جمعہ، 7 فروری، 2025

ٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل

  یہ کیسا ظلم عظیم ہے-بھلا 14سال کی عمر بھی کوئ عمر ہوتی ہے ابھی بچپن بیت رہا ہوتا ہے بھی تو سمجھداری کی پہلی سیڑھی پر بچے کا پہلا قدم ہی ہوتا ہے کہ اس کے خواب کو ریوالور کی چند گولیوں سے موت کی نیند سلا دیا جائےمعصوم چودہ برس کی حرا   کہانی یہ ہے کہ اس کے والدنے اچھی زندگی گزارنے کے لئے ویسٹرن کنٹری کا انتخاب تو کر لیا لیکن وہ یہاں کے ماحول سے مطابقت رکھنے والی تربیت اپنی اولاد کو فراہم نہیں کر سکے اور جب اولاد نے سر اٹھایا تو بس اس کو مارڈالا-.عتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی کے قتل کے الزام میں والد اور ماموں گرفتار-قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب  کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھابلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے ایک 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کے قتل کے الزام میں اس لڑکی کے والد اور ماموں کو گرفتار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے ’لڑکی کے رہن سہن اور ٹک ٹاک پر قابل اعتراض ویڈیوز پوسٹ‘ کرنے کی وجہ سے اِس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب سوا گیارہ بجے کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھا جس کی ابتدائی ایف آئی آر ہلاک ہونے والی لڑکی کے والد کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروائی گئی تھی۔لڑکی کے والد بھی امریکی شہریت کے حامل ہیں اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ چند روز قبل ہی امریکہ سے پاکستان آئے تھے۔ لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس کی استدعا پر عدالت نے دونوں ملزمان کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ’سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ‘ کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔


کرائمز انویسٹیگیشن یونٹ کوئٹہ سے منسلک ایس ایس پی ذوہیب محسن نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’ابتدائی تفتیش میں یہ سامنے آیا ہے کہ لڑکی کے والد کو اپنی بیٹی کے رہن سہن اور سماجی سرگرمیوں پر اعتراض تھا۔‘نھوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں مزید تفتیش جاری ہے اور ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ 14 سالہ لڑکی کا واقعی کوئی ٹک ٹاک اکاؤنٹ تھا بھی یا نہیں اور اگر تھا تو اس پر کیا مواد موجود ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ لڑکی کا موبائل پولیس کی تحویل میں ہے جس کا لاک کھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔سول ہسپتال کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مقتولہ کو چار گولیاں ماری گئی تھیں جبکہ ان کے اہلخانہ کی درخواست پر باقاعدہ پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا تھا۔جبکہ کیس کی تفتیش سے منسلک ایک اہلکار نے بتایا کہ مجسٹریٹ کی عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران ملزمان کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔


کوئٹہ میں قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کون تھیں؟مقامی عدالت لڑکی کے قتل میں گرفتار والد اور ماموں کو گذشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیاکوئٹہ میں پولیس نے قتل ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کی شناخت حرا انوار کے نام سے کی ہے جن کی عمر 14 سال کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔مقامی پولیس کے مطابق لڑکی کے خاندان کا تعلق کوئٹہ سے ہی ہے اور وہ یہاں بلوچی سٹریٹ میں عرصہ دراز سے رہائش پذیر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لڑکی کے والد 27 سال پہلے امریکہ گئے تھے اور پھر وہی آباد ہو گئے تھے۔پولیس حکام کے مطابق حرا کی پیدائش بھی امریکہ میں ہوئی اور انھوں نے امریکہ ہی میں تعلیم حاصل کی تھی۔حرا رواں ماہ کی 15 تاریخ کو اپنے والد کے ہمراہ امریکہ سے لاہور آئی تھیں جہاں چند روز گزارنے کے بعد یہ خاندان 22 جنوری کو کوئٹہ آیا تھا۔ملزم والد ہی مدعی مقدمہ بنے: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘غیرت کے نام پر قتل،حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پا رزخموں کے نشانات تھے


حرا کے قتل کا ابتدائی مقدمہ اُن کے والد ہی کی مدعیت میں 28 جنوری کو درج کیا گیا تھا۔لزم نے ایف آئی آر میں بتایا کہ وہ گذشتہ 28 سال سے اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ میں مقیم ہیں یف آئی ار میں کہا گیا کہ ’میں 15 جنوری کو اپنے بچوں کے ہمراہ امریکہ سے لاہور پہنچا تھا جہاں چند روز گزارنے کے بعد 22 جنوری کو کوئٹہ آ گیا۔ 27 جنوری کی شب میں اپنی بیٹی حرا کے ہمراہ اپنے برادرِ نسبتی کے گھر جانے کے لیے نکلا۔ میں اور حرا ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ مجھے معلوم ہوا کہ میری جیب میں میرے بھائی کا فون رہ گیا تھا جسے واپس کرنے کے لیے میں دوبارہ گھر میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میں گھر کے اندر گیا تو باہر سے اچانک فائرنگ کی آواز آئی جبکہ میری بیٹی حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں۔‘ملزم والد کی جانب سے ایف آئی آر میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ ’یہ آوازیں سُن کر میں باہر نکلا تو حرا شدید زخمی حالت میں گیٹ کے پاس پڑی تھی


۔ میں نے محلہ داروں کے ہمراہ حرا کو ہسپتال پہنچایا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی۔‘والد نے پولیس سے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی جس پر پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت یہ مقدمہ درج کر لیا۔پولیس ٹیم کی جانب سے ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ جب وہ اطلاع موصول ہونے کے بعد ہسپتال پہنچے تو وہاں حرا کی خون میں لت پت لاش موجود تھی۔’سرسری جسمانی معائنے میں معلوم ہوا کہ حرا کے بائیں بازو پر زخم کا نشان تھا جو جسم کے آر پار تھا جبکہ سینے کے بائیں جانب بھی آر پار زخموں کے نشانات تھے۔  

جمعرات، 6 فروری، 2025

ڈاکٹر مجھے خوبصور ت بنا دو- کاسمیٹک سرجریز

   قران کریم  میں  ارشاد رب العزت ہے   ہم نے انسان  کو بہترین  صورت پر پیدا کیا - پھر بھی   اور خوبصورتی چاہنے کی  خواہش  بہت سوں کو      کلینک کا راستہ سجھا دیتی ہے! لیکن اگر خوبصورت لگنے کے لیے مختلف قسم کےکاسمیٹک سرجریز کروانا پڑے تو  کوئ حرج تو نہیں ہے ۔اسی لئے پُرکشش لگنے کی آزو کی تکمیل لیے دینا بھر میں کاسمیٹک کلینکس اپنے عروج پر جا رہے ہیں -اگر دیکھا جا ئے تو سرجری اور ایستھیٹک پروسیجرز کا سہارا کچھ عرصے پہلے تک تو صرف سلیبرٹیز  لیا کرتے تھے لیکن اب یہ شوق عام لوگوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے،سیف الاسلام ڈرمٹالوجسٹ  کاکہنا  ہےکہ ’پاکستان میں پچھلے تین چار سالوں میں یہ رجحان بڑھا ہے اور اب ہر عمر اور جنس کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جلد کے مسائل یا پھر بیماری کی وجہ سے ہمارے پاس علاج کے لیے آتے ہیں۔


لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی جو ایسے پروسیجر کروانا چاہتے ہیں جن کے بعد وہ مزید خوبصورت لگ سکیں-کاسمیٹک پروسیجر کسی طبی وجہ کے بجائے اپنے جسم کے مخصوص حصّے میں تبدیلی لانے کے لیے کروائے جانے والے والے میڈیکل پروسیجر یا آپریشن کاسمیٹک سرجری کہلاتا ہے۔یہ عموماً لوگ اس وقت کرواتے ہیں جب وہ اپنے جسم کے کسی حصّے کی ساخت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ یا پھر وہ اپنی نظرکے مطابق خوبصورت نظر آنا چاہتے ہیں۔ کسی کو اپنے جبڑے پسند  نہیں   ہوتے تو کوئی جبڑ ے چھوٹے  کرنا چاہتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اپنی ناک پسند نہیں ہوتی اور وہ اسے من پسند ناک  بنانے کے لیے سرجری کروا تے ہیں۔لیکن وہ اس پروسیجر کے نتیجے میں  آ نے والے وقت کے نتائج سے بلکل بے خبر ہوتے ہیں قارئین جان لیں اکثر  یہ سرجریز کامیاب ہونے بجائے ناکام بھی ہوجاتی ہیں کاسمیٹک پروسیجر  رجحان   میں   زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خواتین ہی پُرکشش لگنے کے  لیے ان چیزوں کا سہارا لیتی ہیں لیکن آج کل مرد بھی ایسے تمام پروسیجرز کرواتے ہیں۔


اسحاق کرمانی  کا شمار بھی ایسے ہی مردوں میں ہے جو مختلف قسم کے استھٹیک اور کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں۔ان کے بقول ’ویسے تو یہ کام ہمارے ارد گرد اکثرلوگ کرواتے لیکن مانتے نہیں ہیں۔ ان سے جب پوچھو کہ آپ نے کچھ کروایا تو ایسے محسوس کرواتے ہیں کہ وہ تو پیدا ہی ایسے ہوئے تھے اور ان میں جو بھی تبدیلی آئی ہے وہ قدرتی ہے۔‘ان کا مزید دعویٰ تھا کہ زیادہ تر مرد ماڈل اور اداکار یہ پروسیجرز کرواتے ہیں تاہم عام مرد حضرات بھی اس کام میں پیچھے نہیں ہیں۔درجنوں قسم کے پروسیجرز میں مردوں میں سب سے مقبول ہیئر ٹرانسپلانٹ ہے، جو مرد اپنے گنج پن کو کم کرنے کے لیے کرواتے ہیں۔حال ہی میں اس سرجری سے گزرنے والے محمدعتیق    کا  کہنا   ’ ہےیہ ایک تکلیف دہ سرجری ہے جو تقریبا تیرہ سے چودہ گھنٹے طویل ہے۔ اس میں ڈاکٹر آپ کے سر کے حصے پر بال لگاتے ہیں جہاں گج پن ہوتا ہے اور اس پر کم سے کم ڈھائی سے تین لاکھ روپے تک لاگت آتی ہے۔‘دوسری جانب خواتین میں مختلف اقسام کے فیشل، لپ فلرز، 


لیزر پروسیجرز، مصنوعی پلکیں لگوانے کے علاوہ رنگ گورا کرنے والے انجیکشن لگوانے کا ٹرینڈ زیادہ پایا جاتا ہے۔کاسمیٹک پروسیجرز آپ کو خوبصورت بنانے میں کیسے مدد کرتے ہیں؟ماہرین کے مطابق ان ٹریٹمینٹس سے جہاں آپ ایک طرف خوبصورت دکھائی دے سکتے ہیں تو وہیں ان کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ اس لیے ایسے پروسیجرز میں رسک موجود ہوتا ہے۔  جو کئی قسم کے کاسمیٹک پروسیجرز سے گزر چکے ہیں، ان کے مطابق ان کے بیشتر پروسیجرز کے منفی نتائج آئے۔ جیسا کہ سلیمہ  کا کہنا ہے کہ آنکھوں کے گرد حلقوں کو لیزر کے ذریعے کم کروانا چاہا تو ان کو آنکھوں میں جلن اور خارش کی شکایت ہونے لگی جس کی وجہ سے انھوں نے اس پروسیجر کو روک دیا۔سلیمہ کا کہنا ہے کہ آنکھو ں کا پروسیجر تکلیف کے باعث ترک کرنے کے بعد میں نے چہرے کے زیدہ بالوں سے چھٹکارا حاصل کرن چاہاتو یہاں بھی مسلہ دوگنا ہی ہو گیا اب میرے پاس یہی راستہ ہے کہ یا تو میں تھریڈنگ کرواؤں یا پھر سے لیزر کرواؤں۔‘جہاں ایک طرف کچھ لوگوں کے لیے یہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ان پروسیجرز سے فائدہ بھی ہوا ہے۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ ’میرے کیس میں مجھے تو بہت فائدہ ہوا ہے۔ میرے چہرے پر دانے نکلنے کی وجہ سے جلد خراب ہو گئی تھی۔ اس کے لیے میں نے لیزر ٹریٹمنٹ کروائی اور وہ ٹھیک ہو گئے۔نہ صرف  بلکہ پاکستان میں اداکاراؤں کی ایک بڑی تعداد کاسمیٹک سرجریز کروا رہی ہے۔ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔ لیکن ان سب کے تجربات اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ 



کاسمیٹک سرجری  کروانے کے بعد مشہور انفلوئنسر کی موت ہوگئی، 
میکسیکو سٹی (ڈیلی پاکستان آن لائن) میکسیکو سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ مشہور انفلوئنسر ڈینیز ریس ایک غیر مجاز کلینک میں کاسمیٹک سرجری کروانے کے تین دن بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں۔ ڈینیز ریس نے چیاپاس کے شہر ٹکسٹلا گوٹیریز میں واقع سان پابلو میڈیکل کلینک میں لائپوسکشن سرجری کروائی تھی۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا فالوورز کو اطلاع دی تھی کہ وہ سرجری کے بعد صحت یاب ہو رہی ہیں۔ان کے چچا اماو روڈریگز نے ڈیلی میل کو بتایا کہ سرجری کرنے والے ڈاکٹر اورلینڈو گامبوا نے اگلے دن  انہیں ایک دوا دی جس سے ری ایکشن پیدا ہوا۔ چچا کے مطابق "ڈینیز نے طبیعت بگڑنے کی شکایت کی اور انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا، جس کے بعد انہیں فوری طور پر کلینک کے کمرے سے باہر نکال دیا گیا۔"ریس کی ایک دوست، جو ان کے ساتھ کلینک گئی تھی، کو ریکوری روم کے باہر انتظار کرنے کو کہا گیا اور بتایا گیا کہ ان کی طبیعت "نازک" ہے۔ بعد ازاں ریس کو مانزور ہسپتال منتقل کر دیا گیا کیونکہ سان پابلو کلینک میں انتہائی نگہداشت کی سہولت موجود نہیں تھی۔ بدقسمتی سے ان کی حالت مزید بگڑتی گئی اور وہ  دو دن بعد  انتقال کر گئیں۔ ان کے چچا نے بتایا کہ ڈینیز ریس سرجری سے پہلے مکمل طور پر صحت مند تھیں اور انہیں کوئی بیماری لاحق نہیں تھی۔اب ان کے اہلِ خانہ نے چیاپاس کے صحت حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ڈاکٹر گامبوا کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ روڈریگز نے مطالبہ کیا کہ "حکام ڈینیز کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کریں اور ڈاکٹر کو اس کے کیے کی سزا دی جائے۔"

 

منگل، 4 فروری، 2025

انڈر پاس کریم آباد 'سندھ حکومت توجہ دے

 42 -رپورٹ:منیر عقیل انصاری)42 دنوں کی ریکارڈ مدت میں جناح ایونیو انڈر پاس کی تکمیل

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے منگل کے روز جناح ایونیو انٹرچینج انڈر پاس منصوبے کو ریکارڈ 42 دنوں میں مکمل کرنے پر وزیر داخلہ، چیئرمین سی ڈی اے سمیت متعلقہ اداروں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس منصوبہ سے راولپنڈی، اسلام آباد کی ٹریفک کو بڑا فائدہ ہو گا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی بھی اسی برق رفتاری سے آگے بڑھائیں گے اور پاکستان کو عظیم ملک بنائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو جناح ایونیو انٹرچینج انڈر پاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں وزیر داخلہ سید محسن نقوی، وزیر اطلاعات و نشریات عطا اﷲ تارڑ ، ارکان قومی اسمبلی حنیف عباسی ۔ طارق فضل چوہدری۔ راجہ خرم نواز اور انجم عقیل خان اورچیئر مین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا۔ ممبر انجنئرنگ سی دنفاست رضا ۔ ڈائریکٹر روڈز رانا طارق محمود سمیت سی ڈی اے افسران نے شرکت کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس انڈر پاس کا 5 نومبر کو سنگ بنیاد رکھا گیا تھا یہ خوشی کا موقع ہے کہ یہ انڈر پاس 42 دنوں میں مکمل کرکے ریکارڈ قائم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اسی طرح ترقی کرتی ہیں، شبانہ روز محنت کا اﷲ تعالیٰ پھل ضرور عطا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے، ان کی ٹیم، ٹھیکیداروں، انجینئرز اور کام کرنے والے ورکرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔


 وزیر داخلہ محسن نقوی کی قیادت میں ان کی ٹیم نے انہونی کر دکھائی، ان کی ذاتی نگرانی کے باعث یہ منصوبہ بروقت پایہ تکمیل کو پہنچا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس منصوبہ سے راولپنڈی، اسلام آباد کی ٹریفک کو بڑا فائدہ ہو گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سرینا چوک انڈر پاس منصوبہ بھی اسی برق رفتاری سے مکمل ہو گا۔ جبکہ  صوبہ سندھ پر پیپلز پارٹی کی مکمل گرفت ہے تو پھر کراچی کو لاوارث کیوں چھوڑ دیا گیا  ہے -روزنامہ جسارت  نے دکانداروں کی بے بسی تحریر کی ہے آپ  بھی پڑھئے -سندھ حکومت کی عدم توجہی کے باعث کریم آباد انڈر پاس کی تعمیر دکانداروں کے لیے وبال جان بن گیا ہے انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث رمضان المبارک کے دوران تاجراور دکاندار اپنا کاروبار مکمل طور پر نہیں کر سکیں گے دکانداروں کو اپنی دکان کا کرایہ اور سیلز مین کی ماہانہ تنخواہ نکالنا مشکل ہو گیا۔دکانداروں اور سیلز مینوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ کریم آباد مارکیٹ کے تاجر شدید پریشان ہیں کہ یہ انڈر پاس کب مکمل ہوگا، کریم آباد کے اطراف میں موجود مارکیٹوں کے تاجر اور رہائشی ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔کریم آباد مارکیٹ کے دکاندار نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری دکان میں 6 سیلزمین تھے جس میں سے چار سیلز مین کو فارغ کر دیا ہے ہمیں اپنی دکان کا کرایہ نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔


دکانوں کے کرائے 80 ہزار روپے تک ہیں جب ہمارے پاس کسٹمر نہیں آئیں گے تو ہماری دکانداری کیسے چلے گی ؟دکانوں کا کرایہ سیلزمین بجلی کا بل اور دیگر اخراجات کیسے پورا کریں گے ؟کریم آباد انڈر پاس کی تعمیرات کے باعث ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ہے ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے ۔انہوں کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کے اطراف میں 35 سے زاید صرف اسپورٹس کی دکانیں ہیں اس کے علاوہ مینا بازار فوٹو اسٹیٹ کی مشینیں فیصل بازار اور اس طرح کے دیگردکانیں اور بازار موجود ہیں سب کا کاروبار تباہ ہو گیا ہے جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کریم آباد انڈر پاس کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلا وجہ انڈر پاس کے نام پر سڑک کو کھود کر چھوڑ دیا گیا ہے ۔تاجروں کا کہنا ہے کہ جب سندھ کا وزیر اعلیٰ پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے ،پاکستان کا صدر پیپلز پارٹی کا ہے ،وزیر بلدیات پیپلز پارٹی کا ہے اور میئر کراچی بھی پیپلز پارٹی کا ہے تو اب کسی فنڈز کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے،


 جب جناح ایونیو اسلام آباد کا انڈر پاس 42 دنوں میں مکمل ہوسکتا ہے تو کیوں کراچی کا کریم آباد انٹر پاس ڈیڑھ سال بعد بھی نا مکمل ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم دکاندار بے روزگاری کے آخری نہج پر آچکے ہیں ،ہمارا گزارا مشکل ہو گیا ہے ہمارا معاشی قتل عام بن کیا جائے اور ہمیں اپنی دکانوں میں اسانی کے ساتھ دوکانداری کرنے دی جائے جتنی جلدی ہو سکے سندھ حکومت کے ڈی اے اس منصوبے کو مکمل کریں دوکاندار نے کہا کہ میئر کراچی بھی کریم آباد انڈر پاس چورنگی پر تشریف لائے تھے اور فوٹو سیشن کر کے چلے گئے پیپلز پارٹی کا المیہ ہے کہ یہ پارٹی خود کوئی کام نہ کرتی ہے اور نہ کسی اور کو کرنے دیتی ہے انہوں نے کہا کہ ہم اپنی مدد اپ کے تحت سڑکوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ملبے ڈال رہے ہیں میری بلاول بھٹو زرداری سے گزارش ہے کہ وہ یہاں آئیں اور دیکھیں کہ دکاندار کتنے پریشان ہیں رمضان المبارک کی امد امد ہے اور ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہے ہمیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے روزی روٹی کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ہمارے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔


انہوں نے کہا کہ کریم آباد کراچی کی مشہور مارکیٹ ہے لیکن انڈر پاس کی تعمیرات میں تاخیر اور سڑکوں پر پڑے گڑھوں کے باعث لوگوں نے کریم آباد مارکیٹ کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔واضح رہے کہ کریم اباد چورنگی پر عثمان میموریل اسپتال سے ضیاء الدین اسپتال جانے اور انے والے دونوں ٹریک کے لیے تقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس بنایا جا رہا ہے کریم اباد چورنگی پر زیر تعمیر انڈر پاس کی تاخیر کے باعث لاگت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے منصوبہ شروع ہوتے وقت اصل تخمینہ ایک ارب 35 کروڑ روپے تھا جو بڑھ کر 4 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے کریم اباد انڈر پاس منصوبہ کے لیے فنڈ محکمہ لوکل گورنمنٹ سندھ فراہم کر رہی ہے اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی اے انڈر پاس کی تعمیر کر رہی ہے جبکہ کام کا اغاز اپریل 2023 میں ہوا تھا اور اپریل 2025 پہ مکمل کیا جانا ہے تاہم اب تک 35 فیصد کام مکمل ہوا ہے اورابھی تک انڈر پاس کی کھدائی کا کام بھی مکمل نہیں ہوا سکا ہیتقریبا ایک کلومیٹر طویل انڈر پاس کو 24 ماہ میں مکمل کرنے کا دعوی کیا گیا تھا جو تاحال نامکمل ہے اس حوالے سے روزنامہ جسارت نے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان سے انڈر پاس کے حوالے سے موقف جاننے کی کوشش کی تاہم انہوں نے فون کال اٹینڈ نہیں کی۔

عمر خیام شہرت کی آفاقی بلندی پر

   خیام 427 ہجری شمسی میں خراسان کبیر کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئےخیام بن ابراہیم نیشا پوری،ایران کے عظیم شاعر، دانشور، ریاضی داں، منجم اور فلاسفرہیں جن کی شہرت  ایران کی قلمرو سے ماورا ہے اور آج بھی شعرو ادب اور علم وحکمت کے شیدائیوں کے قلب وذہن پر ان کی حکمرانی باقی ہے۔  اگر غور کیا جائے تو دنیا میں کسی شاعر کو اتنی مقبولیت نہ ملی  ہو گی  جتنی خیّام خیمہ دوز کو ملی۔‘‘ دراصل خیّام کے معنی، خیمہ بنانے والے کے ہیں اور یہ اُن کا خاندانی پیشہ تھا۔ اُردو نظم کے عظیم شاعر، میراجی نے جہاں دنیا بھر کے عظیم شعراء کے کلام کے تراجم کیے، وہیں ’’خیمے کے آس پاس‘‘ کے نام سے ’’رباعیاتِ خیّام‘‘ کا ترجمہ بھی کیا اور یہ وہی کام ہے، جو انگریزی میں فٹز جیرالڈ نے سرانجام دیا تھا؎ جاگو، سورج نے تاروں کے جھرمٹ کو دُور بھگایا ہے..... اور رات کے کھیت نے رجنی کا آکاش سے نام مٹایا ہے..... جاگو، اب جاگو، دھرتی پر اس آن سے سورج آیا ہے.....راجا کے محل کے کنگورے پر اجول کا تیر چلایا ہے۔


 خیام کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں ، دانشوروں، حکما اور فلاسفروں  میں ہوتا ہے  اور انہیں ریاضی اور علم نجوم میں بھی مہارت حاصل تھی ۔عمرخیام کی رباعیات کا دنیا کی تقریبا سبھی قابل زکر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ انھوں ابتدا تعلیم منجملہ،قرآن پڑھنا، عربی ، فارسی، ریاضی اور فقہی احکام کی تعلیم نیشا پور میں حاصل کی-  ایک   شاعرنے خیّام  کے لئے کہا ہےکس کی کھوج میں گُم صُم ہو، خوابوں کے شکاری، جاگو بھی.....اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چُکا۔آغا شاعر قزلباش نے 1932ء میں ’’خم کدۂ خیّام‘‘ کے عنوان سے خیّام کی200رباعیوں کا ترجمہ کیا،جن میں سے ایک رباعی کا ترجمہ اس طرح ہے؎ آئی یہ صدا صبح کو مئے خانے سے..... اے رندِ شراب خوار، دیوانے سے.....اُٹھ جلد بھریں شراب سے ساغر ہم..... کم بخت چھلک نہ جائے پیمانے سے۔ اِسی طرح برصغیر پاک و ہند کے درجنوں شعراء نے خیّام کی شاعری کے ترجمے اُردو زبان میں علم حضوری  کے مراحل  میں خواجہ ابولحسن انباری سے ریاضیات اور ہندسہ کے بنیادی اصول سیکھے


اور پھر حکمت، فلسفے، عرفان اور اخلاقی علوم نیز قرآن کریم کی تعلیم مکمل کرنے کے لئے مکتب امام موفق نیشابوری میں داخلہ لیا اور زیور علم ودانش اور اخلاقیات سے آراستہ ہوئے۔     خیام نے نوجوانی میں ہی فلسفے اور علوم ریاضی میں تبحر حاصل کرلیا اور مزید علوم حاصل کرنے کے لئے 461 ہجری میں  نیشاپور سے سمر قند گئے ۔وہ سمرقند سے اصفہان گئے جہاں اپنے اٹھارہ سا لہ قیام کے دوران ملک شاہ کے فرمان پر بننے والی رصد گاہ میں علم نجوم کی تحقیقات میں مصروف رہے۔   پھر جب ملک شاہ کے ورثا میں سلطنت کے لئے لڑائی شروع ہوئی اور علمی فروغ کے مسائل پس پشت ڈال دیئے گئے تو خیام اصفہان سے خرسان روانہ ہوگئے اور اپنی عمر کے باقی ایام مرو سمیت خراسان کے اہم شہروں میں گزارے اور ان کے زیادہ تر علمی کارنامے اصفہان سے واپسی پرخراسان میں ہی  انجام پائے ہیں۔عمرخیام نیشاپوری کا فلسفہ ہمیشہ  پرکشش رہا ہے ۔ جب کہ مغرب میں جیرالڈ کی وجہ سے خیّام کی شہرت اس قدر پھیلی کہ اُن کا نام خمریات کی علامت بن گیا۔


 یوں بھی شراب ان اقوام کی زندگی کا جزوِ لازم، تو خیّام کی شاعری کا بنیادی استعارہ تھی۔خیّام نے مئے خانہ، جام، پیمانہ، پیالہ اور ساقی جیسی لفظیات سے ذکرِ معرفت، سرمستی اور عشق میں ڈوب جانے کی کیفیات کو رباعیات کا موضوع بنایا، تو عیش و عشرت کی دل دادہ یورپ کی اقوام نے اسے مئے نوشی اور وہ بھی بلانوشی سے تعبیر کیا، لہٰذا خیّام کے نام سے شراب خانے، جوا خانے اور نائٹ کلب بناڈالے،عمر خیّام کی سحر انگیز شخصیت پر متعدد ناولز بھی لکھے گئے پورے یورپ میں ایک عرصہ دراز تک انکی  رباعیات کی دھوم رہی ۔ اُن کے اشعار پر انگریزی کے معروف ادیبوں یوجین اونیل، اگاتھا کرسٹی، اسٹیون کنگ اور دیگر نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے، وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیومنرو نے عمر خیّام سے متاثر ہو کر اپنا قلمی نام ہی ’’ساقی‘‘ رکھ لیا۔ اور خیّام کی شہرت صرف یہیں تک محدود نہیں، اُن کی زندگی پر ہالی وڈ کی متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں۔


خیّام کی کتب کے قدیم نسخےعمر خیّام نے اپنی کئی کتب کی نقول تیار کروا کر اپنے عہد کے نام وَر اہلِ علم کو بھیجیں۔ بادشاہوں کے درباروں تک اُن کی رسائی کا اہتمام کیا۔ کتب خانوں تک پہنچائیں، مگر اپنی رباعیات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اس وقت دنیا میں اُس کی رباعیات کا جو سب سے پرانا نسخہ موجود ہے، وہ 1207ء کا ہے  -گوگل ڈوڈل نے کو معروف عالم، فلسفی اور شاعر ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشاپوری کو عالمی سطح پر ان کے 971 ویں یوم پیدائش پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کا باعث ان کی رباعیاں بنیں۔یہ پہلا موقع نہیں کہ عمر خیام کی ایک ہزار سال بعد بھی پزیرائی ہو رہی ہے۔ سنہ 1970 میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے جبکہ سنہ 1980 میں ایک سیارچے (3095) کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔عمر خیام کے اشعار پر انگریزی کے معروف شاعر یوجین او نیل، اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ وغیرہ نے جہاں اپنی تصانیف کے نام رکھے وہیں معروف افسانہ نگار ہیکٹر ہیو منرو نے عمر خیام سے متاثر ہوکر اپنا قلمی نام ہی 'ساقی' رکھ لیا۔خیام کا انتقال 1123 عیسوی میں نیشاپور میں ہوا اور وہیں سپردخاک کئے گئے ۔نیشاپور میں خیام کی آخری آرامگاہ آج بھی سیاحوں اور علم دوست حلقوں کا مرکز  نگاہ مانی جاتی ہے

مضمون انٹر نیٹ سے حاصل کردہ معلومات نیز اپنی یاداشت میں محفوظ یادوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے-کیونکہ میری والدہ اور دادی محترمہ کا تعلق ایران سے تھا جس کے سبب ہمارے گھر میں اردو کے ساتھ فارسی ادب بھی موجود تھا

اتوار، 2 فروری، 2025

تمنائے علی ع ''غازی عباس علمدار"ولادت مبارک

 

حضرت عباس   علدار  کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم 26ھ کو ہوئی۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک  آپ  کے بھائی   حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت مودت محبت اور عقیدت تھی۔ علی بن ابی طالب نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب نے  غازی عباس کی تربیت و پرورش کے درمیان   فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف  پرخصوصی توجہ دی تھی   ۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرؑ کہلانے لگے۔ عباس بن علی بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لیے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لیے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔


 لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے اور اسی لیے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے۔ آپ عرب اور بنو ہاشمؑ کے خوبصورت ترین ہستیوں میں سے تھے۔ اسی لیے آپ کو قمر بنی ہاشمؑ بھی کہا جاتا ہے۔آپ ایسے امام زادے ہیں جن کے لئے معصومین علیہم السلام کی جانب سے تقریبا 11 زیارتنامے وارد ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف وہ زیارت ہے جو فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی وارد ہوئی ہے۔ ’’السلام یا ایھا العبد الصالح المطیع للہ و لرسولہ‘‘امام جعفر صادق علیہ السلام آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: کانَ عَمُّنَا العَبّاسُ بنُ عَلِیٍّ نافِذَ البَصیرَةِ صُلبَ الإیمانِ جاهَدَ مَعَ أبی عَبدِاللّه ِ و أبلی بَلاءً حَسَنا و مَضی شَهیدَا؛ ہمارے چچا عباس بن علی اعلیٰ بصیرت اور پختہ ایمان کے حامل تھے، جنہوں نے ابو عبد اللہ (امام حسین) کی رکاب میں جہاد کیا اور امتحان میں سرخرو ہوئے اور پھر شہادت پائی۔ (عمدة الطّالب ، ص 356  آپ نے سنہ ۶۱ ہجری میں فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ میدان کربلا میں دس محرم کو شہادت پائی۔وقتِ شہادت آپ کی عمر چونتیس سال بتائی جاتی ہے۔


آپ کے القاب میں سقہ، علمدار ، قمر بنی ہاشم اور عبد صالح زیادہ معروف ہیں۔ جناب ابوالفضل العباس علیہ السلا م    کی ولادت با سعادت 4 شعبان المعظم سنہ 26 ہجری کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔سنہ 61 ہجری میں روز عاشور امام حسین علیہ السلام کے  ہمراہ شہادت پائی۔آپ کی کل عمر 32 یا 34 برس بتائی جاتی ہے۔آپکے پدر بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام   نے آپ  کا نام مبارک ’’عباس‘‘ خود پنے چچا عباس بن عبد المطلب کے نام پر رکھا۔آپ کے القاب میں قمر بنی ہاشم، باب الحوائج، سقا، علمدار کربلا اور عبد صابر زیادہ معروف ہیں۔امیرالمومنین علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: «اِنَّ وَلَدِی الْعَبّاس زَقَّ الْعِلْمَ زَقّاً» میرے فرزند عباس نے اس طریقے سے مجھ سے علم و دانش حاصل کیا جس طرح پرندے کا ایک بچہ اپنی ماں سے دانہ پانی حاصل کرتا ہے۔ (مقرّم، مقتل الحسین، بیروت، دارالکتاب، ص 169/ سیمای امام حسین ع، ص 182.)لقب ’’باب الحوائج‘‘ آپ کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اُس وقت ملا جب آپ کریم اہلبیت کے عطا کردہ تحائف، ہدایا اور اشیاء کو مستحق افراد کے درمیان تقسیم فرمایا کرتے تھے۔آپ کی ذات گرامی کی نمایاں ترین صفت اپنے امام کا مطیعِ محض ہونا ہے۔


 چاہے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی حیات طیبہ کا دور ہو یا اسکے بعد آپ کی شہادت کے موقع پر پیش آنے والے دردناک واقعات ہوں، سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ ہو یا پھر روز عاشور پیش آنے والے واقعات، آپ سراپا اطاعت تھے۔آپ کی ذات والا صفات امام حسین علیہ السلام کے لئے اُسی مقام کی حامل تھی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی ذات کے لئے امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شخصیت حامل تھی۔امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں آپ بڑی قدر و منزلت کے حامل تھے، اس طرح کہ آپ جناب عباس علیہ السلام سے فرمایا کرتے تھے: بنفسی انت؛ یعنی میری جان تم پر قربان۔ اور آپ کی شہادت کے بعد فرمایا کہ ’’ألآن إنکسر ظھری یا أخی‘‘؛یعنی اے میرے بھائی اب میری کمر ٹوٹ گئی۔آپ ایسے امام زادے ہیں جن کے لئے معصومین علیہم السلام کی جانب سے تقریبا 11 زیارتنامے وارد ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ معروف وہ زیارت ہے جو فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانی وارد ہوئی ہے۔


 ’’السلام یا ایھا العبد الصالح المطیع للہ و لرسولہ‘‘امام جعفر صادق علیہ السلام آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں فرماتے ہیں: کانَ عَمُّنَا العَبّاسُ بنُ عَلِیٍّ نافِذَ البَصیرَةِ صُلبَ الإیمانِ جاهَدَ مَعَ أبی عَبدِاللّه ِ و أبلی بَلاءً حَسَنا و مَضی شَهیدَا؛ ہمارے چچا عباس بن علی اعلیٰ بصیرت اور پختہ ایمان کے حامل تھے، جنہوں نے ابو عبد اللہ (امام حسین) کی رکاب میں جہاد کیا اور امتحان میں سرخرو ہوئے اور پھر شہادت پائی۔ (عمدة الطّالب ، ص 356 آپ نے سنہ ۶۱ ہجری میں فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ میدان کربلا میں دس محرم کو شہادت پائی۔وقتِ شہادت آپ کی عمر چونتیس سال بتائی جاتی ہے۔آپ کے القاب میں سقہ، علمدار ، قمر بنی ہاشم اور عبد صالح زیادہ معروف ہیں۔ابو الفرج اصفہانی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں تحریر کرتے ہیں: عباس بن علی ایک حسین و جمیل صورت کے مالک تھے اور جس وقت آپ گھوڑے پر سوار ہوتے تھے تو آپ کے قدمہائے مبارک زمین پر خط دیا کرتے تھے۔صاحب منتہی الارب کے مطابق  لفظ عباس در حقیقت صیغۂ مبالغہ ہے اور بے مثل و نظیر شجاعت و دلاوری کے باعث فرزند علی (ع) کو عباس کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہوتا ہے کچھار میں بیٹھا ہوا شیر۔  واقعہ کربلا سے آشنا ہر شخص حضرت ابوالفضل العباس بن علی علیہما السلام کی ذات والا صفات کی بے نظیر قدر و منزلت، عظمت، شجاعت، جذبۂ اطاعت اور ایثار و فداکاری سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔فرزند رسول سید الشہدا امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جیسے اصحاب مجھے ملے ایسے نہ میرے نانا رسول خدا کو ملے نہ میرے بابا علی مرتضیٰ کو ملے۔شب عاشو راصحاب و انصار میں سب سے پہلے جس شخصیت نے اعلانِ وفاداری کیا وہ حضرت عباس علیہ السلام کی ذات والا صفات تھی۔

ہفتہ، 1 فروری، 2025

زرا عمر رفتہ کو آواز دینا -میرے بچپن کی روداد زندگانی

  


لوٹ پیچھے کی طرف ائے گردِشِ ایّا م تو-
اپنی کتاب زندگی شروع کرتے ہوئے  اپنی معلوم یاداشت میں اپنے بچپن کا بس ایک ہلکا سا وہ خاکہ محفوظ ہے جب میرے  والد کی بیماری کے سبب  انکی  ائر فورس کی سروس ختم ہوئ  اور پھر ہماری ائرفورس چھاؤ نی کی رہائش  سےبھی   ماورائ طاقتوں نے ہمیں بے دخل کروا کر ہی چھوڑا کیونکہ میرے چھ برس کے  بھائ جان ان طاقتوں کے نشانے پر آ چکے تھےپھر ہم سب کو  میرے والد اپنے ایک دوست حفیظ اللہ   صاحب کے گھر لے آئے  اور یہاں سے  ہمارا اگلا آزمائشی زندگی کا سفر شروع ہوا - مجھے اچھی طرح یاد ہے  جب  میرے   والدین نے لالوکھیت ڈاکخانے سے''اب اس مکان میں جاوداں سیمنٹ  ڈپو ہے '' لالوکھیت چار نمبر نقل مکانی کی تھی اس دور میں کراچی میں سائیکل رکشا کا رواج تھا اور میں بھی اسی سائیکل رکشا میں    اپنے بھائ جان کے ساتھ اپنے  والدین کے محسن بابو بھا ئ کے ساتھ ہاتھ رکشہ میں  بیٹھی  تھی میرا خیال ہے کہ بابو بھائ کی عمر اس وقت تیرہ یا چودہ برس ہوگی وہ اپنی بڑی بہن اور بہنوئ کے ساتھ رہتے تھےسائیکل رکشہ میں کئ چھوٹے بڑے موجود تھے اور جب سائیکل رکشہ نےچلنا شروع کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ہر گاڑی جیسے مجھے کچلنے کو بڑھی چلی آ رہی ہے میں رونے لگی تو بابو بھائ نے کہا تم اپنی آنکھین بند کر لواور پھر میں نے ڈر کے مارے تمام راستے اپنی آنکھین بند رکھّی تھیں -جب ہما را تنکوں سے بنا آشیانہ آ گیا تو بابو بھائ نےکہا سب بچّے اٹھ جائیں گھر آ گیا ہے


بابو بھائ نے ہمیں رکشہ سے اتارا اور رکشہ والے کو کرایہ دے کر ہم بچّو ں کو اندر لائے ، مجھے اپنے بچپن کے یہ دن بھلائے نہیں بھولے کیونکہ یہ دور بہت ہی نا آسودہ اور مشکل دور تھا اس دور کے خوف بھی عجیب تھے ،راتوں کوبھیڑیوں کے غول کے غول جھگیّوں کے آس پاس اپنی مکروہ آوازوں میں بولتے ہوئے اور غرّاتے ہوئے پھرتے تھے- اس پر گھر کے بڑوں نے یہ باور کروا دیا تھا کہ بھیڑئے بچّوں کو منہ میں دبا کر اٹھا لے جاتے ہیں ہمارے بڑوں نے ہمیں اس لئے ڈرایا تھا کہ ہم بچّے دن میں گھر سے باہر نہیں پھریں لیکن اس ڈرانے کا نتیجہ میرے اوپر یہ ہوا کہ میں راتوں کو ڈر کے مارے جاگنے لگی،مجھے  چھاؤنی  کی رہا ئش میں کبھی بھی ڈر یا خوف لاحق نہیں ہوا تھا لیکن لالوکھیت چار نمبر میں یہ خوف مستقل میرے زہن سے چپک گیا تھا کہ کسی رات کو بھیڑیا مجھے بھی سوتے میں اپنے منہ میں دبا کر چل دے گا اور یہ خوف مجھے ساری ساری رات جگائے رکھتا تھا ،لیکن زندگی کو بچّوں کی نفسیا ت کا یہ تجربہ بھی دے گیا کہ بچّے کی سوچوں کی دنیا صرف اپنی زات کے گرد ہی گھومتی ہے ،میں یہ کیوں نہیں سوچتی تھی کہ بھیڑیا میری چھوٹی بہن یا ننھے بھائ کو بھی تو لے جاسکتا ہے ڈر تھا تو بس اس بات کاکہ بھیڑیا مجھے لے جائے گااور پھر کھا جائے گا  -


بہر حال وہ کڑا وقت بھی آخر گزر ہی رہاتھا اور ابتدائ تعلیمی سفر بھی شروع ہو چکاتھا اس زمانے میں رواج تھا کہ بچّے کو پہلے گھر پر ہی تین یا چار جماعتیں پڑھائ جاتی تھیں پھر اسکول میں داخلہ ہوتا تھا ،یہ بچّے اور اس کے گھر والوں کے لئے ایک اعزاز کی بات تھی کہ وہ گھر سے اتنا سیکھ کر اسکول آیا ہے چنانچہ میری تعلیمی زندگی کی باگ ڈور حسب حال میری والدہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ،اب تختی کے ایک جانب وہ گہری کالی پنسل سےالف ب لکھتی تھی اور دوسری جانب ایک سے دس تک گنتی ہوتی تھی اور ان کے لکھے ہوئے پر برو کے قلم کو دوات میں ڈبو کر پھر اسے احتیاط سے نکال کر کہ سیاہی ادھر ادھر گرے نہیں-مجھے ان کی تحریر پر قلم سے لکھنا ہوتا تھا-میں اپنی پیاری ماں کے کہنے کے مطابق کام کر لیا کرتی تھی ،پھر تختی کی تحریر سوکھنے  کے لئے  کسی کھلی جگہ  رکھ  دینی ہوتی تھی جب میری امی جان گھر کے کام کاج سے فراغت پا لیتی تھیں تب ہم بہن بھائیوں کی  تختیاں چیک کرتی تھیں -اس چیکنگ کے بعد پھر ہم کو اپنی اپنی تختیوں کی دھلائ کر نی ہوتی تھی 'یعنی ملتانی مٹی کو ایک کاٹن کا  رومال لے کر  اپنی گیلی تختی پر آہستہ آ ہستہ رگڑ کر صاف کرکے دھونا اور  دوبارہ اس پر  ملتانی مٹی کا لیپ  کر کے  ا گلے وقت کے لئے تیار کرنا ہوتا تھا -


اس زمانے میں  بچوں کوپنسل   تیسری جماعت سے استعمال  کر نے کی  اجازت   ہوتی تھی  ،پڑھنے لکھنے کے علاوہ میرا اہم کام اپنے والدین کے گھر تین برس یا اس کچھ کم یا اس کچھ زیادہ کی مدّت پر آنے والے اپنے چھوٹے بھائیوں کی دیکھ بھال تھی اور اب میرے مشاغل میں ایک نئ مصروفیت یہ شامل ہوئ تھی کہ   جب  میرا لکھنے پڑھنے کا ٹائم پورا ہو تا تھا  تب میں اپنے گود کے بھائ کو اٹھا کر اپنے ان پڑوسیوں کے گھر چلی جاتی تھی جہاں جانے کی اجازت والدہ نے مجھے دی ہوئ تھی کیونکہ میں نے  اردو  بہت جلد پڑھنی سیکھ لی تھی اور وہ دو گھر ایسے تھے جہاں مجھے بچوں کی کہانیوں کی کتابیں پڑھنے کو مل  جاتی تھی  ان دو گھروں میں ایک امینہ آپا کے چھوٹے بھائ حسن بھائ تھے جو مجھ سے سال بھر بڑ ے تھے اور دوسرا گھر  سلیم 'اسلم کا تھا اس گھر کے سربراہ جنگ اخبار کے کاتب تھے جو بہت باریک قلم سے خبریں لکھا کرتے تھے -  ابھی میرا اسکول میں داخلہ نہیں ہواتھا اور میں تیسری کلاس کا کورس گھر پر پڑھ رہی تھی- کہ میری ایک پڑوسن نے جب میں ان کے گھر پہنچی مجھ سے کہا جاؤ اور اپنی امّی سے راشن کارڈ لے کر آؤ ہم دودھ لینے جارہے ہیں میں الٹے پیروں گھر آئ اور امّی جان سے کہا ،خالہ راشن کارڈ منگا رہی ہیں آ پ بھیّا کو دیکھ لیجئے میں خالہ کے ساتھ دودھ لینے جا رہی ہوں ،خالہ نے راشن کارڈ اپنے کپڑے سے بنے ہو ئے تھیلے میں رکھا اور مجھے ساتھ لیا اور گھر سے نکل کرحب ندی  کی سمت سفر کرتے ہوئے ناظم آباد کے علاقے میں ایک بنگلے پر پہنچیں 


وہاں لاتعداد مہاجر آئے تھے عورتوں کی قطار الگ تھی مردوں کی قطار الگ تھی راشن کارڈ پر تصدیق کر نے والون کا ایک الگ کاؤنٹر تھا ہر گھر کا صرف ایک ہی فرد اپنے راشن کارڈ پر حکومت کے مقرّر کردہ کوٹے کے مطابق ہی دودھ لے سکتا تھا اس کے لئے سب سے پہلے گھر کے افراد کا ندراج رجسٹر پر ہو رہا تھا اور اسی حساب کے مطابق دودھ کی مقدار دی جارہی تھی-دودھ لانے کا سلسلہ تقریباً سوا سال سے  کچھ اوپر چلتا رہا پھر میرا اسکول میں داخلہ ہو گیا جس کے سبب دودھ لانے کا سلسلہ موقوف ہو گیا ٍ-لیکن  اس چھوٹے سے سفر میں جس کے درمیان حب ندی آتی تھی  میں دیکھتی تھی ندی کے اس پار لاکھوں جھگیاں اور ندی کے اس پار خوبصورت نئے نئے بنگلے 'دراصل ناظم آباد ان دنوں نیا نیا آبا د ہورہاتھی  بہر حال میرے دل میں ایک  خیال کا کوندا لپکتا کاش میں کسی بنگلے میں اندر جا کر  چھپ جاوں پھر باہر واپس نا آؤں لیکن میرے اس  مفسد خیال  کو میری  اس نگراں خالہ   نے عملی جامہ پہننے کا موقع نہیں دیا 









جمعہ، 31 جنوری، 2025

کہاں سے شروع کہاں پہ ختم -ایمیزون جنگلات

     شمالی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں کی طرف کا ایک غیرمعمولی بڑا جنگلاتی علاقہ ہے جو دریائے ایمیزون کو بھی عبور کرتا ہے اسی کو ایمیزون کا جنگل کہتے ہیں۔ ایمیزون  جنگل دنیا کے9 ممالک کی حدود میں واقع ہے۔ ان ممالک میں برازیل، فرانسیسی گیانا، ایکواڈور، گیانا، کولمبیا، ونزویلا، بولیویا، پیرو اور سرینام کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ایمزون جنگل کا بہت بڑا حصہ برازیل میں واقع ہے جو پچاس فیصد سے زائد ہے۔ وسطیٰ ایمیزون میں درجہ حرارت 30ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ ایمیزون کے مغربی حصہ میں درجہ حرارت 25ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ایمیزون جنگل کا رقبہ2,510,000 مربع میل ہے جو کہ آسٹریلیا کے رقبہ کے تقریبا ًبرابر ہے۔ دنیا کی زندہ حیات کا نصف اسی جنگل میں پایا جاتا ہے ۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں    انتہائی حیرت انگیز حقائق مختلف تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں سامنے آئے ہیں  ۔ ان کے مطابق ایمزون ایک یونانی لفظ ہے جس کا مطلب ’’لڑاکوجھگڑالو عورت‘‘ ہے۔ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔ زمین کی20 فیصد آکسیجن اسی جنگل کے درخت اور پودے پیدا کرتے ہیں۔ دنیا کے چالیس فیصد جانور، پرند، چرند، حشرات العرض ایمزون میں پائے جاتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی25 لاکھ سے زائد اقسام، پرندوں کی1500 اور دریا، ندیوں میں مچھلیوں کی دو ہزار سے زائد اقسام یہاں پائی جاتی ہیں۔ ایسے زہریلے حشرات العرض یہاں پائے جاتے ہیں کہ کاٹ لینے کی صورت میں چند منٹوں میں انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایمیزون جنگل کی سب سے خوفناک بات وہاں کی جانورخور مکڑیاں ہیں جو اتنی بڑی اور طاقتور ہوتی ہیں کہ پرندوں کو موقع ملتے ہی دبوچ کر ہلاک کردیتی ہیں۔ جانوروں کو سورج کی دھوپ لینے کے لئے اونچے اونچے درختوں پر چڑھنا پڑھتا ہے۔ بندر خاص طور پر ایسا کرتے ہیں۔ وہاں 9 میٹر سے زائد لمبے سانپ تو عام پائے جاتے ہیں جو اپنی ہیبت اور شکل سے ہی جان لیوا دکھائی دیتے ہیں۔ 1922ء میں وکٹر ہائنٹس نامی پادری جب دریا ایمیزون کی طرف گیا تو اس نے دریا میں تیرتے ایسے سانپ کو دیکھا جس کی آنکھیں اتنی بڑی تھیں کہ بوٹ کی روشینیوں کی مانند لگتی تھیں۔



 ایمزون کے جنگل کو اگر قدرتی عجوبہ قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا ۔ کیڑے مکوڑوں، پرندوں، چرندوں، جانوروں کی ایسی ہزاروں مخلوق موجود ہیں جن کو ابھی تک کوئی نام نہیں دیا جاسکا۔ ایمیزون کے جنگل میں آج بھی وحشی اور انسان خور قبائل موجود ہیں جو انسانوں کو کھاتے ہیں ۔ جنگل میں موجود ان قبائل کی تعداد400 بتائی جاتی ہے جن کی کل آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے۔ جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو تو تب بھی ایمیزون کے جنگل کا بڑا حصہ اس قدر تاریکی میں ڈوبا ہوتا ہے کہ ٹارچ کے ساتھ آپ کو زمین دیکھنی پڑتی ہے۔ جنگل کے کچھ حصے اس قدر گھنے ہوتے ہیں کہ اگر ایک انسان جنگل کے ایک حصہ میں کھڑا ہو اور بارش شروع ہوجائے تو اس تک بارش کے قطرے دس سے پندرہ منٹ تک پہنچیں گے، ایمیزون کے جنگل بارے بہت کچھ جاننے کی کوششیں جاری ہیں اور بہت کچھ جانا بھی جاچکا ہے لیکن کل جنگل کے دس فیصد حصہ تک ہی رسائی ممکن ہوسکی ہے۔ ایمیزون جنگل کے بارے میں سائنس اور دیگر ذرائع کی تحقیق کے بعد جو اعدادو شمار اور حقائق منظر عام پر آئے ہیں اس سے اس جنگل کے خوفناک ہونے پر کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا ۔ اس علاقے کو ایمزونیا بھی کہا جاتا ہے۔


ایمیزون کے جنگلات میں درجنوں مہم جو گئے لیکن واپس نہیں لوٹے اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ آیا وہ درندوں کے ہاتھ لگے یا انسان خور وحشی قبائلیوں کی خوراک بن گئے۔ 2009ء میں سی این این کی ایک خبر نے سنسنی پھیلا دی جس کے مطابق برازیل کے ایک قبیلہ ’’کولینا‘‘ نے ایک انیس سالہ نوجوان کو اغوا کیا اور اس کے ٹکڑے کرکے اس کا کھا لیاگیا۔ وہ قبیلہ پیرو کی سرحد کے قریب رہتاتھا ۔ مقامی پولیس لڑکے کے اہل خانہ کے ساتھ اندر ان تک پہنچی تو وہاں اس کی کھوپڑی کو لٹکا دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہوگئے اور الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو ایسے قبائل تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح برازیل کا قانون بھی پولیس کو ایسے قبائلیوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں 


یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کو ایسے قبائل تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح برازیل کا قانون بھی پولیس کو ایسے قبائلیوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ پیرو ملک کے ایمیزون جنگل کے ایک علاقہ میں ایک دریا بہتا ہے جو اتنا گرم ہے کہ اندر گرنے والا منٹوں ہی میں پانی میں گھل جاتا ہے۔ ابلتے پانی کی بھاپ ہمیشہ دریا کے کناروں پر بہتی رہتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو روحانی پانی مانتے ہوئے اس کے ارد گرد مختلف عبادتیں کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ایمیزون کے جنگل میں اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جو جدید زندگی سے خود کو دور رکھتے ہیں اور ماضی کی طرح اپنے آباؤ اجداد کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ جنگل سے باہر کے لوگوں سے رابطہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ایسے قبائل کی بڑی تعداد ایمیزون جنگل کے وسط میں رہتی ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق ایسے الگ تھلگ رہنے والے قبائل کی تعداد 50 ہے۔ ایمیزون جنگل میں 180 کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جون اور اگست کے مہینوں میں ایمیزون جنگل کے کچھ قبائل کوارپ نامی جشن مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہر قبیلہ اپنے رواج کے مطابق رقص، کھانا اور رسومات پیش کرتا ہے۔ اجنبی صرف قبائل کے راہنماؤں کی اجازت سے ہی ان کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ان قبائل کے آس پاس بڑی تعداد میں ایسے قبائل بھی آباد ہیں جن کا جدید دنیا سے رابطے ہیںایمیزون جنگل    پاکستان کے رقبے سے 16 گنا بڑا ہے۔ایمیزو


 یہاں 40,000 سے زیادہ پودوں کی اقسام، 1,300 پرندوں کی اقسام، 3,000 مچھلیوں کی اقسام، اور 430 سے زیادہ میملز کی اقسام موجود ہیں۔ ایمیزون میں دنیا کے سب سے خطرناک جانور بھی پائے جاتے ہیں جیسے ایناکونڈا، پائرانا مچھلی، اور جنگلی تیندوا۔ایمیزون جنگلات کو دنیا کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کی کل آکسیجن کا تقریباً 20% پیدا کرتے ہیں۔ایمیزون جنگلات میں روزانہ تقریباً 200 سے 300 ملی میٹر بارش ہوتی ہے، جو ان جنگلات کو ہمیشہ سرسبز اور شاداب رکھتی ہے۔ ایمیزون جنگلات میں گولیتھ مینڈک  پائے جاتے ہے جو دنیا کی سب سے بڑی مینڈک ہے۔ اس کا وزن 3.3 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔ ایمیزون جنگلات میں دنیا کے سب سے بڑے ہوائی جاندار بھی پائے جاتے ہیں، جیسے ہارپی ایگل، جو اپنے بڑے پروں اور طاقتور پنجوں کے لئے مشہور ہے۔   ایمیزون جنگلات میں دنیا کا سب سے لمبا سانپ، گرین ایناکونڈا، پایا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی 30 فٹ تک ہوسکتی ہے۔  ایمیزون جنگلات میں پایا جانے والا کیپوکھ درخت بہت بلند ہوتا ہے اور اس کی اونچائی 200 فٹ تک ہوسکتی ہے۔ جنگلات میں تقریباً 2.5 ملین کیڑوں کی اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سے بہت سی ابھی بھی نامعلوم ہی۔یہ  جنگل دنیا کے تقریباً 20% کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتا ہے، جو زمین کے موسمیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

 

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر