پیر، 10 اکتوبر، 2022

شداد کی جنت اور اس کا انجام

html

شدید اور شداد دونوں بھائ تھے اور بہت امیر بادشا ہ کے بیٹے تھے  لیکن شدید عالم جوانی میں ہی مر گیا

 شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اس کے باج گزار تھے۔ اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ اس تسلط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کردیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جوحکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟ حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔

 چناں چہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک  کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ ع  پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔

اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کیے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔ پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سے سجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی ویاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔ شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور  عنبر و گلاب سے صیقل کیاگیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لیے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کردیا گیا۔

 بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لیے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچایا کریں۔لیکن قومِ عاد کی بداعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کردیا گیا تو حضرت ہُود علیہ  السّلام بحکم اللہ تعالِی  نزول عذاب سے پہلے ہی حضر موت کی طرف مراجعت کر گئےتھے۔ ۔ حضرت ہوُدؑ علیہ السّلام کی وفات یہیں پر ہوئی

معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہے۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے مناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنےلگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟ اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس دمشق  آئے اور لوگوں سے سارا ماجرہ بیان کیا جو ان کے ساتھ پیش آیا تھا، پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔

 ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔ پھر اہلِ علم حضرات سے وہاں کے لوگوں نے رجوع کرکے اس بارے میں معلومات حاصل کیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟ علما نےبتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ آنحضرتؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا اور یہ نشانیا ں چشم دید گواہ عبد اللہ بن قلابہ میں موجود تھیں ۔ زرا زمین میں چل پھر کر تو دیکھو ہم نے کیسی کیسی قوموں کو ہلاک کر مارا

 (القران)

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2022

مختلف موسموں میں کینیڈا کا موسم

 

 

 

کینیڈا  رقبے کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے اور ملک کے مشرقی حصوں کا موسم اکثر مغربی حصوں سے بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں دو ساحل، چھ ٹائم زون، اور ایک ایسا خطہ ہے جو خوشگوار ساحلوں سے لے کر برف پوش پہاڑوں، گلیشیئرز اور آرکٹک ٹنڈرا تک ہے۔   ، اگر آپ کسی  شہر کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی وقت ملک کا دورہ کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے کہ کینیڈا جانے کا بہترین وقت کب ہے، یہاں کینیڈا کے  موسم اور سیاحت کے لئے رہ نمائ بک ہے۔ 

کینیڈا  رقبے کے لحاظ سے ایک بہت بڑا ملک ہے اور ملک کے مشرقی حصوں کا موسم اکثر مغربی حصوں سے بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں دو ساحل، چھ ٹائم زون، اور ایک ایسا خطہ ہے جو خوشگوار ساحلوں سے لے کر برف پوش پہاڑوں، گلیشیئرز اور آرکٹک ٹنڈرا تک ہے۔   ، اگر آپ کسی  شہر کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی وقت ملک کا دورہ کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے کہ کینیڈا جانے کا بہترین وقت کب ہے، یہاں کینیڈا کے  موسم اور سیاحت کے لئے رہ نمائ بک ہے۔

  مختلف موسموں میں کینیڈا کا موسم

کینیڈا کے مختلف شہروں اور خطوں کا موسم اس بات پر منحصر ہے کہ وہ جگہیں سال بھر کس قسم کے موسمیاتی حالات اور درجہ حرارت کا تجربہ کرتی ہیں۔ ہر جگہ سرد اور برفباری ہونے سے دور، کینیڈا کی آب و ہوا ملک میں پائے جانے والے مختلف متنوع مناظر پر منحصر ہے۔وینکوور اور کاملوپس کے گرم علاقوں کے بعد آتے ہوئے، جنوبی برٹش کولمبیا کے پہاڑی درے لوگوں کو حیران کر دیتے ہیں۔ سبارکٹک یا سبپلائن آب و ہوا. تاہم، ساحلی برٹش کولمبیا شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن معتدل گرمیاں اور سردیاں۔

کینیڈا کے مختلف علاقوں میں کس قسم کے موسم کا سامنا ہے اس کا انحصار اس موسم پر بھی ہے جو اس وقت ملک میں چل رہا ہے۔ کینیڈا میں چار اچھی طرح سے طے شدہ موسم ہیں، بہار، گرمی، خزاں اور سردی۔

کینیڈا میں موسم سرما

کینیڈا میں سردیاں ملک بھر میں سرد ہیں اگرچہ عرض البلد اور خطوں کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ وینکوور جیسے ساحلی شہروں میں ہلکی سردی ہے جبکہ درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک کہیں بھی حرارت صفر سے نیچے گرتا ہے. مونٹریال، ٹورنٹو، اور اوٹاوا جیسے فلیٹ لینڈز میں درجہ حرارت -20 ڈگری سیلسیس کے قریب گر جاتا ہے۔ . کینیڈا میں سردیوں کا موسم دسمبر کے مہینوں سے لے کر فروری کے مہینے تک ہوتا ہے ، کبھی کبھی مارچ تک۔

کینیڈا میں موسم بہار

کینیڈا میں بہار مارچ سے مئی تک جاری رہتی ہے، حالانکہ یہ فروری کے دوران ہی مغربی ساحلی علاقوں میں آتی ہے اور بہت سے دوسرے علاقوں میں اسے اپریل کے بعد ہی نظر آتا ہے۔ دی آخر کار ان مہینوں میں درجہ حرارت صفر سے بڑھ جانا شروع ہوتا ہے، 10 ڈگری سیلسیس تک جا رہا ہے۔ البرٹا جیسی جگہوں اور اونچائی والے علاقوں جیسے بینف اور وِسلر میں اب بھی کافی سردی ہے لیکن باقی ہر جگہ صرف سردی ہے۔ جو سیاح گرم آب و ہوا والے خطوں سے ملک کا دورہ کر رہے ہیں وہ خاص طور پر سردی محسوس کرتے   ہیں-

کینیڈا میں موسم گرما

کینیڈا میں موسم گرما جولائی سے اگست کے مہینوں تک رہتا ہے اور ہے کینیڈا میں سیزن کا موسم کے ساتھ ملک میں سال بھر گرم ترین درجہ حرارت ہوتا ہے. ٹورنٹو زیادہ درجہ حرارت  پرجبکہ وینکوور اور دیگر معتدل علاقوں میں درجہ حرارت کچھ کم ہوتا ہے اور اگست کے آخر میں وہاں موسم ٹھنڈا ہونا شروع ہو جاتا ہے-گرمیوں کی دوپہروں کو ایک تازہ پہاڑی جھیل میں چھڑکنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ کھوئے ہوئے جھیل ساحل سمندر پر آرام دہ دن کے لیے بہترین ہے، یا اگر آپ خاموش بیٹھنے کے لیے بہت بہادر ہیں، تو کھڑے ہو کر پیڈل بورڈنگ کریں الٹا جھیل یہ بہت ضروری ہے

کے ساتھ موسم گرما کا آغاز کریں۔ وِسلر چلڈرن فیسٹیول6 سے 8 جولائی 2018 تک جہاں Whistler بچوں کے جادو اور موسیقی کی پرفارمنس، ہینڈ آن آرٹس اور دستکاری کی ورکشاپس جیسے کہ چہرے کی پینٹنگ، اوریگامی اور مزید بہت کچھ میں تبدیل ہوتا ہے

کینیڈا میں خزاں کاموسم

گھنے جنگلات سے گھری ہزاروں جھیلوں کے ارد گرد واقع متعدد قومی پارکوں والا ملک، کینیڈا وہ ملک ہے جس کے شہروں سے باہر پیش کرنے کے لیے زیادہ نظارے ہیں۔ ۔ ملک کا مشرقی حصہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ موسم خزاں کے رنگوں کا مشاہدہ کرنے کا بہترین طریقہ اپنی تمام شدت کے ساتھ پتے سرخ سے نارنجی کی طرف جاتے ہیں اور آخر کار سردیوں کی ہوا میں پیلے رنگ کی ساخت کے ساتھ غائب ہو جاتے ہیں۔کینیڈا جتنے بڑے ملک میں موسم خزاں کے وقت کا اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے لیکن زیادہ تر ستمبر کے مہینوں میں زیادہ تر صوبوں میں خزاں کا آغاز ہوتا ہے۔ اونٹاریو, کیوبک اور سمندری صوبے ملک بھر میں موسم خزاں کے روشن رنگوں کو دیکھنے کے لیے بہترین مقامات ہیں۔

ملک کی بیشتر جھیلوں کے قومی پارکوں سے گھرے ہونے کی وجہ سے، سرخ اور پیلے میپل کے درختوں کے بیچ میں واقع پرامن جھیلوں کو اپنے پرسکون پانیوں میں سرخ جنگلات کی عکاسی کرتے ہوئے دیکھنا زندگی بھر کی تصویر بن جاتا ہے۔   کینیڈا کے قدیم ترین صوبائی پارکوں میں سے ایک، جنوب مشرقی اونٹاریو میں واقع الگونکوئن نیشنل پارک میں ہزاروں جھیلیں ہیں جو اس کی حدود میں چھپی ہوئی ہیں، جنگل کے پوشیدہ راستے جو خزاں کے موسم میں شاندار نظارے پیش کرتے ہیں۔ پارکوں کے شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے ٹورنٹو, Algonquin بھی ملک کے سب سے مشہور پارکوں میں سے ایک ہے جو کہ مختلف قسم کے جنگلی حیات اور کیمپ سائٹس کا گھر ہے۔

جمعہ، 7 اکتوبر، 2022

سرکےکا استعمال اور اس کے فوائد

سرکا مشرقی کھانوں کا ایک اہم جزو ہے

سرکہ سازی کا بنیادی طریقہ کار جو آج کے دور میں رائج ہے۔ یہ معمولی فرق کے ساتھ بالکل وہی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے کا تھا بلکہ بنوں، کوہاٹ اور پشاور کے علاقوں میں جہاں گھر گھر میں سرکہ سازی ہوئی ہے، وہی قدیم طریقہ استعمال کیا جاتا ہے یعنی کسی میٹھے یا نشاستہ دار محلول کو ضامن لگا کر جب خمیر اٹھایا جاتا ہے تو اس میں الکحل پیدا ہو جاتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نکل جاتی ہے اور پھر جب الکحل اور آکسیجن کا ملاپ ہوتا ہے تو سرکہ بن جاتا ہے جبکہ اطباء کے ہاں سرکہ کی تیاری کا طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ جس چیز کا سرکہ بنانا ہو، پہلے اس کا رس (جوس) حاصل کرکے پھر اس کو کسی روغنی مٹکے میں ڈال کر زیر زمین اس طرح دبایا جاتا ہے کہ مٹکے کا تمام حصہ زمین کے اندر رہے اور صرف گردن باہر ہو یا پھر کسی ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں سورج کی شعاعیں دیر تک رہیں۔ تقریباً چالیس روز بعد یا پھردو ماہ کے بعد نکال کر استعمال میں لاتے ہیں

۔ اس میں اگر کسی اور دوائی کا اضافہ نہ بھی کیا جائے تو چھیپ، داد اور رانوں کے اندرونی طرف کی خارش میں مفید ہے۔ پھپھوندی کے علاج میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پھپھوندی دواؤں کی عادی ہو جاتی ہے۔ اس لئے صحیح دوائی کے چند روزہ استعمال کے بعد فائدہ ہونا رک جاتا ہے بلکہ مؤثر دوائی کے استعمال کے دوارن ہی مرض ۔ سرکہ وہ منفرد دوائی ہے جس کی پھپھوندی عادی نہیں ہوتی اور یہ ہر حال میں اس کے لئے مفید ہے۔ ابن قیم کے مشاہدات پیدا ہونے والی سوزشوں کے لئے ایک نسخہ آزمایا گیا۔ برگ مہندی، سنامکی، کلونجی، میتھرے، حب الرشاد، قسط شیریں کو ہم وزن پیس کر اس کے ایک پیالہ میں چھ پیالہ سرکہ ملا کر اسے دس منٹ ہلکی آنچ پر ابالا گیا۔ پھر کپڑے میں نچوڑ کر چھان کر یہ ہمہ اقسام پھپھوندی میں استعمال کیا گیا۔ فوائد میں لاجواب پایا گیا۔ کسی بھی مریض کو بیس روز کے بعد مزید علاج کی ضرورت نہ رہی۔

سرکہ کے سر کے بالوں پر اثرات
سرکہ جلد اور بالوں کی بیماریوں کے لئے اطباء قدیم کے اکثر نسخہ سرکہ پر ہی مبنی ہیں۔ بو علی سینا کہتے ہیں کہ روغن گل میں ہم وزن سرکہ ملا کر خوب ملائیں۔ پھر موٹے کپڑے کے ساتھ سرکہ کو رگڑ کر سر کے گنج پر لگائیں۔ انہی کے ایک نسخہ میں کلونجی کو توے پر جلا کر سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنے سے گنج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بکری کے کھر اور بھینس کے سینک کو جلا کر سرکہ میں حل کرکے سر پر بار بار لگانے سے گرتے بال اگ آتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے ادرک کا پانی اور سرکہ ملا کر لگانا بھی مفید ہے۔ بال اگانے کے لئے کاغذ جلا کر اس کی راکھ سرکہ میں حل کرکے لگانے کے بارے میں بھی حکماء نے ذکر کیا سرکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے جراثیم کش، دافع تعفن اور مقامی طور پر خون کی گردش

 خارش اور حساسیت میں سرکہ پلانا اور لگانا مفید ہے ۔سرکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے جراثیم کش، دافع تعفن ہے

* سرکہ میں پکائے ہوئے گوشت کو یرقان میں مفید بتلایا ہے۔
* سرکہ جوش خون اور صفراء اور پیاس میں مفید ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو مفید ہے۔
* سرکہ میں گندھک ملا کر خارش میں لیپ کرنا مفید ہوتا ہے۔
* سرکہ کاسٹک سوڈا کا علاج ہے۔
* عرق النساء میں حکماء نے لکھا ہے کہ حب الرشاد اور جو کا آٹا سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنا نہایت مفید ہے۔
* ہیضہ اور اندرونی سوزشوں میں مفید ہے۔
* حلق کے ورم میں اس کی بھاپ سونگھایا جانا بے حد مفید ہوتا ہے۔ شراب کا نشہ اتارنے کے لئے ایک اونس سرکہ پلانا کافی ہوتا ہے۔
* سرکہ اور شہد کا مشہور مرکب بخار، متلی اور صفراوی امراض میں مستعمل ہے۔
* برسات اور موسموں کی تبدیلیوں میں بہترین چیز ہے۔ پیٹ کی اکثر بیماریاں دور کرتا ہے۔
* امام صادق فرماتے ہیں کہ سرکہ عقل کو تیز کرتا ہے اور اس سے مثانہ کی پتھری گل جاتی ہے۔

مجموعی طور پر تیاری کے اعتبار سے سرکہ کی تین اقسام ہیں۔

* پہلی قسم وہ ہے جو پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ فطری اور قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے بھی اعلٰی خاصوصیات کا حامل ہے۔

* دوسری  قسم خشک اجناس مثلاً جو کے جوہر (ایکسٹریکٹ) سے تیار ہوتی ہے، اپنی افادیت کے اعتبار سے یہ دوسرے نمبر پر ہے۔

* تیسری قسم تیزاب سرکہ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں مقطر پانی، تیزاب سرکہ کچھ مقدار چینی اور رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔
سرکہ گنے، جامن، انگور، چقندر، گندم، جو وغیرہ سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔

س

اللہ پاک آپ سب کو اپنی امان میں رکھے آمین


اتوار، 2 اکتوبر، 2022

وہ میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چرا کرلے گئ

 

 

وہ  میرے گھر میلے کپڑے دھونے آئ تھی اور میرا اجلا میاں چراکرلے گئ

 

  انیلہ کی جاب ایک نیوز ایجنسی میں رپورٹر کی تھی اس نے شہر کے ایک ریسٹورنٹ کے کچن کی  لائیو رپورٹ تیّار کر کے نیوز ایجنسی کو بھیجی ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے اس رپورٹنگ کے لئے اسے خود بلایا تھا تاکہ عوام میں اس کے ریسٹورینٹ  کے مذیدارکھانوں  کی اوراچھّی سروس کی پبلسٹی ہو سکے -رپورٹ تیّار کرتے ہی انیلہ کو اپنی جاب پر پہنچنا تھا وہ جیسے ہی ریسٹورینٹ سے باہر آئ ریسٹورینٹ کا مالک بھی عجلت میں اس کے پیچھے ہی چلا آیا اور اس نے انیلہ سے درخواست کی کہ وہ چند منٹ کا توقّف کر لے

    اس کے ساتھ ہی ایک معقول قسم کی  خاتون ریسٹورینٹ سے باہر نکل کران کے قریب  آ گئیں ،،ریسٹورینٹ کے مالک نے کہا خالہ آپ ان کے ساتھ چلی جائیے یہ آ پ کو راستے میں اتار دیں گی ،انیلہ نے  خاتون کو دیکھا  اور سلام کر کے عزّت کے ساتھ ان کو کار میں بٹھایا ،کار جب سڑک پر رواں ہوئ تو انیلہ نے خاموشی توڑنے کے لئے خاتون سے پوچھا آ پ رہتی کہاں ہیں ،خاتون نے اپنا پتا بتایا اور پھر گویا ہوئین کہ   ریسٹورینٹ کا مالک ان کا بھتیجا ہے جس کے پاس وہ کبھی کبھی ملنے آتی ہیں اب  انیلہ کے تجسس نے سر ابھارا اور اس نے ان کے اپنے گھر بار کے لئے سوال و جواب کئے تو وہ خاتون جیسے دل کے پھپھو لے   پھوڑنے کو تیّار ہی بیٹھی تھیں

 پھر انہوں نے بتایا کہ  

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے علاقے میں پانی کا قحط شروع ہوا میری اپنے سامنے گلی کے گھر سے اچھّی علیک سلیک تھی ہم اچھّا پکاتے تو ایک دوجے کو ضرور بھیجتے یہ تو میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنا اعتبار بھی اپنا بھرم کھو دیتا ہے ،،بہر حال ہو یہ رہا تھا کہ گلی دو رویہ تھی ایک جانب پانی کی فراوانی تھی دوسری جانب قحط کا سماں تھا اس گھر میں ایک کنواری لڑکی تھی جو میرے بچّو ں کا بھی خیال کرتی تھی  بس وہ لڑکی میرے گھر پانی بھرنے کے لئے انے لگی کچھ دن تو کچھ بھی نہیں محسوس ہوا لیکن ایک دن جب میرے میاں گھر پر تھے وہ آ گئ اور اس نے آ کر پوچھا کیا میں تمھارے گھر میلے کپڑے دھونے آجاوں بڑا ڈھیر جمع ہو گیا ہے میں نے بہت خلوص سے کہا ہاں ہاں آ جاو وہ کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھّر لے کر آ گئ اور جب کپڑے دھو کر واپس جانے  لگی تو گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی کا وزن زیادہ ہو چکا تھا ایسے میں میرے میاں   نے کمرے سے نکل کر اسے دیکھا اور لپک کر اس کے ہاتھ سے گیلے کپڑوں سے بھری بالٹی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہنے لگے ارے یہ تو بہت بھاری ہے آپ کس طرح اٹھائیں گی اور پھر میرے میاں نے وہ بھری بالٹی اس کے گھر پہنچا دی

  بس اس دن کی پہلی ملاقات جانے کس طرح رنگ لائ کہ میرے میاں شا م کو زرا جلدی گھر آنے لگے اور گھر کی بالکونی میں دیر دیر تک کھڑ ے رہنے لگے پہلے پہلے تو میں اس تبدیلی کو سمجھ نہیں سکی جب سمجھ آئ تو میں بھی ایک دن میاں جی کے برابر میں  جا کرکھڑی ہوگئ تو سامنے والی لڑکی گلی کے بچّوں کے ساتھ بیڈمنٹن کھیل رہی تھی  ،

میرے بالکونی میں جاتے ہی میرے میاں وہاں سے ہٹ کر کمرے میں چلے گئے تھے تب میں سمجھی تھی کہ کوئ دال میں کالا ہے ،،پھر کچھ اور بھی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں تھیں کہ  میرے میاں نت نئ خوشبو کی بوتلیں لا لا کر استعمال کر نے لگے تھے نئے نئے کلر کی شرٹس بھی ےبدل  بد ل کر پہننے   لگے تھے جبکہ اس سے پہلے وہ کہتے  تھے کہ مجھے صرف سفید رنگ ہی پسند ہے میں نے زیادہ کچھ کریدنا بہتر نہیں جانا تاکہ گھر کا ماحول پراگند ہ نا ہو لیکن ایک دن میرے بیٹے نے اپنے برابر میں کھڑے اپنے پاپا سے کہا پاپا آپ نے کاغذ کیوں نیچے پھینکا ؟ آپ ہمیں تو منع کرتے ہیں کہ گلی میں کوئ چیز ناپھینکو اور بیٹے کی بات پر میرے شوہر نے بے اختیار میری جانب دیکھا اور بیٹے کی بات ادھر ادھر کر کے اسے اپنے ساتھ وہاں سے ہٹا لے گئے،یعنی اب بالکونی سے ان کی خط و کتابت کا آغاز بھی ہو چکا تھا ،،میں نے اپنے شوہرسے کچھ سوال جواب کئےتوبس اب ہمارے گھر طوفانو ں کی آمد کی ابتداء ہو گئ  ،یہی وہ وقت تھا جب میں اپنے شوہر کی محبّت جیتنے کے لئے کچھ سوچتی میں نے شوہر سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی اور بالآخر انہوں نے کہ دیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اورشادی کا  فیصلہ کر چکے ہیں اب  یا تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیدو کہ میں اپنے شوہر کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دے رہی ہوں  اس صورت میں ،میں تم کو تمھارا خرچہ پانی دیتا رہوں گا اور انصاف سے چلوں گا میں نے شوہر کی بات کے جواب میں خودکشی کی دھمکی دی

انہوں نے کہا اگر تم کو حرام موت مرنے کا شوق ہے تو کل کی مرتی آج مر جاوُمیری  بلا سے اور کہ کر گھر سے نکل گئے اور پھر چند روز کے اندر مجھے طلاق نامہ بھیج دیا ،میں شوہر کے انتقام میں اتنی اندھی ہو چکی تھی کہ  میں نے اپنے تینوں معصوم  بچّوں کو رکشہ میں بٹھایا  اور لے جاکر ان کی بوڑھی دادی کے منہ پر یہ کہ کر مارا کہ تمھارے بیٹے کے بچّے ہیں میں میکے سے تو لائ  نہیں تھی ،میرا بڑا بیٹا سات برس کا بیچ والی بیٹی پانچ برس کی اور تیسرا بیٹا چاربرس کاتھا جب میں ان کی دادی کے گھر سے نکل رہی تھی میرا چار برس کا بیٹا میرے پیچھے روتا ہوا بھاگا تھا اور میں نے بے رحمی سے دروازہ بند کیا اور پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا گھر حالانکہ میرے شوہر کے نام تھا لیکن شوہر نے گھر سے بیدخل نہیں کیا

 پھرکچھ  برس بعد میرے دل مِں بچّوں کی مامتا جاگی اور میں نے اسکول جاکر ملنے کی کوشش کی تو وہ  بے  سود ثابت ہوئ پھر بارہ برس پہلے بچّوں کی دادی کا انتقال ہوا تب مین نے ان کی دادی کے جنازے میں شرکت چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ دادی کی و صیّت ہے کہ مجھے ان کے جنازے میں شامل نا کیا جا ئَے  دادی کے مرنے کے بعد بچّون کے چچا اور چچی نے  ان کی پرورش کا فریضہ انجام دیابس اس کے بعد پھر اب تو اٹھّارہ برس بیت گئے ہیں سوکن آج بھی میرے شوہر کے ساتھ خوش و خرّم زندگی گزار رہی ہے کئ بچّے ہو چکے ہیں اورمیں جنم جلی اپنے ہاتھوں اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے پیچھے تنہا تنہا جی رہی ہوں-

دو برس پہلے میری بیٹی کی شادی ہوچکی ہے ،بڑے بیٹے کی منگنی اس کے چچا نے اپنی بیٹی سے کر دی ہے چھوٹا بیٹا ابھی حال میں پڑھائ سے فارغ ہوا ہے وہ بچّہ جو میرے بغیر ایک گھڑی نہیں رہتا تھا-اسے تو اب میری شکل سے نفرت ہے اور بڑے بھائ سے کہتا ہے کہ امّی ملنے آئیں تو مجھے کمرے سے باہر نہیں بلانا ہے ،بڑے بیٹے کوکچھ خوف خدا ہے تو   مجھ سے ملنے بھی آجاتا ہے اور اپنے فلیٹ پر بھی بلا لیتا ہے اس نے شادی کرنے سے پہلے ہی اپنا زاتی فلیٹ لے لیا ہے،میں اسی فلیٹ پر جا کر اس سے مل لیتی ہوں   میرے شوہر نے اپنا دوسرا گھر اپنی ماں کے قریب ہی لے لیاتھا اس طرح وہ بچّوں سے دور ہو کر بھی دور نہیں ہوئے نقصان تو صرف میں نے اٹھایا

 خاتون خاموش ہو گئیں تو انیلہ نے ان سے سوال کیا کیا آپ معاشرے کی خواتین کو کوئ پیغام دینا چاہیں گی-خاتون نے کہا ہاں ضرور دوسری شادی مرد کا جائز اور اللہ کا مقّررکردہ حق ہے جبکہ وہ انصاف سے چلنے کی بات بھی کر رہا ہو اس لئے ایسی صورت میں اس کو دوسری شادی کی اجازت ضرور دے دینی چاہئے -خاتون  کی منزل آچکی تھی اور وہ اتر کر چلی گئیں اور انیلہ کو اس کی نئ کہانی کا عنوان دے گئین تھیں  اور انیلہ شام کو جب تھکی ہاری واپس گھر آئ تب بستر پر لیٹ کر اسے ان خاتون کا خیال آیا اور ان کے الفاظ یاد آئے ،،،دوسری شادی مرد کا جائز حق ہے  اسے خوشی خوشی اجازت دے دینی چاہئے ورنہ وہ جبریہ چھین لیتا ہے

انہی سوچوں میں انیلہ کی آنکھ لگ گئ اور اس نے خواب میں دیکھا

ایک پنڈال ہے جس مین ساٹھ فیصد مرد اور چالیس فیصد عورتیں کرسیوں پر براجمان ہیں اور ایک اسٹیج پر مقرّرین بیٹھے ہیں یہ تقریری مباحثہ ہے  ،،

شادی شدہ مرد  کو دوسری شادی کی اجازت دی جائے کہ نہیں ،،مباحثہ مردوں نے اپنے دلائل سے جیت لیا ہے انیلہ نے بھی اپنا ووٹ مردوں کے حق میں کاسٹ کیا ہے اور اس کے ساتھ پنڈال میں شور و ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے مرد تالیاں بجا رہے ہیں اور عورتیں کھڑی ہو کر نعرے لگا رہی-ہمیں اپنے میا وُں کی دوسری  شادی نامنظور- نامنظور- نامنظور- نامنظور انیلہ کی آنکھ اسی شور ہنگامہ میں کھل گئ  اس نے بستر پر لیٹے لیٹے خواب کے عناصر کا تجزیہ کیا تواس کو  لگا کہ اس کی اس کہانی سے خواتین میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے اس لئے

انیلہ اسی وقت بسترسےاُٹھی اور اس نے شوہروں کو دوسری شادی کی اجازت دینے کے الفاظ  ڈیلیٹ کئے اور دوبارہ سونے بستر پر آ گئ

ہفتہ، 1 اکتوبر، 2022

کلونجی قدرت کا انعام


قدرت نے  ہم انسانو  ں کی بہتری کے لئے کیا کیا  بیش قیمت  نعمتیں عطا فرمائ ہیں   وہ بھی انتہائ سستی  جیسے کلونجی ۔کلونجی کے فوائد لا تعداد ہیں  ۔آئے اس  کے فوائد پر ایک نظر ڈالتے ہیں - یہ بہت سریع الاثر ادویات کے زمرے میں آتی ہےقدیم یونانیاور عرب حکما نے اس کو رومیوں  سے حاصل کیا کیونکہ رومی اس کے استعمال سے بخوبی واقف تھے پھر یہ ساری دنیا میں کاشت ہونے لگا۔کلونجی کے بیج معدہ اورپیٹ کےامراض مثلا پیٹ میں ریاح گیس کا ہونا، آنتوں کا درد، کثرت ایام، استقاء، یادداشتمیں کمی رعشہ، دماغی کمزوری، فالج اور افزائش دودھ کے لیے استعمال کراتے رہے ہیںٍ،ہیں۔ رسول اللہ ۖ کے حوالے سے کتب سیرت میں ملتا ہے کہ آپ ۖ شہد کے شربت کے ساتھ کلونجی کا استعمال فرماتے تھے۔ 

حضرت سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد عبداللہ بن عمر رضیآللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تم ان کالے دانوں کو اپنے اوپرلازم کرلو ان میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔کلونجی کی یہ اہم خاصیت ہےکہ یہ گرم اور سرد دونوں طرح کے امراض میں مفید ہے۔ جبکہ اسکا اپنا مزاج گرم ہے اورسردی سے ہونے والے تمام امراض میں مفید ہے۔کلونجی نظام ہضم کی اصلاح کے لیے اکسیرکا درجہ رکھتی ہے، ریاح گیس اور قبص میں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ 

وہ لوگ جن کو کھانے کےبعد پیٹ میں بھاری پن گیس ریاح بھرجانے اور اپھارہ کی شکایت محسوس ہوتی ہو ایسےحضرات کلونجی کا سفوف تین گرام کھانے کےبعد استعمال کریں تو نہ صرف یہ شکایت جاتیرہے گی بلکہ معدہ کی اصلاح بھی ہوگی۔ کلونجی کو سرکہ کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیٹکے کیڑے مر جاتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب تھوڑی سی سردی لگنے سے زکام ہونے لگتاہے تو ایسی صورت میں کلونجی کو بھون کر باریک پیس لیں اور کپڑے میں باندھ کر پوٹلیبنا کر باربار سونگھنے سے زکام دور ہوجاتا ہے۔ اگر چھینکیں آرہی ہوں تو کلونجی بھونکر باریک پیس کر روغنِ زیتون میں ملا کر اس کے تین چار قطرے ناک میں ٹپکانے سےچھینکیں جاتی رہتی ہیں۔کلونجی مدر بول( پیشاب آور) بھی ہے اس کا جوشاندہ شہد ملا کرپینےسے گردہ و مثانہ کی پتھری بھی خارج ہوجاتی ہے۔ 

اگر دانتوں میں ٹھنڈا پانی لگنےکی شکایت ہوتو کلونجی کو سرکہ میں ملا کر کلیاں کرانے سے فائدہ ہوتا ہے۔چہرے کیرنگت میں نکھار پیداکرنے کے لیے باریک پیس کر گھی میں ملا کر چہرے پر لیپ کرنے سےفائدہ ہوتا ہے۔ آج کل نوجوان لڑکے لڑکیوں میں کیل دانوں اورمہاسوں کی شکایت عام ہےاور مختلف بازاری کریمیں استعمال کرکے چہرے کی جلد کو خراب کرلیتے ہیں۔ ایسے نوجوانکلونجی باریک پیس کر سرکہ میں ملا کر سونےسے قبل چہرے پر لیپ کر لیا کریں اور صبحاٹھ کر چہرہ دھولیا کریں۔ چند دنوں میں ہی اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔اس طرح لیپ کرنے سے نہ صرف چہرہ کی رنگت صاف اور مہاسے ختم ہونگے بلکہ جلد میں نکھار بھی آئےگا۔ 

جلدی امراض میں کلونجی کا استعمال عام ہے۔جلد پر زخم ہونے کی صورت میں کلونجی کوتوے پر بھون کر روغن مہندی میں ملا کر لگانےسے نہ صرف زخم مندمل ہوجائیں گے بلکہنشان بھی جاتے رہیں گے۔ جو خواتین ایام رضاعت میں ہوں اور چھوٹے بچوں کو اپنا دودھپلا رہی ہوں اور ان کو دودھ کم آنے کی شکایت ہو جس سے ان کا بچہ بھوکارہ جاتا ہوںتو ایسی خواتین کلونجی کو چھ دانے صبح نہار منہ و رات سونے سے قبل دودھ کے ساتھاستعمال کرلیا کریں تو ان کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو جائے گا البتہ حاملہخواتین کوکلونجی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔جن خواتین کو ماہانہ ایام کم آتے ہوںیا درد کے ساتھ آتے ہوں، پیشاب کم یا تکلیف کے ساتھ آتا ہو، وہ کلونجی کا سفوف تین گرام روزانہ استعمال کرلیا کریں ماہانہ ایام کا نظام درست ہوجائے گا۔ 

اعصابیدباؤ اور تناؤ میں مبتلا لوگ کلونجی کے چند دانے روزانہ شہد کے ساتھ استعمال کرلیاکریں۔چند دنوں میں بہتر محسوس کریں گے۔پیٹ اور معدہ کے امراض، پھیپھڑوں کی تکالیفاور خصوصًا دمہ کے مرض میں کلونجی بہت فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔کلونجی کا سفوف نصفسے ایک گرام تک صبح نہار منہ اور رات کو سونے سے قبل شہد کے ساتھ استعمال کر لیاجائے تو بہت مفید ہے۔ بعض اوقات کلونجی اور قسط شیری برابر وزن کا سفوف بنا کر صبحنہار منہ و رات سونے سے قبل استعمال کروایا جاتا ہے۔یہ نسخہ پرانی پیچش اور جنسی امراض میں بھی مفید ہے۔جن لوگوں کو ہچکیاں آتی ہوں وہ کلونجی کا سفوف تین گرام مکھنایک چمچ میں ملا کر کر استعمال کریں تو فائدہ ہوتا ہے۔ 

کلونجی کا تیل دو قسم کا ہوتاہے ایک سیاہ رنگ میں خوشبودار جو ہوا میں اٹھنے سے اڑنے لگتا ہے اور دوسریقسم انٹروی کے تیل جیسا جس کے دوائی اثرات بہت زیادہ ہوتے ہیں، یہ تیل بیرونی طورپر استعمال کیا جاتا ہے اور بہت سے جلدی امراض میں مفید ہے۔ یہ تیل بال خورہ کیشکایت میں بہت فائدہ دیتا ہے ۔ بالخورہ میں بال اڑ جاتے ہیں اور دائرے کی صورت میں نشان بن جاتا ہے پھر دائرہ دن بدن بڑھتا ہے اور عجیب سی ناخوشگواری کا احساس ہوتاہے۔یہ تیل سر کے گنج کو دور کرنے اور بال اگانے میں بھی مفید ہے ۔ مزید یہ کہ استیل کے استعمال سے بال جلد سفید نہیں ہوتے اور اس تیل کو مختلف طریقوں سے داد،اگزیما میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اگر جسم کو کوئی حصہ بے حس ہوجائے تو یہ تیل مفید ہے۔ 

کان کے ورم اور نسیان میں بھی یہ تیل مفید ہے۔ ماہرین طب و سائنس کلونجی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں جنھوں نے اسے مختلف امراض میں مفید پاتا اور مزید تحقیق کا عمل جاری ہے۔کیمیا دانوں نے کلونجی پر تحقیقات کے بعد بتایا ہے کہ اسمیں ضروری روغن پائے جاتے ہیںِ اس کے علاوہ ونگشلین، الیوسن، ٹے نین، رال دار مادے،گلوکوز، ساپونین اور نامیاتی تیزاب بھی پائے جاتے ہیں جو کئی امراض میں موثر ہیں۔پاکستان کے ایک ممتاز سائنسدان نے جامعہ کراچی کے شعبہ کیمیاء میں کلونجی پر جوتحقیق کی اس کے مطابق کلونجی سے جو اسکائڈز حاصل ہوئے ہیں کسی اور شے سے نہیں ملسکے۔ 

ذیابیطس کے مریض کلونجی کے سات دانے روزانہ صبح نگل لیا کریں۔ذیابیظس میں بھی اس کے اچھے نتائج سامنے ائے ہیں، ذیابیطس کے مریض کلونجی کے سات دانے روزانہ صبح نگل لیا کریں۔ ذیابیطس کے مریض کلونجی کے بیج تین حصے اور کانسی کے بیج ایک حصہ ملا کر استعمال کریں تو اس کے مفید نتائج سامنے اتےہیں کلونجی میں ورموں کو تحلیل کرنے اور گلٹیوں کو گھلانے کی بھی صفت ہے۔برص بڑا ہٹیلا مرض ہے۔ اس کے سفید داغ جسم کو بدصورت بنا دیتے ہیں۔ اگر برص کے مریض کلونجی اور ہالوں برابر برابر وزن لے کر توے پر بھون کر تھوڑا سرکہ ملا کر مرہم بناکر مسلسل تین چار ماہ برص کے نشانوں پر لگاتے رہیں اور کلونجی اور ہالون کاباریک سفوف شہد کے ساتھ روزانہ نہار منہ استعمال کیا کریں توجلد فائدہ ہوگا۔ 

کلونجی کی دھونی سے گھر میں پائے جانے والے کیڑے مکوڑے ہلاک ہوجاتے ہیں۔اسی خصوصیت کے سبب کلونجی کو گھروں میں قیمتی کپڑوں میں رکھا جاتا ہے تاہم کلونجی کے استعمال میں یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ طویل عرصہ اور زیادہ مقدار میں استعمال نہ کی جائے کیونکہ اسمیں کچھ مادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہوسکتے ہیں۔لہذا احتیاط ضروری ہے

طب نبویؐ اوریونانی (ہربل )سسٹم آف میڈیسن میں صدیوں سے استعمال ہونے والی دواکلونجی پردنیا بھر میں ہزاروںمطالعے اور لاکھوں کلینکل ٹرائلزجاری ہیں۔کلونجی کےسلسلے میں رسول اللہؐکا فرمان ہے کہ اس میں موت کے سوا ہربیماری سے شفا ہے یہبات جدید تحقیقات نے بھی ثابت کردی ہے ۔اب تک کی گئیتحقیق کے مطابق کلونجی کےبیج کینسر‘لیوکیمیا‘ ایچ آئی وی ایڈز‘ذیا بیطس
‘بلڈ پریشرہائپر کولیسٹرول ایمیااورمیٹا بولک ڈیزیززکے علاج میں انتہائی۔موثر پائی گئی ہے۔اس امر کا اظہارمرکزیسیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضیایم اے خالد نے کینسر آگہی مہمکے آغاز کے موقع پر ہیلتھ پاک کے زیراہتماممنعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتےہوئے کیا انہوں نے کہا کہ فلو ریڈا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کلونجی کینسر اور لیوکیمیا میں بھی مفیدہے نیز اینٹی کینسرکیمیو تھراپی کےمضراثرات و مضمرات کے ازالہ میں بھی فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔


جمعرات، 29 ستمبر، 2022

برما میں ''من جانب اللہ ''عزاداری کا قیام

برما میں من جانب اللہ عزاداری  کا قیام

دنیا میں وہ خطّہ ء زمین جو عزادار سیّد الشّہداء سے محروم ہو وہاں وہ از خود معجزاتی طورپر قیام عزاداری کا بندوبست کر دیتا ہے -میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے لے کر جوں کا توں پرنٹ کیا ہے'

میانمار کے قدیم شہر عماراپورا میں واقع ڈیڑھ سو برس قدیم امام بارگاہ کی نگہبانی ایک بُدھ مت مذہب کا پیروکار خاندان کر رہا ہے-یہ خاندان چار نسلوں سے اس امام بارگاہ کا متولی ہے۔ اِن کا رہن سہن عام بُدھ مت پیروکاروں سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ جیسا کہ اس خاندان کے افراد دیگر پیروکاروں کے برعکس خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے ہیں اور اہل تشیع کے ساتھ ایام عزا کے سوگ میں شامل ہوتے ہیں۔

مجھے اس امام بارگاہ اور اس کے احاطے میں موجود مسجد کو دیکھ کر خوشگوار حیرت اور اطمینان ہوا-برما میں یہ امام بارگاہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ عمارا پورا امام بارگاہ کے ٹرسٹی ڈاکٹر ایم اے شیرازی بتاتے ہیں کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی نے اس امام بارگاہ کی تعمیر سنہ 1884 میں ایک بدھ مت پیروکار مچھیرے کے کہنے پر کی تھی

مرنے سے پہلے سنہ 1917 میں عمارت کی ملکیت کے کاغذات امانت کے طور پر ان کے حوالے کر گئے۔

میانمار کا قدیم شہر عماراپورا سنہ 1783 سے سنہ 1859 تک برما کا دارالحکومت رہا ہے۔ یےگار موشے کی کتاب ’برما کے مسلمان‘ کے مطابق سلطنت اووا کے دور میں (یعنی سنہ 1850) میں یہاں 20 ہزار مسلمان خاندان آباد تھے۔ماندلے شہر سے 11 کلومیٹر کی دوری پر واقع اس شہر میں آج ایک بھی اہل تشیع کنبہ موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود گذشتہ ایک صدی سے وہاں انگریزوں کے دور میں تعمیر کی جانے والی امام بارگاہ آج بھی قائم و دائم ہے اور ہر سال محرم اور سفر کے مہینوں میں زائرین کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔بدھ مت سے تعلق رکھنے والا یہ مچھیرا ماتیں سوں کے پرنانا تھے۔ تین نسلوں سے یہ خاندان امام بارگاہ کی نگہبانی کر رہا ہے۔

ماندلے شہر کے رہائشی 84 سالہ ڈاکٹر شیرازی بتاتے ہیں کہ یہاں مشہور روایت یہ ہے کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی کے پاس ایک پریشان حال مچھیرا آیا جس کے ہاتھ میں ایک علم تھا۔

اس مچھیرے کو یہ علم اراوادی دریا سے ملا تھا۔ مچھیرے کا تعلق بدھ مت سے تھا۔ وہ علم گھر لے آیا اور بھول گیا۔ روایت کے مطابق اسے تین بار خواب میں آغا شیرازی سے ملنے اور امام بارگاہ بنانے کی جگہ کی نشاندہی ہوئی تھی۔بدھ مت سے تعلق رکھنے والا یہ مچھیرا ماتیں سوں کے پرنانا تھے۔ تین نسلوں سے یہ خاندان امام بارگاہ کی نگہبانی کر رہا ہے۔

امام بارگاہ کے احاطے میں ان کے شوہر اپنی گاڑیوں کا گیراج چلاتے ہیں۔ ہر سال محرم اور صفر کے مہینوں میں یہ زائرین کا استقبال کرتے ہیں۔ ماندلے اور دوسرے بڑے شہروں سے یہاں ننگے پیر زائرین چہلم (اربعین) کے لیے بھی آتے ہیں۔امام بارگاہ کے احاطے میں مسجد ہے جہاں ان ایام میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

لگ بھگ تین سے چار کنال پر پھیلی ہوئی اس امام بارگاہ کے احاطے میں برمیز لکڑی کے چھوٹے سے گھر میں یہ اپنی والدہ اور شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔


معجزہ شقّ القمر تاریخ کے آئینہ میں

  یہ  چاند کی چودہ تاریخ اورزی الحجہ  کا مہینہ  تھا۔کفار قریش کی تعداد بھی  چودہ تھی جن کا سرغنہ ابو جہل تھا۔کفار نے منصوبہ بندی کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آسمانی معجزہ دکھانے کو کہتے ہیں

تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : اگر میں ایسا کردوں تو تم ایمان لے آؤگے؟ بولے لے آئیں گے ۔چونکہ یہ چاند کی بدر کی رات تھی ۔ ۔

ا کہ جس نے معجزہ نہ دکھایا ہو آپ کے پاس کونسا معجزہ ہے آج کی رات ؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : تم لوگ کیا چاہتے ہو ؟

لوگوں نے کہا : اگر تم ا ور تمہارا رب سچے ہیں تو چاند کو حکم دو کہ دو حصوں میں تقسیم کردو ۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ آپ پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا سلام ہے اور اس نے ہر چیز کو آپ کے تابع کردیا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے سربلند ہوکر چاند کوحکم دیا اور وہ تقسیم ہوگیا  ۔پھر مشرکین نے کہا کہ اس کو اپنی اصلی حالت میں لوٹا دیں تو وہ  اپنی پہلی حالت میں لوٹ گیا  تھا اور اسی وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی 

{اقْتَرَبَتِ السّاعَةُ وَانشَقّ الْقَمَر}   

لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم ا لمرسلین شفیع المذنبین ،

حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ لہ وسّلم 

شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما ہوا

پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔

 اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ  وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ

ترجمہ:

قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔

قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔ اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش آیا

لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا  اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا لقمر کی تصدیق بھی کر دی  اور یہ معجزہ  14 ذی الحجہ  ہجرت سے سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ پر پیش آیا ۔

معجزہ شقّ القمرہ معجزہ فقط اہل مکہ نے نہیں بلکہ مکہ کے اطراف میں رہنے والوں صحرا نشینوں نے بھی دیکھا تھا، ابوجہل اور دوسرے مشرکین نے صحرا نشینوں سے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی کہ   انھوں نے بھی چاند کو دو حصوں میں دیکھا ہے۔

ملا محمد قاسم فرشتہؒ تاریخ ہند ص ۴۸۹ ج ۲ میں لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں کچھ عرب مسلمان کشتی پر سوار جزائر سری لنکا کی طرف جا رہے تھے کہ طوفانوں کی وجہ سے جزائر مالابار کی طرف جا نکلے اور وہاں گدنکلور نامی شہر میں کشتی سے اترے۔ شہر کے حاکم کا نام ’’سامری‘‘ تھا۔ اس نے مسلمانوں کے بارے میں یہودی اور عیسائی سیاحوں سے کچھ سن رکھا تھا۔ عرب مسلمانوں سے کہنے لگا کہ پیغمبر اسلامؐ کے حالات اور ان کی کچھ علامات بیان کریں۔ ان مسلمانوں نے اسے آنحضرتؐ کے حالات زندگی، اسلام کے اصول و مسائل اور نبی اکرمؐ کے معجزات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں، دریں اثنا شق القمر کے تاریخی معجزہ کا ذکر بھی کیا۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ ذرا ٹھہرو ہم اسی بات پر تمہاری صداقت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جو بھی اہم واقعہ رونما ہو اسے قلمبند کر کے شاہی خزانہ میں تحریر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اگر تمہارے کہنے کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو اسے یہاں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا اور اتنا محیر العقول واقعہ ضرور قلمبند کر کے شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے پرانے کاغذات طلب کیے، جب اس سال کا رجسٹر کھولا گیا تو اس میں یہ درج تھا کہ آج رات چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر جڑ گیا۔ اس پر وہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور بعد میں تخت و تاج چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ ہی عرب چلا گیا۔ 

علامہ سید محمود شکری آلوسیؒ اپنی کتاب مادل علیہ القرآن مما یعضد الہیئۃ الجدیدۃ القویمۃ البرہان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب سلطان محمود غزنویؒ ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے، انہوں نے بعض عمارتوں پر یہ تختی لکھی ہوئی دیکھی کہ اس عمارت کی تکمیل اس رات ہوئی جس رات چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ 

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۹ جنوری ۱۹۷۵ء کے صفحہ نمبر ۲ پر خبر شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مصری سائنسدان ڈاکٹر فاروق الباز نے، جو واشنگٹن میں طبقات ارضی اور اجرام فلکی کے تحقیقاتی مرکز کے ڈائریکٹر ہیں، گزشتہ روز مصر کے صدر جناب انور السادات سے ملاقات کی اور انہیں قرآن کریم کے اس نسخے کا ایک ورق پیش کیا جو اپالو ۱۵ کے خلانورد چاند پر رکھ کر آئے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے صدر سادات کو مریخ کی ایک وادی کا ماڈل پیش کیا جسے وادیٔ قاہرہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چاند پر سے لی گئی عرب ممالک کی رنگین تصویر پیش کی اور چاند پر موجود ایک دراڑ کی تصویر بھی پیش کی جسے عرب دراڑ کا نام دیا گیا ہے اور جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو دوبارہ جڑتے وقت یہ دراڑ رہ گئی تھی


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر