڑیاں لیں-
پیر، 28 نومبر، 2022
میں مر نے کو تیار ہو ں -۔ نیلسن منڈ یلا
میں مر نے کو تیار ہو ں -اپنے بغاوت کے مقدمہ کے دوران اس نے جو یہ ایک جملہ کہا تھا -اس ایک تاریخی جملہ نے پوری دنیا کو اس کی طرف متوجّہ کیا
وفات:
جنو بی افر یقہ کا پہلا سیا ہ فا م صدر نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کا علمبر دار اور عا لمی شہرت یا فتہ سیا ست دان 5دسمبر2013کو اس جہان فانی سے کو چ کر گیا۔ اسے اس کے آبا ئی گا ؤ ں ’’Qunu‘‘ میں سر کاری اعزاز کے سا تھ دفنا یا گیا ۔ پوری قوم نے نیلسن منڈ یلا کی یا د میں دس دن کا سر کا ری سو گ منا یا ۔ قومی سطح پر اس کی تد فین کی رسو ما ت 15دسمبر 2013 کو ادا کی گئیں ۔ 95000 لو گوں نے اُن کی نماز جنا زہ میں شر کت کی حالا نکہ مو سم کی خرا بی اور بارش کیو جہ سے کا فی لو گ مذہبی رسو ما ت میں شر کت کر نے سے قا صر ر ہے ۔ نیلسن منڈ یلا جیسے عا لمی شہرت یا فتہ سیا ستدان دنیا میں بہت کم پیدا ہو ئے ہیں، سفید فام اور سیاہ فا م میں فرق مٹا نے وا لا یہ نڈر لیڈ ر آج بھی کرو ڑوں لو گوں کے دلوں کی دھڑکن ہے اورآزادی کے لئے لڑنے والے اس سے روشنی حاصل کرتے رہیں گے۔
آہ ۔ ۔ ۔ ۔ہمارا محبوب ہیرو چلا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس دور میں انسانیت کی سب سے توانا آواز خاموش ہوگئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عہد حاضر کے عظیم لوگوں کی رنجیر سے آخری کڑی بھی ٹوٹ گری، محبت کا روشن باب بند ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا شخص چلا گیا جس نے ھمیں بتایا کہ لوگ، معاشرہ، اہل اقتدار، حتی کہ زندگی کے دکھوں سہارا اپنی ھمسفر اپنی شریک حیات بھی محبت کے جواب میں صرف نفرت کی سنگ باری کرے تو اہل محبت کو کیا کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ھم عمر بھر محبت کے راگ الاپنے والے ، بات بے بات بھڑک کے نفرت کی آگ برسانے والے، ھم بظاہر گورے چٹے سرخ سفید لوگ کتنے تاریک نکلے ۔ ۔ان دل کے سیاہ فاموں کے درمیان ۔ ۔میرے اُجلے ، پرنور، روشن و تاباں نیلسن منڈیلا ۔ ۔ ۔ ۔ ھم عمر بھر تمہیں پتھر مارتے رہے ۔ ۔ ۔ اور اب تاریخ کی کتابوں میں تمہارا نام درج کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔اچھا ہوا تو ھم میں سے چلا گیا ۔ ۔ ۔ اب ھم کھل کے نفرت نفرت کھیل سکیں گے ۔ ۔ ۔ پھر بھی نہ جانے کیوں ۔ ۔ ۔ ۔پھر بھی نہ جانے کیوں ھم اہل نفرت کی آنکھوں سے آنسو کیوں ابل پڑے۔ ۔ کیا یہ ندامت کے آنسو ہیں ۔ ۔ یقیناً یہ آنسو تمہارے ساتھی ہوں گے ۔ ۔ ۔آج اندر گرنے کی بجائے تمہارے جنازے میں شریک ہونے کو نکل آئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔قید تنہائی کی کوٹھریوں سے قبر کےآرام تک ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہارے ساتھی ۔ ۔ ۔تمہین الوداع کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں ھمیشہ کی میٹھی نیند مبارک۔
نیلسن منڈیلا کی روح کو سلام ،
قید تنہائ کے ہیرو کو میرا سلام
یہ دیکھو،چراغ راہ جلا گیا ہے کوئ
ہوا ہے دور اندھیرا، اندھیری راہوں کا
سیاہ رات میں جگنو اڑا گیا ہے کو
سنہری شام کے رستے کو دیکھ کر آؤ
دئے جلا کے یہاں رکھ گیا ہے کوئ
تمھاری عمر جو گزری ہے قید خانے میں
ہزار قید کو آزاد کر گیا ہے کوئ
یہ تم تھے جو جھیل ہی گئے! لیکن
کہ انقلاب کی دستک سی دے گیا ہے کوئ
وہ ایک نوائے اسیری جو ہو گئ خاموش
درون دل میں صدا دے گیا ہے کوئ
تحریر و تلخیص
سیّدہ زائرہ
بریمپٹن
کینیڈا
بدھ، 23 نومبر، 2022
شہر کراچی اور آلودگی
تمام دنیا میں ساحلی شہروں میں بڑھتا ہوا آبادی کا دباو ہے لیکن تمام مہذّب دنیا میں حکومتیں انے شہریوں کے لئے اپنے تمام وسائل کو خرچ کرتی ہیں اور عوام الناس کوبہترین سہولتیں فرام کرتی ہیں لیکن پاکستان میں معاملہ بلکل الٹ ہے حکومتوں کی عیاشیاں پورے عروج پر رہتی ہیں اور سسکتے عوام بلکتے رہتے ہیں-اب شہر کراچی کو دیکھ لیجئے -شہر کراچی ایک صنعتی اور معاشی حب ہونے کے باعث ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ایسی صنعتی ترقی اور Industrializtion کے زیر اثر شہر میں تمام قسم کی آلودگی عروج پر ہے۔ یہ آلودگی نہ صرف بچوں اور بزرگوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ نوجوان بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ آلودگی بل آخر سیکڑوں اقسام کی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہے۔ حالانکہ گلوبل وارمنگ اور گرین ہاؤس ایفیکٹ میں پاکستان کا حصہ %1 سے بھی کم ہے
پاکستان اس وقت گلوبل وارمنگ اور گرین ہاؤس ایفیکٹ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور اس میں بھی بالخصوص شہر کراچی اس مسئلہ سے بہت متاثر ہے۔شہر کے اطراف مختلف فیکٹریاں جو کہ بھٹی کا استعمال کرتی ہیں فضائی آلودگی کا سبب ہیں۔ ان فیکٹریوں میں سیمنٹ اوراینٹ بنانے والی فیکٹریاں سر فہرست ہیں۔ یہ فیکٹریاں مختلف اقسام کے زہریلے مادے براہ راست فضا میں خارج کرتی ہیں جن میں کاربن مونوآکسائیڈ اور کاربن ڈائی
آکسائیڈ شامل ہیں جو کہ بعد میں مختلف بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں
پورے شہر میں میں دمہ کا مرض اور پھیپڑوں کا سرطان بہت عام ہے اور ان دنوں ہوا کا معیار کراچی میں خرابی کے انتہائی درجے پر ہے۔فضائی آلودگی کے بعد آبی آلودگی بھی اس شہر بے یار کا سر اٹھاتا مسئلہ ہے۔ اول تو پینے کا پانی عوام کو میسر نہیں ہے لیکن جو میسر ہے وہ بھی آلودگی کے انتہائی درجے پر ہے۔ شہر کی اکثر دوا ساز فیکٹریاں اور مختلف اقسام کی کیمیکل بنانے والی صنعتیں استعمال شدہ پانی کو ندی میں چھوڑ دیتی ہیں جو کہ آگے جا کر پینے کے پانی میں شامل ہو کر آبی آلودگی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
اس آبی آلودگی کی وجہ سے خصوصاً بزرگوں اور بچوں میں پیٹ کی بیماریوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے جس میں گیسٹرو سرفہرست ہے۔
آلودگی کی تیسری قسم جوشہر کو متاثر کر رہی ہے وہ شور کی آلودگی نوائس (Noise) پلوشن ہے۔ اس وقت شہر میں لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں موجود ہیں جو گیس پر چلتی ہیں اور فضائی آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ ان گاڑیوں کا ہارن نوائس پالوشن کا سبب ہے جو کہ مریضوں اور بزرگوں کہ لیے قابلِ اذیت ہے۔
جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر مچھر اور دیگر بیماری پیدا کرنے والے جراثیموں کی افزائش کا باعث بن رہے ہیں جس وجہ سے ڈینگی اور ملیریا میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت اور اعلی حکام کو چاہیے کہ آلودگی کی ان تمام اقسام کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے تاکہ شہری مختلف بیماریوں سے بچ کر ایک صحتمند زندگی بسر کر سکیں۔
پیر، 21 نومبر، 2022
'کربلا معرفت خداوند کی سر زمین
کربلا'' ایک عظیم درسگاہ ''حُسینی '' کربلا معرفت خداوندی رکھنے والوں کی امتحان گاہ تھی۔جس نے حق و باطل کو قیامت تک کے لئے جدا کر دیا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کو باطل قوتوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیر مسلم ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ۔یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اور حقیقت میں آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے
یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لی تو فوج یزید سے نکل گئے۔کربلا کے درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں
اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان
میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں ،بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبری علیہا السلام ، ام کلثوم علیہا السلام اور دوسری خواتین معلمان راہ سعادت ہیں۔میدان کربلا میں چھ مہینہ کے بچّے سے لے کر کڑیل جوانوں تک ، بوڑھوں سے لے کر عورتوں تک سبھی نے وہ کارنامے انجام دئے جوہمیشہ کے لئے تاریخ کا درخشاں باب بن گئے۔
شیعہ و اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے وقت آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہؐ حسنینؑ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جیسے؛ حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور حسین چراغ ہدایت و کشتی نجات ہیں۔
