منگل، 26 دسمبر، 2023

ایرانی ایند ھن اسمگلنگ -آخر کیوں ؟

 


، اسمگل شدہ تیل کی حکام کی ملی بھگت سے سندھ اور پنجاب تک ترسیل کی جارہی ہے، ایرانی تیل سے لدی گاڑیوں اور مسافر بسوں کے باعث آئے روز حادثات بھی پیش آتے   ہیں -یہاں پانی، بجلی سڑک نہیں ہے لیکن سمگل شدہ ایرانی تیل کی فراوانی ہے اور یہ ہی  ہمارا کاروبار ہے۔‘پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں اسمگل شدہ تیل کا کاروبار دہائیوں سے جاری ہے اوربراستہ بلوچستان بارڈر ایرانی پیڑول اور ڈیزل کی اسمگلنگ عروج پر ہےپاکستان کی حکومت نے ماضی میں متعدد بار ملک میں تیل کی سمگلنگ روکنے  اور فروخت پر پابندی لگانے کے وعدے اور دعوے کیے ہیں لیکن آج تک اس کاروبار کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔  بلوچستان کے ضلع واشک کی ایک چھوٹی تحصیل مشخیل (جسے مقامی طور پر ماشکیل کہا جاتا ہے) کے ایک رہائشی کہتے  ہیں کہ ہمارا  خاندان گذشتہ چار پشتوں سے سمگل شدہ ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک ہے۔ہم اس بیابان میں جہاں نا سڑکیں ہیں  نا روشنی ہے نا گیس ہے اور پچاس ہزار آبادی یہ اپنا روزگار کہاں سے حاصل کریں -حکومت اس ریگستانی علاقہ میں ہم کو تمام سہولتیں فراہم کر سکتی تو سو بسم اللہ پابندی لگائے ورنہ ہم کو پریشان نہیں کرے- ۔ 

انہوں نے کہا کہ جب بھی حکومت ڈیزل پر ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کرتی ہے تو پرائس ڈیلٹا اسمگلنگ کو فروغ دیتا ہے۔
اندرون بلوچستان دو سو روپے اور کوئٹہ میں دو سو بیس روپے میں اسمگل شدہ پیٹرول سرعام فروخت ہورہا ہے۔مسافر بسوں میں پیڑول اور ڈیزل کی ترسیل کے باعث کئی حادثات بھی قومی شاہراہوں پر پیش آچکے ہیں۔کوئٹہ میں صنعتیں نہ ہونے کے باعث بے روزگاری عام ہے، اس لئے ہر سڑک پر ایرانی پیٹرول فروخت ہورہا ہے۔ایران سے تیل پاکستان کس طرح اسمگل کیا جاتا ہےپنجگور اور دیگر سرحدی علاقوں سے سوراب، بیلہ میں قائم بڑے نجی ڈپو ایرانی تیل کے بڑے مراکز ہیں، جہاں سے مسافر بسوں اور گاڑیوں کی خفیہ ٹنکیوں میں بھر کر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل ملک بھر میں اسمگل کیا جارہا ہے۔ایک گمنام ڈیٹا ماہر نے حال ہی میں اس مسئلے پر ایک بہت ہی قابل اعتماد ٹویٹر تھریڈ لکھا۔انہوں نے اس تھریڈ میں کہا کہ، ”ڈیزل کی اسمگلنگ قانونی کاروباری سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے، ٹیکسوں سے بچنے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان بلوچستان میں منظم جرائم کو ہوا دینے اور سرحدی کنٹرول کے مؤثر اقدامات کے فقدان کے باعث جاری ہے۔“اسمگلروں کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے دشت کے راستے جیوانی کا سمندری راستہ ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے ڈیز ل  کنستروں یا ڈرموں میں بھر کر اسپیڈ بوٹس کے زریعے لایا جاتا ہے اور روزانہ لاکھوں روپے مالیت کا ڈیزل، پیٹرول، اسلحہ اور منشیات سے بھری ہزاروں کشتیاں تقریباً پورے پاکستان کیلئے مال سپلائی کرتی ہیں۔

طویل ساحل پر کین سے ایندھن کو زیر زمین ٹینکوں میں ڈمپ کیا جاتا ہے، جہسں سے بعد میں اسے ٹویوٹا پک اپ اور کارگو ٹرکوں میں بھر دیا جاتا ہے۔ ان ٹرکوں کے اندر بھی خفیہ ٹینک موجود ہوتے ہیں اور انہیں مختلف سامان سے چھپایا جاتا ہے۔ان کے بقول رپورٹ میں ان طاقت ورعناصر کا تذکرہ نہیں کیا گیا، جن کے بغیر اس طرح کا کام ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے چند افراد کا تو یہ تک کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے جسے اسمگلنگ کہا جا رہا ہے، وہ اسمگلنگ کے زمرے میں ہی نہیں آتی۔واضح رہے کہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں ایک ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہے۔پاک ایران سرحد پر تربت کے علاقے میں قائم پاکستانی چیک پوسٹ تصویر: Abdul Ghani Kakar/DWاس رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں تقریباﹰ نو سو پچانوے پیٹرول پمپس بھی ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور یہ کہ اس غیرقانونی تجارت کی وجہ سے ملکی خزانے کو 60 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔اسمگلنگ پر حساس ادارے نے رپورٹ وزیراعظم ہاؤس میں جمع کروا دی ہے،

 بلوچستان میں 104 اور آزاد کشمیر میں 37 ڈیلر حوالہ ہنڈی میں ملوث ہیں، وفاقی دالحکومت میں 17 ڈیلر حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرتے ہیں۔ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث افسران، سیاستدان اور ڈیلروں کی تفصیلات بھی وزیراعظم ہاؤس کو فراہم کر دی گئی ہیں۔سویلین انٹیلیجنس ایجنسی کی رپورٹ میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ کے لیے زمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس غیر قانونی دھندے سے قومی خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔وزیراعظم ہاؤس میں جمع کرائی جانے والی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے انتیس سیاستدان اور نوے کے قریب سرکاری افسران ایران سے پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ تاہم کئی سیاستدان اور ریٹائرڈ سرکاری افسران اس رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق نہیں کرتے۔ان کے بقول رپورٹ میں ان طاقت ورعناصر کا تذکرہ نہیں کیا گیا، جن کے بغیر اس طرح کا کام ممکن نہیں ہے۔اسمگلنگ میں طاقت ور عناصر ملوث-سوشل میڈیا پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سخت ناقد اور سیاسی مبصر میجر ریٹائرڈ عادل راجہ کا کہنا ہے کہ پٹرول کی اسمگلنگ کے اس دھندے میں ریاست کے بااثرعناصر شامل ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طاقتور حلقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اربوں روپیہ اس اسمگلنگ سے بنا رہے ہیں اور اس سے ان کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ‘‘ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90 سرکاری حکام اور 29 سیاست دان ملوث ہیں، حساس ادارے کی رپورٹ -بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایرانی اشیا کی اسمگلنگ پاکستان کے بارڈ رگارڈز کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں آپ کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟‘

: Instagram.com/mototouristایرانی ڈیزل قانونی ہے؟جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ '' ایران کے ساتھ سرحدی تجارت کئی عشروں سے چل رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت کے دوران آئی جی ایف سی نے اس نظام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن کا کہا۔ اب تک 50 ہزار سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں روزانہ 600 گاڑیوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ ایران سے تیل لے کر آئیں جس کے لیے باقاعدہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ان کو ٹوکن جاری کیا جاتا ہے۔ 15اس ڈیزل کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں۔ تو یہ کیسے قانونی ہو سکتا ہے؟‘‘پاکستان تحریک انصاف کے دور میں وزیر پیڑولیم  رہنے والے ندیم بابر نے ڈی ڈبلیو کو ایک مختصر سے جواب میں بتایا، '' اگر اس طرح سے کوئی تیل آ رہا ہے تو اس کی وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘ٹیکس امور کے ماہر اور ایف بی آر کے سابق افسر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سرحدی علاقوں میں تجارت ہوتی ہے اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں حکام غیر ضروری طور پر ڈالر کی کمی کو اس نام نہاد اسمگلنگ سے جوڑ رہے ہیں - کیا اسمگلنگ روکی جا سکتی ہے؟عادل راجہ کا کہنا ہے کہ اگر اس کو روکا گیا تو اس سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پہ بے روزگاری پھیلے گی اور وہاں پر انتشاری کیفیت میں مزید اضافہ ہوگا۔تربت  کے علاوہ  اسمگلنگ پنجگور، کیچ اور گوادر میں بھی ہوتی ہے۔ بلیدی نے کہا، ''ہمارے صوبے میں پہلے ہی بے روزگاری بہت ہے۔ لہذا سرحدی تجارت کو ریگولیٹ کیا جا ئے ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90 سرکاری حکام اور 29 سیاست دان ملوث ہیں، حساس ادارے کی رپورٹ  کہ رہی  ہے  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر