اتوار، 22 اگست، 2021

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی

عید غدیرتکمیل دین کا یوم جاودانی اس عید کے شب و روز میں عبادت، جشن اور غریبوں کے ساتھ نیکی نیز خاندان میں آمد و رفت ہونے کے ساتھ مومنین اس عید پر اچھے کپڑے پہنتے اور زینت کرتے ہیں ۔ یہ عید صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی نسبت شیعہ خاص اہتمام رکھتے ہیں؛ مسلمانوں کے دیگر فرقے بھی عید غدیر میں شیعوں کے ساتھ شریک ہیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے مقام ولایت پر فائز ہونے کی وجہ سے عید قرار دینے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے؛ کیونکہ یہ دن حضرت علی علیہ السلام کے چاہنے والوں کے لئے خوشی و مسرت کا دن ھے چاہے آپ کو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا بلا فصل خلیفہ مانتے ہوں یا چوتھا خلیفہ۔ بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ہیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ہے ۔ ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں: ”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ہے اور اس روز کو عید شمار کیا ہے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے آپ کو اپنا جانشین منصوب کیا ”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت کرنا ممکن ہو وہی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ہے، اور یہ ایک بلند مرتبہ، عظیم منزلت، بلند درجہ اور رفیع مقام ہے جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کیا، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ہے۔“ ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشھور راتوں میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”یہ وہ شب ہے جس کی کل میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غدیر خم میں اونٹوں کے کجاؤں کے منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں نے اس شب کو محترم شمار کیا ہے اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ہیں۔“ غدیر کے کچھ اہم پیغامات ۱۔ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ہمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ہیں۔ ۲۔ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰھی منصب ہے اور ہے امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ہوتا ہے۔ ۳۔ غدیر کا ایک ہمیشگی پیغام یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رہبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ہو۔ یہ حضرات ہم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ہیں، لہٰذا ہمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ہوئے ان کی برکات سے فیضیاب ہونا چاہئے۔ ۴۔ واقعہ غدیر سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو حق و حقیقت کے پھنچانے کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا چاہئے اور حق بیان کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگرچہ یہ جانتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے وصیت پر عمل نھیں کیا جائے گا، لیکن لوگوں پر حجت تمام کردی، اور کسی بھی موقع پر مخصوصاً حجة الوداع اور غدیر خم میں حق بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ ۵۔ روز قیامت تک باقی رہنے والا غدیر کا ایک پیغام اھل بیت علیھم السلام کی دینی مرجعیت ہے، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے انہیں دنوں میں حدیث ”ثقلین“ کو بیان کیا اور مسلمانوں کو اپنے معصوم اھل بیت سے شریعت اور دینی احکام حاصل کرنے کی راہنمائی فرمائی۔ عید غدیر وہ مبارک اور سعد دن ہے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج سے واپسی پر غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کو خدا کے حکم سے اپناخلیفہ و جانشین منصوب فرمایا اور اس دن خدانے دین کو مکمل اور نعمتوں کا اتمام کیا اس طرح رسول اکرم صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے امت کو اپنے بعد کا راستہ دکھادیا ۔ 18 ذوالحجہ کا دن ہے جب رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ حجۃ الوداع کے بعد واپس جاتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ روایات کے مطابق نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم حجۃ الوداع سے فراغت کے بعد واپس تشریف لے جا رہے تھے تو غدیر خم کے مقام پر حکم خداوندی سے توقف فرمایا اور تمام ایک لاکھ بیس ہزار صحابہ سے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے جناب علی ابن ابی طالب کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمایا۔ اہل تشیع کا ماننا ہے کہ اس دن محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو اپنا جانشین بنایا۔اور ارشاد فرمایا من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں 10ھ کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق 26 ذیقعدہ مطابق 22 فروری 633ء محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے چلے۔اتفاقا ان دنوں چیچک یا تاٗیفائیڈ کی وبا پھیلی ہوئی تھی اس وجہ سے بہت سے لوگ پیغمبر کے ساتھ حج کرنے نہ جاسکے ،اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی جمعیت پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھ نکلی بعض تاریخی شواہد کے مطابق اس مقدس سفر میں جو لوگ آپ کے ساتھ روانہ ہوئے ان کی تعداد 90 ہزار سے کم نہ تھی اسی طرح دوسرے علاقوں سے جو لوگ مکہ پہنچے تھے وہ بھی ہزاروں میں تھے۔ جیسا کہ حضرت علی بھی یمن سے حاجیوں کا ایک بہت بڑا قافلہ لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔ مناسک حج بجا لانے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خانہ خدا کو الوداع کہا اور ارض حرم سے رخصت ہو گئے۔ آنحضرت نے ہجرت کے زمانے سے رحلت تک اس حج کے علاوہ کوئی اور حج انجام نہ دیا تھا۔ اس حج کو ’’حجۃ الوداع‘‘،حجۃ الاسلام‘‘،حجۃ البلاغ‘‘،حجۃ الکمال‘‘اور حجۃ التمام ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ غدیر خم جمعرات 18 ذی الحجہ مطابق 21 مارچ نوروز کے دن یہ قافلہ جحفہ پہنچا۔ جحفہ مکہ سے 13 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شام کے راستے سے حج کے لیے مکہ آنے والے لوگ احرام باندھتے ہیں اس کو میقات اہل شام (سوریہ) بھی کہتے ہیں اور مکہ سے واپسی پر مدینہ منورہ، مصر، شام اور عراق والوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کے قریب کوئی ڈیڑھ دو میل کی مسافت پر ایک تالاب ہے۔عربی میں تالاب کو غدیر کہتے ہیں۔ اسی پس منظر میں صدیوں سے مولائے کائنات کے منصب ولایت پر فائز ہونے کی خوشی میں یہ عید دنیا بھر میں منائی جاتی ہے. باب شہر علم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تقوی،دین داری،دین کی مطلق پابندی،غیر خدا اور غیر راہ حق کو نظر میں نہ لانے،راہ خدا میں کسی کی پرواہ نہ کرنے،علم،عقل،تدبیر،طاقت،اور عزم و ارادے کا مظہرتھے اور ایسی شخصیت کو غدیر کے دن اپنا جانشین معین کرنا تاریخ میں امت اسلامی کی رہبری کے معیار کو ظاہرکرتاہے. آج اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ غدیر جیسے اہم واقعے کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور ان کی کمزوری کا بہانہ نہیں بننا چاہیے میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام پروردگار(کہ وہ سلام ھے )کا یہ حکم لے کر نازل هوئے کہ میں اسی مقام پرٹھر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی ،وصی،جانشین اور میرے بعد امام ھیں ان کی منزل میرے لئے ویسی ھی ھے جیسے موسیٰ کےلئے ھارون کی تھی ۔فرق صرف یہ ھے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ هوگا،وہ اللہ و رسول کے بعد تمھارے حاکم ھیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پریہ آیت نازل کی ھے : ”بس تمھارا ولی الله ھے اوراسکارسول اوروہ صاحبان ایمان جونمازقائم کرتے ھیں اورحالت رکوع میںزکوٰةادا کرتے ھیں “علی بن ابی طالب نے نماز قائم کی ھے اور حالت رکوع میں زکوٰة دی ھے وہ ھر حال میں رضا ء الٰھی کے طلب میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا هوں اوراپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا هوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا هوں کھیں ایسا نہ هوکہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل هوجائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ هواگر چہ بڑی تدبیرسے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ھے۔اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے علی کے متعلق مجھ پرنازل فرمایاھے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نھیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شرسے حفاظت کی ضمانت لی ھے اور خدا ھمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ھے ۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ھے۔ میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمھارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت ،فساد برپاکرنے والے ،ملامت کرنے والے اور اسلا م کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوں سے با خبرهوں ،جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ھے کہ”یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ھیں جو ان کے دل میں نھیں ھے ،اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ھیں حالانکہ پروردگارکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ھے “۔اسی طرح منافقین نے بارھا مجھے اذیت پہنچائی ھے یھاں تک کہ وہ مجھے ”اُذُن'' ھر بات پرکان دھرنے والا“کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ھی هوں چونکہ اس (علی )کے ھمیشہ میرے ساتھ رہنے،اس کی طرف متوجہ رہنے،اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یھاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ھے:

1 تبصرہ:

  1. اما م دنیا امام عقبیٰ 'مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، یہ عید اتنی بڑی عید ہے کہ اس میں گشایش و وسعت حاصل ہوئی، منزلت کو اوج ملی خدا کی حجتیں روشن اور اس کے براہین و واضح ہو گئے یہ وہ دن ہے جب دین الٰہی کامل ہوا یہ دن عہد و پیمان کا دن ہے۔
    اس دن کی برکتوں ہی کے پیش نظر کھانا کھلانے اور دوسروں کو ہدیہ و تحفہ و تحائف دینے کی تاکید کی گئی ہے- ایک دوسرے کی دیکھ بھال اور مومنین کی کفالت کا بھی اس دن سے گہرا تعلق ہے لہٰذا کوشش کرنا چاہیئے کہ اس دن کسی تنگدست کا ہاتھ تھام لیا جائے کسی کی کفالت کر لی جائے- کہ عید اکبر سے بڑھ کر اور کونسا دن لوگوں کی امداد رسی کے لئے بہتر ہوگا کہ اس دن ایک درہم اگر اللہ کی راہ میں دیا جائے تو وہ ہزارکے برابر ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر