جیسے یہ اس لڑکی کے بس میں ہے کہ وہ لڑکا ہی پیدا کرے گی اس سماجی پہلو اور اس سے پیدا ہونے والے دباؤ کے اسباب کی طرف۔ کئی بچیوں کے ہاں جب پہلی اولاد، اولاد نرینہ پیدا ہو تو ان کو کسی حد تک قلبی و ذہنی سکون میسر ہو جاتا ہے لیکن جن کے ہاں جب پہلی اولاد، لڑکی ہو جائے تو لوگ، اعزہ و اقارب باقاعدہ تسلیاں دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے بعد اس لڑکی پہ بیٹا پیدا کرنے کا دباؤ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اور اگر دوسری دفعہ بھی بیٹی پیدا ہو جائے تو ساسیں اپنے ”چاند سے بیٹے“ کے عقد ثانی کی خواہش دبے دبے یا واشگاف الفاظ میں شروع کر دیتی ہیں
۔ اب اگر تیسری بھی بیٹی پیدا ہو جائے تو اس لڑکی پہ مہر لگ جاتی ہے کہ یہ عورت صرف بیٹیاں ہی پیدا کرتی ہے۔ گھر میں سوگ کی وہ فضا ہوتی ہے جیسے کوئی پیدا نہ ہوا ہو خدانخواستہ گزر گیا ہو۔ کئی کم عقل خاندان تو اپنے بیٹے کی دوسری شادی کروا دیتے ہیں، کئی جاہل اپنی بہو کو طلاق دلوا دیتے ہیں اور کئی الٹی میٹم دے دیتے ہیں کہ اب کی بار بیٹا ہونا چاہیے ہر صورت۔
اور میں اپنے رب سے دعا مانگ کر کبھی بھی مایوس نہیں رہا۔ یہ حضرت زکریا ع کے الفاظ ہیں جو قرآن کی سورہ مریم کے آغاز میں درج ہیں۔ کیسا یقین ہے ان کواپنے رب پر کہ نہ انہیں یہ پرواہ ہے کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور نہ ہی دعا مانگنے میں یہ امر مانع ہے کہ ان کی بیوی بھی بانجھ ہے اور پھر بھی نیک اولاد کی دعا یقین کے ان الفاظ میں مانگ رہے ہیں ۔
ہے۔
اب اگر تو عورت اور خاوند کی آپس میں انڈرسٹینڈنگ اچھی ہو تو وہ متمول اور پڑھے لکھے لوگ (In Vitro Fertilization) IVF ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اپنی مرضی سے بچہ یا بچی کا خواب پورا کر لیتے ہیں۔ ابھی تو یہ طریقہ علاج مہنگا ہے۔ صرف امیر لوگ یہ طریقہ علاج استعمال کر رہے ہیں جب یہ طریقہ علاج عام ہو گا تو لڑکوں کی معاشرے میں تعداد بڑھ جائے گی اور وہ صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو کہ اس وقت چائنہ میں ہے۔ چائنہ کے بعض علاقوں میں لڑکے کل آبادی کا ستر فیصد ہو گئے ہیں اور لڑکیاں تیس فیصد۔ یوں فطرت نے جو توازن رکھا ہوا تھا اسے ہم بیٹے کی ضد میں بگاڑ رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں