منگل، 29 اکتوبر، 2024

بولیں اماں محمد علی کی 'جان بیٹا خلافت پہ دے دو



   سنہ ء  1857 میں  دہلی  کی جنگ آزادی  اور پھر مسلمانوں  کے قتل عام سے  کچلے جانے کے بعد ہندوستان کے عوام میں  دوباہ  آزادی کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں لیکن اس بار ان کا مرکز دہلی نہیں تھا بلکہ  یوپی تھا -یوپی کے ایک شہر رام پور  کے مو لانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی والدہ،(پیدائش: 1850ء – وفات: 12 نومبر 1924ء     رام پور  شہر  پیدا ہوئیں۔   وہ ایک سچی مومنہ تھیں۔انہوں نے ہندوستان کی عورت  میں آزادی کی روح پھونکتے ہوئے کہا    کہ    ہندوستان کی یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ یہاں کی عورتیں عیش و آرام کی عادی ہوگئی ہیں اور خود کو حب الوطنی کے فرائض سے الگ کرلیا ہے۔ بہنو! اب وقت آگیا ہے کہ ہر وہ مرد و عورت جس میں ذرّہ برابر ایمان اور خودداری ہو، اپنے آپ کو خدا کی فوج کا سپاہی سمجھے، ہم میں سے ہر مرد اور عورت والنٹیئر ہے۔ ملک و قوم کی حالت بے حد نازک ہے، قید خانوں سے خوف نہ کھائو، اپنے فرائض ادا کرو اور ساتھ ہی مذہبی اور سوشل ذمہ داریاں بھی فراموش نہ کرو، میں تم کو نصیحت کرتی ہوں کہ جذبات کو مشتعل کرکے اپنی گرفتاری کا سبب بھی پیدا نہ کرو، لیکن اگر گرفتار ہوجائو تو اس سے بھاگو بھی نہیں۔ اگر ہمارے مرد جیلوں میں چلے جائیں گے اُس وقت آزادی کے پھریرے اڑاتے ہوئے ہم آگے بڑھیں گے۔‘‘تو یہ تھی ایک غیر تعلیم یافتہ مگر سرفروش ماں کی تقریر، جس کو اللہ نے شوکت علی اور محمد علی جیسے آزادی کے علَم بردار بیٹے دیے تھے۔


انہوں نے اسلامی حمیت، جرأت، بے خوفی، ایثار و قربانی اور جذبۂ حریت کے جو نقوش تاریخ میں چھوڑے ہیں اس سے ان کا نام تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اُس دور میں عورت کے لیے بہت بڑی چیز تھی انہیں تحریکِ آزادیِ مسلمانانِ ہند کی پہلی مجاہد خاتون کی حیثیت سے تاریخ میں جگہ ملی۔ بی اماں کے بیٹے جب جیل میں ڈال دیے گئے تھے تو انہوں نے برقع پہن کر ایک بڑے اجلاس کی صدارت کی۔ جب وہ دونوں ’’چھندواڑے‘‘ میں نظر بند تھے تو بی اماں وہاں موجود تھیں۔ حکومت کے لوگ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کے پاس ایک ٹائپ شدہ معافی نامہ لے کر آئے کہ وہ ان پر دستخط کردیں۔ بی اماں دوسرے کمرے میں بیٹھی یہ گفتگو سن رہی تھیں، اُن کو خیال ہوا کہ کہیں ان کے بیٹے دستخط نہ کردیں، انہوں نے بے تابی سے محمد علی کو پکارا۔وہ آئے کہ نہ معلوم ماں کیا کہنا چاہتی ہیں؟بی اماں بولیں ’’تم دونوں بھائی معافی نامے پر دستخط نہیں کرو گے، اور اگر تم نے دستخط کردیے تو میں نہ تمہارا دودھ بخشوں گی، نہ تمہاری شکل دیکھوں گی، نہ تم کو کبھی گھر کے اندر گھسنے دوں گی، ذلت کی آزاد زندگی سے جیل کی کوٹھری ہزار درجہ بہتر ہے جہاں انسان کا وقار قائم رہے۔اور وقت نے بتایا کہ  بی اماں کے دونوں بیٹے اپنی ماں کے مشن پر ثابت قدمی سے قائم رہے 


‘‘بی اماں نے 30 دسمبر 1921ء کو آل انڈیا لیڈیز کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ہر مذہب کی خواتین شریک تھیں۔ انہوں نے اس میں کہا کہ ’’بہنو! خدا کا قانون مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے، قومیں مردوں اور عورتوں دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ملک کے لیے جو فرائض مردوں پر عائد ہوتے ہیں وہی عورتوں پر۔ ان کی خطابت نے ہندوستان کی عورتوں میں حریت کا جزبہ بیدار کیا -جس کے طفیل لاتعداد عورتیں بی اماں کے قافلے میں شال ہوتی گئیں -انہوں نے محدود وسائل میں بچوں کو اچھی تعلیم دلائی، اپنے زیور بیچ کر علی گڑھ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا۔  مولانا محمد علی جوہر  کے چچا نے انگریزی تعلیم کی مخالفت کی تو انہوں نے اپنا زیور بیچ کر چپکے چپکے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی پورا خیال رکھا۔ نہ صرف دینی تعلیم دلائی بلکہ ان کے دلوں میں دین سے گہرا لگائو بھی پیدا کیا۔1887ء میں بی اماں نے مولانا محمد علی کو مزید تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا۔ پہلی جنگِ عظیم (1914-18) کے بعد برطانوی سامراج نے خلافتِ عثمانیہ کو اپنی سازشوں کا نشانہ بنایا اور اندرونی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے ترکی کی خلافت کا خاتمہ کردیا تو مسلمانانِ ہندوستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ خلافت کی بحالی کے لیے زبردست تحریک چلائی گئی۔ 


مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی نے بی اماں کے ساتھ مل کر ملک کے طول و عرض کے دورے کیے اور مسلمانو ں کی غیرت کو جھنجھوڑا۔1921ء میں دونوں بھائیوں کو انگریز حکومت نے گرفتار کرلیا اور مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ اس مقدمے کی سماعت کراچی کے خالق دینا ہال میں ہوئی۔ اُس زمانے میں کسی صاحبِ دل نے ’’صدائے خاتون‘‘ کے نام سے نظم لکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے بچے بچے کی زبان پر چڑھ گئی۔ حالانکہ اس نظم کو پھیلانے میں سوائے زبان کے اور کسی میڈیا نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ قرائین بتاتے ہیں کہ مولانا  محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر  دونوں بھائیوں کو اپنی ماں کی فہم و فراست پر بڑا ناز تھا، وہ ہر سیاسی معاملے میں ماں کے مشورے پر عمل کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا مشورہ بہترین ہوتا تھا، حالانکہ انہوں نے اردو کی چند ہی کتابیں پڑھی تھیں مگر بے حد زیرک اور عقل مند تھیں۔ ملکی سیاست پر انہیں پورا پورا عبور حاصل تھا۔‘‘تو یہ تھیں وہ پہلی مسلمان خاتون رہنما جنہوں نے ہندوستان میں تمام خاندانی جکڑبندیوں کو توڑ کر آزادیِ مسلمانانِ ہند کی راہ میں پہلا قدم  بڑھایا، یہ بی اماں تھیں جن کے ولولہ انگیز خطابت کے نتیجے میں ہندوستان کی عورت میں  آزادی  کا   بدل جذبہ  بیدار کیا اور پھر لاتعداد خواتین نے بی اماں کے قافلے میں شامل ہو کر اس   کو کارواں  میں بدل دیا

 


نومبر 1924ء میں بی اماں  راہئ  ملک عدم  ہوئیں  تو ان کے دونوں بیٹے ہی نہیں پوری قوم قابلِ احترام ماں کی شفقتوں سے محروم ہوگئی جن کے بارے میں شوکت علی نے کہا تھا کہ ’’ہماری ماں نے ہمیں زندہ رہنے اور آزادی سے زندگی گزارنے کا سبق دیا۔‘‘اور مولانا محمد علی جوہر کہا کرتے تھے کہ ’’ماں کی اصل خوب صورتی اس کی محبت ہے، اور میری ماں دنیا کی خوب صورت ترین ماں ہے۔‘‘مولانا محمد علی جوہر کی اہلیہ کہتی تھیں کہ ’’دونوں بھائیوں کو اپنی ماں کے فہم و فراست پر بڑا ناز تھا، وہ ہر سیاسی معاملے میں ماں کے مشورے پر عمل کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا مشورہ بہترین ہوتا تھا، حالانکہ انہوں نے اردو کی چند ہی کتابیں پڑھی تھیں، مگر بے حد زیرک اور عقل مند تھیں، ملکی سیاست پر انہیں پورا پورا عبور حاصل تھا۔‘‘تو یہ تھیں وہ پہلی مسلمان خاتون راہ نما، جنہوں نے ہندوستان میں تمام خاندانی جکڑ بندیوں کو توڑ کر آزادیِ مسلمانانِ ہندکی راہ میں پہلا قدم بڑھایا۔یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی  مسلمان عورت یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ مسلمانانِ ہند کی آزادی کیا چیز ہے۔ ایسے دور میں رام پور  شہر کے   لوگوں کے درمیان بی اماں اپنے انفرادی کردار کے باعث حیرت انگیز طریقے سے سامنے آئیں۔اور آزادئ ہند کے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے  

 بو لیں  اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ساتھ تیرے ہے شوکت علی بھی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ہو تم ہی میرے گھر کا اجالا ،تھا اسی واسطے تم کو پالا

کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ ،جان بیٹا خلافت پہ دے دو

1 تبصرہ:


  1. عبادی بانو بیگم (بی اماں)
    ء۱۹۲۲ء میں خلافت کا خاتمہ کردیاگیا۔ تحریک بھی سرد پڑ گئی لیکن اس نے عوامی اتحاد و سیاسی بیداری کی جو فضاء قائم کی اس نے کاروان آزادی کو ایک نئی جہت عطا کی۔ خواتین کا سیاسی شعور اور قومی سیاسی زندگی میں ان کی شرکت جرأت مندانہ اقدام تھا۔ بی اماں گاندھی جی اور کانگریس کے دیگر رہنمائوں کے زیر اثر قومی محاذ آرائی میں شامل ہوئیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کے وسیع تر مقاصد، ہندومسلم اتحاد، عدم تشدد، دیہی ترقی، تعلیم بالغان، ہریجنوں کی فلاح و بہبودکے تعمیری منصوبے، عوامی رابطہ اور منصوبہ بندی جیسے اُمور سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہیں۔ وہ کھل کر عوامی جلسوں میں شریک ہوئیں، ولایتی کپڑوں اور شراب کی دکانوں پر دھرنا دیا۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کا واحد مقصد آزادیٔ وطن تھا۔ ’’کاروان حریت کے مسافروں نے اپنے اس میر کارواں کو ’ام الاحرار‘ کے خطاب سے نوازا لیکن پیار میں اپنے پوتوں اور پوتیوں کی ’بی اماں‘ بن گئیں۔ ‘

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر