جمعہ، 11 اکتوبر، 2024

عور ت کی تعلیم اور محبت کے سلوک کا خواہاں مصنف-سید سجاد حیدر یلدرم

 اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا کا سہرا سید سجاد حیدر یلدرم کے سر ہے۔ ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان  میںسید سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔ یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا-سجاد حیدر یلدرم 1880ء میں ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ اور ابتدائی تعلیم بنارس میں حاصل کی۔ یہاں ان کے والد سید جلال الدین سرکاری ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1893 میں سر سید احمد خان کے اسکول مدرستہ العلوم علی گڑھ کی نویں جماعت میں داخلہ لیا یلدرم نے ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے 1901ء میں بی اے کیا۔ بی اے کرنے کے بعد انھیں ناگپور کے حکمران اعظم شاہ کا اتالیق مقرر کر دیا گیا کچھ عرصہ بعد انھیں حکومت وقت نے مزید تعلیم کے لیے دوبارہ علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیج دیا


یلدرم کو ترکی زبان اور ترکوں سے بڑی محبت تھی۔ جب بغداد کے برطانوی قونصل خانہ میں ترکی ترجمان کی ضرورت ہوئی تو آپ وہاں چلے گئے۔ اب یلدرم کو ترکی ادبیات کے مطالعہ کا موقع ملا چنانچہ انھوں نے بہت سی ترکی کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اس طرح اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد یلدرم بغداد سے تبدیل ہو کر قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں چلے گئے پہلی جنگ عظیم چھڑنے سے پہلے وہ امیر کابل کے نائب سیاسی ایجنٹ ہو کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ یوپی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔   تعلیمی مدارج  طے کرتے ہوءے بالآخر انہوں نے علی گڑھ  کی مایہ ناز درس گاہ  پر قدم رکھ دیا - ء با امر مسلمہ ہے کہ یلدرم کو اردو افسانے میں اولیت کا شرف حاصل ہے وہ رومانی دبستان کے سرخیل ہیں اور ان کی بنائی ہوئی راہ پر چل کر معروف و نامور ادیبوں نے اردو افسانے میں اپنے شاہکار پیش کیے۔


اردو افسانوی ادب میں ان ادیبوں کے بیش بہا فن پاروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ فن اور اسلوب کے لحاظ سے ان کے افسانے رومانی طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اردو افسانے کی ترقی و فروغ میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ابتداً اردوافسانے کی دلچسپی انہی (یلدرم کے مقلد افسانہ نگاروں ) کی مرہون احسان ہے۔ رومانوی افسانہ نگاروں نے ایک تو افسانے کو مقبو ل عام بنانے میں بڑی خدمت انجام دیں اور دوسرے انہوں نے تخیل کی فسوں کاریو ں سے جذبات محبت کو اتنے رنگین انداز میں افسانے کا موضوع بنایا کہ نئی نسل دل و جان سے افسانے میں دلچسپی لینے لگی۔ اس طرح جہاں افسانہ مقبول ہوا وہاں نئے افسانہ نگار میدان میں اترے ۔دبستان یلدرم کے افسانہ نگاروں نے اردو میں مختصر افسانے کے امکانات کو وسعت اور وقعت دی۔ منظر نگاری ، مکالمہ نویسی اور وحدت تاثر افسانے کی فنی خصوصیات ہیں اور یلدرم نے اردو افسانہ کے ان عناصر پر بہت توجہ دی اور یلدرم کے دبستان سے متعلق لکھنے والے رومانوی افسانہ نگاروں نے ان ابتدائی نقوش کی روشنی میں بڑے خوبصورت اور جاذب نظر افسانے لکھے بقول ایک نقاد:یلدرم کو بجا طور پر فخر حاصل ہے کہ انہوں نے افسانے کے ابتدائی خدوخا ل راست کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔


 ان کے افسانے سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی پڑھے جائیں تو تاثیر کے اعتبار سے و ہ قاری کی توجہ جذب کرنے میں قاصر نہیں رہتے۔افسانوں کا بنیادی موضوع:۔یلدرم علی گڑھ یونیورسٹی کے فار غ التحصیل اور تہذیب یافتہ تھے ۔ ان کی ادبی زندگی علی گڑھ سے پیدا ہوئی۔ انہیں سرسید اور علی گڑھ سے بے حد عقیدتاور غایت درجہ انس تھا۔ مگر اس سب کے باوجود یلدرم نے اپنی افسانوی تحریروں میں اس تحریک کی خشک حقیقت پسند ی اور بے نمکی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے یلدرم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے افسانے کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کریں جو دلچسپ بھی ہو اور زندگی کے ساتھ اس کا گہرا واسطہ بھی ہو۔ محض خیالی اور خوب کی دنیا نہ ہو بلکہ اس میں اپنے عہد کی جھلک نظرآئے ۔ اس مقصد کے پیش نظر اور اپنے مزاج کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے ، یلدرم نے بطور خاص محبت اور عورت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔عورت:۔یلدرم نے اپنے افسانوں میں عورت کے مسائل کو موضوع بنایا ۔ اور اس کا یہ پہلو کہ عورت ، مرد کی بہترین رفیق ہے اس لیے یلدرم کے نزدیک اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے ¿ جو بہترین رفیق کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔


 یلدرم اس بات کے بھی قائل تھے کہ عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔عورت یلدر م کے ہاں عیاشی اور گناہ کا مظہر نہیں ،لطافت اور زندگی کے صحت مند تصور کی علامت ہے۔یلدرم کے ا س نقطہ نگاہ سے تین باتیں پیدا ہوتی ہی۔ مرد اورعورت کے باہمی تعلق میں سچی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ کہ عورت اورمرد کی سچی محبت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔جب ہم یلدرم کے افسانوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں یہ تینوں چیزیں واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کے پہلے افسانے ”خارستان و گلستان “میں فطرت کے جذبوں اور مرد اورعورت کے درمیان تعلق کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ یلدرم کہتے ہیں  عورت! ایک بیل ہے جو خشک درخت کے گرد لپٹ کر اسے تازگی ، اسے زینت بخش دیتی ہے۔ یلدرمؔ کی یہ کوشش قابل ستائش ہے کہ انہوں نے تراجم کے ذریعے اردو ادب کے ذخیرے میں اضافہ کیا۔ مختلف ملازمتوں کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے۔ آخرکار لکھنؤ میں اقامت اختیار کی۔ یہیں 1943ء میں وفات پائی۔

بدھ، 9 اکتوبر، 2024

جنتر منتر-ستاروں سے آ گے جہاں اور بھی ہیں پارٹ 2

 


’ان آلات سے پڑھنا اور حساب لگانا سیکھنا اب بھی ہر اس شخص کے لیے نصاب کا لازمی حصہ ہے جو علم نجوم کو بطور کریئر اختیار کرنا چاہتا ہے۔‘اگرچہ زیادہ تر جدید سائنسی دنیا جنتر منتر کی رسد گاہوں کو ایک نایاب چیز کے طور پر دیکھتی تھی تاہم معروف انڈین ماہرِ ایسٹروفزکس ڈاکٹر نندی ودا رتناشری کا خیال تھا کہ یہ ڈھانچے اب بھی مناسب ہیں۔دلی کے نہرو پلانیٹیریم کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے (1999 سے لے کر 2021 میں اپنی موت تک) انھوں نے طالب علموں کو مختلف جنتر منتر پر پوزیشنل ایسٹرونامی کا تجربہ کرنے کی ترغیب دی اینٹی یونیورس: ہماری کائنات کے ساتھ وجود میں آنے والی کائنات جہاں وقت الٹا چلتا ہےریکارڈ فاصلے پر واقع ستارے کی دریافت، جو سورج سے بھی ’50 گنا زیادہ بڑا ہے‘نئی خلائی دوربین جیمز ویب کیا کائنات کی اولین کہکشاؤں سے پردہ اٹھا سکے گی؟سٹی پیلس میں مہاراجہ سوائی مان سنگھ دوم میوزیم کی ماہر آثار قدیمہ اور کنسلٹنٹ ڈائریکٹر ریما ہوجا کا کہنا ہے کہ ’یہ نندی ودا رتنا شری ہی تھیں جنھوں نے جنتر منتر کو سائنسی برادری میں اجاگر کیا۔ انھوں نے جنتر منتر جے پور کو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ سائٹ کے طور پر تسلیم کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‘جنتر منتر نہ صرف اپنی تعمیرات کے لیے بلکہ اپنے کلاسیکی انداز کے لیے بھی شہرت حاصل کر رہا ہے۔


جے پور میں مقیم ایک کنزرویشن آرکیٹیکٹ کویتا جین کہنا ہے کہ ’بظاہر جنتر منتر شاید کسی قدیمی مقامی فن تعمیر کی طرح نظر نہ آئے لیکن جب آپ اسے قریب سے دیکھتے ہیں، تو اونچے اونچے سن ڈائلز کو محراب کی شکل میں خالی جگہ بنا کر مضبوط بنایا گیا ہے۔ ان آلات پر سب سے بلند سجی محراب، تعمیر میں استعمال ہونے والے سنگ مرمر اور پتھر سبھی مقامی تعمیراتی اقدار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔‘آج دنیا بھر میں بہت سے شعبوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ، سائنسدان اور سیاح سمجھتے ہیں کہ جے پور کا جنتر منتر ایک تاریخی یادگار سے کہیں زیادہ ہے۔قلعوں اور محلات کے قدیم شہر کے مرکز میں واقع اس کے دیوہیکل ڈھانچے کائنات کا عکس اور ایک دیرپا میراث ہیں - ماہر فلکیات ابن یونس نے اپنی الزیج الحا کمی اسی رصد گاہ میں تیار کی تھی۔الجیلی (971ء تا1029ء ) نے شرف الدولہ کی قائم کردہ رصد گاہ میں ایک ہزار عیسوی میں ایک کتاب اصطرلاب پر تحریر کی۔ اسی رصد گاہ میں الصغانی اور رستم الکوہی آلات فلکیات بنانے میں کافی مشہور ہوئے۔الحاکم اور العزیز نے مقتم کی رصد گاہ کو آلات رصد سے آراستہ کیا اس میں ابوالحسن علی نے977ء تا 1007ء تک تجربات کئے۔ ابو الحسن کو شیار ابن کنان الجیلی نے بھی ایک رصد گاہ قائم کی جس میں اس نے ’’زیج کوشیار‘‘’’زیج الجامع والسامع‘‘ تصنیف کی۔988ء میں شرف الدولہ نے شاہی باغ میں ایک رصد گاہ تعمیر کروائی تھی جس میں ابوسہل ریحان بن رستم الکوہی اور ابوالوفا نے عرصہ دراز تک حرکات کواکب سے متعلق مشاہدات کیے۔


البیرونی نے ایک رصد گاہ غزنی میں تعمیر کروائی تھی اور یہاں وہ مشاہدات اور تجربات میں مصروف رہا کرتا تھا چونکہ وہ 410ھ تک ہی غزنی میں رہا‘ اس لئے اس کی تعمیر اس سنہ سے پہلے ہی ہوئی ہو گی۔  البیرونی کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رصد گاہ غزنی میں واقع تھی۔1259ء میں یورپ کی پہلی رصد گاہ بمقام مرگنہ متصل ٹارس قائم کی گئی تھی۔ہلا کونے مراغہ میں 1259ء میں بے بہا آلات رصدیہ سے آراستہ ایک رصد گاہ تعمیر کروائی جس میں ایک لائبریری بھی قائم کی گئی تھی جو چار لاکھ سے زائد نادر کتابیں سے آراستہ تھی۔ اس رصد گاہ سے فائدہ اٹھا کر ہی خواجہ ناصر الدین طوسی نے ایک ’’زیج ایلخانی‘‘ ترتیب دی۔ طوسی کے شاگرد قطب الدین محمد شیرازی نے بھی اس رصد گاہ میں مشاہدات اور تجربات کئے۔823ء میں سمر قند میں تیموری خاندان کے سلطان الغ  یبگ نے ایک عظیم الشان رصد گاہ تعمیر کرائی تھی۔ وہ خود بھی ماہر فلکیات تھا۔ اس نے کئی سال تک رصد گاہ مذکورہ میں تجربات اور مشاہدات میں حصہ لیا۔


بعدازاںعلم فلکیات نے ترقی کی تو دنیا بھر میں میں ہزاروں رصد گاہوں کا قیام عمل میں آیا جن کے ذریعے قدرت اور کائنات کے رازوں کو فاش کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ انسان نے فلکیات میں جو ترقی کی ہے ان میں رصد گاہوں کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ آنے والے وقت میں رصد گاہوں کے ذریعہ بہت سے نئے انکشافات ہونگے جس کے باعث فلکیات کو عروج نصیب ہو گا۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے رصد گاہوں کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھا۔ انہوں نے اس بارے میں تقریر میں کہا تھا: ’’ہماری رصدگاہیں ہماری توجہ نئے نئے پہلوؤں کی طرف کھنچنے کا وسیلہ ہیں۔ میں ان رصد گاہوں کو اس نظر سے پرکھتا ہوں کہ وہ کون کون سے مسائل حل کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں بلکہ ان کو میں سائنس کے مندر سمجھتا ہوں جو انسان کی خدمت کے لئے تعمیر کی گئی ہیں۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان رصد گاہوں نے تمام دنیا میں خود کفالت کو ایک حد تک حل بھی کیا ہے۔ تمام رصد گاہوں میں تحقیقی کام آج تک ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ 


علم الافلاک کی بنیاد انسانی زندگی کے آغاز پر منحصر ہے۔ انسانی عقل کے ارتقاء نے اجرام فلکی اور کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا تجسس پیدا کیا۔ کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئے انسان نے رصد گاہیں ایجاد کیں۔ دور حاضر میں علم الافلاک کو فروغ دینے میں رصد گاہوں کا اہم مقام ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ عصر قدیم سے ہی فلکیات کا ارتقاء رصد گاہوں پر مبنی ہے تو غلط نہ ہو گا۔دنیا کے الگ الگ خطوں میں تعمیر کردہ رصد گاہوں میں آج بھی مشاہد ے اور تجربے کئے جا رہے ہیں۔ہندوستان میں رصد گاہ بنانے کا کام راجا جے سنگھ نے کیا۔ دہلی کے لوگ جے سنگھ کی تعمیر کردہ رصد گاہ کو جنتر منتر کہتے ہیں۔ جے سنگھ اپنے زمانے کا مشہور ماہر فلکیات تھا۔ اس نے رصد گاہ کی عمارت میں چند الواح تیار کی تھیں جن کا استعمال اہل ہند آج بھی جنتریاں تیار کرنے میں کرتے ہیں۔ اس رصد گاہ میں ایک بہت بڑی دھوپ گھڑی ہے جس میں پیتل کا پترلگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی دھوپ گھڑی ہے جو درجہ دار نصف دائرے کی شکل کی ہے یہ ان اجرام فلکی کی بلندیوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہے جو سمت الراس کے جنوب یا شمال کی طرف خط نصف النہار میں سے ہو کر گزرتا ہے۔



منگل، 8 اکتوبر، 2024

جنتر 'منتر-ستاروں سے آ گے جہاں اور بھی ہیں-part-1

 میں رصد گاہوں کے اوپر  کچھ علم حاصل کرنا چاہ رہی تھی کہ  اچانک  جنتر 'منتر نام کی یہ تحریر نظر آئ اور میں اسی تحریر پر ٹہر گئ کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے مزاج کی مطابقت کا مضمون یہی ہے -یہ مضمون  اس بیٹی نیہا شرما  کا  تحریر کیا ہوا ہے جس نے سردی گرمی کی پرواہ نا کرتے ہوئے   راجستھان یونیورسٹی سے جیوتش شاستر (ویدک علم نجوم) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہےسنسکرت میں جنتر کا مطلب ہے آلات اور منتر کا مطلب کیلکولیٹر ہےجنتر نام سنسکرت کے لفظ ینتر سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے "آلہ، مشین" اور منتر سے بھی ایک سنسکرت لفظ "مشورہ، حساب لگانا")۔  اس لیے جنتر منتر کا لفظی مطلب ہے 'حساب  کا آلہ .ان آلات سے پڑھنا اور حساب لگانا سیکھنا اب بھی ہر اس شخص کے لیے نصاب کا لازمی حصہ ہے جو علم نجوم کو بطور کریئر اختیار کرنا چاہتا ہے۔‘اگرچہ زیادہ تر جدید سائنسی دنیا جنتر منتر کی رسد گاہوں کو ایک نایاب چیز کے طور پر دیکھتی تھی تاہم معروف انڈین ماہرِ ایسٹروفزکس ڈاکٹر نندی ودا رتناشری کا خیال تھا کہ یہ ڈھانچے اب بھی مناسب ہیں۔دلی کے نہرو پلانیٹیریم کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے (1999 سے لے کر 2021 میں اپنی موت تک) انھوں نے طالب علموں کو مختلف جنتر منتر پر پوزیشنل ایسٹرونامی کا تجربہ کرنے کی ترغیب دی 


نیہا شرما  لکھتی  ہیں کہ یہ موسم بہار کی ابتدا کے ایک ہفتے بعد ہی  کی ایک گرم دوپہر تھی اور آسمان سے بادل غائب تھے۔ راجستھان کے صحرائی دارالحکومت جے پور میں سیر و تفریح کی غرض سے نکلنے کے لیے یہ شاید ایک نامناسب وقت ہو لیکن سورج کی وجہ سے بننے والے سائے کی مدد سے وقت کی پیمائش کرنے کے لیے یہ ایک بہترین وقت تھا۔میں شہر کے مرکزی ’جوہری بازار‘ کی مرجان رنگ کی دیواروں اور مغلیہ محرابوں کے سائے سے گزرتی ہوئی ’جنتر منتر‘ کی طرف بڑھی جسے ستاروں تک پہنچنے کا پراسرار راستہ کہا جاتا ہے۔پہلی نظر میں عجیب و غریب مثلث دیواروں اور سیڑھیوں سے بھرا ہوا یہ کھلا ہوا کمپلیکس ایک اجنبی سی جگہ نظر آتا ہے۔ یہ نہ تو سٹی پیلس کی طرح آراستہ ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور نہ ہی قریب واقع گووند دیو جی مندر اور ہوا محل کی طرح پر پیچ ہے۔یہ جگہ ینتر کہلانے والے 20 سائنسی آلات کا 300 سال پرانا مجموعہ ہے جن کی مدد سے ستاروں اور سیاروں کے محلِ وقوع کا پتا لگایا جا سکتا ہے اور وقت کی درست پیمائش کی جا سکتی ہے۔


یہ وہ دیو ہیکل آلات ہیں جو چھوٹی صورتوں میں میرے سکول کی جیومیٹری کٹ میں رکھے تھے لیکن برسوں بعد ایک پیشہ ور آرکیٹکٹ کے طور پر میں ان کے استعمال کو بہتر طور پر سمجھ سکتی ہوں۔یہ فلکیات کے نظام کو سمجھنے کے لیے شاندار تعمیراتی حل ہیں، مزید یہ کہ ہندو جوتشیوں کے لیے پیدائش کے چارٹ تیار کرنے اور مبارک تاریخوں کی پیشگوئی کرنے کے لیے اہم آلات ہیں۔سنہ 1727 میں جب اس خطے کے بادشاہ سوائی جے سنگھ نے سوچا کہ جے پور کو اپنے دارالحکومت اور ملک کے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنائے جانے والے شہر کے طور پر بسایا جائے تو وہ اسے واستو شاستر کے اصولوں کی بنیاد پر ڈیزائن کرنا چاہتے تھے۔ واستو شاستر میں فن تعمیر اور جگہ کے انتخاب کے لیے فطرت، علمِ فلکیات اور علم نجوم کا استعمال کیا جاتا ہےانھوں نے محسوس کیا کہ جے پور کو ستاروں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے، علم نجوم کے طریقوں میں مدد کرنے اور فصلوں کے لیے اہم موسمی واقعات کی پیشگوئی کرنے کے لیے اُنھیں ایسے آلات کی ضرورت ہو گی جو درست اور قابل رسائی ہوں۔’میں نے ان آلات کو اپنے دو سالہ ماسٹرز پروگرام میں اکثر استعمال کیا۔‘ 


،سمراٹ ینتر سورج کی پوزیشن بتانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو 27 میٹر تک اونچا ہے-تاہم اسلامی اور یورپی سائنسدانوں کے علم پر مبنی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے وسطی ایشیا اور یورپ میں تحقیقی ٹیمیں بھیجنے کے بعد سوائی جے سنگھ نے پیتل کے آلات کی ریڈنگ میں تضاد پایا جو اس وقت بڑے پیمانے پر استعمال کیے جاتے تھے۔درستگی کو بڑھانے کے لیے انھوں نے آلات کا حجم بڑھایا، انھیں مزید مستحکم بنانے کے لیے متحرک پرزوں کو کم کیا اور اُنھیں گھساؤ سے بچانے کے لیے اُنھیں ماربل اور مقامی پتھر سے ترشوایا تاکہ یہ موسم کی سختیاں برداشت کر سکیں۔پھر انھوں نے ان ایجادات کو ہندوستانی شہروں جے پور، دہلی، اجین، وارانسی (بنارس) اور متھرا میں پانچ بیرونی رصد گاہیں بنانے کے لیے استعمال کیا۔اب صرف چار جنتر منتر بچے ہیں (متھرا والے کو منہدم کر دیا گیا تھا) لیکن جے پور میں سنہ 1734 میں مکمل ہونے والا جنتر منتر سب سے بڑا اور جامع ہے۔آج یہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے جانے والی جگہوں میں سے ہے۔ نہ صرف اس لیے کہ یہ ہندوستان میں اپنی نوعیت کی سب سے بہترین محفوظ رصد گاہ تھی بلکہ یونیسکو کے مطابق یہ فن تعمیر، علمِ فلکیات، اور علمِ کائنات میں ایجادات کی نمائندگی کرتا ہے، اور ساتھ ساتھ یہ مغربی، وسط مشرقی، ایشیائی اور افریقی ثقافتوں کی روایات اور ان سے سیکھے گئے علوم کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔


،  کمپلیکس میں ہر ایک ینتر یا آلے کا ایک ریاضیاتی مقصد ہے۔ان میں سے کچھ سن ڈائل ہیں جو سائے کی مدد سے مقامی وقت بتانے اور سورج کی پوزیشن کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ دوسرے آلات بروج اور سیاروں کی حرکات اور پیش گوئیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ان سب میں سب سے نمایاں ایک بہت بڑا مساوی سن ڈائل ہے جسے سمراٹ ینتر کہا جاتا ہے۔سنجے پرکاش ینتر سورج کی ہندوستانی ویدک بروج میں موجودگی کا پتا لگاتا ہے تاکہ زائچہ بنایا جا سکے-ایک 27 میٹر اونچی تکونی دیوار ہے جس میں دو پتلے، نیم دائرے کی شکل کے ریمپ ہیں جو اس کے اطراف سے پروں کی طرح نکلتے ہیں۔ اس کے نیچے کھڑے ہو کر میرے گائیڈ نے ریمپ میں سے ایک پر سائے کی نشاندہی کی کیونکہ یہ ہر سیکنڈ میں 1 ملی میٹر حرکت کرتا ہے اور مقامی وقت کی دو سیکنڈ درست حد تک نشاندہی کرتا ہے۔جے پرکاش نامی ایک اور ینتر انڈین ویدک بروج سے سورج کے راستے کی پیمائش کرتا ہے جس سے زائچہ نکالا جا سکتا ہے۔ زمین میں نصب اس کا پیالے کی شکل کا ڈھانچہ آسمان کے ایک الٹے نقشے کی طرح ہے اور تاروں سے لٹکی ایک چھوٹی سی دھات کی پلیٹ کا سایہ کسی منتخب ستارے یا سیارے کی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے۔میں نے ان آلات کو اپنے دو سالہ ماسٹرز پروگرام میں اکثر استعمال کیا۔‘ 


پیر، 7 اکتوبر، 2024

نیند میں چلنے کی بیماری اور اس کے اثرات

 ابھی     حال ہی میں انٹر نیٹ پر ایک خبر پر  نظر پڑی کہ گھر میں سوتے ہوئے   تقریباً بارہ برس کی بچی رات کے وقت غائب ہو گئ تلاش کرتے ہوئے جب ڈرون کی مدد لی گئ تو  ڈرون کو  جنگل کی زمین پر ایک ہیولہ نظر آیا -جب اس ہیولے پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ کھوئ ہوئ بچی جنگل کی زمین پر سوئ ہوئ تھی- یعنی وہ بچی سوتے میں چلنے کی بیماری کا شکار تھی -میڈیکل  تحقیق  سے معلوم ہوا کہنیند میں چلنے کی بیماری کا تعلق کروموسومز کے نقص سے ہوتا ہے-نیند میں چلنے والوں کی چار نسلوں کے کروموسومز یا لونیے کے   میں کی جانے والی طبی   ریسرچ کے نتائج  نے بتایا  کہ  ان مریضوں میں  کروموسوم 20 کا نقص پایا جاتا ہے۔طبی سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے ایسے جینیاتی ضوابط کا پتہ لگایا ہے، جو انسانوں کے نیند میں چلنے کی بیماری کا موجب ہوتے ہیں۔جرنل آف نیورولوجی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جسم کے اندر کسی ایک ناقص ڈی این اے کی موروثی طور پر موجودگی نیند میں چلنے کی بیماری کا سبب بنتی ہے۔ 


یہ جینز 10 فیصد بچوں جبکہ 50 بالغ افراد میں سے غالباً ایک کو مثاثر کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر نیند میں چلنے کی بیماری بے ضرر ہوتی ہے اور یہ بڑھ سکتی ہے۔کروموسوم 20 کا نقص نیند میں چلنے کی بیماری کا سبب بنتا ہے-بچوں کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان میں ایسے دَور آتے ہیں، جب وہ نیند میں عالم وجد یا مدہوشی میں چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ محققین نے کہا ہے کہ نیند میں چلنے کی بیماری اگر سن بلوغت تک برقرار رہے تو یہ معمول کی زندگی کے لئے کافی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔نیند میں چلنے والوں کی خطرناک سرگرمیاںنیند میں چلنے والے اکثر گاڑی کی چابی اٹھا کر گھر کا دروازہ کھول لیتے ہیں اور گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیونگ کی کوشش کر تے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایسے سنگین کیسز بھی سامنے آئے ہیں، جن میں نیند میں چلنے والے کسی کا قتل کر دیتے ہیں۔ تاہم ایسے واقعات کافی کم رونما ہوتے ہیں۔محققین کا کہنا ہے کہ وجد یا مد ہوشی کے عالم میں چلنے کی بیماری کی وجہ عموماً بہت زیادہ تھکاوٹ اور دباؤ بنتی ہے۔


 نیند میں چلنے کا عمل عموماً رات کے پہلے پہر دیکھنے میں آتا ہے۔ بستر پر لیٹتے ہی گہری نیند سونے والے ایسے مریض جنہیں خواب نہیں آتے، وہ لیٹنے کے تھوڑی دیر بعد ہی اُٹھ کر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح جب یہ افراد بیدار ہوتے ہیں تو انہیں رات کے واقعات بالکل یاد نہیں رہتے۔امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی آف میڈیسن سے منسلک ڈاکٹر کرسٹینا گورنیٹ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی اس تحقیق کے لئے نیند میں چلنے کے عادی افراد کی ایک بڑی فیملی کی مدد لی اور اس پر ریسرچ کی۔اس خاندان کی سب سے چھوٹی  12 سالہ بچی، سب سے زیادہ اس بیماری کا شکار ہے۔ یہ اکثر و بیشتر نیند سے اُٹھ کر چلنا شروع کر دیتی ہے اورچلتے چلتے گھر سے باہر چلی جاتی ہے۔ اس گھرانے میں چار نسلوں سے یہ بیماری چلی آ رہی ہے۔ اس 22 رکنی فیملی کے نو ممبر اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان میں سے ایک  اسکے چچا ہیں، جو رات کو اُٹھ کر آٹھ جوڑے موزے ڈھونڈ کر پہن لیتے ہیں جبکہ ان کے دیگر رشتہ دار رات کو نیند سے اُٹھ کر چلنے کے دوران اکثر کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر بھی جاتے ہیں اور انہیں اکثر زخم آتے ہیں۔


رات کی نیند میں خلل کی وجہ سے دن بھر تھکن طاری رہتی ہے: محققین نے اس پوری فیملی کے ممبران کے لعاب کے سیمپل لیے اور ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا۔ اس سے پتہ چلا کہ اس پورے خاندان میں یہ موروثی بیماری کروموسوم 20 کے نقص کے سبب پائی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ تحقیق سے محققین نے یہ بھی پتہ چلا لیا کہ اس خاندان کے چند افراد میں اپنی نئی نسل تک اس بیماری کو پہنچانے کے 50 فیصد امکانات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح خاندان کے جس فرد میں بھی یہ نقص ڈی این اے سے منتقل ہوگا وہ نیند میں چلنے کی بیماری میں مبتلا ہوگا۔محققین ابھی اس بارے میں مزید تحقیق کر رہے ہیں تاہم اب تک کی ریسرچ کے بعد ان کا خیال ہے کہ غالباً Adenosine Deminase وہ جین ہے جو اس بیماری کی وجہ بنتا ہے۔ ڈاکٹر کرسٹینا گورنیٹ نے تاہم کہا ہے کہ اس امر کے امکانات کافی زیادہ ہیں کہ اس بیماری کا سبب متعدد جینز بھی ہو سکتے ہیں تاہم اب تک ایک کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔


 نیند میں چلنے والا عام طور پر اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوتا ہے اور جب اس سے بات کی جائے تو وہ جواب نہیں دے سکتا۔بیدار ہونے پر الجھن: اگر کسی ایپی سوڈ کے دوران بیدار ہو جائے تو، وہ شخص الجھن میں پڑ سکتا ہے اور پریشان ہو سکتا ہے۔سلیپ واکنگ کی تشخیص نیند میں چلنے کی تشخیص میں عام طور پر ایک مکمل طبی تاریخ شامل ہوتی ہے اور اس میں کئی تشخیصی ٹیسٹ شامل ہو سکتے ہیں:نیند میں چلنے کی تشخیص کے لیے ایک تفصیلی طبی تاریخ بہت ضروری ہے۔ اس میں خاندانی تاریخ، نیند کے نمونوں، اور کسی بھی بنیادی طبی حالات کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔نیند مطال نیند کے دوران دماغی سرگرمی، آنکھوں کی حرکت، دل کی دھڑکن، اور سانس لینے کی نگرانی کے لیے نیند کا یا پولی سونوگرافی کی سفارش کی جا سکتی ہے۔ اس سے نیند کی کسی بھی بنیادی خرابی کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو نیند میں چلنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔



ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

نواب صادق خان عباسی پنجم-علم کا شیدائ فر مانروا

   نواب صادق خان عباسی  حالانکہ  بہت دولت مند نواب تھے لیکن  اپنی نجی زندگی میں وہ  بہت سادہ مزاج تھے   -لندن  میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ کا زکر ہے ان کا بازار جانے کا موڈ بن گیا  اور وہ یونہی اپنا گھریلو لباس  کرتا پاجامہ پہنے ہوئے رولز رائس گاڑیوں کے شو روم پہنچ گئے   رولز رائس کے شوروم پر کھڑی رولز رائس گاڑی پسند   آگئی، اندر گئے اور سیلز مین سے قیمت معلوم کی تو سیلز مین نے انہیں ایک عام ایشیائی شہری سمجھ کر ان کی خاصی بے عزتی کی تو نواب صاحب واپس ہوٹل آئے اور اگلے روز پورے شاہی ٹھاٹھ کے ساتھ ملازمین کی ایک پوری فوج لے کر اس شوروم پر گئے اور وہاں موجود چھ کی چھ رولز رائس گاڑیاں خرید لیں اور ملازمین کو کہا کہ ان گاڑیوں کو فوراً بہاولپور پہنچا کر میونسپلٹی کے حوالے کرو اور ان سے شہر کا کچرا صاف کرنے اور کچرا اٹھانے کا کام لیا جائے اور  اگلی  صبح سے بہاول پور کی سڑکوں  پر رولز رائس   جھاڑو باندھے  کچرا  صاف کر رہی تھیں -یہاں تک کہ پوری دنیا میں یہ بات پھیل گئی اور رولز رائس کی مارکیٹ ڈاﺅن ہونے لگی۔رولز رائس کا نام سن کر لوگ ہنستے ہوئے کہتے کہ وہی جو ریاست بہاولپور میں شہر کا کچرا اٹھانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔


 کچھ عرصہ بعد رولز رائس کمپنی کے مالک نے خود بہاولپور آکر نواب صاحب سے معذرت کی اور چھ نئی رولز رائس گاڑیاں بھی بطور تحفہ دیں اور درخواست کی کہ گاڑیوں کو اس گندے کام سے ہٹایا جائے۔ ان چھ نئی گاڑیوں میں سے ایک نواب صاحب نے قائداعظم کو تحفہ میں دی۔در اصل  اسلام سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کا دین ہے،اسلامی ثقافت اور اسلامی طرز ِمعاشرت میں سادگی اور سادہ طرزِ زندگی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے آپ کا جو اُسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم  کو کھانے پینے، اوڑھنے، اُٹھنے، بیٹھنے کسی چیز میں تکلّف نہ تھا۔ کھانے میں جو حلال اور پاکیزہ رزق سامنے آتا، تناول فرماتے، پہننے کو جو سادہ لباس مل جاتا، پہن لیتے۔ زمین پر، چٹائی پر فرشِ زمیں پر جہاں جگہ ملتی  بیٹھ جاتے لیکن علمی معاملات میں وہ سخی داتا تھے بہاولپور کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر صو بو ں میں تعلیمی ، تعمیر ی اور صحت کی بہتر ی کے لیے کبھی نقد تو کبھی زمینو ں کا قیمتی سر ما یہ پیش خد مت کیا ۔ یونیورسٹیوں کی تعمیر یا تعلیمی اصطلاحات ، مہما ن نو از ی یا قا ئد کے عزم پر لبیک ،غر ض ہر سمت چرا غ رو شن کرنے والی اس شخصیت نے پاکستان سے عشق کی مثا ل رقم کی۔ آج معاشرے میں ڈپریشن، بے اطمینانی اور مسائل کا انبار صرف اس لیے ہے کہ ہماری تمنّائیں اور خواہشیں لامحدود ہیں۔


اور اس قدر سادہ طرز  زندگی رکھنے والے   نواب کے فلاحی کاموں پر نظر ڈالئے تو دل ایک گونہ خوشی سے بھر جاتا ہے نواب صادق  نے  عام آدمی فلاح کے لئے کیا کیا کام کئے-ا ن کو لکھنے کے لئے تو کئ کتابیں درکار ہوں گی  یہاں میں صرف چند فلاحی کاموں کا تذکرہ کروں گی صادق محمد خان پنجم نے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا افتتاح جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمانکی، ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند تعمیر کیے گئے اور پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھا دیا گیا اور غیر آباد زمینوں کی آباد کاری کے لیے مختلف علاقوں سے آبادکاروں کو ریاست میں آباد ہونے کی ترغیب دی گئی۔ نئی منڈیاں اور شہر ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں ، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد بسائے گئے۔  1942ء میں بہاولپور میں ایک بڑا چڑیا گھر اپنے عوام کی سیر و تفریح کے لیے بنوایا اور ڈرنگ اسٹیڈیم بھی بنوایا جس میں پہلی بار پاکستان اور بھارت کا پہلا کرکٹ میچ کھیلا گیا تھا

نواب صادق محمد خان نے 1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی تعلیم کے لیے مدرسہ صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعتہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا گیا۔ 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ایک ذیلی ادارہ طبیہ کالج قائم کیا گیا جو اس وقت واحد پنجاب کا سرکاری کالج تھا۔ یہ ادارہ ترقی کرتے ہوئے آج دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کے نام سے ایک نامور ادارہ ہے۔3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن کی صدارت کی اور اس وقت ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بطور عطیہ دی۔ 28 دسمبر 1930ء کو انجمن حمایت اسلام لاہورکے سالانہ جلسہ کی صدارت کی اور گرانقدر مالی امداد کی۔ اپریل 1931ء میں طبیہ کالج دہلی کے کانووکیشن کی صدارت کی اور گرانقدر مالی امداد کا اعلان کیا۔27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف کے طور پر رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر وُلز نے بہاول پور آ کر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں نواب کو L.L.D کی اعزازی ڈگری دی۔ 1952ء میں پیرا میڈیکل اسکول، نرسنگاسکول اور ایل ایس ایم ایف کلاسز کا اجرا کیا گیا۔


 اس سال علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ 1954ء میں صادق محمد پنجم نے ایچیسن کالج کی طرز پر صادق پبلک اسکول قیام کیا جس کی تعمیر کے لیے نواب نے اپنی ذاتی زمین سے 450 ایکڑ زمین عطا کی۔ اس کے علاوہ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے فنڈز فراہم کیے۔ نواب نے ایچیسن کے معروف استاد اور ماہر تعلیم خان انور مسعود سکندر خان کو اساسکول کا پرنسپل مقرر کیا پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کو آپ نے نہ صرف اپنی ریاست میں جگہ دی بلکہ ان کے سکول جانے والے بچوں کو نواب آف بہاولپور کی طرف سے مالی وظائف دئیے جاتے تھے آپ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ ساری زندگی اسلام اور مسلمانوں کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ممتاز سیرت نگارسید سلمان ندویؒ نے کہا تھا کہ اگر ریاست بہاوپور کی مالی اعانت حاصل نہ ہوتی توبرصغیر پاک و ہند کے عظیم ادارے ندوة العلماءکا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتا تھا۔ نواب سر صادق محمد خان عباسی مرحوم نے حضور اکرم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب ”رسول صادق“ تحریر فرمائی جو آپ کی حضور سے دلی محبت کی عظیم نشانی ہے۔ بہاولپور کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کے سنہری عہد حکومت میں ریاست بہاولپور کو شرف حاصل ہے کہ آپ کے سنہری عہد حکومت میں ریاست بہاولپور کی عدالت کے جج محمد اکبر خان نے 7 فروری 1935ءکو اپنے تاریخی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر اور خارج از دائرہ اسلام قرار دے دیا۔ 1926ءمیں  ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نواب آف بہاولپور کی دعوت پر ریاست میں تشریف لائے تو ہر طرف اسلامی تہذیب و تمدن کے مناظر دیکھ کر ان کی زبان سے فی البدیہہ یہ شعر نکلا

زندہ ہیں تیرے دم سے عرب کی روائتیں

اے یادگار خلوت اسلام زندہ باد

سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش

آپ کا شجرہ یوں ہے: ’’حضرت سید علی ہجویری بن حضرت سید عثمان بن حضرت سید علی بن حضرت سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (شاہ شجاع) بن حضرت سیدالوالحسن علی بن حضرت سید حسن (اصغر) بن حضرت سید زید بن حضرت امام حسنؓ بن حضرت سیدنا علیؓ ‘‘۔ آپ کا قد میانہ جسم سڈول اور گھٹا ہوا تھا۔ جسم کی ہڈیاں مضبوط اور بڑی تھیں۔ فراخ سینہ اور ہاتھ پاؤں مناسب تھے چہرہ زیادہ گول تھا نہ لمبا۔ سرخ وسفید چمکدار رنگ تھا۔ کشادہ جبیں اور بال سیاہ گھنے تھے۔ بڑی اور غلافی آنکھوں پر خم دار گھنی ابرو تھیں۔ ستواں ناک، درمیانے ہونٹ اور رخسار بھرے ہوئے تھے چوڑے اور مضبوط شانوں پر اٹھتی ہوئی گردن تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی۔ آپ بڑے جاذب نظر اور پرکشش تھے۔آپؒ تن ڈھانپنے کیلئے کسی خاص وضع قطع کے لباس کا تکلف نہ فرماتے تھے، جو میسر آتا پہن لیتے تھے۔ لباس کے بارے میں خود فرماتے ہیں۔


آپؒ سلطان مسعود غزنوی کے دور میں وارد لاہور ہوئے ان کے ہمراہ حضرت ابو سعید ہجویری اور حضرت حماد سرخسی رحمتہ اللہ علیہم تھے۔ اس وقت لاہور میں شہزادہ مجدد بن مسعود نائب السلطنت غزنویہ تھا اور لاہور ایاز کی سرپرستی میں پنجاب کے سید علی ہجویریؒ کے ورودِ لاہور کے بارے ’’فوائد الفواد‘‘ میں ۲۹ ذیقعدہ 708 ؁ / ۱۰ مئی 1309 ؁ء کی ایک مجلس کے حوالے سے یوں لکھا ہے کہ ’’شیخ علی ہجویری اور شیخ حسین زنجانی ایک مرشد سے بیعت تھے۔اسلام کے وہ بزرگانِ دین جن کی کوششوں سے بُت کدہ ہندوستان میں اسلام کی شمع روشن ہوئی اُن میں حضرت شیخ علی ہجویری عرف داتا گنج بخشؒ بہت اُونچا مقام رکھتے ہیں۔ آپؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپؒ کی تعلیمات نے نہ صرف اُس وقت کفر کے اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی جب مشکل سے ہی کوئی اللہ کا نام لیوا نظر آتا تھا بلکہ اُن کی تعلیمات اور اقوالِ زریں تقریباً گیارہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی قدم قدم پر دین و دنیا کا صحیح راستہ دکھانے میں رہنمائی کرتیں ہیں۔


 جس طرح خوش خطی کے لئے بچوں کو عبارت کی پہلی سطر کی نقل کرنی چاہیے اسی طرح آج کے نوجوانوں کو بھی یہ بتانے کی بے حد ضرورت ہے کہ کئی سو سال پہلے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے اپنا وطن گھر بار چھوڑ کر تبلیغِ دین کے لئے لاہور تشریف لانے والے ، یگانہ روزگار درویش اور فقید المثال مردِ حق کے حالاتِ زندگی اور برصغیر ہندوپاک کے مذہبی حالات کیا تھے۔ اس تاریک خطہ زمین میں نورِ اسلام کس طرح پھیلا جس کی بدولت ہم آج حضورِ اکرمؐ کے اُمتی ہونے پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں چونکہ اپنے محسنوں کے احسانوں کو یاد کرنا بھی مسلمان کی شان ہے اس لئے تاریخ کے اوراق کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنا ہی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔شیخ سیّد علی ہجویریؒکی زندگی کے حالات کا آپؒ کی معرکتہ لآراتصنیف کشف المحجوب سے پتہ چلتا ہے۔ آپؒ کی ولادت اُس دور میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی حکومت کے آخری دن تھے۔ تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ کا سنِ ولادت 400 ہجری ہے۔ 


   آپؒ نے افغانستان کے علاقہ غزنی کے محلہ ہجویر میں ولادت پائی۔ آپؒ نے بچپن کا کچھ عرصہ وہاں بھی گزارا۔ والد کا نام عثمان اور دادا کا نام علی تھا۔ آپؒ کا سلسلہ نسب حضرت حسنؓ سے جا کر ملتا ہے اس لئے آپؒ ہاشمی حسنی سادات ہیں۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کرنے کے بعد روحانی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لئے دور دراز علاقوں اور ملکوں کا پیدل سفر اختیار کیا ۔ مختلف دینی مدرسوں، عالموں، بزرگوں اور اللہ کے نیک بندوں سے نہ صرف دینی تعلیم حاصل کی بلکہ اُن کی صحبت میں رہ کر اُن سے فیض بھی حاصل کیا۔ ایران، ترکستان، عراق، بغداد، شام اور عرب کے دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کیا۔ اس دوران ہر قسم کی سفر کی صعوبتیں برضا و خوشی برداشت کیں۔ اس طرح اُن کے کردار میں پختگی اور شخصیت میں بزرگی اُبھر کر سامنے آ گئی۔ خراسان میں تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتسابِ فیض حاصل کیا۔ تحصیلِ علم کے بعد مرشد کامل کی تلاش میں دور دراز علاقوں کا پُرخطر سفر اختیار کیا۔ اور آخر کار شیخ کامل کو پانے میں کامیاب ہو گئے


۔ اور اُن کے حسنِ تربیت اور فیضِ نظر سے آفتابِ ہدایت بن کر طلوع ہوئے۔ آپؒ کے اُستاد شیخ کامل کا نام شیخ ابوالفضل بن حسن ختلی تھا جو سلسلئہ جنیدیہ سے منسلک تھے۔ شیخ علی ہجویریؒ لکھتے ہیں کہ "اُن کے شیخ تصوف میں حضرت جنید کا مذہب رکھتے تھے اور طریقت میں میری بیعت الہیٰ سے ہے"۔ آپؒ نے کئی سالوں تک اپنے مرشد کی خدمت کی۔ اور جب اُن کا انتقال ہوا تو اُن کا سر اپنے شاگرد سیّد علی ہجویریؒ کی گود میں تھا۔ آپؒ کے قابلِ ذکر اُستادوں میں ابوسعید ابوالخیر اور امام ابو القاسم قشیری شامل ہیں۔ جب آپؒ نے خود دینوی اور روحانی علوم پر دسترس حاصل کر لی تو دوسروں کی رہنمائی کے لئے ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا پختہ عزم کر لیا۔خواب میں ملنے والی پیر و مرشد کی ہدایات کے مطابق آپؒ نے لاہور کا سفر اختیار کیا۔ 431ہجری میں لاہور پہنچے تو خواجہ حسن زنجانی اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے اور اُن کی نمازِ جنازہ آپؒ نے پڑھائی۔


 

جمعہ، 4 اکتوبر، 2024

یونانی تہذیب میں ابتدائ تھیٹر کا آغاز

 تھیٹر کی تاریخ  جاننے کے لئے ہم کو زمانے کی کچھ  قدیم تاریخ میں جانا پڑے گا -انسان نے    جب اپنے لئے عام زندگی سے ہٹ کر کچھ تفریح طبع   چاہی تب ابتدائی تھیٹر کا آغاز یونانی سرزمین سے  پانچویں صدی عیسوی میں ہوا اور پھر دنیا کے کونے کونے میں اس کھیل نے اپنی شناخت بنالی۔ قیام پاکستان کے وقت    صدر کے علاقے میں رام باغ ہوا کرتا تھا  جو بعد میں آرام باغ ہو گیا  -اسی آرام باغ میں لوگوں نے رات کو اسٹیج ڈرامے پلے کرنا شروع کر دئے -اس  باغ میں تھیٹر سے لطف اندوز ہونے لئے  آس پاس کے شہریوں  کی بڑی تعداد آیا کرتی تھی - ویسے تو تھیٹر ڈرامہ تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ المیہ، طربیہ اور رزمیہ لیکن ہر دور میں تھیٹر کی کئی نئی اقسام اسٹیج پر پیش کی گئیں، جن میں میوزیکل تھیٹر کو بے حد پذیرائی ملی۔پاکستان کے شہرکراچی اور لاہور میں متواتر جب کہ اسلام آباد میں کبھی کبھار تھیٹر سرگرمیاں ہوتی رہی ہیں۔ کراچی میں آرٹس کونسل ناپا بڑے پیمانے پر جبکہ وہیں دوسرے پرائیویٹ ادارے بھی چھوٹے پیمانے پر تھیٹر کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔1982اسی کی دہائی سے 2000ء کے آس پاس تک بہت سے مزاحیہ کھیل اسٹیج ہوئے۔  محترم  جناب  انور مقصود ہمارے وطن کے مایہ ء ناز لکھاری ہیں -جنہوں نے پاکستانی عوام کو   تفریح  طبع کے لئے بہترین  ڈرامے لکھ کر دئے 

جبکہ  بھارت میں 1950ء میں ہی مولانا ابوالکلام آزاد  نے تین تھیٹر اکیڈمیاں قائم کیں۔ ایک ہی عشرے بعد ہندوستان میں یہ تینوں اکیڈمیز نئے ٹیلنٹ کی آبیاری مستقل بنیادوں پر کرنے لگیں۔ ایسے اداروں کے لیے حکومت کی جانب سے فنڈز کی مسلسل ترسیل سے تھیٹر ہر اسٹیٹ میں مفت تفریح کا ذریعہ بنا۔اس کے نتیجے میں انڈین معاشرے میں نا صرف ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا ہوئی بلکہ لوگوں میں تھیٹر کی اہمیت اور افادیت کا تصور بھی بحال ہوا۔ انڈین فلم انڈسٹری کے منجھے ہوئے بیشتر اداکاروں نے شوبز کا آغاز ہی تھیٹر سے کیا۔ہندوستان کے مایہ ناز اداکار شاہرخ خان نے اور ہمارے دنیا کے جانے مانے  معین اختر نے بھی ابتداء تھیٹر سے ہی کی - دنیا میں ہر جگہ فنکار خود کو تھیٹر ایکٹر کہلوانا قابل فخر سمجھتے ہیں۔  اس کے برعکس پاکستان میں جیسے فلم انڈسٹری کا زوال بتدریج دیکھنے میں آیا بلکل اُسی طرح سنجیدہ اور معیاری تھیٹر کی جگہ 'گھٹیا کمرشل تھیٹر‘  نے لے لی۔ پاکستان میں تھیٹر کو کبھی بھی سنجیدگی سے آرٹ کا درجہ نہیں دیا گیا۔یہاں تھیٹر سے مراد سنجیدہ اور بامقصد ڈراموں کی پیشکش ہے ورنہ کراچی اور خاص کر لاہور میں اسٹیج ڈراموں کے نام پر جو کچھ پیش کیا جاتا رہا ہے اسے پھکڑ پن، عامیہ مزاح اور غیر معیاری رقص کے سوا کچھ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔بے شک کراچی میں معین اختر اور عمر شریف نے اسٹیج کے لئے بہت کام کیا۔ یہاں تک کہ اسی کی دہائی سے 2000ء کے آس پاس تک بہت سے مزاحیہ کھیل اسٹیج ہوئے۔


گو کہ کراچی میں پہلے کئی آڈیٹوریم ہوا کرتے تھے جن میں ’ریکس‘ ، ’ریو‘ اور’بحریہ آڈیٹوریم‘ وغیرہ شامل تھے۔ لیکن، اب سب سے زیادہ کامیاب آڈیٹوریمز میں دو نام آرٹس کونسل اور ایف ٹی سی سر فہرست ہیں جبکہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں بھی کچھ اسٹیج ڈرامے پیش ہوتے رہے ہیں۔ یہ کراچی کی واحد انسٹی ٹیوٹ ہے جہاں فنون لطیفہ کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔کراچی کے وسط میں شانزے کے نام سے بھی ایک آڈیٹوریم گزشتہ کئی سال سے کام کر رہا تھا۔ لیکن  اسے جدید ترین سنیما ہال میں تبدیل کردیا گیا ہے جس کا نام ’سنے پلیکس‘ رکھا گیا ہے۔کراچی میں تھیٹر کی زبردست مقبولیت کے ساتھ ساتھ آڈیٹوریم میں کمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آرٹس کونسل کا تھیٹر آڈیٹوریم     کافی'کافی مہینوں تک کے لئے مسلسل بک  رہتا ہے- اس واقت خواتین  تھیٹر رائٹرز میں مدیحہ گوہر کا نام میرے زہن میں  آ رہا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے ڈراما گروپس کو لاہور بلا لیتی اور کبھی ‘ پنج پانی تھیٹرفیسٹیول’، کبھی ‘ ہمسایا تھیٹرفسٹیول ‘، کبھی ‘ زنانی تھیٹرفیسٹیول ‘، کبھی ‘ دوستی تھیٹرفیسٹیول ‘ تو کبھی ‘ امن تھیٹرفیسٹیول ‘ کرتی رہتی تھی۔دونوں ممالک کے فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لئے انہوں  نے ‘ آل پرفارمنگ آرٹس نیٹ ورک ‘ (APAN) کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم تھا۔


   کراچی اور لاہور میں دور  آمریت میں مزاحمتی اور علامتی تھیٹر نے بہت اچھا کام کیا۔ ان میں دستک گروپ ایک اعلی معیار کا حامل تھیٹر گروپ تھا جس کو منصور سعید   اور پی ٹی وی کے پہلے سربراہ اسلم اظہر نے قائم کیا تھا۔دستک نے بریخت ، میکسم گورکی، چیخوف اور ابسن کے ڈراموں  کو اردو میں ترجمہ کر کے جہاں سیاسی شعور بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا وہیں شیما کرمانی کا تھیٹر گروپ " تحریک نسواں " اور مدیحہ گوہر کے ” اجوکا” نے خواتین اور سماجی موضوعات کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا۔آمریت کے اس دور میں سرکاری اداروں میں ایسے سیاسی اور سماجی تھیٹر کرنے  پر پابندی عائدتھیں۔ اس لئے مختلف غیر ملکی کلچرل سینٹر جیسے گوئٹے انسٹیٹیوٹ، برٹش کونسل اور پی اے سی سی ان تھیٹر گروپس  کی جائے پناہ ہوتی تھیں۔1985ء میں پنجاب لوک رہس گروپ نے پنجابی زبان میں تھیٹر کی بنیاد رکھی، جس میں پنجاب کی روایت اور کلچر کے علاوہ زبان کو فروغ دینے کا نصب العین بھی اپنایا۔   اسی دوران سندھ کی سندھیانی تحریک کے پلیٹ فارم سے بھی ایسے تھیٹر ڈراموں نے سندھ کے عوام میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کیا اور خواتین کی تھیٹر کے ذریعے سیاسی  دارے میں  سشمولیت کے مواقع بھی ملے کیونکہ تھیٹر کے زریعہ شعور نے ان کے زہنوں پر دستک دی۔لیکن، ان کی کلاس دوسری تھی جبکہ اب جو اسٹیج ڈرامے پیش ہو رہے ہیں ان کے ’جنم داتا‘ منجھے ہوئے فنکاروں کے ساتھ ساتھ انور مقصود جیسے ماہر’ لکھاری‘ ہیں۔


  ماضی کی بات ہے انور مقصد کا اسٹیج پلے ’آنگن ٹیڑھا‘ کراچی کے آرٹس کونسل میں پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ اسی نام سے پی ٹی وی سے پیش ہو چکا ہے اور اس نے بے انتہا کامیابی اور شہرت حاصل کی تھی۔ یہ ڈرامہ آج بھی پی ٹی وی کے عروج کی زندہ مثال ہے۔کراچی کے ساتھ ساتھ یہ ڈرامہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی اسٹیج ہوا اور خوب شہرت پائی۔ صرف کراچی میں ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک اس کی نمائش جاری رہی۔اس سے پہلے انور مقصد کا ایک اور ڈرامہ ’پونے چودہ اگست‘ اسٹیج کی دنیا پر چھایا رہا۔ اس کے بعد ’دھانی‘ اور اب ’سواچودہ اگست‘ ۔


نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر