Knowledge about different aspects of the world, One of the social norms that were observed was greetings between different nations. It was observed while standing in a queue. An Arab man saw another Arab man who apparently was his friend. They had extended greetings that included kisses on the cheeks and holding their hands for a prolonged period of time. , such warm greetings seem to be rareamong many people, . this social norm signifies the difference in the extent of personal space well.
ہفتہ، 30 دسمبر، 2023
انڈین جوہری سائنسدان -ابو بکر زین العابدین عبد الکلام
جمعرات، 28 دسمبر، 2023
طو فان نوح 'ع' کیسے اور کیونکر آیا
-
ابتدائے دنیا میں ہم کو جن انبیائے کرام کے نام ملتے ہیں ان میں حضرت نوح علیہ السلا م کا بہت خصوصیت سے تذکرہ آتا ہے ۔ آپ علیہ السلام حضرت ادریس علیہ السلام کے پرپوتے تھے چونکہ آپ علیہ السلام اپنی قوم کی بد اعمالیوں پر بہت زیادہ گریہ و زاری کیا کرتے تھے، اس وجہ سے اپ کا لقب نوح (گر یہ و زاری کرنے والا) ہوا ۔ آپ علیہ ا لسلام کی عمرمبارک کے متعلق ارشاد ہوا۔بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس ر ہا(العنکبوت:14)قرآنی تصریح کے مطابق حضرت نوح علیہ ا لسلام کی حیات ظاہری 950 برس تھی، حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت ادریس علیہ ا لسلام کے عہد تک سب لوگ ایک ہی شریعت و دین پر تھے -لیکن پھر حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لینے کے بعد ان کے بیٹے کی بیقراری دیکھ کر شیطان نے آ کر اس کو تشفی دی اور اس سے کہا کہ میں تم کو تمھارے باپ کا ہو بہو مجسمہ بنا دیتا ہوں جس سے تمھارے دل کو قرار آ جائے گا -یوں شیطان نے جونہی مجسمہ تیار کیا ھضرت ادریس علیہ السلام کا بیٹا اس مجسمے -کےقدموں میں ہاتھ جوڑ کر گر پڑا
پھر شیطان نے اس قوم کے ہر گھر میں ایک ایک مجسمہ بشکل بت رکھ دیا حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو اس بت پرستی سے منع فرمایا تو لوگ ان کو طرح طرح سے اذیتیں دینے لگے یہاں تک کہ عذاب کا وقت آن پہنچااس عذاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے۔تو انہوں نے اسے(نوح علیہ السلام کو) جھٹلایاتوہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا بیشک وہ اندھا گروہ تھا۔(الاعراف 64)۔یاد رہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اللہ پاک کے سب سے پہلے دنیا میں بھیجے گئے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کی قوم پر دنیاوی عذاب آیا ۔اب ذیل میں قوم نو ح کی چند ایسی نافرمانیاں ذکر کی جاتی ہیں کہ جس کی وجہ سے یہ لوگ غضب الہی کے سزاوار ہوئے۔
نوح علیہ السلام اپنی قوم کو ترغیب دے کر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کی دعوت دیتے رہے لیکن وہ لوگ آپ علیہ السلام کو ایک لمبے عرصے تک جھٹلاتے رہے تو اللہ پاک نے ان سے بارش روک لی اور چالیس سال تک ان کی عورتوں کو بانجھ کر دیا ان کے اموال ہلاک ہوگئے ان کے جانور مر گئے۔ ۔ قوم نو ح کے غریب اور چھوٹے لوگ ان کے سرکش رئیسوں کی پیروی کرنے لگے جو اپنے مال و دولت کے غرور میں مست ہوکر کفروشرک کی سرکشی میں پڑے رہتے اور ان کے امیروں نے بہت مکروفر یب کئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو جھٹلایا لوگوں کو ایمان قبول کرنے اور حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرنے اور ان کی دعوت سننے سے روکا اور اور حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں کو ناحق سزا ئیں دیں تو ان نافرمانیوں کے سبب اللہ پاک نے ان کی قوم پر عذاب نازل ہونے اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا،
کئی بار یہ ظالم آپ کو اس قدر زدوکوب کرتے کہ آپ کو بے ہوش ہو جاتے تھے پھر وہ ظالم آپ کومردہ خیال کر کے پھینک جاتے اور پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آ کر آپ کو اپنے پروں سے ہوا دیتے تھے جس آ پ کے زخم ٹھیک ہوجاتے اور اگلی صبح آپ پھر پہاڑ پر چڑھ کر تبلیغ شروع کر دیتے -، لیکن ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما، کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے۔اور قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیّت کرکے مرتا تھا کہ نوح علیہ السلام بہت پرانے پاگل ہیں،، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے اس عذاب کے نازل ہونے کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ جب تم تندور میں سے پانی جوش مارتا دیکھو تو سمجھ لینا کہ عذاب کے نزول کا وقت آپہنچا۔
حضرت نوح علیہ السلام کے اہل خانہ سمیت حضرت نوح علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لائے یہ کل 80 /یا -84افراد تھے، صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا تو آسمان سے زبردست بارش برسی اور یہ لگاتار چالیس دن رات برستی رہی، پانی پہاڑوں سے اونچا ہوگیا یہاں تک کہ ہر چیز اس میں ڈوب گئی، حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا کنعان اور ایک بیوی کافرہ تھی یہ بھی اس طوفان میں غرق ہوگئے۔آخرت میں بھی عذاب کا ان سے اللہ رحیم ہمیں قرآن پاک میں غور و فکر کرنے اور اس سے حاصل ہونے والے دروس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کرنے سے سدا محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین
منگل، 26 دسمبر، 2023
ایرانی ایند ھن اسمگلنگ -آخر کیوں ؟
اتوار، 24 دسمبر، 2023
کالے پانی کے قیدی -حصہ اول
خلیج بنگال میں واقع انڈیا کے انڈمان اور نکوبار جزائر 572 جزیروں پرمشتمل ہیں جن میں سے صرف 38 پر آبادی ہے۔ یہ کلکتہ سے 780 میل جنوب میں تقریباً ایک ہزار جزیروں کا مجموعہ جزائر انڈمان نکوبار کہلاتا تھا اور جزیرے فاصلے کے حساب سے انڈیا کی بہ نسبت جنوب مشرقی ایشیا کے زیادہ قریب ہیں۔یہ جزیرے شاندار ساحلوں، سمندری حیات، ساحلی خوبصورتی اور جنگلات کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن دلکش نظاروں کے علاوہ ان کا سیاہ ماضی ہے۔انڈمان و نکوبار بھارت کی مرکزی زیرِ انتظام علاقہ جات ہیں۔ یہ جزیروں پر مشتمل ہے اور خلیج بنگال میں واقع ہے۔ ان کا شمار جنوبی ہند میں کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تامل،ملیالم اور انڈمانی زبانیں بولے جاتے ہیں۔1995ء میں ہوائی جہاز سے لی گئی تصویر جس میں انڈمان کے بیرن جزیرے میں موجود آتش فشاں سے دھواں نکل رہا ہے-جنوبی ایشیا میں صرف انڈمان وہ جگہ ہے جہاں زندہ آتش فشاں پایا جاتا ہے۔ماضی کی بدنام ترین جیل کالا پانی انڈمان میں ہی واقع ہے اور برطانوی استعمار کی یاد تازہ کرتی ہے۔ان جزائر میں ملیریا بہت عام ہے-
جمعرات، 21 دسمبر، 2023
بہاول پور -کل اور آج
کیا کوئ کہ سکتا ہے کہ پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاست بہاول پور آج پاکستان کا دھول اڑاتا بہاول پور ہے -آج دنیا کی جدید سہولتوں سے آراستہ شہروں کے مقابلے میں یہاں کا نوجوان محرومی کا شکار ہے-آئیے ماضی کی اس پر شکوہ ریاست کا احوال جاننے کے لئے اس کے ماضی میں جھانکتے ہیں -ریاست بہاول پور کی بنیاد 1727ء میں نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے رکھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ، اللہ آباد اس کا پہلا دارالحکومت قرار پایا۔ قبلِ ازیں1258ء میں مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔
نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں رجسٹرار، پنجاب یونی ورسٹی، ڈاکٹر وُلز نے بہ طورِ خاص بہاول پور آکر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کی۔ 1935ء میں زلزلہ زدگان کے لیے ایک امدادی ٹرین کوئٹہ روانہ کی اور اسی سال فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً ایک سو افراد کو اپنے ساتھ لے کرگئے۔
سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹرکاریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بہ طور تحفہ دے دیں۔ مسجدِ نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے اور اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا، جس کا شمار اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد میں ہوتا ہے۔ریاست میں ماہرینِ علم وفن، ادبا، شعراء اور علماء کی قدردانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرشیخ عبدالقادر (مدیرِ مخزن) 1942ء سے 1946ء تک بغداد، الجدید ہائی کورٹ، بہاول پورکے چیف جسٹس رہے۔ ابوالاثر حفیظؔ جالندھری بہ طور درباری شاعر، بہاول پور میں طویل عرصے ملازم رہے۔1943ء میں نواب سر صادق کی سرپرستی اور سر عبدالقادر کی صدارت میں صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) میں آل انڈیا مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جس کی تین نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں برصغیر کے طول و عرض سے نام وَر شعرائے کرام نے شرکت کی۔ نواب سر صادق کے مطابق، دبیر الملک الحاج عزیز الرحمٰن عزیزؔ نے پہلی بار سرائیکی کے قادر الکلام صوفی شاعر، حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ’’دیوانِ فرید‘‘ ترجمے اور تشریح کے ساتھ 1942ء میں شایع کیا۔ ریاست کے طول و عرض میں موجود بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کے مزارات کی تعمیر اور مرمّت کی گئی۔ 1950ء میں صادق ایجرٹن کالج میں عالمی سائنس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے سائنس دانوں نے شرکت کی۔ اس موقعے پر ایک سائنسی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔1952ء میں پیرا میڈیکل اسکول، نرسنگ اسکول اور ایل ایس ایم ایف کلاسز کا اجراء کیا گیا۔
اسی سال علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ بہاول پورمیں ترویجِ اسلام کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا، اس حوالے سے اُس وقت کے حکمراں، اسلامی اصول و ضوابط پر سختی سے کاربند تھے،بلکہ شہریوں کو بھی خصوصی مراعات دیتے تھے۔ حج کے موقعے پر حاجیوں کوتین ماہ کی چھٹی مع ایڈوانس تن خواہ دی جاتی۔ بہاول پور حکومت کی طرف سے مکّے اور مدینے میں سرائے موجود تھیں، جہاں بہاول پور کے حجاج کے لیے مفت رہائش اور خوراک کا انتظام ہوتا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تمام مساجد میں حکومت کی طرف سے مرمّت اور سفیدی کروائی جاتی۔ اسی طرح ہندوئوں اور سکھوں کو بھی اپنے مذہبی تہواروں پر مسلمانوں کی طرح مساوی حقوق حاصل تھے۔ دورانِ تعلیم وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواؤں اورنابالغ بچّوں کی کفالت کے لیے پینشن مقرر کی جاتی ۔
بہاول پور اور ڈیرہ نواب صاحب میں قائم یتیم خانے میں مفت رہائش اور خوراک کے علاوہ ذہین طلبہ کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ واضح رہے کہ اردو اور سرائیکی کے معروف شاعر اور ادیب، پروفیسر عطا محمد دلشاد کلانچوی، ٹیکنیکل ہائی اسکول کے سابق پرنسپل، عبدالقادر جوہرؔ اور متعدد مشاہیر نے اسی یتیم خانے میں پرورش پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے خصوصی وزارت قائم کرکے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقے سے آباد کیا گیا-تقسیم برصغیر کے وقت انڈین نیشنل کانگریس اور جواہر لعل نہرو کی طرف سے نواب سرصادق کو خصوصی آفر کی گئی کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان سے کردیں، تو نواب صاحب نے اس موقعے پر یہ تاریخی جملہ کہا کہ’’میرا سامنے کا دروازہ پاکستان اور پچھلا ہندوستان میں کھلتا ہے اور ہر شریف آدمی اپنے سامنے کے دروازے سے آمدروفت پسند کرتا ہے
پیر، 18 دسمبر، 2023
علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’اے ابراہیم! کیا
تم اس مسئلے پر یقین نہیں رکھتے؟‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً عرض کیا:’’میں
بلا توقف اس پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ قادر مطلق ہیں، آپ سب کچھ
کر سکتے ہیں، میرا سوال اس لئے ہے کہ میں علم الیقین کے ساتھ عین الیقین اور حق الیقین
کا خواستگار ہوں۔ میری تمنا ہے کہ ’’اے میرے رب! تو مجھے آنکھوں سے مشاہدہ کرا
دے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’چند پرندے لے لو اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سامنے
والے پہاڑ پر ڈال دو اور پھر فاصلے پر کھڑے ہو کر انہیں پکارو۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو آواز دی تو ان سب کے
اجزاء علیحدہ علیحدہ ہو کر اپنی اپنی شکل میں آ گئے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
کہا:’’اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو کس طرح مردوں کو زندہ کرے گا؟‘‘کہا: ’’کیا
تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘۔ کہا:’’کیوں نہیں لیکن دلی اطمینان چاہتا ہوں۔‘‘کہا: ’’پس
چار پرندے لے پھر ان کو اپنے ساتھ مانوس کر پھر رکھ دے ہر ہر پہاڑوں پر ان کے جز
ڈال کر۔ پھر ان کو بلا، وہ آئیں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور تو یہ جان لے۔ بے شک
اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔‘‘
(سورۃ بقرہ۔ ۲۶۰)اللہ تعالیٰ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عرض کرنا کہ ایمان تو ہے لیکن دلی اطمینان کے لئے یہ سوال کرتا ہوں، کا مفہوم یہ ہے کہ دل کے اطمینان کیلئے یقین(مشاہدہ) ضروری ہے۔اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے، کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-جب ایمان دل میں داخل ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے-
اسلام جسموں پر آتا ہے جبکہ ایمان دلوں میں داخل ہوتا ہے۔ جسم جب اطاعت گزار ہوجائیں، سر جب اللہ کے حضور جھک جائے، بندہ اللہ کے دروازے پر جب ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجائے، ماہ رمضان میں اللہ کے لئے روزہ داربن جائے، حج کے مہینے میں اللہ کے گھر میں لبیک اللھم لبیک کی آوازیں بلند کرتا ہوا چلا جائے، زکوۃ و صدقات دینا شروع ہوجائے۔ نیز احکامات دین پر عمل پیرا ہونا شروع ہوجائے تو یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ دین اس کے جسم سے ظاہر ہورہا ہے۔ پس جب ظاہر اللہ کے حضور جھک گیا تو مسلم ہوگیا اور جب قلب و باطن اللہ کے حضور جھک گئے تو مومن ہوگیا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ سر تو اللہ کی بارگاہ میں جھکا رہتا ہے مگر دل نہیں جھکتا۔ ۔ ۔ اگر دل جھک جائے تو ساری کایا ہی پلٹ جائے۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو ساری زندگی کے طور طریقے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو سوچ کے انداز بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو انسانی زندگی کے تمام اعمال اور رویے بدل جائیں۔ ۔ ۔ دل جھک جائے تو اخلاق بدل جائے۔ ۔ ۔ وہ انسان ایک نیا انسان بن جائے گا۔ لیکن جب صرف ظاہر جھکتا ہے اور دل نہیں جھکتا تو پھر مومن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے ارشاد فرمایا کہ مومن ہونے کا دعویٰ اس وقت کرنا جب ایمان داخلِ قلب ہوجائے، جب ایمان تمہارے دل کی حالت بن جائے تب مومن ہونے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دل کی تصدیق کرنا بھی کہتے ہیں-۔‘‘
(سورۃ الحجرات۔ اعلیٰ اور اسفل حواس یعنی زندگی کے تمام اعمال کا ریکارڈ ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ازل تا ابد پورا کائناتی نظام اللہ بنائی ہوئی فلم ہے، ازل میں موجود یہ ریکارڈ(Film) ہے جو عالم ارواح، عالم برزخ اور عالم ناسوت میں مظاہر بن رہا ہے، ہر عالم ایک اسکرین کی طرح ہے۔ اسکرین پر فلم کا مظاہرہ ہوتا ہے تو دنیا کی ہما ہمی اور گہما گہمی ہمیں نظر آتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پرندوں کے ساتھ شکست و ریخت کا جو عمل کیا اس سے پرندوں کا جسمانی نظام بکھر گیا لیکن پرندوں کی زندگی کا اول و آخر ریکارڈ موجود رہا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے پرندوں کے الگ الگ اعضاء کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ریکارڈ شدہ نظام بحال ہو گیا اور پرندے زندہ ہو گئے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا تکوینی قانون بھی یہی ہے کہ اللہ کے حکم سے درہم برہم سسٹم ’’ریکارڈ‘‘ کے مطابق بحال ہو جائے گا۔ یہ جو کچھ ہم نے عالم ناسوت میں کیا ہے وہ سب ریکارڈ ہے جب اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ ریکارڈ (فلم) دوبارہ ڈسپلے ہو جائے گا تو ہاتھ ، پیر، آنکھ خود گواہی دیں گے کہ ہم نے اچھے یا برے اعمال کئے ہیں۔اور انکسار کی
اتوار، 17 دسمبر، 2023
امام محمد تقی علیہ السلام
جناب رسول خدا حضرت محمد صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم سے منقول ہے کہ جو شخص آخر شب میں اکتالیس مرتبہ سورہ الحمد کی تلاوت کرے گا محمد بن علی بن موسی (195–220 ھ) امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 195 ہجری میں مدینہ میں ہوئی۔ لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف ہے۔ زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔ بعض نے 15 رمضان و بعض نے 19 رمضان نقل کی ہے۔ شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت 10 رجب ذکر کی ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت سے پہلے بعض واقفیہ کہتے تھے کہ علی بن موسی کی نسل باقی نہیں رہے گی اور ان کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ امامت منقطع ہو جائے گا۔ یہی سبب ہے جس وقت امام محمد تقی کی ولادت ہوئی امام رضا نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔
نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے
میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر
`شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...
حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر
-
میرا تعارف نحمدہ ونصلّٰی علٰی رسولہ الکریم ،واٰ لہ الطّیبین الطاہرین جائے پیدائش ،جنوبی ہندوستان عمر عزیز پاکستان جتنی پاکستان کی ...
-
نام تو اس کا لینارڈ تھا لیکن اسلام قبول کر لینے کے بعد فاروق احمد لینارڈ انگلستانی ہو گیا-یہ سچی کہانی ایک ایسے انگریز بچّے لی...
-
مارچ 2025/24ء پاکستان افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر ایک بار پھر اس وقت آگے بڑھنے پر جب پچاس سے زیادہ افغان بچوں کو غیر قانونی طور پ...