۔ آپ امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے دور میں ان کے ساتھ تھے اور اس دور کی جنگوں میں شریک رہے۔ امام حسنؑ کی امامت کے دوران آپ ان کے دست و بازو بنے اور امام حسنؑ کی امیر شام سے صلح کی تائید کی۔ امام حسن کی شہادت سے امیر شام کے مرنے تک اس عہد پر باقی رہے
حسین بن علیؑ کی امامت امیر شام کی حکومت کے معاصر تھی۔ بعض تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے امیر شام کے بعض اقدامات پر سخت اعتراض کیا ہے، بالخصوص حجر بن عدی کے قتل پر معاویہ کو سرزنش آمیز خط لکھا اور جب یزید کو ولی عہد بنایا تو آپ نے اس کی بیعت سے انکار کیا۔ امیر شا م اور بعض دوسروں کے سامنے آپ نے اس کے اس کام کی مذمت کی اور یزید کو ایک نالایق شخص قراردیا
امیر شام کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کو شریعت کے خلاف قرار دیا اور بیعت نہ کرنے پر یزید کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے پر 28 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ گئے۔ مکہ میں چار مہینے رہے اور اس دوران کوفہ والوں کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط کی وجہ سے مسلم بن عقیل کو ان کی طرف بھیجا۔ مسلم بن عقیل کو فہ کے بے وفا لوگوں نے بے دردی سے شہید کر دیا
جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو امام حسینؑ کے سفر کی خبر ملی تو ایک فوج ان کی جانب بھیجی اور حر بن یزید کے سپاہیوں نے جب آپ کے راستے کو روکا تو مجبور ہو کر کربلا کی جانب نکلے۔ روزعاشور امام حسین اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب و انصار میں سے 72 نفوس شہید ہوئے اور شہادت کے بعد امام سجادؑ جو اس وقت بیمار تھے، سمیت خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے گئے
۔ شیعہ اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہوئے امام حسین کی عزاداری اور ان پر گریہ کا خاص طور پر محرم و صفر کے مہینوں میں بہت اہتمام کرتے ہیں۔ معصومین کی روایات میں زیارت امام حسین کی بھی بہت تاکید ہوئی ہے آپ کا روضہء پُر نور کربلا میں زیارت خاص و عام ہے جہاں ہر سال کروڑو ں زائرین آتے ہیں- کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر معاشرہ میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو معاشرہ میں موجود ہر طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے جیسے امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں خصوصی طور پر امت مسلمہ اس ماہ جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہت عزیز نواسے حضرت امام حسین اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو ۱۰محرم ۶۱ ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔
درس کربلا بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدار رکھے جائے کا ورنہ جہالت کے گھتا ٹوپاندھیرے انسان کا مقدّر بن جاتے ہیں
جمعہ، 18 نومبر، 2022
امام حسین علیہ السّلام سےغیر مسلم مشاہیر کی عقیدت
قیامت تک ایسی اذان اور ایسی نماز کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے-آپؓ کے اصول اور آپؓ کی قربانی جہاں اسلام حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے اپنی عقیدت کچھ اس طرح قلم بند کی کہ ’’امام حسینؓ صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ آپؓ نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔‘‘ جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کیلئے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے۔ آپؓ کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ آپؓ حضرت محمدؐ کے نواسے‘حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے بیٹے‘ لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں۔ آپؓ کے عظیم واعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی کی بقا ء کی ضمانت ہیں وہاں بلاتفریقِ مذہب و ملت اور علاقہ و ملک عدل و انصاف کی فراہمی‘ آزادی کے حصول‘ حقوق کی جنگ‘ فرائض کی ادائیگی‘ جذبہ ایثار و قربانی‘ عزم وہمت اور جوش وولولہ کے جاویدانی پیغام بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ فکر اور مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے مشاہیر آپؓ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں ۔ مختلف مذاہب کے پیشوا‘ دانشور‘ مفکر اور شعراء نے امام حسینؓ کی بارگاہ میں جس عقیدت کا اظہار کیا یہاں ان کی تفصیل پیش نہیں کی جا سکتی
حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے اپنی عقیدت کچھ اس طرح قلم بند کی کہ ’’امام حسینؓ صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ آپؓ نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہنمائوں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔‘‘ جے اے سیمسن کہتے ہیں ’’حسینؓ کی قربانی نے قوموں کی بقاء اور جہاد زندگی کیلئے ایک ایسی مشعل روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی‘‘۔جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے۔ آپؓ کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ آپؓ حضرت محمدؐ کے نواسے‘حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے بیٹے‘ لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں۔ آپؓ کے عظیم واعلیٰ کردار نے اسلا م کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی
-ہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں’’قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ء ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؓ نے جان دیدی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد لکھتے ہیں کہ ’’کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ آپؓ کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا‘ نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں‘ ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں
لیکن مختصراً ذکر کرتے چلیں تو ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار ؓکی شان بیان کرنے کی وجہ سے خاص شہرت حاصل ہوئی وہ کہتے ہیں: انسانیت حسینؓ تیرے دم کے ساتھ ہے ماتھر بھی اے حسینؓت تیرے غم کے ساتھ ہے انہی کاایک اور شعر کچھ یوں ہے کہ مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے مگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے۔ معروف مصنف تھامس کارلائل کربلا سے حاصل ہونیوالے درس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’کربلا کے المیے سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپؓ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔‘‘ ایک اور عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے۔‘‘
۔سوامی شنکر اچاریہ نے بھی امام عالی مقام ؓ کو اپنے الفاظ میں یوں شردھانجلی پیش کی کہ ’’اگر حسینؓ نہ ہوتے تواسلامی تعلیمات ختم ہو جاتیں اور دنیا ہمیشہ کیلیے نیک بندوں سے خالی ہوجاتی۔ حسینؓ سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں۔‘‘ مشہورافسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر سہنانے لکھا ’’اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا کے شہیدوں میں امام حسینؓ کو ایک ممتاز اور بلند حیثیت حاصل ہے۔‘‘ ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ نے اپنے احساسات یوں بیان کئے کہ ’’حضرت محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے امام حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے۔‘‘
مشہور جرمن فلاسفر نطشے بلاامتیاز مذہب و ملت ہر قوم کی نجات کو فلسفہ حسینیت ؓمیں یوں بیان کرتے ہیں’’زہد و تقویٰ اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔
منگل، 15 نومبر، 2022
زندگانی ء مبارک سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم
زندگانی ء مبارک
سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم
قال اﷲ تعالیٰ فی القرآن الحکیم یا ایھا النبی اناارسلناک شاھد او مبشر او نذیر او داعیا الی اﷲ باذنہ و سراجا منیرا۔ سورہ الاحزاب پ ۲۲ با آیت ۴۵ ۔ ۴۶
ترجمہ:اے نبی ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اورڈرانے والا اور اﷲ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشنی پہنچانے والا چراغ ہدائت بنا کر بھیجا ہے
(۳)سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ کے واسطے پروردگار عالم خود کس طرح رطب للّسان ہے و ما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین۔سورہ الانبیاء پ ۲۱ آیت ۱۰۷
اور ( اے رسول ؐصلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم ) ہم نے آپ کو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔
(۴) یٰسین و القرآن الحکیم انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم۔سورہ یٰسین پ ۳۶ آیت ۱۔ ۴
یٰسین حکمت والے قرآن کی قسم ہے ۔ یقینا تم ان رسولوں میں سے ہوجو صراط مستقیم پرتھے۔
آپ اول مخلوق خدا ٗ گنتی کا پہلا عدد اور نور اول ٗ خاتم النبین ؐ ہیں ۔
اول ما خلق اﷲ نوری مصنفات فارسی سمنانی ص ۲ ، ۱۰۸
نور محمد ؐ کی تخلیق کے بعد زمین کافرش بچھا کر آسمان کا شامیانہ لگا کر چاند سورج کی قند یلیں جلا کر رب ذوالجلال نے حضرت آدم ؑ سے کہا کہ جنت سے نکل جائیں افسانہ فلک کا زمین پر سناؤجب کہ نور اول منتظر بیٹھا رہا کہ دیکھئے کب باری آئے عیسیٰ ؑ نے بھی آکربشارت دی کہ نور اول خاتم النبین آرہا ہے اور باری تعالیٰ کی آواز آئی جاؤ میرے ہادی کامل جاؤ او ر
اکملت لکم دینکم۔
کی آواز سناؤ پس عام فیل سترہ ماہ ربیع الاول روز دوشنبہ یا جمعہ کادن تھا بمطابق ۷ مئی ۶۳۳ کو مکہ میں یہ نور اول عالم وجود میں ظہور ہوا۔ بہر حال یہ چراغ میز خلوت کدہ ازل سے عرش و کرسی کی سیر کرتا اصلاب طیبہ میں ہوتا ہوا آغوش آمنہ میں اس طرح آیا کہ قصر شاہی کے در ھلے ایوان کسری کے گنگرے گرے ، فارس کے آتش کدے بجھے کعبہ کے بت جھکے،
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ ؐ
کی صدائیں فضائے عالم میں گو نجیں تو عرش والوں نے کہا عرش کا مکین آیا ٗ انبیاء پکارے خاتم النبین آیاٗ جبرائیل نے کہا صادق و امین آیا ٗ اسلام نے پکار اشہنشاہ دین و دنیا آیا ٗ گناہ گاروں نے کہا شفیع مذنبین آیا اور رب نے کہا رحمت للعالمین آیا۔ خدا تعالی نے محمد مصطفیٰ ؐ کو مینارہ رشد و ہدایت بناکر بھیجا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفیٰ باللہ شہیداً محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ و رضواناً۔ سورہ فتح آیت ۲۸، ۲۹۔
ترجمہ: وہ ہے جس نے اپنا رسول ؐ ہدایت کے ساتھ بھیجا اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو غالب کرے تمام دینوں پر اور اللہ کافی ہے گواہ، محمد اللہ کا رسول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں ان کو دیکھئے گا رکوع کرتے ہوئے سجدے کرتے ہوئے کہ چاہتے ہیں فضل اللہ کا اور اس کی رضامندی ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کی نشانیاں ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔سورۂ آل عمران آیہ ۱۶۴۔
ترجمہ: در حقیقت اہل ایمان پرتو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا رسول بھیجا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔سورۂ آل عمران آیہ ۱۶۴۔
ترجمہ: در حقیقت اہل ایمان پرتو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا رسول بھیجا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
جاء الحق و ذھق الباطل ان الباطل کان ذھوقاً۔سورہ بنی اسرائیل پ ۱۵
آگیا حق اور مٹ گیا باطل بے شک باطل نے تو مٹنا ہی تھا۔
زمین و آسمان میں موجود ساری چیزوں نے خدا کی تسبیح پڑھی اور شیطان فریاد کرتے ہوئے بھاگ گیا حضرت آمنہ مادر رسول اللہ ؐ فرماتے ہیں کہ جب میرے نور بصر روئے زمین پر آیا تو ان کی پیشانی مبارک سے ایک نور سا طع ہوا جس سے زمین و آسمان روشن ہوئے اور اس روشنی میں سے ایک آواز مجھے سنائی دی کہ اے آمنہ اس نوزائیدہ بچے کا نام محمد ؐ جو کہ محمود سے مشتق ہے رکھو۔ تاریخ طبری
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...