اتوار، 10 اپریل، 2022

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں .

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں

سنہ انّیس سو ستّاون ،، یہ میرے بچپن کا دور تھا جب پاکستان میں بننے والی فلم سات لاکھ کے اس گانے نے کراچی کے گلی کوچوں میں دھوم مچا دی تھی  مجھے بھی یہ گیت بہت پسند تھا میرے زہن کے شائد کسی گوشہ میں اب تک یہ گیت یقیناً محفوظ ہو گا جو حال ہی میں انٹر نیٹ پر شائع ہونے والی ایک  خبر اور تصویر کو دیکھ کر جاگ گیا خبر کا عنوان ہے

تھرپارکر کی خواتین ڈمپر ڈرائیورز،

تصویر میں تھری لباس میں  ملبوس لاتعداد لڑکیاں اپنے اٹرویو کی باری آ نے  کے لئےکھڑی ہیں –کچھ لڑ کیوں کے چہرے کھلے ہیں لیکن دونے ماتھا چھپایابہوا ہے کچھ نے ابھی بھی جبکہ اٹرویو دینے آئ ہیں گھونگھٹ نکالا ہوا ہےمیں نے تھر کی عورت کا چہرہ کبھی بھی کھلا نہیں دیکھا نا اس کو کبھی  کوئ جدّت طراز معاشرے کی رکن کی حیثیت سے  جانابس  اس کو اپنی گو د میں بچّہ اٹھائے اور سر پر پانی سے بھرے کئ مٹکے رکھ کر ننگے پاوں جلتی ریت پر چلتے ہوئے زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اس تصویر کو دیکھ کر میں حیران ہوں کہ گھونگھٹ کی اوٹ میں  مٹکے اٹھانے والی عورت  اپنے گھونگھٹ کی اوٹ سے ڈمپر ڈرائیونگ کس طرح کر سکے گی  -لیکن تھری  مرد فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ  اپنی پسماندگی کو دور کرنے لئے  اپنی عورتو ں سے بھی کام لیں گے جن کا انتخاب کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے۔-۔ وہ ان 30 امیدواروں میں شام ہیں جن کو منتخب کیا گیا  ہے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزپاکستان میں پروفیشنل خواتین ڈرائیور بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں تھرپارکر جیسے پسماندہ اور دوردراز علاقے میں خواتین کو ڈمپر جیسی بھاری بھرکم گاڑی چلانا اپنی جگہ غیرمعمولی بات ہے ۔ ایک سال کی تربیت کے بعد یہ خواتین اگلے مہینے سے باقاعدہ اپنے کام کا آغاز کریں گی۔

ایک تھری  عورت نے بتایا کہ جب کبھی کسی پسماندہ علاقے سے خواتین اپنے مالی مسائل کے حل کے لیے گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں تو انھیں بعض اوقات اپنے ہی گھر والوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'ہم بہت غریب لوگ ہیں، اسی لیے میں نے ڈمپر ڈرائیور کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ جب میرے بھائیوں کو پتہ چلا تو انھوں نے سخت مخالفت کی۔ محلے والوں نے بھی مذاق اُڑایا۔ لیکن میں نے کسی کی نہیں سنی۔ مجھے حوصلہ ہے کہ میرا شوہر میرے ساتھ ہے۔'

خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے قبل کئی حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں مخالفت بھی سامنے آئی۔ 'یہ سوال اٹھایا گیا کہ مردوں کی بڑی تعداد بےروزگار ہے ایسے میں خواتین کو ڈمپر ڈرائیونگ جیسے شعبے میں مردوں پر ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟'

ڈمپر ڈرائیور بننے کی ایک اور خواہشمند خاتون  نے بتایا: '

کہ  میں نے ڈمپر چلانے کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ میں اور میرے گھر والے خوش ہیں کہ اب میں ڈمپر چلاؤں گی اور گھر والوں کے لیے کمائی کا وسیلہ بنوں گی۔'ڈمپر ڈرائیونگ کی پروگرام انچارج جہاں آرا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نوکری کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے آنے والی خواتین کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اِس مقصد کے لیے پورے تھر میں چار مختلف مقامات پر کیمپ لگائے گئے تھے جن میں رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد ان گنت تھی۔ انھی میں سے 90 خواتین کے ٹیسٹ اور انٹرویوز لینے کے بعد 30 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔

جہاں آرا کے مطابق: 'رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین میں 60 سال تک کی خواتین بھی شامل تھیں تاہم وہ معمر ہونے کی وجہ سے وہ اہل نہیں تھیں۔ ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنی بہو بیٹیوں کو بھی لائیں، کہ چلو ہم اپنی بہوؤں کے بچے سنبھال لیں گی لیکن اِن کے کام کرنے سے ہمارے گھر کے تمام افراد خوش ہوں گے۔'جہاں آرا نے مزید بتایا کہ اس وقت سارے تھرپارکر میں صرف ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں کار چلانا آتی ہے اور ڈرائیونگ سیکھنے کے شوق میں تھر کی 17 سالہ کئی پرجوش لڑکیوں نے اس بات پر اعتراض بھی کیا کہ ڈمپر ڈرائیور بننے کے لیے عمر کی کم از کم حد 20 سال نہیں ہونی چاہیے۔

مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ ڈمپر ڈرائیونگ کے لیے منتخب ہونے والی خواتین کو باقاعدہ اس کام پر لگانے سے پہلے انھیں ایک سال کی ٹریننگ دی جائے گیا ہے یہ وہ خواتین ہیں جو ڈرائیونگ سے نا آشنا ہیں۔ زندگی میں کبھی گاڑی کی سیٹ پر نہیں بیٹھی ہیں، ڈمپر ٹرک عام ٹرک کے مقابلے میں سائز میں دگنےصوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے مرکزی قصبے مٹھی کی رہائشی  پیلے رنگ کے ایک ڈمپر کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ ان 30 امیدواروں میں شامل ہیں جن کا انتخاب کوئلے کی کانوں میں کھدائی کرنے کے بعد مٹی سے بھرے ڈمپر لے جانے کے لیے کیا گیا ہے۔

 خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ نے  بتایا کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔'تھر کی سخت جان عورتیں گھنٹوں کام کرتی ہیں اسی لیے ہم نے انہیں یہاں کا سب سے مشکل کام سونپنے کا سوچا تاکہ یہی خواتین ثابت کر سکیں کہ وہ تھر کے مردوں سے کسی طور کم نہیں، بلکہ اُن سے کہیں آگے ہیں۔ یہ خواتین صرف اپنے علاقے کی باقی خواتین ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کے لیے جرات کی مثال قائم کر سکیں۔' 

انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے قبل کئی حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں مخالفت بھی سامنے آئی۔ 'یہ سوال اٹھایا گیا کہ مردوں کی بڑی تعداد بےروزگار ہے ایسے میں خواتین کو ڈمپر ڈرائیونگ جیسے شعبے میں مردوں پر ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟'ڈمپر ڈرائیور بننے کی ایک اور خواہشمند خاتون  نے بتایا: 'میں لوگوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ عورت مضبوط ہے اس لیے میں نے ڈمپر چلانے کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ میں اور میرے گھر والے خوش ہیں کہ اب میں ڈمپر چلاؤں گی اور گھر والوں کے لیے کمائی کا وسیلہ بنوں گی۔'

ڈمپر ڈرائیونگ کی پروگرام انچارج جہاں آرا نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نوکری کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو کے لیے آنے والی خواتین کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اِس مقصد کے لیے پورے تھر میں چار مختلف مقامات پر کیمپ لگائے گئے تھے جن میں رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین کی تعداد ان گنت تھی۔ انھی میں سے 90 خواتین کے ٹیسٹ اور انٹرویوز لینے کے بعد 30 خواتین کا انتخاب کیا گیا ہے۔

جہاں آرا کے مطابق: 'رجسٹریشن کے لیے آنے والی خواتین میں 60 سال تک کی خواتین بھی شامل تھیں تاہم وہ معمر ہونے کی وجہ سے وہ اہل نہیں تھیں۔ ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنی ہو بیٹیوں کو بھی لائیں، کہ چلو ہم اپنی بہوؤں کے بچے سنبھال لیں گی لیکن اِن کے کام کرنے سے ہمارے گھر کے تمام افراد خوش ہوں گے۔'جہاں آرا نے مزید بتایا کہ اس وقت سارے تھرپارکر میں صرف ایک ایسی خاتون ہیں جنہیں کار چلانا آتی ہے اور ڈرائیونگ سیکھنے کے شوق میں تھر کی 17 سالہ کئی پرجوش لڑکیوں نے اس بات پر اعتراض بھی کیا کہ ڈمپر ڈرائیور بننے کے لیے عمر کی کم از کم حد 20 سال نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے خاندان بھی سامنے آئے جن کا کہنا تھا کہ 'تھر میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہماری خواتین گھر سے باہر نہیں جائیں گی۔'مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین کا کہنا ہے کہ ڈمپر ڈرائیونگ کے لیے منتخب ہونے والی خواتین کو باقاعدہ اس کام پر لگانے سے پہلے انھیں ایک سال کی ٹریننگ دی جائے گی۔'یہ وہ خواتین ہیں جو ڈرائیونگ سے نا آشنا ہیں۔ زندگی میں کبھی گاڑی کی سیٹ پر نہیں بیٹھیں، ڈمپر ٹرک عام ٹرک کے مقابلے میں سائز میں دگنے ہوتے ہیں اس لیے اِن خواتین کی ایک سال کی ٹریننگ ضروری ہے۔ ایک مرد جو ڈرائیونگ بالکل نہیں جانتا چار ماہ کی ٹرینگ کے بعد یہ کام شروع کر دیتا ہے۔' ٹریننگ کے اختتام پر یہ خواتین روزانہ آٹھ گھنٹے ڈمپر چلائیں گی۔

 تین سے چار کلو میٹر کے راؤنڈ ٹرپ میں یہ خواتین مٹی سے بھرے ڈمپر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائیں گی۔ یہ کام اُنھیں ایئر کنڈیشنڈ ڈمپر میں بیٹھ کر ہی کرنا ہو گا۔ تھر میں کوئلے کے ذخائر کا شمار دنیا کے 16 بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جو جیولوجیکل سروے آف پاکستان اور یونائٹیڈ سٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کے اشتراک سے 1991 میں دریافت ہوئے تھے۔ نو ہزار کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر سے مالامال ہے۔بحیثیت ایک پاکستانی خاتون کے میں سوچتی ہوں کہ اگر پاکستان کے قدامت پرست معاشرے نے عورت کے اس روپ کو قبول کر لیا تودیہی عورت کی  یہ آزادی بہت بڑی خوشی کی نوید ہے-

 

1 تبصرہ:

  1. خواتین کو بطور ڈمپر ڈرائیورز منتخب کرنے والی اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سربراہ شمس الدین شیخ نے بتایا کہ تھر کی خواتین محنت کش ہیں اور علاقے سے غربت دور کرنے کے لیے معاشرتی اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائننگ کمپنی میں خواتین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔'تھر کی سخت جان عورتیں گھنٹوں کام کرتی ہیں اسی لیے ہم نے انہیں یہاں کا سب سے مشکل کام سونپنے کا سوچا تاکہ یہی خواتین ثابت کر سکیں کہ وہ تھر کے مردوں سے کسی طور کم نہیں، بلکہ اُن سے کہیں آگے ہیں۔ یہ خواتین صرف اپنے علاقے کی باقی خواتین ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کے لیے جرات کی مثال قائم کر سکیں۔'

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر